چدائی کا نشہ

 

میرا نام سعد  ہے، اور میری عمر 28 سال ہے۔ میری پھوپھی کی ایک بیٹی ہے، روشنی ، جو مجھ سے چند سال چھوٹی ہے۔ بچپن سے ہی ہم دونوں ایک دوسرے کے بہت قریب رہے ہیں۔ جب ہم چھوٹے تھے، گرمیوں کی چھٹیوں میں پھوپھی اکثر ہمارے گھر لاہور آتی تھیں، اور روشنی  بھی ساتھ ہوتی۔ وہ مجھے شروع سے ہی بہت پرکشش لگتی تھی۔ اس کا چہرہ، اس کا جسم، ہر چیز مدہوش کر دینے والی تھی۔ پتہ ہی نہ چلا کہ کب ہمارا بچپن کا لگاؤ جسمانی کشش میں بدل گیا، اور میں اسے چودنے کے خواب دیکھنے لگا۔ اس کے جسم کو چھونے، چوسنے، اور اسے ننگا کرنے کے خیالات میرے دماغ میں ہر وقت گھومتے رہتے تھے۔

ہم جب بھی ایک ساتھ ہوتے، رات کو اکثر ایک ہی کمرے میں سوتے۔ ایک ایسی ہی رات، جب ہم لاہور میں ہمارے گھر میں تھے، میں، روشنی ، اور میری ایک چچا زاد بہن ایک ساتھ سو رہے تھے۔ رات گہری ہوئی تو میری ہوس جاگ اٹھی۔ جب مجھے لگا کہ سب گہری نیند میں ہیں، میں نے اپنا ہاتھ آہستہ سے روشنی  کے جسم پر رکھا اور اس کے قریب کھسک گیا۔ تھوڑی دیر بعد، میں نے اپنے ہونٹ اس کے ہونٹوں سے لگائے اور اسے چومنے لگا۔ روشنی  کو کچھ احساس نہ ہوا، لیکن مجھے ڈر لگا کہ کوئی جاگ نہ جائے، اس لیے میں نے خود کو روکا اور سو گیا۔

اس واقعے کے بعد، میری پڑھائی کی وجہ سے مجھے کچھ سالوں کے لیے شہر سے باہر جانا پڑا، اور ہم مل نہ سکے۔ چار سال بعد، ایک بار پھر موقع ملا جب روشنی  اکیلے ہمارے گھر رہنے آئی۔ میری امی نے ہم دونوں کے سونے کا انتظام میرے کمرے میں کیا تاکہ ہم آرام سے باتیں کر سکیں۔ روشنی  کو دیکھتے ہی میری پرانی خواہشات جاگ اٹھیں۔ اب وہ اور بھی زیادہ پرکشش ہو گئی تھی۔ اس کا جسم بھر گیا تھا، اس کی گانڈ گول اور مست ہو چکی تھی، اور اس کے بوبز اتنے بڑے اور رسیلے تھے کہ انہیں دیکھ کر لگتا تھا کہ رات بھر چوسو تو بھی دل نہ بھرے۔ اس کا جسم دیکھ کر یہی خیال آتا تھا کہ ہر لڑکا اسے چودنا چاہے گا۔ میں اس کے جسم کو نوچنے کے لیے پاگل ہو رہا تھا۔

رات کو جب ہم سونے لگے، میں نے باتوں کا بہانہ بنایا اور اس کے قریب لیٹ گیا۔ بات کرتے کرتے ہمیں نیند آگئی۔ رات کو جب میری آنکھ کھلی، میری ہوس پھر سر اٹھانے لگی۔ میں نے پھر وہی پرانا طریقہ اپنایا اور اپنا ہاتھ اس کے جسم پر رکھ دیا۔ لیکن اس بار روشنی  نے بھی اپنا ہاتھ میرے جسم پر رکھ دیا۔ پہلے تو میں گھبرا گیا، پھر سوچا کہ جو ہوگا دیکھا جائے گا۔ اگر آج اس کے گرم جسم کو نہ چودا تو شاید کبھی موقع نہ ملے۔

