یہ کہانی ایک سال پرانی ہے۔ ہم لوگ ملتان میں رہتے ہیں اور ہمارے محلے کے سب لوگ بہت اچھے ہیں، سب کو ہم بچپن سے جانتے ہیں۔ لیکن ایک سال پہلے ہمارے محلے میں ایک نئی فیملی رہنے آئی تھی، جس میں ایک لڑکا، اس کی بہن، اس کی ماں، اور اس کے دو چھوٹے بیٹے تھے، اور اس کہانی کا اصل کردار اس کی بیوی (صائمہ) بھی تھی۔
جب میں نے صائمہ کو دیکھا، تو مجھے لگا کہ اس جیسی لڑکی پورے محلے میں نہیں ہے۔ اگر اس سے میری دوستی ہو جائے تو میرے مزے ہیں۔ پہلے دن سے ہی مجھے صائمہ پسند آ گئی تھی۔ اس کے دو چھوٹے بیٹے بھی تھے، لیکن میرا دل پھر بھی اس پر آ گیا۔ شروع میں وہ سب محلے والوں کے گھر آتی تھی اور باتیں کرتی تھی۔ میں جب کبھی باہر سے گھر آتا تو وہ ہمارے گھر ہوتی اور میری ماں اور بہن سے باتیں کر رہی ہوتی، لیکن جب بھی میں آتا وہ دوپٹہ سر پر اوڑھ لیتی۔ میں بھی گھر والوں کے سامنے اس کو نظر انداز کرتا اور دوسرے کمرے میں چلا جاتا۔ لیکن دل ہی دل میں میں اس کو دیکھنا چاہتا تھا اور اس سے باتیں کرنا چاہتا تھا، اس لیے میں کوشش کرتا کہ باہر چلا جاؤں تاکہ جب وہ اپنے گھر جانے کے لیے نکلے تو میں اس کو دیکھ سکوں۔ وہ باہر نکلتی اور میں پیچھے سے اس کو دیکھتا، لیکن اس نے کبھی بھی مجھے نہیں دیکھا اور مجھے نظر انداز کرتی تھی، بلکہ محلے میں کسی کو بھی نہیں دیکھتی تھی۔ محلے کے باقی لڑکے بھی اس کے پیچھے تھے، وہ بھی کوشش کر رہے تھے کہ کسی طرح اس حسین لڑکی سے دوستی ہو جائے، لیکن وہ کسی کو نہ دیکھتی اور نہ ہی بات کرتی تھی۔
دیکھتے ہی دیکھتے وقت گزرتا گیا، اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے نخرے بھی کم ہوتے گئے۔ اب جب میں گھر آتا اور اگر وہ بیٹھی ہوتی تو وہ دوپٹہ نہیں لیتی تھی، جیسے بیٹھ کر باتیں کر رہی ہوتی تھی ویسے ہی بیٹھی رہتی تھی۔ لیکن میں پہلے کی طرح دوسرے کمرے میں چلا جاتا تھا اور اس کے نکلنے سے پہلے باہر گلی میں جا کر کھڑا ہو جاتا تھا تاکہ وہ نکلے اور مجھے اس کو دیکھنے کا موقع ملے۔ ایک سال کا وقت گزرنے کے بعد اس میں کافی تبدیلی آئی۔ وہ اب مجھے دیکھتی تھی لیکن بات نہیں کرتی تھی اور چپ کر کے اپنے گھر چلی جاتی تھی۔ جب وہ مجھے دیکھتی، میں اس کو دیکھ کر مسکراتا تھا، لیکن وہ مسکراتی بھی نہیں تھی اور کچھ بولتی بھی نہیں تھی۔ لیکن ایک اور تبدیلی بھی آئی تھی، جس سے مجھے بہت خوشی ملتی تھی، اور وہ تبدیلی اس میں یہ آئی تھی کہ گلی مڑنے کے وقت وہ پیچھے مڑ کر مجھے دیکھتی تھی اور پھر چلی جاتی تھی۔ میرے لیے یہ بہت ہی خوشی کی بات تھی کہ جو لڑکی پہلے مجھے دیکھتی بھی نہیں تھی اور مجھ سے پردہ کر لیتی تھی، اب وہی لڑکی مجھ سے پردہ بھی نہیں کرتی اور مجھے دیکھتی بھی ہے۔
