میں آپ کو کہانی کے کرداروں کے بارے میں بتا دیتا ہوں۔ میرا نام اسلم قریشی ہے، عمر 21 سال، لنڈ کا سائز 9 انچ لمبا اور 3 انچ موٹا۔ میری بیوی سانیہ قریشی، عمر 19 سال، فگر سائز 34-28-32۔ میری امی صدف قریشی، عمر 45 سال، فگر سائز 38-32-38۔ اب سیدھے کہانی شروع کرتا ہوں۔
میرا نام اسلم قریشی ہے۔ ہم لوگ گاؤں کے رہنے والے ہیں۔ ہمارا گاؤں شہداد کوٹ سے 35 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ ہمارے گھر میں ہم تین لوگ تھے۔ میں، ہمارے ابو، اور ہماری امی۔ میری امی بہت اچھی اور بہت خوبصورت تھیں۔ ان کا ملائم سیکسی جسم دیکھ کر کسی کا بھی لنڈ کھڑا ہو جاتا تھا۔
ابو کی عمر 50 سال تھی۔ میرے ابو کراچی میں رہ کر ایک فیکٹری میں سپروائزر کی نوکری کرتے تھے۔ وہاں وہ اکیلے رہتے تھے اور خود ہی گھر کا سارا کام کرتے تھے۔ ابو خود ہی کھانا بھی بناتے تھے۔ لیکن جب ابو کو کھانا بنانے اور گھر کے کام کرنے میں دشواری ہونے لگی تو انہوں نے ہمیں کراچی بلا لیا۔
میں اور امی کراچی آ گئے اور میں وہاں رہ کر پڑھائی کرنے لگا۔ بی اے تک پڑھائی پوری کی اور پھر نوکری کی تلاش میں لگ گیا۔ ابھی مجھے نوکری تلاش کرتے ہوئے ایک سال گزر چکا تھا کہ اچانک ایک افسوسناک حادثے میں ابو کی موت ہو گئی۔
اس وقت میری عمر 21 سال کی ہو چکی تھی۔ اب تک میں ایک دم ہٹا کٹا نوجو ان بن گیا تھا۔ میرے اندر طاقت بھی بہت تھی کیونکہ میں گاؤں میں پہلے کشتی بھی لڑتا تھا۔ مجھے ابو کی جگہ پر نوکری مل گئی۔ اب گھر میں میرے اور امی کے علاوہ کوئی نہیں تھا۔ امی مجھ سے بہت پیار کرتی تھیں۔ میں بھی ان کی بہت دیکھ بھال کرتا تھا اور وہ میری دیکھ بھال بھی کرتی تھیں۔ امی کو ہی گھر کے سارے کام کرنے پڑتے تھے۔ کبھی کبھی میں بھی ان کے کام میں ہاتھ بٹا دیا کرتا تھا۔ امی اب مجھے بار بار نکاح کرنے کے لیے کہہ رہی تھیں۔
ایک دن امی نے مجھ پر نکاح کے لیے زیادہ دباؤ ڈالا تو میں نے نکاح کے لیے ہاں کر دیا۔
امی کے ایک دور کے رشتہ دار تھے جو گاؤں میں رہتے تھے۔ ان کی ایک لڑکی تھی جس کا نام سانیہ تھا۔ امی نے سانیہ کے ساتھ میرا نکاح کی بات چلائی۔ امی نے نکاح پکی کرنے سے پہلے سانیہ کی تصویر دکھا کر مجھ سے پوچھا، بولو، لڑکی کیسی ہے؟
میں نے سانیہ کی تصویر دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ میں نے سمجھا تھا کہ گاؤں کی لڑکی ہوگی تو زیادہ خوبصورت نہیں ہوگی، لیکن سانیہ بہت ہی خوبصورت تھی۔ میں نے تصویر دیکھ کر ہاں کر دی۔
سانیہ کی عمر اس وقت 19 سال تھی۔ خیر، ہمارا نکاح پکا ہو گیا۔ سانیہ کے امی ابو غریب تھے، اس لیے زیادہ دیکھاوا نہ کرتے ہوئے ایک مہینے کے اندر ہمارا نکاح ہو گیا۔
نکاح ہو جانے کے بعد دوپہر کو امی مجھے اور سانیہ کو لے کر کراچی آ گئیں۔ گھر پر کچھ پڑوسی بہو دیکھنے آئے۔ جس نے بھی سانیہ کو دیکھا، اس نے بہت تعریف کی۔ شام تک سب لوگ اپنے اپنے گھر چلے گئے۔ اب رات کے 8 بج چکے تھے۔
امی نے مجھ سے کہا، آج میں بہت تھک گئی ہوں۔ آج تم ہوٹل سے جا کر کھانا لے آؤ۔
میں نے کہا، ٹھیک ہے امی۔
میں نے جھولا اٹھایا اور کھانا لینے چلا گیا۔ میرا ایک دوست تھا جاکر، اسی کا ہوٹل تھا۔ میں سیدھا اسی کے پاس چلا گیا۔
جاکر نے مجھے دیکھتے ہی کہا، آج ادھر کیسے؟
میں نے اسے ساری بات بتا دی۔ میری نکاح کی بات سن کر جاکر بہت خوش ہوا۔ ہم دونوں کچھ دیر تک گپ شپ کرتے رہے۔
جاکر نے مجھ سے کہا، اگر تمہیں مزہ لینا ہے تو میں تمہیں ایک طریقہ بتاتا ہوں۔
میں نے کہا، بتاؤ۔
