میں ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہتا ہوں اور ہمارا مکان
پرانا ہے!
بات 1995 کی ہے جب میں بارہویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ ہمارے گاؤں میں ایک آدمی پوسٹ
مین کی ڈیوٹی پر منتقلی کے بعد آیا ہوا تھا۔ اس کی تین سال پہلے شادی ہوئی تھی اور
اس کی ایک دو سال کی بچی بھی تھی۔ اس کی عمر تقریباً 30 سال اور اس کی بیوی کی عمر
20 سال تھی۔ بھابھی کا نام عاصمہ
تھا اور وہ دیکھنے میں بالکل گوری، خوبصورت، 5 فٹ 1 انچ
اونچائی، 36 انچ کی چھاتی، 30 انچ کی کمر اور 38 انچ کے خوبصورت اور سیکسی چوتڑ ۔ انہوں
نے میرے گھر سے ملحقہ میرے ہی رشتہ دار کا گھر کرایے پر لیا تھا۔
گاؤں کے گھروں کے بارے میں بتاؤں تو میرا اور ان کا گھر آپس میں ملحق تھا۔ درمیان میں صرف ایک مٹی کی دیوار تھی جس کے اوپر کی طرف بانس کی ٹاٹ لگی ہوئی تھی، جس سے ایک طرف کا دوسری طرف سے کچھ بھی دیکھا جا سکتا تھا۔
اب انہیں دو ماہ گزر چکے تھے، جس کی وجہ سے ان سے ہمارے اچھے تعلقات بن گئے تھے۔ روزانہ کسی نہ کسی بات پر میری بھابھی سے بات چیت ہوتی رہتی تھی۔ ان کا شوہر ہر ہفتے اور اتوار کو اپنے گاؤں جاتا تھا۔ تب وہ بھابھی کی دیکھ بھال کے لیے ہمارے گھر والوں سے کہہ کر جاتا تھا۔
ایک بدھ کا دن تھا۔ میرے گھر والے ایک رشتہ دار کی شادی کے لیے ان کے گاؤں گئے ہوئے تھے، اور میں اپنے امتحان کی وجہ سے اکیلا گھر پر تھا۔ رات دس بجے میں نے اپنی پڑھائی ختم کی اور سونے چلا گیا۔ تھوڑی ہی دیر بعد مجھے بھابھی کے گھر سے سسکیوں کی آواز سنائی دی — آہ… آہ… ہمم… ایسی آواز تھی جیسے اندر چدائی ہو رہی ہو!
آواز سنتے ہی میرا لنڈ کھڑا ہونا شروع ہو گیا، اور میں یہ دیکھنے کے لیے بے تاب ہو گیا کہ اندر کیا ہو رہا ہے۔ میں نے ایک بنچ اٹھایا، اسے دیوار سے چپکا کر اس پر کھڑا ہو گیا اور اندر جھانکنے لگا۔ اندر درمیانی سی روشنی تھی۔ بھیا اور بھابھی ایک ہی پلنگ پر تھے۔ بھیا بھابھی کے مموں کو قمیض کے اوپر سے ہی مسل رہے تھے۔ بھابھی ایک ہاتھ سے شلوار کے اوپر سے اپنی چوت پر ہاتھ گھما رہی تھیں اور دوسرے ہاتھ سے بھیا کا لنڈ ہلا رہی تھیں۔ بھابھی مکمل طور پر گرم ہو چکی تھیں، جس کی وجہ سے ان کی آواز بلند ہو گئی تھی، لیکن 15 منٹ گزرنے کے بعد بھی بھیا کا لنڈ کھڑا نہیں ہو رہا تھا۔
اگلے ہی لمحے بھابھی نے غصے سے بھیا کا لنڈ چھوڑ دیا اور ایک دھکا مار کر انہیں اپنے سے دور کر دیا۔ انہوں نے اپنی قمیض اٹھائی اور پھر شلوار نیچے کرنے لگیں اور اپنی پینٹی گھٹنوں تک نیچے اتار دی۔ واہ، کیا چوت تھی بھابھی کی! بالکل گوری گوری، جس پر ایک بھی بال نہیں تھا! میرا لنڈ تو ایک ہی جھٹکے میں کھڑا ہو گیا تھا، اور دیکھتے دیکھتے میں اپنے لنڈ کو آگے پیچھے کرنے لگا۔
