میرا نام سلیمان ہے، اور میں لاہور میں رہتا ہوں۔ میری بھابھی، زرنش، ایک ایسی عورت ہیں جن کی خوبصورتی ، ادائیں، باتیں، اور جسم دل کو زخمی کر دیتے ہیں۔ وہ کبھی کبھار اپنی قمیض یا گاؤن سے اپنے سڈول بوبز دکھاتیں، جو مجھے پاگل کر دیتے تھے۔ ان کاگورا گلابی رنگ، لمبا قد (تقریباً 5 فٹ 6 انچ)، بھرے ہوئے بوبز، اور بھاری چوتڑ مجھے ہر وقت بےچین رکھتے۔ دل چاہتا تھا کہ بس ایک بار موقع ملے تو انہیں خوب چودوں، لیکن رشتے کا لحاظ آڑے آتا تھا۔ بس ذہن مار کر باتھ روم میں مشت زنی کر لیتا تھا۔ بھائی زیادہ تر کینیڈا میں رہتے تھے، اور میں سوچتا کہ بھابھی بغیر لنڈ کے اتنے مہینوں کیسے گزار لیتی ہیں۔
بھابھی کو ہمارے پرانے خاندانی حویلی کو دیکھنے کی ضد تھی، جو واہگہ بارڈر کے قریب ایک گاؤں میں سالوں سے خالی پڑی تھی۔ میں نے نوکروں سے کہہ کر اسے صاف کروایا، ٹوٹا پھوٹا فرنیچر ایک کمرے میں رکھوایا، اور بجلی کے مسائل ٹھیک کرنے کے لیے الیکٹریشن بھیج دیا۔ دوپہر کو چوکیدار نے فون کر کے بتایا کہ سب کچھ ٹھیک ہو گیا ہے، اور چابی اس کے پاس ہے۔
حویلی جانے سے پہلے میں ایک عامل بابا کے پاس گیا، جو میرا رازدار بھی ہے۔ جب میں نے بھابھی کے بارے میں اپنی ہوس بتائی، تو وہ ہنس پڑا اور بولا، گنہگار ہو تم، جو اپنی بھابھی کے بارے میں ایسی سوچ رکھتے ہو۔
میں نے کہا، بابا، دل کا کیا کروں؟ یہ تو بھابھی کو چودنے کے لیے بیتاب ہے۔
اس نے ایک شیشی نکالی اور بولا، یہ شیشی لے جاؤ۔ اسے کسی کمرے کے کونے میں چھپا دینا اور ڈھکن کھول دینا۔ اس کا اثر ایک گھنٹے تک رہے گا، لیکن ایک گھنٹے بعد فوراً پانچ منٹ کے اندر ڈھکن بند کر دینا، ورنہ یہ تماشا بنا دے گی۔
میں نے بابا کو ایک ہزار روپے دیے اور شیشی جیب میں رکھ لی۔ مجھے یقین نہیں تھا کہ یہ جادو کام کرے گا، لیکن میرا لنڈ بھابھی کے لیے آگ کی طرح تڑپ رہا تھا، تو آزمانا ضروری تھا۔
میں گاڑی میں بھابھی کا انتظار کرنے لگا۔ افف! بھابھی ٹائٹ جینز اور ٹائٹ بلیو شرٹ میں قیامت لگ رہی تھیں۔ ان کے بال اوپر بندھے تھے، اور ان کے بوبز ٹائٹ شرٹ سے باہر نکلنے کو بےقرار تھے۔ میرا لنڈ ایک دم تڑپ اٹھا۔
بھابھی نے مسکراتے ہوئے کہا، سلیمان، کیسی لگ رہی ہوں؟
میں نے کہا، بھابھی، ایک دم پٹاخہ ! کاش آپ میری بیوی ہوتیں۔
وہ ہنسیں اور بولیں، چپ، شیطان کہیں کا! تیری شادی کرانی پڑے گی۔ اب چلو۔
ہمارا خاندانی حویلی جیسا کہ میں نے بتایا واہگہ بارڈر کے قریب ایک گاؤں میں تھی ۔ جو اب کچھ ترقی یافتہ ہو گیا تھا۔ صبح 11 بجے ہم وہاں پہنچے۔ چوکیدار باہر کھڑا تھا۔ اس نے چابی دی اور بولا، سرکار ، سب ٹھیک کر دیا ہے۔ میں مارکیٹ جا رہا ہوں۔
میں نے کہا، جلدی واپس آجانا، ہم زیادہ دیر نہیں رکیں گے۔
میں نے گیٹ کھولا، گاڑی اندر لی، اور بھابھی کو حویلی گھمایا۔ سب سے پہلے میں نے بابا کی کہی بات پر عمل کیا اور میٹنگ روم کے کونے میں شیشی کھول کر چھپا دی۔ پہلے تو کچھ نہیں ہوا، کوئی دھواں یا اثر نظر نہ آیا۔ میں مایوس ہونے لگا۔
لیکن دس منٹ بعد بھابھی میں تبدیلی نظر آئی۔ ان کی آنکھیں گلابی ہو گئیں، چہرے پر پراسرار مسکراہٹ تھی، اور گال تمتمانے لگے۔ ان کی جینز جیسے ان کے جسم سے چپک گئی تھی، اور ان کے جسم میں ایک لچک سی آگئی۔ مجھے لگا کہ وہ مجھے بہت شہوت انگیز نظروں سے دیکھ رہی تھیں ۔ یہ شیشی کا اثر تھا یا کچھ اور، لیکن یہ میرا موقع تھا۔
میں نے ہمت کر کے بھابھی کا ہاتھ پکڑ لیا۔ سوچا کہ اگر وہ کچھ کہیں گی تو معافی مانگ لوں گا۔ لیکن بھابھی تو رومانٹک ہو گئیں۔ انہوں نے میرا ہاتھ اپنے جسم سے لگایا اور بولیں، سلیمان، آج موسم کتنا سہانا لگ رہا ہے!