وہ بولا، تم کچھ دن تک سانیہ کی چوت کو ہاتھ بھی مت لگانا۔ تم صرف اس کی گانڈ مارنا اور اسے اپنے قابو میں رکھنا۔ کچھ دن کے بعد تم اس کی چوت کی چدائی کرنا۔
میں نے سوچا جاکر ٹھیک کہہ رہا ہے۔ ٹھیک ہے، میں ایسا ہی کروں گا۔
اس نے میرے لیے سب سے اچھا کھانا جو اس کے ہوٹل میں بنتا تھا، پیک کروا دیا۔ میں کھانا لے کر واپس گھر آ گیا۔
ہم سب نے کھانا کھایا۔ امی نے سانیہ کو میرے کمرے میں پہنچا دیا۔ اس کے بعد امی نے مجھے اپنے کمرے میں بلایا اور کہا، سانیہ بھی بہت چھوٹی ہے۔ جو بھی کرنا، بہت آرام سے کرنا۔
میں نے امی سے مزاق کیا اور کہا، مجھے کیا کرنا ہے؟
امی ہنس کر بولیں، شیطان کہیں کا! جیسے تمہیں تو پتا ہی نہیں کہ کیا کرنا ہے۔
میں نے کہا، سچ میں امی، مجھے کچھ نہیں معلوم۔
امی مسکراتے ہوئے بولیں، اس سے پہلے پیار کی دو باتیں کرنا۔ اس کے بعد اپنے اوزار پر زیادہ سا تیل لگا لینا۔ پھر اپنا اوزار اس کے سوراخ میں دھیرے دھیرے گھسا دینا۔ جلد بازی مت کر دینا، ورنہ وہ بہت چلائے گی۔ ابھی وہ کمسن عمر کی ہے۔ سمجھ گئے ناں؟
میں نے کہا، ٹھیک ہے امی، میں سب سمجھ گیا۔
امی نے کہا، سمجھ گیا تو جا اپنے کمرے میں۔
میں اپنے کمرے میں آ گیا۔ سانیہ بستر پر بیٹھی تھی۔ میں اس کے برابر میں بیٹھ گیا اور پوچھا، میں تمہیں پسند تو ہوں ناں؟
اس نے اپنا سر ہاں میں ہلا دیا۔
میں نے کہا، ایسے نہیں، بول کر بتاؤ۔
سانیہ شرما کر بولی، ہاں۔
میں نے پوچھا، تم کہاں تک پڑھی ہو؟
وہ بولی، صرف آٹھویں تک۔
میں نے سانیہ سے کہا، میری امی نے مجھے خود سکھایا ہے۔ کیا تمہیں بھی کسی نے کچھ سکھایا ہے؟
اس پر سانیہ کچھ نہیں بولی۔
میں نے کہا، اگر تم کچھ نہیں بولو گی تو میں باہر چلا جاؤں گا۔ اور اتنا کہہ کر میں بستر سے کھڑا ہو گیا تو اس نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور میں اس کے برابر میں بیٹھ گیا۔
وہ کہنے لگی، میرے گھر میں بھی صرف امی اور ابو ہی ہیں۔ انہوں نے مجھے کچھ بھی نہیں کہا۔ لیکن میری پڑوسن بھابھی نے مجھ سے کہا تھا کہ جب تمہارا شوہر اپنا اوزار تمہارے سوراخ میں گھسائے گا تو تمہیں بہت درد ہوگا۔ اس درد کو برداشت کرنے کی کوشش کرنا۔ زیادہ چلانا مت، ورنہ بہت بدنامی ہوگی۔ اپنے شوہر سے کہہ دینا کہ اپنے اوزار پر ڈھیر سارا تیل لگا لے۔ لیکن میں نے آج تک اوزار نہیں دیکھا۔ یہ اوزار ہوتا کیسا ہے؟
میں نے کہا، تم نے کبھی پیشاب کرتے وقت آدمی کی ننی دیکھی ہے؟
اس نے کہا، ہاں، گاؤں میں تو آدمی کبھی بھی کہیں بھی پیشاب کرنے لگتے ہیں۔ آتے جاتے وقت گاؤں میں کئی بار دیکھی ہے۔ لیکن اسے تو گاؤں میں لنڈ کہتے ہیں۔
میں نے کہا، اسی کو اوزار بھی کہتے ہیں۔
وہ بولی، میں نے دیکھا ہے۔ کسی کسی کا اوزار تو بہت بڑا ہوتا ہے۔
میں نے کہا، جیسے آدمی کئی طرح کے ہوتے ہیں، ویسے ہی آدمی کا اوزار بھی کئی طرح کا ہوتا ہے۔ میرا اوزار دیکھو گی؟
وہ بولی، مجھے شرم آتی ہے۔
میں نے کہا، اب تو میرا اوزار تمہیں ہمیشہ دیکھنا پڑے گا۔ اسے ہاتھوں میں بھی پکڑنا پڑے گا۔ بولو، تم دیکھو گی میرا اوزار؟
وہ بولی، ٹھیک ہے، دکھاؤ۔
میں پہلے سے ہی جوش میں تھا۔ میں نے اپنی شرٹ اور بنیان اتار دی۔ اس کے بعد میں نے اپنی پینٹ اور چڈی بھی اتار دی۔ اب میرا 9 انچ لمبا اور خوب موٹا کھٹے جیسا پھنپھناتا ہوا لنڈ اس کی آنکھوں کے سامنے آ گیا۔
میں نے اپنا لنڈ اس کے چہرے کے سامنے کر دیا اور اپنا لنڈ ہلاتے ہوئے کہا، لو، دیکھ لو میرا اوزار۔