اب بھابھی نے اپنی انگلیاں چوت میں ڈال دیں اور آگے پیچھے کرنے لگیں، جب کہ دوسرے ہاتھ سے اپنی چھاتیوں کو مسل رہی تھیں۔ بھیا یہ سب تماشا بھڑوے کی طرح دیکھ رہے تھے۔ میرا تو دل کر رہا تھا کہ میں بھابھی کو چود ڈالوں اور ان کی جوانی کا سارا رس چوس جاؤں ۔
اب بھابھی اپنے عروج پر تھیں اور زور زور سے انگلی اندر باہر کر رہی تھیں۔ آہ… آہ… کی آواز بھی بڑھ گئی تھی، اور تھوڑی ہی دیر بعد بھابھی جھڑ گئیں۔ انہوں نے اپنی چوت کو کپڑے سے صاف کیا اور بھیا کو گالیاں دینے لگیں۔بھڑوے! تیرے لنڈ میں طاقت نہیں تھی تو شادی کیوں کی؟ کچھ شرم تو کرنی تھی کہ اپنے سے دس سال چھوٹی لڑکی سے شادی کیوں کروں؟ اب میں کس سے اپنی پیاس بجھاؤں؟ تیرا لنڈ تو اب کسی کام کا نہیں رہا!
بھیا نیچے منہ کر کے سب سن رہے تھے، لیکن ان کی بولنے کی ہمت بھی نہیں ہو رہی تھی۔ تھوڑی دیر بعد بھابھی نے اپنی چادر لی اور اوڑھ کر سو گئیں۔
میں اب بھابھی کی تاڑ رکھنےلگا۔جب میں نے بھابھی کو نہاتے ہوئے پہلی بار الف ننگا دیکھاتو میں شہوت سے پاگل ہوگیاتھا۔بھابھی کا جسم بہت ہی خوبصورت تھا ۔ان کے ممے اور گانڈ کو دیکھنے والے کی جان ہی نکال دیتے تھے ۔ان کی چوت تو جیسے قندھاری انار کی طرح تھی ۔بھابھی چدائی کی بہت پیاسی تھیں اور ان کی چوت کی ادھوری پیاس دیکھ کر میرے دل میں بھابھی کو چودنے کی خواہش جاگ اٹھی تھی، اور اس کے بعد میں نے بھابھی کو چودنے کے لیے کوشش شروع کر دی کہ کس طرح بھابھی کو پٹاؤں!
ہر ہفتے کے دن صبح سکول ہونے کی وجہ سے میں دوپہر بارہ بجے تک گھر پہنچ جاتا تھا، اور اس کے بعد میں بھابھی کے گھر جا کر ٹی وی دیکھتا تھا۔ بھیا خطوط بانٹنے کے لیے صبح ہی نکل جاتے تھے اور شام پانچ بجے واپس آتے تھے، اور پھر ہفتے اور اتوار کو دو دن کے لیے اپنے گاؤں چلے جاتے تھے۔
ایک ہفتے کے دن میں اپنے ایک دوست سے سیکسی کہانیوں والی کتاب لے آیا، جس میں رنگین تصاویر بھی تھیں، اور کتاب لے کر بھابھی کے گھر چلا گیا۔ تب بھابھی ٹی وی دیکھنے میں مصروف تھیں۔ میں ایک کرسی پر بیٹھ گیا اور جان بوجھ کر تصویر والا صفحہ بھابھی کی طرف کر دیا۔
تھوڑی ہی دیر بعد سیریل ختم ہوا تو بھابھی کی توجہ میری طرف گئی۔ بھابھی میرے ہاتھ میں کتاب کی تصویر دیکھنے لگیں اور اٹھ کر میرے پاس آئیں اور میری کتاب چھین لی۔
میں بولا، بھابھی، یہ کیا کر رہی ہیں آپ؟ میری کتاب
واپس کرو!
