یہ رشتے

 

میرا نام احمر جبران ہے اور میں ایک شادی شدہ شخص ہوں، عمر 27 سال ہے اور اپنا ذاتی کاروبار کرتا ہوں، یہ کہانی ان رشتہ داروں اور ان سے منسلک ایسے کرداروں کے گرد گھومتی ہے جو میرے بیڈ کی زینت بنے۔ اب آتا ہوں کہانی کی طرف۔ یہ 2014 کی بات ہے جب میری بیوی حنا پریگننٹ تھی اور اس کا ساتواں مہینہ چل رہا تھا کہ اچانک میری والدہ کو میری نانی امی جو کہ کافی عرصہ سے علالت تھیں ان کی عیادت کے لیے رحیم یار خان جانا پڑا، گھر پر حنا کی دیکھ بھال کے لیے کوئی نہیں تھا سو حنا نے اپنی چھوٹی بہن صبا کو بلا لیا جو کہ کافی نک چڑھی اور اپنے آپ میں مگن رہنے والی لڑکی ہے، صبا پرائیویٹ بی اے کر رہی تھی اور اس کا فرسٹ سمسٹر تھا اس لیے میری پھوپھو جو کہ میری ساس بھی ہیں اسے ہمارے ہاں بھیجنے پر تیار ہوگئیں۔ صبا اکیلی ہی فیصل آباد سے لاہور پہنچی تو مجھے کافی غصہ آیا مگر جب یہ بات میں نے صبا کو سمجھانا چاہی تو کہنے لگی میں اپنی حفاظت کرنا جانتی ہوں آپ پریشان نہ ہوں اس لیے میں خاموش ہو گیا، دو تین دن تو سکون سے گزرے مگر ایک رات جب مجھے طلب ہوئی اور میں نے حنا کو رات چودنا چاہا تو اس نے یہ کہہ کر منع کر دیا کہ ڈاکٹر نے احتیاط کرنے کا بولا ہے، مجبوری تھی سو چپ چاپ دوسرے کمرے میں جا کر مووی دیکھنے لگا، اب میں سوچ رہا تھا کہ حنا تو ہاتھ بھی لگانے نہیں دے رہی اب کیا کروں کہ اچانک صبا کا خیال ذہن میں آ گیا اور میں صبا کا سراپا ذہن میں رکھ کر اس کی چودائی کا منصوبہ بنانے لگا، بہت سوچنے کے بعد ایک آئیڈیا ذہن میں آیا اور میں اس پر عمل کرنے کا سوچتا ہوا سو گیا۔ اگلے دن میں شام کو جلدی گھر آ گیا اور حنا سے کہا آج کھانا باہر کھائیں گے تو حنا بولی آپ صبا کو لے جاؤ اور اسے گھما لاؤ اور میرے لیے کھانا گھر ہی لے آنا، اب اندھا کیا چاہے دو آنکھیں، سو میں نے صبا کو تیار ہونے کا بولا اور خود سب سے آنکھ بچا کر صبا والے کمرے کے واش روم میں چلا گیا اور اندر سے کنڈی لگائے بغیر نہانے لگا، اچانک ہی صبا نے دروازے کو دھکیلا اور واش روم کے اندر آگئی اب اسے کیا پتہ کہ میں اس کی چودائی کے پلان پر عمل کر رہا ہوں، جب صبا کی نظر مجھ پر پڑی تو اس کی آواز بند ہو گئی کیونکہ میں اپنا ہتھیار تھامے اسے ہی گھور رہا تھا، صبا جلدی سے سوری کہتے ہوئے باہر نکل گئی اور دوسرے واش روم میں جا کر چینج کرنے لگی، جب میں فریش ہو کر اور باہر آیا تو صبا تیار تھی جانے کے لیے مگر کچھ گھبرائی ہوئی تھی، میں نے اسے چلنے کا کہا اور جا کر گاڑی میں بیٹھ گیا، صبا کچھ دیر بعد آئی تو میں نے اسے بٹھا کر گاڑی سٹارٹ کی اور پوچھا پہلے شاپنگ کرو گی یا کھانا کھا لیں، صبا بولی ابھی بھوک نہیں ہے اس لیے پہلے لانگ ڈرائیو، اس کے بعد شاپنگ اور پھر کھانا، میں نے کہا اتنا وقت نہیں ہے گھر پر حنا پریشان ہو گی اس نے کہا میں آپا کو بتا کر آئی ہوں آپ فکر نہ کریں۔ میں نے گاڑی کا رخ فورٹریس کی طرف موڑا اور گاڑی کا ویڈیو پلیئر چلا دیا جس میں آج سارے ہی گانے کافی سیکسی اور جذبات ابھارنے والے تھے، میں گیئر بدلتے ہوئے جان بوجھ کر صبا کو ذرا سا ٹچ کیا تو وہ سمٹ سی گئی، میں نے دوبارہ یہی حرکت کی تو صبا نے گھور کر مجھے دیکھا مگر منہ سے کچھ نہ بولی، تھوڑی دیر بعد میں نے ہمت کر کے اس کی ران پر اپنا ہاتھ رکھ دیا صبا نے کوئی رسپانس دیا میں نے تھوڑا سا دبایا تو میری طرف ایک نظر ڈال کر دوبارہ سے ویڈیو دیکھنے لگی، اب میرا حوصلہ کچھ بڑھا اور میں نے اس کی رانوں کو سہلانا شروع کر دیا، سامنے ویڈیو میں "جسم ٹو" کا گانا چل رہا تھا اور صبا میرے ہاتھ کی وجہ سے ہلکا سا کمپکا رہی تھی۔ اچانک ہی صبا نے میرا ہاتھ جھٹک کر پیچھے کر دیا اور غصے سے بولی کچھ تو خیال کریں، میں نے نرمی سے پوچھا برا لگا کیا تو بولی اچھا بھی نہیں لگا، میں سمجھ گیا اب یہ انکار نہیں کرے گی، سو میں نے گاڑی گھمائی اور اپنے ایک فلیٹ پر جا روکی جسے میں آجکل گودام کے طور پر استعمال کر رہا تھا، صبا بولی یہ آپ کس کے گھر لے آئے تو میں نے کہا یہ میرا گودام ہے یہاں سے کچھ سامان گاڑی میں رکھنا ہے تاکہ صبح مارکیٹ میں دے سکوں۔ میں گاڑی سے اترا اور صبا سے کہا آ جاؤ سامان لے کر چلتے ہیں، صبا کو ساتھ لے کر میں فلیٹ کے اندر آ گیا اور فریج سے جوس کا کین نکال کر صبا کو دیا اور خود ریڈ بل پینے لگا، صبا جوس ختم کر کے کین باسکٹ میں پھینکنے گئی تو میں نے اسے پیچھے سے جکڑ کر دیوار کے ساتھ لگا دیا اور اس کی گردن پر کس کرنے لگا، صبا نے غصے سے مجھے دیکھا اور کہا چھوڑیں مجھے، آپ میرے جیجا ہو اور یہ سب غلط ہے، میں نے کہا ٹھیک ہے اگر برا لگا تو سوری اور پیچھے ہٹ گیا، صبا یک لخت مڑی اور مجھے گھورنے لگی، مجھے لگا کہ اب یہ باہر نکل جائے گی وہی ہوا جس کا ڈر تھا، صبا کافی دیر تک مجھے گھورتی رہی اور پھر یہ کہہ کر باہر نکل گئی کہ وہ باہر گاڑی میں بیٹھے گی۔ میں اس کے پیچھے آیا مگر وہ کوئی بات کیے بنا چپ چاپ بیٹھی رہی گو وہ بات نہیں کر رہی تھی میرے ساتھ مگر اس کے چہرے پر غصہ یا نفرت نہیں تھی بلکہ ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ کسی سوچ میں ہو، میں نے گاڑی سٹارٹ کر کے نکالی اور ہائپر سٹار کی طرف رخ موڑ دیا، وہاں سے صبا کو شاپنگ کروا کے بعد ساتھ ہی موجود ریسٹورنٹ سے کھانا کھایا اور گھر واپسی کا سفر شروع ہو گیا اب میں سوچ رہا تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ صبا یہ سب حنا کو بتا دے اور میری شادی شدہ زندگی بگاڑ کا شکار ہو جائے خیر اسی سوچ میں ہم گھر پہنچ گئے، صبا نے حنا کے لیے کھانا نکالا جو کہ ہم پیک کروا لائے تھے اور خود کافی بنانے کچن میں چلی گئی، میں بھی کچھ دیر بعد اس کے پیچھے کچن میں پہنچ گیا اور اس سے معذرت کرنا چاہی تو اس نے یہ کہہ کر ٹوک دیا کہ ابھی اس موضوع کو رہنے دوں وہ خود بتا دے گی جب اسے بات کرنا ہو گی، کافی پینے کے بعد صبا بولی کہ آج وہ حنا کے ساتھ سوئے گی سو میں دوسرے کمرے میں دوسری منزل کے کمرے میں چلا گیا، اوپر والی منزل میں کوئی نہیں سوتا تھا اگر کبھی کوئی مہمان آ جاتے تو ان کو وہاں ٹھہرایا جاتا تھا، رات کے 2 بجنے والے تھے اور میں اسی ادھیڑ بن میں لیٹا تھا کہ صبا لازمی طور پر حنا کو بتا دے گی کہ اچانک کمرے کے دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی اور.......... صبا کمرے میں داخل ہوئی اس وقت وہ اپنے سلیپنگ ڈریس (صبا سوتے وقت ٹراؤزر اور لوز ٹی شرٹ پہنتی تھی) میں تھی اور کافی سیکسی لگ رہی تھی صبا نے دروازے کو بند کیا اور بیڈ کے کنارے پر آ بیٹھی اور پوچھنے لگی کہ آپ سوئے نہیں بھائی تو میں نے کہا کہ نیند نہیں آ رہی تھی مگر تم کیوں نہیں سوئیں تو بولی مجھے بھی نیند نہیں آرہی تھی تو سوچا کہ آپ سے شام والی حرکت پر بات کر لوں، میں نے سوالیہ انداز میں صبا کو دیکھنا شروع کر دیا تو کافی دیر کے بعد بولی کہ بھائی آپ نے ایسا کیوں کیا اتنا تو سوچتے کہ حنا پر کیا گزرتی جب اسے پتہ چلتا کہ آپ نے میرے ساتھ ایسی حرکت کی ہے، میں نے کہا صبا اگر تمہیں برا لگا ہو تو میں شرمندہ ہوں مگر کیا کروں کہ تم ہو ہی اتنی پیاری کہ دل کرنے لگتا ہے تمہیں پیار کرنے کو اور اوپر سے حنا کے آخری دن چل رہے ہیں تو اس کے پاس بھی نہیں جا سکتا اس لیے یہ سب کچھ کر گزرا ورنہ تم مجھے جانتی ہو، صبا بولی مگر یہ ٹھیک نہیں ہے بھائی، میں نے صبا کے ہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑ لیے اور بولا کیا غلط ہے اس میں اگر تم اور میں چاہیں تو کسی کو پتہ نہیں چلے گا اور میرا وعدہ ہے کہ اگر تم نہیں چاہو گی تو کوئی فورس نہیں کرے گا تمہیں یہ بات ختم سمجھو نہ تم کسی سے کہنا نہ میں آئندہ ایسا سوچوں گا۔ صبا سر جھکا کر بولی اور اگر میں آپ کا ساتھ دوں تو .........میں نے اسے قریب کھینچ لیا اور کان میں سرگوشی سے بولا تو تم ہمیشہ میرے دل میں رہو گی اور ساتھ ہی میں صبا کی گردن کو کس کرنا شروع کر دیا، صبا اب مزاحمت نہیں کر رہی تھی بلکہ میرے اوپر لدی جا رہی تھی، میں گردن سے آہستہ آہستہ صبا کے ہونٹوں کی طرف آیا اور ایک دم سے اس کے کومل ہونٹوں کو چوسنا شروع کر دیا اب صبا کسمسا رہی تھی اور ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ میرے اندر پیوست ہو جائے گی، میں نے کس کرتے کرتے صبا کی شرٹ میں ہاتھ ڈال دیا اب مجھے خوشگوار سی حیرت ہوئی کہ صبا کے 34 سائز کے ممے میری دسترس میں تھے میں نے صبا کو نیچے کیا اور خود اس کے اوپر آگیا اور دونوں ہاتھ اس کی شرٹ میں ڈال کر اس کے گول اور ستون ممے پکڑ کر انہیں دبانے لگا، صبا اب مزے سے آہیں بھر رہی تھی اور میں مزے سے اس کے ہونٹ چوسے جا رہا تھا کافی دیر ایسا کرنے کے بعد میں نے صبا کو تھوڑا اوپر کیا اور اس کی شرٹ اتار دی اب جو منظر سامنے تھا وہ مجھے پاگل کیے جا رہا تھا، صراحی دار شفاف گردن، غرور سے تنے ہوئے ممے اور ان کے باہر نکلے ہوئے گلابی مائل نپلز، اس کے نیچے صبا کا چپٹا پیٹ اور پتلی سی کمر، اب مانو تو میرا لن پینٹ پھاڑ کر باہر آنے کو تھا۔ میں جنونی انداز میں صبا کے مموں پر ٹوٹ پڑا اور چوس چوس کر ان کی اکڑ اور غرور توڑنے لگا میں کبھی دائیں سے بائیں لپکتے تو کبھی بائیں سے دائیں، چند ہی منٹ میں صبا کے گلابی نپل سرخی مائل ہو گئے تھے اور صبا کی آہوں سے کمرہ گونج رہا تھا، میں نے آہستہ آہستہ نیچے کا سفر شروع کیا اور صبا کے پیٹ کو چاٹتے ہوئے اس کا ٹراؤزر اتارنے لگا، صبا نے گانڈ اٹھا کر ٹراؤزر اتارنے میں میری مدد کی، جیسے ہی میں نے اس کا ٹراؤزر اتارا تو جیسے بجلی چمک اٹھی، صبا کی چھوٹی سی چوت پانی پانی تھی اور اس کے گلابی لب کبھی کھل رہے تھے تو کبھی بند ہو رہے تھے، میں نے صبا کی ٹانگوں کو آپس میں ملایا اور فولڈ کر کے اس کے سینے سے لگا دیا۔

