میں اسلام آباد کا رہائشی ہوں اور میری عمر اکتیس سال ہے۔ کچھ حالات ایسے بنے کہ میری شادی آج تک نہیں ہو سکی۔ حالانکہ میں آج ایک بہت ہی اچھی نیم سرکاری پوسٹ پہ جاب کر رہا ہوں۔ میری اس بہترین جاب کے پیچھے میری اکلوتی سگی بہن کی سب سے زیادہ محنت ہے بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ میری یہ نوکری اسی کے مرہون منت ہے تو گراں نہ ہوگا۔ میرا نام جنید ہے اور میری بہن کا نام مریم ہے جس کی عمر اب انتیس سال ہے۔ مریم کے خدوخال وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور کہانی پڑھنے کے ساتھ ساتھ آپ کو خود ہی معلوم ہو جائیں گے۔
میری فیملی میں بس ہم تین لوگ یعنی میں، میری بہن اور والد صاحب ہی رہتے ہیں۔ والد صاحب آرمی میں بطور صوبیدار سروس کرتے رہے اور ننانوے کی کرگل جنگ میں اپنے ملک کی خاطر دونوں ٹانگیں گنوا بیٹھے۔
کہانی آج سے چار سال پہلے کی ہے جب مریم پچیس سال کی کٹر جوانی کی دہلیز پہ تھی۔ میں بھی نیا نیا گریجویٹ ہوا تھا اور جاب کی تلاش میں مارا مارا پھرتا تھا۔ مریم ماسٹرز کی طالبہ تھی اور جب ہم دونوں گھر سے نکل جاتے تو بوڑھے والد صاحب جو کہ علیل بھی تھے وہ اکیلے دن بھر ہم دونوں کا انتظار کرتے رہتے۔ میں ان دنوں ایک چھوٹی سی جاب کر رہا تھا اور مریم یونیورسٹی جاتی تھی۔ اس کی روٹین بہت ٹف تھی۔ یونیورسٹی سے واپس آتے ہی گھر کے کاموں میں جت جانا، والد صاحب کا کسی میٹ کی طرح خیال رکھنا، میرے چھوٹے چھوٹے کام نپٹا دینا۔ بعض اوقات مجھے اپنی معصوم اور نہایت شریف سی بہن پہ بہت ترس آتا۔ لیکن حالات فی الحال ایسے نہیں تھے کہ میں کوئی خادمہ یا میٹ افورڈ کرتا۔ مجھے اس کی جوانی پہ ترس آتا۔ میں پہلے پہل ایک بہت غیرت مند بھائی تھا لیکن جیسے جیسے مریم جوان ہوتی گئی اس کا بدن ناقابل یقین حد تک گرم اور نشیلا ہوتا گیا۔ بعض لڑکیاں ایسی ہوتی ہیں جنہیں دیکھتے ہی زبان کسی پیاسے کتے کی طرح باہر نکل آتی ہے اور نگاہیں ان کے لچکدار جسم کا تا حد نگاہ پیچھا کرتی ہیں۔ مریم بھی انہی لڑکیوں میں سے ایک تھی۔ 38 سائز کے حیران کن ممے.. کیوں کہ میری بہن کی شرافت کا پورے شہر میں کوئی مقابلہ نہیں تھا اور عمر بھی تو ابھی صرف پچیس سال کی الھڑ جوانی کی تھی! پھر یہ پنجابی ٹائپ کے موٹے موٹے تھن آخر کیسے! کبھی جو میں اسے دوپٹے کے بغیر دیکھوں تو اچانک سے میرے دل میں یہ خیال آتا تھا۔ خوبصورت ترین نین نقش، تھوڑا گورا اور سانولا بدن، پتلی لچکدار کمر اور چھ فٹ آٹھ انچ کا قیامت خیز قد۔ اس کچکدار کمر اور سینے پہ سجے دو صحت مند اور تنے ہوئے گول موٹے موٹے تھنوں کے بعد ایک باہر کو ابھری ہوئی مکھن کی طرح نرم و گداز موٹی بنڈ۔ مریم کی قیامت خیز جوانی جو بھی دیکھتا وہ بس دیکھتا ہی رہ جاتا۔ کئی لوگوں کو میں نے مریم سے بات کرتے کسی گہرے خیال میں گم ہوتے دیکھا۔ مریم کی گانڈ ایسی تھی جیسے دو موٹے موٹے غبارے کسی نے فل ہوا بھر کے اس کی ٹانگوں کے پیچھے لٹکا دیے ہوں جو مریم کے حرکت کرنے پر آزادانہ تھرتھراتے تھے۔ نیچے پتلی ٹانگیں اور دودھ جیسے سفید پاؤں۔ غرض میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ مریم ہمارے سیکٹر کی سب سے گرم اور سیکسی لڑکی تھی۔ مجھے اگر کسی چیز نے مریم پہ گرم کیا یا اس کی طرف مائل کیا تو وہ صرف اور صرف اس کا فگر تھا۔ اس کی خوبصورتی تھی۔ لیکن میں کوئی بڑھک نہ مارتے ہوئے یہ سچ سچ عرض کروں گا کہ میں نے مریم سے براہ راست کبھی کچھ کرنے کی کوشش نہیں کی۔ مجھ میں ہمت ہی نہ تھی، جیسے کوئی بھی بھائی اپنی بہن کے ساتھ کچھ بھی نہیں کر سکتا، ویسے میں بھی اس کے ساتھ کچھ نہیں کر سکتا تھا۔
