سلگتی چوت

 

اس وقت میری عمر 35 سال کی ہے اور یہ کہانی آج سے تین سال پہلے شروع ہوئی۔
میں شادی شدہ اور ایک بچی کی ماں ہوں میرے میاں دبئی جاب کرتے تھے اور سال میں بیس دن کی چھٹی پر گھر آتے تھے زندگی اچھی گزر رہی تھی اور میں اپنے گھر میں خوش تھی ۔مگر کیا پیسہ اور دولت ہی سب کچھ ہوتا ہے ؟۔ہرگز نہیں ۔ایک عورت کے لیے سب سے بڑی دولت اس کا شوہر ، اس کا پیار اور اس کا جسم ہوتا ہے ۔چدائی کے بغیر دنیا کی کوئی عورت یا مرد نہیں رہ سکتے ۔اور شادی شدہ عورت کے لیے تو اس کے بغیر جینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔مگر میں ایک شریف اور عزت دار خاندان سے تعلق رکھتی ہوں ۔میرے لیے بہک جانا آسان نہیں تھا۔
چوت کی آگ بہت زیادہ تنگ کرتی تو میں خواہش پوری کرنے لئے انگشت زنی کر کے سکون حاصل کر لیتی تھی۔مگر یہ وقتی سکون میری چوت کی آگ کو مزید سلگادیتا۔
اگرچہ مجھے آس پڑوس اور خاندان کے مردوں کی طرف سے ناجائز تعلقات کی آفریں بھی ملیں۔
مگرمجھے ایسی باتوں سے کوئی سروکار نہ تھا اور نہ ہی میں اپنے شوہر سے بے وفائی کرنا چاہتی تھی۔
کیوں کہ مجھے اپنے شوہر سے بے حد محبت تھی اور ایسے ہی انہیں مجھ سے بھی ۔مگر خالی لفظی محبت کافی تو نہیں ہوسکتی ۔مجھے بھی ایک دن بہک جانا تھا۔چوت کی گرمی برداشت کرنا کسی عورت کے بس میں نہیں ہوتا۔
اورپھر میری زندگی میں شانی آیا۔۔
شانی میری کزن کا بیٹا تھا۔ شانی میری گود میں کھیلا اور بڑا ہوا تھا
پچیس سال کا بھرپور جوان،چھ فٹ قد ،اور مردانہ وجاہت کا نمونہ تھا۔ شانی میری آنکھوں کے سامنے ہی جوان ہوا تھا۔میری بہت عزت اور احترام کرتا تھا۔اور میں بھی اسے خالہ بھانجے کی محبت سے دیکھتی تھی۔اگرچہ وہ میرا سگا بھانجا نہیں تھا، مگر میرے سمیت پورے خاندان کا لاڈلا بچہ ہے
ہوا یوں کہ اسے ہمارے گھر کے پاس ہی جاب مل گئی اور وہ شہر میں رہائش کی تلاش میں ہمارے گھر آیا۔اتفاق سے میرے میاں بھی آئے ہوئے تھے
اور انھیں میرے اکیلے رہنے کی وجہ سے میری مشکلات کا اندازہ تھا ویسے بھی ہمارے لیے شانی بچہ ہی تھا لہذا
انہوں نے اصرار کیا کہ وہ ہمارے گھر ہی رہائش اختیار کر لے۔اس سے مجھے کمپنی بھی مل جائے گی اور شانی کو بھی آسانی ہو جائے گی۔
اس طرح شانی ہمارے گھر میں رہنے لگ گیا۔
کچھ ہی دنوں میں میرے میاں واپس چلے گئے۔
اور میں اپنی روٹین میں مگن ہو گئی مگر اس دفعہ حالات بدل چکے تھے
اب شانی آ گیا تھا اس کے آنے سے بوریت نے رخت سفر باندھ لیا تھا وہ زندگی سے بھرپور اور ہر وقت خوش رہنے والا لڑکا تھا۔
اور شانی اتنی جلد میری فیملی کا حصہ بن گیا۔اب روزانہ میں شانی کے آنے کا انتظار کرتی،اس کے آنے پر ہم شام کا کھانے کھاتےپھر ٹی وی پر کوئی پروگرام دیکھنے وہ میری بیٹی کے ساتھ کوئی کھیل کھیلتا یا اسے کہانیاں سناتا اورپھرہم اپنے اپنے کمروں میں سو جاتے۔
اسے میری پانچ سالہ بیٹی بہت پسند تھی ہر وقت اسی کو لاڈ پیار کرتا،
اس کے لیے تحائف اور چاکلیٹ وغیرہ لاتا۔
وہ مجھے ہمیشہ آنٹی کہہ کے پکارتا اور میں اسے شانی بیٹا۔
اس کے آنے سے مجھے بڑی مدد مل گی اب چھوٹے موٹے کاموں کے لئے مجھے باہر نکلنے کی ضرورت ختم ہوگئی تھی میرا ہر کام وہ خود ہی کردیا کرتا۔اور گھر میں ایک مرد کی موجودگی میں بہت محفوظ محسوس کرنے لگی۔
اور مجھے بھی اس سے انس و پیار ہو گیا تھا۔
سوموار سے جمعے تک ہمارے گھر رہتا اور جمعے کی رات کو اپنے قصبے میں ماں باپ کے پاس چھٹی گزار کر سیدھا سوموار کو آفس پہنچ جاتا۔۔
تین ماہ بعد پھر گرمیاں سٹارٹ ہو
گئیں ہمارے گھر میں ایک ہی اے سی تھا جو میرے بیڈروم میں لگا تھا،جب گرمی کی شدت بڑھی تو میں نے اسے اپنے بیڈروم میں سونے کا کہہ دیا۔
کیونکہ دل میں کسی بھی قسم کا غلط خیال نہیں تھا۔۔
اب وہ روزانہ میرے بیڈ پر سونے لگا۔
مگر سونے سے پہلےوہ روزانہ موبائل پر اکثر چیٹ کرتا تھا۔
مگر میں نظر انداز کر کے سو جاتی۔
پھر ایک دن پوچھا توشرما کر بولا خالہ گرل فرینڈ بنائی ہے۔کوئی ثانیہ نام کی
اسکے آفس میں کام کرتی تھی نوجوان اور خوپصورت لڑکی تھی
مجھے سن کر تھوڑی حیرانی ہوئی۔کہ بچہ تو بڑا ہو گیا ہے۔
مگرنجانے کیوں ہلکی سی جلن کا بھی احساس ہوا کہ بیڈ پر ساتھ سوتی عورت کو چھوڑ کر کسی اور عورت میں دلچسپی لے رہا ہے۔شاید یہ وہی لمحہ تھا جب میں شانی کے اندر کچھ اور ہی دیکھنے لگی ۔اور دھیرے دھیرے مجھے شانی میں اپنی تڑپتی مچلتی ہوئی جنسی آرزؤں کا حل نظر آنے لگا۔
دیکھتے ہی دیکھتے میں وہ سب کچھ کرنےلگی جس کا کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔میں نے ایسے مختصر کپڑے پہننے شروع کردئیے جس میں میرا خوبصورت جسم بہت نمایاں دیکھائی دیتا۔ شانی مجھے ان کپڑوں میں دیکھتاتو شرم سے نظریں جھکالیتا ۔مگر ایک خوبصورت عورت کے جسم کو نظر انداز کرنا آسان نہیں ہوتا۔
مگر شانی عجیب لڑکا ثابت ہورہاتھا۔وہ دیر تک اپنی گرل فرینڈ کے ساتھ چیٹنگ کرتارہتا۔ اب مجھے اس کی گرل فرینڈ سے بہت جیلیسی محسوس ہونے لگ گئی۔
کیونکہ اس کی روٹین بدل گئی تھی اب ہم پر اپنی
توجہ کم کردی تھی اور ہر وقت اپنی گرل فرینڈ سے باتوں میں یا چیٹ میں مصروف رہتا تھا
ایک دن ڈرائنگ روم میں سے گزری تو فون پر اپنی گرل فرینڈ سے چیٹ میں اتنا مگن تھا کہ اسے پتہ بھی نہ چلا کہ میں بیڈروم سے باہر آ گئی ہوں۔
وہ سکرین پر نظریں ٹکائے بیٹھا تھا اور اس کی نیکر میں ایک بڑا ابھار نظر آ رہا تھا شاید اس کی گرل فرینڈ نے کوئی نیوڈ پکچر یا ویڈیو بھیجی تھی جس سے اس کے لن نے جان پکڑی تھی
غور سے دیکھا تو پورے لنڈ کی شیپ واضح ہو رہی تھی اور لنڈ کی لمبائی اور موٹائی دیکھ کر میرا جسم سلگنے لگا۔میری چوت پانی برسانے لگی ۔ یہ نظارہ مجھ سے مزید برداشت نہ ہوا۔
اور مجھے باتھ روم میں جا کر چوت میں انگشت زنی کرنی پڑی۔
مگر اس سے جسم کی آگ اس طرح ٹھنڈی نہ ہوئی۔ کیونکہ دماغ میں شانی کا موٹا ڈنڈا چھایا تھا۔
اس کے موٹے لن نے میرے تن بدن میں آگ لگادی تھی ۔اور مجھے اب فیل ہونے لگا تھا کہ میرے ضبط کادامن ہاتھ سے نکل رہا ہے ۔ایک جستجو اور تمنا سی جسم میں جاگ گئی تھی
اب شانی کو دیکھنے کی میری نگاہ کا زاویہ پورا بدل چکا تھااب میں اسے پیاسی اور ہوسناک نظروں سے دیکھنے لگی۔اور اس کے سامنے اپنے جسم کی اور زیادہ نمائش کرنے لگی کبھی آدھ ننگی چھاتیاں دکھائی تو کبھی سوتے ہوے اس ڈھنگ سے سونے کا ناٹک کرتی کہ میرے جسم کے خدو خال اس پر اچھے سے واضح ہوں۔مگر وہ پتہ نہیں کس مٹی کا بنا تھا کہ اس پر میرے لطف وکرم کی بارش کا کوئی اثر نہ ٹھا۔اس کی نگاہوں میں میرے لیے وہی احترام اور عزت تھی جو ایک بیٹے کی ماں کے لیئے۔مگر میں نے اسے اپنے دل کے تخت پر بٹھا لیا تھا اور خیالوں میں اس کے ساتھ کتنی ہی سہاگ راتیں منا چکی تھی۔ حالانکہ میں جانتی تھی کہ اس کا ساتھ ایسا ہونا نا ممکن ہے کیونکہ اسکی اور میری عمر میں فرق کے ساتھ ایک خونی رشتہ بھی تھا اور پھر بیچ میں عزت و احترام کی دیوار۔۔
دن گزرتے گئے اور ہر آنے والا دن میرے لئے مشکل ہوتا ہوگیا۔۔
میرا دل ودماغ دو حصوں میں منقسم ہو چکا تھا۔۔
ایک حصہ شوہر کی وفا کا تقاضا کرتا تو دوسرا حصہ۔۔
جوان جسم کے ساتھ کی آرزو کرتا،۔۔
میں دوراہے پر بری طرح پھنس چکی تھی۔۔
بات صرف جوان جسم کی ہی نہیں تھی شانی کی شخصیت کی شگفتگی اور میری فیملی سے لگاؤ نے بھی مجھے متاثر کیا تھا۔۔
مگر ہمارے درمیان تعلقات میں موجود احترام اگلی پیشرفت میں بہت بڑی رکاوٹ بنا ہوا تھا۔۔
پھر جب سے اس کلموہی گرل فرینڈ کے چکر میں پڑا تھا۔۔
وہ بالکل ہی بدل گیا تھا،اس کی توجہ کا مرکز اس کی گرل فرینڈ بن گئی تھی۔۔۔
اور میں جو اس کی توجہ کی عادی ہوگئی تھی۔۔
اسے اس بے رخی نے مزید تڑپا دیا تھا۔۔
میں کوئی اگلا قدم اٹھانا چاہتی تھی مگر میری انا و غرور مجھے روکے ہوئے تھا۔۔
میں لاکھوں میں نہیں تو ہزاروں میں ایک تھی۔۔
مجھے جو دیکھتا وہ دیکھتا ہی رہ جاتا تھا۔۔
میں چہرے سے تو خوبصورت تو تھی ہی مگر میری اصل خوبصورتی میرے جسم میں تھی۔۔
میں سرو قد اور پرکشش جسم کی مالک تھی۔۔ میرا سینہ چھپانے سے نہ چھپتا تھا چھاتیاں بھاری چادر میں بھی ایسے سر اٹھائے کھڑی ہوتی تھیں۔۔ جیسے چوٹیاں برف پڑنے کے بعد بھی نمایاں ہوتیں ہیں۔۔
اور میرے کولہے لوگوں کو دعوت نظارہ دیتے تھے۔۔
دیکھنے والے مڑمڑ کر دیکھتے تھے اور پیچھے سے میری چال کا نظارہ راہیوں کو راہ سے بھٹکا دیتا تھا۔۔
وہ مرد بھی میرے سامنے موم ہو جاتے تھے جنہیں عورت کی خوبصورتی کے سامنے نہ جھکنے کا زعم تھا۔۔
مردوں کی زبانوں میں مجھ سے بات کرتے ہوئے شیرینی ٹپکنے لگتی تھی۔۔
دکاندار حضرات مجھے سودا سستے میں دیتے تھے۔۔
محلے دار میری اک نگاہ کے طالب تھے۔۔
میرے رشتے دار مجھے مدد کی پیشکش کیا کرتے،اپنے فون نمبر دیتے کہ کوئی بھی کام ہو تو انہی۔ بتاؤں مگر میں ان عنایات و نوازشات کا مقصد جانتی تھی اور سمجھتی تھی کہ سب عزت دے کر میری عزت لینا چاہتے ہیں۔
مگر میں اپنے شوہر کے پیار میں پاگل تھی اور میں اپنے شوہر سے بے وفائی کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی اسی لئے میں نے
اپنی جنسی ضروریات کو دبا ڈالا تھا
مگر شانی نے انجانے میں میری کچلی ہوی خواہشات کو جگا دیا تھا
اب میں اسکا پیار پانا چاہتی تھی مگر کوئی راہ دکھائی نہ دے رہی تھی
ابتدائی کوششوں کے بعد میں تھک کر مناسب وقت کا انتظار کرنے لگی
اور اپنی توجہ دوبارا اپنی بیٹی اور شوہر پر مبذول کر دی
پہلے دن میں شوہر سے ایک بارفون پر بات کرتی اب دو بار کرنی شروع کر دی
بیٹی تو پہلے ہی میری زندگی کا محور تھی۔
اور پھر تین ماہ بعد میری سنی گئی
شامی کا اپنی گرل فرینڈز سے بریک اپ ہو گیا
اس نے پروموشن کے لئے اپنے باس سے دوستی کر لی
شانی بہت اداس ہوگیا تھا بہت بجھا بجھا رہنے لگا
رویا تو نہیں مگر مجھے بتاتے ہوئے اتنا ہی غمگین تھا جیسے کوئی اپنے کی وفات پر ہو۔
میں نے اسے حوصلہ دیا کہ فکر نہ کروکہ تالاب میں بہت مچھلیاں ہیں
تمہیں ضرور کوئی اچھی لڑکی ملے گی۔
اب مجھے موقع مل گیا تھا کہ اپنی چالیں ہوشیاری سے چلوں
مگر اس سے پہلے مجھے اسکو اس غم کے فیز سے نکالنا تھا
لہذا میں نے پلاننگ شروع کر دی،
اس دن جمہ تھا ۔ وہ جاب سے آیا تو میں نے کہا کہ کھانا آج باہر کھاتے ہیں تیار ہو جاؤ
وہ فریش ہو کر آیا اتنی دیر میں بھی تیار ہوگئی اور ہم تینوں ایک ریسٹورنٹ میں کھانا کھانے چلے گئے،وہاں پہلے تو افسردہ سا بیٹھا رہا پھر آہستہ آہستہ نارمل ہوگیا اور ہم نے مزے سے کھانا کھایا اور اور گھر آ گئے گھر آ کر بھی وہ ایسے ہی موبائل پکڑ کر بیٹھا اور افسردہ صورت بنا لی۔میں نے پوچھا کہ اب کیا ہوا تو وہ اپنی گرل فرینڈ کی تصویریں دکھانے لگا۔وہ بہت خوبصورت تھی ۔
مجھے تھوڑا سا غصہ آیا اور اسے کہا کہ ابھی کہ ابھی اسکی ساری تصاویر ڈیلیٹ کرے
اور اپنے سامنے اسکی ساری گیلری خالی کرا دی
اور کہا کہ گرل فرینڈ جب تک نہیں بنتی مجھے ہی اپنی دوست سمجھے ۔
اور آئندہ مجھے میرے نام سے پکارے خالہ ، آنٹی کا ڈرامہ چھوڈے۔
اس طرح اپنے تعلقات کا پہلا پڑاؤ مکمل کیا
اس سے اگلے دن ہم نے کھانا گھر سے کھایا اور فلم دیکھنے چلے گئے
آہستہ آہستہ وہ مجھ سے فری ہونے لگ گیا میں کوئی سیکسی لڑکی دکھتی تو میں اسے اشارہ کرتی کہ دیکھو کیا پیس ہے۔یا وہ کسی بڑے پر کشش عورت کو دیکھتا تو مسکرا کر میری توجہ دلاتا۔
اب میں خوش تھی اصل منزل تو نہیں پائی تھی مگر کافی کامیابی حاصل کر لی تھی
شانی کا موڈ بھی اچھا ہوگیا تھا اب پہلے والی روٹین ہو گئی تھی
بلکہ پہلے سے بھی بہتر،اب وہ مجھے نوٹس کرنے لگ گیا تھا
میں اسے اکثر اپنی طرف دیکھتے پاتی اور پکڑے جانے پر کبھی تو آنکھیں چرا جاتا اور کبھی زیرلب مسکرا جاتا
مجھے بھی اس کھیل میں مزہ آنے لگ گیا اور میں اپنے لباس کو اور بھی بے پروائی سے پہننے لگی
شلوار قمیض کی بجائے ٹی شرٹ اور ٹائٹس پہننے لگی
جن میں میری ہپس کی گولایاں اور چھاتیوں کی اونچایاں واضح ہوتیں
اور وہ نظروں ہی نظروں میں مجھے نہارتا
اب اس کی آنکھوں میں احترام کی بجائے پسندیدگی جھلکتی
اور میں نے بھی اسکی نگاہوں کا تعاقب چھوڈ دیا تھا۔
حالانکہ۔مجھے پتہ ہوتا تھا کہ اسکی نگاہیں ٹی وی پر نہیں میری چھاتیوں کے درمیان واقع گہرائیوں میں ہے مگر میں اسے پورا موقع دیتی کہ بیٹا دیکھو
یا کبھی صوفے پر ایسے نیم دراز ہوتی کہ میرے ہپس اس کی طرف ہوتے۔
اور شانی پر شوق نگاہوں سے انکی گولایوں کا ناپ رہا ہوتا۔
دن گزرتے گئے اور مجھے اب اس کی آنکھوں میں پسندیدگی سے بڑھ کر پیار کی تپش نظر آنے لگ گئی اور عزت کی بجائے ہوس کے ڈورے دکھنے لگے
مگر وہ کوئی عملی قدم اُٹھانے سے ہچکچا رہا تھا۔مگر اب میرے لیے مزید صبر کرنا مشکل ہوتاجارہاتھا۔میری چوت ہر وقت رال ٹپکاتی رہتی ۔اور شانی کا لن لینے کے لیے میرا انگ انگ تڑپتا۔
ایک دن حسب معمول ٹی وی لاونج میں فلم دیکھ رہے تھے اور میں صوفے پر پشت لگائے بیٹھی تھی اور دونوں ٹانگیں سامنے ٹیبل پر رکھیں تھیں
اسکی توجہ سامنے سکرین پر مرکوز تھی
میں نے اپنی انی ٹانگ کو فولڈ کر کے صوفے پر رکھ لیا اس طرح اب ٹانگوں کے درمیان کا حصہ اور ایک ہپ کی گولائی کا نظارہ اس کے سامنے تھا
اور ٹائٹس کا کھچاؤ مجھے اپنی چوت کے لبوں پر بھی محسوس ہو رہا تھا مجھے یقین تھا کہ چوت کے ہونٹوں کی وضاحت ٹائٹس نے عیاں کر دی ہوگی۔
میں کن اکھیوں سے اس کا رد عمل دیکھ رہی تھی
اس نے سکرین کو چھوڈ کر سامنے بیٹھی ہیروئن کو دیکھنا شروع کردیا تھا
اسکا ایک ہاتھ اپنےٹراوز پر ٹکا تھا
اور اپنے گھوڑے کی مالش شروع کر دی تھی
گھوڑا آہستہ آہستہ اٹھنے لگا اور اپنی لمبائی چوڑائی میں پھیل گیا
جبکہ وہ نامحسوس انداز میں اسکی مالش کیا جارہا تھا
پھر کچھ ہی دیر بعد وہ یکدم اٹھا اور تقریباً بھاگتا ہوا
واشروم میں چلا گیا۔ لگتا تھا کہ معاملہ برداشت سے باہر ہوگیا تھا
،وہ مارا میں نے ایک خاموش نعرہ لگایا اس دن کا بدلہ میں نے لے لیاتھا جب مجھے انگشت زنی پر مجبور ہونا پڑا تھا
۔۔مگر اب س سلسلے کو آگے بڑھانے کا بوجھ بھی میرے کندھوں پر اتھا
مجھے ہی اگلے مرحلے میں اس گیم کو لے کر جانا تھا

