عائشہ اور میری کہانی

 

عائشہ میرے بچپن کے دوست فیصل کی بیوی تھی، جو دودھ کی طرح گوری اور خوبصورت تھی۔ اس کا جسم گورا چٹا اور مکھن کی طرح نرم نظر آتا تھا۔ جب بھی میں اس کو دیکھتا تو میرا سویا ہوا لنڈ ایک دم سے جاگ کر عائشہ کی تعظیم میں کھڑا ہو جایا کرتا تھا، اور پھر رات کی تنہائی میں، میں عائشہ کے نام کی مٹھیں مارا کرتا تھا اور جب بھی میں نے عائشہ کے نام کی مٹھ  ماری، یقین کریں مجھے ایسا محسوس ہوتا کہ میں حقیقت میں عائشہ کو چود رہا ہوں۔

عائشہ اور میرے دوست فیصل میں بہت محبت تھی اور دونوں ایک دوسرے سے بہت پیار کرتے تھے، ان کی ایک پیاری سی بیٹی بھی تھی جسے دونوں بہت چاہتے تھے۔ عائشہ جب بھی مجھے کہیں نظر آتی تو میں دیکھتا، مجھ پر نظر پڑتے ہی وہ اپنی نظریں دوسری طرف پھیر لیتی، کیوں کہ شاید وہ مجھے پسند نہیں کرتی تھی اور مجھے دیکھ کر ایسا دکھاتی جیسے اس کو مجھے دیکھ کر ابکائی آ رہی ہو۔ کیونکہ وہ بہت گوری چٹی اور خوبصورت تھی اور میں سانولا کالا کلوٹا سا ایک شخص تھا۔ مگر میں اس کو چوری چوری دیکھتا رہتا تھا۔

پھر ایسا ہوا کہ ایک رات ایک تقریب میں فیصل اور میں کہیں گئے تو میں نے دیکھا فیصل کافی اداس اور پریشان لگ رہا تھا۔ میں نے جب اس سے پریشانی کی وجہ پوچھی تو اس نے پہلے تو ٹالنا چاہا مگر میرے اصرار کرنے پر اس نے مجھے بتایا کہ پچھلے ہفتے میری امی اور میری بیوی کے درمیان کافی خطرناک لڑائی ہو گئی اور عائشہ نے امی سے بہت بدتمیزی کی اور چیخنے چلانے لگی۔ اور مجھ پر بھی وہ چلائی، تو بات بہت بگڑ گئی اور میں نے غصے میں عائشہ کو طلاق دے دی اور اس کو گھر سے نکال دیا اور وہ میری بیٹی کو لے کر اپنی ماں کے گھر چلی گئی ہے۔ اور پھر جب میرا اور اس کا غصہ ٹھنڈا ہوا تو بہت دیر ہو چکی تھی۔ مولوی صاحب کے پاس گئے تو انہوں نے کہا تم دونوں کے درمیان طلاق ہو چکی ہے اور اب صرف ایک راستہ ہے، عائشہ کو عدت ختم ہونے کے بعد حلالہ کرنا پڑے گا۔ اس کا کسی سے نکاح ہو اور وہ آدمی عائشہ کے ساتھ رات گزارنے کے بعد اس کو طلاق دے دے۔ اور عائشہ عدت گزارنے کے بعد دوبارہ مجھ سے نکاح کرے۔

فیصل نے مجھ سے کہا کہ اب میری سمجھ میں نہیں آ رہا میں کیسے یہ سب کروں اور کس سے عائشہ کا نکاح کرواؤں۔ پھر کچھ سوچنے کے بعد اس نے مجھ سے کہا کہ کیا تم میری مدد کر سکتے ہو؟ کیا تم عائشہ سے نکاح کرو گے؟ میں تمہارا احسان زندگی بھر نہیں بھولوں گا۔ فیصل کی یہ پیشکش سن کر پہلے تو میں نے ڈرامہ کیا کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے، وہ تو میری بھابھی ہیں، کبھی ان کو اس نظر سے نہیں دیکھا۔ مگر اندر ہی اندر میرے منہ میں پانی بھر آیا۔ فیصل کو کیا پتا کہ میں اس کی بیوی عائشہ کو دل ہی دل میں کتنی بار چود چکا ہوں۔ اس نے میری منتیں شروع کر دیں اور کہا "پلیز میری مدد کرو۔" اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے تو میں نے کہا "ٹھیک ہے، تمہاری یہ حالت دیکھتے ہوئے میں تمہاری بیوی سے نکاح کرنے کو تیار ہوں، مگر کیا عائشہ اس کے لیے راضی ہے؟"

