شیری ! شیری! اب جاو بیٹا دیر ہو رہی ہے
میں کمرے میں لیٹا بہت فٹ قسم کی مووی دیکھ رہا تھا جب باہر سے امی کی آواز آیی۔ صبح سے وہ کہہ رہی تھیں کہ بازار جانا ہے کچھ چیزیں لانی ہیں۔ ہم فیصل آباد کے قریب جڑانوالہ کے ایک قصبے میں دہتے تھے ایک مہینے بعدباجی کی شادی تھی اور جہیز کی تیاری میں لگے تھے آج ںھی کپڑے لینے فیصل آباد جانا تھامووی بہت سیکسی تھی بالکل دل نہیں تھا لیکن جانا تو تھا ہی۔
“اچھا امی آتا ہوں ایک منٹ ” میں نے اونچی آواز میں کہا اور اٹھ کر کپڑے بدل کر باہر آ گیا امی ساتھ والے کمرے میں سٹول پر بیٹھے آئینے کے سامنے بال بنا رہی تھیں ہمیشہ کی طرح میں نے امی کا بھرپور جایزہ لیا قمیض بہت تنگ تھی امی کے بڑے بڑے تھن جسم سے بالکل الگ تنے کھڑے تھے۔ چالیس سے اوپر عمر میں بھی اس طرح کی اکڑ مموں میں کم کم ہی ہوتی ہے امی کی کی خمدار گانڈ سٹول سے باہر نکلی ہوئی تھی گول گپے کی طرح اور مست لگ رہی تھی۔ میرے ٹراوزر میں ہلچل شروع ہو رہی تھی اس لئیے بیرونی دروازے کی طرف چل پڑا
“امی میں رکشہ لے کر آتا ہوں آپ باہر آ جائیں۔ ” اور دل میں کہا باہر کھڑے حرامیوں کو نظارے بھی دیں
میں اور امی ساتھ ساتھ بیٹھ کر بلکہ پھنس کر رکشے میں سوار ہو گئے۔ ہمیشہ ایسا ہی ہوتا تھا مجھے خوب مزہ آتا تھا امی کو شاید اندازہ تھا کہ میں جان بوجھ کر کچھ زیادہ ہی ساتھ لگ کر بیٹھتا ہوں لیکن وہ کبھی کچھ بولیں نہیں تھیں۔ اڈے پہ پہنچے بس نکل رہی تھی فوراً دوڈ کر سوار ہوا کنڈکٹر کو امی کی طرف اشارہ کر کے بتایا کہ ایک سواری اور بھی ہے کنڈکٹر نے تیز تیز چلتی امی پر غور کرنے کے بعد اپنا ہتھیار کھجایا اور پھر چلایا “استا جی روکے”
جگہ نہیں ہے یہاں اپنے ساتھ کھڑا کرنا پڑے گا ” وہ پھر بولا۔
میں کھڑا کر لوں گا میں نے کہا اور ایک بار پھر زہن میں مطلب دوسرا آیا۔ کاش کسی دن میں واقعی امی کے سامنے کھڑا کر کے جا سکتا ان کے جسم پر ننگے جسم پر اپنا لن رگڑ سکتا ٹروازر میں للی نے زبردست انگڑائی لی تو خیال ٹوٹا امی بس میں آ چکی تھیں وہ سیٹوں کی طرف دیکھ رہی تھیں مگر سیٹیں تو فل تھیں
جگہ نہیں ہے کیا” امی نےپریشان ہو کر مجھ سے پوچھا
نہیں امی تھوڑا سا تو سفر ہے اپ ادھر کونے میں آ جائیں میں نے ایک طرف ہو کر امی کو جگہ دی اور وہ میرے آ گے آ کر کھڑی ہو گئیں۔ بس چل پڑی۔ بس میں کافی رش تھا سب مسافر پھنسے کھڑے تھے اور امی میرے آ گے پھنسی کھڑی تھیں
میری ہائٹ امی سے زیادہ تھی لیکن اس وقت نہ جانے کیسے میں اور امی بڑی آئیڈیل پوزیشن میں تھے پتہ نہیں میرا لن نیچے لگا ہوا تھا یا امی کی گانڈ اونچی تھی دونوں ایک دوسرے کے بالکل آگے پیچھے تھے پہلی دو تین بار امی کے نرم چوتڑ میرے سے ٹکرائے تو للی سوئی ہوئی تھی پیٹ پر امی کی گانڈ کا نازک دباو محسوس ہوا جس سے ٹراوزر کے اندر للی لن میں بدلنے لگی۔ جوں جوں سخت ہوا امی کی بنڈ نے واضح طور پر یہ محسوس کیا امی کسمسا کر ادھ ادھر ہوئیں چوتڑوں کو سکیڑا کہ شاید لن ایک سایڈ پہ ہو جائے لیکن میری خوش بختی کہ جگہ ہی نہیں تھی۔ لن چوتڑوں کی درمیانی لیکر کے عین اوپر تھا۔
ایک ایک جھٹکے سے چوتڑوں کے اندر اترتا اور باہر اتا میرا لن مزید سخت ہو گیا امی کی بے چینی واضح تھی لیکن وہ کہاں جا سکتی تھیں امی نے ایک دفعہ پھر دونوں چوتڑوں کو سکیڑا لیکن اس بار لن پتھر کی طرح سخت تھا وہ نرم چوتروں کے بالکل درمیان بھینچ گیا مزے کی ایک شدید لہر میرے پورے بدن میں سرایت کر گئی یہ امی کی آ خری کوشش تھی امی نے گانڈ ڈھیلی چھوڑ دی وہ بار بار ارد گرد دیکھ رہی تھیں شاید پریشان تھیں کہ کوئی دیکھ نہ لے