میں نے آہستہ سے اپنی زبان اس کے ہونٹوں پر پھیر دی اور پھر اپنے ہونٹ اس سے ملا دیے۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ سوچتا، روشنی  نے اپنا منہ کھولا اور میرے ہونٹوں کو چومنا شروع کر دیا۔ اسے اتنا پرجوش دیکھ کر میری ہوس اور بھڑک اٹھی۔ لیکن میں نے خود کو روکتے ہوئے کہا، روشنی ، یہ کیا کر رہے ہیں؟ یہ غلط ہے۔

وہ بولی، بھائی، پتہ نہیں کیوں، مجھے تم سے چومنے کا دل کیا۔

پھر اس نے پوچھا، ایک بات بتاؤ، کچھ سال پہلے تم نے رات کو مجھے سوتے وقت چومنے کی کوشش کی تھی، نا؟

یہ سن کر میں حیران رہ گیا۔ اس نے بتایا کہ میری چچا زاد بہن نے اسے اگلے دن سب کچھ بتا دیا تھا۔ اب جب بات کھل گئی تھی، تو میں نے کہا، روشنی ،تمہیں دیکھ کر پتہ نہیں مجھے کیا ہو جاتا ہے۔

وہ بولی، بھائی، میرے دل میں بھی تمہارے لیے وہی لگاؤ ہے۔

ہم نے زیادہ بات نہیں کی اور سونے کا بہانہ کیا، لیکن دل کی آگ کہاں بجھنے والی تھی۔ میں نے آو دیکھا نہ تاؤ، روشنی  کو پکڑ لیا اور پاگلوں کی طرح اسے چومنے لگا۔ وہ بھی مجھ سے چپک گئی۔ میں نے اس کا سلیپنگ گاؤن اتار دیا۔ اب وہ صرف برا اور پینٹی میں تھی۔ اس کا ننگا جسم دیکھ کر میری آنکھیں ہوس سے لال ہو گئیں۔ اس کے گورے، چکنے جسم پر میری انگلیاں پھرنے لگیں۔ روشنی  سسکیاں بھرنے لگی۔ میں نے اس کے جسم کو سونگھنا شروع کیا، اور اس کی چوت کی خوشبو نے مجھے پاگل کر دیا۔

وہ مدہوش ہو کر بولی، بھائی، مجھے آج مت چھوڑنا۔ میرا سارا رس چوس لینا۔ آج میں تیری رنڈی ہوں، مجھے اچھے سے چود دو۔

میں نے اس کی برا پھاڑ دی اور اس کے بوبز کو زور زور سے دبانے اور چوسنے لگا۔ اس کے نپلز کو کاٹتے ہوئے وہ آہ آہ کر رہی تھی۔ اس نے کہا، بھائی، اور زور سے چوسو! میرا سارا دودھ پی جاؤ، ایک بوند بھی نہ چھوڑنا۔

میں نے اس کی پینٹی کھینچ کر اتار دی اور اس کے اوپر چڑھ گیا۔ اس کا گرم، نرم جسم میرے نیچے تھا۔ میں نے اس کے بوبز کو چوستے ہوئے اس کی چوت کو ہاتھ سے رگڑنا شروع کیا۔ وہ گیلی ہو چکی تھی۔ پھر میں نے اپنا 8 انچ کا لنڈ اس کے منہ میں ڈال دیا۔ وہ اسے کتیا کی طرح چاٹنے لگی، جیسے کوئی لالی پاپ ہو۔ وہ میرے لنڈ کی تعریف کر رہی تھی اور کہہ رہی تھی کہ اسے اپنی چوت میں چاہیے۔ میں اتنا ہاٹ  ہو چکا تھا کہ اس کے منہ میں ہی اپنا مال چھوڑ دیا۔ اس نے سارا رس نگل لیا۔

چند منٹ بعد میرا لنڈ دوبارہ کھڑا ہو گیا۔ میں نے روشنی  کو لٹایا اور اس کی چوت کو چاٹنا شروع کیا۔ میری زبان اس کی چوت میں گہرائی تک گئی، اور وہ چلانے لگی، بھائی، بس اب چود دو! میری چوت پھاڑ دو!