تو فیصل نے کہا "اس سے میں نے کہا تھا تو پہلے تو وہ نہیں مانی مگر پھر ہمارے رشتے کی بحالی کے لیے مجبوراً مان گئی ہے۔" پھر فیصل چلا گیا اور یہ طے پایا کہ عدت گزرنے کے بعد میرا اور عائشہ کا عارضی نکاح ہو جائے گا اور میں عائشہ کے ساتھ ہم بستری کرنے کے بعد اس کو طلاق دے دوں گا۔

اور پھر وہ دن بھی آ گیا جب میرا عائشہ سے نکاح ہو گیا اور نکاح کے وقت عائشہ نے ایک بار بھی میری طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا اور صرف روئے جا رہی تھی۔ پھر نکاح کے بعد جب میں اس کو اپنی گاڑی میں بٹھا کر اپنے فلیٹ پر لے کر جا رہا تھا، اس دوران بھی اس نے مجھے نہیں دیکھا۔ عائشہ نے گلابی رنگ کی میکسی پہنی ہوئی تھی جس میں وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔ گھر آ کر میں اس کو اپنے سونے کے کمرے میں لے آیا اور اس کو بستر پر بٹھا دیا تو اس نے اپنے دوپٹے کو سر پر رکھتے ہوئے گھونگھٹ گرا لیا۔ میں عائشہ کے برابر میں جا کر بیٹھ گیا اور اس کا گھونگھٹ پیچھے کیا تو اس کا سفید چہرہ اور گلابی نرم ہونٹوں کو دیکھتے ہی میرا لنڈ کھڑا ہو گیا۔ اچانک عائشہ کی جب مجھ پر نظر پڑی تو وہ چیخ مارتے ہوئے کھڑی ہو گئی اور بولی، "آپ؟ آپ یہاں کیسے، کیوں؟" پھر اس نے اپنے بیگ سے فون نکالا اور فیصل کو کال کی کہ "اس کالے کلوٹے شخص سے تم نے میرا نکاح کرایا؟ میں اس کے ساتھ نہیں رہوں گی، یہ مجھے ایک منٹ برداشت نہیں۔ بس میں آ رہی ہوں۔" یہ کہہ کر عائشہ اٹھ کر دروازہ کھول کر جانے لگی تو میں نے ایک دم اس کا راستہ روکتے ہوئے اس کو پکڑ لیا اور کہا "تم اس وقت میرے نکاح میں ہو، بیوی ہو میری اور میں نے یہ سب تمہارے بھلے کے لیے کیا ہے۔" وہ چلانے لگی، "مجھے ہاتھ نہیں لگانا، دفع ہو جاؤ۔" اور اس نے اچانک میرے منہ پر تھوک دیا۔

اس بات پر مجھے بہت غصہ آیا اور میں نے عائشہ کے گال پر زوردار تھپڑ مار دیا۔ اس کے گال لال ہو گئے اور وہ رونے لگی۔ میں نے اس کو تیزی سے اپنی باہوں میں دبوچ لیا اور اس کے گلابی نرم ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیے۔ اور عائشہ کے ہونٹ چوسنے لگا۔ وہ روئے جا رہی تھی اور اپنے آپ کو میری قید سے چھڑوانے کی پوری کوشش کر رہی تھی۔ مگر وہ میری قید سے خود کو آزاد نہ کروا پائی۔ میں نے عائشہ کے ہونٹوں کو چوسنا شروع کر دیا اور عائشہ کے ہونٹ چوس رہا تھا۔ پھر میں نے عائشہ کے گالوں اور اس کی گردن پر ہر جگہ چومنا شروع کر دی۔ عائشہ کو میں نے مضبوطی سے کس کر اپنی باہوں میں جکڑ کر اس کو اپنے سینے سے چپکایا ہوا تھا۔ اس کے نرم، ملائم اور رسیلے ہونٹوں، اس کے سفید گالوں اور گردن کو چومنے اور چاٹنے کا ایک الگ ہی نشہ مجھ میں آ رہا تھا۔ وہ مچھلی کی طرح میری باہوں میں تڑپ رہی تھی۔ پھر میں نے اپنے ہاتھوں سے عائشہ کے پستان مسلنا شروع کر دیے۔ میں عائشہ کے پستانوں کو دبا رہا تھا اور مسل رہا تھا۔ اور پھر اچانک میں نے اس کو بستر پر دھکا دے دیا اور اپنی قمیص اور پتلون اتار کر زیر جامے میں عائشہ کے اوپر چڑھ گیا۔