بنڈ ڈھیلی ہوتے ہی میں شیر ہو گیا- بس اتنے جھٹکے نہیں کھا رہی تھی لیکن میں لن کو خوب امی کی گانڈ میں رگڑ رہا تھا امی کی طرف سے اب مکمل آزادی تھی میں پوری محنت سے گانڈ کے مورے کو نشانہ بنانے کی کوشش کر رہا تھا اور کبھی کبھی کامیاب بھی ہوتا تھا۔ امی کی گانڈ کی گہرائی قابل رشک تھی کاش یہ کپڑوں کی دیوار نہ ہوتی کاش میں اندر ہی ڈال سکتا
بس اچانک آہستہ ہوئی تو امی کی گانڈ کا دباو میرے لن پر مزید بڑھ گیا پھر رک گئی اب جھٹکے ممکن نہیں تھے میں اور امی اس حالت میں کھڑے تھے کہ میرا تقریباً پورا لن ان کے چوتڑوں کے درمیان پھنسا ہوا اور ٹوپی شاید سوراخ کے عین اوپر تھی اس وقت امی تھوڑی سی آگے سرک سکتی تھیں لیکن انہوں نے کوئی حرکت نہیں کی۔
بس پھر چل پڑی امی کی بنڈ مزید پیچھے آئی اور میں نے واضح طور پر امی کی بنڈ کی کھڑکی کے خلا کو اپنی ٹوپی پر محسوس کیا۔ میری للی سے نکلا پانی جو منی سےپہلے آتا ہے اس سے شاید امی کی شلوار گیلا ہو چکا تھا اس لئے فیلنگ بڑھ چکی تھی اسی وقت امی نے ایک بار پھر چوتڑوں کو سکیڑ کر لن کو پھنسا لیا میری مزے سے چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی
امی نے پھر بنڈ ڈھیلی چھوڑی اور اگلے ہی لمحے انہوں نے پھر چوتڑوں کو سکیڑ کر لن کو پھنسا لیا۔ اف امی یہ جان بوجھ کے کر رہیں تھیں یعنی انجوائے کر رہی تھیں پھر امی نے وقفے وقفے سے میرے لن کو اسی طرح دبانا شروع کر دیا میری پیاری امی اپنی گانڈ سے مجھے بھرپور مزہ دے رہی تھیں میں بالکل فارغ ہونے کے قریب تھا
بس کریں میرا ہو جائے گا پلیز میں نے سر جھکا کر امی کے کان کے قریب سرگوشی کی لیکن بنڈ پھیلتی سکڑتی رہی امی شاید بہت مزے میں آ گئی تھیں رک نہیں رہیں تھی میں نے دوبارہ کہنے کیلئے سر جھکایا لیکن اسی وقت امی نے ایک بار پھر لن کو پھنسا کر زرا سی بنڈ ہلائی تو میرا پرنالہ بہہ نکلا میرے حلق سے نکلتی لذت بھری چیخ میں نے بڑی مشکل سے روکی
بس سے اتر کر پھر رکشے میں بیٹھے امی کے رویے پر میں بہت خوش تھا انہوں نے ذرا بھی احساس نہیں ہونے دیا بالکل نارمل تھیں بازار میں کھوے سے کھوا چھل رہا تھا جیسا یہاں ہمیشہ ہوتا ہے امی میرے پیچھے چل رہیں تھیں
“شیری ادھر” اچانک امی نے پکارا میں مڑا تو امی کی شاندار بنڈ ساتھ ہی ایک دکان کی طرف مٹکتی جا رہی تھی میں بھی پیچھے ہو لیا
امی کو دکاندار نے سٹول پیش کیا جبکہ میں پیچھے کھڑا ہو گیا۔ امی کپڑے دیکھنے لگیں میں کچھ اور سوچ رہا تھا بہت بار فلموں میں دیکھا تھا سٹول کے نیچے سوراخ ہوتا تھا ہیروئن اپنی بنڈ سوراخ کے اوپر رکھ دیتی اور نیچے سے کوئی چاٹتا تھا یا ٹھوکتا تھا۔ اگر امی کا اسٹول اسی طرح کا ہوتا اور ٹھوکو میں ہوتا تو کیا بات تھی میرا لن بھی اس سوچ پر جھوم کر امی کی کمر سے سر ٹکرانے لگا۔
امی کمر پر لگتے ہتھوڑے سے سے بے پروا وہاں بیٹھی رہیں ایک دو بار میرا بھی مشورہ لیا جو میں نے ہوں ہاں کر کے بتا دیا میرا دھیان امی کے کپڑوں پر زیادہ تھا میرا بس چلتا تو یہیں امی کے کپڑے اتارتا اور خوب جی بھر کر چودتا۔ امی اچانک اٹھیں اور ان کی گانڈ میری ٹوپی کو رگڑتی ہوئی سیدھی ہو گئی۔ وہ کچھ دیر میرے سامنے کھڑی رہیں پتہ نہیں لن رگڑوانا چاہتی تھیں یا میرے کھڑے لن کو لوگوں کی نظروں سے بچانے کی کوشش تھی۔لن ایک سمجھدار جانور ہے حالات محسوس کرتے ہی بیٹھنا شروع ہو گیا۔ امی مجھے پیسے دینے کا اشارہ کرتے ہوئے آگے سے ہٹ کر باہر کی طرف چل پڑیں۔
