میرے پاپا ایک دولتمند اور مشہور بزنس مین ہیں ۔ میرے پاس خود کا کافی سرمایہ تھا، لیکن مجھے شاہد سے محبت ہوگئی جو میرا یونیورسٹی فیلو تھا اور بعدمیں ایک پروفیسر بن گیا ۔وہ ایک عام انسان تھا مگر میری محبت تھا۔بہت ہی دھمیے مزاج اور خوبصورت نیچر کا شاہد میری جان بن گیاتھا۔ ہماری شادی محبت کی شادی تھی، اور میری ضد پرپاپا نے ہار مان کر ہماری شادی کروا دی تھی۔ شاہد کا روزمرہ کا پروگرام بہت مصروف تھا، کالج سے واپس اور پھر ٹیوشن میں بزی ۔میں ان سے بہت کہتی کہ یہ میری ساری دولت کس کی ہے ؟ ۔آپ کوئی بزنس کرلیں مگر وہ اتنا خوددار تھا کہ اس نے ایک پائی بھی مجھ سے لینے سے انکار کردیاتھا۔اس کی خوداری قابل تعریف مگر اس سب میں میرا بہت بڑا نقصان ہورہاتھا۔ہمارے درمیان بہت کم سیکس ہونے لگاتھا۔میں ایک خوبصورت جوان اور انتہائی سیکسی لڑکی تھی ۔جو سیکس کے بغیر رہنے کا تصور بھی نہیں کرسکتی تھی ۔مگر شاہد کو میرے ان جذبات کی کوئی پرواہ نہیں تھی ۔میں اگر زبردستی بھی ان پر چڑھ جاتی تو وہ کچھ دیر میری چوت میں گھسے مار کر فارغ ہوجاتے ۔اور میں پیاسی رہ جاتی ۔ میں شاہد سے لڑتی تو جواب میں وہ بس ہنستے مسکراتے رہتے ۔میں اول فول بکنے لگتی تب بھی وہ غصے میں نہیں آتی ۔بس شاہد کی ان ہی باتوں کی میں دیوانی تھی ۔مگر اپنی گرم چوت کا کیا کرتی جو موٹے لن سے چدنے کے لیے بے قرار تھی ۔
جولائی کا مہینہ تھا۔ انہی دنوں ان کا بھائی مجاہد بی اے مکمل کرکے ہمارے گھر آ گیا تھا۔ میرے شوہرتو اب چدائی میں زیادہ دلچسپی نہیں دکھاتے تھے، لیکن جوانی کے تقاضے تھے۔ بغیرچدائی کے میری بےقرار جوانی تڑپنے لگی تھی۔ میری عادت تھی کہ مجھے آرام پسند تھا، اور خالی وقت میں میرے دماغ میں جنسی خیالات زیادہ آتے تھے۔ دولت کی زیادتی بھی عیاشی کی ایک وجہ بنتی ہے۔ اکثر میری نگاہیں ہر لڑکے کی پتلون کے اندر تلاش کرتی تھیں۔ مجاہد کے آنے کے بعد میری ہوسناک نظریں اس کی طرف اٹھنے لگی تھیں۔
وہ ایک بھرپور جوان لڑکا تھا۔ جب وہ رات کو پاجامہ پہنتا، تو اس کے گول مٹول چوتڑ میرے دل کو چھو جاتے تھے۔ اس کے لن کا ابھار میرے دل میں ہوس کا طوفان برپا کر دیتا تھا۔ اسے دیکھ کر میں بےقرار ہو جاتی تھی۔ میں سوچتی کہ کب وہ دن آئے گا جب میری خواہش پوری ہوگی۔ مجھے پتہ تھا کہ پڑوس کی لڑکی تانیہ کو وہ دل ہی دل میں پسند کرتا تھا۔ چنانچہ تانیہ ہی میرا ذریعہ بنی۔