جیسے ہی میں نے صبا کی چوت پر ہونٹ رکھے تو اس نے مزے میں ہلکی سی چیخ ماری اور نیچے سے اپنی گانڈ اٹھا لی اور میرے سر کو اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنی چوت کی طرف دھکیلنے لگی میں نے بھی جوش میں آکر صبا کی چوت منہ میں لی اور اسے چوسنے لگا جتنی شدت سے میں اسے چوس رہا تھا اسی کی دوگنی شدت سے صبا کی آہیں بلند ہو رہی تھیں جو مجھے اور شدت پر اکسا رہی تھیں اب میں نے صبا کی چوت کو بھنبھوڑنا شروع کر دیا تھا، صبا کی چیخوں نے کمرے میں ایک طوفان اٹھا دیا تھا میں نے گھبرا کر اس کے منہ کو اپنے ہاتھ سے دبایا اور اپنی زبان صبا کی چوت میں داخل کر دی کچھ ہی دیر میں صبا کا جسم اکڑنا شروع ہو گیا، اب صورتحال یہ تھی کہ میں صبا کی چوت میں زبان گھما رہا تھا اور اس نے اپنے دونوں ہاتھوں سے میرا سر اپنی چوت پر دبایا ہوا تھا، آخر کار مزے کی انتہا پر پہنچ کر صبا کی چوت نے پانی چھوڑنا شروع کر دیا اب صبا مزے سے آہیں بھر رہی تھی اس کی آہوں میں لذت اور طلب کا ایسا امتزاج تھا کہ میں نے اپنا ٹراؤزر نیچے کیا اور 8 انچ لمبا اور 3 انچ سے زیادہ موٹا لن باہر نکال کر صبا کے منہ کے سامنے کر کے کہا کہ اسے چوسو، صبا کی تو آنکھیں اتنا بڑا لن دیکھ کر جیسے ابل پڑی تھیں، میں نے مسکرا کر کہا صبا گھبراؤ مت یہ آج سے سارے کا سارا تمہارا ہی ہے، تو صبا گھبرائی ہوئی آواز میں بولی بھائی پلیز اسے چوت کے حوالے کر دیں میں نہیں چوس سکوں گی، میں نے لن اس کی چوت پر پھیرنا شروع کر دیا اب صبا پھر سے گرم ہونے لگی تھی، میں نے اس کے کان کے قریب منہ کر پوچھا سالی جی اب لن اندر جانا چاہتا ہے اسے اجازت دو اندر جانے کی، صبا بولی بھیا آپ ایک دم اندر ڈالنا میں کوشش کروں گی کہ برداشت کر سکوں میں نے صبا کی ٹانگوں کو مکمل طور پر کھولا اور بیچ میں بیٹھ کر لن کا ٹوپا صبا کی پھدی پر سیٹ کیا اور دھکا لگا کر لن اندر کرنے کی کوشش کرنے لگا مگر چوت تنگ ہونے کی وجہ سے لن اوپر سے پھسل رہا تھا کہ صبا بولی بھائی اب صبر نہیں ہو رہا پلیز ڈال دیں اتنا سننا تھا کہ میں نے لن کو سالی کی چوت میں داخل کرنا شروع کیا ابھی ٹوپے کا سرا تھوڑا سا اندر گیا تھا کہ صبا کے منہ سے ہلکی سی چیخ نکلی میں نے جلدی سے اس کا منہ دبایا اور اتنی زور سے دھکا مارا کہ صبا کے پردہ بکارت کو چیرتے ہوئے لن اس کی چوت میں جڑ تک کھب گیا، صبا نے اتنے زور سے چیخ ماری کہ منہ دبا ہونے کے باوجود اس کی چیخ کمرے میں گونجی اور وہ ذبح ہوتی ہوئی بکری کی طرح تڑپنے لگی مگر میں نے بنا رکے سارا لن باہر نکالا صرف ٹوپا اندر رہنے دیا دو سے تین سیکنڈ کا وقفہ دے کر پورا لن پھر سے اس کی چوت میں داخل کر دیا یہ جھٹکا اتنا شدید تھا کہ میرے ٹٹوں پر بھی چوٹ پڑی، صبا کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے، اب میں نے صبا کے ممے منہ میں لیے اور ان کو چوسنے لگا ساتھ میں میرے دھکے بھی جاری تھے اور لن اپنی پوری تیزی سے چھوٹی سی چوت کو کھودڑ رہا تھا صبا کی گھٹی گھٹی چیخیں مجھے جنونی سا کرتی جا رہی تھیں جس وجہ سے میں پوری شدت سے اس کی چوت کو چود رہا تھا صبا نے آنکھوں کے اشارے سے مجھے منہ سے ہاتھ ہٹانے کا بولا جیسے ہی میں نے ہاتھ ہٹایا صبا بلبلانے لگی بھائی پلیز رک جائیں میں مر جاؤں گی مجھ سے برداشت نہیں ہو رہا، میں نے صبا کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں لیا اور پھر سے پوری قوت کے ساتھ جھٹکا مارا اور لن جڑ تک اس کی چوت میں ڈال دیا اور رک کر صبا کو کس کرنے لگا، تقریباً 2 منٹ رکنے کے بعد میں نے لن باہر نکال بغیر ہی جھٹکے لگانے شروع کر دیے اب صبا کو بھی مزا آنا شروع ہو گیا تھا اور وہ پوری شدت سے میرے ہونٹوں کو چوس رہی تھی۔ میں نے دونوں ہاتھوں سے اس کے ممے پکڑے اور لن کو ایک ردھم سے اندر باہر کرنے لگا میرا ہر دھکا اتنا شدید تھا کہ پورا لن جڑ تک اندر جاتا اور اتنی ہی شدت سے باہر آتا، کچھ دیر بعد میں نے لن باہر نکالا اور صبا کو ڈوگی سٹائل بنانے کا بولا اس کی نظر جیسے ہی بیڈ شیٹ پر پڑی وہ اپنے خون سے سرخ ہوئی جگی دیکھ کر پھر سے رونے لگی اور بولی دیکھ لیں بھائی آپ نے کیا کر دیا میں نے کہا تم کو برا لگا کیا تو سر کو دائیں بائیں ہلا کر بولی نہیں ایسی بات نہیں اور ساتھ ہی گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اس نے اپنی کہنیاں بیڈ پر ٹکا دیں، میں نے پیچھے سے آ کر اس کی دونوں ٹانگوں کو ساتھ ملا دیا اور خود اس کے اوپر آ گیا، اب میرا لن پھر سے میری سالی کی چھوٹی سی چوت میں جانے کو تیار تھا، میں نے لن کا ٹوپا صبا کی چوت میں پھنسایا اور اس کی کمر کو اپنے دونوں ہاتھوں میں پکڑ کر صبا کو اپنی جانب کھینچا اور ساتھ ہی پیچھے سے زور کا دھکا مارا، جسم سے جسم ٹکرانے کی آواز آئی اور پورا لن صبا کی چوت میں گم ہو گیا اگر میں نے صبا کو کمر سے نہ پکڑا ہوتا تو وہ یقیناً گر جاتی، آہ آہ آہ آہ آوں آوں کی آوازیں