عائشہ کے اوپر آتے ہی مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میں کسی گرم تندور پر بیٹھا چڑھ گیا ہوں۔ عائشہ کے اوپر آنے کے بعد میں نے ایک بار پھر عائشہ کے ہونٹوں کو چوسنا شروع کر دیا۔ عائشہ کی زبان کو چاٹا، اپنی زبان سے عائشہ کی گردن اور اس کے گالوں کو چاٹنے لگا۔ تو عائشہ نے آنکھیں بند کر لیں۔ اور پھر عائشہ نے بھی میرے ہونٹوں کو چوسنا شروع کر دیا۔ میں عائشہ کے اوپر چڑھ کر پوری طرح گرم ہو چکا تھا۔ وہ بھی بہت گرم ہو چکی تھی۔ اس دوران میں نے عائشہ کی میکسی اور قمیص کے بٹن کھول دیے تو اس کا کالے رنگ کا برا مجھے نظر آیا۔ تو ایک دم میں نے اس کی قمیص اتار دی تو کالے برا میں عائشہ کے سفید، نرم پستانوں کا ابھار دیکھ کر میرا لنڈ لوہا بن گیا۔ جھٹ سے میں نے اس کا برا بھی اتار دیا تو اس کے گلابی گلابی نپلز دیکھ کر نہ پوچھیں، میں پاگل ہی ہو گیا اور پاگلوں کی طرح میں نے عائشہ کے پستانوں کو اپنے ہاتھوں میں لے کر ان کو چوسنا شروع کر دیا۔ میں عائشہ کے پستان چوس رہا تھا، اس کے نپل اتنے میٹھے تھے کہ جیسے عائشہ کے نپلوں سے دودھ آ رہا ہو اور میں عائشہ کا دودھ پی رہا ہوں۔ عائشہ پوری طرح گرم ہو چکی تھی اور اس نے شرماتے شرماتے میرے موٹے لنڈ کو اپنے ہاتھوں میں لے کر مسلنا شروع کر دیا تھا۔ اور عائشہ کے نرم ہاتھوں میں آ کر میرا لنڈ مزید سخت سے سخت ہوتا جا رہا تھا۔

اچانک میرے دل میں کچھ خیال آیا اور میں عائشہ کے اوپر سے اٹھ کر بستر پر بیٹھ گیا اور اس کو بھی اٹھا کر بٹھا دیا اور اپنا لنڈ پکڑ کر عائشہ کے منہ میں ڈالنا چاہا تو عائشہ نے کہا "نہیں پلیز، یہ نہ کریں۔ میں نے یہ کام کبھی نہیں کیا، فیصل کا ڈِک بھی کبھی نہیں چوسا اور نہ انہوں نے کبھی مجھے ایسا کرنے کو کہا۔" مگر عائشہ کے گلابی خوبصورت ہونٹ اور اس کی زبان کی گرمی اور مٹھاس چکھ کر میں سوچ چکا تھا کہ میرا موٹا لنڈ اس کے منہ میں جا کر اس کی زبان اور ہونٹوں کا ذائقہ چکھے۔ اس لیے میں نے زبردستی اس کے منہ میں اپنا لوہے جیسا لنڈ عائشہ کے منہ میں ڈال دیا تو لنڈ اتنا بڑا اور موٹا تھا کہ عائشہ کے حلق تک آ گیا اور وہ کھانسنے لگی۔ اور پھر آہستہ آہستہ عائشہ نے اپنی زبان سے میرے لنڈ کو چاٹنا شروع کر دیا اور پھر لے کر عائشہ میرے لنڈ کو چوسنے لگی اور ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ چوسنے میں اس کو بہت مزہ آ رہا ہو، کیوں کہ اس سے پہلے عائشہ نے کبھی لنڈ نہیں چوسا تھا۔ وہ دیر تک میرے لنڈ کو چوستی گئی۔ اب میں اور عائشہ دونوں بے قابو ہو چکے تھے۔ میں نے عائشہ کو سیدھا لیٹنے کو کہا اور عائشہ کے گرم اور ننگے جسم پر چڑھ گیا۔