 

میری ٹانگیں اٹھیں ہوئیں تھیں اور میرےگھٹنے میری چھاتیوں کے ساتھ لگے ہوئے تھے۔۔

میرا پاجامہ اتر کر میرے گھٹنوں میں پھنسا ہوا تھا

میری ننگی گانڈ صوفے کے کنارے پر ٹکی ہوئیں تھیں۔

اور شانی کا لوڑا میری گیلی اور ٹائٹ چوت میں کسی میخ کی طرح گڑا ہوا تھا

چند گھنٹے پہلے۔۔

آج میں نے شانی کو ناشتے پر ہی بتا دیا تھا کہ آج جمعہ ہے تو ویک اینڈ کرنے گھر نہ چلے جانا۔۔

اور شام کو جاب سے سیدھے گھر آنا ۔۔ سینما میں نیو مووی آئی ہے وہ دیکھنے چلیں گے۔

اگرچہ وہ پچھلے ویک اینڈ پر بھی ہمارے ہی ساتھ تھا مگر میں اب اس آنکھ مچولی کے کھیل کو ختم کر کے

شانی کے موٹے لوڑے کو اپنی چوت میں لینے کے لیے تڑپ رہی تھی ۔۔

اب میں نے اس کی بھرپور تیاری شروع کردی تھی ۔۔

پہلے تو بیڈروم میں موجود الماری میں بنے خفیہ خانے سے شوہر کی شراب کی بوتل نکالی۔ دیکھا تو آدھی سے زیادہ بھری ہوئی تھی۔

پھر ویاگرا کی ٹیبلیٹ دیکھیں تو وہ بھی دس گولیاں پڑی ہوئی تھیں۔

بوتل اور شراب دونوں کچن کے کیبنٹ میں رکھ دیں ۔

سیکس کے لیے کنڈوم کی ضرورت نہیں تھی۔کیوں کہ میں کچھ پیچیدگیوں کی وجہ سے میں حاملہ نہیں ہوسکتی ہوں۔

پھر گھر کے کام کیے اور شام کے لیے اچھا سا کھانا تیار کیا۔

کھانا تیار کرنے کے بعد غسل کیا اور زیرناف اور باقی غیر ضروری بالوں کو صاف کیا۔۔میری چوت اب شانی کے لوڑے کے لیے پوری طرح تیار تھی ۔۔

ابھی نہا کر نکلی ہی تھی کہ تھوڑی ہی دیر میں شانی بھی آ گیا۔

آ کر غسل وغیرہ کر کے کھانے کی ٹیبل پر بیٹھا۔ہم نے کھانا کھایا ۔

کھانے کے دوران کولڈ ڈرنکس بھی پیں۔ اتنی دیر میں چھ بج گیے اور سینما کا ٹایم ہو گیا۔

پھر ہم فلم دیکھنے چلے گئے فلم کی اچھی رومانٹک کہانی تھی

سینما سے گھر آ کر میں نے اپنی بیٹی کو سلا دیا۔اور اسے بولا کہ کل تو تمہاری چھٹی ہے چلو بیٹھو کچھ دیر ٹی وی ہیں۔

ہم ٹی وی روم بیٹھ کر کامیڈی شو دیکھنے لگے۔

رات کے دس بج رہے تھے۔

میں شانی کبھی ڈرنکنگ کی ہے؟

شانی جی چند بار دوستوں کے ساتھ کبھی فنکشن وغیرہ میں پی لیتا ہوں

ویسے عادت نہیں پڑی۔

میں میں بھی امجد(شوہر) کے ساتھ کبھی ان کے اصرار پر پی لیتی ہوں

شانی حیرت سے بولا ا چھا آپ بھی!

میں جی تو اور کیا یار.آج صفائی کرتے ہوئے مجھے ان کی بوتل ملی ہے۔۔ پینے کا موڈ ہے تو بتاؤ کچن میں کیبنٹ میں رکھی ہے لے آؤ

شانی اٹھا اور گلاس بوتل کچن سے لے آیا پھر فریج سے سوڈا اور برف بھی نکال لایا۔

شانی سامان میں لے آیا ہوں ان آپ بنائیں۔

میں نے اسے پیگ بنا کر دیا۔

وہ ہاتھ میں پکڑ بولا۔میں اکیلا تو نہیں پیوں گا۔

اس کے اصرار پر میں نے بھی ایک چھوٹا سا پیگ بنا لیا اور چھوٹی چھوٹی چسکیاں لینے لگیں

میں شانی کبھی گرل فرینڈ یاد آتی ہے۔

شانی جب سے آپ سے دوستی ہوئی ہے میں تو اسے بھول ہی گیا ہوں۔ویسے بھی وہ ترقی کر کے دوسرے آفس چلی گئی ہے۔

تو کیسے تعلقات تھے تمہارے بیچ۔ مطلب ڈنگ ڈونگ کر لیا تھا کہ نہیں



میں نے شرارتی لہجے میں پوچھا

اس کے چہرے پر شرماہٹ آ گئی۔

وہ ہکلاتے ہوئے بولا نہیں نہیں مطلب ہاں جی جی ہاں

اچھا کیسے ہوا

وہ بس ایک دفعہ اسے اسکے فلیٹ چھوڑنے گیا تو بولی کہ چائے پی کر جانا۔۔اس دن وہ فیلٹ میں اکیلی تھی اور اسکی روم میٹ ابھی آئی نہیں تھی۔ ۔۔ تنہائی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میں نے کسنگ شروع کردی اور بات بڑھتے بڑھتے بڑھ گئی۔

میں ہمم بڑے چھپے رستم ہو تم۔

اسی دوران وہ دو پیگ پی چکا تھا جبکہ میرا ابھی پہلا بھی آدھا نہیں ہوا تھا۔میں اسے مدہوش نہیں کرنا چاہتی تھی بلکہ شراب انسان کو بے باک کر دیتی ہے میں اسی بے باکی کا فائدہ اٹھانا چاہتی تھی۔

اسی لیے میں نے اسے روک دیا کہ زیادہ پی کر ٹن ہی نہ ہو جائے۔

میں۔۔ اچھا میں تو تمہاری گرل فرینڈ سے زیادہ بوڑھی لگتی ہوں گی ۔۔

شانی جانے دیں آپ کیسی باتیں کرتیں ہیں۔۔اپ اس سے زیادہ جوان اور پرکشش ہیں۔۔اپ کا جسم سیکس بم ہے بم ۔۔اور آپ میں کپڑوں میں اتنی سیکسی لگتی ہیں جتنی وہ ننگی ہوکر بھی نہیں لگتی

شراب کے نشے نے کام دکھانا شروع کر دیا تھا۔

میں اس کی طرف کھسک گئی اور اس سے سرگوشی نما لہجے میں پوچھا۔

مجھ میں۔۔ اور میرے جسم میں

کیا اچھا لگتا ہے

شانی آپ نے شراب آج پلائی ہے میں آپ کے حسن میں بہت دیر سے مدہوش ہو ۔آپ کے ہونٹوں کے گداز ہونٹ گلاب کی پتیوں کی مانند ہیں۔اپ کی چھاتیوں کی اٹھان کے آگے کےٹو بھی ہیچ ہے ۔۔

آپ کے کولہوں میں دوران چال ایسے مدوجذر بنتے ہیں کہ دیکھنا والا حساب کتاب بھول جاتا ہے۔۔

جب سے آپ کو مرد کی نگاہ سے دیکھا ہے باہر کوئی عورت دل کو بھاتی نہیں

وہ پتہ نہیں کیا کچھ بولے جا رہا تھا اور میں دم بخود اسے دیکھے جارہی تھی

میری وارفتہ نگاہوں کو محسوس کرتے ہوے وہ بولتے بولتے رک گیا اور ہڑبڑا کر بولا

سوری سوری آنٹی مجھے پتہ نہیں کیا ہوگیا ہے میں کیا بکے

جارہا ہوں آپ پلیز ناراض نہ ہوئیے گا

میں اس کے مزید پاس ہو گئی اور بولی

تمہیں تو تین چار ماہ ہوئے ہیں مجھے پسند کرتے ہوئے۔

میں تو چھ سات مہینوں سے تمہاری نظر التفت کی منتظر ہوں

میں نے تمہاری باہوں میں سمٹنے کو تیار تھی مگر میری نسوانی انا اور ہماری عمروں کے فرق نے پاؤں میں بیڑیاں ڈالی ہویں تھیں اور پھر تم نے بھی کبھی پیش قدمی نہ کی۔۔ تو میں تو مایوس ہو چلی تھی

میری باتیں سن کر پہلے تو دم حیران بیٹھا رہا پھر یکدم میری بات کو سمجھتے ہوے میرے اوپر جھکتا چلا آیا۔اور دونوں ہاتھوں میں میرا چہرہ تھام کر میری آنکھوں میں دیکھنے لگا۔جہاں اس کے لیئے پیار کا دریا رواں تھا۔

پھر اس کا چہرہ میرے چہرے کے پاس آیا اور ہمارے ہونٹوں کے درمیان دو انچ کا فاصلہ رہ گیا۔

اس کی گرم سانسیں میرے چہرے سے ٹکرا رہا تھیں

اس کے ہونٹ نیم وا کھلے ہوئے تھے

پھر اس نے یہ دوری بھی ختم کر دی

اور بڑھ کر اپنے کپکپاتے ہونٹ

میرے لبوں پر ٹکا دیئے

میں نے اس کے بوسے کا سواگت کرتے ہوئے اپنے ہونٹوں کو کھول کر اس کےلبوں پر گرفت کر لی۔

اس کے ہونٹوں کی گستاخیاں بڑھتی چلیں گیئں۔کبھی وہ نچلا ہونٹ پکڑتے اور کبھی اوپر کا لب چوستے۔

میرا منہ کھلتا چلا گیا اور اس نے موقعہ کا فایدہ اٹھا کر اپنی زبان میرے منہ میں گھسیڑ دی۔جس کا مقابلہ میری زبان نے نوک سے نوک ملا کر کیا۔

کبھی وہ حملہ کرتے ہوئے میری زبان کو چوستا۔۔ تو کبھی میں جوابی حملہ کرتے ہوئے اس کی زبان کو چوستی۔

اسی دوران اس کے ہاتھ میرے جسم پر رینگنا شروع ہو گئے۔

اور میری چھاتیوں کولباس کے اوپر سے ہی دبوچنے۔۔نوچنے لگے۔۔تب تک میری چوت پوری طرح گیلی ہوچکی تھی ۔۔

اسی دوران اس نے ایک ہاتھ سے میری پشت کو تھاما اور دوسرے ہاتھ کو شرٹ کے اندر لے گیا۔

اس کے ہاتھ نے قمیض کے اندر ریشمی برا کے حفاظتی بند کو ہٹاتے ہوے میری چھاتیوں تک براہ راست رسائی حاصل کر لی۔اس کے ہاتھ کا لمس اپنی ننگی جلد پر محسوس کرتے ہی مجھے جھرجھری آ گئی۔

شہوت سے تنے مموں کو اس نے پیار سے سہلانا شروع کردیا۔

کبھی ایک کو پکڑتا۔۔ پھر دوسرے کو کو سہلاتا۔

اسی دوران ہماری زبانوں اور ہونٹوں کی جنگ جاری تھی اس لڑائی میں وہ دانتوں کی کمک بھی لے اہا۔۔ اور دانتوں سے میرے ہونٹوں کو دبانے کاٹنے لگا۔

اسی دوران اس نے ہاتھ قمیض سے نکالا اور میرے ٹائٹس میں گھسا دیا۔

پہلا پڑاؤ اس نے چوت کے دانے پر کیا اور اس کی موٹائی اور چوڑائی کو سہلایا۔

پھر لمبائی کے رخ چوت کے لبوں کو بھینچا۔

میری چوت جو کہ اس واردات کے شروع سے رو رہی تھی کہ آج اس کی پٹائی ہونے والی ہے۔

اسکی راہداری کو لیس دار پاتے ہی اپنی دو انگلیاں اندر داخل کر دیں۔

اس کی اس حرکت سے میرے منہ سے ایک آہ نکل گئی۔

میری اس کراہ نے شانی کو مشتعل کر دیا اور اس نے اپنے ہاتھ کو باہر نکال کر میرے پاجامے کو گھٹنوں تک اتار دیا۔

اور آٹھ کر کھڑا ہوگیا اور اپنے ٹراؤزر کو بھی اپنی رانوں تک اتار دیا۔

اس کا لوڑا جوانی کے جوش اور کولڈ ڈرنک میں گھلی ہوئی ویاگرا کے اثر سے لکڑ سخت ہوا تھا

اور جوش سے اوپر نیچے جھول رہا رہا تھا ۔

شانی نے ایک ہاتھ سے میری ٹانگوں کو اوپر اٹھا کر دبوچ لیا

میرا جسم میری گانڈ سے لے کر گھٹنوں تک ننگا تھا۔میری رانوں میں بالوں سے پاک چوت کے پھولے ہوئے ہونٹ اسے دعوت دے رہے تھے۔

اس نے بھی زیادہ دیر نہیں کی اور ایک ہاتھ سے میری ٹانگوں کو تھامتے ہوے دوسرے ہاتھ سے اپنے چھ انچ کے بد معاش کو میری معصوم پھدی کا رستہ دکھایا۔

اس کے لنڈ کا سپاڑا میر ی پھدی کے لبوں کو چیرتا ہوا آگے بڑھا۔

میری پھدی کے رس نے اس کو خوش آمدید کہا۔

مگر میری پھدی کی دیواریں اتنے عرصے بعد مہمان کو دیکھ کر خود پر قابو نہ رکھ سکیں اور موٹے مہمان کو جکڑنے کی کوشش کی۔

مگر مہمان موتا ہونے کے ساتھ طاقتور بھی تھا اور اہست آہستہ آگے بڑھتے ہوے بچے دانی کے دروازے پر دستک دے ڈالی۔

میں جو بے سدھ پڑی ہوئی تھی اس حرکت سے جھٹکا کھا گئی۔

میرے جسم میں اس کے لنڈ کو پا کر خوشی بھر گئی تھی۔

جیسے تپتے صحرا میں بارش کی بوندیں اسے ٹھنڈا کر دیتیں ہیں ایسے ہی اس کے لنڈ نے میرے وجود کو سکون بخشا تھا۔