میں نے مجاہد اور تانیہ کو ملوانے کا منصوبہ بنایا۔ مجاہد، تانیہ تمہیں پوچھ رہی تھی، کیا بات ہے؟ سچ، بھابھی؟ وہ کیا کہہ رہی تھی؟ کہتی تھی کہ بڑی تڑپ اٹھ رہی ہے۔ ملے گا اس سے؟ بس ایک بار ملوا دو، پھر جو آپ کہو گی، میں کروں گا! سوچ لے، جو کہوں گی، وہ کرنا پڑے گا! میں ہنسنے لگی۔
میں نے مجاہد کو تانیہ سے ملوایا۔ تانیہ ایک خوبصورت ، چنچل اور چالاک لڑکی تھی۔ اس کے کئی عاشق تھے، اور وہ پہلے بھی کئی بار چد چکی تھی ۔ تانیہ کے کہنے پر میں نے دونوں کو اپنے والے کمرے میں باتیں کرنے کی اجازت دی۔ مجھے پتہ تھا کہ وہ باتیں نہیں، بلکہ سیکس کرنے کی کوشش کریں گے۔
اور ہوا بھی یہی! میں نے چپکے سے انہیں دیکھا۔ وہ دونوں جذباتی ہو کر ایک دوسرے سے لپٹ گئے تھے۔ کچھ ہی دیر میں چوما چاٹی شروع ہو گئی۔ مجاہد نے تانیہ کےمموں پر قبضہ کر لیا اور کپڑوں کے اوپر سے انہیں مسلنے لگا۔ تانیہ کے ہاتھ بھی مجاہد کے لن کو پکڑ چکے تھے۔
میں نے سوچا کہ اگر یہ سلسلہ آگے بڑھا تو تانیہ چد جائے گی، اور ایک بار مجاہد نے اسے چود لیا تو دونوں کے رستے کھل جائیں گے۔اس کی وہ تڑپ نہیں رہے گی جس کی مجھے سخت ضرورت ہے ۔ میں نے دروازے پر دستک دی۔ تانیہ نے دروازہ کھولا۔ اس کی ہوس بھری آنکھیں سب کچھ بیان کر رہی تھیں۔ بس، اب کل ملنا! میں نے کہا۔ تانیہ شرما کر کپڑے ٹھیک کرتی ہوئی باہر نکل گئی۔
مجاہد، اب تو باہر آ جا! بھابھی، ابھی نہیں، ذرا انتظار کرو! تانیہ شرما کر باہر چلی گئی۔ میں مجاہد کو دیکھنے کمرے میں گھس گئی۔ اس کا لن تنا ہوا تھا۔ مجھے دیکھتے ہی وہ گھوم گیا۔ کیا چھپا رہا ہے، مجاہد؟ مجھے بھی تو بتا! کچھ نہیں، بھابھی... اوہو، پہلے بتا تو! میں جان بوجھ کر اس کے سامنے آ گئی۔ ہائے ماں! مجاہد، یہ کیا! میں زور سے ہنس پڑی۔
اس نے شرم سے ہاتھوں سے اپنا لن چھپانے کی کوشش کی۔ مزا آیا نا تانیہ کے ساتھ؟ کیا کیا کیا، بتا؟ کچھ نہیں کیا، بھابھی... تمہارے انداز سے تو پتہ چل رہا ہے کہ کیا کیا! اسے مزا آیا؟
اچانک اس نے میرے کندھوں سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچ لیا۔ ارے، یہ کیا کر رہا ہے؟ چھوڑ، کوئی دیکھ لے گا! اس کی سانسیں تیز ہو گئی تھیں۔ اس نے مجھے کس کر جکڑ لیا۔ مجھے اس کا براہ راست حملہ بہت اچھا لگا۔ بس، بھابھی، کچھ نہ بولو... مجھے کرنے دو... وہ ہانپتا ہوا بولا۔