میں جان بوجھ کر ڈرامہ کر رہا تھا۔
بھابھی بولیں، نہیں دیتی! مجھے بھی پڑھنے دو، کیا ہے اس میں؟
میں بولا، بھابھی، یہ اچھی کتاب نہیں ہے، گندی کتاب ہے! آپ پڑھ کر کیا کریں گی؟
بھابھی بولیں، تم پڑھ سکتے ہو تو میں کیوں نہیں پڑھ
سکتی؟
اور یہ کہہ کر انہوں نے وعدہ کیا کہ شام کو پڑھنے کے بعد رات کو کتاب واپس کر دیں
گی۔
میں من ہی من میں خوش ہو رہا تھا کہ میری منصوبہ بندی کام کر رہی ہے اور جلد ہی بھابھی کو چودنے کا موقع مل جائے گا۔
میں بولا، ٹھیک ہے، آپ کو پڑھنا ہے تو پڑھ لیں، لیکن پڑھنے کے بعد مجھے کچھ نہ بولنا کہ اتنی گندی کتاب پڑھتے ہو یا کچھ اور!
بھابھی بولیں، ٹھیک ہے، نہیں بولوں گی! اب جاؤ اور مجھے
پڑھنے دو۔ رات نو بجے آنا، میں تمہیں تمہاری کتاب واپس کر دوں گی!
اور میں ان کے گھر سے چلا آیا۔
رات کو کھانا کھانے کے بعد ٹھیک نو بجے میں بھابھی کے گھر پھر سے گیا۔ بھابھی ابھی کچھ زیادہ ہی سج سنور کر میری ہی راہ دیکھ رہی تھیں۔
میں نے بھابھی سے اپنی کتاب مانگی تو بھابھی بولیں، ہاں، دیتی ہوں، لیکن اس کتاب میں اردو کے بجائے کچھ الفاظ انگریزی میں لکھے ہوئے تھے اور مجھے کچھ الفاظ سمجھ میں نہیں آئے۔ وہ سب آپ نے بتانے ہیں، تب ہی میں کتاب واپس کروں گی!
میں بھی یہی چاہ رہا تھا کہ کسی طرح بھابھی کے ساتھ سیکس کی باتیں کروں تاکہ مجھے انہیں چودنے کا راستہ مل جائے۔
میں بولا، ٹھیک ہے! پوچھیے جو پوچھنا ہے۔ ویسے بھی آج بھیا نہیں ہیں۔ جب آپ کو پوچھنے میں شرم نہیں تو مجھے بتانے میں کیا شرم!
بھابھی نے پہلا سوال پوچھا، اس میں سیمن لکھا ہے، وہ کیا ہے؟
میں بولا، بھابھی، یہ مرد کا پانی ہے جس سے بچے پیدا ہوتے ہیں!
بھابھی نے دوسرا سوال پوچھا، یہ بوبز کیا ہیں؟
میں بولا، بوبز جو آپ کے پاس ہیں!
بھابھی بولیں، کون سے بوبز میرے پاس ہیں؟
میں بولا، جو آپ کی گردن کے نیچے اور پیٹ کے اوپر ہیں!
بھابھی بولیں، میں سمجھی نہیں۔ تم ہاتھ لگا کر بتا سکتے ہو !