اس نے ترچھی نگاہوں سے میرے لنڈ کو دیکھا اور شرماتے ہوئے بولی، تمہارا تو بہت بڑا ہے۔
اتنا کہتے ہوئے اس نے اپنے ہاتھوں سے چہرہ ڈھانپ لیا۔
میں نے اس کا ہاتھ اس کے چہرے سے ہٹایا اور کہا، شرماتی کیوں ہو؟ جی بھر کر دیکھ لو۔ اب تو ساری زندگی تمہیں میرا اوزار دیکھنا ہے۔ اور اسے اپنے سوراخ کے اندر بھی لینا ہے۔ میں نے تو اپنے سارے کپڑے اتار دیے ہیں۔ اب تم بھی اپنے کپڑے اتار دو۔
وہ بولی، میں کپڑے کیسے اتار سکتی ہوں؟ مجھے شرم ہوتی ہے۔
میں نے کہا، اگر تم اپنے کپڑے نہیں اتارو گی تو میں اپنا اوزار تمہارے سوراخ میں کیسے گھساؤں گا؟
وہ کچھ نہیں بولی۔
میں نے خود ہی سانیہ کے سارے کپڑے اتارنے شروع کر دیے۔ تو وہ شرمانے لگی۔
میں نے اسے دھیرے دھیرے ایک دم ننگی کر دیا۔ میں اس کے سنگ مرمر جیسے بدن کو دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ اس کی چھاتیاں بہت چھوٹی چھوٹی تھیں۔
میں نے اسے بستر پر لٹا دیا اور اس کی چھاتیوں کو سہلاتے ہوئے اس کے ہونٹوں کو چومنے لگا۔ میں نے دیکھا کہ اس کی چوت پر ہلکے ہلکے بال اگے ہوئے تھے اور اس کی چوت ایک دم گلابی تھی۔
میں نے اس کی چھاتیوں کو مسلنا شروع کر دیا تو وہ بولی، مجھے گدگدی ہو رہی ہے۔
میں نے پوچھا، کیا اچھا نہیں لگ رہا؟
وہ بولی، بہت اچھا لگ رہا ہے۔
میں نے اس کے نپل کو باری باری منہ میں لے کر چوسنا شروع کر دیا۔
وہ گرم سسکیاں بھرنے لگی۔ اس کے بعد میں نے اس کی چوت کو سہلانا شروع کر دیا۔ اسے اور بھی زیادہ گدگدی ہونے لگی۔
اس نے میرا ہاتھ ہٹا دیا تو میں نے پوچھا، کیا ہوا؟
وہ بولی، مجھے بہت زور کی گدگدی ہو رہی ہے۔
میں نے کہا، اچھا نہیں لگ رہا کیا؟
وہ بولی، اچھا لگ رہا ہے۔
میں نے کہا، تو تم نے میرا ہاتھ کیوں ہٹایا؟ اگر ایسی ہی کرو گی تو میں باہر چلا جاؤں گا۔
وہ بولی، ٹھیک ہے، اب میں تمہیں کچھ کرنے سے منع نہیں کروں گی۔
میں نے کہا، پھر ٹھیک ہے۔
میں نے اس کی چوت کو سہلانا شروع کر دیا۔ تھوڑی دیر میں اس کی چوت گیلی ہونے لگی۔ وہ زور زور سےلذت بھری سسکیاں بھرنے لگی۔ میں نے اپنی ایک انگلی اس کی چوت کے اندر ڈال دی تو اس نے زور کی سسکی لی۔
میرا لنڈ اب تک بہت زیادہ سخت ہو چکا تھا۔ تھوڑی دیر تک میں نے اپنی انگلی اس کی چوت کے اندر باہر کرتا رہا۔
کچھ ہی دیر میں وہ اکڑنے کے ساتھ جھڑنے لگی۔ جھڑنے کے ساتھ اس نے مجھے زور سے پکڑ لیا۔ وہ سسکتے ہوئے بولی، تمہاری انگلی کرنے سے مجھے پیشاب سی آ رہی ہے۔
میں نے کہا، یہ پیشاب نہیں ہے۔ تمہارے جوش میں آنے کے بعد تمہاری چوت سے پانی آ رہا ہے۔
وہ کچھ نہیں بولی۔
میری انگلی اس کی چوت کے پانی سے بالکل گیلی ہو چکی تھی۔ میں نے اس کے جھڑنے کے بعد بھی انگلی چلانی جاری رکھی۔
تھوڑی ہی دیر میں وہ پھر سے پورے جوش میں آ گئی۔
میں نے کہا، اب میں اپنا اوزار تمہارے سوراخ میں گھساؤں گا۔ اب تم پیٹ کے بل لیٹ جاؤ۔
وہ پیٹ کے بل لیٹ گئی۔
میں نے دیکھا کہ اس کی گانڈ بالکل گوری اور ایک دم ملائم فوم جیسی تھی۔ اس کی گانڈ کا سوراخ بہت ہی مست اور ہلکے بھورے رنگ کا تھا۔
میں نے اپنی انگلی اس کی گانڈ کے سوراخ پر پھیرنا شروع کر دیا۔ میں نے ایک جھٹکے سے انگلی اس کی گانڈ میں گھسا دی۔
وہ زور سے چیخ اٹھی۔
میں نے کہا، اگر تم چیخو گی تو امی آ جائیں گی۔
وہ کراہتے ہوئے بولی، مجھے درد ہو رہا ہے۔
میں نے کہا، درد تو ہوگا ہی۔ ابھی تو انگلی ڈالی ہے، ابھی اپنا لنڈ تمہاری گانڈ میں گھساؤں گا۔
وہ بولی، میرا سوراخ بہت چھوٹا ہے اور تمہارا اوزار بہت بڑا ہے۔ یہ ہمارے سوراخ کے اندر کیسے گھسے گا؟