بس میں امی کے کمالات اور دکان کے واقعے کے بعد یہ طے تھا کہ اب مجھے امی کی طرف سے پوری اجازت تھی اسی لئےبھیڑ میں امی کے پیچھےچلتے ہوئے میں نے پھر موقع دیکھ کر نرم چوتڑوں کو دو تین گھسے لگا دئیے امی یقیناً ٹھیک ٹھاک مزہ لے رہی تھیں لیکن محسوس نہیں ہونے دینا چاہتی تھیں۔
اگلی منزل ایک ریڈی میڈ گارمنٹس سپر سٹور تھا۔ اس میں ہینگرز اور ریکس میں کپڑے سجے تھے ہم چل پھر کر دیکھتے رہے سٹور میں کافی پردے والی جگہیں بھی تھیں جہاں سے آپ باقی لوگوں کی نظروں سے چھپ جاتے تھے ایک ایسی ہی جگہ امی اچانک رک گئیں اور ہنگروں سے کپڑے اتار کر دیکھنے لگیں میں نے قریب ہو کر امی کے کندھے کے اوپر سے دیکھ کر سوٹ کی طرف اشارہ کیا یہ والا اچھا ہے ناں
میرا لن پھر امی کی بنڈ کو چوم رہا تھا۔
“ہاں لگ تو رہا ہے مجھے بھی” امی نے کہا میرا واقعی لگ رہا تھا اور امی کی اس بات سے مزید حوصلہ ملا میں نے پہلی بار لن کو پکڑ کر امی کی گانڈ کے صحیح مقام پر فٹ کیا ہاتھ بھی امی کے گداز گوشت سے ٹکرایا لیکن امی بھولی بنی رہی۔ میں نے خوب زور سے لن کو امی کی گانڈ میں دبایا امی تھوڑی سی ہلیں لیکن کچھ کہے بنا ہینگر کے سٹینڈ کو گما کر دوسرا جوڑا دیکھنے لگیں میرا لوڑا جتنا سخت ہو رہا تھا امی کی بنڈ مزید نرم ہوتی جا رہی تھی گھسوں میں بھی شدت آتی جا رہی تھی لن آسانی سے گانڈ کی موری سے ٹکرا رہا تھا کپڑوں کے اوپر سے ہی جیسے اندر گھسنے والا ہو۔
ماں اپنی ممتا سے مجبور بیٹے کی خواہش چپ چاپ اور مزے سہ رہی تھی کئی بار میرا جی چاہا کہ ٹراوزر اتارکر لن امی کو ننگا کر کے ڈال ہی دوں لن اتنا سخت ہو گیا تھا کہ درد کرنے لگا کاش امی بس کی طرح بنڈ کو پچکا کر لن پھنسا لیتیں لیکن وہ ویسے ہی کھڑی تھیں میں بہت گرم ہوا تو اپنے دونوں ہاتھ امی کے چوتڑوں پر رکھ کر ان کو دبایا تا کہ اسی طرح اندر پھنس جائے۔ لیکن امی فوراً آگے چل پڑیں لن امی کی نازک گانڈ سے محروم ہو گیا
امی زیادہ دور نہیں گئی دو قدم لے کر اگے ایک ریک کے پاس پھر رک گئیں۔ مجھ پر وحشت سوار تھی میں بھی آگے بڑھا اور لوڑے کو پھر گانڈ کی نرم گرم وادی میں رگڑنے لگا امی بنڈ سکیڑ نہیں رہی تھیں میں نے پھر امی کی بنڈ کو دونوں سائڈوں سےدبا کر لن اندر پھنسانا چاہا لیکن وہ بس والی بات نہیں بنی
“امی بس کی طرح کریں ناں پلیز ” میں نے مجبور ہو کر کہا لیکن امی نے کوئی حرکت نہ کی کپڑے دیکھتی رہیں میرا جی چاہا کہ امی کی گانڈ پھاڑ دوں “
پلیزایک بار” میں رونے والا ہو رہا تھا مگر امی نے پھر بھی بنڈ نہیں سکیڑی تنگ ا کر میں نے گھسوں کی بجائے لن پکڑا اور گانڈ کے اندر اوپر نیچے پھیرنے لگا میری ٹوپی کئی بار امی کی پھدی سے بھی ٹکرائی اسی وقت جب رگڑائی تیز تھی امی نےاچانک جھک کر نیچے والے ریک سے ایک سوٹ اٹھایا جھکتے ہی چوتڑ ایک دوسرے سے تھوڑا دور ہوئے اور لن کو امی کی گانڈ کے سوراخ میں تقریباً پھنس سا گیا۔ مزے کی اس وادی میں میرا انگ انگ تپ اٹھا سوٹ اٹھا کر امی سیدھی ہوئی تو لن مکمل طور پر موم کی گانڈ کے شکنجے میں آ گیا۔
اب امی کی بنڈ کی گرفت بس کے مقابلے میں کہیں زیادہ مضبوط اور کہیں زیادہ لذت انگیزتھی
امی وہ دوسرا سوٹ بھی اچھا ہے میں نے بڑی مشکل سے آواز نکالی
