عاشی اور بہرام انکل

 

عاشی کی 20ویں سالگرہ تھی آج۔ لیکن اس کےممی پاپا ایک بزنس ٹور پر ملائشیا گئے ہوئے تھے  ۔ اسی لیے عاشی کی سالگرہ اس کے دوستوں نے منائی۔ لیکن گھر واپس آنے کے لیے اس نے اپنے پاپا  کے سب سے بیسٹ فرینڈ  بہرام انکل کو فون کیا، اور وہ اپنی بائیک لے کر عاشی کو ڈراپ کرنے آئے۔

عاشی نے بہت خوبصورت ڈریس پہنی ہوئی تھی ، جس میں وہ بالکل ایک پری لگ رہی تھی ، اس کے 34 انچ کے چھاتی اور اس کی کلیویج صاف دکھائی دے رہی تھی۔ اس کی پتلی کمر اور نرم 32 انچ کی گانڈ کے اچھے سے خم دار دکھ رہے تھے۔ عاشی کی گوری چٹی جلد بالکل مکھن ملائی جیسی تھی ۔عاشی کو مردوں کو لبھانا اچھا لگتا ہے، اسی لیے وہ ایسے سیکسی ڈریس پہنتی تھی ۔ وہ آج  گہرے میک اپ میں اس کا حُسن قیامت ڈھا رہاتھا

بہرام انکل 45-46 سال کے سانولے آدمی تھے۔ وہ ایک ماہر تیراک تھے ، اسی لیے ان کا جسم بہت فٹ اور اسمارٹ  تھا۔ ان کی بڑی بڑی مونچھیں بھی تھیں۔ ان کی نظر عاشی پر  کے خوبصورت جسم پر تب ہی پڑ گئی تھی جب وہ جوان ہورہی تھی ۔ آج وہ اس پھول کا رس پینے کے لیے بے چین ہورہے تھے ۔

عاشی کے بائیک پر بیٹھتے ہی، بہرام انکل جان بوجھ کر بریک لگاتے تاکہ عاشی کے چھاتی ان کی پیٹھ سے آ کر چپک جائیں۔ اور ایسا ہو بھی رہا تھا۔ وہ جھٹکے لگا رہے تھے۔

بہرام: ارے یار، یہ سڑکیں بھی اتنی خراب ہیں ہمارے یہاں کی!

عاشی: انکل، آپ تھوڑا دھیرے چلائیں نہ۔

بہرام نے تھوڑی رفتار بڑھائی اور بائیک پھسل رہی ہے ایسا شوکیا  ۔عاشی نےجلدی سے ان  کو پکڑ لیااور اس دوران اس کا ہاتھ انکل کے تنے ہوئے لن پر دب گیا۔دونوں کے جسم کو ایک تیز کرنٹ لگا۔عاشی نے جلدی سے ہاتھ لن سے ہٹالیا۔مگر اس کا جسم بہت گرم ہوگیاتھا۔ انکل  بہرام نے اپنا ایک بازو موڑ کر عاشی کے جسم کے گرد لپٹ لیا۔وہ ایک ہاتھ سے بائیک چلانےلگے ۔

بہرام: تم ٹھیک ہو نہ؟ بائیک بارش کے پانی سے پھسل رہی ہے۔ بائیک پرانی بھی ہو گئی ہے کافی۔

عاشی نے کچھ نہیں بولا۔ بہرام انکل نے ہاتھ ہٹایا نہیں۔ ایک ہاتھ ان کا ہینڈل پر تھا، تو دوسرا عاشی کی پتلی نرم خم دار کمر پر۔ اور عاشی بھی خاموش بیٹھی تھی۔ انہوں نے پھر سے ایسا کیا اور فوراً عاشی کی مست مست گانڈ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔

بہرام: ارے بیٹا سنبھالو۔ پھسل مت جانا۔ اور تھوڑا سکوئز بھی کیا۔

عاشی: آہ ۔اس کی ہونٹوں سے سسکاری نکل گئی ۔

پھر عاشی کا گھر آتے ہی بولے۔

بہرام: بیٹا تھوڑی چائے ملے گی؟ آج ٹھنڈ بہت ہے نہ، اسی لیے بائیک چلاتے وقت ٹھنڈ لگے گی۔ چائے پی لوں گا تو ٹھیک رہے گا۔

عاشی بائیک سے اترتی ہے۔ تو اس کے نپل قمیض سے باہر آ رہے تھے، اتنی سخت ہو گئے تھے۔ وہ شرم سے لال بھی ہو چکی تھی۔

عاشی شرماتی ہوئی گھر کے اندر چلی گئی۔وہ بہت گرم ہوچکی تھی ۔انکل کے ارادے بھی اسے ٹھیک نہیں لگ رہے تھے ۔ وہ سمجھ رہی تھی کہ کیا ہونے والا تھا اس کے ساتھ۔ اس کے نپل سے بہرام کو بھی اشارہ مل رہا تھا کہ عاشی فل گرم ہوچکی ہے ۔وہ اس سنہری موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتاتھا۔