میں نے کہا، جیسے دوسری عورتوں کے اندر گھستا ہے۔
وہ بولی، تب تو مجھے بہت درد ہوگا۔
میں نے کہا، اسی لیے تمہاری پڑوسن بھابھی نے کہا تھا کہ تمہیں درد ہوگا۔ درد برداشت کرنا۔ زیادہ چیخنا چلانا مت۔
وہ بولی، میں سمجھ گئی۔
میں اس کے اوپر چڑھ گیا تو وہ بولی، تیل نہیں لگاؤ گے کیا؟
میں نے کہا، تم اپنے ہاتھوں سے میرے لنڈ پر تیل کی مالش کر دو۔
وہ میرے لنڈ پر تیل لگانے لگی۔
اس کے بعد میں نے اسے پیٹ کے بل بستر پر لٹا دیا۔ اور میں نے اپنے لنڈ کا ٹوپا اس کی گانڈ کے سوراخ پر رکھا۔ اور کہا، اپنا منہ دبا لو، جس سے تمہارے منہ سے چیخ نہ نکلے۔
اس نے کہا، ٹھیک ہے، میں دبا لیتی ہوں، لیکن تم دھیرے دھیرے گھسانا۔ اس نے اپنے ہاتھوں سے اپنا منہ دبا لیا۔ میں نے تھوڑا سا زور لگایا اور وہ زور سے چیخ پڑی۔ میرے لنڈ کا ٹوپا بھی ابھی ٹھیک سے اس کی گانڈ میں نہیں گھسا تھا اور وہ رونے لگی۔
وہ بولی، مجھے چھوڑ دو، بہت درد ہو رہا ہے۔
میں نے کہا، درد تو ہوگا ہی، تم اپنا منہ زور سے دبا لو۔
اس نے اپنا منہ پھر سے دبا لیا۔ تو میں نے اس بار زور سے جھٹکا دیا۔ وہ درد سے تڑپتے ہوئے زور زور سے چیخنے لگی۔ اُئی امی، بچاؤ مجھے، نہیں تو میں مر جاؤں گی۔
اس بار میرے لنڈ کا ٹوپا اس کی گانڈ میں گھس گیا تھا۔ اس کی گانڈ سے خون نکل آیا تھا۔
وہ اتنا زور سے چیخ رہی تھی کہ میں تھوڑا سا ڈر گیا تھا۔
میں نے ایک جھٹکے میں اپنا لنڈ باہر کھینچ لیا۔ پک کی آواز کے ساتھ میرےلنڈ کا ٹوپا اس کی گانڈ سے باہر آ گیا۔
میں نے اسے چپ کراتے ہوئے کہا، تم ایسی چیخو گی تو کام کیسے بنے گا؟
وہ بولی، میں کیا کروں، مجھے بہت درد ہو رہا ہے۔
میں نے کہا، تم تھوڑا صبر سے کام لو، سب ٹھیک ہو جائے گا۔ اب تم اپنا منہ دبا لو، میں پھر سے کوشش کرتا ہوں۔
اس نے اپنا منہ پھر سے دبا لیا۔ تو میں نے پھر سے اپنے لنڈ کا ٹوپا اس کی گانڈ کے سوراخ پر رکھ دیا۔ اور اس کی کمر کے نیچے ہاتھ گھسا کر اس کی کمر کو کس کر پکڑ لیا۔ پھر میں نے پوری طاقت کے ساتھ زور کا دھکا دیا۔
وہ بہت زور زور سے چلانے لگی۔ وہ میرے نیچے سے نکلنا چاہتی تھی، لیکن میں نے اسے کس کر پکڑ رکھا تھا۔ میرا لنڈ گھس کر اس کی گانڈ میں 3 انچ تک گھس گیا تھا۔
وہ زور زور سے چلاتے ہوئے امی کو پکار رہی تھی۔ امی، بچاؤ مجھے، نہیں تو یہ مجھے مار ڈالیں گے… بہت درد ہو رہا ہے مجھے۔
تبھی کمرے کے باہر سے امی کی آواز آئی، اسلم، کیا ہوا؟ سانیہ اتنا کیوں چلا رہی ہے؟
میں نے کہا، میں اپنا اوزار اندر گھسا رہا تھا، یہ گھسانے نہیں دے رہی، بہت چلا رہی ہے۔
امی نے کہا، تم دونوں باہر آؤ، میں سانیہ کو سمجھا دیتی ہوں۔
میں نے دھوتی پہن لی اور میں نے سانیہ سے کہا، باہر چلو، امی بلا رہی ہیں۔
وہ اٹھنا چاہ رہی تھی لیکن اٹھ نہیں پا رہی تھی۔ میں نے اسے سہارا دے کر اٹھایا اور اس نے اپنے بدن پر صرف چادر لپیٹ لی۔
میں اسے سہارا دے کر باہر لے آیا، وہ ٹھیک سے چل بھی نہیں پا رہی تھی۔ امی نے سانیہ سے پوچھا، اتنا کیوں چلا رہی تھی؟ سانیہ روتے ہوئے بولی، امی، یہ اپنا اوزار میرے کھیت میں گھسا رہے تھے… اس لیے مجھے بہت درد ہو رہا تھا۔
امی نے کہا، پہلی بار ہر عورت کو درد ہوتا ہے، یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ امی نے مجھ سے کہا، میں نے تم سے کہا تھا ناں کہ تیل لگا لینا اور دھیرے دھیرے گھسانا۔