امی دوبارہ جھکی تو میرا لوڑا چوتڑوں سے نکلنےہی والاتھا کہ امی پھر سیدھی ہو گئیں اور بنڈ نے ایک بار پھر لن کو اپنی ریشمی پکڑ میں کس لیا۔ اب لن کی ہمت جواب دے چکی تھی اتنی نازک اتنی گرم اتنی گہری گانڈ میں پھنس کر لن ایک بار پھر بہہ نکلا۔
میں اور امی اس دن کئی دکانوں اور سٹالز پر گئے بہت بار شرارتیں ہوئیں امی نے بھرپور انجوائے بھی کرایا اور اپنا وقار بھی قائم رکھا منہ سے ایک بار بھی نہیں بولیں شام کو واپسی پہ میں گدھے کی طرح لدا ہوا تھا بس میں سوار ہوتے ہوئے خواہش تھی کہ کاش پھر سیٹ نہ ملے مگر مل گئی۔۔ نو بجے گھر پہنچ گئے۔
امی باجی کو کپڑے دکھانے لگیں اور میں اپنے کمرے میں دن بھر کی باتیں یاد کرکے للی کو مسلتا رہا۔ یقین نہیں آ رہا تھا کہ امی نے اتنا کچھ کرنے دیا اور کہا بھی کچھ نہیں یہ سکون ضرود تھا کہ اب امی کی چدائی کا خواب حقیقت ضرور بنے گا میں لن کو مسل رہا تھا کہ امی کمرے میں آ گئیں میرا کھانا لائی تھیں ٹراوزر کا ابھار صاف تھا مگر امی نے مکمل نظر انداز کیا اور کھانا پلنگ پر رکھ کر کہا “
کھا لو اور برتن کچن میں لے آنا آج تو بہت برتن ہیں دھونے والے”
“ٹھیک ہے امی”
ہممم کچن میں گھسوں کا بھی موقع مل سکتا ہے شاید اسی لئے امی نے بلایا ہو جلدی جلدی کھانا ختم کیا اور کچن میں پہنچ گیا مگر باجی کو برتن دھوتا دیکھ کر سارا جذبہ ٹھنڈا پڑ گیا خواہش تو مجھ میں باجی کو چودنے کی بھی بہت تھی لیکن کبھی ہمت نہیں پڑی تھی۔
باجی مجھ سے تین سال بڑی تھیں ان کا جسم بھرا بھرا تھا ممے اور بنڈ بھی مناسب تھی نہ بہت بڑی نہ چھوٹی۔ باجی کی خاص بات ان کی بے شرم لاپروائی تھی ذرا خیال نہیں کرتی تھیں کہ میں اب جوان تھا اور ان کی مست اداؤں سے گرم ہو جاتا تھا باجی کی گانڈ میں نے ہر پوز میں دیکھی تھی بیٹھے ہوئے لیٹے ہوئے کھڑے ہوئے۔ بنڈ میں قمیض پھنسی ہو تو باجی نے کبھی نکالنے کی زحمت نہیں کی تھی۔ کھلے گلے کے کپڑے پہنتی تھیں ممے ڈھلکتے پھرتےتھے بوبز کی لکیر کا آغاز تو ہمیشہ صاف نظر آتا تھا میرے دل سے ہوکیں اٹھتی رہتی تھیں مگر باجی اپنے جسم کے ساتھ مست تھیں ان کو کیا پرواہ. باجی کے نام کتنی ہی بار مٹھ مار چکا تھا
سفیدقمیض کے نیچے باجی کی کمر پر بندھا بریزئراس وقت بھی نظر آ رہا تھا ایک مہینے بعد باجی کو کوئی اجنبی لے جانے والا تھا جو اس خوبصورت جوان جسم کو روز چودے گا یہ خیال آتے ہی میرا لن کھڑا ہو نا شروع ہوگیا
برتن دھونے ہیں باجی نے اچانک مڑ کر کہا
“ن نن نہیں تو” میں گڑبڑا گیا
تو پھر کیوں کھڑے ہو باجی نے پوچھا
میں اب سنبھل چکا تھا “ویسے ہی سوچ رہا تھا کہ تم کچھ دن بعد چلی جاو گی ” دلہا بھائی تمہیں چودا کرے گا یہ آخری جملہ دل میں ہی رہ گیا
“اچھا جی آج تو بڑا پیار جتایا جا رہا ہے” باجی میرے پاس آ کر کھڑی ہو گئیں
میں مسکرا دیا مگر کہا کچھ نہیں. دل سے پھر آواز ائی تو پیار کرنے دو ناں
اگلے ہی لمحے باجی نے آگے بڑھ کر مجھے گلے لگا لیا “ ہمیشہ کیلئے تھوڑی جانا ہے آیا کروں گی ناں ” باجی کے ممے میرے سینے کو گرم کر رہے تھے میں نے باجی کو بازوں میں بھینچ لیا مزہ ہی آ گیا باجی نے الگ ہو کر میرا ماتھا چوما اور بولی “جاو اب سو جاو ابھی مہینہ ادھر ہی ہوں”۔
اپنے کمرے میں میں کافی دیر سوچتا رہا کہ یہ پیار والی کہانی اگر آگے بڑھا لوں تو شادی سے پہلے باجی کو چدائی کی اچھی طرح ریہرسل کروا سکتا ہوں
