احسان اور قیمت

 

گول باغ کے قریب ٹہلتے ہوئے مجھے احساس ہوا کہ کوئی میرا تعاقب کر رہا ہے۔ یہ محسوس کرتے ہوئے میں نے اردگرد غور کیا تو کچھ فاصلے پر مجھے میلے کپڑوں والا ایک چودہ پندرہ سال کا لڑکا نظر آیا، جس کے سر پر سفید ٹوپی تھی، جو عام طور پر پٹھان پہنتے ہیں۔ اس کی نگاہوں میں عجیب معصومیت تھی، جو مجھے اس کی جانب متوجہ ہونے پر مجبور کر رہی تھی۔ اس وقت شام کے سائے گہرے ہو رہے تھے، بلکہ سموگ کی وجہ سے اندھیرا چھا گیا تھا، مگر ابھی مغرب میں کچھ دیر باقی تھی۔ دل کی اداسی دور کرنے کی خاطر میں گاڑی لے کر گول باغ کی طرف نکل آئی تھی کہ کچھ دیر ٹہلنے کے بعد قریبی ریستوران سے پیزا لے کر شہناز کے پاس چلی جاؤں گی۔ وہ کینٹ میں رہتی تھی۔ میں چند قدم چلنے کے بعد رک گئی اور اس کی جانب دیکھا تو وہ مسلسل مجھے گھور رہا تھا۔ مگر اس کی نگاہوں میں ایک خاص قسم کی التجا تھی۔ میں یونہی واپس مڑی اور اس کے پاس جا کر نرم لہجے میں پوچھا، "کیا بات ہے؟ کوئی پریشانی ہے کیا؟" مجھے قریب آتے دیکھ کر اس کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ وہ بولا تو اس کی بہت ہی سریلی اور پرسوز آواز نے میری سماعتوں میں جیسے رس گھول دیا ہو۔ "جی باجی..." اتنا کہہ کر اس نے نظریں جھکا لیں اور اپنے گلابی ہونٹوں کو دانتوں سے کاٹنے لگا۔ میں نے دوبارہ ہمدردی سے پوچھا، "بتاؤ، کیا پریشانی ہے؟" اس نے اپنی جھکی پلکوں کو اوپر اٹھایا اور میری آنکھوں میں جھانکتے ہوئے انتہائی گلوگیر آواز میں بولا، "باجی... میری امی بیمار ہیں، ان کی دوا لینی ہے۔ میرے بابا فوت ہو گئے ہیں۔" اتنا کہتے ہی اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ یہ سب سن کر میری آنکھیں بھی نم ہو گئیں۔ میں نے جلدی سے پرس کھولا اور پیسے نکالنے لگی تو وہ فوراً بولا، "باجی، مجھے پیسے نہیں چاہئیں، آپ بس دوا لے دیں۔" میں نے کہا، "میں تمہیں دوا کے پیسے دیتی ہوں، تم خود لے لینا۔" اس نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا، "باجی، آپ صرف ایک بار میری امی کو دیکھ لیں۔" اس کے لہجے نے مجھے اس کی جانب کھینچ لیا۔ میں نے اس کی آنکھوں میں غور سے دیکھا تو ان میں التجا اور امید کے چراغ روشن تھے۔ میں نے فیصلہ کیا کہ چلو، آج یہ نیکی ہی کما لوں، شاید دل کا بوجھ ہلکا ہو جائے۔ خیر، میرے پوچھنے پر اس نے گھر کا پتہ بتایا، جو پرانا خانیوال روڈ پر ایک مضافاتی علاقے کا تھا۔ میں اسے لے کر گاڑی میں روانہ ہوئی۔ میں نے پوچھا، "کچھ کھاؤ گے بیٹا؟" تو وہ بس چپ چاپ مجھے دیکھتا رہا۔ میں نے کچھ آگے ایک ریستوران سے بریانی کے دو پارسل لیے اور پھر سے گاڑی آگے بڑھا دی۔ خیر، گھر پہنچنے تک مجھے اس کے بارے میں کافی معلومات مل چکی تھیں۔