میں نے کہا، میں تیل لگا کر دھیرے دھیرے ہی گھسانے کی کوشش کر رہا تھا۔ جیسے ہی میں نے تھوڑا سا زور لگایا اور میرے اوزار کا ٹوپہ اس کے کھیت میں پہنچا، یہ زور زور سے چلانے لگی۔ اس کے چلانے سے میں ڈر گیا اور اپنا اوزار باہر نکال لیا۔ اس کے بعد میں نے اسے سمجھایا تو یہ راضی ہو گئی۔ میں نے پھر سے کوشش کی تو سانیہ زور زور سے چلانے لگی، حالانکہ میرا اوزار ذرا سا ہی اندر گھسا تھا۔ تبھی آپ نے ہم دونوں کو بلا لیا اور ہم دونوں باہر آ گئے۔
امی نے کہا، اس کا مطلب ابھی تک تم نے کچھ نہیں کیا؟ میں نے کہا، بالکل نہیں، آپ چاہیں تو سانیہ سے پوچھ لیں۔
امی نے کہا، کیا یہ سچ کہہ رہا ہے؟ سانیہ نے اپنا سر ہاں میں ہلا دیا۔ امی نے کہا، تم اپنے کمرے میں جاؤ، میں اسے سمجھا بجھا کر بھیجتی ہوں۔
سانیہ کمرے میں چلی گئی۔ امی نے مجھے سمجھاتے ہوئے کہا، اس بار بہت دھیرے دھیرے اس کے سوراخ میں گھسانا، ورنہ میں بہت ماروں گی۔
میں نے ہنستے ہوئے کہا، میں دھیرے دھیرے ہی گھسا رہا تھا، لیکن کیا کروں، اس کا سوراخ بہت چھوٹا ہے۔
امی نے کہا، پھر تو اس طرح کام نہیں بنے گا۔ تم اس کے ساتھ تھوڑا زبردستی کرنا۔ لیکن زیادہ زبردستی نہ کرنا کیونکہ یہ کمسن عمر کی ہے۔ اسی لیے اسے زیادہ تکلیف ہو رہی ہے۔
میں نے کہا، ٹھیک ہے۔ اتنا بول کر امی مسکرانے لگیں۔
میں کمرے میں آیا اور اپنی دھوتی اتار دی۔ میں نے سانیہ سے چادر اتارنے کے لیے کہا تو سانیہ نے اس بار خود ہی جسم پر لپٹی چادر اتاردی ۔اور چادر اتارنے کے بعد پیٹ کے بل بستر پر لیٹ گئی۔
میں نے اپنے لنڈ پر ڈھیر سارا تیل لگایا اور اس کے اوپر چڑھ گیا۔ اس کے بعد جیسے ہی میں نے اپنے لنڈ کا ٹوپا اس کی گانڈ کے سوراخ پر رکھا، اس نے اپنا منہ دبا لیا۔ تو میں نے تھوڑا زور لگایا، اس بار اس نے دھیرے سے چلایا۔ اور میرے لنڈ کا ٹوپا اس کی گانڈ میں گھس گیا۔ میں اپنے لنڈ کا ٹوپا ہی اس کی گانڈ میں اندر باہر کرنے لگا۔ سانیہ آہیں بھرنے لگی۔
تھوڑی دیر بعد جیسے ہی میں نے زور لگایا، سانیہ زور سے آہیں بھرنے لگی۔ تھوڑی سی کوشش کے ساتھ میرا لنڈ 2 انچ اس کی گانڈ میں گھس گیا۔ اس کی آہ نکل گئی… اوووہ امی، مر گئی…
میں نے تھوڑا اور زور لگایا، سانیہ زور زور سے رونے اور چلانے لگی۔ میرا لنڈ بہت موٹا تھا، اس لیے 3 انچ ہی میرا لنڈ سانیہ کی گانڈ میں گھس پایا۔
میں کچھ دیر کے لیے رک گیا۔ لیکن بہت درد کے مارے وہ ابھی بھی زور زور سے چلا رہی تھی۔ مجھے غصہ آیا اور میں نے ایک زور کا دھکا مارا، جس سے میرا آدھا لنڈ سانیہ کی گانڈ میں گھس گیا۔ اس سے وہ اور زور زور سے چلانے لگی… آآآہ… امی، بچاؤ مجھے، میں مر گئی… امی، مجھے بچاؤ، میں مر جاؤں گی۔
اس کے چلانے کی آواز سن کر باہر سے امی نے پوچھا، اب کیا ہوا؟ سانیہ روتے ہوئے بولی، امی، مجھے بچاؤ، ورنہ میں مر جاؤں گی۔
امی نے کہا، اچھا، تم دونوں باہر آ جاؤ۔ میں نے اپنا لنڈ اس کی گانڈ سے باہر نکالا اور ہٹ گیا۔ میرے لنڈ پر ڈھیر سارا خون لگا ہوا تھا۔
اس کے بعد ہم دونوں نے کپڑے پہنے اور باہر آ گئے۔ سانیہ ٹھیک سے چل نہیں پا رہی تھی، میں اسے سہارا دے کر باہر لے کر آیا۔
باہر آنے کے بعد امی نے سانیہ کو سمجھایا، دیکھو سانیہ، تم اس طرح چلاؤ گی تو کیسے ہوگا؟ ہر لڑکی کو پہلی بار درد سہنا ہوتا ہے۔ اور اسے درد برداشت کرنا پڑتا ہے۔
سانیہ روتے ہوئے کہنے لگی، امی، میں نے اپنے آپ کو بہت سنبھالنے کی کوشش کی۔ لیکن میں درد برداشت نہیں کر پائی اور میرے منہ سے چیخ نکل گئی۔ ان کا اوزار بھی بہت لمبا اور موٹا ہے۔
امی نے کہا، اوزار سب کا بڑا ہوتا ہے، لیکن جب ایک بار اندر پہنچ جاتا ہے تو پھر بڑا نہیں لگتا۔ اس کے بعد ہر عورت کو مزہ آتا ہے اور تمہیں بھی آئے گا۔