میری ٹانگیں اوپر اٹھیں ہوئیں تھیں گھٹنے چھاتیوں کے ساتھ لگے ہوئے تھے۔

اس نے میرے وجود کو اپنے بازوؤں کے گھیرے میں۔ سمیٹا ہوا تھا

اس کے ہونٹوں نے میرے ہونٹوں کو دبوچا ہوا تھا

میرا پاجامہ اتر کر میرے گھٹنوں میں پھنسا ہوا تھا

میری ننگی گانڈ صوفے کے کنارے پر ٹکی ہوئیں تھیں۔اور شانی کا لوڑا میری گیلی مگر ٹائٹ چوت میں کسی میخ کی طرح گڑا ہواتھا۔۔ میرا منہ مزے اور بے یقینی سے کھلا ہوا تھا۔ اس کے لوڑے نے میری چوت کو پورا بھر دیا تھا۔میری پھدی کو لوڑے کی موٹائی کو ایڈجسٹ کرنے میں دقت آ رہی تھی۔کیونکہ ایک تو لنڈ لیے ہوئے کافی مہینے گزر چکے تھے اور ویسے بھی میری چوت کے مسل اپنی اوریجنل حالت میں تھے۔دراصل میری بیٹی بھی آپریشن سے ہوئی تھی۔تو پھدی کا کباڑا نہیں ہوا تھا۔ آپ کو ایک پتے کی بات بتاتی چلوں۔ پھدی چودنے سے کبھی نہیں کھلتی۔ چودائی صرف تین ماہ کے لئے چھوڈ دو تو جیسی کنواری کی ہوتی ہے ویسے ہی ہو جاتی ہے۔ البتہ بچوں کی پیدائش سے چوت کا رستہ خودکار طور پرناقابل مرمت ہو جاتا ہے۔ میری حالت کو دیکھتے ہوئے شانی کچھ دیر اسی حالت میں رکا رہا۔

پھر دھیرے دھیرے سے باہر کو کھنچنے لگا۔۔لنڈ واپس جاتے ہوے پھدی کی اندرونی دیواروں کو بھی کھینچتا چلا جارہا تھا۔جس سے رگڑ لگ رہی تھی اور درد کی میٹھی ٹیسیں آٹھ رہیں تھیں جب چوت کے لبوں میں صرف لنڈ کا سر ہی رہ گیا۔ تو رک کر پھر آگے کو دھکیلنے لگا ۔بچے دانی کے دروازے کو بوسہ دےکر پھر واپسی کا سفر شروع کر دیا۔

دو چار چکر اسنے اسی رفتار سے لگائے۔اور پھدی کے تعاون کو محسوس کرتے ہوئے رفتار بڑھا دی۔

وہ بڑھے ہی محتاط انداز سے چودائی کر رہا تھا ۔

لنڈ کو سمجھو چوت میں ٹہلا رہا تھا۔

اور میری پھدی لنڈ کے واری صدقے جاتے ہوے شبنم کے موتی گرا رہی تھی۔ کس سے اب چوت میں نرمی پیدا ہو گئی تھی

پھدی میں چکناہٹ کو پاتے ہوے اس کے جھٹکوں میں مزید تیزی آ گئی۔

اور مجھےڈر لگا کہ اس تیزی میں تیراک کہیں ڈوب ہی نہ جائے۔

مگر اس نے کچھ جھٹکے لگا کر اپنے گھوڑے کی رفتار آہستہ کر لی

سرپٹ بھاگتا گھوڑا اب چلنے لگا۔

اور چلتے چلتے رک سا گیا ۔اور لنڈ کو پوری لمبائی میں ڈال کر میرے ساتھ بوسے بازی کا مقابلہ شروع کر دیا۔اس نے زبان سے میرے منہ کی چدائی شروع کر دی۔ زبان کو تیزی سے لعاب سے بھرے منہ میں اندر باہر کرنے لگتا ۔تو کبھی زبان کا زبان ٹکرانے لگتا۔

کچھ دیر بعد میرے منہ کو چھوڑ کر میرے کانوں کی لو کو دانتوں میں دبا لیا۔

اور نیچے سے لنڈ کو حرکت دے دی۔

لنڈ کو پورا باہر نکال پھر تیزی سے اندر ڈالا۔۔اور لنڈ پھدی کے ہونٹوں کو چیرتا ہوا چوت کو رگیدتا ہوا بچے دانی پر ضرب لگاتا۔اور یہ ضرب میرے جسم میں مزے کی لہریں پیدا کر دیتیں۔ پھر رک کر آہستہ سے پھر پورا نکالتا اور میں دم سادھے اس کے حملے کا انتظار کرتی۔پھر جیسے ہی لنڈ پھدی کے دروازے کےبپٹوں ہٹاتے ہوئے آگے بڑھتا تو سانس میں سانس آتی ۔

وہ ایک کھلاڑی کی طرح کھیل رہا تھا۔کبھی پورے لنڈ کے شاٹس کھیلتا تو کبھی صرف آدھے لنڈ سے ترساتا۔

وہ آدھا ڈال کے کھنچ لیتا۔پھر آدھا ڈال کر نکال لیتا۔اسی دوران غیر متوقع طور پر کبھی پورے لنڈ کے ضرب چوت پر پڑتی توسواد سے چوت رونے لگ جاتی۔

پھدی کی اس بے انتہا لذت سے نکلنے والے قطرے چوت سے نکل کر میری گانڈ کے سوراخ کو چھوتے ہوے صوفے میں جذب ہو رہے تھے اور گیلے صوفے کی نمی گانڈ پر محسوس ہو رہی تھی۔

اسکے لنڈ کی ضرب چوت پر پڑتی توٹٹے میری گانڈ پر ٹکراتے اور تھپ تھپ کی آوازیں کمرے کے ماحول کو شہوت سے بڑھ رہے تھے۔

اور اس کی ضربوں سے میرے۔منہ سے نکلنے والی آہ آہ اور اوہ اوہ کی آوازیں اسے مزید ہلا شیری دے دہی تھیں۔

اس کے جھٹکوں میں شدت آتی جارہی تھی جوان لنڈ جوش کے سامنے چوت نے ہار مان کر پھدی کو پانی سے بھر دیا تھا

تھپ تھپ کے ساتھ اب پچ پچ کی موسیقی بھی شروع ہوگئی تھی۔

جسے سنتے ہوے وہ دیوانہ وار میری چوت کی دھلائی و ٹھکائی کیے جارہا تھا

لگتا تھا اسے اب انجام کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔

مجھے اپنے بازوؤں میں سمیٹے ہوئے میرے منہ کے بوسے لیتے ہوے اپنی کمر کے زور سے میری چوت میں لنڈ کو تیزی سے اندر باہر کر رہا تھا۔

اور میں مزے سے مدہوش بس آہ آہ ہاے ہاے کی آواز نکال رہی تھی۔

اب اس کے منہ سے بھی غراہٹ آمیز عجیب آوازیں آ رہی تھی

پھر اس نے اتنی زور سے مجھے بھینچا کہ جیسے۔میری پسلیاں ہی توڑ ڈالے گا اور زور دار جھٹکے لگائے۔

اور بے خود ہو کر میرے شانوں پر اپنا سر رکھ دیا۔

اس کے لنڈ نے آخری جھٹکوں کے بعد اندر امرت دھارا کی پچکاریاں چھوڈیں۔

جو سیدھا میری بچے دانی پر لگیں۔اور میری چوت ایک اور بار فارغ ہوگئی۔

اس زوردار چودائی سے ہم دونوں ہی بے دم ہوگئے تھے۔

کچھ دیر وہ ایسے ہی مجھ پر گرا پڑا رہا ۔

تبھی مجھے اس گندگی کا خیال آیا جو میری چوت سے اسکی منی اور میرے لیسدار مادے کی شکل میں بہہ رہی تھی۔

میں نے اسے آہستہ سے تھپتھپایا۔

اور وہ نیم غنودہ سا مجھ سے ہٹ کر صوفے پر نیم دراز ہو گیا۔

میں آٹھ کر واش روم گئی اپنے آپ کو صاف کیا۔چوت سے اس کی منی وغیرہ کو اچھی طرح دھویا۔

اور ایک صاف کپڑا لا کر اسے دیا۔ مگر اس نے کہا آنٹی آپ صوفہ صاف کریں میں دھو آتا ہوں

میں نے پہلے صوفے کو رگڑ کرخشک کیا پھر ہلکے گیلے کپڑے سے صاف کر دیا۔

اور اس کا انتظار کرنے لگی۔

وہ واش روم سے نکلا تو مجھ سے نظریں چرا رہا رھا تھا۔

میں نے مسکرا کر پوچھا۔۔

اب تو بڑی شرم آ رہی ہے۔۔ کچھ دیر پہلے تو مجھے ڈھول کی طرح پیٹ رہے تھے۔۔

شانی سوری آنٹی شراب نے مجھ سے یہ سب کروا دیا

میں بولی بس شراب۔۔ میرا کوئی کمال نہیں

شانی بولاآنٹی آپ کے شباب نے تو بہکایا۔۔شراب نے تو ہمت دی کہ سب کر گزروں۔۔ بہرحال آنٹی ساری میری غلطی ہے مجھے ایسے نہیں کرنا چاہیے تھا۔۔اور میں آپ کے اندر ہی فارغ ہو گیا ہوں۔۔اب حمل سے بچاؤ کی کچھ تدبیر کرنا پڑے گی۔

۔میں نے جواب دیاپہلی بات تو جو کیا ہم نے مل کر کیا۔۔ہم بالغ اورعاقل ہیں میں چاہتی تو تمہیں روک سکتی تھی۔ مگرہم نے مل کر ایک دوسرے کی ضرورت پوری کی اس میں ندامت و شرمندگی والی کوئی بات نہیں۔

رہی بات حمل کی تو بیٹی کے پیدا ہونے پر ڈاکٹروں نے میری ٹیوبز نکال دیں ہیں اب میں ماں نہیں بن سکتی ۔۔ اس حوالے سے بے فکر ہو جاؤ۔

اب بیٹھ جاؤ میں کافی بناتی ہوں

یہ سن کر وہ کچھ مطمئن ہو گیا اور سکون میں آ گیا۔

اس کے بعد میں نے کافی بنائی۔اور ہم نے کافی پی۔ اس کافی بریک میں ایک گھنٹا گزر گیا۔

کافی کے برتن سمیٹ کر ا س کے پاس آ بیٹھی۔

مین نے پوچھا کیسا لگا پھر آج

شانی بولا بہت مزہ آیا۔۔قسم لے لیں اتنا مزہ کبھی نہیں آیا۔مگر میں نے آپ کو صحیح سے دیکھا ہی نہیں

جذبات میں کپڑے بھی اتارنے کا موقع نہیں ملا نہ میں آپ کے اندر بدن کی خوبصورتی کو دیکھ سکا۔

میں مسکرائی مگر جسم کی ساری پوشیدہ خوبصورتی تو دیکھ بھی لی اور استعمال بھی کر لی ابھی بھی حسرت ہے تو میں کونسا دور ہوں اب دیکھ لو

یہ سن کر خوشی سے اس کا چہرہ کھل اٹھا اور مسکراتے ہوے میری قمیض کو اتارنے کے لئے ہاتھ آگے بڑھا دیے ۔

قمیض اترتے ہی وہ میرے جسم پر ہاتھ پھیرنے لگا میرے پیٹ سے لے کر برا سے ہوتا ہوا میرے شانوں کی گولایاں کو سہلاتا ہواگردن تک لاتا اور پھر نیچے لے جاتا۔

پھر میر کمر کے پیچھے ہاتھ لے جاکر میری برا کھول دی۔

برا سے آزادی پاتے ہی میری بھاری چھاتیاں اس ک سامنےتن کر آ گئیں۔

گول چھاتیاں جن پر انگو ر کی طرح رسیلے نپل تنے تھے۔میری چھاتیوں کے دیکھ کر اس کے اندر بچہ جاگ گیا اس نے مموں کو دبوچ لیا۔

اور سر جھکا ہمک ہمک کر انہیں چوسنے لگا۔

میں نے اپنا سر صوفے کی پشت سے لگا دیا اور اسے اپنا شوق پورا کرنے دیا۔

میں نے اپنا سر صوفے کی پشت سے لگا دیں آنکھیں بند کرلیں

۔اوراسکی لپلپاتی ہوئی زبان اپنے نپلوں پر

محسوس کرنے لگی۔

اسکی زبان کبھی نپل کو چاٹتی تو کبھی گول گول گھومتی ہوئی نپل کے چکر لگاتی۔

بیچ بیچ میں وہ پورےمنہ میں چھاتی کو بھرنے کی کوشش کوتا۔ جو کہ سعی لا حا صل ہوتی۔

مگر اس کی یہ حرکت چھاتی سے کرنٹ کی لہر پیدا کرتی جس سے جسم جھنجھنا جاتا۔

وہ دیوانوں کی طرح ایک چھاتی سے دوسری کی طرف منہ مار رہا تھا۔

جیسے سمجھ نہ آ رہی کونسا زیادہ میٹھی ہے۔


اس کے ساتھ اس کے ہاتھوں نے نیچے

جاکر ٹراؤزر کے اندر

گستاخیاں شروع کر دیں۔

اسکی انگلیاں چوت کی لبوں کا ستار بجانے لگیں۔

جوت کے لبوں کے درمیان گہرائیاں ناپنے لگیں اور چوت کے دہانے سے نکلنے والی چکنائی کو اوپر نیچے پھیلانے لگیں۔

چوت کی لیس سے تر انگلیاں جب بظر(دانے) کو چھوتیں تو لطف کی لہریں دماغ کو سن کرکے رکھ دیتں۔

منہ اور انگلیوں کی کارستانیاں مجھے خوب خوار کر چکیں تھیں۔

میری چوت میں سرسراہٹ سی ہونے لگ گئی تھی

۔اسے اب سخت لنڈ کی

ضرورت تھی جو چوت کی خارش مٹا سکے۔

اور میں نے اسے اپنا ٹراؤزر اتارنے کا حکم دیا۔ جسکی اس نے فوراً تعمیل کی۔

عورت کا حکم لنڈ ڈالنے سے پہلے ہی کا ہے۔اسکے بعد مرد ہی کی چلتی ہے۔۔

اب میں ننگ دھڑنگ صوفے پر بیٹھی تھی۔

اس نے بھی ماحول کے بھانپتے ہوئے اپنی شرٹ اور ٹراؤزر اتار ڈالی۔اور قدرتی لباس میں آ گیا۔

میں مبہوت اس کے بالوں سے بھرے چوڑے چکلے سینے کو ستایشی نگاہوں سے دیکھنے لگی ۔

سینے سے نیچے ہموار پیٹ میں سکس پیکس نے چوت میں گدگدی پیدا کردی۔

اور پھر اسکی مضبوط رانوں کے اتصال پر شاندار لنڈ جوبن دکھا رہا تھا

اسکا لنڈ شیش ناگ کی طرح پھنکار رہا تھا۔

مزید کوئی دیر کیے بغیر

وہ میری ٹانگیں اٹھا کر درمیان میں آ گیا اور میری چوت کی لمبائی پراپنے لنڈ کے ٹوپے کو پھیرنے لگا۔

چوت کی چکنائی اور لوڑے کی مزی سے لنڈ کا سپارا چمکنے لگا تو اس نے پھدی کو لنڈ سے چھیڑتے چھیڑتے

چوت کے داخلی دروازے کا رخ کیا۔

ابھی اس نے ڈالنے کے لئے دباؤ ڈالا ہی تھا کہ میں نے اسے روکا۔

وہ رکا اور میری طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔

میں اٹھی اور بولی۔

انسانوں کی طرح پہلے کر چکے ہیں

اب کتوں کی طرح سیکس کرتے ہیں۔

اس بات سے مسکراہٹ اس کے چہرے پر بکھر گئی

میں نے اٹھ کر اسے ایک ٹایٹ جپھی ڈالی ۔۔

اور اسکےلنڈ کو ہاتھ میں سہلانے لگی جو پتھر کا لگ رہا تھا

چھوٹا سا بوسہ لے کر میں صوفے پر ڈوگی پوزیشن میں آ گئی۔

میرے گھٹنے صوفے کے کنارے پر اور

میرا منہ صوفےکی گدی میں دھنسا ہوا بے صبری سے اس کی چال کا انتظار کر رہی تھیں ۔

میرے گول چوتڑ ہوا میں بلند تھے ۔

چوت کے پھولے ہوئے ہونٹ دعوت مبارزت و مباشرت دے رہے تھے۔

وہ کچھ دیر میری سیکسی گانڈ کا نظارہ کرتا رہا۔۔میری مور کے پنکھوں کی طرح پھیلی ہوئی گانڈ کو نگاہوں سے سراہا اور بولا۔

خالہ اس گانڈ کو سوچ کر بہت مٹھیں ماریں ہیں۔سوچا بھی نہ تھا کہ کبھی اس کے ایسے دیدار ہوں گے۔

شانی نے مزید دیر نہ کرتے

ہوئے میری گانڈ کو دونوں ہاتھوں سے پکڑتے ہوئے اپنے ہتھیار کو مورچے پر رکھ دیا۔

اور ہلکے سے دباو ڈالا۔

لنڈ کا ٹوپا پرچ کرتے ہوے گیلی چوت میں داخل ہو گیا۔

پچھلی چدائی میں خارج ہونے والی منی ابھی بھی پھدی میں موجود تھی کچھ حالیہ شہوت سے خارج ہونے والی چکنائی وغیرہ نے مل کر چوت کو نرم ملائم کر دیا تھا۔

اس لیئے لنڈ آسانی سے پورا اندر گھس بیٹھا۔

شانی نے پہلے تو آرام سے سٹروک لگائے۔آرام سے اندر باہر کرتا رہا اور لنڈ بڑے آرام سے پھدی میں مٹر گشت کرتا رہا۔ اگرچہ کہ پھدی کی گرپ لنڈ پر مو جود تھی مگر اتنی سخت نہیں تھی کہ چودائی میں دشواری ہوتی۔