دونوں گھر کے اندر چلے جاتے ہیں، اور لیونگ  روم میں صوفے پر بیٹھ جاتے ہیں۔ عاشی چائے بنانے اندر جانے لگتی ہے۔

بہرام: ارے بیٹا، کوئی بات نہیں آ جاؤ۔ بیٹھ جاؤ تھوڑا، آرام کر لو۔ بعد میں چائے بنا لینا۔ ابھی ابھی تو آئی ہو۔

عاشی ان کے برابر میں آ کر بیٹھتی ہے۔ بہرام انکل سر کے تھوڑا عاشی کے پاس جاتے ہیں اور کہتے ہیں-

بہرام: بیٹا تھکی ہوئی ہو؟ تھوڑا مساج کر دوں؟ ہم تیراکوں کو اچھا مساج آتا ہے۔

عاشی نے نہ تو منع کیا، اور نہ ہی ہاں بولا۔ تو بہرام انکل عاشی کا ہاتھ پکڑ کر اسے تھوڑا پاس لائے۔ پھر اس کے کندھے کا مساج کرنے لگے۔ وہ واقعی کافی اچھا مساج کرتے تھے۔ عاشی کو واقعی بہت اچھا لگنے لگا۔

اس کی سر کی مساج ہونے لگی، تو عاشی کو اور مزا  آنے لگا۔ پھر دھیرے سے پیٹھ پر ہاتھ سہلاتے ہوئے عاشی کے جسم کی مساج شروع ہوئی۔ بہرام انکل عاشی کے کپڑے اتارنے لگے ۔

بہرام: بیٹا اگر قمیض  اور پاجامہ اتاردو گی ، تو پیٹھ پر اچھے سے کر پاؤں گا۔

عاشی کو اتنا مزا آ رہا تھا، کہ اس نے کچھ سوچا نہیں اور اپنی قمیض ا ور پاجامہ اتارنے لگی۔ عاشی اب صرف پینٹی اور برا میں تھی ۔ عاشی کی سنہری جلد بہرام کے سامنے تھی۔ عاشی کے خوبصورت سڈول چھاتی بہرام کے ہاتھوں کے سامنے تھے۔اس کا لن عاشی جیسی خوبصورت کلی کو دیکھتے ہی  جھٹکے کھانے لگا۔ لیکن بہرام پکا کھلاڑی تھا۔ اس نے پیٹھ پر مساج کرنا شروع کیا، اور عاشی کو پیٹ کے بل صوفے پر لٹا دیا۔

پھر وہ دھیرے دھیرے نیچے گیا، اور گانڈ دبانے لگا۔ بہرام کے مساج کے ہنر اتنی اچھے تھے، کہ 20 سال کی ساری تھکاوٹ عاشی ابھی بھول رہی تھی۔ پھر کب بہرام نے عاشی کی برا کا ہک کھول دیا، پتا ہی نہیں چلا (پکے کھلاڑی جو تھے)۔

بہرام: سیدھی لیٹ جاؤ۔

عاشی سیدھی لیٹ جاتی ہے اور اس کے نرم سنہری پیٹ پر بہرام انکل سہلانے لگتے ہیں۔ عاشی کو بہت اچھا لگتا ہے۔ پھر دھیرے سے عاشی کی برا کو وہ اٹھاتے ہیں، اور سنہری پنک  نپل باہر آ جاتے ہیں۔ اس کے خوبصورت نرم سڈول چھاتی اب ننگے تھے۔ عاشی کو پتا بھی نہیں چلا، اور اچانک سے عاشی کو فیل ہوا کہ اس کی چھاتیوں کی مساج ہو رہی تھی۔

عاشی: ارے بہرام انکل، یہ کیا کر رہے ہیں آپ (بول کر وہ تھوڑی گھبرائی)؟

لیکن بہرام کے مساج کی طاقت سے وہ بے ہوش سی، نہیں ایسا مانو جیسے نشہ سا ہو گیا ہو عاشی کو۔ عاشی نے آہیں بھرنی شروع کی-

عاشی: آہ، آہ، آہ، انکل ، بس بھی کرو اب۔ اففف، کچھ زیادہ ہی اچھے نہیں ہیں آپ؟ چھوڑ بھی دو اب تو! آہ۔

پھر بہرام عاشی کی ناف کو چومنے لگتا ہے اور کیا ‘سرر سرر’ کرکے آواز آتی ہے۔ لگتا ہے عاشی کا سارا رس ناف سے نکال لے گا۔ عاشی کو اتنا اچھا لگتا ہے وہ لیٹے لیٹے وائبریٹ کرنے لگتی ہے اور آہیں تیز تیز بھرتی ہے، اور تیز تیز سانسیں لیتی ہے۔