سانیہ نے کہا، امی، میرا یقین کرو، ان کا اوزار بہت ہی بڑا ہے۔ میں نے گاؤں میں بہت لوگوں کو پیشاب کرتے دیکھا ہے۔ لیکن ان جیسا اوزار میں نے آج تک کسی کا نہیں دیکھا۔ اگر آپ چاہیں تو خود ہی دیکھ لیں، اگر آپ ایک بار دیکھ لو گی تو خود ہی میری بات کا یقین کر لیں گی۔
امی نے کہا، اسلم، ذرا اپنا اوزار دکھاؤ۔ میں بھی دیکھوں کہ یہ بار بار کیوں تمہارے اوزار کو بڑا کہہ رہی ہے۔
میں نے کہا، امی، مجھے شرم آتی ہے۔
امی نے کہا، میں تیری امی ہوں اور تجھے بچپن سے دیکھا ہے۔ مجھ سے شرم کیسی؟ چل، باہر نکال کر دکھا مجھے اپنا اوزار۔
میں شرماتے ہوئے اپنی دھوتی کھول دی۔ میرا لنڈ پہلے سے ہی کھڑا تھا۔ میرا 9 انچ لمبا اور خوب موٹا لنڈ باہر آ گیا، جس پر خون لگا ہوا تھا۔
امی نے جیسے ہی میرا لنڈ دیکھا، اپنے منہ پر ہاتھ رکھ لیا اور بولی، ہائے ماں … تیرا اوزار سچ مچ میں بہت بڑا ہے۔ میں نے بھی ابھی تک اپنی زندگی میں ایسا اوزار کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اب میری سمجھ میں آیا کہ سانیہ اتنا کیوں چلا رہی تھی۔
میں نے دیکھا کہ میرا لنڈ دیکھ کر امی کی آنکھیں گلابی ہونے لگی تھیں۔ انہیں بھی جوش آنے لگا تھا۔ کیونکہ انہوں نے میرا لنڈ دیکھتے ہی اپنا ایک ہاتھ اپنی چوت پر رکھ دیا۔
میں نے لنڈ لہراتے ہوئے کہا، امی، آپ ہی بتاؤ، میں اپنا اوزار چھوٹا تو نہیں کر سکتا۔
امی نے کہا، سانیہ، سچ میں اس کا لنڈ بہت ہی لمبا اور موٹا ہے۔ تمہیں درد برداشت کرنا پڑے گا، ورنہ بہت بدنامی ہوگی۔
امی نے سانیہ کو سمجھایا تو وہ مان گئی۔ امی نے کہا، سانیہ، تم اپنے کمرے میں جاؤ، میں اسے سمجھا بجھا کر بھیج دیتی ہوں۔
سانیہ کمرے میں چلی گئی۔ رات کے 2:00 بج رہے تھے۔ سانیہ کمرے میں چلی گئی۔ امی مسکراتے ہوئے کہنے لگیں، اسلم، تمہارا اوزار واقعی میں بہت بڑا ہے۔ اور بہت شاندار بھی ہے۔ آج تک میں نے ایسا اوزار اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھا تھا۔ میرا دل اسے اپنے ہاتھوں سے پکڑ کر دیکھنے کا کر رہا ہے… کیا میں دیکھ لوں؟
میں نے کہا، امی، آپ کیا کہہ رہی ہیں؟
وہ بولی، تمہارے ابو کو گزرے ہوئے ایک سال ہو گیا ہے۔ آخر میں بھی تو عورت ہوں اور میں بھی جوان ہوں۔ اور میرا بھی دل کبھی کبھی ادھر اُدھر ہونے لگتا ہے۔ تم تو میرے بیٹے ہو۔ ہر عورت مضبوط اوزار پسند کرتی ہے۔ مجھے بھی تمہارا اوزار بہت اچھا لگ رہا ہے۔ اگر میں تم سے لگ جاتی ہوں تو میری بھی خواہش پوری ہو جائے گی اور کسی کو کچھ پتا بھی نہیں لگے گا۔ گھر کی بات گھر میں رہ جائے گی۔
اتنا بول کر انہوں نے میرا لنڈ پکڑ لیا۔ اور اپنے ہاتھوں سے سہلانے لگیں۔
میں بھی آخر مرد تھا۔ مجھے بھی امی کا لنڈ سہلانا اچھا لگنے لگا۔ اسی لیے میں کچھ نہیں بولا۔
تھوڑی دیر لنڈ سہلانے کے بعد امی بولیں، ابھی تک تم نے سہاگ رات کا مزہ بھی نہیں لیا ہے۔ اور میں سمجھتی ہوں کہ تم بھی ایک دم بھوکے ہوگے۔ کیا تم میری خواہش پوری کرو گے؟
میں نے کہا، اگر آپ کہتی ہیں تو میں بھلا کیسے منع کر سکتا ہوں۔ میں بھی تو آخر مرد ہوں اور آپ کے سوا اس دنیا میں میرا کون ہے؟
وہ بولی، تم یہیں رکو، میں ابھی جاتی ہوں۔ اتنا بول کر امی سانیہ کے پاس چلی گئیں۔ انہوں نے سانیہ سے کہا، اب تم سو جاؤ، رات بہت ہو چکی ہے۔ میں اسلم کو سب کچھ سمجھا دوں گی۔ اس کے بعد صبح میں اسے تمہارے پاس بھیج دوں گی۔ میں باہر سے دروازہ بند کر دیتی ہوں۔
سانیہ نے کہا، ٹھیک ہے امی۔