مجھے اور کیا چاہیے تھا! میں اس کی باہوں میں سما گئی۔ میری چوت کے گرد اس کے تنے ہوئے لن کا لمس ہونے لگا۔ اس کے ہاتھوں نے میرےمموں کو دبا دیا۔ میرے منہ سے آہ نکل گئی۔ میری خواہش اس کے لن کو روکنے کی ہو رہی تھی، لیکن اچانک وہ الگ ہو گیا۔ اوہ، بھابھی، میں یہ کیا کرنے لگا! معاف کر دیں! ایک تو شرارت کی، پھر معافی مانگتا ہے؟ میں نے طنزیہ لہجے میں کہا۔
وہ سر جھکا کر ہنس دیا۔ اس کی ہنسی نے مجھے پھنسالیا۔ اب میں نے ٹھان لی کہ تانیہ کو گھر میں گھسنے نہیں دوں گی۔ شام کو جب شاہد سو کر خراٹے لینے لگے، باہر موسم سہانا ہو گیا تھا۔ بادل گرج رہے تھے، اور تیز بارش ہونے والی تھی۔ ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ رات گہری ہو چکی تھی، اور میرے دل میں شہوت کا شیطان جاگ اٹھا۔ میں نے شاہد کو جھنجھوڑ کر اٹھانے کی کوشش کی، لیکن وہ گہری نیند سوئے ہوئے تھے ۔کتنے تھک جاتے ہیں بے چار ے ۔میں شاہد کے ہونٹ چومنے لگی ۔
میں نے میٹریس لیا اور چھلانگ مارتی ہوئی چھت پر پہنچ گئی۔ ٹھنڈی ہوا بہت اچھی لگ رہی تھی۔ تبھی مجاہد نے آواز دی۔ میں نے نیچے جھانک کر کہا، اوپر آ جا، موسم بہت مست ہے! وہ پاجامہ پہنے چھت پر آ گیا۔ ہوا تیز ہو رہی تھی۔ اس کا لن پاجامے میں تنا ہوا تھا، اور وہ بار بار اسے مسل رہا تھا۔ میں نے سوچا کہ لوہا گرم ہے، اور یہی لوہا میری چوت میں اتر جائے تو میری خواہش پوری ہو جائے گی۔
کیا ہو رہا ہے، دیور جی؟ کس کی یاد آ رہی ہے؟ جی، کوئی نہیں... ہوتا ہے، جوانی میں یہی ہوتا ہے۔ تانیہ کی یاد آ رہی ہے نا؟
میں اس کے قریب آ گئی اور اس کی آستین پکڑ لی۔ اچانک بجلی کڑکی۔ میں جان بوجھ کر سہم کر اس سے چپک گئی۔ ہائے، کیسی زور سے بجلی چمک رہی ہے! اس نے موقع دیکھ کر مجھے جکڑ لیا۔ میں نے نظریں اٹھا کر اس کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں ہوس کے لال ڈورے چمک رہے تھے۔ میں نے اسے اور بےقرار کرنے کے لیے آہستہ سے اسے دور کیا۔ تانیہ کو بلا دوں کیا؟ بھابھی، اتنی رات کو وہ کیسے آئے گی؟
میں نے چھت پر میٹرس بچھایا اور اس پر لیٹ گئی۔ اچھا، دن میں اس کے ساتھ کیا کیا تھا؟ صاف صاف بتا! وہ تو آپ نے اسے... چوم لیا تھا، ہے نا؟ پھر اس کے مموں پر تیری نظر پڑی!
تبھی بارش کی ہلکی بوندیں گرنے لگیں۔ میں ٹی شرٹ اور ٹراؤزر میں تھی، اور بھیگنے لگی۔ آپ کو کیسے پتہ؟ ضرور آپ نے چھپ کر دیکھا! جوانی میں تو یہی ہوتا ہے!
بارش تیز ہو گئی۔ میں بھیگ چکی تھی۔ بھابھی، اٹھو، نیچے چلیں! تبھی بجلی زور سے چمکی، اور تیز بارش شروع ہو گئی۔ میں نے ہاتھ پاؤں پھیلا دیے۔ دیور جی، تن میں آگ لگی ہے، بدن جل رہا ہے۔ بارش اور تیز ہونے دو!