اس کے بعد مجھے لگا کہ شاید اگر میں تھوڑی محنت کروں تو اس سے دوستی ہو سکتی ہے۔ بس مجھے تھوڑی ہمت پیدا کرنا ہوگی اور اس سے اس کا نمبر مانگنا ہوگا۔ دو دن سوچنے کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ میں اس کا نمبر مانگوں گا نہیں، لیکن اسے اپنا نمبر دے دوں گا۔ اگر اس نے لے لیا تو پھر سمجھو کہ دوستی پکی، اور اگر اس نے نہ لیا تو پھر میں تو مر جاؤں گا، کیونکہ مجھے اس سے ہر حال میں دوستی کرنی تھی۔ مطلب، مجھے اس کے ساتھ سب کچھ کرنا تھا جو میں نے پہلے دو دفعہ کیا تھا دوسری لڑکیوں کے ساتھ۔ لیکن پہلا قدم یہ تھا کہ کسی طرح اس سے دوستی ہو جائے، کیونکہ اگر آپ کسی لڑکی کو دوست بنا لیتے ہو تو پھر آپ اس سے باتیں کر کے اس کے دل کا حال بھی جان لیتے ہو اور یہ بھی جان سکتے ہو کہ وہ آپ کو کیا سمجھتی ہے اور کس حد تک آپ کی دوست ہے۔ جن لڑکوں کو لڑکیوں کو پھنسانے کا تجربہ ہے، وہ سمجھ سکتے ہیں کہ اگر کسی بھی لڑکی کو چودنا ہے تو پہلے اس سے نمبر تبادلہ کرو، پھر باتیں شروع کرو اور اس کے بعد آپ کی محنت سے وہ لڑکی آپ کے بستر تک آ سکتی ہے۔ میں بھی اسی کوشش میں لگا تھا کہ کسی طرح وہ نمبر لے لے اور مجھ سے فون پر باتیں شروع کر دے۔
اور آخر کار وہ خوش قسمتی کا دن آ ہی گیا جس کا مجھے ایک سال سے انتظار تھا۔ میں گھر میں ہی بیٹھا تھا جب وہ ہمارے گھر آئی، اور میں نے جیسے ہی اس کو دیکھا اسی وقت اس کی نظر مجھ پر پڑی اور ہم دونوں کی نظریں مل گئیں۔ میں نے دیکھ کر مسکرا دیا اور وہ کمرے میں بیٹھی، اور اس دن وہ سالن لے کر آئی تھی اور اس نے بولا کہ آپ کے گھر جو پکا ہے آپ وہ دے دو اور یہ سالن لے لو۔ میں سمجھ گیا کہ یہ زیادہ دیر بیٹھنے کے ارادے سے نہیں آئی۔ میں جلدی سے دوسرے کمرے میں گیا اور قلم نکال کر نمبر کاغذ پر لکھا اور چپ کر کے دروازے کے پاس چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ دروازے پر آئی تو میں نے پرچی نکالی اور اس کے ہاتھ میں دینے لگا۔ وہ رکی اور کچھ نہ بولی، پھر میں بولا کہ میرا نمبر ہے تو اس نے مجھے دیکھا اور نمبر لیا اور پھر چلی گئی۔ میں بھی باہر نکلا اور اسے دیکھا۔ مجھے اس بات کی خوشی تھی کہ اس نے نمبر لے لیا، لیکن جیسے ہی وہ گلی سے مڑی میری خوشی غم میں بدل گئی، کیونکہ اس نے مڑ کر مجھے نہیں دیکھا۔ میں سمجھا کہ شاید وہ غصہ کر گئی ہے اور اسی لیے مڑ کر نہیں دیکھا۔ میں پریشان ہو گیا اور گھر جا کر موبائل استعمال کرنے لگا۔ میں انتظار میں تھا کہ اس کا میسج یا کال آئے گی، لیکن ایسا کچھ نہ ہوا اور ایک دن گزر گیا۔ میں ہر وقت موبائل ہاتھ میں رکھتا اور چیک کرتا کہ کہیں اس کا میسج آیا ہے یا کال۔ لیکن مجھے مایوسی ہوتی، کیونکہ نہ ہی اس کا کوئی میسج آیا اور نہ ہی کال آئی۔ ایسے ہی دیکھتے دیکھتے دو دن گزر گئے۔ دو دن وہ ہمارے گھر بھی نہیں آئی۔ اس کے بعد میں سمجھ گیا کہ اس وقت اس نے مجبوری میں نمبر والی پرچی لی ہوگی، ورنہ اب تک وہ رابطہ ضرور کرتی۔ میرا دماغ مجھے یہی کہتا کہ اب اس سے کوئی رابطہ نہیں ہوگا، لیکن دل کہتا کہ وہ رابطہ ضرور کرے گی۔
دو دن بعد رات کے وقت میرے موبائل پر ایک نامعلوم نمبر سے کال آئی تو میں نے کال اٹھائی اور "ہیلو" کہا، لیکن دوسری طرف سے کوئی جواب نہیں آیا۔ میں نے دوبارہ "ہیلو" کہا اور بولا کہ "جی کون؟" تو پھر اس کی میٹھی آواز جیسے ہی میرے کان میں پڑی، میں تو وہیں کا وہیں خوشی میں پاگل ہو گیا۔ اس نے بولا کہ "مرضی ہے، خود نمبر دیا تھا اور اب پوچھتے ہو کہ کون۔" میں بولا، "سوری، آپ کی آواز نہیں آ رہی تھی تو میں سمجھا نہیں۔" اس کے بعد سلام دعا کی اور حال وغیرہ پوچھا اور پھر اس نے بولا کہ "میرے شوہر نوکری پر تھے، دو دن گھر نہیں آئے اور میرے پاس پیسے بھی نہیں تھے بیلنس ڈلوانے کے، اس وجہ سے پہلے کال نہیں کی۔" میں بھی اس کو بولا کہ "کوئی بات نہیں، ہو جاتا ہے۔ اگلی بار جب بھی آپ کا بیلنس ختم ہو تو آپ مجھے مس کال دینا، میں آپ کو بیلنس ڈلوا دوں گا۔" اس نے کہا کہ "میں آپ کو تکلیف نہیں دینا چاہتی۔" تو میں نے کہا کہ "اس میں تکلیف والی کیا بات ہے، اور ویسے بھی آخر ہم دوست ہیں تو دوست تو دوست کی مدد کرتے ہیں نا۔ اور دوست کی مدد کرنے میں مسئلہ نہیں ہوتا۔" مجھے معلوم تھا کہ وہ مجھے زیادہ انکار نہیں کرے گی، کیونکہ میں سمجھ گیا تھا کہ اس کے دماغ میں کیا چل رہا ہے۔ اس نے بتایا کہ اس کے شوہر کی رات کی ڈیوٹی ہوتی ہے، وہ صبح گھر آتے ہیں اور پھر آ کر سو جاتے ہیں، لیکن صبح کے وقت میری ساس گھر پر ہوتی ہے، اس وجہ سے میں موبائل استعمال نہیں کر سکتی۔ اسی لیے میں رات کو ہی بات کر پاؤں گی۔ میں نے کہا، "جی، ٹھیک ہے، کوئی بات نہیں۔" اس کے بعد اس نے کال کاٹ دی۔