امی سانیہ کے کمرے سے باہر آئیں اور باہر سے دروازہ بند کر دیا۔ اس کے بعد وہ مجھے اپنے کمرے میں لے گئیں۔
میرے بدن پر کچھ بھی نہیں تھا۔ میں نے دھوتی باہر ہی اتار دی تھی۔ امی کے کمرے میں پہنچتے ہی امی نے کہا، بیٹا اسلم، تم نے اپنا اوزار اتنی دنوں تک کہاں چھپا رکھا تھا؟ تمہارا اوزار بہت ہی مست ہے۔
میں نے کہا، میں نے کہاں چھپایا تھا، یہ تو آپ کے پاس ہی تھا۔
وہ بولی، میرے پاس آؤ۔ میں قریب چلا گیا اور وہ میرا لنڈ پکڑ کر سہلانے لگیں۔
امی میرے لنڈ کو سہلاتے ہوئے بولیں، میں نے آج تک ایسا اوزار نہیں دیکھا تھا۔ ہر عورت اچھا اوزار پسند کرتی ہے۔ مجھے تمہارا اوزار بہت ہی پسند آیا ہے۔ آج میں تم سے چد ہی جاتی ہوں۔ مجھے تم سے چدوانے میں بہت مزہ آئے گا۔ لیکن جیسا تم نے سانیہ کے ساتھ کیا ہے، میرے ساتھ مت کرنا۔ ورنہ مجھے بھی بہت تکلیف ہوگی اور میرے منہ سے چیخ نکل جائے گی۔ سانیہ پاس کے کمرے میں ہے، تم اس کا خیال رکھنا۔
میں نے کہا، ٹھیک ہے امی۔
تھوڑی دیر تک وہ میرا لنڈ سہلاتی رہیں۔ اس کے بعد اپنے کپڑے اتار کر ایک دم ننگی ہو گئیں۔ امی بہت ہی خوبصورت تھیں۔ امی بستر پر پیٹ کے بل لیٹ گئیں۔ اب اپنے لنڈ پر تھوڑا سا تیل لگا لو اور آ جاؤ۔
میں نے کہا، کیا امی، آپ نے ابو سے بہت بار چدوایا ہوگا، پھر بھی آپ مجھے تیل لگانے کے لیے کہہ رہی ہیں؟ بغیر تیل لگائے بہت مزہ آئے گا۔
وہ بولیں، پھر دیر کس بات کی ہے، آ جاؤ۔
میں امی کے پیروں کے بیچ آ گیا۔ امی نے کہا، آرام سے گھس آنا، جلدی مت کرنا۔ جب میں رکنے کے لیے کہوں، رُک جانا۔
میں نے لنڈ ہلاتے ہوئے امی کی چوت کو دیکھا اور کہا، ٹھیک ہے۔
وہ بولیں، چلو، اب دھیرے دھیرے اندر گھساؤ۔
میں نے اپنے لنڈ کا ٹوپا امی کی چوت پر رکھا اور امی کی چوت پر رگڑنے لگا۔ جیسے ہی میں نے اپنے لنڈ کا ٹوپا امی کی چوت کے اندر گھسایا، امی کے منہ سے آہ نکل گئی۔ ان کی چوت مجھے کچھ زیادہ ہی ٹائٹ لگ رہی تھی۔ میرا لنڈ آسانی سے نہیں گھس پا رہا تھا۔ میں نے دھیرے دھیرے زور لگا کر اپنا لنڈ ان کی چوت میں گھسانے لگا۔ امی آہیں بھرنے لگیں۔
جب میرا لنڈ 5 انچ تک امی کی چوت میں گھس گیا تو درد کے مارے امی کا برا حال ہونے لگا۔ لیکن انہوں نے مجھے روکا نہیں اور اپنے ہونٹوں کو دانتوں میں دبا لیا۔
میں زور لگاتا رہا۔ جب میرا لنڈ 8 انچ امی کی چوت میں گھس گیا تو امی نے مجھ سے کہا، اب رُک جاؤ۔ میں رُک گیا۔
امی بولیں، تمہارا لنڈ بہت موٹا ہے، اب مجھ سے برداشت نہیں ہو رہا۔ ابھی کتنا بچا ہے تمہارا لنڈ میری چوت میں گھسنے کے لیے؟
میں نے کہا، ابھی تو 3 انچ بچا ہے۔
امی نے کہا، اب اور اندر نہ گھسانا۔ اتنا ہی سے دھیرے دھیرے چدائی شروع کر دو۔
میں نے دھیرے دھیرے امی کی چدائی شروع کر دی۔ ان کی چوت نے میرے لنڈ کو بری طرح سے جکڑ رکھا تھا۔ وہ آہیں بھر رہی تھیں۔ مجھے بھی امی کو چودنے میں بہت مزہ آ رہا تھا۔ آج میں پہلی بار کسی عورت کو چود رہا تھا۔
5 منٹ کی چدائی کے بعد امی جھڑ گئیں۔ انہوں نے بہت دنوں سے چدوایا نہیں تھا، اس لیے ان کی چوت بہت رس نکل رہی تھی۔ امی کی چوت اور میرا لنڈ بالکل گیلی ہو چکی تھی۔
امی بولیں، اب اپنا پورا لنڈ میری چوت میں گھسا کر مجھے چودو۔
میں نے اس بار تھوڑا زیادہ زور لگایا اور میرا پورا لنڈ امی کی چوت میں گھس گیا۔ اس بار امی اپنے آپ کو روک نہ پائیں اور ان کے منہ سے چیخ نکل گئی۔ لیکن انہوں نے بھی خود کو فوراً سنبھال لیا۔ میں نے اس بار ایک دھکا زور سے لگایا، امی درد سے تڑپنے لگیں اور بولیں، اب کتنا بچا ہے؟
