ویسے یہ زبردستی کی شرافت بھی بہت اشلیل چیز ہے۔ اچھا خاصہ میلان رکھنے کے باوجود بھی انسان مزے اور لذت کی زندگی سے دور رہتا ہے۔ لیکن شریف اشلیل بن جائے، اس سے خدا کی پناہ مانگنا بہتر ہے۔ میرا نام سلمان ہے۔ بچپن سے پڑھاکو ہونے اور گھر کے مذہبی ماحول نے مجھے کافی شریف بنائے رکھا۔ بچپن سے ہی صلوٰۃ اور عبادات کا پابند، خواتین کے سائے سے بھی دور رہنے والا، حتیٰ کہ گفتگو میں بھی فحش کلامی سے گریز کرنے والا، میں جب راستے سے بھی گزرتا تو آنکھیں نیچے رکھتا۔ لیکن کمبخت تنہائی مجھے اپنا لن ہاتھوں میں پکڑ کر اسے ہلانے پر مجبور کر دیتی۔ کہانی کچھ یوں ہے: تب میری عمر نو سال تھی۔ مسجد کے قاری صاحب چونکہ تھوڑے تلخ مزاج واقع ہوئے تھے، اور میں اپنے والدین کا اکلوتا چشم و چراغ تھا، اس لیے میری قرأت کے سلسلے میں اماں نے جا کر پڑوس میں مدرسے کی معلمہ سے بات کی۔ کیونکہ وہ مجھے جانتی تھی، میری شرافت کے قصے اسے ازبر تھے، اسی لیے انہوں نے بغیر کسی حیل و حجت کے مجھے ان کے ہاں پڑھنے کی اجازت دی۔ تاہم میں معلمات کے کمرے سے منسلک ایک چھوٹے سے کمرے، جسے شاید سٹور کے طور پر بنایا گیا تھا، کے اندر اکیلے بیٹھ کر پڑھتا۔ معلمہ صاحبہ نے میری پڑھائی کی ذمہ داری ایک پندرہ سالہ طالبہ کو دی جو اپنی پڑھائی ختم کرکے مجھے پڑھانے آ جاتی تھی۔ ان کا نام سہانا تھا، اور وہ بھی اپنے نام کی طرح بہت خوش مزاج، ہنسمکھ اور ہلکی پھلکی رہنے والی طالبہ تھی، تاہم میں انہیں اپنی مدرسہ ہونے کی حیثیت سے "سہانا باجی" کہتا تھا۔
میں نے تیرہ سال کی عمر میں پہلی دفعہ ناظرہ سے پڑھ کر کلام پاک ختم کیا۔ سہانا باجی نے سترہ سال کی عمر میں اپنی چار سالہ پڑھائی ختم کی تھی۔ اور اب وہ ایک تربیت یافتہ استانی "باجی" بن چکی تھیں جن کا کام چھوٹے یا کند ذہن طالبات کے ساتھ دہرائی کرنا تھا۔ سہانا باجی مجھے پڑھانے کمرے میں آتی تو بعض اوقات اپنی ایک اور ہم جماعت طالبہ، جو ان کی کولیگ بھی تھیں، لے آیا کرتی تھیں۔ تاہم مجھے سبق پڑھانے کے بعد وہ آپس میں کچھ باتیں کرتی اور ہنستی رہتیں۔ ختم کے بعد میرا مدرسے جانا تو بند ہوا لیکن سہانا باجی کے گھر کا سودا سلف ایرینج کرنا میرے حصے میں آ گیا تھا۔ اس لیے اب ان کے کام کاج کے سلسلے میں گھر پر ہی حاضری دے دیا کرتا تھا۔ مزید ڈیڑھ سال گزرا اور اب میں پندرہ کی دہلیز پر قدم رکھنے والا تھا۔ چودہ پر پہنچتے ہی میں نے قد کاٹھ نکالنا شروع کر دیا تھا۔ ساڑھے چودہ کی عمر میں میری ہائٹ پانچ فٹ، چھ انچ ہو گئی تھی۔ وجود اگرچہ تھوڑا پتلا تھا لیکن میرے ہاتھوں کے مسلز سخت ہو گئے تھے۔ اب میرا دھیان فطری طور پر جنس مخالف کے جسمانی ڈھانچے کی طرف جا رہا تھا۔ اکثر سہانا باجی کے گھر جاتا، تو نظر ان کے وجود کے پیچ و تاب پر اٹک جاتی۔ زیادہ تو کچھ نہیں جانتا تھا لیکن سہانا باجی کی مست صاف آنکھیں، ان کے اوپر کالی گھنی پلکیں، سفید رنگت، گال پر بننے والا ڈمپل، اور ان کے گالبی ہونٹ، جب بات کرتے ہوئے ہلتے تو میرے اندر ارتعاش پیدا کر دیتے تھے۔ سہانا باجی کے کپڑوں کی حس بہت اچھی تھی۔ وہ اگرچہ پورے کپڑے پہنتی تھیں لیکن اس کی فٹنگ ایسے انداز سے رکھتی کہ ان کا انگ انگ نمایاں ہوتا۔ قدرت نے سہانا باجی کو دلفریب نسوانی حسن سے نوازا تھا۔ بات کرتے وقت میں نظر چرا کر ان کے دودھو کو ضرور دیکھتا جو ان کی جوانی کی امنگوں کے ترجمان تھے اور ہر وقت کسی بارڈر پر پہرہ دینے والے سپاہی کی طرح چست اور سخت ہوتے تھے۔ ان کا پیٹ بالکل فلیٹ تھا لیکن کمر سے نیچے ان کی گانڈ۔۔۔ افففففففففف، وہ چلتی تھی تو اس کے چوتڑ ایسے ہلتے تھے کہ جیسے کسی غبارے کو پانی سے بھر کر اسے جھٹکے دیے جائیں۔ سہانا باجی کو سیاہ لباس بہت پسند تھا، جس میں ان کا وجود کسی اندھیری رات میں چمکتے چاند کی طرح منور نظر آتا۔
میرے نہم کے امتحانات تھے، مئی کا درمیانی حصہ تھا۔ دن اب کافی لمبے ہو چکے تھے۔ مدرسے کی بھی اوقات کار دوپہر بارہ بجے کر دی گئی تھیں۔ آخری پیپر کیمسٹری کا تھا۔ اسکول سے واپسی پر سہانا باجی کے پاس حاضری لگوانے کو دل کیا۔ میں سیدھا ان کے گھر گیا۔ دروازے پر پہنچ کر میں نے دستک دینے کے لیے کنڈی کو ہاتھ لگایا تو دروازہ آہستہ سے کھل گیا۔ میں نارمل سے انداز میں اندر داخل ہو گیا اور سہانا باجی کے گھر کی روایت کے مطابق کنڈی لگا دی۔ ان کے گھر میں کوئی نہیں دکھ رہا تھا۔ "شاید پڑوس میں گئے ہوں گے، پھر آ جاؤں گا" کی خودکلامی کے ساتھ میں وہاں سے مڑا۔ دو قدم بھی نہیں چل پایا تھا کہ ان کے کمرے سے آاااااہ کی ایک آواز آئی۔ مجھے تجسس ہوا۔ میں آہستہ آہستہ کمرے کی طرف دبے پاؤں چل گیا۔ جتنا قریب ہوتا جاتا، سسکاریوں اور آاااااہ، افففففففف کی آوازوں میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ حسب معمول سہانا باجی کے کمرے کی کھڑکی کی ایک کواڑ آدھ کھلی تھی۔ میں نے اس سے جھانکا تو دنگ رہ گیا۔ سہانا باجی اور ایسی۔۔۔ مجھے یقین نہیں آ رہا تھا۔ سہانا باجی نے اپنی قمیض اوپر کی ہوئی تھی جس سے ان کا سنگ مرمر کی طرح کا سفید وجود صاف نظر آ رہا تھا۔ ایک کراہ کے ساتھ سہانا باجی ہلیں اور اپنی قمیض اور اوپر کر دی۔ ان کے بھرے بھرے ممے دیکھ کر، اور جب انہوں نے اپنا گالبی نپل اپنی انگلیوں میں رگڑا، اونہہہ کی ایک کراہ کے ساتھ جب انہوں نے اپنا نچلا ہونٹ دانتوں میں دبایا اور تڑپ کر ہائےےےےےے کی آواز نکالی تو میرا گلا خشک ہو گیا۔ ماتھے پر آنے والا پسینہ اب ٹھنڈے پسینے میں بدل چکا تھا۔ میں نے تھوڑا نیچے دیکھا، تو ایک اور لڑکی ان کی ٹانگوں کے بیچ سر رکھ کر کچھ کر رہی تھی۔ سہانا باجی نے ان کا سر پکڑا اور نیچے دبایا۔ میں نے غور کیا تو سہانا باجی کا چوتڑ نظر آیا۔ افففففففففف ان کی سفید گانڈ کی کرو کیا ہی سیکسی تھیں۔ مجھے اور حیرت تب ہوئی جب دوسری لڑکی نے اپنا سر اٹھایا اور بال سمیٹے، آااااااااااہ؛ وہ کوئی اور نہیں بلکہ سہانا باجی کی وہی کولیگ تھی۔ یہ کیا، وہ تو سہانا باجی کی ٹانگوں کے بیچ ہلکے گالبی رنگ کی پھدی چاٹ رہی تھی۔ اس منظر کو دیکھ کر میرے لن کو خون کی سپلائی شروع ہو گئی اور ایک منٹ کے اندر ہی پورا تن گیا۔ میں نے سمٹ کر اپنے لن کو ٹانگوں میں دبانے کی کوشش کی تو ہاتھ ہلنے کی وجہ سے برآمدے میں پڑے کولر سے گلاس زمین پر گر گیا۔ سہانا باجی چونکیں اور اوپر دیکھا تو کھڑکی کے باہر میں کھڑا تھا۔ ان کی حیرت دیکھ کر ان کی وہی کولیگ نے پیچھے دیکھا تو میں واپسی نکلنے کی راہ لے رہا تھا۔ انہوں نے باہر آ کر مجھے آواز دی تو میں ان کے ساتھ روم میں چل گیا۔ سہانا باجی کا چہرہ زرد پڑ گیا تھا، ان کی کولیگ کی بھی نظریں زمین کی طرف ہی دیکھتی رہیں۔ سہانا باجی نے کہا، "سلمان! تم کب سے یہاں کھڑے تھے؟" میں نے گلا کھنکھار کر جواب دیا، "جی وہ۔۔۔ تھوڑی دیر پہلے آیا تھا۔۔۔ لیکن میں کسی کو نہیں بتاؤں گا جی!" سہانا باجی نے اپنی کولیگ سے کہا، "آپ نے دروازہ بند نہیں کیا تھا؟" ان کا بھی جواب سہمے ہوئے گلے سے بنچ کر نکل آیا تھا، "مجھے لگا۔۔۔ مجھے لگا۔۔۔ میں نے۔۔۔ بند کر دیا ہے!" مجھ سے بات کرتے وقت سہانا باجی نے کالا دوپٹہ اوڑھ لیا تھا جس سے ان کا ننگا وجود، بھرے بھرے ممے صاف نظر آ رہے تھے۔ ان کی کولیگ نے ابھی کپڑے نہیں اتارے تھے۔ اچانک سے سہانا باجی کی نظر میری شلوار پر پڑی۔ میرا نیا نیا جوان چھ انچ کا لوڑا تنا ہوا دیکھ کر وہ حیران ہو گئیں۔ مجھے ایسے دیکھ کر وہ مطمئن ہو گئیں اور ایک حسین مسکراہٹ کے ساتھ اپنے گالبی باریک ہونٹوں کو حرکت دی۔ "اچھا تو تم ہمیں دیکھ کر مزے لے رہے تھے؟" میں بوکھلا گیا۔ سہانا باجی نے قریب آ کر میرا سر پکڑا اور دوپٹہ اتار کر اپنے مموں پر دبا دیا۔ ان کے جسم سے آتی عود کی خوشبو نے مجھے مسحور کر دیا تھا۔ تاہم مجھے ڈر بھی لگ رہا تھا۔ اس لیے میں پسینہ ہونے لگا۔ سہانا باجی نے مجھے الگ کر کے شفقت سے کہا، "تم بہت اچھے وقت پر آئے ہو سلمان!" پھر میرا چہرہ ہاتھوں سے پکڑا اور پہلے ایک گال، پھر دوسرے گال پر بوسہ لیا۔ پھر ایک ہاتھ میرے بالوں میں پھیر کر میری گردن پکڑی اور دوسرے ہاتھ سے نپل پکڑ کر میرے منہ میں دیا۔ میں نے زبردستی کر کے منہ میں ان کا نپل پکڑا تو وہ خود ہی ہاتھ سے نپل میرے منہ پر آہستہ آہستہ ملنے لگی۔ پھر میرے کان میں آہستہ سے کہا، "سلمان! زور زور سے چوسو۔" میں نے ایک دو دفعہ ان کی پوری چھاتی منہ میں پکڑ کر چوسی تو انہوں نے سر پیچھے جھٹک دیا۔ سہانا باجی کے نپل سخت ہو رہے تھے۔ لیکن ان کے ممے اتنے نرم تھے کہ چوس کر پوری چھاتی جیسے میرے منہ میں آ جاتی۔ ان کے نرم مموں کو مس کرنے کے بعد میرا لن اب اور تننے لگا تھا۔ سہانا باجی نے اپنی پھدی میرے تنتے لن کے ساتھ رگڑنا شروع کی اور آاااااااااہ اور سسسسسسسسس کی آوازیں نکالنے لگیں۔ پھر میرے کندھوں کو پکڑ کر پہلے بیڈ پر بیٹھیں اور پھر لیٹ گئیں۔ میں ان کے اوپر ہی آ لیٹا تھا۔ اب میرا لن پورا کھڑا ہو چکا تھا، حتیٰ کہ لن پر رگیں ابھر پھڑکنے لگی تھیں۔ لیکن مجھے سہانا باجی کے ممے چوسنے کے علاوہ کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ سہانا باجی نے میرا سر پکڑا اور اسے پیٹ کی طرف دھکیلا۔ میں نے ان کے پیٹ پر چوما۔ پھر تھوڑا اور نیچے کی طرف دھکیلا۔ اب میرے ہونٹ ان کی ناف کا طواف کر رہے تھے۔ میں نے ناف سے تھوڑا نیچے چوما تو سہانا باجی تڑپ کر رہ گئیں اور منہ سے بس سسسسسسسسسسس کی آوازیں نکالتی رہیں۔ میں نے اوپر ان کی طرف دیکھا تو وہ اپنے نپل کو چاٹتی، کاٹتی اور اسے انگلیوں میں دباتی جاتی تھیں۔ سہانا باجی نے اپنی کولیگ کو اشارہ کیا۔ وہ چڑھ کر بیڈ پر آ گئیں۔ میرے سر کو اپنی ٹانگوں کے بیچ دھکیل کر سہانا باجی نے اپنی ٹانگوں کی گرفت مضبوط کر لی۔ میرے سر کے بالوں میں ہاتھ پھیر کر میرا سر اپنی گالبی پھدی پر دبایا۔ میرے ہونٹ ان کی پھدی پر چپک گئے تو سہانا باجی تڑپیں اور آااااااااااہ، اففففففففففف کے آوازوں کی تکرار کرنے لگیں۔ پھر مجھ سے کہا، "سلمان! چاٹو اسے، چوم لو، چوس لو لیکن اسے ٹھنڈک بخش دو! اففففففف، اااااااائی!" میں تو پھدی ہی ایسی پہلی بار دیکھ رہا تھا۔ میں نے بھی فوراً سہانا باجی کے پھدی کے ہونٹ چوسنا شروع کر دیے۔ سہانا باجی اب بہت گرم ہو رہی تھیں۔ دوسری طرف سہانا باجی کی کولیگ تھیں۔ انہوں نے چپکے سے میری شلوار کا ناڑا کھولا تھا اور میرے سخت لن کو ہاتھوں میں پکڑ کر حیرت اور خوشی سے جیسے چل اٹھی تھیں۔ انہوں نے میرے لن کو پکڑ کر پہلے اس کی لمبائی ماپی اور انگلیوں کا گھیرا بنا کر موٹائی پرکھی۔۔۔ اور پھر میرے لن کی ٹوپی پر تھوک لگا کر اسے ہاتھوں میں رگڑنے لگی تھیں۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد وہ میرے انڈوں کو ہاتھ میں لے لیتی اور چومتی کبھی چاٹتی۔ ادھر سہانا باجی تڑپ رہی تھیں لیکن ادھر ان کی کولیگ کے نرم ہاتھوں کی رگڑ مجھے پاگل کر رہی تھی۔ میرے لن کو تھوڑی دیر ہلا کر سہانا باجی کی کولیگ اپنی شلوار اتار کر سہانا باجی کے سینے پر بیٹھ گئیں۔ سہانا باجی نے ان کے مموں کو ہاتھوں میں پکڑا اور ان کی پھدی چاٹنے لگیں۔ کولیگ سہانا باجی کی پہلی چومی سے ہی لہرانے لگیں۔ میری نظر سہانا باجی کے پھدی کے اوپر ایک دانے جیسی گروتھ پر پڑی۔ میں نے محض چیک کرنے کے لیے اس پر انگلیوں سے چٹکی لی تو سہانا باجی بے اختیار چیخیں۔ مجھے بہت مزا آیا۔ میں اس دانے سے کھیلنے لگا، اور پھدی کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں لے کر کھینچتا۔ ایک دو دفعہ تو انہوں نے برداشت کیا لیکن پھر ایک موننگ اور ایک وحشی افففففف اور آاااااااااااہ کے ساتھ سہانا باجی کی پھدی نے میرے منہ پر تھوک دیا۔ ان کی سپرا کافی طاقتور تھی۔ اب باری کولیگ کی تھی۔ سہانا باجی نے مجھے لٹایا اور کولیگ کو اشارہ کیا۔ ان کی کولیگ میرے پیٹ پر آ کر بیٹھ گئیں۔ پھر میرے ہونٹوں کو چوما اور سیدھے ہو کر پشت کی طرف ہاتھ بڑھا کر میرے لن کو مسلنے لگیں۔ میری حالت سنبھالنے سے نہیں سنبھل رہی تھی۔ سہانا باجی نے اپنی کولیگ کے ہونٹوں کو چوما اور میرا لن پکڑ کر ان کی گانڈ پر رگڑنے لگیں۔ وہ اپنی پھدی میرے ناف سے نیچے مسل رہی تھیں۔ سہانا باجی نے ان کی گانڈ تھوڑی اوپر کی اور میرے لن کی ٹوپی پر ایڈجسٹ کر کے اس کے کندھے کو دبایا۔ اس کی ایک آاااااااااہ نکلی، اور آنکھیں گول گول گھومیں۔ ان کا منہ میرے لن کی موٹائی نہ سہ پانے کی وجہ سے کھل رہا تھا۔ سہانا باجی پھر سے میرے منہ کے اوپر اپنی پھدی رگڑنے لگیں۔ وہ کافی گرم ہو رہی تھیں۔ میں نے ان کی کولیگ کو بیڈ پر لٹایا۔ انہوں نے خود ہی ٹانگیں کھولیں تو میں نے اپنا لن ان کی پھدی کی گہرائی میں پہنچا دیا۔ ان کا کراہنا مجھے انہیں زور سے چودنے پر مجبور کر رہا تھا۔ سہانا باجی نے پھدی ان کے منہ پر رکھی اور ہونٹ میرے ہونٹوں پر، جتنا زور سے وہ مجھے کس کرتیں، اتنے زور سے میں اپنا لن ان کی کولیگ کی پھدی میں مارتا، جس سے وہ مون کرتی تو میرا شوق بڑھتا جاتا، اور جتنا میں زور سے ان کی پھدی چودتا، اتنا ہی وہ سہانا باجی کی پھدی زور سے چاٹتیں۔ تقریباً پانچ منٹ بعد میں نے اپنا لن کولیگ کی پھدی سے نکالا تو ان کی سانس بحال ہو گئی۔ اب سہانا باجی خود ہی گھوڑی بن گئیں۔ میں نے لن ان کی پھدی پر رکھا تو انہوں نے اپنے ہاتھ سے میرا لن پھدی سے ہٹا کر اپنی گانڈ کے سوراخ پر رکھا۔ میں نے اپنے لن کی ٹوپی پر تھوک مالا اور اسے سہانا باجی کی پھدی میں ڈالنے لگا تو وہ چیخنے لگیں۔ میں نے اپنا لن ڈر کے مارے ہٹایا تو انہوں نے اٹھ کر ایک منٹ کے لیے میرے لن کو چاٹا۔ اور پھر گھوڑی بن گئیں۔ میں نے ان کے چوتڑ پر لن پھیرا تو انہوں نے میرے لن کی ٹوپی اپنی گانڈ کے سوراخ پر رکھی۔ میں نے اس دفعہ ان کے کولہے پکڑ لیے اور تھوڑے زور سے لن کی ٹوپی ان کی تنگ ترین گانڈ میں داخل کر دی۔ میں نے دیکھا کہ درد سے ان کی ٹانگیں تھرتھرا رہی تھیں۔ لیکن میں نے لن نہیں نکالا۔ تھوڑا اور زور دیا تو ان کی اااااااااااااااااہ کی ایک رونی سی آواز سنی۔ میں نے اور زور سے پورا لن ان کی گانڈ میں ڈالا تو وہ درد سے سیدھی ہو گئیں۔ ان کو ایسے چیختا دیکھ کر ان کی کولیگ ہنس پڑی تھیں۔ اب میں رکنے والا نہیں تھا۔ میں نے اپنے پورے زور سے جلدی جلدی ان کی گانڈ کی رگیں کھول دیں۔ سہانا باجی درد سے بلکتی تھیں لیکن میرا لن انہیں اپنی گانڈ سے باہر منظور نہیں تھا۔ سہانا باجی کی گانڈ پر زور پڑتا تو وہ ہذیانی ہو کر گالیاں بھی دینے لگتیں جنہیں میں پہلی بار سن رہا تھا۔ ان کو تسلی دینے کے لیے ان کی کولیگ ان کے مموں کو چوستی، کمر پر سہلاتی، بالوں میں ہاتھ پھیرتی لیکن اففففففففففففففففففف! پہلی دفعہ کی چدائی، سامنے شرافت کی دنیا سے دور استانی صاحبہ اور ان کی کولیگ۔۔۔ اتنا خوبصورت جسم، تنگ پھدی اور ورجن گانڈ! میں خود کو کسی اور دنیا میں محسوس کر رہا تھا۔ بالآخر کوئی پینتالیس منٹ کی اس چدائی کا اختتام میں نے اپنی پیاری سہانا باجی کی گانڈ میں اپنا پانی چھوڑ کر کیا۔ ایک بات تھی، سہانا باجی درد سے مسکرا بھی نہیں سکتی تھیں لیکن وہ ہنس رہی تھیں، اور خوش ہو رہی تھیں۔ ان کی کولیگ نے بھی آنکھوں ہی آنکھوں میں میرا شکریہ ادا کیا۔ سہانا باجی نے تو کمرے سے نکلنے سے پہلے میرا لن ہی چوم لیا تھا اور مجھے ایک ٹائٹ سی ہگ دے کر وعدہ لیا کہ میں کسی کو نہیں بتاؤں گا۔ میں بھی اثبات میں سر ہلا کر ایک اور دن کی امید میں گھر چل آیا تھا۔