کچھ دیر بعد مجھے کمفرٹیبل کرنے کے بعد اس نے سپیڈ بڑھا دی۔

اور اک طوفان بدتمیزی شروع کر دیا۔

لنڈ کو پورا نکال کر چوت پر رکھتا۔

اور شدت سے جھٹکا مارتا۔جس سے لنڈ ایک سیکنڈ سے بھی کم میں بچے دانی تک پہنچ جاتا۔

پھر اسی رفتار میں چند جھٹکے مار کر رک کر نکال کر پھدی کے لبوں پر پھیرتا۔

اسی دوران کسی بھی لمحے پھدی کے لبوں کو سہلاتے سہلاتے کب حملہ کردیتا کہ میں تڑپ کر رہ جاتی۔

میں جھکی ہوئی بے انتہا لذت پر آہ آہ کر رہی تھی۔۔میرا جسم مزے سے بھرا ہواتھا۔۔آج محسوس ہورہاتھا جیسے زندگی بھر کی تڑپ کو آج سکون ملنے جارہا ہے ۔۔

میرا سر صوفے سے ٹکرا رہا تھا۔

مگر اس کے طوفانی جھٹکوں میں تیزی آتی جارہے تھی۔

اور لنڈ اندر باہر کسی پسٹن کی طرح حرکت کر رہا رھا۔

وہ آزادنہ اپنے لنڈ سے میری چوت کا کباڑا کر رہا تھا۔

سیدھے سٹروک لگاتے لگاتے رکا اور اپنا دائیں پاؤں صوفے پر رکھ دی۔ اور لنڈ اندر گھسیڑ کرضربیں لگانے لگا۔

اس سے چوت کی بائیں دیوار پر ضربیں لگنے لگیں

پھر دائیں کی بجائے بائیں پاؤں رکھ کر چوت کی دائیں دیواروں کو چھیلا۔

پھر صوفے پر میرے پیچھے چڑھ گیا اور صوفے پر کھڑا ہو کر نیچے جھک کر لنڈ کوچوت میں ڈال دیااور دونوں ہاتھ صوفے کی پشت پر جما دیئے اس انداز سے لنڈ پورے کا پورا داخل ہو گیا۔اور زور آوری شروع کر دی

جس سے چوت کے اگلے حصے پر ضرب لگی جہاں جی سپاٹ ہوتا ہے۔

جس سے میں مزے سے کپکپا نے لگی اور فارغ ہوگئی مگر اس نے اپنے جھٹکوں میں کمی نہ آنے دی۔

کچھ دیر ایسے چودنے کے بعد صوفے سے نیچے اتر آیا۔

مجھے کھڑا کر کے ہلکا سا جھکنے کی حالت میں ڈال دیا۔

اور جھٹکوں کی بارش کردی۔میں ان جھٹکوں سے لڑکھڑا کر آگے گرنے لگی تو اپنے ہاتھوں سے میرے دونوں شانے تھام لیے۔

وہ میرے پیچھے کھڑا مجھے دونوں شانوں سے تھامے مجھے چود رہا تھا۔

اس حالت کی چودائی میں لنڈ کی ضربیں سیدھی جی سپاٹ پر پڑ رہی تھیں ۔

اور ہر ضرب پر میں کپکپا رہی تھی۔

میری نازک حالت پر اسے ذرا ترس نہیں ۔۔آیا بلکہ میری آہ آہ سے اور وحشی ہو جاتا۔

لیکن پھر تھوڑا سا رک کبھی گردن پر پیار بھی کرتا۔لیکن جھٹکوں میں رحم نہ کرتا۔

اس حالت میں میری ٹانگیں کانپنے لگیں۔

اسی دوران اس نے ایک زوردار ضرب ماری اور ڈکرانے لگا۔

اوراس کے لنڈ نے چوت کو پھر منی سے بھر دیا

میں سکھ کا سانس لے کر صوفے پر جا گری۔

اور اپنی سانسیں بحال کرنے لگی

وہ بھی صوفے پر میرے اوپر آگرا اور بےسدھ پڑا رہا۔

کچھ دیر بعد حواس بحال ہوئے۔۔اٹھ کر واش روم میں اپنی صفائی کی۔ دل نہانے کا تھا مگر بہت تھکاوٹ ہو گئی تھی۔

اس لیئے غسل کو موقوف کر کے نئے کپڑے پہنے کیونکہ پرانا ٹراؤزر تو چوت کے رس نے گیلاکر دیا تھا۔

اور جاکر بیڈروم لیٹ گئی۔

کچھ دیر میں شانی بھی کپڑے پہن کر آگیا اور مسکراتے ہوے میرے ساتھ جپھی ڈال کر لیٹ گیا۔

بہت ظالم ہو شانی۔

میں بولی۔

آپ سیکسی ہی اتنی ہیں کہ ظلم کرنے کو دل کرتا ہے

اس نے جواب دیا۔

چلو اٹھو اور اپنی جگہ لیٹو۔اج رات اتنا ظلم بہت ہے مزید نہیں سہہ سکوں گی۔

اس طرح میری دوسری شادی کا آغاز ہوا۔ جو کہ اخلاقی معاشرتی قانونی ہر لحاظ سے ناجائز تھی

اب ہم نے میاں بیوی کی طرح رہنا شروع کر دیا تھا۔۔

لوگوں کے سامنے خالہ۔۔آنٹی کہتے اس کی زبان نہ سوکھتی تھی۔

مگر تنہائی میں میں اس کی رنڈی ۔۔رکھیل بن جاتی تھی۔

وہ مجھے ایسے چودتا۔۔ جیسے نائٹ پر رنڈی بک کی ہو۔ اور پیسے وصول کرنے ہوں۔

میں بھی اس کی رکھیل بن کر خوش تھی۔ تن کی جوالا جو ٹھنڈی کر دی تھی۔

پہلی دفعہ ویاگرا دی تھی مگر پھر کبھی ضرورت نہیں پڑی۔گھر داخل ہوتے ہی اس کا لنڈ جوبن پر آ جاتا۔

بڑی مشکل سے بیٹی کو سلانے کا موقع دیتا۔

پھر یا تو ٹی وی لاونج یا اس کا کمرہ ہمارے پیار کا اکھاڑہ بن جاتا۔

اور وہ دھما چوکڑی مچتی۔کہ میں پناہ مانگتی

اس کے جوش سے میری

ہڈیاں درد کرنے لگ جاتیں۔

جاب پر بھی وہ آنے والی رات کی پلاننگ ہی کرتا کہ آج کس سٹائل میں چودنا ہے۔

اور روزانہ نئے انداز سے مجھے حیران کرتا۔

ٹی وی پر پورن لگا وہی سٹائل بنا کر چودتا۔۔تقریباً

ہر اسٹائل میں ہم چدائی کرتے ۔۔میں شانی کی دیوانی ہوگئی تھی ۔۔اس کے لن کے بغیر جینے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی ۔۔

ایک ویک اینڈ پروہ ایک جھولا لے آیا اور ٹی وی لاونج میں لٹکا دیا۔

دن میں میری بچی اس پر جھولے لیتی۔

شام کو میں ننگ دھڑنگ اس پر بیٹھی ہوتی ۔۔میری ٹانگیں کھلی ہوتیں اور وہ درمان میں کھڑا مجھے چود رہا ہوتا۔

کبھی شاور میں سیکس تو کبھی کچن میں کام کرتی کا ٹراؤزر نیچے کھینچ دیتا۔۔اور لنڈ ڈال دیتا

اس کی گھر میں موجوگی میں میری چوت وقت لنڈ لینے کو تیار رہتی۔

زندگی بڑی مست ہو گئی تھی۔

مگر دل میں شوہر سے بے وفائی کی خلش ستاتی تھی۔

اور اگرچہ مجھے جسمانی آسودگی مل گئی تھی۔

مگر ذہن میں بے چینی سی تھی۔کہ میرا شوہر ہمارے لئے پردیس کاٹ رہا ہے۔

اور میں اس کی امانت میں خیانت کی مرتکب ہو رہی ہوں۔۔مگر یہ بے چینی کچھ ہی وقت کے لیے ہوتی۔۔شانی کا لن دماغ میں آتے ہی دوسرے سب جذبات بھاپ بن کر اڑ جاتے ۔۔

اس سال ہماری خوش قسمتی یا بد قسمتی کہیں کہ میرے میاں کو کمپنی نے چھٹی نہیں دی ۔ان کے پاس ورکرز کی کمی تھی

لیکن اس سے ہمارا کھیل مزید عروج پکڑ گیا۔اور جو وقفہ آنے کا ڈر تھا وہ بھی ختم ہو گیا۔

ایک ویک اینڈ پر میری پرانی اور گہری سہیلی شگفتہ ملنے آئی۔

شانی بھی گھر پر موجود تھا اور حسب معمول ہم کچھ شرارت میں مشغول تھے بیٹی کو کو کاٹون کی طرف متوجہ کر کے ہم کپڑوں میں ہی ایک دوسرے کو ٹٹول رہے تھے

بیل ہونے پر ہونے پر وہ جلدی سے اپنے کمرے میں چلا گیا۔اور میں نے کپڑے درست کر کے دروازے کھولا۔

تو شگفتہ کو کھڑی پایا۔

مجھے اس کے آنے کی بڑی خوشی ہوئی

اور اسے اندر بلا کر بٹھایا۔

اور حال چال پوچھا کافی عرصے بعد ملی تھی تو کرنے کو بہت باتیں تھی

چائے پانی پینے کے بعد بولی۔

بڑی کھلی کھلی لگ رہی ہو۔

کیا چل رہا ہے۔ کیا نیا بوائے فرینڈ بنا لیا ہے۔یا جم جوائن کر لیا ہے

میں بولی۔

نہیں یار۔۔ نہ جم نہ بوائے فرینڈ۔۔ چاہوں تو لائن لگا دوں مگر میری طبیعت ایسی نہیں۔مجھے تیرے جیسے شوق نہیں۔

شگفتہ۔

پہلے بڑی بجھی بجھی ہوتیں تھیں بھائی صاحب کے باہر جانے کے بعد۔

اور اس سال وہ آئے بھی نہیں۔

پھر یہ چہرے پر چمک اور آسودگی کیوں ہے۔

میں کچھ کہنے ہی لگی تھی کہ شانی کمرے سے نکل آیا۔

شگفتہ کو سلام کر کے سامنے بیٹھ گیا۔

میں نے تعارف کروایا۔کچھ باتیں کیں اورپھر باہر نکل گیا۔کیوں کہ اسے ہم سہیلیوں کی گہری دوستی کا اندازہ ہوگیا تھا۔

اسی لیے ہمیں باتیں کرنے کا موقع دے دیا۔

اس کے جانے کے بعد شگفتہ پراسرار لہجے میں بولی۔

ہمم تو یہ چکر ہے۔۔ لونڈا تو اچھا ہے۔

میں بولی

کیا کہہ رہی ہو۔

کیا چکر۔مطلب کیا ہے وہ میرا بھانجا لگتا ہے۔

شگفتہ بولی۔لگتا ہے۔ ہے تو نہیں۔ اور جس طرح وہ تمہاری طرف محبت پاش نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ اور جیسے تم اس سے نظریں چرا رہی تھیں۔۔

اس سے سب عیاں ہو رہا تھا۔

کہ تم دونوں کے درمیان کچھ چل رہا ہے۔

اور تو اور اس کے ٹراؤزر میں تمہیں دیکھتے ہوے ہل چل بھی ہو رہی تھی جسے وہ ہاتھ رکھ کر چھپانے کی کوشش کر رہا تھا۔۔

چلو اب شرماؤ مت۔سب بتا دو

کیسے ہوا ۔۔ کیا کیا ہوا۔

میں نے کبھی اپنی باتیں تم سے چھپائیں ہیں ۔

اب میرے لیے مزید جھوٹ بولنے کی گنجائش ختم ہو گئی تھی۔

اور مجھے اپنی کرتوتوں کا اقرار کرنا پڑا۔اور اپنی نا آسودگی سے لے کر اس کی جوان جسم کی جی چاہت کی ساری کہانی سنا دی۔

میری داستان چدائی سن کر شگفتہ پہلے تو حیران ہوئی

پھر بولی ۔ میں تمہاری خوشی میں خوش ہوں۔ میں تمہیں نصیحت کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں۔ میرا بھی کچا چٹھہ تمہارے سامنے ہے۔

مگر اتنا کہوں گی کہ احتیاط کرنا۔

عورتیں بدنامی کا داغ نہیں دھو سکتیں۔ ایک لحاظ سے تو اچھا ہی کیا کہ باہر منہ مارنے کی بجائے گھر میں خواہش پوری کر لی۔مگر پھر بھی لوگ بڑے کائیاں ہیں بھانپ لیتے ہیں لہذا اس کے ساتھ کسی کے سامنے مت جانا۔

جیسے مجھے شک ہو گیا کسی اور کو بھی ہو سکتا ہے۔

پھر بولی۔۔ دوست اکیلے اکیلے ہی مزے کرنے ہیں کہ پرانی دوست کا بھی ٹیسٹ چینج کرواؤ گی۔

شگفتہ پرانی پاپن تھی اس کا ہمیشہ شوہر کی ہوتے ہوے بھی کوئی نہ بوائے فرینڈ رہا تھا۔

شادی سے پہلے بہنوئی کے لنڈ سے کھیلتی رہی۔ شادی کے بعد شوہر کے خالو کے ساتھ چدم چدائی کرتی رہی۔

تو کبھی فون پر یار بنا کر ہوٹلوں میں رنڈی بنی رہی۔

مگر ایک خوبی تھی کبھی پکڑی نہیں کبھی کسی کو شک بھی نہیں ہونے دیا تھا۔ اس کی تو میرے شوہر پر بھی نگاہ تھی۔مگر امجد بدھو نے کبھی اسکی حوصلہ افزائی نہیں کی تھی کیونکہ انہیں تو کبھی میری بھرپور جوانی سے ہی کبھی فرصت نہیں ملی تھی۔

یہ تو غم روزگار نے ہم میاں بیوی میں چدایوں کی جگہ جدائیاں ڈال دیں تھیں۔

ورنہ ہمارا کوئی دن سیکس سے خالی نہیں جاتا تھا۔

اس جدائی کی پیدا کردہ تنہائی نے میرے جسم کو نا آسودہ کر دیا تھا

اور موقع پاتے ہی مجبورا مجھے شانی کے لنڈ کا سہارا لینا پڑا۔

شگفتہ کی ہوس بھری

خواہش نے مجھے بھی برانگیختہ کردیا تھا۔

مجھ میں بھی شانی کا لنڈ کسی اور کی چوت میں جاتا دیکھنے کی خواہش پیدا

ہوئی۔۔

میں پر خیال لہجے میں بولی۔۔

کرتی ہوں کچھ..

اس دن شگفتہ کیا ہو کر گئی۔۔

کہ مجھے نیا خواب دے گئی۔

میں جتنا تھری سم کے بارے میں سوچتی اتنا ہی میں برانگیختہ ہوتی۔۔

اور ویسے بھی شگفتہ کے ساتھ مجھے کسی قسم کا خطرہ نہیں تھا۔نہ وہ بلیک میل کر سکتی تھی۔ نہ ہی راز افشاء کر سکتی تھی۔ وہ اتنی کائیاں تھی کہ آج تک اتنے افیئر کرنے کے بعد بھی نیک نام تھی۔

اسکا ہر یار یہی سمجھتا تھا کہ وہی اسکا اکلوتا آشنا ہے۔

اور شانی کی طرف سے تو مجھے کوئی فکر تھی ہی نہیں۔

اگرچہ میرے اور شانی کے بیچ سیکس بہت پرجوش تھا۔لیکن جیسے کہ عموماً ہوتا ہےکہ ہر نیا تعلق پرانا ہو جاتا ہے

یکسانیت کا شکار ہو جاتا ہے۔۔جیسے شادی کے شروع میں میاں بیوی دن رات سیکس ہی کرتے ہیں ۔۔پھر آہستہ آہستہ کم ہو جاتاہےپنجابی کی مثال کا اردو ترجمہ ہےپہلے دن رات پھر جمعرات کے جمعرات۔پھر عید شبرات۔تو شروع کے چند مہینوں کے بعد اب سیکس لائف ایک میں روٹین بدل گئی تھی۔

میں اب مطمئن جنسی زندگی گزار رہی تھی۔شانی نے مجھے جسمانی سکون کے ساتھ ساتھ مجھے آسانیاں بھی بہم پہنچائیں تھیں

وہ ایک طرح سے گھر کا مرد تھا۔ گھر کے سارے کام اب اس کے ذمے تھے۔ جو پہلے مجھ اکیلی عورت کو کتنے پڑتے تھے۔

سیکس لائف میں مزید مصالحہ ڈالنے کا شگفتہ کا آئیڈیا نہایت عمدہ تھا۔جس میں تین افراد کے درمیان کا معاملہ مکمل راز ہی رہتا۔۔ کیونکہ تینوں ایک دوسرے کے کانے ہوتے۔

اب مسئلہ شانی کو راضی کرنا تھا۔۔کیوں کہ وہ مجھ سے بہت محبت کرتا تھا اور مجھے نہی۔ لگتا تھا کہ وہ میرے ساتھ ہوئے میرے علاوہ کسی اور سے جنسی تعلق بنا پائے گا۔

اس لیئے میں اپنے اس شہوت انگیز سپنے کو حقیقت بنانے کے لیئے قابلِ عمل پلان سوچنے لگی۔

ایک شام جب کھانا وغیرہ کھا کر فارغ ہو کر اپنی گیم سٹارٹ کی۔۔ٹی وی پر میں نے پلان کے مطابق ایک ایسی پورن فلم لگائی جس میں دو لڑکیاں اور ایک لڑکا تھا۔