میں نے کہا، بس 1 انچ۔
امی نے کہا، اب تم چدائی شروع کرو۔ میری چدائی کرتے وقت گھسا دینا۔
میں نے امی کی چدائی شروع کر دی۔ مجھے خوب مزہ آ رہا تھا۔ امی درد سے آہیں بھر رہی تھیں۔ جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، امی خاموش ہوتی چلی گئیں۔ اب انہیں بھی لنڈ لینے میں مزہ آنے لگا تھا۔ تبھی میں نے ایک دھکا لگا کر اپنا پورا لنڈ امی کی چوت میں گھسا دیا۔ وہ چیخ اٹھیں اور بولیں، پورا گھس گیا؟
میں نے کہا، ہاں امی، پورا گھس گیا، میرا لنڈ آپ کی چوت میں۔
وہ بولیں، اب زور زور سے چودو۔ تم گاؤں میں کشتی لڑا کرتے تھے ناں؟
میں نے کہا، ہاں امی۔
وہ بولیں، اب تم میری چوت کے ساتھ کشتی لڑو اور اپنے لنڈ کا دشمن سمجھو میری چوت کو۔ اور اپنے لنڈ سے خوب زور زور سے وار کرو میری چوت پر۔ آج پھاڑ دو اسے۔
میں نے کہا، آج اسے پھاڑ دیا تو بعد میں مزہ کیسے آئے گا؟
وہ بولیں، اس کا مطلب تم نہیں سمجھے۔ میں تمہیں سچ مچ میں چوت پھاڑنے کے لیے نہیں کہہ رہی۔ میرا مطلب ہے کہ تم اپنی طاقت سے میری چوت کا بینڈ بجا دو۔
میں نے بہت زور زور سے دھکے لگا کر امی کو چودنا شروع کر دیا۔ امی تو بہت سیکسی مال نکلیں۔ امی ہر دھکے کے ساتھ اپنی چوتڑ اچھال اچھال کر مجھ سے چدوا رہی تھیں۔ پورا بستر زور زور سے جھیل رہا تھا اور کمرے میں تھپ تھپ کی آواز گونج رہی تھی اور ان کی چوت سے بھی چپ چپ کی آواز نکل رہی تھی۔
میں بھی پورے جوش میں لگا ہوا تھا اور امی بھی اپنی پوری طاقت لگا کر چدائی کا مزہ لے رہی تھیں۔ تقریباً 5 منٹ کی چدائی کے بعد امی پھر سے جھڑ گئیں۔ لیکن میں رکا نہیں…
میں خوب زور زور سے دھکے لگا کر امی کی چدائی کر رہا تھا… وہ پوری طرح سے مست ہو چکی تھیں اور اپنے ہاتھوں سے اپنی چھاتیوں کو مسل رہی تھیں۔
تھوڑی دیر چدائی کے بعد میں بھی امی کی چوت میں جھڑ گیا۔ امی بھی میرے ساتھ ایک بار پھر سے جھڑ گئیں۔
جب میں نے اپنا لنڈ امی کی چوت سے باہر نکالا، میرے لنڈ پر خون لگا ہوا تھا۔ امی نے کہا، دیکھ لیا اپنے لنڈ کی کرتوت، اس نے مجھ جیسی چدی چدائی عورت کی چوت سے خون نکال دیا۔
اس کے بعد امی نے کپڑے سے میرے لنڈ کو صاف کیا۔ میں ان کے برابر میں لیٹ گیا۔ امی میرے ہونٹوں کو چومنے لگیں۔
امی بولیں، بیٹا، آج تم نے مجھے ایسا مزہ دیا ہے کہ میں کیا بتاؤں۔ ایسا مزہ آج تک مجھے تمہارے ابو نے کبھی نہیں دیا تھا۔
میں نے کہا، امی، میں سانیہ کا کیا کروں؟
امی بولیں، میں نے اتنی سالوں تک تمہارے ابو سے چدوایا تھا، پھر بھی تمہارے لنڈ کو میری چوت میں لینے میں اتنی تکلیف ہوئی۔ سانیہ تو ابھی بہت چھوٹی ہے، اسے کتنی تکلیف ہو رہی ہوگی۔
میں نے کہا، تو آپ ہی بتاؤ، میں کیا کروں؟ سانیہ کو چھوڑ کر کیا میں صرف آپ کی چدائی کروں؟
امی نے کہا، میں ایسا نہیں کہہ رہی ہوں۔ اس بار جب تم سانیہ کی چدائی کرنا، اس پر ذرا سا بھی رحم نہ کرنا۔ کتنا بھی چیخے گی، چلائے گی، تم اپنا پورا لنڈ اس کے اندر گھسا دینا۔ اس کی چیخ مجھے سنائی دے گی، لیکن تم اس کی پرواہ نہ کرنا۔
میں نے کہا، ٹھیک ہے، میں ایسا ہی کروں گا۔
امی بولیں، تھوڑی دیر آرام کر لو۔ اس کے بعد سانیہ کے پاس چلے جاؤ۔ اب کی بار ہار نہیں ماننا۔ پورا کا پورا لنڈ گھسا دینا، کتنا بھی چیخے چلائے۔
میں نے کہا، ایسا ہی کروں گا۔پھر میں نے سانیہ کی کنواری گانڈ اور کچھ دن کے بعد کنواری چوت کو چود ہی لیا۔مگر امی کے ساتھ چدائی کا الگ ہی مزا آتاتھا۔میں امی اور سانیہ دونوں کو دن رات چودنے لگا۔