پھر چھاتی دباتے دباتے بہرام انکل اس طرح عاشی کی نرم نرم رانوں پر چومتے ہیں کہ عاشی مدہوشی سے پڑی رہتی ہے صوفے پر۔ عاشی کی پینٹی اب دھیرے دھیرے انکل اپنے کڑک ہاتھوں سے اتارتے ہیں۔ اب عاشی پوری ننگی اس کے بہرام انکل کے سامنے لیٹی ہوئی تھی۔

اف  آہ عاشی کی پیاری سی گلابی چوت پانی سے فل گیلی ہورہی تھی ۔ اس کے بعد دھیرے سے چومتے ہوئے عاشی کی رانوں کو پکڑ لیتے ہیں۔ عاشی چونک اٹھتی ہے، اور سمجھ جاتی ہے کہ آج تو وہ بہرام انکل کے ساتھ سہاگ رات منائے گی۔

بہرام انکل نے اپنی قمیض اور پینٹ فوراً اتاری اور انہوں نے انڈرویئر بھی نہیں پہنا تھا۔ ایسے جیسے ان کو پتا ہی تھا کہ آج یہی کرنے والے ہیں وہ۔ پھر وہ عاشی کی چوت کو سونگھا  اور اس کی چوت میں اپنی زبان ڈال کر چاٹنے لگے، اوپر نیچے اندر باہر، دائیں بائیں، عاشی مزے سے چیخنے لگی ۔اس کا جسم بری طرح تڑپ رہاتھا۔انکل کی زبان اسے بے انتہا مزا دے رہی تھی ۔

پھر انہوں نے اپنا کڑک 7 انچ لمبا موٹا لنڈ عاشی کی چوت پر سیٹ کیا اور اس کی گیلی چوت میں ڈال دیا ایک ہی بار میں۔ عاشی چیخ اٹھی اور بولی-

عاشی: آہ، انکل، نہیں، نکالو، مر گئی۔ بہت بڑا ہے بہرام انکل۔

وہ آہ آہہ ہ ہ آہ اوہ اوہ اففف اسی طرح کرتی رہ گئی۔ لیکن بہرام انکل بے رحمی سے اس کی چدائی کرتے رہے، جب تک عاشی نے نہیں بولا کہ انکل آہ آہ آہ  بہت مزا آ رہا ہے، اور زور سےچودو مجھے آہ آہ آہ ۔

تب تک انکل نرمی سے اسے چود رہے تھے ۔ پھر انہوں نے رفتار بڑھائی۔ وہ پیشے سے تیراک تھے، تو توانائی بھرپور تھی ان میں۔ اور اب ان کی رفتار کا کوئی مقابلہ نہیں۔ ان میں ہوس کا جانور جاگ گیا تھا۔ وہ حیوان کی طرح عاشی کی چوت کو چود رہے تھے۔

عاشی بے ہوش ہی ہونے والی تھی کہ بہرام نے لنڈ نکال کر عاشی کو الٹا کیا۔ پھر وہ ڈوگی اسٹائل میں عاشی کو چودنے لگے۔ نئی پوزیشن میں عاشی کو اور بھی مزا آنے لگا۔ عاشی بھی اس طرح ساتھ دے رہی تھی، جیسے کتنی چدتی ہو گی۔ لیکن یہ عاشی کا پہلی بار تھا، کیونکہ عاشی کی چوت سے خون آ رہا تھا۔

لیکن بہرام انکل کو کنواری چوت کا مزا اتنا بھا گیا کہ وہ بے رحمی کے ساتھ اس کو چودتے جا رہے تھے۔ اسے کوئی آرام نہیں مل رہا تھا۔ پھر عاشی کو گود میں اٹھا کر اچھال اچھال کر اس کے اندر لنڈ ڈالتے رہے۔ اس سے لنڈ عاشی کی چوت کے سب سے اندر تک ٹھوک رہا تھا اور عاشی کی آنکھوں سے آنسو آنے لگے۔

لیکن عاشی اس بے انتہا مزے  کے نشے میں مست بہرام انکل کے کالے لنڈ پر اپنے گورے چٹے  جسم کو اچھال رہی تھی۔ پھر اسی طرح ڈیڑھ گھنٹے تک چدنے کے بعد، عاشی کے منہ کے اندر بہرام انکل نے اپنےلن  کا سارا پانی چھوڑ دیا۔

انہوں نے اسے پورا پانی پلایا، اور عاشی کا نازک جسم  بہرام انکل کے لمبے چوڑے جسم کے اوپر پڑا ہوا دیکھ کر بہرام انکل کو بہت خوشی ہوئی۔ پھر ساری رات دونوں ننگے لیٹے رہے، اور بہت باتیں کیں۔ انکل نے دو بار اسے اور چودا۔اس کے بات یہ سلسلہ چل پڑ ا۔

 


ایک تبصرہ شائع کریں (0)
جدید تر اس سے پرانی