نکلنا شروع ہو گئیں تھیں، وہ مزے اور درد سے چلا رہی تھی کہ میں نے اس طرح سے دوسرا جھٹکا مارا، صبا کی آہیں مزید بلند ہوئیں اب تو میں نے ردھم بنا لیا کہ ٹوپے تک لن باہر نکالتا اور صبا کو اپنی طرف کھینچتے ہوئے پوری زور سے دھکا مار دیتا اب تو صبا کی مزے بھری سسکیوں نے کمرا سر پر اٹھا لیا تھا کچھ ہی دیر میں صبا کا جسم کانپنے لگا اور اس نے مزے کی شدت سے دوسری بار چوت سے پانی چھوڑ دیا اب میرا لن آسانی سے اندر باہر جا رہا تھا کچھ دیر اسی حالت میں اسے چودنے کے بعد لن باہر نکالا صبا کو سیدھی کر کے لٹا دیا اور اس کی ٹانگوں کو لمبائی میں سیدھا کر کے لن ایک بار پھر اس کی چوت میں ڈالا مگر پورا اندر نہ گیا میں نے سائیڈ سے تکیہ اٹھا کر صبا کی گانڈ کے نیچے رکھا اور پھر سے جھٹکا مارا اب کی بار پورا لن صبا کی چوت میں چلا گیا، صبا نے اپنے جسم کا وزن اپنے بازوؤں پر ڈال لیا میں جوں ہی لن کو دھکیلتا تو صبا اپنی گانڈ اٹھا دیتی جس سے پورا لن اندر چلا جاتا، صبا مزے کی شدت سے لمبی لمبی سسکیاں بھر رہی تھی اور اس کی یہ سسکیاں مجھے مزا دے رہی تھیں اب میرا بھی وقت قریب آ رہا تھا میں صبا کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں قید کیے اور ٹھکا ٹھک اسے چودے جا رہا تھا کچھ ہی دیر میں میرے لن نے اس کی چوت میں لاوا اگلنا شروع کر دیا میں اس کے اندر ہی فارغ ہو گیا، کچھ دیر میں نے لن اندر ہی ڈالے رکھا اور صبا کو کس کرتا رہا۔ جب میں نے صبا کے ہونٹ چھوڑے تو وہ بولی بھائی باہر نکال لینا تھا میں کہیں پریگننٹ نہ ہو جاؤں تو میں نے کہا پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں اور اٹھا کر اپنی جیبی سے ٹیبلٹس کا پتہ نکال کر اسے دیا کہ روزانہ دو گولیاں کھانی ہیں اس کے بعد ایک مہینے تک جیسے چاہو سیکس کرو کوئی مسئلہ نہیں ہو گا اب میں نے صبا کو بازوؤں میں لیا اور واش روم میں لے گیا، ہم دونوں اکٹھے نہانے کے بعد باہر نکلے اور کپڑے پہن لیے، کپڑے پہننے کے بعد میں نے صبا کو لمبی سی کس کی اور صبا اگلی رات ملنے کا وعدہ کر کے سونے کے لیے حنا کے پاس نیچے چلی گئی۔ اگلے دن میں کافی دیر سے اٹھا نہانے کے بعد میں کچن میں آیا تو 10 بج چکے تھے میں نے حنا کو آواز دی تو اس نے صبا کو ناشتہ تیار کرنے کے لیے بھیج دیا، صبا کچن میں آئی تو کافی فریش لگ رہی تھی میں اسے دیکھ کر مسکرانے لگا اس نے جلدی سے شرما کر سر جھکا لیا اور دروازے میں ہی کھڑی ہو گئی میں نے آگے بڑھ کر اسے اپنی جانب کھینچا اور اٹھا کر ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھا دیا، صبا تھوڑا گھبرا گئی اور بولی بھائی حنا جاگ رہی ہے کہیں کچن میں نہ آ جائے سو پلیز ابھی نہیں، میں نے ایک ہلکی سی کس کر کے اسے چھوڑ دیا اور کہا ٹھیک ہے رات کو سارا حساب برابر کریں گے، صبا جلدی سے ناشتہ بنانے میں مصروف ہو گئی جب وہ روٹی بیل رہی تھی تو اس کی چھوٹی سی گانڈ تھوڑا باہر نکلی ہوئی تھی دل تو کر رہا تھا اٹھ کر لن اس چھوٹی سی گانڈ میں گھسا دوں مگر یہ سوچ کر صبر کر لیا کہ آج رات اس گانڈ کا ہی نمبر لگے گا، ناشتہ تیار ہوا تو میں نے جلدی سے ناشتہ کیا اور حنا کے کمرے میں جا کر اس سے ملنے کے بعد گھر سے نکل آیا میرا ارادہ پہلے چچا کی طرف جانے کا تھا کیونکہ ان کے بیٹے کی شادی پر میں اپنے کاروبار کے سلسلے میں شہر سے باہر تھا اس لیے سوچا کہ آج جا کر مبارک باد دینے کے علاوہ معذرت بھی کر آؤں، کیونکہ میرے ابا اور چچا دو ہی بھائی ہیں اور کافی پیار بھی ہے دونوں بھائیوں میں چچا نے ہم سے زیادہ دولت اور اچھا کاروبار ہونے کے باوجود بھی کبھی کوئی فرق نہیں رکھا تھا بلکہ جب میں نے کاروبار شروع کیا تھا تو چچا نے میرا کافی ساتھ دیا تھا اور کوئی 13 لاکھ روپے یہ کہہ کر مجھے زبردستی دے دیے تھے کہ تم بھی تو میرے بیٹے ہی ہو اسے بھی کاروبار میں انویسٹ کرو۔ میرے چچا کے دو ہی بچے تھے سمیر بڑا بیٹا جو کہ مجھ سے 4 سال چھوٹا تھا اور اس سے چھوٹی ہانیہ جو کہ 17 سال کی تھی اور کالج کے فرسٹ ائیر میں تھی، سمیر کی بیوی کا نام سحرش تھا اور وہ راولپنڈی کی رہنے والی تھی، سحرش، سمیر کی خالہ زاد تھی اور اس کی عمر کوئی لگ بھگ 20 یا 21 سال تھی۔ میں نے چچا کے گھر جا کر گیٹ پر ہارن دیا تو چوکیدار نے کھولا ڈرائیو وے میں گاڑی پارک کرنے کے بعد میں نے چوکیدار سے پوچھا کہ چچا کہیں گئے ہیں جو ان کی گاڑی نظر نہیں آ رہی تو اس نے بتایا کہ چچا اور سمیر تو تین دن سے دبئی گئے ہوئے ہیں جبکہ چچی اور ہانیہ رات سیالکوٹ اپنے ماموں کے ہاں گئے ہوئے ہیں گھر پر صرف سمیر صاحب کی بیوی ہیں اور ان کا ایک کزن جو کہ راولپنڈی سے آیا ہے۔ میں نے واپسی کا ارادہ کیا کہ اب کل چکر لگاؤں گا مگر یہ سوچ کر اندر کی جانب قدم بڑھا دیے کہ سحرش سے مل کر معذرت کر لوں اور اسے شادی کے تحائف بھی دے دوں۔ میں لان سے گزر کر اندر داخل ہوا تو کافی تیز اور بے ہنگم قسم کے میوزک کی آواز سمیر کے کمرے سے آ رہی تھی میں سیڑھیاں چڑھتا ہوا سمیر کے کمرے کی جانب بڑھ گیا، کمرے کے سامنے پہنچ کر جیسے ہی میں نے دروازے کو ناک کرنا چاہا تو اندر سے ہلکی ہلکی چیخوں کی آواز آئی میرا ہاتھ جہاں تھا وہیں رک گیا اور میں آوازوں پر غور کرنے لگا پہلے تو میں اسے اس بے ہنگم اور بے ہودہ انگلش میوزک کا حصہ سمجھا مگر غور کرنے پر پتہ چلا کہ یہ آواز اس میوزک کا حصہ نہیں تھا میں نے دروازے کے ہینڈل کو پکڑ کر گھمایا تو دروازہ بے آواز کھل گیا اندر کا ماحول دیکھ کر میرے تو ہوش ٹھکانے آگئے، ایک لڑکی دیوار کی طرف منہ کیے گانڈ باہر کو نکالے کھڑی تھی اور ایک لڑکا گھٹنوں کے بل بیٹھا اس کی چوت کو پیچھے سے چوس رہا تھا، وہ لڑکی کوئی اور نہیں سحرش تھی میں بے آواز قدموں سے کمرے میں داخل ہوا اور ہلکے سے دروازہ بند کر کے اپنی جیبی سے موبائل نکال لیا (کیونکہ ان دونوں کو ایسی حالت میں دیکھ کر میرا شیطانی دماغ اور لن دونوں ہی حرکت میں آ گئے تھے) میں نے کیمرا آن کیا اور ان دونوں کو فوکس کر کے ویڈیو ریکارڈنگ شروع کر دی۔ وہ لڑکا زبردست طریقے سے سحرش کی چوت کو اپنی زبان سے چود رہا تھا اور سحرش مزے سے چلاتے ہوئے اپنی گانڈ کو پیچھے کی جانب دھکیل رہی تھی جس سے لڑکے کا منہ سحرش کی گانڈ میں پیوست ہو رہا تھا کوئی دو منٹ اسی طریقے سے چوسنے کے بعد وہ لڑکا کھڑا ہوا اور آس پاس دیکھتے بنا سحرش کی باہر نکلی ہوئی چوت کے اوپر اپنا لن پھیرنے لگا، سحرش یہ دیکھ کر تھوڑا بدکی مگر لڑکے نے اپنے ایک بازو سے اس کی گردن کو دیوار کے ساتھ دبایا اور سحرش کے کان میں سرگوشی کرنے لگا، اب مجھے لگ رہا تھا کہ سحرش کی چدائی شروع ہونے لگی ہے اسی لیے میں نے اپنی موجودگی کا احساس کرانا ضروری سمجھا اور دھاڑ سے مشابہ آواز کے ساتھ بولا "یہ کیا ہو رہا ہے سحرش اور یہ لڑکا کون ہے" وہ دونوں ایسے پلٹ جیسے پیچھے سے کسی نے بم چلا دیا ہو سحرش کے منہ سے بس اتنا نکلا، اوہ ہ ہ ہ! احمر بھائی آپ............ (سحرش مجھے پہلے سے جانتی تھی اور ہم کافی دوستانہ طریقے سے ایک دوسرے سے ملتے تھے) اتنا کہہ کر وہ ساکت ہو گئی۔ جبکہ وہ لڑکا جلدی میں اپنے کپڑوں کی جانب لپکا اور کپڑے پہننے لگا اس نے پینٹ تو میں نے پھر سے دھاڑا جلدی کپڑے پہن رنڈی کے بچے اس نے بجلدی سے شرٹ پہنی تو میں نے اسے گریبان سے پکڑ کر ایک زناطے دار تھپڑ اس کے رسید کیا اور بولا نام کیا ہے تیرا خبیث انسان وہ گھبرائے ہوئے لہجے میں بولا جی ع....عد....نان، میں نے گھرک کر کہا یہاں سے دفع ہو جا ورنہ ابھی وہ حال کروں گا کہ تیرے ماں باپ بھی نہیں پہچانیں گے اور آئندہ اس گھر میں تو کیا آس پاس بھی دیکھا تو سیدھا گولی مار دوں گا۔ عدنان نے جلدی سے بھاگنے میں ہی عافیت سمجھی اور کمرے سے نکل گیا، میں نے آگے بڑھ کر دروازہ اندر سے لاک کیا تو دروازہ بند ہونے کی آواز سن کر جیسے سحرش سکتے سے باہر نکلی اور جلدی سے بیڈ شیٹ کھینچ کر اپنے آپ کو چھپانے لگی، میں نے کھڑکی میں جا کر دیکھا تو عدنان جلدی میں اپنی کار میں بیٹھ کر اسے سٹارٹ کر رہا تھا میں اس کی تیزی پر حیران ہوا، قہ گاڑی سٹارٹ کر کے گیٹ سے نکل گیا تو میں پلٹا اور سحرش کی طرف دیکھ تو وہ سر کو جھکائے کھڑی تھی اور ہولے ہولے کانپ رہی تھی میں آگے بڑھا اور سحرش کے سامنے جا کھڑا ہوا۔ سحرش کا حسن دیکھنے لائق تھا، پتلا چہرہ اور پھول جیسے ہونٹ جنہیں دیکھتے ہی کاٹ کھانے کو دل کرے اور لمبی صراحی دار گردن میں میں نے کھنکار کر سحرش کو متوجہ کیا تو اس نے ڈرتے ڈرتے سر اوپر اٹھا دیا اور میری طرف دیکھنے لگی اس کی آنکھوں میں ایک خوف اور التجا تھی، وہ کمپکپاتے ہوئے لہجے میں بولی بھائی پلیز میں بہک گئی تھی، پلیز مجھے معاف کر دیں میری عزت اب آپ کے ہاتھ میں ہے، میں کسی کو منہ نہیں دکھا سکوں گی پلیز مجھ پر رحم کر دیں۔ میں نے سحرش کو کندھوں سے پکڑا اور بولا میں کسی کو کچھ نہیں بتاؤں گا مگر میری ایک شرط ہے، سحرش سوالیہ نظروں سے میری جانب دیکھنے لگی تو میں نے اپنی پینٹ کی زپ کھول دی اور اپنا لن باہر نکال دیا جو اس وقت لوہے کے ڈنڈے کی طرح تنا ہوا تھا، سحرش کی تو حیرت سے سیٹی گم ہو گئی اور وہ روہانسی ہو کر بولی نہیں بھائی مجھ پر رحم کریں پلیز یہ نہیں ہو سکتا، آپ سمیر کے بڑے بھائی ہو، میں مر جاؤں گی مگر ایسا نہیں کروں گی......میں نے اپنا موبائل نکالا اور وہ ویڈیو پلے کر دی جو کہ کچھ دیر قبل بنائی تھی اور موبائل سحرش کی آنکھوں کے سامنے کر دیا اور بولا یہ دیکھ لو پھر فیصلہ کرنا مگر یاد رکھو جس حالت میں تم ہو میں چاہوں تو تمہارے ساتھ زبردستی بھی کر سکتا تھا مگر میں چاہتا ہوں کہ جو بھی ہو تمہاری رضا مندی سے ہو ورنہ یہ ویڈیو کیا کر سکتی ہے، اب تو جیسے سحرش کے جسم سے کسی نے خون نچوڑ دیا تھا وہ یک ٹک میری طرف دیکھی جا رہی تھی، میں آگے بڑھا اور بیڈ شیٹ (جو کہ سحرش نے لپیٹی ہوئی تھی) کو پکڑ کر ایک جھٹکے سے کھینچا اور اس کے جسم سے الگ کر دیا۔