میں نے کہا، ہاں بھابھی، برسات کا موسم تو ہمیشہ سہانا ہوتا ہے۔
وہ بولیں، یہ حویلی کتنی رومانٹک لگ رہی ہے، جیسے کوئی جادو سا ہو۔
میں نے کہا، آؤ بھابھی، یہاں بیٹھیں، کولڈ ڈرنک پیتے ہیں۔
میں نے ایک کین کھول کر بھابھی کو دیا۔ وہ بولیں، پہلے تو پی لے۔
میں نے کہا، نہیں بھابھی، پہلے آپ۔
میں نے انہیں اپنی طرف کھینچا، اور وہ میری گود میں گر گئیں۔ وہ بولیں، سلیمان، ذرا دیکھ، یہاں کوئی اور تو نہیں ہے نا؟
میں نے کہا، نہیں بھابھی، بس ہم دونوں اکیلے ہیں۔
وہ بولیں، ہائے، تو پھر اتنا دور کیوں ہے؟ سارے جسم میں چیونٹیاں سی رینگ رہی ہیں۔ ذرا جسم کو رگڑ دو۔
میرا لنڈ تو پہلے ہی کھڑا تھا۔ میں نے بھابھی کو اپنی بانہوں میں دبا لیا اور ان کے جسم کو رگڑنے لگا۔ وہ بولیں، اف، یہ کپڑے کتنے تنگ کر رہے ہیں۔ کیا کروں؟
میں نے کہا، بھابھی، اتار دیں، ہوا لگ جائے گی۔
وہ بولیں، تو اتار دے نا!
میں نے ان کی شرٹ کھینچ کر اتار دی۔ ان کے بڑے بڑے بوبز برا میں قید تھے۔ وہ بولیں، یہ برا بھی پھنس رہا ہے، ہٹا دے۔
انہوں نے خود برا اتار دیا۔ ان کے سڈول بوبز دیکھ کر میرا لنڈ اور کڑک ہو گیا۔ پھر وہ چیخیں، یہ جینز کتنی تنگ ہے، کھینچ کر اتار دے!
میں نے ان کی جینز اور پینٹی اتار دی۔ اب بھابھی مکمل ننگی میری گود میں تھیں۔ وہ بولیں، اب اپنے کپڑے اتارو!
میں نے اپنے کپڑے اتار دیے، لیکن اپنا تنا ہوا لنڈ چھپانے کی کوشش کی۔ وہ بولیں ہائے ، اسے کیوں چھپا رہا ہے ۔یہ ہی تو اصل چیز ہے ۔انہوں نے میرے ہاتھ ہٹائے اور میرے موٹے لن کو اپنے ملائم ہاتھ میں لے کر سہلانے لگیں ۔میں مزے سے چیخ پڑا۔ وہ بولیں، کیسا نشہ سا چھایا ہے۔ اس بستر پر چلیں؟
میں نے بھابھی کو اٹھا کر بستر پر لٹایا۔ ان کی چوت گیلی ہو چکی تھی، اور ان کا جسم چدائی کے لیے تڑپ رہا تھا۔ وہ مجھ پر چڑھ گئیں۔ ان کی آنکھیں سرخ تھیں، بال بکھرے ہوئے، اور منہ سے تھوک نکل رہا تھا۔ انہوں نے میرے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیے اور اپنی زبان میرے منہ میں گھسا دی۔
میں نے کہا، بھابھی، یہ کیا کررہی ہیں آپ ؟۔
وہ چیخیں، سالے، چودتا کیوں نہیں؟ میری چوت پھاڑ دے!
