میری چوت میری مرضی

 



میرا نام زینت ہے۔ میں زندگی کی 27 بہاریں دیکھ چکی ہوں۔ میری شادی عتیق کے ساتھ ایک سال پہلے ہوئی تھی۔ ہم دونوں میں پہلی رات ہی اچھی تفہیم ہو گئی تھی۔ عتیق میرا بہت خیال رکھتے تھے۔ میری ہر فرمائش اور خواہش وہ پوری کرتے۔ وہ کسی غیر ملکی کمپنی میں نوکری کرتے تھے۔ ایک سال پہلے کمپنی نے انہیں دو سال کے لیے بیرون ملک بھیج دیا۔ شروع میں تو بہت پریشان ہوئی کیونکہ مجھے ان کی عادت تھی۔ دن تو گزر جاتا تھا، لیکن رات کی تنہائیاں ڈسنے کو آتیں اور نہ جانے کتنی راتیں میں نے رو کر گزاریں۔ پھر آہستہ آہستہ جدائی برداشت کرنے کا سلیقہ آتا گیا۔ اور کبھی میکے اور زیادہ تر سسرال میں میرا وقت گزرنے لگا۔ سسرال میں میری ساس اور سسر تھے۔ ایک نند (عمیر کی چھوٹی بہن) جس کا نام فرزانہ ہے، وہ بیاہی ہوئی ہے اور ہر دوسرے تیسرے مہینے اپنے میکے والدین سے ملنے آتی اور دو چار ہفتے رہ کر واپس اپنے سسرال چلی جاتی ہے۔ میری سسرال ان چند ہی افراد پر مشتمل ہے۔ میری اپنی نند فرزانہ سے بہت بنتی ہے۔ وہ بہت اچھی طبیعت رکھنے والی، صاف دل خاتون ہے، میری نند سے زیادہ سہیلی ہے۔ ہم عمر ہونے کے ساتھ ساتھ ہم دونوں کے فگر بھی تقریباً ایک جیسے ہیں۔ پچھلے دنوں فرزانہ کو اس کا دیور ہمارے ہاں چھوڑ گیا اور دو ہفتوں بعد لے جانے کا کہہ کر واپس چلا گیا۔ فرزانہ کا خاوند بہ سلسلہ روزگار دور رہتا اور دو تین ہفتوں بعد دو تین دنوں کے لیے گھر آتا ہے۔ فرزانہ کے ساتھ وقت گزرتے پتا ہی نہ چلا اور ایک شام اس کا دیور سمیر اسے لینے کے لیے آ گیا۔ تو میری ساس نے اسے کہا کہ کل نہیں، پرسوں چلے جانا۔ تو سمیر نے کہا، "ٹھیک ہے، پرسوں چلے جائیں گے۔"

سمیر 20 سال کا جوان کالج کا طالب علم ہے اور بہت اچھے اخلاق و آداب کی بدولت سب رشتہ داروں میں اچھی شہرت رکھتا ہے۔ دوسرے دن فرزانہ اپنی امی کے ساتھ دوسرے رشتہ داروں سے ملنے کے لیے ان کے ہاں گئی۔ مجھے بھی ان کے ساتھ جانا تھا، لیکن میں نے دو دن پہلے ہی سے کپڑے دھونے کا پروگرام بنا رکھا تھا۔ دن کے گیارہ بجے کا وقت تھا، میں کپڑے دھو رہی تھی۔ اور کپڑے دھوتے ہوئے میں خود بھی اور میری قمیض اور شلوار بھی گیلی ہو چکی تھی۔ لیکن میں بے پرواہ ہو کر کپڑے دھوتی رہی۔ میں چاہتی تھی کہ جلد سے جلد کپڑے دھو کر دوپہر کا کھانا پکا لوں تاکہ فرزانہ اور میری ساس جب آئیں تو انہیں انتظار نہ کرنا پڑے۔ چونکہ میں نے برا، بریزر، پینٹی وغیرہ دھونے کے لیے اتار رکھے تھے، اس لیے قمیض کے بھیگنے سے مموں کی گولائیاں اور نپلز نظر آ رہے تھے۔ اور میری رانوں پر گیلی شلوار چپک گئی تھی، جس سے بھاری بھاری اور گوری رانیں بھی عیاں تھیں۔ چونکہ گھر میں اکیلی تھی، اس لیے مجھے کسی کے دیکھ لینے کا کوئی خطرہ نہ تھا کہ اچانک سمیر سامنے آ گیا۔ وہ اوپر والے گیسٹ روم میں سویا ہوا تھا۔ میں بھول ہی گئی تھی کہ سمیر بھی آیا ہوا ہے۔ میں نے پوچھا، "اٹھ گئے سمیر؟" اور اس کی طرف سے کوئی جواب نہ پا کر اسے دیکھا تو اس کی نظروں کو اپنے جسم پر مرکوز پا کر میں دہل سی گئی۔ اس کی نظروں میں ہوس صاف نظر آ رہی تھی۔ وہ کبھی میرے مموں کو تاکتا تو کبھی میری بل کھاتی کمر کو دیکھتا۔ میں کپڑا نچوڑتے ہوئے نیچے جھکی تو سمیر نے مجھے پیچھے سے دبوچ لیا۔