سحرش کے جسم سے بیڈ شیٹ ہٹتے ہی اس کا ننگا جسم میرے سامنے تھا، اس کی گوری جلد اور بے عیب جسم کی بناوٹ دیکھ کر میرا لن اور بھی تن کر کھڑا ہو گیا۔ سحرش کی آنکھوں میں خوف اور شرم کا ملغوبہ تھا، لیکن اس کے جسم کی گرمی اور اس کی سانسوں کی تیزی بتا رہی تھی کہ وہ ابھی تک اس جنسی جوش میں تھی جو عدنان کے ساتھ شروع ہوا تھا۔ میں نے اس کے کندھوں سے ہاتھ ہٹائے اور اس کے چہرے کو اپنے ہاتھوں میں لے کر اس کی آنکھوں میں دیکھا۔ اس کی سانس گرم تھی اور اس کا جسم ہلکا ہلکا کانپ رہا تھا۔ میں نے آہستہ سے کہا، "سحرش، تم جانتی ہو کہ یہ راز ہمارے درمیان رہے گا، بس تمہیں میری بات ماننی ہوگی۔"

سحرش نے کمپکپاتی آواز میں کہا، "بھائی، پلیز... میں سمیر کی بیوی ہوں، یہ غلط ہے۔" لیکن اس کی آواز میں وہ پختگی نہیں تھی جو اسے روک سکتی۔ میں نے مسکراتے ہوئے اس کے ہونٹوں پر اپنی انگلی رکھی اور کہا، "سحرش، تم نے عدنان کے ساتھ جو کیا وہ بھی تو غلط تھا، لیکن میں تمہاری عزت رکھنا چاہتا ہوں۔ بس ایک بار میری بات مان لو، پھر یہ ویڈیو ہمیشہ کے لیے غائب ہو جائے گی۔"