میں نے اپنا لنڈ اس کی چوت پر رکھا اور ایک زور دار جھٹکے سے اندر گھسا دیا۔ اس کی تنگ چوت میں لنڈ گھستے ہی مجھے جنت کا مزہ آیا۔ میں زور زور سے جھٹکے مارنے لگا، اور روشنی  پاگلوں کی طرح چیخ رہی تھی، بھائی، اور زور سے! میری چوت کو پھاڑ دو! تقریباً ایک گھنٹے تک اس کی چوت مارتے رہا۔ اس دوران وہ تین بار جھڑ چکی تھی۔ آخر میں میں نے اپنا سارا مال اس کی چوت میں چھوڑ دیا۔ ہم دونوں ہانپتے ہوئے لیٹ گئے۔ اس رات ہم نے ایک دوسرے کے جسم کو نوچ نوچ کر کھایا۔

اگلے دن صبح، جب امی اور باقی گھر والے باہر گئے، میں باتھ روم میں نہانے گیا۔ روشنی  نے مجھے دیکھ لیا اور اندر آگئی۔ وہ بولی، بھائی، کل رات کا مزہ ابھی تک دل میں ہے۔

میں نے مسکراتے ہوئے کہا، تو آج پھر سے چکھ لے۔

وہ ننگی ہو کر شاور کے نیچے کھڑی ہوگئی۔ پانی اس کے بوبز پر گر رہا تھا، جو موتیوں کی طرح چمک رہے تھے۔ میں نے اسے دیوار سے لگایا اور اس کی چوت میں اپنا لنڈ گھسا دیا۔ پانی کی آواز میں اس کی سسکیاں دب رہی تھیں۔ میں نے تیز تیز جھٹکے مارے، اور وہ میری کمر پکڑ کر چیخ رہی تھی، بھائی، اور زور سے! کچھ دیر بعد ہم دونوں جھڑ گئے۔ ہم نے جلدی سے نہانا مکمل کیا اور باہر آگئے۔

میں اور روشنی چدائی کے لیے تڑپ رہے تھے۔رات کو جب سب سونے کے لیے  چلے گئے  ۔میں نے روشنی  کو چھت پر بلایا۔ لاہور کی خنک رات تھی، اور چاندنی چھائی ہوئی تھی۔ ہم چارپائی پر لیٹ گئے۔ میں  نے اپنے اور اس کے کپڑے اتاردئیے ۔ہم فل ننگے ہوگئے ۔ اس کے بوبز چاندنی میں چمک رہے تھے۔ میں اس کے مست بوبز چوسنے لگا۔وہ فل مستی سے میرے سر کوا پنے مموں پر دبانےلگی ۔پھر میں نے  اس کی چوت کو چاٹنا شروع کیا۔ وہ سسکیاں بھر رہی تھی۔ پھر میں نے اسے چارپائی پر لٹایا اور اس کی چوت میں لنڈ گھسا دیا۔ رات کی خاموشی میں اس کی چیخیں گونج رہی تھیں۔ ہم نے اس رات تین بار چدائی کی اور ایک بار میں اس کے منہ میں ، دوسری بار اس کے مموں پر اور تیسری بار اس کے چوت میں جھڑگیا۔

اس کے بعد، جب بھی روشنی  مجھ سے ملتی، ہم ایک دوسرے کو چودتے۔ اب میری اور اس کی شادی ہو چکی ہے، لیکن آج بھی ہمارے درمیان وہی جذباتی اور جنسی کشش ہے۔ ہمارا یہ راز ہمارے درمیان ہی رہتا ہے، اور جب بھی موقع ملتا ہے، ہم اسے پورا کرتے ہیں۔

 


ایک تبصرہ شائع کریں (0)
جدید تر اس سے پرانی