میرے ہاتھ میں اس کا نیم استادہ لنڈ تھا جسے میں سہلا رہی تھی۔

ہماری نگاہیں ٹی وی سکرین پر تھیں جس میں دو لڑکیاں اپنی ننگی گانڈیں ہوا میں بلند کیےبیڈ پر ڈوگی پوزیشن میں تھیں۔

خوبصورت گول ہپس کے درمیان کلین شیوڈ پنک پھدیوں کے لب نیم وا تھے جن میں سے ہلکی نمی کی جھک دکھ رہی تھی۔ اور لڑکا ان کے پیچھے کھڑا انہیں چود رہا تھا۔وہ پہلے ایک کی چوت میں ڈال کے سٹروک لگاتا۔

پھر نکال کر دوسری کی چوت میں ڈالتا۔یہ سین دیکھ کر ہم دونوں ہی گرم ہو گئے تھے۔اور شانی کا لنڈ مزید سخت ہو گیا تھا۔

میں نے جھک کر لنڈ کو منہ میں لے لیا۔۔اور ایک بھرپور چوپا لگانے لگی ۔۔شانی مزے سے چیخ رہاتھااور ساتھ میرے سر کو اپنے لن پر دبابھی رہاتھا۔

میں نے لن منہ سے نکال کر ہونٹ اس کے ہونٹوں سے لگادئیے اور کچھ دیر کے بعد اس کی کان کی لو کو ہونٹوں میں۔ دبا کر سرگوشی کی۔

کیسا اسٹائل ہے۔۔ بہت مزہ آتا ہوگا لڑکے کو۔۔ ایک وقت میں دو پھدیوں کو چودنے کا

شانی کی سسکی نکلی۔ج ج جی ۔۔

مزہ تو آئے گا۔۔میں نے گردن پر دانتوں سے کاٹتے ہوے کہا۔۔

پھر کیا خیال ہے کریں تھری سم؟

ساتھ ہی لنڈ کے ٹوپے کو زور سے مسلا۔۔

وہ مزے سے کراہا۔۔

ہاں جیسے آپ کہیں۔۔

میرا ایک ہاتھ لوڑے کی مٹھ لگا رہا تھا ساتھ ہی میں نے اسکے منہ میں زبان داخل کر کے گھمانا شروع کردی۔

اسکے بعد اسکی ہمت جواب دے گئی۔وہ پلٹا اور اور میرا ٹراؤزر ایک جھٹکے میں اتار پھینکا۔

میری ٹانگیں اپنے کندھوں پر رکھتے ہوے غڑاپ سے لنڈ چوت کی گہرائیوں میں اتار دیا۔

اور دھنا دھن میری چوت کی ڈھولکی بجانی شروع کر دی۔

اس غیر متوقع دخول سے میں تڑپ اٹھی۔مگر سیاں نے اپنی مرضی کی۔خشک چوت کو طوفانی نان سٹاپ دھکوں سے چھیل کر رکھ دیا۔چوت نے اس بھڑکتی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لئے پانی پھینکا۔جس سے اسے رفتار مزید بڑھانے کا موقع ملا۔اور چوت کا پانی لگاتار رگڑ سے خشک ہو گیا۔جس سے مجھے چوت میں جلن ہونے لگی۔

مگر پھر قدرتی طور پر چوت پھر گیلی ہوتی۔اور کچھ سکون کا موقع ملتا۔

وہ کسی مشین کی طرح مجھے چود رہا تھالنڈ اتنی تیزرفتاری سے اندر باہر ہورہا تھا کہ میری نگاہ لنڈ پر ٹک نہیں پارہی تھی۔

ٹٹے کولہوں سے ٹکراکر ٹھپ ٹھپ کر رہے تھے ساتھ ہی لنڈ اور چوت مل کر پچ پچک پچ کی کی آوازیں پیدا کر رہے تھے۔

اس ہڑبونگ اور تیز رفتاری نے چند منٹوں میں ہی ہے چوت نے بھرپور رس نکالا۔۔ پھر لنڈ نے بھی الٹیاں کر دیں۔

اس نے جلد بازی میں لنڈ کو باہر کھینچا اور میرے چہرے پر اپنے آب حیات کا سپرے کر دیا۔

اسکی منی نے میرے چہرے کے ساتھ ساتھ میری شرٹ کو بھی گندا کر دیا۔

جب چودائی کا طوفان تھما تو ہم دونوں کی سانسیں چڑھی ہوئی تھیں اور میرا چہرہ اس کی منی سے لتھڑا ہوا تھا۔۔۔۔

میں بے سدھ پڑی ہوئی تھی منی میری چوت اور چہرے سے بہہ رہی تھی۔

کچھ سانس لے کر ہم نے اپنے اپنے حواس بحال کیے

باتھ روم جا کر صاف صفائی کر کے کچن میں آئی۔اور ہم دونوں کے لئے کافی بنا لائی۔

کافی کے سپ لیتے ہوئے بولی۔۔

آج خیر تھی کس بات کا غصہ نکالا۔۔ میرا تو انجر پنجر ہلا کے رکھ دیا

وہ تھکے ہوئے لہجے میں بولا۔۔ نگی ایک تو تم سیکسی ہی اتنی ہو اوپر سے تمہاری باتیں مجھ میں جوش پیدا کر دیتی ہیں.

میں شرارتی لہجے میں بولی۔۔

اچھا دو پھدیوں کے خیال نے اتنا بے چین کر دیا ہے۔اگر حقیقت میں مل گئیں تو کباڑا ہی کر دوگے

وہ سنجیدہ ہوتے ہوے بولا۔

نگی۔۔ مجھے تمہاری پھدی کے علاؤہ کوئی اور پھدی نہیں دیکھنی۔ تم بس میرا ساتھ دومجھے کوئی اور نہیں چاہیئے۔

میں مسکرائی اور بولی ۔ثانیہ کی پھدی مارتے ہوئے خالہ کی یاد کبھی نہیں آئی۔اب نگی نگی کرتے ہو۔

وہ سر جھکا کر بولا۔

تب آپ سے دوستی نہیں ہوئی تھی۔ مگر شکر ہے کہ اس سے جان چھوٹی تو آپ نظر آئیں۔

کتنا بے وقوف تھا کہ میں اپنے پاس موجود حسن کے خزانے کو دیکھ نہ پایا

میں نے کہا۔

کبھی سوچا کہ ثانیہ اور مجھے اکھٹے چودو۔

وہ تیزی سے بولا

نہی ۔۔ چھوڑیں اسے۔ مجھے آپ کے علاؤہ کوئی اور نہیں چاہیئے.

اس دن کے بعد میں وقتاً فوقتاً اس سے تھری سم کے بارے میں چھیڑ چھاڑ کرتی رہی۔

مگر وہ اس معاملے کو مذاق ہی سمجھتا رہا۔

مگر میں اپنی دھن کی پکی تھی۔

جو ایک بار دل نے ٹھان لی تھی تو اب وہ پوری کرنی ہی تھی۔

اس لیئے موقع پاتے ہی تھری سم کو موضوع بناتی۔

میں اسے مجبوراً اس کھیل پر راضی نہیں کرنا چاہتی تھی۔

اگر میں براہ راست اسے کہتی تو وہ کبھی انکار نہ کرتا۔مگر میری آنا بہت مضبوط ہے میں نے کبھی کسی سے فیور مانگی ہی نہیں تھی۔تو اب کیسے اس سے خواہش کا اظہار کرتی۔

پلان کے تحت میں ہمیشہ تھری سم والا سین لگاتی۔ جس میں دو لڑکیاں اور ایک مرد ہوتا۔

یا وقتاً فوقتاً اس سے تھری سم ڈسکس کرتی۔

کہ خیال ہے یہ سچ میں ہوتا ہے

یا یار کیسے کر لیتی ہیں یہ لڑکیاں وغیرہ وغیرہ۔

اوپر سے شگفتہ بی بی فون کر کے جان کھائی ہوئی تھی۔

کہ کچھ کرو۔وہ شانی کے پیچھے بہت خوار ہو گئی تھی کہتی تھی کہ اب چودائی کے دوران وہ شانی کا تصور کر کے آرگزم لیتی ہے۔

ایک شام جب ٹی وی لاونج(ہمارا چودائی خانہ) میں تھری سم والا سین ٹی وی پر چل رہا تھا۔

وہ صوفے پر الف ننگا بیٹھا ہوا تھا۔میں مادر زاد ننگی اسکا سخت لنڈ اپنی چوت کی گہرائیوں میں اتارے اس کی گود میں بیٹھی ہوئی تھی ہمارے چہرے ٹی وی کی طرف تھے جبکہ میری پیٹھ اسکے بالوں بھرے سینے کے ساتھ ٹکی ہوئی تھی۔

وہ ایک ہاتھ سے میرے مموں کو دبا رہا تھا جبکہ دوسرے ہاتھ کی انگلیوں سے میری چوت کے دانے کو کسی گٹار کے تار کی طرح چھیڑ رہا تھا۔

ہم پرسکون انداز میں سیکس کر رہے تھے۔ وہ بہت آہستگی سے لنڈ کو اندر باہر کر رہا تھا ۔

میں بھی اسکے لنڈ کی سواری کا بھرپور مزہ لے رہی تھی

بیچ بیچ میں ہم رک کر کسنگ بھی کر رہے تھے۔

مگر اس دوران لنڈ کو چوت سے نکلنے کی اجازت نہیں تھی۔

اسکی نگاہیں ٹی وی سکرین پر جمی تھیں جہاں ایک مرد لیٹا ہوا تھا جس کے منہ پر ایک عورت چوت جمائے بیٹھی تھی اور اسکی زبان لپالپ چوت کے ہونٹوں کو چاٹ رہی تھی۔اور دوسری عورت اس کی ٹانگوں کے درمیان ڈوگی سٹائل میں بیٹھی اسکے لنڈ کو لولی پاپ کی طرح چوس رہی تھی ۔

یہ سین بڑا ہی شہوت انگیز تھا۔

پھر انہوں نے پوزیشن بدلی۔

اب ایک عورت لیٹ گئی دوسری عورت اسکے اوپر اسکے مموں کے ساتھ ممے ملا کر لیٹ گئی۔

اس طرح دونوں کی پھدیاں مل گئیں انہوں نے منہ میں منہ ڈال کر کسنگ شروع کردی۔

اور مرد اٹھ کر ان کی ٹانگوں میں آ بیٹھا۔

اور اپنا لنڈ پہلے اوپر والی عورت کی گیلی چوت میں ڈال دیا۔ چند سٹروک لگائے۔پھر چوت کے پانی سے لبریز لنڈ نیچے لیٹی عورت کی پھدی میں داخل کر دیا۔

یہ دیکھ کر شانی کی آہ نکل گئی۔۔بولامزے ہیں گوروں کے۔

میں لنڈ کو اپنی چوت میں۔ جکڑے ہوئے بولی۔۔

مزے تو تمہارے بھی ہی ہیں۔پھر اس ک چہرے کو چومتے بولی

کہو تو ڈھونڈو کوئی چدکڑساتھی۔۔کر لو گوروں والے مزے

وہ جواب میں میرے ہونٹوں کوچومتے ہوئے بولا۔۔

مشکل ہے کوئی دیسی عورت تھری سم پر راضی ہو۔۔ یہ تو گوروں کے چونچلے ہیں

میں بولی ۔۔ شگفتہ کے متعلق کیا خیال ہے چود پاؤ گے اسے؟ناک تو نہیں کٹوا دو گے؟یہ نہ ہو شرم سے اس کے سامنے کھڑا ہی نہ ہو؟

میرے پے درپہ سوالوں سے گبھرا کر بولا۔

وہ آپکی سہیلی شگفتہ آنٹی؟

وہ تو بہت شریف عورت لگتیں ہیں۔وہ کہاں اس کام پر مانیں گی۔۔ خالہ کیوں میرا مذاق اڑا رہی ہیں

میں دل ہی دل میں ہنس پڑی۔کہ

یہ مرد۔۔ عورت کے کتنے روپ ہیں کبھی سمجھ ہی نہیں پائیں گے۔

مگر مجھے اتنی سمجھ آ گئی تھی کہ شانی اب تھری سم کے لیئے تیار ہےاور اب اسے اعتراض نہیں۔

اب جو کرنا ہے مجھے ہی کرنا ہے۔

لہذا میں نے شگفتہ کوفون کرکے خوشخبری دی جسے سن کر وہ نہال ہو گئی اور اس کے مشورے سے دن اور وقت طے کر لیا۔

شگفتہ میری پرانی سہیلی تھی۔

سکول کالج میں ہم اکٹھی ہی تھیں۔ مگر اس کی شادی بوجوہ جلدی ہو گئی تھی۔ میرے شوہر جو میرے کزن بھی تھے ان کے ساتھ میرے افئیر میں شگفتہ کی بھرپور مدد شامل تھی۔

میری شادی سے پہلے ملاقاتیں شگفتہ کے گھر میں ہی ہوتی تھیں۔ وہ میری دکھ سکھ کی ساتھی تھی

شگفتہ تقریباً میری عمر کی چھوٹے قد کی سلم سمارٹ عوت تھی۔چھاتیاں اور کولہے درمیانے سائز کے تھے۔

اسکے گول چہرے سے معصومیت چھلکتی تھی۔

مگر اسکی آنکھوں میں اک خاص ہوسناک پیاس تھی۔جسے صرف کھلاڑی مرد ہی سمجھ پاتے تھے۔اور جو سمجھ جاتے من کی مراد پاتےتھے

۔ مگر شگفتہ بی بی بھی ہر ایرے غیرے کو اپنی چوت کا رستہ نہیں دکھلا دیتی تھی۔ پہلے پوری تسلی کرتی کہ مرد قابل اعتماد ہے یا نہیں۔۔

بلیک میل تو نہیں کرے گا۔۔بدنام تو نہیں کرے گا۔

یا کچھ زیادہ ہی لٹو ہو کر پیچھے تو نہیں پڑ جائے گا۔

کیوں کہ اس نے اپنی عادت سے مجبور ہو کر پرانے یار چھوڑ کر نئے دوست بنانے ہوتے تھے۔۔

اس لیئے چپکو ٹائپ مردوں کو سخت ناپسند کرتی تھی۔۔

اس کی اولین پسند معاشی طور پر خوشحال اور معزز شادی شدہ ادھیڑ عمر کے مرد تھے۔

کیوں کہ ایک تو سیکس میں تجربہ کار ہوتے تھے۔۔

دوسرا انہیں اپنی عزت بھی پیاری ہوتی تھی۔وہ بلیک میل کرنا تو دور کی بات خود بلیک میل ہونے سے بچتے تھے۔

شگفتہ کا جوان لونڈوں کاتجربہ اتنا خوشگور نہیں تھا۔

ایک تو ناتجربہ کاری کا مسلئہ کہ انہیں معلوم ہی نہیں ہوتا کہ عورت کو کیسے آرگیزم دلانا ہے۔ بس اپنا پانی نکالنے سے غرض ہوتی ہے۔

پھر وہ بڑے بڑبولے ہوتے ہیں کسی عورت کو پٹا کر یاروں دوستوں میں بیٹھ کر شیخیاں مارتے ہیں۔

اور کئی چپکو تو جان ہی نہیں چھوڑتے۔ عورت کو گھر میں کیا مسائل ہیں وہ مل سکتی ہے یا نہیں ۔ انہیں بس سیکس سے غرض ہوتی ہے۔

اور اگر عورت بےزار ہو کر جان چھڑانا چاہے تو بدنام کرنے کی دھمکیاں دیتے ہیں۔

اسی لئے شگفتہ کے تجربے کا نچوڑ ادھیڑ عمر کے ٹھرکی مرد تھے۔جو تحفے تحائف بھی افورڈ کر سکیں۔ نہ کہ بےروزگار لونڈے جو ہوٹل کے کمرے کے کراے کے ساتھ رکشہ کا کرایہ بھی مانگیں۔

اسی لئے شانی کے جوان جسم کو دیکھ کر شگفتہ کی لال ٹپک پڑی۔اور اس کی چوت جوان لوڑے کی دہائیاں دینے لگی۔

اس کی چوت کی پیاس بجھانے کا بندوست ہو گیاتھا۔

شگفتہ کے منہ میں شانی کا لنڈ تھا جسے وہ بڑے چاؤ سے چوس رہی تھی۔

میرا پیارا جان دلارا شانی اپنے کمرے کے بیڈ پر ننگ دھڑنگ چت لیٹا ہوا تھا

اس کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی تھی اس کے دونوں ہاتھ دوپٹوں سے دونوں طرف بیڈ سے بندھے ہوئے تھے

اس کی دونوں پیر بھی دونوں اطرف سے بندھے ہوئے تھے

وہ بالکل بے بس ہمارے رحم و کرم پر تھا۔وہ انگریزی کے لفظ ایکس کی شکل اختیار کئے ہوا تھا۔

اسکی رانوں کے درمیان شگفتہ جھکی ہوئی اسکے لنڈ کو حلق تک اتارے ہوئے چوسے لگا رہی تھی۔

وہ اپنے گھٹنوں اور ہاتھوں کے بل کتیا بنی ہوئی صرف منہ سے لنڈ کا چوپا لگا رہی تھی۔

اور میں کسی تماشائی کی طرح کرسی پر بیٹھی لائیو پورن کا نظارہ کر رہی تھی۔

شگفتہ ننگی ہو کر اور بھی پرکشش لگ رہی تھی اسکے جسم کے اعضاء اگرچہ بڑے نہیں تھے لیکن بے حد متناسب تھے۔

اسکا پیٹ بےشکن اور کسی ماڈل کی طرح ہموار ہوا تھا ۔

اسکے ابھار کسی نوعمر لڑکی کی طرح ٹھوس اور گول تھے۔

چوتڑ اگرچہ بڑے نہیں تھے مگر خوبصورت شیپ میں تھے۔

ڈوگی سٹائل میں اسکے ہپس بالکل علیحدہ علیحدہ تھے درمیان میں اس کی گانڈ کا چھوٹا سا سوراخ کھلا ہو ا تھا اور پھدی کے ہونٹ ابھرے ہوے تھے جن پر دو تین دن کے چھوٹے چھوٹے رواں جیسے بال تھے۔