سحرش کی آنکھوں میں آنسو چمکے، لیکن اس نے ہلکی سی سر ہلائی، جیسے ہار مان لی ہو۔ میں نے اسے آہستہ سے بیڈ پر دھکیلا اور اس کے اوپر جھک گیا۔ اس کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں سے چھوا اور ایک گہری، طوفانی بوسہ لیا۔ سحرش نے پہلے تو ہچکچاہٹ دکھائی، لیکن پھر اس کے ہاتھ میرے کندھوں پر آ گئے اور وہ بھی بوسے کا جواب دینے لگی۔ اس کی سانسوں کی گرمی اور اس کے جسم کی نرمائی نے مجھے اور دیوانہ کر دیا۔

میں نے اپنے ہاتھ اس کے سینے پر پھیرے، اس کے مموں کو آہستہ سے دبایا۔ وہ نرم اور گرم تھے، اور سحرش کی سسکیاں بلند ہونے لگیں۔ میں نے اپنا منہ اس کے گلے پر لے جا کر اسے چومنا شروع کیا، پھر آہستہ آہستہ اس کے سینے تک پہنچا۔ اس کے مموں کو چوسنے لگا، اور سحرش نے اپنی کمر اٹھا کر اپنے جسم کو میرے قریب کیا۔ اس کی آہوں میں اب درد کی جگہ لذت نے لے لی تھی۔