میں اسی موقع کی تلاش میں تھا کہ کب بھابھی ناسمجھی والی بات کریں اور اس بہانے سے مجھے بھابھی کو چھونے کا موقع ملے، کیوں کہ ابھی تک میرا لنڈ یہ سب باتیں کرتے کرتے مکمل کھڑا ہو گیا تھا۔
بھابھی نے بھابھی کی لان کی پتلی سی قمیض کو اوپر اٹھایا ۔ ان کے دونوں بڑے بڑے ممے برا کے اندر سے بڑے ہی تنے ہوئے لگ رہے تھے ۔ شاید ان کی برا تنگ ہونے کی وجہ سے ان کے سیکسی ممے اوپر سے نکلنے کی کوشش کر رہے تھے ۔ دونوں مموں کے درمیان پوری کھائی نظر آ رہی تھی۔
بھابھی کی چھاتیوں کو دیکھتے ہی میرا دھیان ان کی چھاتیوں پر ٹک گیا۔ اتنے میں بھابھی نے چٹکی بجائی اور بولیں، ارے مسٹر، آپ جلدی بتائیں، نہیں تو آپ کی کتاب آج ملنے والی نہیں!
میں اندر ہی اندر خوش ہو گیا کہ آج تو بھابھی کی چوت مل ہی گئی، سمجھ لو!
میں نے ایک لمحے کی بھی تاخیر نہ کرتے ہوئے اٹھا اور ان
کی پیٹھ کے پیچھے سے دونوں مموں کو اپنے
ہاتھوں میں لے کر ان کی گردن کو چوم کر بولا، ان کو بوبز بولتے ہیں، بھابھی!
اور میں وہاں سے اٹھ گیا۔
سچ تو یہ تھا کہ بھابھی ہی مجھے جان بوجھ کر اپنی چدائی کے لیے اکسا رہی تھیں۔ورنہ بھابھی ایف اے پاس تھیں ۔ان الفاظ کا مطلب تو انہیں پتا تھا۔
بھابھی بھی اٹھ کر کھڑی ہو گئیں اور اپنی قمیض اتار دی ،اف بھابھی کا ننگا گورا پیٹ اتنے پاس سے دیکھ کر میرا لوڑا فل ٹائٹ ہوگیاتھا۔بھابھی برا اتانے کی کوشش کررہی تھیں ۔ لیکن برا کے ہک پیچھے ہونے کی وجہ سے ان سے برا کھل نہیں رہا تھا۔
میں بولا، بھابھی، آپ یہ کیا کر رہی ہیں؟ آپ برا کیوں نکال رہی ہیں؟۔
بھابھی بولیں، مجھے آپ سے ایک اور سوال پوچھنا ہے، جس کے لیے مجھے اپنا برا کھولنا پڑے گا! آپ ذرا اسے کھول دیں، میرا ہاتھ نہیں پہنچ رہا ہے!
میں بھی یہی چاہتا تھا۔ میں نے ایک لمحے کی بھی تاخیر نہ کرتے ہوئے ان کی برا کے ہک کھول دیے۔ اب تک میرا لنڈ میرے برمودے کے اوپر سے مکمل تنا ہوا دکھ رہا تھا۔ برا کا ہک کھولتے وقت میں نے اپنا لنڈ بھابھی کے گانڈ سے چپکا کر رکھا تھا اور آہستہ آہستہ لنڈ سے گانڈ کو دھکے بھی مار رہا تھا۔
بھابھی کو یہ محسوس ہو رہا تھا، لیکن وہ جان بوجھ کر کچھ بھی نہ بولیں۔ بھابھی نے اپنی برا اپنے ہاتھوں سے الگ کر دی اور میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے نپل کو پکڑوا دیا اور پوچھنے لگیں، اسے کیا بولتے ہیں؟
میں بولا، بھابھی، اسے نپل بولتے ہیں!
اور میں نے نپل کو اپنی انگلیوں سے مروڑ
کر چھوڑ دیا۔
بھابھی بولیں، پلیز، ایسے ہی کرتے رہو نا! اچھا لگتا ہے!