صبح اٹھا تو باہر کافی شور تھا قہقہے اور ہنسی کی آوازیں تھیں لگتا تھا گھر میں کافی رونق تھی خالہ رابعہ اور سعدیہ بچوں سمیت آئی ہوئی تھیں شا دی سے پہلے خاندان والے تحائف لے کر اس طرح آتے ہی ہیں خالاوں سے ملا خالہ رابعہ امی سےبڑی تھیں ان کی ایک ہی بیٹی تھی جو باجی کی عمر کی تھی شادی شدہ جبکہ خالہ سعدیہ سب سے چھوٹی تھیں ان کے تین بچے تھے وہی ادھر ادھر دوڈ بھاگ میں شور کر رہے تھے خالہ رابعہ فیصل آباد ہی میں جبکہ خالہ سعدیہ لاہور میں رہتی تھیں مجھے ان کے آنے کی خاص خوشی تھی خاندان میں سب سے سیکسی عورت تھیں ہر وقت زو معنی چھیڑ چھاڑ کی شوقین تھیں میری عمر کے لڑکوں سے ان کی گاڑھی چھنتی تھی میری بھی دوست تھیں۔ ان کی عمر کوئی پینتیس کے قریب ہوگی بڑے بڑے سڈول ممے اور آئیڈیل سائز کی تھوڑی سی پیچھے کو نکلی ہوئی ہپس ،وہ ہمیشہ بھڑکیلے کپڑے پہنتی تھیں
کچھ دیر خالاوں سے گپ شپ میں پتہ چلا کہ بڑی خالہ تو شام کو واپس چلی جائیں گی خالہ سعدیہ دو دن اتوار تک رکیں گی۔ امی کی ساتھ چھیڑ چھاڑ باجی کی جھپی کے بعد یہ تیسری خوشخبری تھی خالہ چھوٹی موٹی مستی شوق سے کرواتی تھیں۔ سنا تھا کہ چدائی بھی کراتی ہیں دو دن میں شاید میری بھی قسمت جاگ جائے
جمہ پڑھ کر واپس آیا تو امی اور خالائیں برآمدے میں ہی گپ شپ کر رہی تھیں خالہ سعدیہ اپنی ایک سائیڈ پہ لیٹی ہوئی تھیں بنڈ سے قمیض تھوڑی سی ہٹی ہوئی تھی اور چوتڑوں میں پھنسی شلوار نے دل میں ہلچل مچا دی گانڈ سے تھوڑی اوپران کے پہلو کی گوری جلد کی ایک جھلک بھی نمایاں تھی
ربیعہ اب کی بھی بات پکی کر دے خالہ رابعہ نے مجھے دیکھ کر کہا
ہاں ہاں بے چارے نے کوئی قصور تو نہیں کیا کب تک پھراو گی اسے خالی خالہ سعدیہ بھی چہکی
ارے میں تو آج ہی کر دوں مگر کوئی کام وام تو کرے امی نے ملبہ مجھ پر ہی ڈال دیا
“کام وام کیوں نہیں کرتا تو شیری” خالہ سعدیہ مسکرا کر بولیں “آج کل تو نوجوانوں کیلئے بڑے مواقع ہیں”
ہاں ہاں ٹھیک کہتی ہے سعدیہ خالہ رابعہ ان کا مطلب سمجھے بغیر بولیں
“جی خالہ ڈھونڈھ رہا ہوں مل جائے گی کوئی نہ کوئی” میں نے بھی خالہ سعدیہ کی طرح زو معنی جواب دیا
نوکری شروع کرو تو پھر میں بھی ڈھونڈوں گی لڑکی تیرے لئے “خالہ سعدیہ نے فوراً جواب دیا” اب کام کے بغیر لڑکی بے چاری کیا رہے گی تیرے ساتھ لیکن تو اپنی پسند تو بتا پہلے”
میں مسکرا کر اپنے کمرے کی طرف چل پڑا
اررر ے یہ شرماتا بھی ہے میں بھی پوچھ کر رہوں گی خالہ سعدیہ کی آواز آئی۔
جسکی آپ جیسی بڑی سی گانڈ ہو ممے ہاتھ میں پورے نہ آسکیں اور ہر وقت چدوانے کے موڈ میں ہو ۔۔۔ میں نے دل ہی دل میں خالہ کی بات کا جواب دے دیا
رات کھانے کے بعد میں باجی اور خالہ سعدیہ ایک ہی کمرے میں بیٹھے تھے بڑی خالہ جا چکی تھیں امی ابھی کچن میں مصروف تھیں میں خالہ کے سرہانے کی طرف بیٹھا تھاخالہ جان بوجھ کر ایسے پوز میں لیٹیں تھیں کہ ان کا انگ انگ نمایاں تھا ممے کافی گہرائی تک مجھے نظر آ رہے تھے گانڈ ان کی ویسے ہی نکلی ہوئی تھی لیکن اس وقت کچھ زیادہ ہی پیچھے نکالی ہو ئی تھی
[]باجی خالہ کے سامنے دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کے لگا کے لگالگا کے لگا کے لگا کے کے لگا کے لگا کے لگا کے لگا کے لگا کےا کے لگا کے لگا کے پیر خالہ کی طرف کئے بیٹھی تھیں میری طرف سائیڈ تھی سینے سے ابھرے ہوئے دونوں خربوزے کاٹ کر کھانے کی دعوت دے رہے تھے ان کی ایک ٹانگ سیدھی اور دوسری موڑ کر پیر زمین پہ رکھا ہوا تھا اور گھٹنا اٹھا ہوا تھا تنگ ٹراؤزر میں ان کی بنڈ کی قوس سائیڈ سے بالکل صحیح نظر آتی تھی زرا غور کرنے سے ٹانگوں میں پھنسی پھدی کا ہلکا سا ابھار بھی نظر آتا تھا۔
