میرا نام صباحت مجیب ہے میرے گھر والے اور عزیز رشتے دار پیار سے مجھے صبو کہتے ہیں اس وقت میری عمر 32 سال ہے میں شادی شدہ اور تین بچوں کی ماں ہوں میں عرصہ دراز سے اس فورم پر لکھی ہوئی سیکسی کہانیوں کو پڑھ کر انجوائے کر رہی ہوں اور ان گرم سٹوریز کو پڑھ پڑھ کر مجھے بھی حوصلہ ہوا کہ میں بھی آپ لوگوں کے ساتھ اپنی زندگی سے جُڑی سیکس سے بھر پور کچھ حسین یادیں شئیر کروں کیونکہ میں چاہتی ہوں کہ جس طرح میں نے آپ لوگوں کی جنسی کہانیاں مزے لے لے کر پڑھی ہیں ویسے ہی آپ لوگ بھی مجھ پہ گزرے یہ جنسی تجربات ایک کہانی کی شکل میں پڑھ کر انجوائے کریں جیسے کہ میں آپ کی کہانیاں پڑھ کر کیا کرتی تھی ۔یہاں میں آپ لوگوں سے ایک بات کو ضرور شئیر کرنا چاہوں گی اور وہ یہ کہ اس کے باوجود کہ میں ایک جنس پرست اور شہوت کی ماری ہوئی عورت ہوں لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ میرا تعلق ایک ایسے کٹر قسم کے مذہبی گھرانے سے ہے کہ جہاں پر جنس کو ایک شجرِ ممنوعہ سمجھا جاتا ہے لیکن جیسا کہ آپ لوگ اس بات سے اچھی طرح باخبر ہیں کہ سیکس اور خاص کر شہوانی جزبات کا اس بات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا کہ آپ کا تعلق کس گھرانے سے ہے؟ آپ مزہبی لوگ ہیں یا آذاد خیال ؟ آپ اچھے ہیں یا برے۔یہاں تو جب شہوت زور پکڑتی ہے تو یہ سب باتیں خودبخود مائینس ہوتی چلی جاتی ہیں اور باقی رہ جاتی ہے بدن کی گرمی ۔۔۔جسے ٹھنڈا کرنے کے لیئے عورت کو کسی مرد کے موٹے ڈنڈے کی۔۔۔ اور مرد کو میرے جیسی کسی گرم اور چکنی عورت کی ضرورت پڑتی ہے ۔ہاں تو دوستو میں جس دور سے اپنی کہانی کا آغاز کرنے والی ہوں تب ہم ملتان اور لاہور کے درمیان ایک قصبہ نما شہر ۔۔۔یا شہر نما قصبے میں رہا کرتے تھے اور میں نے جس گھر میں آنکھ کھولی وہ ایک لوئر مڈل کلاس گھرانہ تھا اور میں اس گھر میں پیدا ہونے والی میں سب سے پہلی اولاد تھی ابا کی تھوڑی سی زمین تھی جس پر کھیتی باڑی کر کے وہ ہم لوگوں کا پیٹ پالتے تھے
اسی طرح لوئر مڈل کلاس ہونے کی وجہ سے ہمارا گھر بھی چھوٹا سا تھا جس میں دو ہی کمرے تھے ایک میں ابا اور امی سوتے تھے جبکہ دوسرے کمرے میں ہم بہن بھائی سویا کرتے تھے پتہ نہیں کیوں مجھے بچپن سے ہی اپنے جنسی اعضاء میں ایک خاص دلچسپی پیدا ہو گئی تھی اور میں اکثر تنہائی میں ان سے کھیل کر حظ لیا کرتی تھی اور مزے کی بات یہ ہے کہ اس وقت مجھے اس بات کا قطعاً علم نہ تھا کہ جنس کیا ہوتی ہے؟ شہوت کس چڑیا کا نام ہے ؟ میں تو بس اپنے بدن۔۔۔ خاص کر اپنی دونوں ٹانگوں کے بیچ ۔۔۔ کی لکیر اور بدن کے اوپری حصے پر اُگنے والی چھوٹی چھوٹی چھاتیوں سے خوب کھیلا کرتی تھی ۔