وقت گزرتا گیا۔۔۔ مریم کا ماسٹرز ایک سال میں مکمل ہو گیا اور میری بھی ایک نیم سرکاری ادارے میں نوکری لگ گئی۔ مریم اب گھر پہ وقت گزارنے لگی اور میں جاب پہ جاتا تھا۔ آفس میں میرے باس کا نام محسن تھا جو ایک ٹھٹھری لیکن نہایت چوتیا انسان تھا۔ وہ ایک ممی ڈیڈی افسر تھا جس کی عمر بتیس سال تھی۔ شادی شدہ تھا اور اس کے دو بچے بھی تھے۔ آفس کی کسی لڑکی پہ اگر ٹھڑک کرتا تو چھپ چھپ کے کرتا تھا۔ اسے بدنامی کا بہت ڈر تھا لیکن ہوس سے بھی مجبور تھا۔ یا یوں کہیں کہ بہت شریف آدمی تھا لیکن ہوس نے اسے مجبور کر رکھا تھا۔
وہ گرمیوں کی ایک شام تھی۔ میں ایک پارک کے قریب سے پیدل گھر جا رہا تھا جو کہ ہمارے گھر کے راستے میں ہی آتا تھا۔ میرا گھر آفس سے پیدل فاصلے پر تھا۔ میں نے اچانک اپنے سامنے مریم کو محسوس کیا لیکن ایسی حالت میں کہ میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔۔۔ ہم لوگوں کے متعلق کیا کیا مفروضے بنا کے رکھتے ہیں، حقیقت جن کے مکمل برعکس ہوتی ہے۔۔۔ یہاں تمام بھائیوں سے یہ گزارش کرتا چلوں کہ ہم مرضی جتنا اپنی بہنوں پہ بھروسہ اعتبار کریں یا ان کے بارے میں اس طرح نہ سوچیں، چکر کہیں نہ کہیں ان کا ضرور ہوتا ہے، آج کے دور میں جو کہ گلوبل ولیج کا دور ہے، اپنی بہنوں سے یہ امید رکھنا کہ وہ شریف ہیں اور شریف ہی رہیں گی محض چوتیاپے کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔
مریم ہلکے پیلے رنگ کی شلوار قمیض میں ملبوس تھی اور ایک لڑکا اپنی بانہوں کے حصار میں مریم کو لیے بیٹھا تھا۔۔۔ میری بہن اتنی بولڈ۔۔۔ اوہ خدایا۔۔۔ لیکن ایک بات جس کے بارے میں میں اتنا پریقین نہیں وہ میرے جذبات تھے۔۔۔ مجھے لگا کہ میری خوشی کی کوئی انتہا نہ تھی۔ میری اس فیلنگ کو یہاں موجود انسیسٹ لوگ ہی خوب سمجھ سکتے ہیں۔۔۔ میں اتنا ایکسائیٹڈ تھا کہ میں نے آج ہی اس متعلق مریم سے بات کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ میں نے ایک درخت کی اوٹ سے تصویر اتارنا چاہی لیکن ایسا ممکن نہ ہو سکا۔ میں چپکے سے گھر آ گیا۔
گھر میں مریم نہیں تھی سو والد صاحب سے حال احوال پوچھنے کے بعد اور فریش ہونے کے بعد میں بے چینی سے مریم کا انتظار کرنے لگا۔ میں نے ریشمی سا ٹراؤزر پہنا تھا جس کے اندر میرا پہلوان نہ جانے کیوں آج اکڑا ہوا تھا۔ شام کے قریب مریم گھر آئی مگر تھکاوٹ اس کے چہرے سے عیاں تھی۔ پیلی پٹیالہ سلکی شلوار میں اس کی گانڈ کو نوچ کھانے کا دل کر رہا تھا۔ کتنا خوش قسمت تھا وہ شخص جو میری سگی بہن کے سلکی ملائم جسم کا لمس لے رہا تھا۔ اس نے اپنے آپ کو کنٹرول کیسے کیا تھا۔۔۔ یہ سوچ کہ میں پریشان ہو رہا تھا۔۔۔ مریم آتے ہی فریش ہونے چلی گئی اور جب وہ باہر آئی تو حسن کی دیوی لگ رہی تھی۔ سکن کلر کی قمیض اور کالا ڈھیلا سا ٹراؤزر۔۔۔ اس کے اندر سے موٹی تازی بنڈ کے وہ ابھار۔۔۔ میری نیت کا جنازہ نکال رہے تھے۔۔۔
