ڈاکٹر صاحب اور ان کی بیوی

 

میرا نام روبی خان ہے۔ میری عمر 38 سال ہے، اور میں کراچی میں رہتی ہوں۔ میں شادی شدہ ہوں۔ میرے شوہر کا نام پرویز خان ہے۔ ان کی عمر 40 سال ہے۔ وہ ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں نوکری کرتے ہیں۔ ہماری شادی شدہ زندگی بہت اچھی گزر رہی تھی۔ لیکن ہمارا کوئی بچہ نہیں تھا۔ بہت کوشش کرنے کے بعد بھی ہماری کوئی اولاد نہیں ہوئی۔

ایک دن ہمارے پڑوس میں ایک ڈاکٹر اور ان کا خاندان رہنے آیا۔ ان کا نام ڈاکٹر احمد اور ان کی بیوی کا نام صائمہ تھا۔ ان کا ایک لڑکا بھی تھا، جو ہاسٹل میں پڑھائی کر رہا تھا۔

ایک دن میرے شوہر نے ان لوگوں کو ڈنر کے لیے بلایا۔ میں نے ڈنر تیار کیا، اور پھر وہ لوگ آ گئے۔ کافی وقت باتیں کرنے کے بعد ہم نے ڈنر کیا، اور پھر کچھ دیر باتیں کیں۔ میرے شوہر نے کہا-

شوہر: ڈاکٹر صاحب، آپ بہت اچھے لوگ ہیں۔ ہمارے ایک بار بلانے پر آپ آ گئے۔

ڈاکٹر احمد: یہ تو گھر کی ہی بات ہے۔ پڑوسی سے نزدیکی اور ہوتا ہی کون ہے؟ ویسے آپ لوگ بھی ہمیں اچھے لگے۔ بھابی جی کے ہاتھ کا کھانا بہت اچھا تھا۔

میں: شکریہ بھائی صاحب۔

صائمہ (ڈاکٹر کی بیوی): بھابی جی، آپ کے بچے نہیں ہیں کیا؟

میں: نہیں بھابی جی، اوپر والے  نے میری گود سونی ہی رکھی ہے۔

ڈاکٹر احمد: کوئی ٹریٹمنٹ یا کوئی دوائی ٹرائی نہیں کی آپ لوگوں نے؟

شوہر: سب کرکے دیکھ لیا، پر رزلٹ زیرو ہی تھا۔

ڈاکٹر احمد: میں آپ کو ایک ہومیوپیتھک دوائی دیتا ہوں۔ آپ دونوں 3 گولی صبح شام کھائیں، رزلٹ ضرور ملے گا، اور بھابی جی آپ کی گود سونی نہیں رہے گی۔

انہوں نے ہمیں ایک ڈبی میں گولیاں دیں، اور ان کے بتائے مطابق ہم نے وہ لیں، اور بچے کے لیے کوشش کی۔ اس گولی کا اثر واقعی ہوا، اور میں حاملہ ہو گئی۔ ہم نے ڈاکٹر اور ان کی بیوی کا بہت احسان مانا اور ان کا شکریہ کیا۔

دیکھتے ہی دیکھتے 9 مہینے ہو گئے، اور پھر میں نے ایک لڑکی کو جنم دیا۔ ہم سب بہت خوش تھے۔ ڈاکٹر صاحب کی فیملی بھی ہمارا ساتھ دے رہی تھی۔ میری ساری مدد کر دیتے تھے وہ لوگ۔

اب ہماری بیٹی 6 ماہ کی ہو چکی تھی، تو ڈاکٹر کی بیوی صائمہ مجھ سے بولی-

صائمہ: روبی، بچی ابھی تمہارا دودھ نہیں پیتی کیا؟

میں: نہیں بھابی جی، ابھی نہیں پیتی۔

صائمہ: تو پھر تمہیں تکلیف ہوتی ہو گی؟

میں: ہاں ہوتی ہے۔ چھاتیوں میں بہت درد ہوتا ہے۔

صائمہ: پھر کیا کرتی ہو؟

میں: میرے شوہر سارا دودھ پی جاتے ہیں۔

صائمہ: ہاں یہ ٹھیک ہے۔ میرے بیٹے نے جب دودھ چھوڑا تھا تب ڈاکٹر صاحب بھی میرا دودھ پیا کرتے تھے۔