“شیری !” خالہ نے گردن اوپر میری طرف موڑی ان کے بوبز مزید سامنے آئے” تو نے بتایا نہیں کیسی لڑکی ڈھونڈھیں تیرے لئے”
خالہ نے اپنا ایک ہتھ گانڈ کی سائڈ کے اوپر رکھا ہوا تھا سوال کرتے ہوئے وہ اسے اپنے چوتڑوں کے درمیان لے کر گئیں اور انگلیاں اندر اتار کر باہر نکالیں باجی کیونکہ سامنے تھی وہ خالہ کی کمر کے پیچھے یہ حرکت نہ دیکھ سکی لیکن مجھے صاف نظر آئی اور آگ لگا گئئ
بے اختیار میرے منہ سے نکلا” آپ جیسی”
خالہ کھلکھلا کر ہنس پڑی جبکہ باجی نے بڑے اپنا ہاتھ اپنے منہ پر رکھ کر شرمانے کی ایکٹنگ کی اور بولیں
“شرم کر شیری خالہ ہیں”
“نہیں وہ میرا مطلب تھا ۔۔۔” مجھے کچھ سوجھ نہیں رہا تھا
“میرے جیسی زندہ دل” خالہ نے خود میری مدد کی
“جی بالکل بالکل” میں نے تائید کی
“پکی بات ہے ناں تیرا یہی مطلب تھا” خالہ نے پھر شرارت کی اوراپنی بنڈ کو پھر ایک بار سہلایا ٹراوزر میں میری سوئی ہوئی للی نے تھوڑی سی حرکت کی۔ خالہ کی بات کا میں نے جواب نہیں دیا اور اٹھ کھڑا ہوا
“پھر بھاگ کر جا رہا ہے میں تو پوچھ کر ہی جاوں گی” خالہ معاف نہیں کر رہی تھیں میں باہر ایا تو امی دروازے کے سامنے ہی کھڑی تھیں شاید وہ کچن سے اسی وقت آئی تھیں امی کے پاس سے گزرا تو جی چاہا کہ ان کو کہیں مموں یا گانڈ پر ہاتھ لگاوں لیکن جھجھک گیا اور امی اندر چلی گئیں۔ میں اپنے کمرے میں آ کر مووی لگا کر بیٹھ گیا۔ لیکن جو مووی خالہ نے اپنی گانڈ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کر کے دکھائی تھی وہ مزہ کہاں۔۔
میرا ہاتھ خود بخود میرے لن پر چلا گیا خالہ کی گانڈ کا تصور ہی ایسا تھااور پھر میرے سامنے جب خالہ نے اپنا ہاتھ چوتڑوں میں دںایا تھا تو وہ بالکل فوم کی طرح دھنس گیا تھا خالہ کی کتنی نرم تھی اور بڑی بڑی اس پہ ہاتھ پھرنے میں کتنا مزا آئے گا خالہ بنڈ چٹواتی بھی ہو شاید جس طرح کل امی کی بس میں کپڑوں کے اوپر سے چدائی کی تھی کاش اسی طرح خالہ میرے آگے کبھی پھنسے تو اور بھی مزہ آئے خالہ کی بنڈ تو امی سے بہت جوان اور بہت گرم ہو گی
میرا ہاتھ میرے لن پر تیزی سے پھرنا شروع ہو گیا میں نے خیال میں خالہ کے مموں چوسے ان کے اوپر اور درمیان میں لن پھیرتا رہا خالہ کی گانڈ پہ چکیاں کاٹیں لن گول گول بڑے چوتڑوں کے اندر رگڑا پھر خالہ کی ٹانگیں اٹھا کر گھوڑی بنا کر الٹی لٹا کر خیالی پھدی ماری خالہ کے ہونٹوں پر اور منہ کے اندر لوڑا ڈالا سوچ کر ہی اتنا مزہ آ رہا تھا ہاتھ لن پر اور تیزی سے چلنا شروع ہو گیا آخر میں میں نے خالہ کی گانڈ میں لن ڈال دیا خالہ بہت خوش ہوئی لن خالہ کی بنڈ میں جانے کے خیال سے مزید سخت ہوا اور چند ہی لمحوں میں گرم گرم پانی میرے ہاتھ پہ بہنے لگا آج کی مٹھ نے بہت مزہ دیا میں نے پکا ارادہ کر لیا کہ خالہ کی واپسی سے پہلے ان کی گانڈ ضرور ماروں گا
میں اور امی اس دن کئی دکانوں اور سٹالز پر گئے بہت بار شرارتیں ہوئیں امی نے بھرپور انجوائے بھی کرایا اور اپنا وقار بھی قائم رکھا منہ سے ایک بار بھی نہیں بولیں شام کو واپسی پہ میں گدھے کی طرح لدا ہوا تھا بس میں سوار ہوتے ہوئے خواہش تھی کہ کاش پھر سیٹ نہ ملے مگر مل گئی۔۔ نو بجے گھر پہنچ گئے۔