میں نے والد صاحب کے سو جانے تک اس سے کوئی بات نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔۔۔
جب والد صاحب سو گئے تو میں نے مریم کو اپنے کمرے میں جانے سے روک دیا۔
“مریم! میری بات سن کے جانا” “جی بھائی” اس نے سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھا۔ “آج کہاں تھیں تم؟” بظاہر رعب دار آواز لیکن دل میں یہ آرزو کہ میری بہن ابھی یہ کہہ دے کہ اپنے یار سے ڈیٹ مارنے گئی تھی۔ “بتایا تو تھا بھائی! سحرش کے گھر گئی تھی” اس کی شہد سے بھی میٹھی آواز میرے کانوں سے ٹکرائی۔ “تم سحرش سے ملنے اس کے گھر گئی تھی نا؟ پھر پارک میں وہ کون تھا اور تمہارا کیا لگتا تھا؟” مجھ سے مزید صبر نہ ہوا اور بہن کے منہ سے حقیقت سننے کے لیے اصل سوال کر ہی دیا۔ “وہ۔۔ مم۔۔۔ میں۔۔” اس کے حسین چہرے کا رنگ غائب تھا۔۔۔ میرے چہرے پہ بظاہر غصہ تھا لیکن اس کے دوپٹے کو پھاڑ کے باہر نکلنے کے لیے بے تاب تھن ابھی بھی میری توجہ کا مرکز تھے۔ “کیا وہ میں وہ میں لگا کہ رکھی ہے؟ کون تھا وہ؟ مجھے سیدھے سے بتاؤ” میرا والیم بڑھ گیا۔ ” وہ سحرش کا بھائی تھا” اتنا کہہ کہ مریم کے اندر مزید وہاں ٹھہرنے کی ہمت نہ رہی۔۔۔ وہ وہاں سے بھاگ گئی۔۔۔ لیکن میں بھی پیچھا چھوڑنے والا کہاں تھا۔ دوستو، کمرے کی طرف تیزی سے جاتے ہوئے مریم کے دو ڈھول جیسے موٹے موٹے چوتڑ کیا نظارہ پیش کر رہے تھے یہ الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔
میں اس کے کمرے میں پہنچا لیکن اس نے کنڈی لگا لی۔ میں نے لاکھ کوشش کی لیکن اس نے دروازہ نہ کھولا۔۔۔ بالآخر میرے دروازہ توڑنے کی دھمکی پہ اس نے دروازہ کھول دیا۔
میں کمرے کے وسط میں لگے صوفے پہ بیٹھ گیا۔۔۔ وہ اپنے بیڈ پہ تھی۔ اس کا سر اس کے گھٹنوں میں تھا اور وہ رو رہی تھی۔ اس کی بنڈ کیا قیامت خیز منظر پیش کر رہی تھی اس کا اندازہ آپ لگا سکتے ہیں۔۔۔ گانڈ پہ زور پڑنے کی وجہ سے مریم کے چوتڑ باہر کو پھیل گئے تھے۔ “اچھا تم رو نہیں! تمہارا رونا بھی مجھ سے برداشت نہیں ہو رہا”۔ میں تھوڑا سا بیک فٹ پہ گیا ہی تھا کہ وہ بجلی کی سی تیزی سے اتری اور اپنا سر میرے گھٹنوں پہ رکھ کے پھوٹ پھوٹ کے رونے لگی۔ اگر کوئی دور سے ہمیں اس پوز میں دیکھتا تو لگتا کہ مریم میرا لنڈ چوس رہی ہے۔۔۔ میں نے مریم کے سر پہ دست شفقت رکھا۔۔۔ ” ایسا نیچرل ہے مریم۔ غلطیاں ہم انسانوں سے ہی ہوتی ہیں۔ ہمیں اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنا چاہیے” “میں آپ سے معافی مانگتی ہوں بھائی۔ آپ کو خدا کا واسطہ، آپ مجھے معاف کر دیں اور آپ پاپا کو کچھ نہیں بتائیں گے۔۔۔ آپ وعدہ کریں”۔ اس نے اپنی نرم ملائم اور گرم ہتھیلیوں میں میرے ہاتھ لے لیے۔۔۔ میرے ذہن میں بس ایک ہی خیال آیا۔۔۔ یہ ہاتھ جس لوڑے کو ہاتھ میں لیتے ہوں گے وہ ایک سیکنڈ میں پچکاری مارتا ہو گا۔ میں نے اس سے وعدہ کیا کہ میں کسی کو کچھ نہیں بتاؤں گا لیکن پہلے یہ بتاؤ کہ تمہارا اس کے ساتھ رشتہ کہاں تک ہے؟ “ہم ہر حد کراس کر چکے ہیں”۔۔۔ یہ کہنا تھا کہ وہ ایک بار پھر پھوٹ پھوٹ کے روئی۔ اس کی آنکھوں میں خوف تھا۔۔۔ کہ میں نجانے اس کے ساتھ کیا سلوک کروں گا۔۔۔ میری آنکھوں میں چمک تھی، خوشی کی چمک۔۔۔ یہ خوشخبری کیا کم تھی کہ میری بہن گانڈو تھی اور چالو تھی۔ میں نے اس سے مزید کچھ نہیں کہا اور وہاں سے چلا آیا۔ میں نے اپنے کمرے میں آ کے زندگی کی سب سے مزیدار مشت زنی کی۔ ایسے ہی کئی دن گزرتے گئے۔ ایک دن کچھ یوں ہوا کہ ہمارے کچن کا سامان ختم ہو گیا اور سامان لانے کے لیے میں اور مریم دونوں مارکیٹ جاتے تھے۔ میں نے مریم سے اسی سرد لہجے میں تیار ہونے کو کہا۔