ہم ایک فیملی ہو گئے تھے۔ سارے سکھ دکھ شیئر کرتے تھے۔ ایک دن میرے شوہر کی کمپنی نے انہیں 4 ماہ کے لیے لاہور بھیج دیا تھا، اور اگلے دن ہی نکلنا تھا۔ تو انہوں نے ڈاکٹر فیملی میں بتایا، تو ڈاکٹر کی بیوی بولی-

صائمہ: آپ بے فکر ہو کر جائیں، ہم ہیں یہاں۔

شوہر بے فکر ہو کر چلے گئے۔ صائمہ میرے ساتھ ہمیشہ رہتی تھی، میری مدد کرتی تھی۔ جب میری چھاتیوں میں درد ہوتا تو میں اسے بول دیتی۔ وہ بولی-

صائمہ: اگر تمہیں برا نہ لگے تو میں مدد کر دوں؟

میں: آپ کیسے مدد کریں گی؟

صائمہ: اگر میں ڈاکٹر صاحب سے کہوں کہ وہ تمہاری چھاتیوں کا دودھ پی لیں تو؟

میں شاک رہ گئی۔

میں: یہ کیا کہہ رہی ہیں آپ؟ ڈاکٹر صاحب کیسے میری چھاتیوں کا اپنے منہ سے دودھ پی سکتے ہیں؟

صائمہ: تمہارا درد کم ہوگا، اسی لیے کہہ رہی تھی۔

میں: پر ایسے کیسے میں ڈاکٹر صاحب کے سامنے اپنی چھاتی کھول کر دکھا سکتی ہوں؟ نہیں بھابی جی، ایسا نہیں کر سکتی میں۔

صائمہ: تکلیف ہو گی روبی، اسی لیے کہہ رہی ہوں۔

میری نائٹی پر سے چھاتیوں پر گیلی ہونے لگی تھی۔ میری نائٹی بھیگنے لگی تھی۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کروں۔ تبھی اچانک ڈاکٹر صاحب آ گئے اور آ کر صائمہ کے برابر میں بیٹھ گئے۔ ان کی نظر میری گیلی نائٹی پر پڑی۔ میں نے اندر برا بھی نہیں پہنی تھی۔

وہ مجھے دیکھ کر بولے: ارے یہ کیا روبی، تمہاری نائٹی تو دودھ سے گیلی ہو گئی۔

صائمہ: وہی میں روبی کو سمجھا رہی تھی کہ آپ سے مدد لے لے۔ پر وہ منا کر رہی ہے۔

ڈاکٹر احمد: روبی اس طرح تو تمہیں درد ہوتا رہے گا۔

میں: پر میں کیسے آپ کے سامنے اپنی چھاتی کو دکھاؤں؟

ڈاکٹر احمد: صائمہ بھی یہاں ہے۔ کوئی پرابلم نہیں ہے۔

میں درد کی وجہ سے بولی-

میں: ٹھیک ہے، پر آپ لوگ پرویز کو اس بارے میں کچھ نہیں بتانا۔

ڈاکٹر احمد: بالکل نہیں، میں سمجھ سکتا ہوں تم کیا کہنا چاہتی ہو۔ اب اپنی نائٹی اوپر کرو۔ میں تمہارا دودھ پی لیتا ہوں۔

میں نے ہچکچا کر دھیرے سے اپنی نائٹی اوپر کی۔ اب صائمہ اور ڈاکٹر کے سامنے میری دونوں چھاتیاں تھیں، جن کے نپلز پر دودھ کی بوندیں تھیں۔

ڈاکٹر احمد: ارے صائمہ، روبی کی چھاتیاں تو تمہاری چھاتیوں سے بڑی ہیں۔

صائمہ: اچھا جی۔

میں: نہیں بھابی جی، آپ کی چھاتیاں مجھ سے بڑی ہیں۔

ڈاکٹر احمد: ابھی دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ صائمہ ذرا اپنی بھی نائٹی اٹھا کر دکھاؤ۔