بس، اور کیا، میری تمنا اب پوری ہونے والی تھی! میں بھابھی کے پیچھے کھڑا ہو گیا اور ان کے مموں اور نپل دبانے لگا۔ ساتھ ساتھ میں ان کی گردن کو بھی چوم رہا تھا۔
اب بھابھی مکمل طور پر گرم ہو چکی تھیں۔ انہوں نے اپنے ہی ہاتھوں سے اپنی شلوار اتار دی ۔بھابھی اب صرف سفید رنگ کی پینٹی میں تھیں ۔انہوں نےشہوت بھری نظروں سے مجھے دیکھا اور ایک ہی جھٹکے سے اپنی پینٹی اتار کر بھی پھینک دی ۔اف بھابھی کا گورا جسم الف ننگا ہوگیاتھا۔اب میرا ہاتھ ان کی چھاتیوں کو مسلتا ہوا بیچ بیچ میں ان کی چوت پر بھی آ رہا تھا۔ انگلیوں سے ان کی چوت کی خلیج کو رگڑ رہا تھا۔ پیچھے سے لنڈ ان کی گانڈ کی کھائی میں جگہ بنانے کی کوشش کر رہا تھا۔
بھابھی مکمل طور پر ہوس میں مبتلا ہو چکی تھیں۔ انہوں نے اپنا ہاتھ پیچھے لے جا کر میرے لنڈ کو مروڑنا شروع کر دیا۔ ان کی سانسیں بڑھ گئی تھیں۔
اگلے ہی پل میں نے انہیں اپنی طرف گھمایا اور ان کے مموں کو دباتے ہوئے نپل اپنے منہ میں بھر کر چوسنا شروع کر دیا۔ وہ بھی میرا برمودا اتارنے کی کوشش کرنے لگیں۔
اب وہ میرے ہونٹوں کو چومنے کے لیے بے تاب ہو رہی تھیں۔ تو میں نے اپنے ہاتھوں سے ان کی گردن پکڑ کر ہونٹوں کو جم کر چومنا شروع کر دیا۔ وہ بھی اپنی زبان میرے منہ میں ڈالنے لگیں۔
اب تک ہم دونوں مکمل طور پر چدائی کے لیے تیار ہو گئے تھے۔
15 منٹ کے بعد میں نے بھابھی کو پلنگ پر لٹا دیا اور اپنا برمودا اور ٹرنک اتار کر اپنے لنڈ کو ان کے منہ کے پاس پہنچا دیا۔ بھابھی نے فوراً اسے پکڑ کر اپنے منہ میں بھر لیا اور میرے 6 انچ لمبے اور 2 انچ موٹے لنڈ کو چوسنے لگیں۔ میں بھی بھابھی کے منہ کے اندر آگے پیچھے کر رہا تھا اور ساتھ میں ان کی چھاتیوں اور چوت پر ہاتھ گھما رہا تھا۔
اب تھوڑی دیر کے لیے میں نے بھابھی کو روکا اور ان کو لٹا کر ان کی چوت دیکھنے لگا ۔ واہ… کیا چوت تھی بھابھی کی! بالکل نرم سی، جیسے ابھی تک مہر ہی نہ ٹوٹی ہو۔چوت پر ایک بال بھی نہیں تھا۔بھابھی کو اپنی چوت کلین شیو رکھنے کی عادت تھی ۔ میں نے اپنی ایک انگلی ان کی چوت کے دروازے پر رکھ دی اور اسے اندر ڈال دیا۔ چوت مکمل طور پر گیلی ہونے کی وجہ سے انگلی جانے میں کوئی تکلیف نہیں ہوئی، پر بھابھی کو بڑا مزہ آیا۔
بھابھی بولیں، انگلیاں کیوں، اپنا لنڈ ہی ڈالو ناں! اب برداشت نہیں ہو رہا ہے!