باہر میں اس کا ویٹ کرنے لگا۔۔۔ مریم جب باہر نکلی تو اس کے انگ انگ سے آگ نکل رہی تھی۔ میری آفیشلی گشتی چالو بہن قیامت ڈھا رہی تھی۔ موٹی بنڈ سلکی ٹائٹ میں قید تھی جو اسے پھاڑ کے باہر آنے کو بے تاب تھی۔ ٹائٹ قمیض جس میں پتلی سی کمر نخرے کر رہی تھی۔ سینے پہ سجے بھینس کے جیسے دودھ سے بھرے تھن۔۔۔ اس کے اوپر مریم کی خوبصورتی۔۔۔ میں دنیا میں خود کو سب سے خوش قسمت ترین انسان تصور کر رہا تھا۔
رکشہ کی مدد سے ہم مارکیٹ پہنچے۔۔۔ لوگوں کی ہوس بھری نظریں میری بہن کے ساتھ زنا کر رہی تھیں اور میری بہن حقیقتًا زانی تھی۔ آج میں نے محسوس کیا کہ مریم کے فگر کے ساتھ ساتھ اس کی چال بھی اسے سیکس بم بناتی تھی۔۔۔ چلتے ہوئے اپنی بنڈ کو نخرے کروانا کوئی مریم سے سیکھ سکتا تھا۔۔۔ ایک چوتڑ اوپر اور دوسرا نیچے۔۔۔ اور پھر بہت مشکلوں سے دونوں چوتڑ سلکی پاجامے میں قید کیے ہوئے۔۔۔
خریداری کرنے کے بعد ہم جونہی گیٹ سے باہر نکلے میری ملاقات میرے باس سر محسن سے ہوئی۔
“ہیلو جنید! کیسے ہو؟” “فائن سر! آپ سنائیں” “بس یار یہ دیکھ لو! حالات کچھ ایسے ہیں کہ کھانے پینے کی شاپنگ بھی خود ہی کرنا پڑ رہی ہے” ” کیوں سر؟ خیریت؟ بھابھی نظر نہیں آ رہیں؟“ “یار ان کی طبیعت خراب تھی، سو خود ہی چلا آیا۔۔۔” یہ بات کہتے کہتے وہ رک گئے، کیونکہ ان کی نظر مریم پر پڑ چکی تھی۔۔۔ ایک نمبر کا ٹھٹھری انسان جب مریم جیسی رن کو دیکھے گا تو ٹھہرے گا تو سہی۔۔۔ “سر، یہ میری سسٹر ہیں، مریم۔۔۔” “اوہ اچھا! نائس ٹو میٹ یو” مریم کی طرف مڑ کر سر محسن نے کہا۔ مریم نے جواب میں ایک سیکسی سی مسکراہٹ پاس کی۔ محسن سر کا ایک رنگ گیا اور ایک آیا۔ اس قدر شہوت انگیز سراپا شاید انہوں نے پہلی دفعہ دیکھا تھا۔ “آؤ، تم لوگوں کو ڈنر کرواتا ہوں” انہوں نے چال چلی۔ میں چاہتا تو یہی تھا کیونکہ سر کے جذبات دیکھ کر میرے ذہن میں بہت سے خیالات جنم لے رہے تھے، لیکن میں نے مریم کو کوئی شک نہ ہونے دیا اور سر محسن کو منع کر دیا۔ ان سے اجازت لے کر ہم روانہ ہوئے۔
دوسرے دن آفس میں معمول کا کام تھا۔ اچانک مجھے سر نے اپنے آفس بلوایا۔ ” آ سکتا ہوں سر؟” اجازت لے کر میں اندر داخل ہوا۔ ” جنید، میں نے تمہاری فائل پڑھی ہے، تم بہت محنتی آدمی ہو اور تمہارے گھر کے حالات کچھ اچھے نہیں چل رہے۔ اس کے پیش نظر میں نے ایک فیصلہ کیا ہے”۔ “کیسا فیصلہ سر؟” “پہلے تم یہ بتاؤ کہ تمہاری سسٹر کیا کرتی ہیں؟” “سر، وہ گھر کے کام کاج اور پاپا کی دیکھ بھال وغیرہ” باس نے میری بات کاٹتے ہوئے کہا ” پڑھایا لکھایا اس لیے تھا کہ وہ گھر کے کام کریں؟ اسلام آباد جیسے شہر میں رہتے ہوئے بھی تمہاری سوچ ویسی ہی دقیانوسی ہے” “میں کہنا یہ چاہ رہا ہوں کہ میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ تمہاری جاب مینجر کے اسسٹنٹ پہ اپ گریڈ کر دوں اور تمہاری سسٹر کے لیے بھی کوئی خالی آسامی پیدا کروں”۔ مجھے محسن صاحب کے چہرے پہ شیطانیت اور ہوس سے صاف اندازہ ہو رہا تھا کہ میری ٹیکسی بہن نے انہیں بھی اپنے سراپے اور اداؤں کا دیوانہ بنا لیا ہے۔ “لیکن سر، گھر میں پاپا ہیں اور وہ ان کا خیال رکھتی ہے”۔ “اس کا بندوبست میں نے کر لیا ہے۔ میں ایک میٹ کا بندوبست کر دوں گا یا میل نرس کا”۔ مجھے حیرت بالکل بھی نہیں تھی۔ کیوں کہ باس کی بے چینی سے لگ رہا تھا کہ انہوں نے لازمًا میری بہن کی چوت لینی ہے اور مجھے سالا بنانا ہے۔۔۔ چاہتا تو میں بھی یہی تھا۔۔۔ “لیکن سر! اس خاص مہربانی کی کوئی وجہ؟” میں نے باس کے منہ سے وہ بات سننا چاہی جو سننا میرا خواب تھا۔ “وجہ کوئی خاص نہیں، بس تم ایک محنتی انسان ہو، میں چاہتا ہوں تمہیں تمہاری محنت کا بھرپور صلہ ملے” باس نے بات ٹال دی۔ “مگر باس! پہلے بھی کتنا عرصہ میں آپ کے پاس کام کرتا رہا لیکن آپ کا خیال اس طرف کیوں نہیں گیا؟ کیا میں پہلے محنت نہیں کرتا تھا؟” میرے اندر کا بے غیرت اور بہن چود بھائی جاگ اٹھا تھا۔ مجھے وہ سب سننا تھا جسے سن کر میرے لنڈ کی پھڑپھڑاہٹ کو سکون ملتا۔ “دیکھو! میں تم سے صاف صاف کہتا ہوں جنید! امید ہے تم میری بات حوصلے سے سنو گے”۔ میرا چہرہ خوشی سے کھلکھلا اٹھا۔۔۔ ایک بہن چود انسیسٹ کے لیے اس سے زیادہ شہوت انگیز بات کیا ہو گی کہ وہ اپنی سگی بہن کو غیر مردوں کے ساتھ ڈسکس کرے۔ “جی جی سر! میں سن رہا ہوں”۔ “دیکھو جنید! اگر آپ کے پاس خزانہ ہو اور آپ کو پیسوں کی سخت ضرورت ہو تو کیا آپ اس خزانے کو چھپا کے رکھیں گے؟ یا اس خزانے کو بیچ کر پیسے کمائیں گے تاکہ تمہارے کام آ سکیں؟” مبہم الفاظ میں محسن سر نے میری بہن مریم کو چودنے کی خواہش کا اظہار کر دیا۔ لیکن مجھے اس چیٹ میں مرچ مصالحہ بھی چاہیے۔ “میں سمجھ نہیں سکا سر!” “دیکھو جنید! تمہارے گھر میں ایک جوان جہان بہن ہے جس کی شادی ابھی نہیں ہوئی۔ میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے آج تک تمہاری بہن سے زیادہ خوبصورت اور نشیلی چیز نہیں دیکھی۔۔۔ میں ساری رات تمہاری بہن کو دیکھنے کے بعد سو نہیں سکا۔ میرا لنڈ ابھی تک پھڑپھڑا رہا ہے” باس کے منہ سے یہ الفاظ نکلے ہی تھے کہ میں چپکے سے اپنا لوڑا مسلنے لگا اور ہاتھ اس کے اوپر لے گیا۔ باس نے بات جاری رکھی۔ “دیکھو! جب تمہیں موقع ملا ہے کہ تم بغیر محنت کیے سب کچھ حاصل کر سکتے ہو تو اتنی محنت کس لیے کرتے ہو؟” باس اپنی بات مکمل کرنے کے بعد جواب طلب نظروں سے میری طرف دیکھا۔ وہ نروس بھی تھے۔ “سر! میں سوچ کر آپ کو جواب دوں گا”۔ باس کا خوشی سے رنگ سرخ ہو گیا۔ “میں ابھی کہ ابھی تمہاری فائل پہ سائن کر دیتا ہوں”۔ “تھینک یو سو مچ سر! اب میں چلتا ہوں”۔ “ضرور جنید! لیکن میں رات کو سو نہیں سکا مریم کو دیکھنے کے بعد۔ یہ بات ذہن میں ضرور رکھنا”۔ میں گھر چلا آیا۔ گھر میں سب کچھ ویسا ہی تھا۔۔۔ بجھی بجھی سی مریم۔۔۔ شاید بہت شرمندہ تھی۔ بیمار والد۔۔۔ چھوٹا سا گھر جہاں میرا دم گھٹتا تھا۔ اوپر سے مریم کی بنڈ اس قدر صحت مند ہوتی جا رہی تھی کہ ان کے لیے بھی جگہ کم ہو رہی تھی۔ میں تو اپنی بہن کو کسی سے بھی چدوا سکتا تھا۔۔۔ یہ میرا خواب تھا۔۔۔ لیکن اگر اسی کام سے ہمارا مستقبل بن جاتا تو سونے پہ سہاگا ہو جاتا۔۔۔ بس اب مریم کو منانا تھا۔ رات کو میں نے مریم سے بات کی. ” مریم بیٹھو، مجھے تم سے کچھ بات کرنا ہے”۔ “جی بھائی!” وہ سہم سی گئی۔ “مریم، میں چاہتا ہوں تم جاب کرو۔۔۔ اتنا پڑھ لکھ کر گھر پہ بیٹھنا مناسب نہیں۔ ویسے بھی میرے لیے اس چھوٹی سی نوکری میں گھر چلانا کافی مشکل ہوتا جا رہا ہے”۔ “لیکن جنید بھائی! گھر پہ پاپا اکیلے؟” “جب تم یونیورسٹی جاتی تھیں تب بھی تو اکیلے ہی تھے۔ اور ویسے بھی میں نے ایک میل نرس کا بندوبست کر لیا ہے”۔ وہ حیران ہوئی۔ “میل نرس؟ کیسے؟ اتنی چھوٹی سی جاب میں” “نہیں میری پروموشن ہوئی ہے اور تمہاری جاب بھی میرے آفس میں ہی ہے۔۔۔ وہاں تم محفوظ بھی رہو گی”۔ میرے ہونٹوں پہ ایک شیطانی مسکراہٹ تھی۔ “اچھا چلیں، ٹھیک ہے”۔ وہ مسکرائی۔۔۔ اس کی مسکراہٹ بہت ہی قاتل تھی۔ میں اپنی بہن کی ایک ایک ادا کا عاشق ہو رہا تھا، جیسے وہ کوئی بازاری رنڈی ہو۔ “ٹھیک ہے پھر صبح تیار رہنا”۔ “اوکے” وہ کہہ کے اٹھی لیکن اس کی قمیض کا پچھلا پلو اس کے بائیں چوتڑ کے اوپر سے ہٹ چکا تھا۔۔۔ میں پاگل ہو رہا تھا۔ اگلی صبح اس نے 44 سائز کی بنڈ، اورنج رنگ کے ایک ٹراؤزر میں بند کرنے کی ناکام کوشش کی تھی۔ اسی رنگ کی ایک تنگ قمیض جس میں میری بہن کے 38 سائز کے گول مٹول تھن قید تھے۔۔۔ عنقریب ایسا لگ رہا تھا کہ اس کی قمیض پھاڑ کر اس کے تھن باہر نکل آئیں گے۔ “بہت پیاری لگ رہی ہو”۔ وہ حیران ہوئی، “دوپٹہ کس لیے لو گی؟” میں نے پتہ نہیں کیسے ہمت کر کے کہہ دیا۔ وہ حیران ہوئی۔ میں اس کا سگا بھائی یہ سب کہہ رہا تھا۔ “تھینک یو۔ اچھا ٹھیک ہے” وہ کیا قیامت خیز منظر تھا! پنجابی مٹیارن گشتی رنڈیوں کی طرح میری چالو بہن مریم اپنا گدرایا جسم، تقریباً ننگا جسم لے کر میرے ساتھ اپنی بنڈ ہلا ہلا کر چل رہی تھی، جیسے اپنے یار کے ساتھ چل رہی ہو۔ آفس پہنچتے ہی پہلا شخص جو ہمیں ملا وہ آفس بوائے تھا۔۔۔ ایک ایک کر کے سب کی آنکھیں حیرت سے کھلتی چلی گئیں۔۔۔ باس کے آفس میں پہنچتے ہی باس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔۔۔ اورنج قمیض اور پاجامے میں ملبوس سیکس اور حسن کی دیوی میری بہن۔۔۔ اس کے بدن کے اتار چڑھاؤ دیکھ کر باس کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ “ہیلو! اینڈ ویلکم مس مریم۔۔۔” باس آج میری طرف متوجہ بھی نہیں ہو رہے تھے۔ “بہت انتظار کروایا آپ نے؟ میں صبح سب سے پہلے آفس میں داخل ہوا تھا” باس کا چہرہ ہوس اور شہوت کے مارے شیطانی ہو رہا تھا۔ اس سے پہلے میں کچھ کہتا، مریم نے انتہائی نشیلے انداز میں بول کر مجھے حیران کر دیا۔ ” سوری سر! اصل میں ہم لوکل ٹریفک میں آئے تو اس لیے تھوڑی دیر ہو گئی”۔ یہ کہہ کے مریم نے پروفیشنل کنجریوں والی ایک سمائل سر کو دی۔ سر بھی حیران تھے اور میں بھی۔ انہوں نے کہا، ” او کے جنید! آپ اپنا کام شروع کیجیے، میں مس مریم کا ذرا تعارف انہی سے لے لوں” میں دل ہی دل میں اتنا خوش ہو گیا کہ فوراً اپنی معصوم بہن کو ایک شہوت پرست حیوان کے پاس اکیلا چھوڑ کر باہر بھاگا آ گیا۔ مریم کی بنڈ سائیڈ سے تقریباً ننگی لگ رہی تھی کیونکہ اس نے بہت ہی ٹائٹ پاجامہ پہنا تھا اور وہ ٹانگ پہ ٹانگ چڑھائے گشتیوں والے انداز میں بیٹھی تھی۔ میں باہر آ کے اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔۔۔ شام کو میں نے مریم سے آفس کے متعلق پوچھا تو اس نے ایک عجیب پر اسرار مسکراہٹ مجھے پاس کی۔ میں کچھ سمجھ نہ سکا۔ کہنے لگی بہت اچھا تھا اور میں بہت خوش ہوں۔ دوسرے دن مریم ایک مرتبہ پھر اسی لباس میں قیامت ڈھانے میرے ساتھ آفس پہنچ گئی۔۔۔ سر بھی آج بہت سوٹڈ بوٹڈ ہو کے آئے تھے۔۔۔ مجھے کچھ سمجھ نہ آیا۔۔۔ دن کو تقریباً ساڑھے گیارہ بجے مجھے فیلڈ میں جانے کا کہا۔۔۔ میں نے منع کرنا چاہا کیونکہ میرے ساتھ مریم بھی گھر جاتی تھی لیکن سر کہنے لگے ” ان کی تم فکر نہ کرو، میں تمہیں آج ایک سرپرائز دوں گا”۔ “سرپرائز؟ کیسا سرپرائز سر؟” میں حیران تھا۔ “بھئی، وہ تمہیں شام کو ہی پتہ چلے گا”۔ میں نے فیلڈ میں جانے کی حامی بھر لی۔ شام کو چھ بجے مجھے باس کی کال آئی، انہوں نے ایک پرائیویٹ ہوٹل میں آنے کا کہہ دیا اور کہا کہ وہیں تمہیں سرپرائز بھی دوں گا۔ میں فوراً ہوٹل میں پہنچا اور باس کے بتائے ہوئے کمرے میں پہنچ گیا۔۔۔ دروازہ کھٹکھٹانے پہ اندر سے دروازہ کھلا اور میں حیران رہ گیا۔ وہ مریم تھی۔۔۔ اس کے چہرے پہ ایک مسکراہٹ تھی۔ “اندر آؤ بھائی” میں اندر چلا گیا۔ باس ایک صوفے پہ نڈھال سے بیٹھے تھے۔۔۔ وہ صرف انڈرویئر میں ملبوس تھے۔۔۔ مریم چٹخنی لگا کر اندر آئی اور آتے ہی میری گردن میں بانہیں ڈال لیں۔ “تم یہی چاہتے تھے نا، بہن چود” اپنی سگی معصوم شریف بہن کے منہ سے یہ جملہ اور یہ گالی سن کر میرا لنڈ لوہے کی طرح سخت ہو گیا۔۔۔ مریم مجھے ہاتھ سے پکڑ کر صوفے پہ لے گئی اور کہنے لگی، تم میرے ساتھ کچھ کر تو نہیں سکتے کیونکہ میں تمہاری سگی بہن ہوں اور اسلام میں بہن بھائی کا ملاپ منع ہے۔ لیکن اپنی بہن کو کسی غیر مرد کا لنڈ اپنی چوت میں لیتے دیکھ تو سکتے ہو نا۔۔۔ یہ کہتے ہوئے اس نے محسن سر کے ابھار پہ ہاتھ پھیرا اور اپنا نچلا ہونٹ اوپر والے ہونٹ کی مدد سے خود کاٹا۔۔۔ مجھے اندازہ ہو گیا کہ مریم گرم ہو چکی ہے اور آج وہ اپنی چوت میں لے کر ہی رہے گی۔ “اوہ کم آن جنید! تم پہلے دن سے یہی چاہتے تھے، اب کنفیوز کیوں ہو؟” باس نے وار کیا۔ میں نے ایک مسکراہٹ دے دی۔ میری مسکراہٹ کی دیر تھی کہ مریم باس پہ پل پڑی۔ کسی ماہر رنڈی کی طرح مریم باس کے جسم کے اوپر بیٹھی پیار سے ان کا منہ چوم رہی تھی، گردن چاٹ رہی تھی۔ باس مزے سے مدہوش تھے۔ ان کے لیے مریم کی رانیں ہی کافی تھیں جو ان کی ٹانگوں کو ٹکرا رہی تھیں۔۔۔ چما چاٹی اور کسنگ کے بعد مریم نیچے ہوئی اور باس اس کے اوپر آ گئے۔ باس نے آتے ہی مریم کی قمیض اتار دی۔۔۔ تنگ قمیض میں پھنسے مریم کے ممے جب قمیض کی قید سے آزاد ہوئے تو 38 سائز کے دودھ کیسے ہوا میں اچھلے، یہ میں بیان نہیں کر سکتا۔ مریم نے بلیک رنگ کی برا پہنی تھی۔ ایک تھیلی نما برا تھی جیسے اگر کسی بکری کے تھن زیادہ بڑے ہو جائیں تو انہیں ڈھانپنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے، ویسے ہی مریم کی برا بھی تھی۔ سر نے آہستہ سے مریم کے مموں کو برا کی قید سے آزاد کر دیا۔ مجھے یقین ہے کہ مریم کے تھنوں میں سے نکلنے والے دودھ سے زیادہ اس کے تھن گورے تھے۔ گول مٹول اور تگڑے موٹے تازے تھن۔ سر محسن ان پہ پاگلوں کی طرح پل پڑے، کبھی ہاتھ پھیرتے، کبھی پکڑ کر دبا دیتے جس سے مریم کے منہ سے ایک سسکاری نکلتی۔ پھر باس نے اس کے ممے اپنے منہ میں لیے اور شیر خوار بچے کی طرح نپلز چوسنے لگے۔۔۔ آدھا گھنٹہ باس مریم کے تھنوں سے کھیلتے رہے، جیسے بچے غباروں سے کھیلتے ہیں۔ اب باری ٹانگوں کی تھی۔ اس سب کے دوران میں نے بھی اپنا لوڑا ہاتھوں میں لے لیا تھا اور مسلسل اسے مسل رہا تھا۔ باس نے مریم کو الٹا لٹایا اور مریم کی بنڈ کو سونگھنے لگے، سونگھنے والے کتے کی طرح باس مریم کے چوتڑ اور اندر والی لکیر سونگھی، پھر چاٹی۔۔۔ مریم کا اورنج کلر کا پاجامہ سر کی تھوک سے مکمل بھیگ گیا۔ اب باجی نے ماہر رنڈی کی طرح سر کو دھکا دے کر نیچے کیا اور اوپر آ کر انڈرویئر نکالنے لگی۔ باس کا صحت مند 9 انچ کا لنڈ جس کی رگیں تنی ہوئی تھیں وہ اپنے ہاتھ میں لیا اور ساتھ ہی باس کو ایک آنکھ ماری۔ باس نے ابھی باقاعدہ چوپا لگانے سے میری بہن کو منع کر دیا لیکن باجی نے گیلا کرنے کے لیے اپنی ناگن کے جیسی لمبی زبان نکالی اور ٹوپے سے ٹٹے تک ایک ہی دفعہ چاٹ کر لنڈ گیلا کر دیا۔ اب باس ایک بار پھر اوپر آئے اور باجی کا ٹراؤزر اور پینٹی اتار دی جس سے میری بہن کی پنک پھدی میری آنکھوں کے سامنے تھی۔ باس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اپنی زبان نکال کر مریم کی پھدی چاٹنے لگے۔ میں مریم کی سسکاریاں سن کر مٹھ لگانے لگا۔ پھدی چاٹنے کے بعد باس نے پوزیشن لی اور اپنے لوڑے پہ کنڈوم لگایا۔۔۔ اس کے بعد مریم چوت کے دہانے پہ اپنا ٹوپہ رکھ کر تھوڑا سا زور لگایا۔ مریم تھوڑی سی چلائی۔ باس رک گئے۔ باس نے تھوڑی دیر تک مریم کے ہونٹ منہ میں لیے اور پھر اپنا لنڈ میری بہن کی چوت میں آدھا گھسیڑ دیا۔ اور اب اسٹروک لگانے لگے۔ مریم مزے اور درد کے اس خوبصورت امتزاج کو مکمل انجوائے کر رہی تھی، کسی ماہر پورن سٹار کی طرح میری سگی بہن لذت انگیز سسکاریاں بھر رہی تھی۔ پورے کمرے میں مریم کی اف آہ کے علاوہ لن اور پھدی کی چٹاخ پٹاخ بھی گونج رہی تھی۔ وہ لوگ چدائی کے ساتھ ساتھ پرجوش کسنگ بھی کر رہے تھے، باس نے مریم کے کان اپنے منہ میں لیے تھے اور انہیں چاٹ رہے تھے، اپنی لمبی زبان نکال کر مریم کے چہرے کو چاٹ رہے تھے۔ اچانک مریم کی سسکیاں بھی تیز ہو گئی اور باس فکنگ بھی ہارڈ کرنے لگے، یعنی گھسے تیز تیز مارنے لگے۔ ایک چیخ باس کے منہ سے نکلی اور فوارہ نکل پڑا۔۔۔ باس نے میری سگی بہن کی پھدی میں ہی پچکاری چھوڑ دی۔ مریم کی چوت بھی باس کے لن کے گرم پانی سے جھڑ گئی تھی ۔ پر میں اپنا لنڈ ابھی بھی رگڑ رہا تھا۔ باس نڈھال ہو کر بیڈ پہ گر گئے۔۔۔ مریم اٹھی اور آ کر اپنی اسے ہتھیلی میں میرا لن لے کر میری مٹھ مارنے لگی۔۔۔ میں مزے کی انتہاؤں کو چھو رہا تھا کہ اچانک میری منی کا فوارہ بلند ہوا۔۔۔ اور میں پرسکون ہو گیا۔۔۔ مریم بغیر وقت ضائع کیے واش روم گئی اور نہا دھو کر وہی ٹراؤزر پہن کر باہر آئی۔ باس بھی تھوڑی دیر میں ریلیکس ہوئے اور نہا دھو کر فارغ ہوئے۔۔۔ ہم تینوں ہوٹل سے ایک ساتھ نکلے۔ باس نے آفس کی گاڑی منگوائی اور ڈرائیور کو کہنے لگے: “آج کے بعد تم مس مریم کے پرسنل ڈرائیور ہو”۔ میں اور مریم بے ساختہ مسکرا دیے۔