صائمہ نے بھی اپنی نائٹی اوپر کی اور اپنی چھاتیاں کھول کر میرے برابر میں بیٹھ گئی۔ پھر بولی-

صائمہ: سچ میں روبی، تمہاری چھاتیاں میری چھاتیوں سے بڑی ہیں۔

میں: تو کیا ہوتا ہے؟

صائمہ:ارے تمہیں کیا پتا مرد بڑی چھاتیوں کے کتنے دیوانے ہوتے ہیں ۔ جیسے ہمارے ڈاکٹر صاحب ۔وہ ہنسنے لگی ۔

ڈاکٹر احمد: اچھا چلو اب میں روبی تمہارا دودھ پی لیتا ہوں۔

ڈاکٹر صاحب اپنے منہ کو میرے نپلز پر رکھ کر میرا دودھ پینے لگے۔شروع میں درد ہو رہا تھا۔ بعد میں درد کم ہو گیا۔ اور مجھے فل مزا آنے لگا۔میں نے اپنی آنکھیں بند کر لی تھیں۔ میرے ہاتھ اپنے آپ ڈاکٹر صاحب کے بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگے، اور میں گرم ہونے لگی تھی۔ صائمہ مجھے اس طرح دیکھ کر اچانک بولی-

صائمہ: روبی یہ میرے شوہر ہیں، تیرے نہیں۔

اور ہسنے لگی۔ میں نے ابھی آنکھیں کھولیں اور اپنا ہاتھ ڈاکٹر صاحب کے بالوں سے ہٹا لیا اور بولی-

میں: سوری بھابی  ، میں تھوڑا

صائمہ:  ہنستی ہوئی بولی سمجھ گئی میں۔

ڈاکٹر صاحب  ابھی بھی میری چھاتیوں کو چوس رہے تھے۔ -

صائمہ: اب کیا روبی کو اور گرم کرو گے؟ میں بھی چھاتی کھول کر بیٹھی ہوں برابر میں۔ روبی کی چھاتی چوستے ہوئے دیکھ کر مجھے بھی من کر رہا ہے۔ میری بھی چوس لو۔

ڈاکٹر صاحب ہنسے اور میری چھاتیوں سے منہ ہٹا کر صائمہ کی چھاتیوں کو چوسنے لگے۔ میں انہیں بس دیکھ رہی تھی۔ تبھی ڈاکٹر صاحب نے میری چھاتیوں کو دبانا شروع کر دیا۔ مجھے بھی اچھا لگنے لگا۔ میں بس آنکھیں بند کرکے فیل کر رہی تھی۔ صائمہ نے مجھے دیکھا اور بولی

صائمہ: واہ ڈاکٹر صاحب، روبی کا بھی دبا رہے ہو۔

ڈاکٹر احمد: اب کیا کروں، اتنی بڑی  اور سیکسی چھاتیاں کبھی دیکھی نہیں، اسی لیے ہاتھ چلا گیا روبی کی چھاتیوں پر۔

میں: کوئی بات نہیں، اب مجھے درد نہیں ہو رہا ہے۔

ڈاکٹر: کیسے ہوگا، میں نے تمہارا سارا دودھ پی لیا ہے۔

صائمہ: اب مجھ سے رہا نہیں جا رہا ہے۔ ڈاکٹر صاحب چلو چدائی کر لیتے ہیں۔

میں وہیں بیٹھی تھی، تب ڈاکٹر بولے

ڈاکٹر: روبی کیا تم بھی آج ہمارے ساتھ؟

صائمہ: کیا کہہ رہے ہو، روبی کیسے ہمارے ساتھ چدائی کرے گی؟

میں: یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ پیار اور سیکس دو ہی لوگوں میں ہوتا ہے نا؟

ڈاکٹر: ہوتا ہے روبی۔

میں: کیسے ہو سکتا ہے؟

صائمہ: ہاں ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟

ڈاکٹر: اگر تم دونوں تیار ہو تو ہم تینوں ایک ساتھ سیکس کر سکتے ہیں۔

میں: میں نے پہلے کبھی شوہر کے علاوہ اور کسی کے ساتھ سیکس نہیں کیا۔

صائمہ: اس سے پہلے تم نے کبھی اپنا دودھ بھی تو کسی اور کو نہیں پلایا تھا۔ چلو نہ، ٹرائی کرتے ہیں۔