میرا لنڈ عائشہ کی گرم اور چکنی چوت سے چھو کر مزید گرم ہو رہا تھا۔ میں نے عائشہ کی چوت پر پھیرنا شروع کیا تو وہ آہیں بھرنے لگی۔ اور جب اپنی انگلی اس کی گرم اور رسیلی چوت میں ڈالی تو وہ "آہ۔۔۔ اوچ۔۔۔ آہہہہہ" کرنے لگی اور نشے میں مست ہو کر میرے کندھے پر کاٹنے لگی اور مجھ سے چپک گئی۔ اب ہم دونوں کی برداشت ختم ہونے لگی۔ عائشہ نے میرا لنڈ ہاتھ میں لے کر اپنی چوت کے اندر ڈالنا چاہا تو میں نے اس کی چکنی چوت میں اپنا موٹا لنڈ اندر ڈال دیا تو عائشہ تڑپ کر رہ گئی اور زور سے آوازیں نکالنے لگی، شاید اس کو درد ہو رہا تھا اور شاید عائشہ نے پہلی بار اتنا بڑا اور موٹا لنڈ اندر لیا تھا۔ جب میں نے عائشہ کی چوت میں دو چار ہی دھکے مارے تو اس کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے۔ مگر کچھ ہی سیکنڈ بعد وہ مزے لینے لگی۔ اور "آہ، اوچ، آہ" کی آوازیں نکالنے لگی۔

میرا لنڈ اپنی پوری رفتار سے عائشہ کو چود رہا تھا اور اس کی چوت مار رہا تھا۔ میں زور زور سے عائشہ کی چوت مار رہا تھا اور وہ کبھی ٹانگیں اٹھاتی تو کبھی نیچے کرتی، وہ اچھل اچھل کر مجھے اپنی چوت دے رہی تھی۔ تھوڑی دیر بعد اس کی چوت سے پانی خارج ہونا شروع ہو گیا، میرے لنڈ نے عائشہ کی چوت مار مار کر اس کو گیلا کر دیا، مگر میں پھر بھی اس کو چودے جا رہا تھا اور مسلسل 10 منٹ اور دھکے مارتا رہا اور اس دوران وہ دو بار فارغ ہوئی۔ پھر میرے لنڈ نے بھی عائشہ کو چود چود کر اپنا پانی نکال دیا۔ میں نے اپنے لنڈ کا سارا پانی اور ساری سفید کریم عائشہ کی چوت میں چھوڑ دی۔ تو عائشہ کی چوت میری گرم منی سے بھر چکی تھی۔ جیسے میں فارغ ہوا، تو عائشہ نے مجھے کس کر پکڑ لیا اور مجھے چومنے چاٹنے لگی۔ کافی دیر تک میں اور عائشہ بالکل ننگے ایک دوسرے سے چپکے رہے اور ایک دوسرے کے جسم کو چاٹتے اور چومتے رہے۔

اس کے بعد ہم دونوں نے شاور لیا اور وہاں بھی ایک شارٹ لگا۔ اس میں میں نے عائشہ کی چوت بھی چاٹی اور اپنی زبان سے اس کو فارغ کیا اور عائشہ نے میرا لنڈ چوس کر مجھے فارغ کیا۔ میرا سارا منی اس کے نرم ہونٹوں سے بہتا ہوا اس کے پستانوں پر آ کر چپک گیا۔ پھر ہم دونوں اچھے سے نہائے اور باہر آنے کے بعد ہم سو گئے۔ صبح اٹھنے کے بعد عائشہ کو میں نے اٹھا کر اس کو بولا کہ "وعدے کے مطابق میں اب تمہیں طلاق دے دیتا ہوں۔" تو وہ میرے گلے لگ گئی اور بولی، "میں واقعی فیصل اور اپنی بیٹی سے بہت محبت کرتی ہوں، مگر کیا ایسا نہیں ہو سکتا ہم کچھ دن اور ساتھ رہ لیں۔" میں نے کہا، "فیصل ناراض ہوگا، میں نے اس سے ایک رات کا وعدہ لیا تھا۔" تو عائشہ نے کہا، "ان کو میں سنبھال لوں گی، کوئی بہانہ کر دوں گی، بس ابھی ہم دونوں کچھ دن مزید ساتھ رہیں گے۔"

پھر جب بھی فیصل کا فون آتا تو عائشہ کوئی بہانہ بنا کر ٹال دیتی اور وہ اس طرح 3 ماہ مجھ سے چُدواتی رہی اور 3 ماہ بعد اس کی بیٹی کے لیے ہم دونوں کا رشتہ ختم ہوا، طلاق ہوئی تو عائشہ نے مجھے بتایا کہ وہ حاملہ ہو گئی ہے اور اس کے پیٹ میں میرا بچہ ہے، یعنی عائشہ کو 3 ماہ چودنے کے بعد میں نے اس کو حاملہ کر دیا۔


ایک تبصرہ شائع کریں (0)
جدید تر اس سے پرانی