وہ تقریباً پانچ منٹ سے مسلسل چوپا لگا رہی تھی۔

وہ زبان کی نوک سےٹٹوں کو برش کرتے ہوے لنڈ کے ٹوپے پر جاتی اسے ٹوپے پر گول گھماتی۔پھر ہونٹوں میں دبوچ کر پورے لوڑے کو حلق تک اتار لیتی۔۔

پھر آرام سے لنڈ سے منہ اوپر کھنچتی اور ہونٹوں سے توپے کو چوستے ہوے باہر نکالتی۔

شانی مدہوشی میں سسس سی سس نگی نگی سسس کی آوازیں نکال رہاتھا۔

وہ اپنی دانست میں اپنی محبوبہ نگہت عرف نگی سے چوپے لگوا دیا تھا۔

آج پلان کے مطابق شانی کے آنے سے پہلے ہی شگفتہ آ گئی تھی اور جیسے ہی شانی آیا وہ میرے بیڈ روم چھپنے چلی گئی تھی۔

باہر میں نے شانی کو کھانا وغیرہ سرو کیا۔اور اسے لے کر شانی کے بیڈ روم میں آ گئی تھی۔

شانی میری بےتابی دیکھ کر مسکرا کر بولا۔۔

لگتا ہے آج کچھ زیادہ ہی مزہ آنے والا ہے۔۔میں اس کی شرٹ نکالتے ہوئے بولی۔۔

جی جناب آج کا دن آپ کے لیئے کچھ خاص ہے آج کچھ ایسے مزہ دوں گی کہ کبھی بھول نہیں پاؤ گے

اسے ننگا کر کے میں نے اپنے کپڑے بھی اتار ڈالے۔ اور اسے کھڑے کھڑے جپھی ڈال کر فرنچ کسنگ کرنے لگی۔

شانی کا قد مجھ سے بڑا تھا اور گردن نیچے کر کے بوس وکنار کر رہا تھا۔

اسکے ہاتھ میرے ننگے بدن کو سہلانے لگے۔۔اپنے ہاتھوں میں میری گانڈ کو دبوچ کر نوچ رہا تھا میں بھی اسکی گانڈ کو دبا رہی تھی۔۔اور کبھی کبھی اس کی گانڈ کے سوراخ کو انگلی سے سہلانے لگتی تو اسے بہت مزا آتا ۔۔

اس کارروائی سے اس کا ہتھیار بیدار ہونے لگا۔۔پہلے چھوہارے سے کیلا بنا پھر کھیرے کی طرح سخت ہو گیا

مجھے اپنے پیٹ پر اسکے اوزار کی سختی محسوس ہوئی تو میں نے اسے بیڈ کی طرف دھکیلا۔

وہ بیڈ کے کنارے پر بیٹھ گیا۔ میں نے اس کے پاس آ کر اپنی چوت کو اسکے منہ پر لگا دیا،،

اس نے میرا اشارہ سمجھتے ہوئے میری چوت کو چومنا شروع کر دیا۔

مگر اس طرح اسکی زبان صرف دانے کو ہی چھو پارہی تھی۔ اس لیے اپنی ایک ٹانگ اٹھا کر اس کے شانے پر دھر دی اس طرح چوت کا منہ کھل کر شانی کی زبان کی پہنچ میں آ گیا۔

اس نے میری چوت کو لپالپ چاٹنا شروع کردیا۔

چوت کے ہونٹوں کو نیچے سے اوپر تک اپنی زبان تک چاٹا۔پھر دانے کو پہلے ہونٹوں سے دبایا۔

پھر دانتوں سے ہلکا سا کاٹا۔جس سے میرے منہ سے لذت دار چیخیں نکلنے لگیں۔

وہ اتنے شوق سے پھدی چاٹ رہا تھا کہ مزے سے میں اپنا آج کا سارا پلان ہی بھول گئی تھی۔

پھر مزے سے مجھے ایک آرگیزم ہوا ۔میری چوت کا رس سے اس کا منہ گیلا ہو گیا۔

میں نے اسے پیار سے علیحدہ کرتے ہوئے اپنی ٹانگ نیچے اتاری۔

اسکے ہونٹوں پر کس کیا تو اپنی چوت کے رس کا نمکین ذائقہ چکھا۔

ایک دفعہ پھدی کا جوش ٹھنڈا ہوا ۔۔تو میں کچھ سوچنے سمجھنے کے قابل ہوئی ۔

میں نے اسے بیڈ پر دھکیل کر لٹا دیا اور اس کے لوڑے کو منہ میں ڈال لیا۔اور شافٹ کو چوسنے لگی۔

چوستے ہوئے جب ہیڈ ہونٹوں میں آتا تو میں دانتوں سے کاٹتی۔ جس سے وہ تڑپ جاتا اور میرے سر کو پکڑ لیتا۔

جب دو تین بار اس نے میرے سر کو پکڑا تو میں ڈانٹ کر بولی۔

یہ کیا حرکت ہے میری چیز ہے جو مرضی کروں۔ چوموں یا دانتوں سے کاٹوں۔۔اگر اب مجھے روکا تو تجھے مزہ چکھا دینا ہے۔۔

وہ بولا۔۔اچھا ٹھیک ہے اب کچھ نہیں کروں گا۔۔ آپ جو مرضی کریں۔۔

میں زبان سے اس کے ہیڈ کو چھیڑنے کرنے لگی مگر منہ میں نہی لے رہی تھی وہ بے تابیِ سے دیکھ رہا تھاکہ کب منہ میں لوں۔

پھر اس پر ترس کھا کر دو تین منہ بھر کر چوپے لگاے۔

اور دوبارا لنڈ کی شافٹ اور ہیڈ کو زبان سے برش کرنے لگی۔

میں اسے جان بوجھ کر ستا رہی تھی۔ منہ کو ہیڈ پر لا کر ہونٹ گول کر ہیڈ پکڑ کر چھوڑ دیتی۔پھر پکڑتی چھوڈ دیتی۔

پھر ہیڈ کو ہونٹوں سے دبوچا ہی تھا کہ اس نے اضطراری طور پر میرا سر پکڑ کر لنڈ پر دبا دیا۔اور لنڈ میرے حلق سے جا ٹکرایا۔

جس سے مجھے پھندا سا لگ گیا اور گلے میں خراش سی آ گئی میں کھانستے ہوئے بیڈ سے اتر گئی

میری آنکھوں میں کھانسی سے پانی آ گیا تھا۔میں نے اس کی طرف خفگی سے دیکھا تو وہ شرمندہ ہو گیا۔

میں اٹھ کر کچن میں ا گئی گلاس پانی کا پیا اور آتے ہوئےاپنے بیڈروم کے دروازے پر ہلکی سی دستک دے ڈالی۔ یہ شگفتہ کے لئے تیاری کا اشارہ تھا۔

شانی شرمندگی سے بولا۔۔

سوری آنٹی۔۔ یہ بس جوش میں ہو گیا۔مجھے معاف کردیں۔اب نہیں کروں گا

میں خفگی سے بولی۔۔

جان نکالنی ہے کیا۔۔ کیسے بدتمیزی سے سارا ہی گھسا دیا۔اگر سانس رک جاتا تو؟

اب رہنے دو آج کے لئے اتنا ہی کافی ہےوہ اٹھ کر میرے پاس آ گیا اور مجھے چومتے ہوئے بولا۔

معاف کردیں ناں۔۔ اب ایسا نہیں کروں گا۔۔میں ہلکی ناراضگی سے بولی۔۔

آج اتنا دل تھا اورل سیکس کرنے کو۔۔ سارا موڈ ہی خراب کر دیاتم نے

وہ میرے گالوں کو چوم کر بولا۔۔

چلیں غصہ تھوکیں۔۔ ابھی تو رانی اور راجہ کو بھی ملانا ہے۔ زیادہ بات ہے تو میرے ہاتھ باندھ دیں۔

میں تیزی سے بولی ۔۔

بچو تیرے ہاتھ ہی نہیں پاؤں بھی باندھوں گی۔ اگر آج مزید کھیل ہو گا تو میری مرضی سے ہوگا

وہ خوشی سے بولا۔۔ مجھے ہر شرط منظور ہے۔ آپ بس اب راضی ہو جائیں۔۔

میں نے اس کی طرف مسکرا کر دیکھ کر بولا تو چلو بیڈ پر جا کر سیدھے لیٹ جاؤ۔۔

وہ اچھے بچوں کی طرح بیڈ پر لیٹ گیا۔۔میں نے اپنے دوپٹوں سے اس کے ہاتھ پیر باندھے۔

پھر ایک دوپٹے سے اس کی آنکھوں پر پٹی سی باندھ دی ۔۔

وہ چپ چاپ پڑا رہا۔۔

جب سب تیار ہوگیا تو میں اس کی کھلی رانوں کے درمیان بیٹھ گئی اور بولی ۔۔

بیٹا اب مزے لو۔

چھوہارے کو منہ میں لے لیا۔چھو ہارا منہ میں کی گرمی پاتے ہی بڑا ہونے لگا ۔۔ اور کچھ ہی منٹوں میں اپنے سائز میں آ گیا۔

میں نے ایک پیار بھرا تھپڑ شیطان کو رسید کیا۔

شانی مزے سے کرایا۔

میں اونچی آواز سے بولی۔اب کروگے شیطانی

وہ سسکا۔

نہیں خالہ اب نہیں کروں گا۔

میری آواز سن کر کمرے کے باہر کھڑی شگفتہ دبے پاؤں اندر آ گئی۔

میں نے کبھی حقیقت میں کسی عورت کو ننگا نہیں دیکھا تھا۔۔

وہ بالکل الف ننگی تھی میں مبہوت ہو کر اس کے نشیب و فراز کو دیکھنے لگی۔

وہ دبے پاؤں چلتی ہوئی بیڈ کے پاس ا گئی میں چپکے سے بیڈ سے اتر آئی اور اس نے میری جگہ لے لی۔

اور کتیا بن کر اپنے ہاتھوں پاؤ ں پر وزن ڈال کر لنڈ کو اپنے منہ میں دبوچ لیا ۔

اور صرف منہ سے لنڈ کی چسائی شروع کردی

لنڈ کی پوری شافٹ منہ میں گھسا لیتی پھر اپنا منہ دھیرے سے اٹھاتی کہ لنڈ منہ سے نہ نکلے۔

پھر ہیڈ کے آخری کنارے سے دوبارا واپسی کا سفر شروع کرتی۔یہ

شگفتہ اپنے منہ کو چوت کی طرح استعمال کر رہی تھی۔

وہ ہاتھوں کا استعمال اس لئے بھی نہیں کر رہی تھی کہ وہ اس کے ہاتھوں کو کہیں پہچان نہ لے۔ کہ یہ میرے ہاتھ نہیں کیونکہ شگفتہ کے ہاتھ مجھ سے چھوٹے تھے۔

میں کمرے میں موجود کرسی پر بیٹھی ہوئی ستایشی نگاہوں سے اس کی فنکاری کو سراہ رہی تھی۔۔

شانی مزے سے کراہ رہا تھا۔

بہت اچھے سے کر رہی ہو ۔سسس نگی سسس۔

اہ۔۔نگی یہ آج کیا کردیا مزہ آ گیا۔

شانی بے ربط الفاظ بڑبڑا رہا تھا۔ساتھ اس کا جسم وقتا فوقتاً لزت سے جھر کھرا بھی رہا تھا۔

مجھے لگا کہیں شگفتہ صرف منہ سے ہی اسے فارغ نہ کر دے۔لہذا میں نے اسے اشارے سے روکا۔

اور اگلے مرحلے پر جانے کا کہا۔

وہ میری بات سمجھتے ہوے لنڈ چسائی کو دھیما کرتے ہوئے رک گئی۔اور آٹھ کر اپنے پاؤں شانے کے دونوں اطراف رکھ اپنی چوت کو لنڈ کے اوپر لے آئی۔

میں نے ہاتھ بڑھا کر شانی کا لنڈ سیدھا کر کے چوت کے دہانے پر لگا۔

شگفتہ کی چوت پانی سے لبریز تھی اس لیے ہلکے سے دباؤ سے لنڈ پھسلتا ہوا چوت میں داخل ہو گیا۔

اب میرا کام ختم اور شگفتہ کا شروع ہو گیا۔

وہ بڑے ماہرانہ انداز میں اپنے پنجوں کے بل لنڈ کی سواری کر رہی تھی۔لنڈ کو چوت میں دبوچے اوپر نیچے ہو رہی تھی۔۔

اور اتنے محتاط انداز میں ہورہی تھی کہ اس کے جسم میں سے صرف چوت کی لنڈ کو چھو رہی تھی باقی کام کا کوئی حصہ شانی کو ٹچ نہی کیا تھا۔

کچھ ہی دیر میں پھدی کا رس لنڈ کو بھگوتے ہوے شانی کے ٹٹوں اور زیر ناف حصے کو گیلا کرنے لگا۔

لنڈ اور پھدی کے ملاپ سے پچ ۔۔پرچ ۔۔پچ کی آوازیں پیدا ہورہی تھی ۔

شانی بھی آہ ۔۔ہا امم کی آوازوں میں غرا رہا تھا۔

مگر شاباش تھی شگفتہ کو وہ کمال ضبط سے خاموشی سے لنڈ کو چود رہی تھی۔

اور اضطراب میں اپنے ہونٹ کو دانتوں میں دبائے ہوئے تھی۔۔

یہ نظارہ دیکھ کر میرے پورے جسم میں آگ لگ چکی تھی ۔۔مجھ سے رہا نہیں گیا میں شگفتہ کے پاس آگئی اور اس کے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ لگادئیے ۔۔وہ بے تابی سے میرے ہونٹ چوسنے لگی اور میری چوت کو بھی سہلانے لگی ۔۔ساتھ وہ شانی کے لن پر بھی اچھل رہی تھی۔۔یہ نظارہ میری زندگی کا شہوت ترین نظارہ بن گیاتھا۔۔میرا جسم اتنا گرم ہوگیا کہ شگفتہ کے ہاتھ کا لمس پاتے ہی میری چوت نے پانی چھوڑدیا۔۔میں شگفتہ کے ہونٹوں کو زور زور سے چوستی ہوئی اس سے الگ ہوکر دوبارہ کرسی پر بیٹھ گئی ۔۔

کچھ ہی دیر میں شگفتہ کی جمپنگ سپیڈ تیز تر ہوتی گئی۔۔پھر اسکی منہ سے ہمممم کی آوازہ نکلا اور

پھدی سے پانی کے چھینٹے بکھر گئے۔

آرگیزم کیے زور سے وہ اپنا توازن قائم نہ رکھ سکی اور شانی کی رانوں پر بیٹھتی گئی۔۔مگر شانی بھی مزے سرشاری تھا۔ وہ اس کے کولہوں کی اجنبیت بھانپ نہ پایا۔

شگفتہ نے بھی معاملے کو سنبھال لیتے ہوے پنجوں کی بجائے اب گھٹنوں کےزور لنڈ کی سواری جاری ۔

کمرے میں پچک پچک کے ساتھ اب تھپ تھپ کی آواز بھی گونجنے لگی۔ کچھ دیر یہ دلفریب گیت بجتا ریا۔

میں پیچھے بیٹھی لنڈ پھدی کی کشتی دیکھتے ہوے اپنی رانی کی رگڑائی کرتی رہی۔

شانی پورے جوش میں آ گیا تھا بندھا ہونے کے باوجود نیچے سے لنڈ کو اچھالا دے رہا تھا۔

اب شانی کی باری تھی اور غراہٹ کے ساتھ اس کا جسم کانپنے لگا اور لنڈ نے گیلی چوت میں مزید کیچڑ بھر دیا۔ جو بہہ کر نکلنے لگا

شگفتہ بھی تھک کر رک گئی تھی مگر لنڈ کو چوت میں دبائے بیٹھی تھی۔

شانی مزے سے بولا۔۔

آج تو نگی آپ نے جان ہی نکال دی۔اتنا مزہ تو شاید پہلے نہیں آیا۔

اب پلیز ہاتھ پیر کھول دیں کچھ وقفہ کرتے ہیں۔۔اب اس ڈرامے کے ڈراپ سین کا ٹایم آ گیا تھا۔

میں بیڈ پر چڑھ گئی اور اس کے منہ میں منہ ڈال کر زبان چوسنے لگی۔

میں اس کے سینے سے چھاتیاں ملاے اسکے اوپر لیٹی ہوئی تھی۔یوں لگ رہا تھا جیسے میں ہی اس کے لنڈ پر بیٹھے بیٹھے آگے جھک کر کسنگ کر رہی ہوں۔۔اور ایک ہاتھ سے اس کی آنکھوں کی پٹی کھولنے لگی۔

پٹی کھلتے ہی اس کی آنکھوں کے سامنے میرا چہرہ تھا۔ میرے چہرہ شگفتہ کے وجود کو اوجھل کیے ہوئے تھا۔

میں مسکرا کر بولی کیسا لگا۔۔

وہ بولا ۔۔

بہت مزہ آیا۔۔ آج تو آپ نے جنت کی سیر کرا دی۔۔ آج تو انوکھا ہی سواد آیا

میں شرارت سے چہکی۔۔

بچو میرے ساتھ ایسے ہی مزے کرو گے چلو میری یہ خواہش تو پوری ہو گی اب تھری سم کا کیا پلان ہے۔۔ بلا لوں شگفتہ کو؟

شانی بولا ۔۔

۔۔پہلے مجھے کھولیں تو سہی پھر بات کرتے ہیں ۔۔ پھر ویسے بھی آج آپ کی رات ہے بے شک بلا لیں ۔۔ آپ ایسے ہی مذاق کرتیں ہیں ۔۔