مجھے ایسی حرکت کا اندازہ نہ تھا کہ سمیر ایسا بھی کر سکتا ہے۔ میں نے غصے اور حیرت سے اسے کہا کہ یہ کیا کر رہے ہو تم سمیر؟ اور اس کے نیچے سے نکلنے کی کوشش کرنے لگی، لیکن سمیر نے مجھے اچھی طرح قابو کر لیا تھا۔ میں نے اپنے آپ کو بے بس سمجھ کر اسے ڈرانے دھمکانے لگی اور پھر اونچی آواز سے شور مچانے لگی تو اس نے ایک ہاتھ میرے منہ پر رکھ دیا۔ میں نے بڑی کوشش کی کہ میری آواز نکل سکے تاکہ اسے بتا سکوں کہ جو کچھ وہ کر رہا ہے، اسے اس کا خمیازہ بھگتنا ہوگا۔ لیکن اس نے میرے منہ پر بڑی مضبوطی سے اپنا ہاتھ جما رکھا تھا۔ میری کوشش تھی کہ کسی طرح اس کی گرفت سے نکل سکوں، لیکن وہ 20 سال کا جوان اور توانا کسرتی جسم کا مرد تھا اور میں 27 سال کی ایک کمزور عورت، اس کا مقابلہ کرنے سے قاصر تھی۔ پھر میں اس کے بازو میں مچل رہی تھی تاکہ کسی طرح اس کے نیچے سے نکل کر اسے وہ پھینٹی لگاؤں کہ وہ ہمیشہ یاد رکھے اور کسی اور کی عزت پر حملہ کرنے سے پہلے سو بار سوچے۔ لیکن سمیر نے میری ایک نہ چلنے دی۔ میں گھوڑی بنی اس کے نیچے تھی اور وہ مجھ پر چھایا ہوا تھا۔ اس کا ایک ہاتھ میری کمر پر اور دوسرا میرے منہ پر تھا۔ کچھ دیر اسی طرح رہنے کے بعد اس کا ہاتھ میری کمر سے آگے کو سرکنے لگا اور جلد ہی اس نے میرا ایک ممہ جکڑ لیا۔ میں زور سے تڑپنے لگی۔ میرے منہ سے گندی گندی گالیاں نکلنے لگیں، جنہیں وہ سننے سے قاصر تھا کیونکہ میرے منہ پر اس کا ہاتھ جما ہوا تھا۔ مجھے اپنی بے عزتی بری طرح محسوس ہونے لگی اور دعائیں مانگنے لگی کہ کوئی آ جائے تاکہ اس آفت سے میں بچ جاؤں۔ اس کا ہاتھ کبھی میرا ایک ممہ مسلتا، کبھی دوسرا دباتا۔ میری قمیض تو پہلے ہی گیلی تھی اور میں بغیر کسی برا اور بلاؤز کے تھی، اور اس کے لیے میرے ننگے مموں کو مسلنا، ٹٹولنا اور دبانا بڑا آسان ہو گیا تھا۔ اتنے میں میں نے اس کا روڈ اپنے چوتڑوں پر محسوس کیا تو مجھے اپنی ذلت کا احساس اور شدت سے ہونے لگا۔ اس کے دونوں ہاتھ چونکہ مجھے جکڑے ہوئے تھے، اس لیے وہ اپنے روڈ کو اندازے سے میرے چوتڑوں کے بیچ رگڑنے کی کوشش کرنے لگا۔ اس کا منہ زور شیطانی روڈ میری گیلی شلوار کے اوپر سے ٹانگوں کے بیچ مچل رہا تھا۔ وہ میرے منہ پر رکھے ہاتھ کی کہنی سے میری گردن پر دباؤ دے کر اپنے دوسرے ہاتھ سے میرا ازاربند (نارا) کھولنے لگا، لیکن کافی کوشش کے باوجود ازاربند نہ کھول سکا کیونکہ اس کی گرہ میں نے اپنی عادت کے مطابق الٹی لگائی ہوئی تھی اور وہ گیلی ہو کر سخت ہو چکی تھی۔ وہ اسے کھولنے میں ناکام ہو کر میری شلوار کو میرے چوتڑوں سے نیچے کھینچنے لگا۔ لیکن میری کمر پتلی اور کولہے قدرے بھاری تھے، جس کی وجہ سے شلوار نیچے نہ ہو سکی تو وہ مشتعل ہو کر میری ٹانگوں میں دھکے لگانے لگا۔ میں نے اشارے سے کہا کہ میرے منہ سے ہاتھ ہٹا لے تاکہ میں اسے بتا سکوں کہ میری ساس اور فرزانہ کسی وقت بھی آ سکتی ہیں۔ لیکن اس نے مجھے بولنے کی اجازت نہ دی اور میرے چوتڑوں پر ہاتھ پھیرنے لگا۔ بدقسمتی سے میری شلوار تھوڑی سی ادھڑی ہوئی تھی۔ اچانک اسے انگلی جتنا سوراخ شلوار میں محسوس ہوا تو اس نے اس میں انگلی ڈال دی اور اسے ادھر ادھر گھمایا اور پھر اس نے انگوٹھا ڈال کر انگلی کی مدد سے اس سوراخ کو بڑا کر لیا اور جلدی سے اپنا روڈ جیسا سخت لن ڈال دیا اور اسے میری ٹانگوں کے سنگم پر اپنے ٹارگٹ کو ڈھونڈنے کے لیے ادھر ادھر مسلنے لگا۔ لیکن میں اپنے چوتڑوں کو ادھر ادھر ہلا کر اس کی کوشش کو ناکام بنانے لگی۔ اس نے میرے کولہے کو اپنے بازو میں جکڑ لیا اور اس کے لن نے اپنے ٹارگٹ، میری چوت کے منہ پر پھسلنا شروع کر دیا۔ میں نے نادانستہ اپنی ٹانگیں تھوڑی سی کھولیں تو اسے ایک زبردست چوٹ لگانے کا موقع ملا تو اس کا طاقتور لن چوت کو چیرتا اس کی اتھاہ گہرائی میں جا اترا۔ میں درد سے تڑپ کر نیچے لیٹ گئی اور اسے اشارے سے ہٹنے کو کہا۔ لیکن اس نے ہٹنے کے لیے تو اندر نہیں کیا تھا۔ پھر میں نے اسے منہ سے ہاتھ ہٹانے کے لیے کہا۔ لیکن کوئی شنوائی نہ ہوئی۔ ایک تو وہ میری پیٹھ کی طرف تھا اور اب تک میں اسے دیکھ نہ پائی تھی نہ ہی اس سے نظریں چار ہوئی تھیں کہ کچھ سمجھا سکتی۔ میں اب نیچے پیٹ کے بل لیٹی ہوئی اور اس کا لن میرے اندر تھا۔ کچھ دیر بعد حریص نے اسے ہلانا شروع کیا۔ اس کی رگڑ مجھے تکلیف دے رہی تھی۔ لیکن اسے اس کا کچھ احساس نہ تھا۔ پھر جب اس نے زور زور سے دھکے لگانے شروع کیے تو میں تکلیف سے بچنے کے لیے اس کے دھکوں کے جواب میں اپنے کولہے اوپر کرتی تو مجھے تکلیف کا احساس نہ ہوتا۔ تھوڑی دیر بعد میں رونے لگی اور میرے آنسو بہہ کر میری گالوں کو بھگونے لگے۔ مجھے رونا اپنی بے بسی پر آیا، جس کے لیے میں خود سے شرمندگی محسوس ہونے لگی تھی۔ اس کا سٹیمنا حیران کن تھا۔ کافی دیر (مجھے وہ وقفہ گھنٹوں پر محیط لگا) بعد اس کے دھکوں کی تیز رفتاری سے میں نے محسوس کیا کہ وہ آنے والا ہے اور پھر چند ایک مزید زوردار جھٹکوں کے ساتھ فوارہ مارتا میرے اوپر ہی گر گیا۔ اس نے سارا مادہ میرے اندر ہی ڈالا اور پھر اچانک اٹھا اور بھاگ کر سیڑھیاں پھلانگتا اوپر گیسٹ روم میں چلا گیا۔

میں یونہی کچھ دیر لیٹی رہی۔ میں ہکا بکا حیرت سے یہی سوچتی رہی کہ میرے ساتھ ہوا کیا اور اب مجھے کیا کرنا چاہیے۔ کیا اپنی ساس کو بتاؤں یا اپنی نند فرزانہ سے شکایت کروں؟ سمیر جو اس کا دیور ہے، یعنی اس کے خاوند کا چھوٹا بھائی ہے۔ میں کوئی فیصلہ نہ کر پائی کہ کیا کروں، کیا نہ کروں۔ اگر ذکر یا شکایت کرتی ہوں تو بھی بات تو نکلنی ہے۔ بدنامی تو میرے ہی حصے میں آئے گی۔ اس حرامی سمیر کو زیادہ سے زیادہ یہاں آنے سے روک دیا جائے گا۔ میرے خاوند تک بات پہنچے گی تو ان کا ردعمل کیا ہوگا؟ میری پوری زندگی داؤ پر لگ گئی تھی۔ ایسی حالت میں کسی فیصلے پر پہنچنا ویسے بھی مشکل تھا۔ میں سر جھکائے یونہی بیٹھی تھی کہ اتنے میں میری ساس اور نند بھی آ گئیں۔ انہوں نے میری حالت دیکھ کر پوچھا کہ کیا ہوا تو میں نے کہہ دیا کہ میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ میری ساس کہنے لگی، "تم اپنے کمرے میں جاؤ، باقی کپڑے فرزانہ دھو دے گی اور میں کھانا بنا لیتی ہوں۔" یونہی میں اٹھ کر اپنے کمرے میں آ گئی اور باتھ روم میں جا کر میں نے قمیض اور شلوار اتاری اور خود کو دیکھنے لگی۔ ظالم نے مجھے بے دردی سے رگیدا تھا۔ نیچے ٹانگوں کے بیچ ہاتھ لگایا تو "اُوئی" سی نکل گئی۔ کافی سوجی ہوئی تھی۔ ہاتھ سے جب اسے چھوا تو لیس دار مادہ پورے ہاتھ پر لگ گیا۔ کتے نے کتنا کچھ مادہ ڈالا تھا۔ کافی دیر تو اس کے فوارے میری چوت کی گہرائی سے ٹکراتے رہے تھے اور دیواروں سے چپک گئے تھے۔ جب اس نے لن باہر کھینچا تو یونہی لگا جیسے پورا ایک لوٹا رس کا باہر نکلا ہو۔ میں نے نادانستہ اپنے ہاتھ کو سونگھا تو عجیب سی بو تھی، مگر نہ خوشگوار تھی۔ میں نے اپنی زبان کی نوک اپنے ہاتھ کی ہتھیلی پر رکھی تو کھٹا سا ذائقہ لگا۔ میں نے غسل کیا اور کپڑے تبدیل کر کے لیٹ گئی۔ کافی دیر بعد فرزانہ نے آ کر بتایا کہ کھانا تیار ہے تو میں نے اسے کہا کہ میری طبیعت ٹھیک نہیں، اس لیے نہ کھا سکو گی۔ تو وہ بولی، "ٹھیک ہے، تم آرام کرو، جب دل چاہے کھا لینا۔" تو میں نے کہا، "ٹھیک ہے۔" اور سونے کی کوشش کرنے لگی۔ ایسی حالت میں نیند کا آنا ناممکن ہوتا ہے، لیکن مجھے تھوڑی ہی دیر بعد نیند آ گئی اور اس وقت میری آنکھ کھلی جب شام کے کھانے کے لیے فرزانہ کہنے آئی۔ میں نے اسے کہا کہ مجھے کھانا یہیں دے جائے اور پنڈی میں دردوں کی ٹیبلٹس بھی لے آئے۔ میں نہیں چاہتی تھی کہ میں ان کے ساتھ کھانا کھاؤں کیونکہ وہاں اس شیطان نے بھی ہونا تھا اور اس کا سامنا کرنا میرے لیے بہت مشکل تھا۔ میری درخواست پر فرزانہ میرے لیے اور اپنے لیے کھانا وہیں لے آئی اور ہم نے مل کر ڈنر کیا۔ تھوڑی دیر بعد میری ساس بھی میرا حال پوچھنے آئی اور کچھ دیر بعد مجھے آرام کرنے کا کہہ کر دونوں ماں بیٹی اٹھ کر ساتھ والے کمرے میں چلی گئیں جہاں وہ سوتی ہیں۔

ان کے جانے کے بعد میں تنہا رہ گئی۔ اور دن کا واقعہ ایک ڈراؤنا خواب بن کر مجھے ڈرانے لگا۔

میں ایک کتاب لے کر پڑھنے لگی۔ دراصل میں نے مختلف خیالات کی یلغار سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے لیے کتاب کا سہارا لیا۔ مگر جو کچھ ہوا تھا، اتنی آسانی سے تو میں اس کے متعلق سوچنے سے باز نہ رہ سکتی تھی۔ میں کتاب پڑھ رہی تھی، مگر اس کی ایک لائن بھی میں سمجھنے سے قاصر تھی۔ میرے ذہن میں کچھ عجیب سی گڈمڈ سی ہونے لگی۔ پڑھتی کچھ اور، سمجھتی کچھ اور۔ آخر میں نے کتاب بند کی اور لائٹ آف کرنے کے بعد بیڈ پر دراز ہو گئی۔ مگر اندھیرے میں بھی خیالات نے مجھے پریشان کرنا نہ چھوڑا۔ مجھے حیرت سمیر کی حرکت پر تھی کہ ایک نہایت ہی سجھا ہوا، اچھے ادب و آداب رکھنے والا، ایک شریف النفس خیال کیے جانے والے سے ایسی حرکت کیوں سرزد ہوئی؟ اور اسے اس کی ہمت ہی کیسے ہوئی؟ وہ مجھے "باجی زینت" کہہ کر پکارتا تھا اور مجھے نہیں یاد پڑتا کہ میں نے اسے کبھی اپنی جانب غلط نگاہوں سے دیکھتے پایا ہو۔ ہوتا ہے، جوان آدمی کسی عورت کو دیکھ کر چوری چوری ہی سہی، مگر شہوت کی نظر سے دیکھ لیتے ہیں۔ نہیں، سمیر کو کبھی ایسی حرکت کرتے میں نے نہیں دیکھا تھا۔ مگر اچانک اسے کیا ہوا کہ وہ پاگلوں کی طرح مجھ پر جھپٹ پڑا؟ کیا میرے بدن پر چپکے ہوئے گیلی کپڑوں میں میرا سب کچھ نظر آ رہا تھا، یہاں تک کہ میرے نپلز اور مموں کے ابھار بھی عیاں تھے؟ ممکن ہے میری رانوں کی گولائیوں نے اس کے جنسی جذبات کو بھڑکایا ہو؟ کیا نادانستگی میں، میں خود ہی اس کے لیے دعوت گناہ کا پیغام بن گئی تھی؟ جب اس نے مجھے اپنے شکنجے میں جکڑا تھا تو خوفزدہ ہونے کے ساتھ ساتھ میرے دل میں اس کے لیے نفرت کی لہر دوڑ گئی تھی۔ اور مجھے اپنی بے عزتی کا شدید احساس ہونے لگا تھا۔ مجھ پر غصے کی ایسی کیفیت طاری ہوئی کہ اگر اس وقت میرا بس چلتا تو میں اس کا قتل بھی کر سکتی تھی۔ مگر اس کی مضبوط گرفت سے نکلنا میرے بس کی بات نہ تھی، ورنہ میں نے اپنی پوری کوشش کی تھی کہ کسی طرح اس سے دور ہو سکوں۔ میری بے چارگی کی انتہا تھی جب اس نے میری شلوار میں اس جگہ سوراخ ڈھونڈ نکالا جہاں میرا اپنا سوراخ سامنے تھا اور اس کے لیے اپنا ہتھیار میرے سوراخ میں ڈالنا آسان ہو گیا۔ میں اپنے گھٹنوں اور دونوں ہاتھوں کو زمین پر ٹکائے اس کی گرفت میں گھوڑی بنی ہوئی تھی کہ اس نے ایک زوردار دھکے سے اپنا لن میری پھدی میں گھسا دیا۔ مجھے ایسا دھکا لگا کہ میں آگے ہو کر گر گئی اور سینہ زمین پر جا لگا۔ سمیر نے اپنے وحشیانہ دھکے مارنے جاری رکھے تو اس کی رگڑ سے مجھے درد ہوتا۔ میں درد سے بچنے کے لیے اپنے کولہے تھوڑا اوپر اٹھانے لگی، جس سے درد میں کمی محسوس ہونے لگی۔ پھر جیسے ہی وہ دھکا لگانے لگتا، میں نیچے سے کولہے اوپر اٹھا دیتی۔ کچھ دیر بعد مجھے اس کے دھکے اچھے بھی لگنے لگے تھے۔ مگر میں اس کو اپنا وہم ہی سمجھتی ہوں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ میرے شوہر کو بیرون ملک گئے ایک سال ہو چکا ہے اور میں اس کی کمی بری طرح محسوس کرتی ہوں۔ مگر ایسی بھی خوار نہ تھی۔ یہ تسلیم کرنے کو تیار ہوں کہ اس کے دھکے مثالی تھے۔ اور کسی بھی عورت کا ان کے سامنے ہار نہ ماننا ناممکنات میں سے تھا۔ مگر میں جو کچھ اس کے دھکوں سے محسوس کر رہی تھی اور خاموشی سے کولہے اوپر کرتی رہی، اسے لذت تسلیم کرنے میں سبکی محسوس کر رہی ہوں۔ اس لیے اسے وہم کہنے میں کیا حرج ہے؟

یہ سوچتے ہوئے مجھے پیاس محسوس ہوئی تو میں نے ساتھ پڑی ہوئی ٹپائی پر ہاتھ بڑھا کر پانی کا گلاس اٹھایا تو مجھے ہاتھ شلوار سے نکالنا پڑا، جس پر لیس دار چکناہٹ تھی۔ تو کیا میرا ہاتھ میری ٹانگوں میں کھجاتا رہا اور مجھے احساس تک نہ ہوا؟ میں نے ہاتھ کو سونگھا تو مجھے دوپہر کو جو سمیل آئی تھی، اس سے ملتی جلتی سمیل آئی۔ میں نے پانی پیا اور پھر لیٹ گئی۔ مگر اس بار میں نے دانستہ ہاتھ سے کھجانا شروع کر دیا۔ میرا دوسرا ہاتھ خود بخود میرے مموں پر جا کر ان سے کھیلنے لگا۔ مجھے یاد آ گیا جب سمیر نے ان کو زور سے دبایا تھا تو میرے منہ سے "آہ" نکلی تھی۔ میرا منہ اس کے ہاتھ کی زد میں تھا تو آواز دب کر رہ گئی تھی۔ میں شاید اپنی آہ خود بھی نہ سن پائی ہوں۔ منی کے لبوں پر ہاتھ لگا تو میرے منہ سے سی نکل گئی۔ اس کے ظالمانہ جھٹکوں نے منی کے لبوں کو مسل کر رکھ دیا تھا۔ اور اب ہاتھ سے چھونے سے میٹھا میٹھا درد ہوتا تو میرا خیال سمیر کے مونسٹر کی جانب جاتا۔ سات انچ سے زیادہ نہ تو کم ہوگا، اس حرامی کا ٹوپہ چوت کے لبوں کو رگڑ کر اندر جاتا تو اندر ایک کھلبلی مچ جاتی۔ حرام کے پیلے کا سٹروکنگ انداز بڑا ہی جارحانہ تھا۔ لگتا تھا کہ پیشہ ور ریپسٹ ہو۔ اس کے سٹروکس جو یاد آئے تو مجھے کچھ کچھ ہونے لگا۔ وہ منجھا ہوا کھلاڑی، کاش زبردستی کرنے کے، مجھے ویسے کسی طرح پٹا لیتا اور یہی کراوائی صلح جوئی (پیار محبت) سے ہوتی تو کتنا مزا آتا۔ میں اسے وہ لذت دیتی جو ایک سال سے میں بچا کر رکھی ہوئی ہے۔ مگر اس نے اچانک باز کی طرح جھپٹ کر میرا اعتماد مجروح کیا۔ جس کا مجھے افسوس بھی ہے اور اس پر غصہ بھی۔ مگر اس کے خلاف کوئی کاروائی کرنے کے قابل تو میں نہ تھی اور نہ ہی اپنی نند کی دشمنی مول لے سکتی تھی۔ انہی سوچوں میں میری انگلی دانے کو چھیڑتی اور چوت کے لبوں کو چھوتی، مجھے خوار کرنے لگی۔ اس کے لن کا خیال اور اس کے سٹروکس کھیلنے کے انداز نے شہوت کی لہر میرے بدن میں دوڑا دی۔ مجھے لن کی شدید طلب محسوس ہونے لگی، مگر میرا شوہر تو دور ہی ہے تو کیا کیا جا سکتا ہے؟ کہ ایک خیال کی لہر سی میرے دماغ میں داخل ہوئی۔