ان کی چوت میرے لنڈ پر رگڑ رہی تھی۔ میں نے کمر اٹھائی اور اپنا 8 انچ کا لنڈ ان کی چوت میں گھسا دیا۔ وہ چیخیں، مار ڈالا! پورا گھسیڑ دے، حرامی!
میں نے زور زور سے جھٹکے مارنا شروع کیا۔ بھابھی کی چیخیں اور گرراہٹیں کمرے میں گونج رہی تھیں۔ وہ بولیں، چود، زور سے چود! میری چوت پھاڑ دے!
کچھ دیر بعد انہوں نے مجھے دھکا دیا اور گھوڑی بن گئیں۔ وہ بولیں، اب میری گانڈ مار!
میں نے ان کے چوتڑ اٹھائے اور اپنا لنڈ ان کی گانڈ کے سوراخ پر رکھا۔ آہستہ آہستہ لنڈ اندر گھسا۔ ان کا تنگ سوراخ میرے لنڈ کے سائز کا ہو گیا۔ میں نے تیز تیز جھٹکے مارے، اور بھابھی کی چیخیں تیز ہو گئیں۔ میں ان کے بوبز کو زور سے دبا رہا تھا۔میں مزے سےپاگل ہورہاتھا۔جس خوبصورت جسم کو میں نے صبر دور دور سے دیکھا تھا۔آج اسے چود چود کر میں اپنا خواب پورا کررہاتھا۔بھابھی کے مست بدن کا انگ انگ بے انتہا گرمی لیے ہوئے تھا۔میں ان کی ٹائٹ گانڈ میں فل جوش سے جھٹکےمارہاتھا۔بھابھی مستی سےچیخ رہی تھیں ۔کچھ دیر بعد میں جھڑنے والا تھا۔ میں نے کہا، بھابھی، میرا نکلنے والا ہے!
وہ بولیں، میرے منہ میں جھڑ!
میں نے لنڈ ان کی گانڈ سے نکالا اور ان کے منہ میں گھسا دیا۔ میرا مال ان کے گلے تک چلا گیا۔ وہ سارا رس نگل گئیں۔ لیکن اسی وقت ان کا چہرہ بدلنے لگا۔ ان کی آنکھیں فل لال ہوگئیں ، اور وہ عجیب سی چیخیں مارنے لگیں۔
میں گھبرا کر پیچھے ہٹا۔ دیوار کی گھڑی نے دو بجنے کا اشارہ کیا۔ یہ شیشی کا اثر تھا! بھابھی کا جسم اچانک اچھلا اور چھت سے ٹکرایا۔ مجھے کسی طاقت نے دور پھینک دیا۔ میں نے ہوش سنبھالتے ہوئے شیشی بند کی اور باہر بھاگا، لیکن سیڑھیوں سے گر کر بےہوش ہو گیا۔
جب ہوش آیا، میرا جسم زخمی تھا، پاؤں کی ہڈی ٹوٹی ہوئی تھی، اور چہرے پر جلن کے نشان تھے۔ بھابھی میرے پاس بیٹھی تھیں اور بولیں، سلیمان، اگر میں نہ ہوتی تو تمہیں کون بچاتا؟ خدا کا شکر ہے، کوئی بڑی چوٹ نہیں لگی۔
میں نے پوچھا، یہ سب کیسے ہوا؟
تب بابا کی ہنسی سنائی دی۔ وہ بولا، میں نے کہا تھا نا کہ شیشی ایک گھنٹے تک کام کرتی ہے۔ غنیمت ہے کہ تم نے وقت پر بند کر دی۔ ویسے، مزا آیا نا؟
میں نے کہا، بابا، معافی مانگتا ہوں۔ اب کبھی ایسا نہیں کروں گا۔
وہ بولا، یہ سوچنا ہی گناہ تھا۔ بھابھی کو کچھ یاد نہیں رہے گا۔ بس اپنا دماغ صاف رکھو۔ اب کفارہ ادا کرو: روز صبح مشت زنی کرو، ساری گندگی نکالو، اور کسی بھوکے کو کھانا کھلاؤ۔
بابا ہنستے ہوئے چلا گیا۔ مجھے یقین نہیں تھا کہ آج کے دور میں جادو چلتا ہے۔ لیکن میری ٹانگ کا درد مجھے سچ بتا رہا تھا۔ بھابھی میرے بال سہلا رہی تھیں اور بولیں، لیٹے رہو سلیمان، کوئی برا خواب دیکھا تھا کیا؟۔پتا نہیں بھابھی ۔میں سر جھکاتے ہوئے بولا۔انہوں نے مجھے اپنے سینے سے لگالیا۔ان کے مست مموں کی نرمی اور گرمی سےمیرا براحال ہونےلگا۔بابا کی سب نصیحتیں ہوا میں اڑ گئیں اور مجھ پر بھابھی کے مست جسم کے جادو کا نشہ پھر سے چھانے لگا۔