اس معصوم بیچاری کو پتہ بھی نہیں ہو گا کہ ہم اس کے بارے میں ایسی باتیں کرتے ہیں

میں دیدے گھما کر بولی۔۔

اچھا اگر میں اس معصوم عورت کو ابھی بلا لوں۔تو مانو گے خالہ کو؟

وہ زچ ہو کر بولا۔

جی خالہ چلیں دیکھ لیتے ہیں آپ بھی ناں۔

میرا مذاق اڑا رہی ہیں

اچھا تو یہ لو آ گئی۔۔ کیا یاد کرو گے کیسی خالہ ملی ہے۔۔

یہ کہتے ہوئے میں اس کی نگاہوں کے سامنے سے ہٹ گئی۔

اور شانی کی نظریں سیدھی شگفتہ پر پڑیں۔

جسے دیکھتے ہی شانی نے حیرت کے شدید جھٹکے میں اٹھنے کی کوشش کی جو بندھا ہونے کے باعث ناکام گئی

اور وہ بھونچکا ٹک ٹک اپنے لنڈ پر بیٹھی شگفتہ کو دیکھنے لگا۔جس نے مصنوعی شرم سے اپنے چہرے پر ہاتھ رکھ لئے تھے۔ کچھ ہی دیر بعد ہم مہذب لوگوں کی طرح شرٹ اور ٹراؤزر پہنے ٹی وی لاونج میں بیٹھے تھے۔ شانی حیرت و استعجاب کی کیفیت سے نکل آیا تھا۔

اور موجودہ تبدیل۔ شدہ صورتحال سے لطف اندوز ہو ریا تھا

سب کے ہاتھوں میں کافی کے مگ تھے اور ہم گرم کافی کی چسکیوں کے ساتھ گپ شپ لگا رہے تھے۔

شانی اور شگفتہ کے بیچ اجنبیت کا پردہ ختم ہو گیا تھا میں نے شگفتہ کی پوشیدہ شخصیت کا باقاعدہ تعارف کروا دیا تھا۔

اس کے بارے میں سب کچھ تو نہیں مگر جتنا ضروری تھا بتا دیا تھا۔

شگفتہ تو شانی کے بارے میں سب جانتی ہی تھی۔

اور اب شانی کو بھی پتہ چل گیا تھا کہ شگفتہ ہماری ہم راز بن چکی ہے۔

اس لیے ہم بے دھڑک ہو کر گفتگو کر رہے تھے

شگفتہ چہکی۔۔

تو جناب بڑی تعریفیں سنی ہیں آپ کے گھوڑے کی پرفارمینس کی۔

پہلے راؤنڈ میں سواری کا لطف بھی اٹھا یا۔

مگر سوال یہ ہے کہ

آپ کا گھوڑا دو دو سواروں کا بوجھ اگلے راؤنڈ کی ریس میں اٹھا پائے گا

شانی نے بڑی متانت سے جواب دیا۔۔

پہلے تو آپ نے گھوڑے کو باندھ کر سواری کی تھی۔۔گھوڑے کو اپنی طاقت

دیکھانے کا موقع ہی کب دیا۔۔

ابھی چلیے دکھا دیتے ہیں گھوڑے کی طاقت۔۔میدان کو تلپٹ نہ کر دیا تو شک

گھوڑے کا قیمہ بنا ددینا

شگفتہ نے جواب دینے کو ہی تھی کہ میں نے انہیں مزید نوک جھونک سے

روکتے ہوئے کہا۔

۔۔ آج ہمارا یہی پروگرام ہے۔۔ مگر کیوں نا اگر مزہ کرنا ہی ہے تو ذرا گھوڑے

کو بھی طاقت کی دوا دے دیں۔

شانی بولا۔۔

میرے گھوڑے کو ایسی کسی دوا کی ضرورت نہیں ۔۔ پہلے کبھی ضرورت

پڑی ہے؟

میں نے ترنت جواب دیا۔

نہیں جی۔۔ آج بہرحال اگلے راؤنڈ کے لیے ویاگرا کا ایک ڈوز دے ہی دیتے ہیں تاکہ بے فکر ہو کر کھل کر کھیلیں۔۔ ویسے بھی اس گیم کے لیئے گھوڑے کو سٹیمنا اور طاقت چاہیے

یہ کہہ کر میں اٹھ گئی اور کپ بورڈ سے ایک ویاگرا ٹیبلیٹ لا کر شانی کو

لا کر دی۔

جو اس نے پانی سے نگل لی۔اور اوپر سے کافی کے سپ لینے لگ گیا۔

مجھے پتہ تھا کہ اس کا اثر کم از کم آدھ گھنٹے بعد شروع ہونا ہے۔

میں نے ٹی وی پر نیوز چینل لگا دیا۔

حالات حاضرہ اور ادھر ادھر کی باتیں کرتے وقت کا پتہ ہی نہیں چلا۔

میں چونک کر بولی۔

شگفتہ بی بی ۔۔ گھر کیا کہہ کر آئی ہو۔۔

وہ اپنی مخصوص مسکراہٹ میں بولی

میں انہیں بتا کر آئی ہوں کہ نگہت کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے اور اس کی بیٹی کی دیکھ بھال کے لئے کوئی نہیں تواس لیے آج کی رات تمہاری طرف ہی گزارنی ہے کل صبح تک کی چھٹی ہے ۔۔

ہم کافی پی کر تازہ دم ہو چکے تھے۔۔

اس لیئے میں نے انہیں بیڈروم میں چلنے کا کہا۔۔

بیڈروم میں پہنچتے ہی شگفتہ نے پہلے شرٹ پھر ٹراؤزر اتار پھینکا اور اسکا سیکسی ننگا بدن لایٹ میں دمکنے لگا۔گول سخت چھاتیاں غرور سے تنی ہوئی تھیں۔ہموار پیٹ کے نیچے زیر ناف ہلکے ہلکے بال تھے کسی ماڈل کی طرح سڈول رانیں اسے جاذب نظر بنا رہیں تھیں ہماری نگاہیں اپنے جسم پر مرکوز پا کروہ اپنے مموں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بے شرمی سےبولی۔۔

چلو دوستو۔۔پارٹی شروع کرتے ہیں شانی ڈییر۔۔نکالو اپنا گھوڑا اور کرواؤ سواری

اسکی دیکھا دیکھی شانی بھی پیدائشی لباس میں آ گیا اس کے کسرتی جسم کی تو میں پہلے سے فین تھی مگر شگفتہ اسے للچائی نگاہوں سے تک رہی تھی۔ شانی کا گھوڑا چواڑا اور موٹا تھا شگفتہ کے ننگے بدن کو دیکھتے ہی اس کے لوڑے نے انگڑائی لے لی تھی۔۔اور تن کر کھڑا ہوگیا تھا۔لوڑے کی رگیں پھولی ہوئی تھیں اور معمول سے زیادہ بڑا اور سخت لگ رہاتھا۔۔سخت

تناؤ سےلوڑے کا منہ آسمان کی طرف تھا۔اور جوش سے پھنکار رہا تھا۔جیسے سانپ بین کے آگے رقص کرتا ہے۔

اب میری باری تھی ۔۔میں بھی الف ننگی ہوکر ان کے ساتھ شامل ہوگئی ۔۔شگفتہ نے مجھے دیکھا اور میری طرف بڑھ کر میرے مموں کو سہلانے لگی ۔۔میں بھی اس کے مموں کو سہلانے لگی ۔۔شانی یہ نظارہ دیکھ کر بہت ہی گرم ہوگیاتھا۔۔

شگفتہ نے آگے بڑھ کر شانی سے معانقہ کیا چھوٹے قد کے باعث اسکا منہ شانی کےسینے تک ہی پہنچا۔

اس نے شانی کی چھاتی پر بوسے دینے شروع کر دیئے۔

اور پیٹ میں شانی کا لنڈ پیوست ہو گیا۔

شانی میری طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھنے لگا۔

میں نے بائیں آنکھ میچ کر اسے مزے کرنے کا اشارہ کیا۔

میں شانی اور شگفتہ کو چدائی کا بھرپور موقع دینا چاہتی تھی ۔۔مگر اس سے پہلے ہماری فیورٹ تھری سم سیکس مووی کے کچھ سین ٹرائی کرنا چاہتی تھی ۔۔اس لیے میں شانی کے قریب آگئی ۔۔شگفتہ شانی کو چھوڑ کر میری طرف بڑھی ۔۔میں نے اسے آنکھ کے اشارے سے روک دیا۔۔اور جھک کر شانی کے موٹے لن پر زبان پھیرنے لگی ۔۔شگفتہ بھی میرے ساتھ آگئی ۔۔وہ شانی کے ٹٹوں کو چوسنے لگی ۔۔میں نے لن کی ٹوپی منہ میں ڈال لی اور اسے چوسنے لگی ۔۔شانی مزے سے لوٹ پوٹ ہونے لگا۔۔کچھ دیر کے بعد میں نے لن منہ سے نکالا اور اسے پکڑ کر شگفتہ کے منہ میں دے دیا۔۔خود شانی کے منہ پر بیٹھ گئی ۔۔اس کی زبان فوراً باہر آئی اور میری چوت کے دانے کو چھیڑنے لگی ۔۔میں مزے سے چیخ اٹھی۔۔تھری سم کتنا شہوت انگیز ہوتا ہے مجھے خوب فیل ہورہاتھا۔۔جب میری چوت نے پانی چھوڑا تو میں ہانپتی ہوئی سامنے کرسی پر جاکر بیٹھ گئی ۔۔

شانی اب ننگا کھڑا تھا اور شگفتہ اسکے سینے پر بوسے کرتی ہوئی نیچے جا رہی تھی زبان اور ہونٹوں سے سے چومتے ہوے سینے سے پیٹ پر آئی ۔

پھر ناف تک پہنچی ۔ناف میں زبان کی نوک گول گول گھمائی۔

پھر نیچے لنڈ کی شافٹ تک پہنچ کر فرش پر پنجوں کے بل اکڑوں بیٹھ کر لنڈ کو ہاتھ میں پکڑ کر اس کی لمبائی اور موٹائی کا جائزہ لینے لگی۔

ساتھ ہی اسے اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے سہلا بھی رہی تھی۔

شانی دم سادھے اسے پیار سے دیکھ رہا تھا

۔

میں غیر شعوری طور پر اپنےایک ہاتھ سے اپنی چوت کو رگڑ رہی تھی دوسرے ہاتھ سے اپنے مموں کو سہلا رہی تھی۔

کچھ دیر لنڈ کا معائنہ کرنے کے بعد شگفتہ نے منہ کھول کر زبان نکالی اور لنڈ کی شافٹ کو نیچے سے اوپر کی طرف چاٹنا شروع کر دیا۔

لنڈ کو جڑ سے چاٹتے ہوئے ٹوپے پر لائی۔

اور پھر ہونٹوں کو گول کر کے ہیڈ کے اوپررکھ کر دباؤ ڈالا۔

ہونٹ پھسلتے ہوئے پورے ہیڈ کو نگل گئے۔

اس نے ہیڈ کو ہونٹوں میں دبوچ کر پیچھے کھینچا تو پوچ کی آواز سے ٹوپا ہونٹوں کی گرفت سے آزاد ہو گیا

شانی کی ایک زوردار آہ نکلی۔

شگفتہ نے پھر لنڈ کے ٹوپے کے ساتھ کئی بار اسی طرح ہونٹوں سے بوسہ کیا۔

اور ہر بار شانی کی آہ نکلی۔

پھر ایک بار اس لنڈ کو ہونٹوں میں لیا تو شانی نے اس کے سر کو پکڑ کر پورا

لنڈ اس کے منہ میں حلق تک اتار دیا۔

شگفتہ کی غوں غوں غوں غاں کی آوازیں نکلنے لگیں شاید اسے سانس لینے میں دشواری ہورہی تھی مگر شانی بے نیاز اپنے لنڈ کو اس کے حلق میں ڈالے کھڑا تھا۔

۔شانی فل جوش میں اور بڑبڑا ریاتھا۔

لے چوس اسے رنڈی۔۔ لے مزہ میرے گھوڑے کا

شگفتہ اپنے ہاتھوں سے اسکی رانوں کو دور کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔

اس کی حالت کو بھانپتے ہوئے اس نے

تھوڑی دیر میں اس کے سر کو نرمی سے پیچھے کیا تو شگفتہ کی سانسیں بحال ہوئیں مگر لنڈ ابھی بھی اسکے منہ میں تھا اور سر شانی کے مظبوط ہاتھوں کی گرفت میں۔

منہ کو چوت سمجھتے ہوئے اس نے اپنےلنڈ سے منہ کی چودائی شروع کردی۔

اپنے لنڈ کی آدھی لمبائی سے اسکے منہ کی ٹھکائی کر دی۔

شگفتہ کی رالیں اور تھوک نے لنڈ کو پورا گیلا کر دیا تھا شگفتہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے تھے۔

مگر شانی بے رحمی سے شگفتہ کا سر پکڑے اسکے منہ میں سٹروک پر سٹروک لگا رہا تھا۔

مجھے لگا کہ شگفتہ کی حالت شاید اب نازک ہےاور وہ تکلیف میں مبتلا ہے مگر غور سے دیکھا تو وہ اپنے ایک ہاتھ سے اپنی چوت کو مسل رہی تھی۔

کچھ دیر منہ کی چودائی کے بعد اسے چھوڈا تو شگفتہ تھوڑا سا لڑکھڑای اور پیچھےگرتے بچی۔۔ مگر اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے کھڑی ہو گی۔

اس کی ٹھوڑی پر تھوک اور رالیں اکھٹی تھیں جسے اس نے ہاتھ کی پشت سے صاف کیا۔

آنکھوں میں نمی اور چہرے پر مسکراہٹ لیے وہ بیڈ پر لیٹ گئی پشت کے بل لیٹتے ہوے اپنی دونوں ٹانگیں اٹھا کر اپنی پنڈلیوں کو اپنے ہاتھوں میں پکڑ کر پیروں کو اپنے شانوں سے لگا لیا۔

اسکی چوت اور گانڈ ابھر کر پوری واضح ہو گئی

اور اسکی پھدی کھل کر شانی کو دعوت مباشرت دے رہی تھی۔

شگفتہ شہوت زدہ رندے گلے سے بولی..


آجاؤ اور چودو اپنی رنڈی کو

شانی اپنےسخت اور گیلےلنڈ کو ہاتھ

میں پکڑ کر سیدھا کر کے بولا ۔۔

میڈم زرا صبر کریں۔ اس چوت نے تو آج رات ایک بار مزہ لے لیا ہے پہلے اپنی خالہ کا حال نہ پوچھ لوں

اس کی اس بات سے میں دل سے نہال ہو گئی۔

مجھے لگا کہ آج نئی چوت دیکھ کر شاید مجھے اتنی لفٹ ہی نہیں کراے گا۔

مگر شہوت کی آگ میں بھی اسے میرا خیال تھا۔

وہ بیڈ پر شگفتہ کو نظر انداز کرتے ہوئے میرے پاس آگیا۔ایک تکیہ اٹھا کر میری گانڈ کے نیچے رکھا۔

جس سے میری چوت اسکے سامنےابھر کر واضح ہو گئی پھر میری ٹانگیں کا بوجھ اپنے مضبوط شانوں پر رکھ لیا۔

اور گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اپنا لنڈ میری چوت کے دہانے پر رکھ کر میرے اوپر جھکتا چلتا گیا۔

جس سے لنڈ خودبخود گیلی چوت میں پھسلتا ہوا اندر تک چلا گیا۔

اس نے میرے وجود کو اپنے وجود سے ڈھانپا ہوا تھا لنڈ مکمل جڑ تک چوت میں دھنسا ہوا تھا۔

میری آنکھوں میں سارے جہاں کا پیار سمیٹ کر دیکھتے ہوئے بولا۔۔

لو یو ۔۔نگی جان .

لو یو شان

میری شہوت سے ماری۔۔لرزتی آواز نکلی۔

اس نے میرے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں دبوچ کر نیچے لنڈ سے پیار بھرے سٹروک لگانے شروع کر دیے۔

میں لطف اور ہوس سے آہیں بھر ے لگی

شگفتہ بھی اٹھ کر ہمارے پاس اور شانی کی پیٹھ اور اور کولہوں پر ہاتھ پھیرنے لگی۔

جس سے شانی مزید بھڑک اٹھا اور رفتار بڑھا دی۔

میں آج شام سے ہی لنڈ کو ترسی ہوئی تھی۔پہلے بھی صرف بلو جاب ہی کیا تھا پھر شگفتہ اور شانی کی چودائی نے جسم کی آگ مزید بھڑکا دی تھی۔

اس لیے شانی کو مجھے منزل کرنے میں زیادہ تگ ودو نہیں کرنی پڑی۔

اور جند منٹوں میں ہی میری چوت نے ہار مانتے ہوئے لنڈ پر اپنی محبت کی آبشار کر دی۔

جس سے چوت کیچڑ سےلت پت ہو گئی۔میری چوت سے بہتا لیسدار گارا گانڈ کے سوراخ پر پہنچا تو میرا پورا جسم مزے سے تن گیا ۔میں نے جذبات میں شانی کے شانے پر دانت گڑا دے۔

اور اپنے بازوؤں کی گرفت میں اس کی پسلیوں کو دبا دیا۔

جسے محسوس کرتے ہی وہ سانس لینے کے رکا اور مجھے پیار سے دیکھنے لگا۔

میں موقعہ غنیمت جانتے ہوئےاسکی گرفت سے نکلی۔اور بولی۔

یار اپنے گھوڑے کو زرا روک کراس کی مالش کرو میں ذرا باتھ روم سے ہو آؤں.