جس میں ۔۔۔ میں کبھی تو اپنی چوت کو مُٹھی میں پکڑ کر دباتی تھی اور کبیر اپنے سینے کے ابھاروں سے چھیڑ چھاڑ کیا کرتی تھی اس کام میں مجھے ایک عجیب سی لزت ملتی تھی غرض کہ بچپن سے ہی مجھے شہوت کی لت لگ گئی تھی - فرق صرف اتنا ہے کہ اس وقت مجھے شہوت کے بارے میں کچھ معلوم نہ تھا جبکہ آج مجھے اچھی طرح سے پتہ ہے کہ سیکس کیا ہے اور شہوت ۔۔۔۔۔۔۔۔ شہوت کا تو مجھے اس قدر زیادہ پتہ ہے اور میں اس قدر شوت پرست ہوں کہ ۔۔۔میری سہلیاں اور خاص کر وہ لوگ جن کے ساتھ میرے خفیہ تعلق رہے ہیں ۔(یا ابھی تک ہیں ) وہ سب مجھے شہوت زادی کہتے ہیں ۔ اسی لیئے میں نے رائیٹر سے اس کہانی کا نام بھی شہوت زادی رکھنے کو کہا ہے۔
اس تمہید کے بعد آیئے سٹوری کا آغاز کرتے ہیں۔ دوستو میرا نام تو آپ جان ہی گئے ہوں گے اب میں اپ کو اپنی جسمانی ساخت کے بارے میں کچھ بتاتی ہوں میرا رنگ سانولا ہے اور یہ تو آپ کو معلوم ہی ہے کہ سانولی رنگت میں بلا کی کشش ہوتی ہے چنانچہ میرا جسم بھی پرُ کشش اور نمکین ہے میرے سینے کے ابھار کوئی بہت بڑے نہیں ہیں ۔ بلکہ درمیانے سے ہیں۔جس کا مجھے بہت افسوس ہے کیونکہ مجھے موٹے ممے اچھے لگتے ہیں جہاں تک میری آنکھوں کا تعلق ہے تو ان کا رنگ کالا ہے ۔ اور یہ کافی بڑی بڑی اور چمکیلی واقعہ ہوئی ہیں بچپن سے ہی میری دوست انہیں ساحر آنکھیں کہتے ہیں اور ٹھیک کہتی تھیں کہ ان آنکھوں کی مستی کے مستانے ۔۔۔۔۔ ہزاروں ہیں ۔۔اسی لیئے ان آنکھوں سے وابستہ افسانے بھی ہزاروں ہیں جن میں سے چند ایک میں آپ سے شئیر کرنے والی ہوں ۔۔۔
مذہبی ہی نہیں بلکہ کٹر مزہبی گھرانے کی فرد ہونے کی وجہ سے میں برقعہ اوڑھتی ہوں عام طور پر میرا پورا جسم برقعے میں لپٹا ہوتا ہے اور پورا جسم برقعہ میں ہونے کی وجہ سے صرف میری آنکھیں ہی برقعے سے باہر ہوتی ہیں ۔۔۔۔ اور ان باہر رہ جانے والی آنکھوں سے ۔۔۔۔۔سامنے والے پر کیسے غضب ڈھایا جاتا ہے ۔۔۔ یہ کام مجھے خوب آتا ہے ۔۔۔ اسی لیئے تو کہتی ہوں کہ ۔۔ان آنکھوں سے وابستہ افسانے ہزراوں ہیں ۔۔۔۔۔ جب میں سکول جانے لگی تھی تو میرے ساتھ میرے چاچے کی بیٹی جو کہ عمر میں مجھ سے تھوڑی کم تھی لیکن عمر میں کم ہونے کے باوجود بھی اسے میرے ساتھ ہی داخل کروا دیا گیا تھا کہ سنگ رہے گا۔۔۔ ایک ہی سکول میں داخل ہونے کی وجہ سے میری ہم جماعت بھی تھی اور ۔۔۔پھر۔۔۔۔کچھ عرصہ بعد وہ میری سب سے پہلی ہم راز بھی بن گئی تھی ۔۔ کلاس میں بھی ہم دونوں ایک ساتھ ہی بیٹھا کرتی تھیں میری طرح وہ بھی ایک شہوت کی ماری ہوئی لڑکی تھی لیکن ہم دونوں ہی اس بات سے لاعلم تھیں یہاں میں ایک بات کا اعتراف کرنا چاہتی ہوں کہ مجھ سے چھوٹی ہونے کے باوجود بھی ۔۔۔وہ مجھ سے زیادہ بولڈ تھی۔۔۔۔۔جبکہ میں ڈرپوک اور میسنی ٹائپ کی لڑکی تھی۔۔۔