میں نے اپنی انگلی کی رفتار بڑھا دی، جس سے بھابھی مکمل طور پر چدائی کا لطف لے رہی تھیں اور اپنی گانڈ اٹھا اٹھا کر انگلیوں سے اپنی چوت کو چدوا رہی تھیں اور دونوں ہاتھوں سے اپنی چھاتیاں دبا رہی تھیں۔
اب میرا لنڈ بھی چوت میں جانے کے لیے بے قرار ہو رہا تھا۔ میں نے اپنی انگلی نکال لی اور پلنگ پر چڑھ کر بھابھی کے دونوں پیروں کو اپنے کندھوں پر لے لیا اور پورے جسم کو ان کے جسم پر ڈال دیا، جس سے میرے ہاتھ ان کی چھاتیوں پر اور ہونٹ ان کے ہونٹوں پر آ رہے تھے۔
میں نے اپنے لنڈ کو ان کی چوت کے منہ پر رکھا اور ایک زوردار جھٹکا مارتے ہوئے پورا لنڈ چوت میں گھسیڑ دیا۔ بھابھی کے منہ سے ایک زوردار آواز نکلی، اوہ امی … پھٹ گئی… درد ہو رہا ہے!
اب میں دھیرے دھیرے اپنا لنڈ چوت میں اندر باہر کر رہا تھا۔ بھابھی فل لذت میں ڈوبی ہوئیں چدائی کا مزا لے رہی تھیں۔ تھوڑی ہی دیر بعد میں نے اپنی رفتار بڑھا دی تو اس کے ساتھ ساتھ بھابھی کی سسکیاں بھی تیز ہو گئیں۔ پلیز، زور سے چودو مجھے… میرا شوہر نکما ہے سالا… پیاس بجھا دو میری… پلیز، ایسے ہی ہر ہفتے اور اتوار کو چودتے رہنا!
میں اب پورے جوش میں لنڈ کو بھابھی کی چوت میں ٹھوک رہا تھا۔ قریب 20 منٹ کے بعد بھابھی اور میں دونوں جھڑ گئے۔ میرا پورا ویرے بھابھی کی چوت میں چلا گیا اور قریب 5 منٹ تک ہم ایسے ہی لیٹے رہے۔
اس رات میں نے بھابھی کو دو بار اور چودا۔ اگلے دن میں نے بھابھی کی چوت چاٹ کر بھابھی کا پانی بھی پیا اور رات بھر بھابھی کو تین بار چودا۔
ایسا قریب چھ ماہ تک چلا۔ بھابھی حاملہ ہو گئی تھیں۔ میں نے اپنے دوستوں کو بھی بھابھی کو پٹانے کے لیے کہا اور میرے تین دوستوں نے بھی لائن لگا کر بھابھی کی جم کر چدائی کی۔ کبھی کبھی تو میں اور میرا چچا زاد بھائی دونوں مل کر رات بھر بھابھی کو چودتے تھے۔
لیکن کچھ دنوں بعد بھیا کو بھابھی کی چدائی کے بارے میں پتہ چل گیا اور وہ ہمارا گاؤں چھوڑ کر دوسرے گاؤں چلے گئے۔
میں دوپہر کو اس گاؤں میں جا کر بھی بھابھی کو چودتا رہا اور کچھ ہی دن بعد اسی گاؤں کے لوگوں نے بھی بھابھی کی چدائی کی۔
عاصمہ بھابھی کی ہوس اتنی بڑھ گئی تھی کہ وہ اب اپنے شوہر کا بھی لحاظ نہیں کرتی تھیں، جس کی وجہ سے ان میں آئے دن جھگڑے ہوتے تھے۔
ایک دن تو ایسا آ گیا کہ بھیا اپنی ڈیوٹی چھوڑ کر اپنی لڑکی اور چھوٹے لڑکے کو لے کر اپنے گاؤں چلے گئے اور بھابھی اپنے مائیکے چلی گئیں۔ لیکن وہاں پر بھی وہ رہ نہ سکیں اور آخر ہوس کی وجہ سے جنسی دھندہ کرنے لگیں۔ہرروز نئے لن سے چدنے کا بھابھی کو بے انتہا مزا آنے لگا۔تب ہی بھابھی کی ہوس پرسکون ہوئی۔