میں: پر پرویز کو کبھی پتا نہ چلے؟

ڈاکٹر: کسی کو کچھ پتا نہیں چلے گا۔

میں بھی تیار ہو گئی۔ اب میں اور صائمہ ڈاکٹر صاحب کے سامنے اپنی نائٹی اتار دی۔ ڈاکٹر صاحب ہمیں اس طرح دیکھ کر بولے-

ڈاکٹر: میں نے کوئی اچھا کام کیا ہوگا، اسی لیے مجھے دو دو خوبصورت عورتوں کو چودنے کا موقع مل رہا ہے۔

صائمہ: اب گھورتے ہی رہیں گے یا شروع بھی کریں گے؟

میں: ہاں ڈاکٹر صاحب، شروع کیجیے۔ آپ نے میرا دودھ پی کر مجھے گرم پہلے ہی کر دیا تھا۔

ڈاکٹر صاحب ٹائم ویسٹ کیے بغیر میری چھاتیوں کو دبانے لگے اور بولے-

ڈاکٹر: روبی تمہاری چھاتی اتنی بڑی ہے، میرے ہاتھوں میں بھی نہیں آتی ہے۔ مزا آ رہا ہے دبانے میں۔

صائمہ: ڈاکٹر صاحب اپنے کپڑے اتارو۔

ڈاکٹر صاحب نے اپنے کپڑے اتار دیے اور ننگے ہو کر کھڑے ہو گئے۔اف ان کا لنڈ بہت موٹا اور بڑاتھا۔اسے دیکھ کر میرا چوت گیلی ہوگئی ۔ میں نے ان کا لنڈ دیکھ کر اپنی چوت  پر ہاتھ پھیرا اور کہا

میں: ڈاکٹر صاحب، آپ کا لنڈ پرویز کے لنڈ سے بھی بڑا ہے۔ یہ دیکھیے میر ی چوت  گیلی ہو گئی۔

صائمہ: آج ڈاکٹر صاحب ہم دونوں کو جنت کی سیر کرا دو۔

ڈاکٹر صاحب نے میرےبال پکڑ کر مجھے لنڈ کو چوسنے کو کہا۔ میں نے لنڈ کو اپنے ہاتھ میں لے کر اپنے منہ میں ڈال دیا۔ صائمہ صوفے پر کھڑی ہو کر اپنی چھاتیاں ڈاکٹر صاحب سے چسوانے لگی۔ ڈاکٹر صاحب کا لنڈ بہت ٹائٹ ہو گیا تھا۔ میں اور تیزی سے لنڈ کو منہ کے اندر باہر لینے لگی۔ ڈاکٹر صاحب مجھے دیکھ کر بولے

ڈاکٹر: آہ روبی، کتنی اچھے سے منہ میں لیتی ہو تم۔ مزا آ گیا۔ صائمہ دیکھو روبی کو، کتنا اچھے سے لنڈ چوس رہی ہے۔

صائمہ: واہ روبی، بہت مزا آ رہا ہے تم کو دیکھ کر۔ ہٹو اب میں منہ میں لیتی ہوں۔

میں ہٹ گئی اور صائمہ منہ میں لینے لگی۔ میں نے ڈاکٹر صاحب کو دیکھا۔ وہ میری چھاتیوں کو دبا رہے تھے۔ میں ان کے پاس گئی، اور ان کے ہونٹوں پر بوسہ دینے لگی۔ کافی دیر تک اسی طرح کرتے ہوئے ہم تینوں ایک دوسرے سے الگ ہوئے۔

اب ڈاکٹر صاحب صائمہ کو لٹا دیا  اور اس کی چوت چاٹنے لگے۔ صائمہ میرا ہاتھ پکڑ کر اپنی چھاتیوں کو دبوانے لگی، اور میرا سر پکڑ کر بوسہ دینے لگی۔ میں صائمہ کو کسنگ کررہی تھی، اور ڈاکٹر صاحب صائمہ کی چوت چاٹ رہے تھے۔ کافی دیر ایسا کرنے کے بعد ڈاکٹر صاحب نے مجھے لٹا دیا، اور میری چوت چاٹنے لگے۔ اففف، میری چوت پر اس کی زبان کمال کر رہی تھی۔