سکول میں داخل ہونے کے کافی عرصہ بعد ۔۔۔۔۔ ایک دن کا واقعہ ہے کہ سکول میں آدھی چھٹی تھی اور ہم دونوں سکول کے گراؤنڈ کے ایک کونے میں واقعہ ٹاہلی کے درخت کے نیچے بیٹھی گپیں لگا رہیں تھی کہ اچانک ہی تفریج ختم ہونے کی گھنٹی بجی ۔۔۔ گھنٹی کی آواز سن کر عاشی ایک دم سے اوپر اُٹھی اور میں ابھی اُٹھنے والی تھی کہ اچانک میری نظر عاشی کی شلوار پر پڑی تو وہ مجھے نیچے سے کافی زیادہ پھٹی ہوئی نظر آئی ۔۔۔ جس سے مجھے عاشی کی گوری گانڈ اور بغیر بالوں والی چوت کی ایک جھلک نظر آئی۔۔۔ یہ دیکھ کر میں اپنا ہاتھ آگے بڑھایا اور جلدی سےاس کی شلوار میں پھٹی ہوئی جگہ پر ہاتھ لگا دیا۔۔۔ عاشی جو اس وقت زمین سے اُٹھ رہی رہی تھی میرے ہاتھ لگانے سے ایک دم ساکت ہو گئی اور میری طرف دیکھ کر ہنسی اور کہنے لگی ۔۔۔ ۔۔یہ کیا کر رہی ہو صبو کی بچی ؟ تو میں نے بھی اس کو ہنستے ہوئے جواب دیا کہ یار تیری چٹی بنڈ دیکھ کر میں رہ نہ سکی اور اس پر ہاتھ لگا دیا۔۔۔ میری بات سن کر وہ بجائے ناراض ہونے کے ۔۔۔۔ہنس کر بولی۔۔۔بڑی حرامن ہے تو ۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی وہ کلاس میں جا نے کے لیئے کھڑی ہو گئی میں بھی اُٹھی اور اس کے ساتھ کلاس روم کی طرف چلنے لگی۔۔۔ راستے میں ۔۔۔میں نے ویسے ہی اس سے مذاقاً کہا عاشی ! دس تیری سُتھن دا لنگار کنے لایا اے( عاشی یہ بتاؤ کہ تمہاری شلوار کس نے پھاڑی ہے ؟) میری بات سن کر اس کے ایک ٹھنڈی سانس بھری اور کہنے لگی ۔۔ تم تو جانتی ہی ہو یار کہ ہمارا تعلق ایک نیک اور شریف گھرانوں سے ہے ۔۔اور اسی وجہ سے سارا گاؤں ہماری بہت عزت کرتا ہے اور اس اس عزت اور احترام کی وجہ سے خاص کر ہماری عمر کے لڑکے تو ہماری طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھتے ہیں ۔چنانچہ ایسے حالات میں ۔۔۔۔ ۔تم ہی بتاؤ کہ ہماری کس نے پھاڑنی ہے؟ ۔عاشی ٹھیک کہہ رہی تھی واقعہ ہی پورے گاؤں میں ہمارے گھرانے کے بارے میں یہی صورتِ حال تھی
۔۔لیکن عاشی کے منہ سے یہ بات سن کر میں حیرت ذدہ رہ گئی تھی جبکہ دوسری طرف عاشی اپنی ہی دھن میں کہے جا رہی تھی کہ۔صبو تم تو جانتی ہی ہو کہ اب تو ہم چاہیں بھی تو ۔۔اس عزت و احترام کی وجہ سے گاؤں کا کوئی لڑکا ہمارے ساتھ یہ کام نہیں کر ے گا۔۔۔ ۔ اس لیئے چار و ناچار میں نے خود ہی اپنی شلوار پھاڑ دی ہے ۔۔۔ ۔۔۔اس کی بات سن کر میں نے بڑی حیرانی سے اس کی طرف دیکھا اور کہنے لگی۔شلوار پھاڑ دی لیکن کیوں؟ ۔۔۔