پہلے تو میں بہت خوش تھا کہ اس کی کال آئی اور اس سے باتیں ہوئیں اور اب تو وہ دوست بھی بن گئی، لیکن ایک بات تھی جو میں اس وقت سمجھنے میں ناکام ہوا۔ میں نے رات کو فلم دیکھی اور اس کو دیکھنے کے بعد جب میں فارغ ہوا تو پھر میرے ذہن میں صائمہ کی باتیں آنے لگیں جو اس نے بولی تھیں کہ اس کا بیلنس نہیں تھا اور اس وجہ سے اس نے بات نہیں کی۔ تب میرے ذہن میں ایک بات آئی کہ چلو یہ بات تو میں مان لیتا ہوں کہ اس کا بیلنس نہیں تھا، اس وجہ سے دو دن بات نہیں ہوئی۔ لیکن وہ ہمارے گھر تو آ سکتی تھی اور اس سے مجھے سکون ملتا کہ کوئی مسئلے والی بات نہیں ہے۔ بہت سوچنے کے بعد میرے ذہن نے یہی نتیجہ نکالا کہ وہ مجھے تڑپانا چاہتی تھی، اپنے پیچھے پاگل کرنا چاہتی تھی، اسی لیے مجھ سے دو دن بات نہیں کی تاکہ یہ میرے پیچھے پاگل ہو اور اس کے بعد میں اس کو جو بھی بولتا جاؤں یہ کرتا جائے۔
اس کے بعد میں نے سوچا کہ مجھے یہ بات تصدیق کرنی ہوگی کہ اس کے ذہن میں کیا چل رہا ہے اور وہ مجھے استعمال کرنا چاہتی ہے یا سچی دوستی رکھنا چاہتی ہے۔ دو، تین دن روزانہ ہماری باتیں ہونے لگیں اور ایسے ہی یہ ہفتہ بھی گزر گیا۔ پہلے ایک دو دن کال پر باتیں ہونے لگیں، اس کے بعد میسجز پر چیٹ ہونے لگی۔ ایک ہفتے کی چیٹنگ کے بعد مجھے اندازہ ہو گیا کہ یہ لڑکی بالکل ویسی نہیں ہے جیسی یہ نظر آتی ہے اور ایک ہفتے کے بعد میں سمجھ گیا کہ یہ لڑکی جان بوجھ کر نخرے دکھاتی ہے تاکہ میں اس کے پیچھے پاگل ہو جاؤں۔ اور دوسری اہم بات جو میں نے سمجھی وہ یہ تھی کہ یہ چاہتی ہے کہ اس پر میں خرچہ کروں اور مجھے اندازہ ہوا کہ اگر یہ پیسوں کے پیچھے ہے تو پھر یہ ضرور وہ کام کرے گی جو میں چاہتا ہوں، کیونکہ جو لڑکی پیسے کھانا چاہتی ہے اس کو ایک بات ضرور معلوم ہوتی ہے کہ لڑکے تب ہی پیسے دیں گے جب ہم ان سے چُدوائیں گی، یا پھر وہ پیسے اس وجہ سے خرچ کریں گے کہ کل کو ہم اس کو چود سکیں۔
اس کے بعد میں کوشش کرتا کہ اس سے زیادہ تر تحائف کی باتیں کروں اور کہیں جا کر کھانے پینے کی باتیں کروں، اور اس کے بعد میرا شک یقین میں بدل گیا جب وہ آسانی سے مان گئی کہ وہ میرے ساتھ بازار چلے گی اور وہاں ہم کچھ کھا پی لیں گے اور کچھ خریداری بھی کر لیں گے۔ میں سمجھ گیا کہ اب اس پر پیسے خرچنے کا وقت آ گیا ہے اور جلد ہی یہ مجھ سے چُدوائے بھی لے گی۔ ہم نے اگلے ہفتے جانے کا منصوبہ بنایا اور وہ اپنے گھر سے آٹو پر بیٹھ کر بازار چلی گئی اور میں بائیک پر پہلے سے طے شدہ جگہ پر چلا گیا۔ اس کے بعد ہم ایک ریفریشمنٹ کی دکان میں گئے، وہاں ہم نے آم کا شیک پیا اور ساتھ ہی دہی بھلے بھی کھائے۔ اس کے بعد اس نے کہا کہ "مجھے تھوڑی سی خریداری کرنی ہے، اگر تم برا نہ مانو تو میرے ساتھ چل لو۔" پھر میں اس کے ساتھ ساتھ چلتا رہا اور وہ خریداری کرنے لگی، اور منظر یہ بنا کہ اسے ایک لباس پسند آیا لیکن اس کے پاس 500 روپے بچے تھے اور وہ لباس 2500 روپے کا تھا۔ تب میں سمجھ گیا کہ جس کام کے لیے یہ مجھے لائی ہے اس کا وقت آ گیا ہے۔ میں نے بٹوے میں سے دو ہزار روپے نکالے اور اسے دیے۔ پہلے اس نے کہا کہ "نہیں، چھوڑو، بس اگلی بار یہ لباس لے لوں گی۔" پھر میں نے کہا کہ "ارے، کوئی بات نہیں، یہ میری طرف سے تمہارے لیے تحفہ ہے۔" تو پھر اس نے لباس لیا اور پھر ہم واپس آ گئے۔
میں گھر آیا تو مجھے معلوم ہوا کہ گھر والے کہیں جانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ میں نے جب پوچھا تو پتا چلا کہ بڑے ماموں کا ایک حادثہ ہوا ہے اور وہ ہسپتال میں داخل ہیں، اس وجہ سے ہمیں جانا ہوگا۔ میں یہ سن کر پریشان ہوا، لیکن تھوڑی دیر بعد میرے ذہن میں ایک شیطانی خیال آیا۔ میں بولا کہ "گھر میں کون ہوگا؟" کیونکہ ہم لوگ تو دوسرے شہر جا رہے ہیں ماموں کے پاس اور ابو بھی گھر پر نہیں ہیں، تو پھر گھر کا خیال کون رکھے گا؟ تو امی بولی کہ "تم ایسا کرو کہ رک جانا اور کھانے پینے کے لیے میں پیسے دے دوں گی، تم باہر سے کھانا کھا لینا۔" میں بولا کہ "چلیں، ٹھیک ہے۔" اس کے بعد میں گھر والوں کی مدد کرنے لگا سامان پیک کرنے میں اور ان کو بس اسٹینڈ تک چھوڑ آیا۔ اس کے بعد میں رات کا انتظار کرنے لگا کہ رات کو صائمہ سے بات کروں گا اور اسے مناؤں گا کہ کل میرے گھر آئے اور پھر اسے چود دوں گا۔ میں اب سوچنے لگا کہ اسے کس طرح منایا جائے کہ وہ میرے گھر آئے، پھر میرے دماغ میں خیال آیا کہ اسے بولوں گا کہ میرا گھر خالی ہوگا اور دوپہر کو کھانے کے وقت وہ میرے گھر آ جائے تاکہ ہم اکٹھے کھانا کھا لیں۔
اس کے بعد رات کو میری صائمہ سے بات ہوئی اور میں نے اسے بتایا کہ گھر والے ماموں کے گھر گئے ہیں اور کچھ دنوں تک واپس آئیں گے، اور اسے بولا کہ کل وہ میرے گھر آ جائے۔ میں نے ابھی اسے کچھ اور نہیں بولا تھا اور وہ بولی کہ "ٹھیک ہے، میں آ جاؤں گی۔" میں حیران تھا کہ ایک ہی دفعہ کہنے پر وہ مان گئی اور اس نے کوئی بہانہ بھی نہیں بنایا۔ اس کے بعد اگلے دن میں اس کا انتظار کرنے لگا اور میں نے سوچا ہوا تھا کہ اسے چود کر ہی رہوں گا، چاہے وہ مانے یا نہ مانے۔ دیکھتے ہی دیکھتے وقت گزر گیا لیکن وہ نہیں آئی۔ میں نے اس کے نمبر پر کال کی تو اس کا نمبر بند تھا۔ میں بہت پریشان تھا کہ کیا مسئلہ ہے۔ شام کا وقت ہو گیا لیکن اس سے کوئی رابطہ نہیں ہو سکا۔ اس کے بعد رات کو میں نے دوبارہ کوشش کی کہ کسی طرح اس سے بات ہو جائے اور اس کا نمبر مل گیا اور تھوڑی دیر بعد اس نے کال اٹھائی اور اٹھاتے ہی معافی مانگنے لگی اور بولی کہ "میرے شوہر کو آج شام کو ہنگامی کام سے نکلنا پڑا اور وہ دو دن بعد آئیں گے، تو ان کے کام کر رہی تھی، اس وجہ سے آ نہیں سکی۔" اور اس نے بولا کہ کل وہ ضرور آئے گی۔ اس کے بعد میں تھوڑا سکون میں آیا کہ چلو کل ہی مل لوں گا اور اب تو اس کو اچھی طرح سے چودوں گا۔
اگلے دن میں تیار ہو کر بیٹھ گیا اور اس کا انتظار کرنے لگا اور تھوڑی دیر بعد وہ آئی اور مجھ سے مل کر بیٹھ گئی۔ میں نے ادھر ادھر کی باتیں کیں اور اس کے پاس ہو کر بیٹھ گیا۔ وہ آرام اور سکون سے بیٹھی رہی اور خوشی خوشی بات کرنے لگی۔ پھر میں اس کے قریب ہوا اور اسے بوسہ دینے کی کوشش کی، اور مجھے یقین نہیں ہوا کہ اس نے کوئی بھی حرکت نہیں کی اور نہ ہی مجھے روکنے کے لیے کچھ بولی، بلکہ آنکھیں بند کر کے بوسہ لینے لگی اور میں بہت خوش ہوا کہ اس نے بوسہ لینے سے نہیں روکا۔ اب اس کو مزے سے چودوں گا۔ اس کے بعد میں نے اس کو بہت زبردست بوسہ دیا اور ساتھ میں اس کے سینے کو کپڑوں کے اوپر سے دبانے لگا، اور اس نے کچھ بھی نہیں کہا اور وہ بوسہ لیتی رہی۔ پھر میں اٹھا اور اس کو بولا کہ "کپڑے اتارو۔" تو اس نے کہا کہ "میں نہیں اتاروں گی، تمہیں کچھ کرنا ہے تو خود اتار لو۔" پھر میں نے اسے کھڑا کیا اور پھر اس کے کپڑے اتارنا شروع کیے، اور میں پاگلوں کی طرح اس کے کپڑے اتارنے لگا۔ اس کے بعد وہ ننگی میرے سامنے کھڑی تھی اور میں اسے چوم رہا تھا، اور جب میں نے اس کی چوت پر ہاتھ رکھا تو اس کی چوت گیلی تھی اور اس کی سانسیں بھاری ہونے لگیں اور مجھ سے زیادہ تو وہ گرم لگ رہی تھی۔ اس نے میری قمیص اتاری اور جلدی سے زپ کھول کر میرا لن باہر نکالا اور اسے پکڑ کر ہلانے لگی۔ میں نے کہا کہ "اسے چوسو۔" تو وہ بولی کہ "میں نہیں چوسوں گی، تمہیں اگر مجھے چودنا ہے تو تم چود لو لیکن یہ چوسنے والا کام میں نہیں کروں گی۔"