میں نے مجاہد کا ہاتھ پکڑ لیا۔ وہ بھیگتا ہوا مجھے دیکھنے لگا۔ اس نے اچانک میرے گال سہلائے۔ اس کے ہونٹ میرے قریب آئے، میری آنکھیں بند ہونے لگیں۔ اس کا تنا ہوا لن میری چوت پر گڑنے لگا۔ اس کے ہاتھ میرے چوتڑوں پر آ گئے اور انہیں سہلانے لگے۔
پانی سے تر ہو کر میں تڑپ اٹھی۔ دیور جی، بس اب چھوڑ دو! بھابھی، ایسا نہ کہو، میرے دل میں بھی آگ لگ گئی ہے! دیکھ، ایسا نہ کر! میں تجھے تانیہ سے بھی زبردست لڑکیوں سے ملواؤں گی، ان کے ساتھ جو چاہے کر، پر اب ہٹ جا! پر بھابھی، آپ جیسی کہاں سے لاؤں گا؟
اس کی باتیں مجھے زخمی کر رہی تھیں۔ میری چوت بھی اب گیلی ہو چکی تھی۔ مجاہد، پلیز، آنکھیں بند کر اور میٹرس پر لیٹ جا! اس نے میری بات مان لی اور میٹرس پر لیٹ گیا۔ میں نے اس کے تنے ہوئے لن کو انڈروئیرکے اوپر سے دیکھا اور آہستہ سے اس کا انڈروئیر اتار دیا۔ اس کا لہراتا ہوا لن میری آنکھوں کے سامنے جھوم اٹھا۔ اس کا سرخ ٹوپا مجھے بےقرار کر رہا تھا۔
بھابھی، کیا کر رہی ہو؟ اب مجھ سے برداشت نہیں ہوگا! بارش زور پکڑ چکی تھی۔ بادلوں کی گرج سے میرا دل بھی لرز رہا تھا۔ تو کیا کر لے گا؟ دیکھو، بھابھی، بس کرو، ورنہ میں آپ کو چود دوں گا! ہائے رے! بول دے نا، تجھے میری قسم!
میں نے اس کا تنا ہوا لن پکڑ لیا۔ وہ گرم اور سخت تھا۔ میرا دل مچل اٹھا۔ میں نے اپنا اپناٹراؤزر اور شرٹ اتارپھینکی ۔میں فل ننگی ہوگئی ۔مجاہد میرے خوبصورت جسم کو دیکھ کر دنگ رہ گیا۔میں مجاہد کے تنے ہوئے لن پر بیٹھ گئی ۔ اور اپنی گیلی چوت کو اس کے موٹے ٹوپے پر رکھ دیا۔ میری چوت میں ایک میٹھی گدگدی ہوئی، اور اس کا لن میری چوت میں سماتا چلا گیا۔ اچانک بجلی کڑکی، اور مجاہد کا صبر ٹوٹ گیا۔ اس نے مجھے دبا کر پلٹ دیا۔
اب وہ میرے اوپر تھا۔ اس کا سخت لن میری چوت کو چیرتا ہوا اندر تک بیٹھ گیا۔ میں نے زور لگا کر اسے جڑ تک گاڑ دیا۔ دونوں کے جسم تڑپ اٹھے۔ اس کے جھٹکوں سے میرا بدن جیسے آگ بن گیا۔ مجاہد آنکھیں بند کر کے مجھے چودتا رہا۔
ہوس کی شدت سے میں جلد ہی عروج پر پہنچ گئی اور میرا بدن اکڑ کر جھڑ گیا۔ مجاہد بھی جلد ہی عروج پر پہنچا اور اس کے لن نے پانی چھوڑ دیا۔ ہم دونوں تھک کر ایک دوسرے کے پاس لڑھک گئے۔
بارش اب بھی زوروں پر تھی۔ مجاہد پھر سے مجھ سے چپک گیا۔ اس کا لن دوبارہ سخت ہو گیا اور میری چوت میں اتر گیا۔ میں ایک بار پھر چدنے لگی۔ بارش تھم گئی، اور ہم دونوں نڈھال ہو کر لیٹ گئے۔
پھر ہم نیچے آئے، نل کے نیچے غسل کیا، اور میں اپنے کمرے میں جا کر شوہر کے پاس سو گئی۔ صبح دیر سے نیند کھلی۔ رات کا واقعہ خواب سا لگا، لیکن میری چوت کی حالت سے یقین ہو گیا کہ میں واقعی چدی تھی۔ مجاہد بھی شرماتا ہوا مجھ سے چھپنے کی کوشش کر رہا تھا۔
اب مجھے پتہ چل گیا تھا کہ مجاہد اب تانیہ کو نہیں، بلکہ مجھے پسند کرنے لگا تھا۔ تانیہ کو وہ بھول گیاتھا۔میری گرم چوت کا وہ عاشق بن گیاتھا۔ہم ہرروز چدائی کرتے ہیں ۔شاہد بھی یہ بات جانتا ہے مگر خوش ہے کہ اس کا بھائی اور میرا دیوار میری چوت کا رکھوالا بن گیا ہے ۔