امی باجی کو کپڑے دکھانے لگیں اور میں اپنے کمرے میں دن بھر کی باتیں یاد کرکے للی کو مسلتا رہا۔ یقین نہیں آ رہا تھا کہ امی نے اتنا کچھ کرنے دیا اور کہا بھی کچھ نہیں یہ سکون ضرود تھا کہ اب امی کی چدائی کا خواب حقیقت ضرور بنے گا میں لن کو مسل رہا تھا کہ امی کمرے میں آ گئیں میرا کھانا لائی تھیں ٹراوزر کا ابھار صاف تھا مگر امی نے مکمل نظر انداز کیا اور کھانا پلنگ پر رکھ کر کہا “
کھا لو اور برتن کچن میں لے آنا آج تو بہت برتن ہیں دھونے والے”
“ٹھیک ہے امی”
ہممم کچن میں گھسوں کا بھی موقع مل سکتا ہے شاید اسی لئے امی نے بلایا ہو۔ پانچ منٹ بعد کچن میں پہنچ گیا امی سنک پر جھکی ہوئی تھیں للی فوراً تن گئی قریب جا کر امی کے فوم میں میخ دبائی امی نے کوئی ری ایکشن نہیں دیا پتہ نہیں کیسا نشہ تھا ایک ہی دن میں دسویں بار بھی امی کی بنڈ لن کو بے حد مزہ دے رہی تھی صرف فرق یہ تھا کہ اب امی توڑی تھوڑی کانپ رہی تھیں جس سے نشہ اور بھی بڑھ رہا تھا
میں نے کچھ دیر امی کی گانڈ میں لن اسی طرح اوپر اوپر سے آہستہ آہستہ رگڑا پھر اپنے بازو امی کے پیٹ کے ارد گرد لپٹ کر بالکل ساتھ لگ گیا میرے لن اور بنڈ کے گرد کپڑوں کی دیوار کے باوجود لن چوتڑوں کے بیچ کافی اندر اتر رہا تھا جب میں زور لگاتا تو امی کی جھکی ہوئی کمر تھوڑی سیدھی ہوتی اور بنڈ لن کے ارد گرد لپٹ جاتی اس قسم کے چار پانچ شدید گہرے گھسوں کے بعد امی نے برتن چھوڑ کر دونوں ہاتھ سنک پر رکھ لئے تھے اور میں بھی تڑپ اٹھا تھا لن اب مزید ٹراوزر میں پھنسانا ممکن نہیں تھا چنانچہ میں نے امی کو چھوڑ کر ٹراوزر نیچے کیا اور لن ایک جھٹکے سے باہر آ کر اوپر نیچے تمکنے لگا
ہاتھ چھوڑنے کی وجہ سے امی نے گردن گھما کر پیچھے دیکھا جھولتے لن پر نظر پڑتے ہی امی نے آ نکھیں بند کر لیں اور پھر سر پہلے والی پوزیشن پہ موڑ دیا۔ یقیناً یہ امی کی خاموش رضا مندی تھی میں نے ایک ہاتھ سے لن پکڑا اور دوسرے ہاتھ سے امی کی قمیض اٹھا کر لن شلوار پر رکھ دیا امی نے ایکدم گہرا سانس لیا اور بنڈ تھوڑی سی پیچھے سرکائی صرف ایک پتلی شلوار لن اور گانڈ کے دمیان میں تھی اس لئے مزہ کئی گنا بڑھ چکا تھا
امی نے دوسرے ہی جھٹکے پر بنڈ مروڑ کر لن پکڑ لیا لیکن اس بار امی کے چوتڑوں کی پکڑ بہت ہی شدید تھی لن کچلا جا رہا تھا امی نے کے بعد دو مرتبہ اور اسی طرح میرے لوڑے کو اپنی وسیع بنڈ سے جکڑا تو منی میرے دماغ پہ پوری طرح چڑھ گئی میں نے لن پکڑ کر چوتڑوں سے باہر کھینچا اور امی کے پیچھے زمین پر بیٹھ کر زاربند کھولے بغیر امی کی شلوار نیچے کھینچی تھوڑی مشکل سے پھنس پھنس کر شلوار سے امی کا خزانہ باہر نکل کر میری آ نکھوں کے سامنے آ گیا
امی کی گانڈ دیکھنے کی خواہش بہت پرانی تھی شلوار سے جیسے ہی روئی کے دونوں تکئے باہر نکلے میرا لن گانڈ سے بہت دور ہونے کے باوجود خود بخود چھوٹے چھوٹے جھٹکے کھانے لگا میری آنکھیں اس گول مٹول چکنی جلد پر جمی تھیں۔ امی کی بنڈ میرے خوابوں سے بھی حسین تھی گوری گوری موٹی تازی، کمر سے نکلتی لکیر جو دونوں چوتڑوں کے درمیان قوس بناتی ہوئی ٹانگوں میں گم ہو رہی تھی دور نیچے پھدی کی ہلکی سی جھلک بھی موجود تھی
چند لمحے میں بت بنا امی کی گانڈ دیکھتا رہا پھر اپنا لرزتا ہوا ہاتھ اٹھا کر جیسے ہی چوتڑوں پر رکھا امی اور میں دونوں کانپ گئے ملائم مادری گانڈ پر آ ہستہ آہستہ ہاتھ پھسلا تو اس کی نرمی دل میں سکون بھر نے لگی ہاتھ چلنے لگا تو لن کے چوٹے چھوٹے جھٹکے تیز ہوگئے امی کی سانسیں بھی لن کے ساتھ ساتھ ہی جھٹکے کھانے لگیں مجھے امی پر بے انتہا پیار اور فخر محسوس ہوا جو میرے لئے اپنا سب کچھ پیش کر چکی تھیں۔