اس کے بعد میں نے اسے بستر پر لٹایا اور چومنے کے بعد اس کی چوت میں انگلی کرنے لگا اور اس کی آوازیں بڑھنے لگیں اور اس کی گرم سانسیں تیز ہونے لگیں اور وہ بولی کہ "پلیز چودو، پلیز مجھے چودو۔" میں نے اپنا لن اس کی چوت پر رکھا اور بغیر کچھ سوچے سمجھے ایک جھٹکے میں پورا لن اندر ڈالنے لگا، اور میرا پورا لن ایک ہی جھٹکے میں اس کی چوت میں چلا گیا اور کوئی مسئلہ بھی نہیں ہوا۔ وہ بس مزے لینے لگی اور آوازیں نکالنے لگی، "آہہہہ، اوہہہہ، آہہمم، یاہ، آہہہہ۔" میں نے تیزی سے اس کی چدائی کی اور ساتھ میں اس کے سینے کو چومتا اور دباتا بھی۔ اس کے بعد میں فارغ ہونے لگا اور میں نے اپنا لن باہر نکالا اور اس کے پستانوں پر منی ڈالنے لگا تو وہ بولی کہ "نیچے ڈالو، مجھ پر نہ ڈالو۔" پھر میں نے ساری منی نیچے گرا دی اور اس کو بوسہ دیا۔ اس نے کہا کہ "اب میں چلتی ہوں ورنہ میری ساس پوچھے گی کہ اتنی دیر کیوں لگا دی۔" میں نے اس کو بولا کہ "کل بھی آنا۔" تو اس نے کہا کہ "اچھا، دیکھوں گی، اگر موقع ملا تو آ جاؤں گی ورنہ ابھی وعدہ نہیں کر سکتی کہ کل بھی آؤں گی۔"
میں اس کے بعد واش روم گیا اور تازہ ہو کر باہر آیا اور منی کو صاف کیا اور پھر کھانا لینے باہر چلا گیا اور اس کے بعد گھر آیا اور کھانا کھانے کے لیے بیٹھا تو صائمہ کی کال آ گئی کہ "مجھے پہلے ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ تم مجھے گھر کیوں بلا رہے ہو، اسی لیے میں نے تمہیں نہیں روکا، کیونکہ میں بھی چاہتی تھی کہ میں تم سے چُدواؤں۔ لیکن یہ مت سمجھنا کہ میں ایسی ویسی لڑکی ہوں۔ جب میں پہلے تمہارے گھر آئی تھی تو تم بہت شریف لگے اور پھر بعد میں مجھے لگا کہ اس شریف کی ساری شرافت نکالوں گی ایک دن۔ اور دیکھ لو آج تمہاری شرافت نکال دی میں نے۔" میں ہنسنے لگا اور اسے بولا کہ "بہت مزہ آیا اور میں کل بھی تمہارا انتظار کروں گا۔" اس کے بعد اس نے کال ختم کی اور میں نے کھانا کھایا اور آرام کرنے لگا۔ اس کے بعد اگلے دن وہ دوبارہ آئی اور میں نے گولی لی ہوئی تھی وقت والی۔ جس کو استعمال کرنے کے بعد میں نے اور 3 بار بہت زور سے چودا، اور اتنا چودا کہ وہ بولنے لگی کہ "مجھے لگتا ہے میں ایک بندے سے نہیں بلکہ 3 بندوں سے چُدوا رہی ہوں۔" اس کے بعد بھی ہم نے بہت دفعہ سیکس کیا لیکن اپنے گھر پر پھر کبھی سیکس کا موقع نہیں ملا تو میں نے اسے دوست کے گھر پر چودا، اور دوست کے گھر پر چودنے کے لیے مجھے دوست کو بھی چُدوانا پڑا صائمہ کو۔ اگلی کہانی میں میں آپ کو بتاؤں گا کہ کیسے میں نے صائمہ کو منایا اور دوست کے ساتھ مل کر کیسے اسے چودا۔