میں مزے سے تڑپ رہی تھی  ۔صائمہ میری چھاتیوں کو چوسنے لگی۔ اب ڈاکٹر صاحب اٹھے۔ صائمہ اب بھی میری چھاتیاں چوس رہی تھی۔ اب ڈاکٹر صاحب نے اپنا لنڈ میری چوت میں ڈال دیا، اور میں چلا اٹھی۔

میں: آآآہ ہ ہ ڈاکٹر صاحب۔

ڈاکٹر: کتنی نرم چوت ہے تمہاری۔ دل چاہتا ہے تمہیں چودتا ہی رہوں ۔

میں: آہ، مزا آ رہا ہے ڈاکٹر صاحب۔ پرویز نے کبھی اس طرح نہیں کیا۔ اور چودو مجھے، صائمہ تم میری چھاتیوں کو اسی طرح چوستی رہو۔ مزا آ رہا ہے۔

اسی طرح ہم تینوں چدائی کا مزا لے رہے تھے۔ تھوڑی دیر بعد میرا پانی نکل گیا، اور ڈاکٹر صاحب نے بھی اپنا پانی چھوڑ دیا میری چوت میں۔ڈاکٹر صاحب لیٹ گئے اور میں اور صائمہ دونوں ان کا لن چوسنے لگیں ۔ کچھ ہی دیر میں ان کا لنڈ پھر سے ٹائٹ ہوگیا تھا۔ اب ڈاکٹر صاحب نے صائمہ کو لٹا دیا، اور اس کی چوت میں اپنا لنڈ جو ابھی تک تنا ہوا تھا، ڈال دیا۔ وہ صائمہ کو چودنے لگے۔

میں نیچے بیٹھ کر ڈاکٹر صاحب کی گوٹیوں کو منہ لے کر چوسنے لگی۔ ڈاکٹر صاحب صائمہ کو تیزی سے چود رہے تھے، اور میں اٹھ کر ڈاکٹر صاحب کے منہ میں اپنی چھاتی ڈال کر اپنی چھاتی چسوانے لگی۔

یہ تجربہ زندگی میں پہلی بار ہو رہا تھا۔ مزا آ رہا تھا۔ اب صائمہ اور ڈاکٹر صاحب کا پانی نکل چکا تھا۔ ہم تینوں صوفے پر بیٹھ گئے۔ ڈاکٹر صاحب ہم دونوں کے بیچ میں بیٹھ کر، ہمارے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر، ہم دونوں کی چھاتیوں کو دباتے ہوئے بولے

ڈاکٹر: کیسا لگا تم دونوں کو؟

صائمہ: مزا آ گیا، روبی کی چھاتیاں سچ میں کمال کی ہیں، مزا آ گیا چوسنے میں۔

میں: بھابی آپ کی چوت بھی رسیلی ہے، اور ڈاکٹر صاحب کا تو جواب ہی نہیں ہے۔ان کا لنڈ کمال کا ہےاور اتنی اچھی چدائی آج تک پرویز نے نہیں کی۔

ڈاکٹر: ارے کوئی بات نہیں، اسے بھی شامل کر لیں گے۔

میں: تب تو مزا چار گنا ہو جائے گا۔

ڈاکٹر: ٹھیک ہے، آج سے ہم تینوں گھر پر اسی طرح ننگے رہیں گے۔

صائمہ اور میں ہم دونوں خوش ہو گئے۔ خوشی کے مارے صائمہ ڈاکٹر صاحب کو چومنے  لگی، اور میں ان کا لنڈ منہ میں لینے لگی……

اب اگلے حصے میں کیسے میرے شوہر بھی چدائی میں شامل ہوئے، اس کا آپ لوگ مزا لیجیے گا۔ تب تک چدواتے رہیے۔

 


ایک تبصرہ شائع کریں (0)
جدید تر اس سے پرانی