دراصل جب لنڈ کی رگڑ چوت میں پڑتی ہے تو مثانے کے کچھ حصے بھی اس سے مشتعل ہوتے ہیں اور اکثر خواتین کو تسلی بخش چودائی کے بعد پیشاب کی حاجت ہوتی ہے۔بعض اوقات تو چودائی کا زور اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ کچھ خواتین پیشاب روک نہیں پاتیں۔

اورچدائی کے دوران ہی ان کا پیشاب خطا ہو ہو جاتا ہے۔

جسے انگریز سکورٹنگ کہتے ہیں۔

میں ننگی ہی چوت پر ہاتھ رکھ کر واش روم چلی گئی۔وہاں تسلی سے اپنا مثانہ خالی کیا اور پانی سے اچھے سے چوت کی صفائی کی۔

پھر اپنے بیڈروم کا آدھا دروازے کھول کر بیٹی کا جائزہ لیا وہ بے خبر سوئی پڑی تھی۔ دراصل اتنی دیر میں کبھی بھی اپنی بیٹی سے دور نہیں رہی تھی ۔

تو مجھے فکر تھی کہیں وہ بیچ میں اٹھ کر مجھے تلاش نہ کرنے لگ جائے۔

وہاں سے میں شانی کے بیڈروم میں داخل ہو گئی تو وہاں حسب توقع لنڈ کا کنٹرول شگفتہ صاحبہ نے کے پاس تھا

شانی بیڈ سے ٹیک لگائے ٹانگیں پسارے بیٹھا تھا اور میڈم شگفتہ اس کی گود میں لنڈ کو اپنی چوت میں لئے اٹھک بیٹھک فرما رہی تھیں

اسکا منہ شانی کی مخالف سمت تھا۔

وہ پیروں کے بل لنڈ پر بیٹھی ہوئی تھی اسکا اگلا دھرجھکا ہوا تھا ۔

شانی اس کے کولہوں کے نیچے ہاتھ رکھ کر اس کی مدد کر رہا تھا۔

گرچہ اسے اس کی قطعاً ضرورت نہیں تھی

شگفتہ اپنے کم وزن اور چھریرے بدن کے باعث اس طرح کے کرتب کرتے تھکتی نہیں تھی۔

وہ پاؤں کے بل بیٹھی بڑے آرام سے اوپر نیچے ہو کر لنڈ کو چود رہی تھی۔

میں اس کے پاس جا کر اس کی چھاتیوں کو اپنے ہاتھوں سے محسوس کرنے لگی۔جب سے میں نے شگفتہ کو الف ننگا دیکھاتھاا ور اس نے میرے اور میں نےا سکے نرم بدن کو چھوا تھا ۔چوما اور چوساتھا۔۔مجھے پہلی بار فیل ہوا کہ لیسبین سیکس بھی بہت مزیدار ہوتا ہے ۔۔

اس کی چھاتیاں کسی نوعمر لڑکی کی طرح سخت اور گول تھیں ان کو پکڑنے سے میرے بدن میں سنسنی کی لہر دوڑ گئی۔اس کے نپل چھوٹے تھے اور گول چھاتیوں پر چھوٹے نپل بہت خوبصورت لگ رہے تھے۔

دل انہیں چوسنے کو مچلا مگر میں تھوڑا جھجھک گئی۔

شگفتہ کو شاید میری دلی تمنا کا اندازہ ہو گیا تھا تو اس نے ہاتھ بڑھا کر میرا سر اپنے سینے سے لگا لیا۔وہ اس دوران لنڈ کی سواری کیے جارہی تھی۔

سینے پر میرا منہ لگا تو میں نے بے اختیار ہو کر اس کے سینے کے بوسے لینے شروع کر دیئے۔بوسے لیتے لیتے کب نپل میرے منہ میں آیا پتہ ہی نہیں چلا۔۔میں نے بے تابیِ سے اسے چوسنا شروع کردیا۔

کبھی ایک نپل چوستی تو کبھی دوسرا۔

میرے اس عمل سے شگفتہ کی سانسیں مزید تیز ہو گئیں۔

لنڈ پر جمپنگ بھی بڑھ گئی۔ اور اسکے منہ سے اوہ اوہ آہ آہ کی آوازیں بھی بڑھ گئیں۔

نیچے لنڈ اور چوت سے پچک پچ کی آوازیں تو پہلے سےآ رہی تھیں ۔مگر اس کی بلند اچھل کود سے دھپ دھپ کی آواز بھی ان میں شامل ہو گئی۔

اب مجھے نپل چوسنے میں دشواری ہورہی تھی۔

میں اٹھ کربیڈ پر کھڑی ہو گئی اور اپنی چوت کو شگفتہ کے منہ پر لگا دیا۔جس نے شوق سے اپنی زبان میری چوت پر لگا دی۔

ہر اچھال پر میری چوت کو بھی رگڑ دے رہی تھی ساتھ ساتھ لنڈ سے اپنی چوت کو بھی شانت کر رہی تھی۔

میں نے بے چین ہو کر شگفتہ کا منہ اپنی جلتی چوت میں دبا دیا۔

اس نے بھی اپنی زبان میری چوت کے لبوں کے درمیان داخل کر دی۔

میری ٹانگیں اس کے چوت چاٹنے سے لڑکھرانے لگیں۔تومیں نے بڑھ کر بیڈکے بلند سرھانے کا سہارا لیا۔

اور اپنی ٹانگیں مزید پھیلا دیں ۔ تاکہ شگفتہ چوت کو اچھے سے چاٹ سکے۔

شگفتہ کی حالت سے لگتا تھا کہ اب انزال قریب تھا اس کا جسم کپکپا رہا تھا۔

اور اسے سے اٹھا بیٹھا بھی نہیں جا ریا تھا مگر شانی نے اپنے ہاتھوں پر اس کے کولہے اٹھاے ہوے تھےاور چوت کو لنڈ سے مسلسل چوٹیں لگا رہا تھا۔

پھر حسب توقع شگفتہ ایک زوردار جھٹکے سے نیچے بیٹھی اور اسکا جسم کپکپانے لگا۔

وہ بھی ہار مان گئی تھی۔شانی نے اسے کس کر اپنے ساتھ لگا لیا۔

اور شگفتہ کانپتے کانپتے شانت ہوگئی ۔

شگفتہ تھکے تھکے انداز میں اٹھی اور واش روم کو روانہ ہو گئی۔

شانی ابھی تک فارغ نہیں ہوا تھا۔ اس کا ہتھیار ابھی بھی تیار تھا۔

اس کا لوڑا شگفتہ کے لیس دار مادے سے لتھڑا ہوا تھا۔نیچے بیڈ شیٹ بھی گندی ہو چکی تھی۔

عام حالات میں کراہت والی چیزیں چدائی کے دوران شہوت میں آگ لگادیتی ہیں ۔۔شگفتہ کی چوت کا پانی میرے جسم میں آگ لگارہاتھا۔۔

میں شانی کے ساتھ جڑکر بیٹھ گئی اور اس کے سینے پر ہاتھ پھیرتے لگی۔

اس نے مجھے اپنے پاس پا کر اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں سے ملا دیا اور میرے ہونٹوں کی حلاوت کو اپنے ہونٹوں میں ملانے لگا۔

ہم نے کچھ دیر کسنگ کی ۔اتنی دیر میں شگفتہ میڈم بھی آ گئیں۔

اس کے آنے پر شانی واش روم میں چلا گیا۔

آتے ہی میری بانہوں میں گر گئی اور میرے ہونٹ چومتے ہوئے بولی ۔۔

یار اتنا سکون بڑے عرصے بعد ملا ہے۔ میرا انگ انگ شانت ہو گیا ہے۔

اتنا مزہ دو دو مردوں کے ساتھ تھری سم کا بھی نہیں آیا۔۔

نگہت جانی ۔۔شانی کو اور اپنے آپ کو میرے ساتھ شیئر کرنے کا شکریہ.

اگر موقع ملا تو تمہارے اس مہربانی کا بدلہ چکاوں گی

مجھے اس کی بات پر ہنسی آ گئی۔

شکریے کی کا بات ہے بھلا۔۔سیکس تو نقد سودا ہوتا ہے یہ مزے کا بدلہ مزہ ہے۔تمہارا بھی شکریہ کی تم نے یہ آفت بدن ہمارے ساتھ بانٹا۔

اس جنسی دھما چوکڑی میں کچھ تھکاوٹ سی محسوس ہونے لگی تھی میں فریج سے کچھ کھجوریں اور سیب نکال لای ۔اور شگفتہ کو بھی دیں اور خود بھی کھائیں۔ جن سے ہماری توانائی بحال ہو گئی۔اتنی دیر میں شانی بھی اپنا سانپ لہراتا ان موجود ہوا۔اور کھجوروں اور سیب سے اپنی ہلکی پھلکی بھوک مٹائی ۔

شانی تازہ دم ہو کر بولا۔

تو جناب اب کس کی باری ہے یا دونوں پریاں اکھٹی سواری کرنا چاہیں گی

دونوں

ہم اکھٹی بولیں۔اور اس ایک قہقہ لگایا۔

وقفے کی وجہ سے کمرے میں موجود واحد مرد کا اوزار ڈھیلا پڑ گیا تھا۔

اور شگفتہ ڈھیلے اوزاروں کو ٹھیک کرنے کی ماہر تھی۔وہ آگے بڑھی اور دونوں ہاتھوں کو جوڑ کرگول کر کے لنڈ کو مٹھیانے لگی۔

تھوڑی دیر میں ہی لنڈ اپنے جوبن پر آ گیا۔

شانی نے ہمیں بیڈ کے کنارے پر ڈوگی سٹائل میں کر دیا ہمارے سر بیڈ پر لگا دئیے۔ ہماری گانڈیں بلند اور سر نیچے تھے۔

شگفتہ کا قد چھوٹا ہونے کے باعث اسکی گانڈ میرے برابر نہیں تھی جس کو میرے برابر کرنے کے لئے اسکے گھٹنوں کے نیچے ایک تکیہ رکھ دیا۔

جبکہ شانی زمیں پر بیڈ کے سامنے کھڑا ہو گیا اور گانڈوں کے سامنے پوزیشن لے لی۔

جب دشمن کے مورچے تیار ہو گئے تو فوجی نے اپنے میزائل کا رخ پہلے میری چھاؤنی پر داغا۔ جو ساری رکاوٹیں توڑتا ہوا ہیڈکوارٹر سے جا ٹکرایا۔

اس کے بعد شانی نے دھواں دار بمباری شروع کر دی۔

کچھ دیر بعد جب اسے ساتھ والے دشمن کی چھاؤنی میں ہلچل دیکھی تو اپنے میزائل کو میری چھاؤنی سے نکال کر بے دھڑک شگفتہ کی چھاؤنی میں ڈال کر تباہی مچانے شروع کر دی ۔۔۔

اس نے دونوں ہاتھوں سے ہپس کو پکڑ رکھا تھا اور پوری طاقت سے لمبے لمبے سٹروک لگا رہا تھا پورے لنڈ کو مکمّل چوت کے دہانے تک کھنچتا اور وہیں سے زوردار دھکا ما رتا اور لنڈ دھومیں مچاتا چوت کے لبوں کو کچلتا ہوا اندر آخری حصے تک پہنچ جاتا۔

کچھ ہی دیر میں شگفث کی آہ و بکا میں اضافہ ہو گیا۔اوہ آہ کی آوازوں میں ایک نیا لفظ ہائے میں مر گئی بھی پکارنے لگی۔

شگفتہ کی چوت میں زیادہ گیلا پن محسوس کر کے وہ پھر میری طرف آ گیا۔اپنے لنڈ کو بیڈ کی چادر سے خشک کر کے میری چوت میں گھسیڑ دیا۔ اور سٹروک لگانے شروع کردئیے۔

جب لنڈ کی بے تکان ٹھکائی سے میری چوت سے بھی پانی کی آبشار نکل گئی۔

تو وہ پھر سے شگفتہ کی طرف متوجہ ہو گیا۔ چوت کو کپڑے سے خشک کرکے لنڈ اندر داخل کر دیا۔

اور تیز گام چلا دی۔۔شگفتہ کا اگلا سٹیشن آنے کا پتہ اسکی امی جی امی جی کی لمبی آواز نے دیا ۔

اسے اسٹیشن پر چھوڈ کر اپنی گاڈی پھر میری پٹری پر چڑھا دی۔میں نے بھی چند منٹ کی چدائی کے بعد انجن کو چوت کے پانی سے لبریز کر دیا۔

اس طرح وہ بار بار دونوں محازوں پر لڑتا رہا۔ اور دشمن کی چھاؤنیوں کو تہہ و بالا کرتا رہا۔

چند منٹوں میں ہی ہم دونوں انزال ہو گئی تھیں۔

شگفتہ تو ڈوگی پوزیشن سے لڑھک کر ایک سائیڈ پر جاگری تھی۔

مگر میرا یار ابھی تک شادمان نہیں ہوا تھا اور اس کا آخر تک ساتھ دینا میرے ذمے تھا۔

شانی اب بیڈ پر چڑھا میری ڈوگی سٹائل پوزیشن میں ابھری ہوئی گانڈ کو پکڑے میری چدائی کیے جارہا تھا۔

میں پتہ نہیں کتنی بار فارغ ہو چکی تھی۔

مرد اور عورت کے انزال کے اوقات ایک دوسرے کے الٹ ہوتے ہیں۔

مرد پہلے راؤنڈ میں جلد فارغ ہوتا ہے

دوسرے میں زیادہ وقت لگاتا ہے اور تیسرے میں تو اسکی مرضی ہوتی ہے کہ اپنی مرضی سے انزال ہو۔مگر شرط اچھے تناؤ کی ہے۔

جبکہ عورت پہلے راؤنڈ میں دیر سے فارغ ہوتی ہے دوسرے میں جلد اور تیسرے میں مسلسل فارغ ہونے کے علاوہ اس کے پاس کوئی چارہ ہی نہیں ہوتا۔جسے مٹی پل ارگیزم بھی کہتے ہیں۔

میرے ساتھ بھی اس وقت یہی معاملہ چل رہا تھا۔شانی ویاگرا کے زیر اثر سخت تناؤ میں مبتلا تھا۔

پھر بار بار کے وقفوں سے اس کے جسم نے منی کو روکا ہوا تھا۔

اور وہ اس تناؤ کا فایدہ اٹھاتے ہوئے اپنی معصوم خالہ کی تنگ چوت کی دھجیاں بکھیر رہا تھا۔

میرے جسم میں ارگیزم کے اوپر تلے پٹاخے پھوٹ رہے تھے۔

میں مدہوشی میں کسی اورہی دنیا میں تھی۔

شانی میری چوت میں موجود کیچڑ کو نظر انداز کئے ہوے اپنے سٹروک لگائے جارہے تھا۔

کمرے کا ماحول نہایت شہوت ناک تھا

ایک طرف ننگی شگفتہ اپنی جوانی بکھیرے پڑی تھی۔

شانی میرے اوپر کسی سانڈ کی طرح چڑھا میری بے حد گیلی چوت میں اپنا موٹا ڈنڈا ڈالے چودائی کر رہا تھا۔

چوت اور لنڈ پچ پچ کر رہے تھے۔

اسکا جسم میرے جسم سے تھپ ٹھپ ٹکرا رہا تھا۔

میرے منہ سے بے ربط الفاظ آوے ۔۔ہاے ہمم۔۔اہ شان آہ نکل رہے تھے

جبکہ شانی آہ۔۔ ہاں ۔۔نگی۔۔رنڈی۔۔جانی

اور پتہ نہیں کیا کچھ بول ریا تھا

میری بس ہو چکی تھی مگر شگفتہ کی طرح میدان نہیں چھوڑنا چاہتی تھی۔

اسی انداز میں اپنے یار کو اپنی من مرضی کرنے دے رہی تھی۔

لگاتا ر چودائی سے شانی کے لنڈ پر بھی مسلسل رگڑ لگی۔اور وہ ایک زوردار جھٹکا مار کر غراتا ہوا مجھ پر ڈھے گیا۔

اس کے لنڈ نے پچکاریاں میری چوت کی گہرائیوں میں چھوڈنا شروع کردی۔

ان پچکاریوں کے طاقتور جھٹکوں سے میں ایک بار پھر مزے سے کانپ اٹھی۔

کمرے میں ہماری تیز سانسوں کے علاؤہ کوئی آواز نہیں تھی۔طوفان گزر چکا تھا۔

ہم پتہ نہیں کتنی دیر ایسے ہی پڑے رہے۔

پھر میں ہمت جمع کر کے اٹھی اور واش روم کو چل دی۔

مجھے غسل کی سخت ضرورت محسوس ہورہی تھی۔

غسل کر کے دوسرے کپڑے پہنے اور بیڈروم میں آگئی ۔

وہ دونوں ابھی تک ایسے ہی بے سدھ پڑے ہوئے تھے۔

میں زور سی کھنکاری۔۔

دونوں ہی چونک کر میری طرف دیکھنے لگے۔

میں ان کی طرف دیکھ مسکرا کر بولی


اچھا دوستو۔۔ میں تو سونے جارہی ہوں ۔شب بخیر۔اور شگفتہ آپ بھی شانی کے بیڈ پر ہی سوجاؤ۔اب صبح ملاقات ہو گی۔

یہ کہہ کر میں مڑ کر جانے لگی تو مجھے شگفتہ کی آواز آئی۔

نگہت ہم دونوں ایک ہی بیڈ پر ہیں اور اگر تمہارے بغیر کوئی دل لگی کر لیں ۔ تو تمہیں تو کوئی اعتراض نہیں ہوگا

میں نے سر گھما کر ان ننگ دھڑنگ جسموں کو دیکھا۔

میری طرف سے کھلی اجازت ہے۔ جو مرضی کرو جو مرضی کھاؤ۔ فریج اور کچن میں سب کچھ۔ موجود ہے

یہ کہہ کر میں اپنے بیڈروم میں آ گئی اور بستر پر لیٹتے ہی نیند کی آغوش میں چلی گئی۔

ختم شد۔


ایک تبصرہ شائع کریں (0)
جدید تر اس سے پرانی