میں بیٹھے بیٹھے ہی اگے کو کھسکا اور اپنے تپتے ہوئے ہونٹ امی کے چوتڑوں سے لگا دئیےامی نے یکدم بنڈ پچکائی اور پھر کھول دی شاید مزے کی وجہ سے یہ امی سے خودبخود ہو گیا تھا میں نےآنکھیں بند کر کے لگاتار امی کی گولائوں کو چومتے ہوئے ان کی ٹانگوں کو کس کر پکڑلیا تھاامی میرے زور سے تھوڑی مزید جھک گئیں ماں کی گانڈ چومنا کتنا اچھا احساس تھا نجانے کب میری زبان باہر نکل کر امی کی بنڈ پہ رقص کرنے لگی امی اب کانپنے کی بجائے باقاعدہ ہل ہل کر ہلکی ہلکی سسکاریاں بھر رہی تھیں
میری زبان اور تھوک سے امی کےچوتڑ مکمل گیلے ہو چکے تھے جب میں نے انہیں پیچھے کھینچ کر فرش پہ اپنے سامنےگھوڑی بنا دیا امی کی موری پہلی بار میرے سامنے تھی افففف مزے کی شدید لہر میرے جسم سے کرنٹ کی طرح گزری میں نے فوراً ہی زبان مورے پہ رکھ دی امی نے تڑپ کر اک آہ بھری اور بنڈ سکڑالی لمحہ بھر میری زبان گانڈ کی دونوں فٹ بالوں میں پھنسی مگر پھر امی نے لمبے سانس لیتے ہوئے بنڈ کھولی تو میں نے زبان مورے کے آردگرد اور عین اوپر پھیرنا شروع کر دی امی آہیں بھرتی اور تڑپتی رہی۔ نیچےمیرا لن بھی موری کی خواہش میں رالیں ٹپکانا شروع کر رہا تھا
امی کی گانڈ کی موری پانچ منٹ بعد مکمل طور پر بھیگ بھی چکی تھی اور اس کا منہ ہلکا سا کھل بھی گیا تھا یعنی اب امی کی گانڈ میرے لن کو اپنی آغوش میں سمانے کو بالکل تیار تھی میں اٹھ کھڑا ہوا چٹان کی طرح سخت ہوئے لن کو پکڑ کر ٹوپے پر تھوک لگایا اور امی کی بنڈ پر جھک گیا لن جیسے ہی امی کی موری سے ٹکرایا امی کی ہلکی سی چیخ نکل گئی میں نے ٹوپا ایک دو بار موری کے ارد گرد رگڑا اور پھر موری کے منہ پر فٹ کر کے دھیمہ دھیمہ زور لگایا لن اندر کی طرف پھسلا موری ہلکی سی کھلی امی کی ایک اور گھٹی گھٹی چیخ نکل گئی۔ میں نے لن پیچھے کھینچ کر ایک بار پھر تھوک لگائی موری پہ فٹ کیا دوبارہ زور لگایا تو موری نے امی کی ایک اور چیخ کے ساتھ ہی اپنا دامن کھول دیا ٹوپا امی کی نازک گانڈ کے اندر گھس چکا تھا
امی کی بنڈ باہر سے بھی بہت مزیدار تھی لیکن اندر سے تو پوری جنت تھی لن اندر گیا تو امی کی گانڈ کی پھولتی پچکتی موری جیسے چاروں طرف سے مساج کرتی تھی لن اہستہ اہستہ اندر پھسلتا تھا تو بنڈ کی نرمی گرمی جیسے میری روح میں اترتی تھی اور پھر پیاری امی کی لزت بھری سسکیاں مزہ دو بالا کر رہی تھیں
میں نے لن اندر باہر کرنے کی رفتار بڑھائی تو امی کی سسکیاں اور موری کا مساج بھی تیز ہو گیا ہر جھٹکے کے ساتھ لن امی کی گانڈ کی نئی گہرائوں میں اتر رہا تھا دو ہی منٹ میں بنڈ مکمل طور پر لن کو کھا چکی تھی میرے ٹٹے امی کے چوتڑوں سے ٹکرا رہے تھے میں نے جھٹکے مزید تیز کردئیے میرے پیٹ اور امی کے گول ڈھول کے ٹکرا نے سے تھپ تھپ کی آوازیں نشہ اور بھی بڑھا رہی تھیی۔ میں اپنی رفتار چدائی کو آ خری حد تک لے گیا امی اب زور زور سے سر پٹخ کر اونچی آواز میں آ ہ آو کر رہی تھیں اسی وقت میرے جسم سے جیسے کسی نے جان کھینچ لی ہو امی کی بنڈ نے لن سے سارا پانی کھینچ لیا مزے سے میری زوردار چیخ ابھری جھٹکے رک گئے اور میں گانڈ سے چپک سا گیا ابھی بھی میں نے زور آگے کو لگایا ہوا تھا تا کہ منی کا ایک ایک قطرہ امی کی بنڈ کی پیاس بجھا سکے۔