میں کافی دنوں سے پریشان تھی، وجہ صرف شاہ میر تھے۔ شاہ میر، میرا سب کچھ تھے۔ گو، سوائے ویڈیو کال اور فون کے، ہم کبھی ملے نہیں تھے۔ ہماری جان پہچان کو چار مہینے ہوئے تھے اور ہم ایک دوسرے سے بہت قریب آ چکے تھے۔ شاہ میر جدہ، سعودیہ میں کسی فرم میں مینیجر تھے۔ پاکستان میں وہ لاہور سے تھے۔ شادی شدہ اور تین بچوں کے باپ تھے۔ فیملی پاکستان میں ہی تھی۔ وہ اکثر نیٹ پر وقت گزارتے تھے۔ میرا ان سے تعلق اسی فورم پر بنا۔ گو وہ مجھ سے عمر میں دگنے تھے، مگر ان کی شخصیت ایسی سحر انگیز تھی کہ جو بھی ان کو دیکھتا، گرویدہ ہو جاتا۔ گفتگو کرنے میں اپنی مثال آپ۔ فورم کی تقریباً ہر باشعور خاتون ان کی گرویدہ تھی۔ بس تنہائی کے لمحوں میں نہ جانے کب ہمیں ایک دوسرے سے اتنا قریب کر دیا کہ دل چاہتا کہ یہ دوری پل بھر میں ختم ہو اور میں اپنے دلدار، میر، کے قدموں میں جا گروں۔ وہ اکثر مجھے اپنی خوبصورت باتوں سے فرمائے رکھتے، جس سے دل میں سلگتی چنگاری بھڑک اٹھتی اور میں بے حال ہو جاتی۔ ایسا کر کے وہ ایک دو دن غائب ہو جاتے، اور جب میری بھڑکتی چنگاری کچھ ٹھنڈی پڑتی، وہ پھر اسے سلگا دیتے۔ اس کی وجہ سے میں اکثر اداس رہنے لگی۔ رات بھی کافی دیر تک میر نے اپنی دلفریب باتوں سے مجھے تڑپایا، بلکہ ویڈیو کال پر مجھے کپڑے اتار کر پیار کرنے کو کہا۔ میں نے انکار کر دیا تو وہ انتہائی شائستہ اور شیریں لہجے میں میری جانب دیکھ کر بولا، "یار ثانیہ، پلیز، آج بس آخری بار دکھا دو اپنا تراشا ہوا حسین شاہکار، خوبصورت چٹانیں، اور خوبصورت صحرا کے عین درمیان سے گزرتی ہوئی ننھی سی جھیل، اور جھیل سے سیراب ہونے والا سنہری گھاس کا گراؤنڈ۔" میر کی آواز نے مجھے جکڑ لیا۔ میں مدہوش سی ہو گئی۔ وہ بولا، "ثانیہ، مجھے سنہری گھاس کو سونگھا دو ناں۔ پلیز، کچھ دیر کے لیے ہی سہی، اپنی ننھی سی جھیل کے نم کناروں کا بوسہ لینے دو ناں۔ جھیل کے نمکین پانی سے ہونٹوں کی مٹھاس اور پیاس بجھانے دو ناں۔ ثانیہ، میرا گھوڑا تمہاری تنی ہوئی چٹانوں کی چوٹی سر کرنا چاہتا، کچھ لمحوں کے لیے ہی سہی۔ کچھ لمحوں کے لیے ہی سہی، اس گونگے پر ترس کھا لو ناں، جان، پلیز۔" میر کی باتوں سے میری جھیل میں تلاطم آ چکا تھا اور وہ فرط جذبات سے لبریز اپنے کناروں کو نمکین پانی سے نم کر چکی تھی۔ میں نے جلدی سے شرٹ اور ٹراؤزر اتار پھینکے اور پھر موبائل کیمرے کے عین سامنے اپنی تنی ہوئی چٹانوں کو دبوچنے اور مسلنے لگی۔ ان میں آگ بھڑک اٹھی تھی۔ اس آگ کی تمازت سے چٹانوں کی چوٹیاں بھی سلگنے لگیں۔ میں نوکیلی چوٹیاں مسلتے ہوئے مست ہو گئی۔ ادھر سے میر بولے، "جان من، فِیل کرو، میں نے زبان کی نوک سے تمہاری سلگتی چوٹیاں چاٹنی شروع کر دی ہیں۔" پھر اس نے زبان نکالی اور شڑاپ شڑاپ کی آواز نکالنے لگا۔ مجھے لگا جیسے واقعی وہ میری چوٹیاں چاٹ رہا ہو۔ میں سسکنے لگی، "آہ... اف... میر، پلیز... نوچ ڈالو ان کو... جلدی سے کھا جاؤ۔" اس کی گرم آواز گونجی، "ہاں میری جان، میں اپنے دانتوں سے تمہارے دلکش پہاڑ کاٹ کاٹ کر کھا جاؤں گا۔" میرا ایک ہاتھ پھسل کر جھیل کے کنارے چلا گیا۔ آس پاس کی بھیگی گھاس سے میری انگلیاں گیلی ہو گئیں۔ میں سسکتے ہوئے بولی، "میر، میرا کیا جرم ہے، جان؟ کب تک یونہی دور سے تڑپاتے رہو گے؟ پاس آ کر مجھے سیراب کر دو ناں۔ بس ایک بار اپنی دیوانی کو سیراب کر دو۔" وہ بولے، "ہاں جان، ایک بار ہی کیوں، زندگی بھر تمہیں سیراب کروں گا، بس اس بار آنے تو دو۔" پھر وہ بولے، "ثانیہ، جھیل کے دیدار تو کراؤ ناں۔ یہ دیکھو میرا گھوڑا کتنا بیتاب ہے جھیل کا گھاس کھانے اور اس میں ڈوب مرنے کے لیے۔" میں نے دیکھا تو میر کا لمبا اور موٹا گھوڑا میری طرف رخ کیے جھٹکے مار رہا تھا اور غصے سے اس کے گول منہ سے رال ٹپک رہی تھی۔ یہ دیکھتے ہی میں بہت بے چین ہو گئی اور تڑپتے ہوئے بولی، "میر، پلیز، مجھے اپنا گھوڑا نہ دکھایا کرو، دن بھر دماغ پر چھایا رہتا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ میں بہک جاؤں۔" میری بات سن کر میر بولے، "چندا، ایسا مت کہو۔ بس کچھ ہی دنوں کی بات ہے، پھر یہ گھوڑا تمہارے ہاتھوں میں ہوگا۔" کافی دیر تک وہ اپنی باتوں سے مجھے سلگاتا رہا اور میں بہلتی رہی۔ آخر کار اس کے گھوڑے نے الٹی کر دی اور پھر کچھ دیر بعد میں سو گئی۔ اگلے دن بس وہی سوچیں تھیں۔


ہم راجہ کے گھر پہنچ چکے تھے۔ راجہ اس بچے کا نک نیم تھا، اصل نام تو ریاض تھا، مگر سب اسے راجہ کہتے تھے۔ باپ مر چکا تھا۔ ماں بیمار پڑی تھی۔ ماں باپ نے گھر سے بھاگ کر شادی کی تھی، اسی لیے ان کا کوئی بھی نہیں تھا جو انہیں پال سکے۔ گھر اپنا تھا، گھر کے باہر چند دکانیں تھیں، جن سے کرایہ آتا اور ان کی گزر اوقات ہوتی۔ مگر علاج کے لیے پیسے نہیں بچتے تھے۔ راجہ کی ماں کا نام تسلیم تھا۔ ہم گھر کے اندر داخل ہوئے۔ کمرے میں ایک طرف بیڈ پر راجہ کی ماں نڈھال پڑی تھی۔ راجہ نے اندر جاتے ہی ماں کے پاؤں چھوئے اور کہا، "امی، دیکھو کون آیا ہے؟" اس کی ماں نے ویران آنکھوں سے میری طرف دیکھا اور راجہ سے پوچھا، "بیٹا، یہ کون ہیں؟" راجہ نے ماں کے پاؤں چوم کر کہا، "امی، یہ باجی آپ کی دوا کے لیے آئی ہیں۔" تو راجہ کی ماں بولی، "آؤ بہن، معاف کرنا، میں اٹھ نہیں سکتی۔" پھر اس نے قریب اشارہ کر کے کہا، "بیٹھو۔ میرا بیٹا راجہ پاگل ہے، اس نے ایویں ہی آپ کو تکلیف دی ہے۔ مجھے کچھ بھی نہیں، بس کچھ دنوں میں ٹھیک ہو جاؤں گی۔" راجہ کی ماں لمبے قد، گورے رنگ کی، خوشحال گھرانے کی لگتی تھی، مگر اس وقت وہ نڈھال پڑی تھی۔ بکھری زلفیں، آنکھوں کے گرد گہرے حلقے، چہرے پر پیلاہٹ تھی۔ میں نے آہستہ سے تسلیم کا ہاتھ تھاما۔ اس کا ہاتھ بہت گرم تھا، بخار کی حدت تھی۔ میں نے کہا، "تسلیم، تم نے بہن کہا ہے ناں، تو اب بس بہن سمجھو بھی۔ چلو اٹھو، شاباش، تمہاری دوا لینے چلتے ہیں۔" پھر میں نے راجہ سے کہا، "تم جب تک بریانی کھا لو، پھر چلتے ہیں ڈاکٹر کے پاس۔" راجہ نے بریانی والا پارسل اٹھایا اور صحن میں چلا گیا۔ میں نے تسلیم سے پوچھا کہ کب سے تمہیں بخار ہے؟ تو اس نے بتایا کہ ایک ماہ ہو گیا ہے۔ محلے کے ڈسپنسر سے کئی بار دوا لی اور سرکاری ہسپتال سے بھی، مگر کچھ فائدہ نہیں ہوا۔ اتنے میں راجہ بریانی پلیٹ میں ڈال کر آیا اور بیڈ پر ماں کے قریب بیٹھ گیا اور کہا، "لو ماں، چاول کھاؤ۔" اس کی ماں بمشکل اٹھ کر بیڈ کی بیک سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی۔ وہ بولی، "بیٹا، تم کھاؤ، مجھے بالکل بھی بھوک نہیں ہے۔" پھر راجہ کے کھانے کے بعد ہم لوگ تسلیم کو سٹی ہسپتال لے آئے۔ ڈاکٹر نے ایڈمٹ کر لیا۔ میں نے پرائیویٹ روم لے لیا تھا اور تسلیم کا ٹریٹمنٹ شروع ہو گیا۔ اسے ڈرپ لگی ہوئی تھی۔ انجیکشن کی وجہ سے وہ گہری غنودگی میں تھی۔ رات کافی ہو چکی تھی۔ روم میں ایک بینچ تھی، جس پر میں اور راجہ بیٹھے تھے۔ راجہ مجھے بار بار تشکرانہ انداز میں دیکھ رہا تھا۔ میں نے سوچا گھر جاؤں، مگر یہاں تسلیم کے پاس راجہ اکیلا تھا۔ خیر، میں نے گھر امی کو بتایا کہ میں دوست کے گھر ہوں، صبح آؤں گی۔ میں نے بینچ کے ایک کونے پر بیٹھے راجہ کو کہا، "تم یہاں سو جاؤ، میں بیٹھی ہوں۔" تو وہ شرماتے ہوئے بولا، "نہیں باجی، مجھے نیند نہیں آ رہی۔" مگر اس کے بوجھل لہجے اور لال ہوتی آنکھیں اس کی چغلی کھا رہی تھیں۔ میں نے اسے پیار سے تھپتھپایا اور کہا، "ادھر آؤ، ایسا کرو، سر میری گود میں رکھ لو اور پاؤں دوسری طرف کر کے لیٹ جاؤ۔" وہ نہ نہ کرتا رہا، میں نے اسے پیار سے سر سے پکڑا اور سلا دیا۔ کچھ دیر بعد وہ بھی نیند کی آغوش میں چلا گیا۔ اب میں اکیلی تھی، کیا کرتی؟ موبائل نکالا تو واٹس ایپ پر میر کا میسج تھا، "چندا، لفٹ ہی کوئی نہیں، کہاں گم ہو؟" میں نے جواباً ساری کہانی سنا دی۔ تو وہ بولا، "بہت اچھا کیا ہے، کسی چیز کی ضرورت ہو تو بتاؤ، رقم وغیرہ کی۔" تو میں نے کہا، "شکریہ میر، مجھے بس آپ کی ضرورت ہے، نہ جانے کب یہ ضرورت پوری ہو گی۔" تو ان کی تصویر آئی، جس میں انہوں نے اپنے گھوڑے کو ہاتھ میں پکڑ کر اس کے گول منہ کو کھول رکھا تھا۔ سوراخ سے جھانکتا سرخ گوشت صاف دکھ رہا تھا۔ یہ دیکھتے ہی میرے ڈھیلے غباروں میں فوراً ہی ہوا بھرنے لگی۔ سانس تیز ہو گئی۔ میں نے جلدی سے سامنے بیڈ کی جانب دیکھا تو تسلیم آنکھیں بند کیے سو رہی تھی۔ پھر راجہ کی طرف دیکھا، وہ بھی بے سدھ سویا ہوا تھا۔ اتنے میں میر نے ایک اور تصویر بھیجی، جس میں اس کے گھوڑے کے پھولے ہوئے منہ پر تھوک لگا ہوا تھا، جو چمک رہا تھا۔ اور گھوڑے کی باڈی پر اس کی رگیں پھولی ہوئی دکھ رہی تھیں۔ ساتھ ہی ٹیکسٹ لکھا تھا، "چندا کی جھیل میں ڈبکی لگانے کے لیے تیار، اس کا غلام۔" سٹی ہسپتال کے روم میں اس وقت ایک مریضہ کے ساتھ موجود، میری فِیلنگز بدلنے لگیں۔ کانوں کی لوئیں تپنے لگیں۔ جسم اکڑنے لگا۔ ٹانگوں کے درمیان سرسراہٹ سی ہونے لگی۔ جھیل کے پانی میں بھی ہلچل سی مچنے لگی اور چند بوندیں چھلک کر گھاس کو سیراب کر گئیں۔ عجیب کشمکش میں تھی۔ میری گود میں سویا راجہ گہری نیند میں تھا۔ میں بے چین ہو گئی تھی اور میر سے کہا، "یار میر، میں اس وقت ہسپتال میں ہوں، پلیز مجھے معاف کر دو۔" اس کا رپلائی آیا، "کیا ہوا چندا؟ میں بھی تو نائٹ شفٹ پر آفس میں ہوں۔ چلو اپنے مسمیوں کے دیدار کراؤ۔" میں نے کہا، "نہیں، ہرگز نہیں۔" تو اس نے کہا، "پلیز، بہت طلب ہو رہی ہے، پلیز۔" مین تو میرا بھی کر رہا تھا، مگر کبھی میں راجہ کو دیکھتی اور کبھی اس کی ماں کو۔ خیر، میں کچھ سوچتے ہوئے اٹھی اور روم سے باہر جھانک کر دیکھا، کوئی بھی نہیں تھا گیلری میں۔ میں نے دروازے بند کر کے کنڈی لگا دی اور پھر بینچ کے کونے پر بیٹھ کر اپنی قمیض اوپر کی اور برا بھی اوپر کر کے ایک سیلفی لی اور میر کو بھیج دی۔ میر نے تصویر دیکھتے ہی ویڈیو کال کی۔ میں نے کہا، "میر، یار آپ خود دیکھ لیں، میں اس وقت کس پوزیشن میں ہوں۔" میر بولے، "چندا، مجھے تو بہت مزہ آ رہا ہے، اس انداز میں دکھاؤ تو اور کون کون ہے ساتھ؟" تو میں نے بیک کیمرے سے تسلیم اور راجہ کو دکھایا۔ راجہ چونکہ میرے قریب سویا ہوا تھا اور اس کا سر میری ران کے قریب تھا، وہ میر کو واضح نظر آیا۔ میر بولے، "چندا، تم نے غور کیا؟" میں نے پوچھا، "کہاں؟" تو وہ بولے، "یہ جو بچہ ہے، کیا نام بتایا تم نے، ہاں راجہ، اس کی ٹانگوں کے درمیان ابھار پر۔" میں ایک دم چونکتے ہوئے موبائل سکرین پر دیکھنے لگی تو واقعی اس میں راجہ کی دونوں ٹانگوں کے درمیان ابھار صاف دکھائی دے رہا تھا۔ میں نے سر ہٹا کر براہ راست راجہ کی رانوں میں نگاہ ڈالی تو میرے گرم بدن پر چیونٹیاں سی رینگنے لگیں۔ راجہ کی قمیض کا دامن اس کی رانوں سے ہٹا ہوا تھا اور اس کا گورا گورا پیٹ نظر آ رہا تھا، پھر اس سے نیچے ازار بند اور اس سے آگے کافی اونچا ابھار، جیسے کہ کوئی لکڑی وغیرہ کھڑی کی ہو۔ میری کیفیت ہی بدل گئی تھی اس ابھار کو دیکھ کر۔ میں نے زبان پھیر کر اپنے خشک ہوتے ہونٹوں کو تر کیا اور ہولے سے بولی، "میر، یہ تو واقعی راجہ کا ڈنڈا لگ رہا ہے، مگر یہ تو سو رہا ہے، پھر یہ ڈنڈا کیوں جاگ رہا ہے؟" تو آگے سے میر بولے، "چندا، لگتا ہے یہ ڈنڈا تیرے لیے جاگ رہا ہے۔" میں جھٹ سے بولی، "پلیز میر، ایسا نہ کہیں۔ یہ ابھی بچہ ہے اور اس کی ماں بیمار ہے، میں ان کی مدد کے لیے یہاں آئی ہوں۔ آپ مجھے کیوں ایسی باتیں کر کے بہکا رہے ہیں؟" میر نے کہا، "سنو ثانیہ، اس لمحے اس حال میں بھی تمہیں طلب ہو رہی ہے ناں؟ تو بس یہ بچہ بہتر ہے، تم اس سے اپنی پیاس بجھا لو۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ بچہ تمہیں کبھی بلیک میل نہیں کرے گا اور تم جب چاہو اسے استعمال کر سکتی ہو۔" میں حیرت زدہ میر کی باتیں سن رہی تھی۔ وہ بولا، "تم آہستہ سے اٹھو اور راجہ کے پیروں کی جانب سے دھیرے سے اس کا ڈنڈا پکڑ لو اور دیکھو کہ اگر وہ سوتا ہی رہے تو پھر دھیرے دھیرے سے اسے اوپر سے ہی مسلو۔" میں انکار کرنا چاہ رہی تھی، مگر اس وقت میں بالکل بے قابو ہو چکی تھی۔ سامنے راجہ کا ڈنڈا تھا، صرف ہاتھ بڑھانے کی دیر تھی۔ برسوں کی پیاس بجھانے کے لیے یہ موقع اچھا تھا۔ ادھر میر نے بھی اپنا گھوڑا کیمرے کے عین سامنے کیا ہوا تھا اور اس پر ہاتھ پھیر رہے تھے۔ آخر کار میں اٹھی اور ایک نظر راجہ کی سوئی ہوئی ماں پر ڈالی اور راجہ کے پہلو میں پیروں کے بل بیٹھ گئی۔ اب اس کا ڈنڈا میری آنکھوں کے سامنے تنا ہوا تھا۔ میں نے کانپتے ہاتھوں سے اس کا سرا پکڑا۔ اف... بہت ٹائٹ تھا۔ ہلکا سا دبایا تو میری جھیل سے پانی کی بوندیں چھلکنے لگیں۔ زبان خشک ہو گئی۔ میں نے آہستہ سے اس کے ڈنڈے کی جڑ سے پکڑا اور ہتھیلی بند کر کے سہلاتے ہوئے اوپر سرے تک لے گئی۔ میر یہ سب کیمرے میں دیکھ رہا تھا۔ وہ بولا، "چندا، آرام سے اس کا ازار بند کھولو۔" میں نے منہ پھیر کر پیچھے تسلیم کو دیکھا، وہ بے سدھ سو رہی تھی۔ اس وقت شدت جذبات سے میرے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ میرے سامنے راجہ کی میلی شلوار میں تنا ہوا ڈنڈا تھا۔ میر کی آواز آئی، "چندا، کیا سوچ رہی ہو؟ کھولو ناں اس کا ازار بند۔" میں بولی، "میر، مجھے ڈر لگ رہا ہے، اگر اس کی ماں اٹھ گئی تو؟" تو میر بولے، "پگلی، وہ اب صبح ہی جاگے گی۔ تم بس اپنا دھیان ادھر ہی رکھو۔" میں نے پھر ہاتھ بڑھا کر راجہ کے سخت ڈنڈے کو پکڑ کر دبایا۔ کچھ دیر تک ہاتھ سے سہلاتی رہی۔ پھر اس کے ناڑے کا سرا آہستہ سے اس کی شلوار میں سے نکالا اور آہستہ سے کھینچا تو گانٹھ کھل گئی۔ ادھر سے میر بولے، "شاباش، اب اس کی شلوار ڈھیلی کرو۔" میں نے ایسا ہی کیا۔ میر بولے، "کافی زیادہ ڈھیلی کر دو، اتنی کہ اس میں سے اس کا ڈنڈا آسانی سے باہر نکل آئے۔" میں نے مزید ڈھیلا کیا اور پھر اس کی شلوار کا اگلا حصہ راجہ کے ڈنڈے سے نیچے کر دیا۔ اف... واہ... راجہ کی گوری گوری چکنی رانوں کے درمیان سرخ رنگ کا گول گول لمبا سا ڈنڈا۔ اس کی جڑ کے اردگرد سنہرے رنگ کے بال تھے، جو کافی بڑھے ہوئے تھے۔ میں بے اختیار آگے کو جھکی تو میرے نتھنوں سے راجہ کے سنہری بالوں سے اٹھتی مہک ٹکرائی۔ میں کسی مست نشئی کی طرح آنکھیں بند کر کے اسے سونگھنے لگی۔ اف... کیا مہک تھی۔ راجہ کا ڈنڈا میر کے گھوڑے سے کافی چھوٹا اور پتلا تھا، مگر اس وقت وہ مجھے میر کے گھوڑے سے کہیں بڑھ کر پیارا لگ رہا تھا۔ میں آنکھیں موندے اس کی بالوں سے اٹھتی مہک سے لطف اندوز ہوتی رہی۔ پھر میں نے انگلیوں سے راجہ کے سنہری بال سہلائے، وہ بہت نرم تھے۔ یونہی انگلیاں پھیرتی، میں راجہ کے ڈنڈے کے نیچے چپکے گول گول انڈوں پر پھیرنے لگی۔ میر بولے، "چندا، کیسا لگ رہا ہے ڈنڈا؟" میں بولی، "بہت اچھا، بہت ہی پیارا۔" تو وہ بولے، "پھر اس ڈنڈے کو چومو ناں، پیار کرو، اس کا ذائقہ چکھو۔ دیکھو کیسا ٹیسٹ ہے؟" میر کی باتیں میری بے چینی میں مزید اضافہ کر رہی تھیں۔ میں آگے بڑھی اور راجہ کے ننگے ڈنڈے کو پکڑ لیا۔ اف، بہت گرم تھا، لوہے جیسا سخت۔ میں بولی، "میر، میری جان، یہ تو سلگ رہا ہے۔" تو میر بولے، "چندا، اپنی زبان کی نمی سے اسے ٹھنڈا کر دو۔" میں جھکی اور راجہ کے ڈنڈے کی نچلی طرف اپنی زبان پھیری۔ آہ... بہت ہی گرم نوک تھی راجہ کے ڈنڈے کی۔ اتنے میں میر بولے، "چندا، فرنٹ کیمرہ آن کر کے ڈنڈے کے ساتھ سیلفی لو۔" میں نے جلدی سے فرنٹ کیمرہ آن کیا اور موبائل سامنے کر لیا۔ اب میرے چہرے اور موبائل کے درمیان راجہ کا خوبصورت ڈنڈا تھا۔ میں نے منہ کھولا اور ڈنڈے کی نوک کو منہ کے اندر لے کر ہونٹوں سے گرپ کر لیا اور اسے چوسا تو ڈنڈے کی نوک سے ایک نمکین قطرہ میرے منہ میں آ گرا۔ میں نے منہ پیچھے ہٹایا اور ایک تصویر لی اور اس نمکین قطرے کو پی لیا۔ پھر میں نے زبان باہر نکالی اور ڈنڈے کی موٹی نوک پر مساج کرنے لگی۔ میری جھیل سے مسلسل پانی جھڑ رہا تھا اور میں مزے سے نوک پر مساج کر رہی تھی۔ میں نے ڈنڈے کی جڑ سے زبان رکھی اور اسے چاٹتے ہوئے نوک تک لے آئی اور نوک کے سوراخ سے جھانکتے نمکین قطرے کو چوسا اور پھر نوک کو اپنے گلابی ہونٹوں میں لیا اور اندر ہی اندر زبان گھما گھما کر نوک کو چھوڑنے اور چوسنے لگی۔ کافی دیر تک چوسنے کے بعد میں نے ڈنڈے کا رخ راجہ کے پیٹ کی جانب کر دیا، اب اس کے بھرے بھرے بالز کو چاٹنے اور چوسنے لگی۔ بہت ہی لذیذ ڈنڈا تھا، کماد کے رس سے بھی زیادہ۔ اس لطف کو، اس مزے کو محسوس کیا جا سکتا ہے، مگر بیان نہیں۔ مجھے ہوش کہاں تھا، میں تو مست ہو چکی تھی کہ میر کی آواز کانوں میں گونجی، "ثانیہ، ادھر سکرین پر دیکھو۔ جیسے میری فلپائنی فرینڈز میرے گھوڑے سے کھیلتی ہیں، تم بھی اسی طرح راجہ کے ڈنڈے سے کھیلو۔" میں نے سکرین پر دیکھا تو وہاں کا منظر دیکھ کر میری جھیل میں طوفان سا آ گیا۔ میر کے گھوڑے کو ایک فلپائنی لڑکی منہ ڈالے حلق تک لے جانے کی کوشش کر رہی تھی، مگر میر کا بڑا اور موٹا گھوڑا آدھے سے کچھ زیادہ ہی جاتا تو لڑکی کی آنکھیں نکلنے لگتیں۔ میر نے اسے بالوں سے پکڑ رکھا تھا اور اس کے منہ میں اپنا زور دار گھوڑا آگے پیچھے کرتے ہوئے دوڑا رہا تھا۔ اور دوسری لڑکی نے میر کے لٹکتے ہوئے بڑے بالز کو منہ میں لے کر مزے سے چوس رہی تھی۔ مجھے انہیں دیکھ کر عجیب سا لگا اور میں میر سے بولی، "پلیز چندا، یہ مت دکھائیں مجھے، پلیز۔" اور میں نے کال بند کر دی۔ پھر سر جھٹک کر راجہ کی طرف دیکھا۔ میرے سامنے ہی اس کا ڈنڈا چمک رہا تھا، جس پر میرا تھوک لگا ہوا تھا۔ میں نے جلدی سے اپنی قمیض اوپر کی اور برا بھی اوپر کھسکا دی اور اپنے مسمیوں کو دباتے ہوئے آگے بڑھی۔ جھک کر نہ جانے مجھے کیا ہوا، میں نے ڈنڈے کی نوک منہ میں لے کر اسے دانتوں سے کاٹا۔ اف... راجہ ہلکی سی آواز نکالتا ہوا اٹھ بیٹھا اور دونوں ہاتھوں سے ڈنڈے کو چھپا لیا۔ میں نے اس کی نشیلی آنکھوں میں جھانکا تو اس میں ہَوا اور پریشانی کی ملی جلی جھلک دکھائی دی۔ مگر اگلے ہی لمحے وہ شلوار اوپر کرتے ہوئے بولا، "باجی، آپ... آپ یہ کیا کر رہی ہیں؟" میں نے اپنی انگلی ہونٹوں پر رکھتے ہوئے کہا، "ششش، چپ۔ اگر تم نے کوئی حرکت کی ناں تو میں نے شور کر کے سب کو اکٹھا کر لینا ہے کہ تم مجھے سوتے میں چھیڑ رہے تھے۔" میری بات سن کر راجہ کے چہرے کا رنگ اڑ گیا۔ وہ گھگھیا کر بولا، "با... باجی، میں تو ن... نہ... نہیں، آپ یہ سب کر رہی ہیں۔" میں نے تھوڑا سا سخت لہجے میں کہا، "چپ، بس جیسے کہوں ویسا ہی کرو، چپ چاپ لیٹے رہو، ورنہ میں تمہاری ماں کو اٹھا کر سب بتاتی ہوں۔" تو وہ جلدی سے ہاتھ جوڑ کر التجا کرنے لگا، "آپ کی مہربانی ہوگی باجی، آپ جو چاہتی ہیں کر لیں، پر میری امی کو نہ بتائیں۔" میں نے اس کے ڈنڈے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، "یہ کیوں ڈھیلا پڑ گیا؟ دوبارہ سے سخت کرو اسے۔" تو وہ بولا، "باجی، مجھ سے نہیں ہوگا، آپ خود ہی کر لیں۔" میں نے کہا، "چلو پھر اپنے کپڑے اتار دو۔" تو راجہ تذبذب میں پڑ گیا۔ میں بولی، "کیا سوچ رہے ہو؟ اتارو ناں۔" یہ کہہ کر میں نے بھی خود کو بے لباس کر لیا۔ راجہ بار بار میری تنی ہوئی خوبصورت چٹانوں کی طرف دیکھتا اور کبھی میری ننھی سی جھیل کی گہرائی کی طرف۔ راجہ بھی بے لباس ہو گیا۔ اس کا چکنا بدن، خاص طور پر ناف سے نیچے ڈنڈے کے اردگرد کے سنہری بال بہت بھلے لگ رہے تھے۔ میں نے اسے بینچ پر بیٹھنے کو کہا۔ وہ ٹانگیں لٹکا کر بیٹھ گیا۔ اس کا ڈنڈا نیم مردہ حالت میں تھا۔ میں اس کے پیروں میں بیٹھی اور اس کے ڈنڈے کو پکڑ لیا اور دھیرے سے سہلانے لگی۔ میرے ہاتھ لگتے ہی راجہ کے ڈنڈے میں جان پڑنے لگی اور وہ سخت ہونے لگا۔ میں نے پوچھا، "راجہ، پہلے کبھی کسی کے ساتھ یہ سب کیا ہے؟" وہ بولا، "نہیں باجی، بس محلے کے لڑکوں کو دیکھا ہے اور ان سے سنا ہے۔" میں نے پوچھا، "اچھا، تو کسی لڑکے سے بھی نہیں کیا؟" تو وہ بولا، "بس ایک ہماری دکان کے کرایہ دار کا بیٹا ہے، وہ چوپے لگواتا بھی ہے اور بولتا بھی ہے۔ اس کے ساتھ کبھی کبھی کر لیتا ہوں۔" "اچھا، تو اس کا مطلب ہے تمہیں چوپے لگوانا پسند ہے؟" میں نے کہا۔ تو وہ بولا، "نہیں باجی، پلیز آپ ایسا نہ کریں۔ میری امی اٹھ گئیں تو میں تو مر ہی جاؤں گا۔" میں بولی، "نہیں اٹھتی تمہاری امی۔ میں بس تھوڑا سا چوپوں گی تمہارا گنا، پھر بس۔" یہ کہہ کر میں نے منہ کھول کر راجہ کے اکڑے ہوئے گنے کو اندر لیا اور گنے کی مانند چوپنے لگی۔ وہ اب بہت اکڑ چکا تھا۔ میں نے اس کی نوک پر زبان پھیری اور پورا منہ میں لے کر چوسنے لگی۔ میرے چوسنے سے راجہ بھی اب سسکاریاں بھرنے لگا تھا۔ اس کے منہ سے "آہ... اف" کی آوازیں نکلنے لگیں۔ میں بہت تیزی سے منہ کو آگے پیچھے کر کے چوپے لگاتی رہی اور ایک ہاتھ سے راجہ کی رانیں سہلانے لگی۔ پوزیشن اس وقت یہ تھی کہ راجہ بینچ پر پاؤں لٹکائے بیٹھا تھا اور اس کی پشت بیڈ کی طرف تھی، جہاں اس کی امی سوئی ہوئی تھی۔ اور میرا رخ راجہ کی طرف تھا۔ میں سر اٹھا کر تسلیم کو بھی دیکھ لیتی۔ چوپے لگانے میں اتنا مست ہوئی کہ مجھے پتہ ہی نہ چلا کب راجہ کی ماں جاگ گئی اور ہمیں دیکھنے لگی۔ میرے چوپے کافی تیز ہو چکے تھے۔ راجہ بھی ایک اینڈ پر تھا، وہ میرا سر پکڑے اپنے گنے پر دبا رہا تھا کہ اس کے بدن اکڑنے لگا اور پھر ایک زور دار جھٹکے سے اس کے گنے کا رس اچھل اچھل کر میرے منہ میں گرنے لگا۔ میں ایک دم پیچھے ہٹی تو گنے کا شاور میرے چہرے پر پڑا اور رس کی کچھ بوندیں میرے گالوں پر پڑیں۔ میں نے راجہ کے ڈنڈے کو ہتھیلی میں پکڑ کر آگے پیچھے کرنے لگی۔ جب آخری قطرہ بھی نچوڑ لیا تو اچانک میری نگاہ بیڈ پر پڑی۔ تو تسلیم کی اور میری نظریں ٹکرائیں، تو تسلیم نے منہ پھیر لیا۔ میرے دل پر جیسے کسی نے زور دار گھونسا دے مارا ہو۔ میں آج اپنی نظروں میں ہی گر گئی۔ یہ نیٹ اور ویڈیو کالز اور اس طرح کی کہانیوں نے مجھے اتنا بھڑکا دیا کہ میں عرش سے فرش پر جا گری۔ میں نے جلدی سے کپڑے پہنے اور راجہ کو کہا، "تم کپڑے پہنو اور یہ نیچے کینٹین سے جوس لے آؤ۔" وہ کپڑے پہن کر نیچے چلا گیا، اسے نہیں پتہ چلا کہ اس کی ماں سب دیکھ چکی ہے۔ راجہ کے جانے کے بعد میں شرمندگی سے آگے بڑھی اور تسلیم کے پاؤں میں بیٹھ گئی۔ وہ تکیے میں منہ چھپائے رو رہی تھی۔ اس کی سسکیاں بڑھتی جا رہی تھیں۔ میں نے تسلیم کے پاؤں پکڑ لیے اور کہا، "بہن، مجھے معاف کر دو۔ میں بہک گئی تھی، پلیز۔" تو تسلیم نے چہرہ تکیے سے نکال کر مجھے دیکھا۔ اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی برسات ہو رہی تھی۔ آخر وہ گلوگیر آواز میں بس اتنا بولی، "بہن، تم نے بھیک کی بہت بھاری قیمت وصول کر لی ہے۔ اب ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ دو۔ ایسا نہ ہو کہ میں خودکشی کرنے پر مجبور ہو جاؤں۔ میں نے تمہیں سمجھنے میں غلطی کی، فرشتہ سمجھ بیٹھی تھی۔" وہ مسلسل روئے جا رہی تھی۔ میں نے کہا، "میں بہت شرمندہ ہوں، مجرم ہوں آپ کی۔ جو دل چاہے سزا دو، مگر بس ایک دل سے معاف کر دو، پلیز۔" یہ کہتے ہوئے میں اس کے پاؤں میں جھک گئی تو تسلیم نے مجھے اوپر کھینچ لیا اور کہا، "تمہارا احسان اور اس کی قیمت زندگی بھر یاد رہے گی۔"


ایک تبصرہ شائع کریں (0)
جدید تر اس سے پرانی