میں بنا کچھ سوچے اچانک اٹھی اور اپنے آپ کو بے لباس کرنے لگی۔ میں برہنہ ہو کر کچھ دیر اپنے ساراپا کو دیکھتی اور سہلاتی رہی اور پھر اپنے ننگے بدن کو ایک چادر میں لپیٹ کر کمرے کے دروازے سے باہر جھانکا۔ باہر ایک ہو کا عالم تھا۔ پہلی راتوں کا چاند کب کا ڈوب گیا تھا۔ ساتھ والے کمرے کی لائٹ آف تھی اور دروازہ بھی بند تھا۔ میں کیا کرنے اور کہاں جا رہی تھی، میرا یہ خود کو بھی بتانے کا کوئی ارادہ نہ تھا۔ میں خود سے کسی سوال جواب کے لیے تیار نہ تھی۔ میں کمرے سے باہر نکلی اور دبے پاؤں سیڑھیوں سے اوپر دوسری منزل پر گیسٹ روم کے سامنے جا کھڑی ہوئی، جہاں مجھ سے زبردستی کرنے والے سمیر کے خراٹوں کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ میں نے دروازے کو پش کیا تو وہ کھلتا چلا گیا۔ میں جلدی سے اندر داخل ہوئی اور آہستگی سے دروازے کی چٹخنی لگا دی اور آس پاس کا جائزہ لیا۔ لائٹ آف ہونے کی بدولت کمرے میں اندھیرے کی حکمرانی تھی، ہر چیز دھندلی دھندلی نظر آ رہی تھی۔ سمیر سیدھا لیٹے سویا ہوا تھا اور اس کے خراٹوں سے کمرہ گونج رہا تھا۔ کھڑکیوں کی درزوں سے تھوڑی بہت روشنی آتے دیکھ کر میں نے دروازے اور کھڑکیوں کے پردے اچھی طرح کھینچے تو کمرہ گھپ اندھیرے کی لپیٹ میں آ گیا۔ اب ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دیتا تھا۔ میں نے ہولے ہولے سمیر کے خراٹوں کی جانب بڑھتے ہوئے اس کے بیڈ کے قریب جا کر اوپر لی ہوئی چادر کو نیچے گرایا اور بیڈ پر اس کے پہلو میں لیٹ گئی۔ تھوڑی دیر بعد جب میرے سانس بحال ہوئے تو میں نے اپنے ہاتھ سے اس کی چھاتی کے بالوں کو کھجانا شروع کر دیا۔ اس نے بنیان یا قمیض نہیں پہنی ہوئی تھی۔ میرے ہاتھوں کی لمس سے اس کی آنکھ کھل گئی اور اس نے مجھے اپنے ساتھ لپٹاتے ہوئے کہا، "بھابھی فرزانہ، تم یہاں اس وقت؟ کسی کو معلوم ہوا تو؟" اس نے مجھے فرزانہ سمجھتے ہوئے لپٹا لیا۔ اس کے منہ سے فرزانہ سنتے ہی میرا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا اور یہ خیال کہ فرزانہ اپنے دیور سمیر کے ساتھ سیٹ ہے اور اس سے… اس سے آگے میں کچھ نہ سوچ سکی۔ میں ننگی تھی تو سمیر کے سینے سے لگ کر مجھے بہت اچھا لگ رہا تھا۔ میں نے خاموش رہنا بہتر سمجھا۔ اگر سمیر مجھے اپنی بھابھی سمجھ رہا ہے تو اسے سمجھنے دو۔ مجھے تو اس کا مونسٹر چاہیے تھا جو کہ میری رانوں سے ٹکرا رہا تھا۔ وہ پھر بولا، "بھابھی، آج تو تیار ہو کر آئی ہو، وہاں تو مجھے تم ترسا ترسا کر اور منتیں کروا کر دیتی تھیں۔ کیوں جانو، ان دو ہفتوں میں مجھے مس کیا یا نہیں؟ مس نہ کیا ہوتا، یون رات کے وقت ننگے بدن میرے ساتھ تھوڑا لیٹی ہوتی۔" سمیر نے بڑے پیار سے کہا تو میں نے اس کے ہونٹوں پر انگلی رکھ دی اور اسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔ میں نے خاموش رہنے کا ارادہ کر لیا تھا۔ اس نے پھر بولنا شروع کر دیا، "بھابھی، میں نے بھی بہت مس کیا تمہیں، دیکھو تو سہی، کتنا بے چین ہو رہا ہے میرا لن، اوہ نہیں، تمہارا لن، تم اسے اپنا کہتی ہو ناں، جانو اسے ٹچ کرو نہ۔" یہ کہتے ہوئے اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور اپنے لن پر رکھ دیا۔ اس نے نکر پہن رکھی تھی۔ میں نے تھوڑا اسے دبایا، وہ پہلے سے ہی تیار تھا۔ میں نے ہاتھ نکر کے اندر کر کے اسے پکڑا تو مجھے یاد آ گیا، آج دن کے وقت یہ میرے اندر زبردستی گیا تھا۔ یہ سوچتے ہی میرے ہاتھ کا دباؤ بہت بڑھا تو سمیر نے ہاتھ سے میرے ہاتھ کو ہٹا لیا اور بولا، "بھابھی، لگتا ہے آج تو اسے کچا ہی کھا جاؤ گی۔"