میں نے اپنا ہاتھ اس کی رانوں پر پھیرا اور اس کی چوت تک پہنچا۔ وہ پہلے ہی گیلی تھی، اور میری انگلیوں کے چھونے سے اس کا جسم ایک دم سے سیکڑ گیا۔ میں نے اپنی دو انگلیاں اس کی چوت میں داخل کیں اور آہستہ آہستہ اندر باہر کرنے لگا۔ سحرش کی آہیں بلند سے بلند تر ہوتی گئیں، اور وہ اپنی گانڈ اٹھا اٹھا کر میری انگلیوں کے ساتھ تال ملانے لگی۔

اب میں نے اپنی پینٹ مکمل طور پر اتار دی اور اپنا تنا ہوا لن اس کی چوت کے قریب لایا۔ سحرش نے ایک دم سے میری طرف دیکھا، اس کی آنکھوں میں خوف اور خواہش کا ایک عجیب سا امتزاج تھا۔ میں نے اس کی ٹانگیں اٹھائیں اور اپنے کندھوں پر رکھیں، پھر اپنے لن کا ٹوپا اس کی چوت پر سیٹ کیا۔ سحرش نے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور کہا، "بھائی، آہستہ... پلیز۔" میں نے مسکراتے ہوئے کہا، "فکر نہ کرو، تمہیں مزہ آئے گا۔"

میں نے آہستہ سے دھکا مارا، اور میرا لن اس کی تنگ چوت میں داخل ہونے لگا۔ سحرش نے ایک بلند چیخ ماری، لیکن اس بار اس کی چیخ میں درد کے ساتھ ساتھ لذت بھی شامل تھی۔ میں نے اپنی رفتار آہستہ رکھی، لیکن ہر دھکے کے ساتھ اس کی چوت میرے لن کو مکمل طور پر قبول کرنے لگی۔ سحرش کے ہاتھ میری کمر پر آ گئے اور وہ مجھے اپنی طرف کھینچنے لگی۔ اس کی آہوں نے کمرے کو ایک طوفانی ماحول میں بدل دیا تھا۔

میں نے اپنی رفتار تیز کی اور ہر دھکا زور دار ہوتا گیا۔ سحرش کی چیخیں اب مکمل طور پر لذت میں بدل چکی تھیں۔ وہ اپنی گانڈ اٹھا اٹھا کر میرے دھکوں کا جواب دے رہی تھی۔ میں نے اس کے مموں کو زور سے دبایا اور اس کے ہونٹوں کو چوسنے لگا۔ اس کا جسم ہر دھکے کے ساتھ کانپ رہا تھا، اور اس کی آہوں نے مجھے جنون کی حد تک پہنچا دیا۔

کچھ ہی دیر میں سحرش کا جسم اچانک اکڑ گیا، اور اس نے ایک زور دار چیخ کے ساتھ اپنا پانی چھوڑ دیا۔ اس کی چوت نے میرے لن کو اتنا زور سے جکڑا کہ میں بھی اپنی حد پر پہنچ گیا۔ میں نے ایک آخری زور دار دھکا مارا اور اپنا لاوا اس کی چوت میں اگل دیا۔ ہم دونوں کی سانسیں تیز تیز چل رہی تھیں، اور ہم ایک دوسرے سے لپٹ کر لیٹ گئے۔

کچھ دیر بعد جب ہماری سانسیں بحال ہوئیں، سحرش نے شرماتے ہوئے کہا، "بھائی، یہ ویڈیو... آپ اسے ڈیلیٹ کر دیں گے نا؟" میں نے اسے اپنی طرف کھینچ کر ایک گہرا بوسہ دیا اور کہا، "یہ ہمارا راز ہے، سحرش۔ یہ ویڈیو کہیں نہیں جائے گی۔" اس نے ایک گہری سانس لی اور میرے سینے سے لگ گئی۔

اس کے بعد ہم دونوں نے کپڑے پہنے اور میں نے اسے شادی کے تحائف دیے۔ سحرش نے شرماتے ہوئے کہا، "بھائی، آپ سمیر کو کچھ نہیں بتائیں گے نا؟" میں نے مسکرا کر کہا، "بس تم رات کو دوبارہ ملنے کا وعدہ کرو۔" سحرش نے شرم سے سر جھکا لیا اور ہلکی سی ہامی بھری۔ میں اسے چھوڑ کر گھر سے نکل آیا، لیکن دل میں ایک طوفان سا اٹھ رہا تھا کہ یہ راز اب ہمارے درمیان ایک نئی کہانی کا آغاز تھا۔

 

 


ایک تبصرہ شائع کریں (0)
جدید تر اس سے پرانی