میں نے ہش کر کے اسے خاموش رہنے کا کہا اور اس کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیے۔ اُف، اس کے گرم لبوں کے نرم لمس نے میرے پورے بدن میں شہوت کی لہر دوڑا دی۔ وہ میرے ہونٹوں کو بے دردی سے چوسنے لگا۔ ہاتھوں سے مموں سے کھیلنے لگا۔ شکر ہے میری اور فرزانہ کی فگر تقریباً ایک جیسی ہے، اس لیے اسے محسوس نہ ہو سکا۔ اس کا ہاتھ سرکتے ہوئے نیچے گیا اور چوت کو چھوتے ہی بولا، "اُف بھابھی، تم تو پہلے سے گیلی ہو، آج تو بہت ہی مزا آئے گا۔ اتنا گرم تو میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔" میں نے اس کے ہونٹوں پر پھر انگلی رکھی تو وہ جھٹ سے اپنے ہونٹوں میں لے کر اسے چوسنے لگا۔ مجھے بہت مزا آنے لگا تھا۔ "بھابھی، آج میں بہت خوش ہوں، آج کی رات یادگار رات ہے کہ تم نے خود پہل کی ہے، ورنہ مجھ سے ہی منتیں کرواتی ہو۔ اتنا نخرے اٹھانے پڑتے ہیں تمہاری لینے کے لیے۔ خود ہی تو بولا تھا کہ یہاں کچھ نہیں کرنا۔ میرے آتے ہی بتا دیتی کہ تمہارا چدوا نے کا من ہے تو میں آج کوئی اور حرکت نہ کرتا۔" (وہ شاید میرے ساتھ کرنے کا ذکر کر رہا تھا۔) وہ مجھے اپنی بھابھی فرزانہ سمجھ کر باتیں کر رہا تھا اور میں فرزانہ بن کر اس کو جواب نہ دے سکتی تھی، اس لیے میں اس کے ہونٹوں پر انگلی رکھ دیتی۔ میں اس کے لن کو مٹھا رہی تھی تو سمیر بولا، "بھابھی، جس طرح تم اسے مٹھا رہی ہو، ایسا نہ ہو یہ اپنا مال گرا ہی نہ بیٹھے۔" یہ سنتے ہی میں نے اس کا لن ہاتھ سے چھوڑ دیا۔ میں نہیں چاہتی تھی کہ چوت میں لیے بغیر ہی اسے فارغ کر بیٹھوں۔ "ارے بھابھی، تم تو جانتی ہی ہو، اتنا جلدی تھوڑا ہی جھڑتا ہے یہ۔ میں نے تو ویسے ہی کہا کہ جس شوق اور انداز سے تم اسے آج مٹھا رہی ہو، کہیں رہ ہی نہ جائے۔ آج تو تم بدلی بدلی سی لگ رہی ہو۔" میں نے پھر انگلی اس کے ہونٹوں پر رکھ کر اسے خاموش رہنے کو کہا۔ اور اس کی ناف پر بوسہ دیتے ہوئے میں نے اس کے اکڑ کر کھڑے لن کے ٹوپے پر پیار کیا اور اسے چومنے لگی۔ سمیر بیک ہوتے ہوئے کہنے لگا، "اُف بھابھی، اتنی مہربان تم پہلے تو نہ تھی، جب تک تو مجھ سے چٹوا نہ لیتی، لن کو منہ میں ہی نہ لیتی تھی۔" یہ سنتے ہی میں نے اپنی ٹانگیں اس کے سر کی جانب سرکا دیں اور اس نے اپنے لب میری چوت پر رکھ دیے اور اپنی زبان سے اسے چاٹنے لگا۔ وہ چوت چاٹنا جانتا تھا اور جس طرح سے وہ اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر دانے تک چاٹتا اور پھر دانے پر زبان کی نوک سے کھجاتا، دانے کو ہونٹوں کے درمیان لے کر دباتا تو میری جان نکلنے لگتی اور میں دہری دہری ہو جاتی۔ بے چاری فرزانہ، اگر چٹوانے کے لیے کہتی ہے تو اسے الزام دینا تو نہیں بنتا۔ ظالم کی زبان کی نوک ایک تو کھردری تھی، دوسرا لمبی تھی۔ مجھے تو فرزانہ سے حسد محسوس ہونے لگا کہ ایک تو 20 سال کا ہینڈسم جوان، جسے دیکھتے ہی کھجلی ہونے لگے، سے چٹوانا اور چدوانا خوش قسمتی کی بات ہے۔ سمیر اپنی زبان کی نوک سے میری پھدی کے دانے کو کھجاتا تو میں مچل مچل جاتی۔ اور میری کمر کو قابو میں رکھنے کے لیے اسے کوشش کرنی پڑتی۔ وہ پھر بولنے لگا تو میں پلٹ کر اس کے سر کی طرف گئی اور اس کے ہونٹ اپنے ہونٹوں میں لے کر اپنی چوت کا لگا رس چوسنے لگی۔ اندھیرے کی بدولت کچھ دیکھنے کے قابل نہ تھی، ورنہ میں اس کے تاثرات دیکھ پاتی۔ میں اس پر ہی بیٹھ گئی اور اس کے گیلی لن کو ہاتھ میں کر کے مسلنے لگی۔ میری چوت اب پھڑپھڑا کر لن مانگنے لگی تھی۔ میں نے اس کے لن پر چوت ٹکا کر دباؤ ڈالا تو وہ چیرتا ہوا آخر تک پہنچ گیا۔ میں تھوڑی دیر وہیں بیٹھی رہی۔ اور پھر اس کی چھاتی پر ہاتھ رکھ کر، اس پر اوپر نیچے ہونے لگی۔ میں اپنی مرضی سے آگے پیچھے ہلتی اور اوپر نیچے ہوتی ہوئی، نئی لذتوں سے لطف اندوز ہوتی، اپنے آپ کو جھڑنے سے نہ روک پائی۔ سمیر نے سرگوشی کی، "بھابھی، تمہاری چوت اتنی ٹائٹ نہ تھی، نہ تم اتنی مزیدار چدائی کرواتی تھیں۔ سچ بولنا، یہاں کسی سے ایسی چدائی سیکھ تو نہیں بیٹھی ہو؟" تو میں نے غصے سے ایک دو ہاتھ اس کے سینے پر مارا اور نیچے ہو کر اس کے پہلو میں لیٹ گئی۔ سچی بات تو یہ کہ میرا کام ہو گیا تھا، مگر ابھی سمیر رہتا تھا۔ میں نے اسے اپنے اوپر کھینچا۔ وہ شاید یہی سوچ رہا تھا، فوراً ہی میری ٹانگوں میں بیٹھ کر اس نے اپنا ٹوپہ میری چوت پر مسلا تو میں نے تڑپ کر اپنی ٹانگیں اس کی کمر کے گرد جکڑ لیں اور اس نے پیچھے ہٹ کر ایک زبردست دھکا لگایا اور اس کے موٹے سر والا لن چوت کے لبوں کو مسلتا اور چوت کی دیواروں کو رگڑتا اپنی منزل جا لگا۔ آج دن کے وقت اس کی انٹری کا انداز یہی تھا، مگر صورت حال بدل جانے کی بدولت اس وقت وہ مجھے خوشی سے نہال کر گیا۔ اس نے اپنے سٹروکس کو جاری رکھتے ہوئے میرے ہونٹ اور گردن کو چومنا شروع کر دیا، جس سے میں مست ہوتی گئی۔ میں اس کے طاقتور جھٹکوں کا جواب دیتی رہی۔ سمیر نے سرگوشی کی، "بھابھی، اتنی شوق سے تو تم نے کبھی نہیں چدوایا، کہیں آج مچھلی تو نہیں کھا لی تو نے؟" میں نے اس کے ہونٹوں کو چوم لیا، وہ نادانستگی میں میری تعریف کر رہا تھا۔ اس کے دھکوں میں تیزی آتی گئی، ادھر میرا مزا پھر اٹھنے لگا اور چوت کے اندر رس رسنے لگا تو سلپری سی بن گئی، جس سے اس کی اسپیڈ میں اور اضافہ ہونے لگا۔ میں لذت سے مغلوب ہو کر سر پٹخنے لگی، میرے ہاتھ اس کی کمر کھرچنے لگے۔ سمیر کی سانسوں کی آواز سارے کمرے میں سنائی دینے لگی، اس کے پسینے کی بو نے مجھے مدہوش کر دیا۔ سمیر آخری سٹروکس کھیلتے ہوئے ڈکراتے ہوئے مجھ پر ہی گر گیا اور میں بے خودی میں اسے چومنے لگی۔ اس لن کے نکلے گرم گرم لاوے نے مجھے بھر کر مجھے سکون کی وادی میں پہنچا دیا تھا۔ میں کچھ دیر کے لیے غنودگی میں چلی گئی۔ اتنے میں سمیر میرے پہلو میں آ لیٹا اور مجھے سینے کے ساتھ بھینچ لیا۔ میری کمر کے پیچھے ہاتھ پھیرتے ہوئے سرگوشی کرتے ہوئے بولا، "بھابھی، ان پندرہ دنوں میں ایسی چدائی تم نے کہاں سے سیکھی، اتنا مزا تو کبھی نہیں آیا، اب تو روز لیا کروں گا تمہاری گھر میں جا کر۔" سمیر نے کہا تو میں نے اس کے ہونٹوں پر بوسہ دیا اور اس کے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر بیڈ سے نیچے اتری اور ٹٹول کر اپنی چادر ڈھونڈ کر اپنے اوپر لے کر دروازے کی چٹخنی کھولنے لگی تو سمیر نے لائٹ آن کر دی۔ مجھے حیرنگی سے دیکھتے اس کے منہ سے "زینت باجی آپ؟" نکلا۔ میں چٹخنی اتار چکی تھی۔ وہ میرے نزدیک تھا۔ میں نے قہر آلود نظروں سے اسے دیکھا اور زنٹے دار تھپڑ اس کے گال پر جڑ دیا۔ اور تھپڑ کی گونج میں اسے ہکا بکا چھوڑ کر دروازہ کھول کر باہر آ گئی۔ اور ہولے ہولے بڑے آرام سے چلتے اپنے کمرے میں آئی۔ دروازہ بند کر کے میں نے چادر اتار پھینکی اور برہنہ ہی بیڈ پر گر گئی۔ سمیر کے چہرے پر رسید کیے ہوئے اپنے ہی تھپڑ کی آواز ابھی تک میرے کانوں میں گونج رہی تھی۔

میں مسکرا دی اور نیند کی آسودہ آغوش میں ڈوبتی چلی گئی۔

 


ایک تبصرہ شائع کریں (0)
جدید تر اس سے پرانی