یہ ۔۔یہ تم کیا کہہ رہی ہو عاشی؟ میری بات سن کر چلتے چلتے عاشی اچانک رُک گئی ۔۔۔۔اور میری طرف مُڑ کر میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اُلٹا کہنے لگی ۔۔۔میں نے جو تم سے عزت والی بات کی تھی کیا وہ غلط تھی ؟ ۔۔ بات کرتے ہوئے اس نے کچھ اس انداز سے میری طرف دیکھا ۔۔ کہ میں گڑبڑا سی گئی۔اور ۔پھر اس کے بار بار پوچھنے پر میں نے بھی ایک ٹھنڈی سانس بھری اور اس سے کہنے لگی بات تو تم ٹھیک کہہ رہی ہو عاشی۔۔۔ پھر میں نے اس کی طرف ترچھی نظروں سے دیکھا اور ہنستے ہوئے بولی۔۔۔۔ اچھا یہ بتا کہ تم نے اپنی شلوار کو کیوں پھاڑا ۔۔۔اور وہ بھی اتنا زیادہ ؟؟؟؟؟؟ ۔میری بات سنتے ہی عاشی نے میری طرف دیکھ کر آنکھ مارتے ہوئے کہا ۔۔۔ " یہ ایک کام کے سلسلے میں " پھاڑی ہے صبو باجی ۔۔۔(عاشی جب بڑے مُوڈ میں ہو تو وہ مجھے باجی کہا کرتی تھی ورنہ صبو ہی کہتی تھی ) ۔۔۔ ۔۔۔اور ہنسے لگی۔۔ اس کی اس بات سے کہ ایک کام کے سلسلسہ میں ۔۔۔سُن کر میری دل چسپی اور بڑھ گئی اور میں نے اس سے پوچھا کہ بتا ۔۔ نا کہ وہ کام کیا تھا ؟ اتنے میں ہمارا کلاس روم آگیا تھا اس لیئے عاشی مجھ سے سرگوشی میں کہنے لگی یہ بات میں تم کو چھٹی کے بعد گھر جاتے ہوئے بتاؤں گی۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی ہم دونوں نے پکا سا منہ بنایا اور کلاس روم میں داخل ہو گئیں۔۔۔۔ ۔
چھٹی کے بعد جب ہم لوگ گیٹ سے نکلے تو میں نے عاشی سے کہا ہاں اب بتا کہ تم نے اپنی شلوار کو کس کام کے سلسلہ میں پھاڑا تھا ؟ ؟ میری بات سن کر عاشی نے ایک نظر پیچھے کی طرف دیکھا اور پھر کہنے لگی۔۔۔ یار مجھ سے بار بار نالا (آزار بند) نہیں کھولا جاتا اس لیئے میں نے تنگ آ کر نیچے سے شلوار پھاڑ دی تھی۔۔۔ اس کی یہ بات ٹھیک سے میرے پلے نہیں پڑی اس لیئے میں نے اس سے کہا ۔۔۔ میں سمجھی نہیں ؟ تب وہ چلتے چلتے ایک دم سے کھڑی ہو گئی اور پھر ادھر ادھر دیکھتے ہوئے بولی۔۔۔ وہ اس لیئے صبو باجی ۔۔۔۔کہ ۔۔۔کہ مجھے اپنی ننگی چوت پر ہاتھ پھیرنے سے مزہ آتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ اس کی بات سن کر میں حیران رہ گئی اور اس سے بولی ۔۔۔عاشی تم بین اپنے پھدی سے کھیلتی ہو تو وہ بڑے آرام سے کہنے لگی ۔۔۔ ہاں ۔۔۔ کیوں ۔۔۔ پھر ایک دم چونک کر کہنے لگی ۔۔۔اوہ اچھا ۔۔۔ تو کیا تم بھی ؟ تو میں نے اثبات میں سر ہلا دیا ۔۔میرا سر اثبات میں ہلتا دیکھ کر وہ ایک دم پُر جوش سی ہو گئی اور کہنے لگی۔۔۔ بڑی میسنی ہو تم ۔۔۔ تو میں نے اس سے کہا اسمیں میسنی والی کون سی بات ہے ؟۔ تو اس نے شرارت سے میری طرف دیکھ کر آنکھ مار دی اور کہنے لگی ۔۔۔۔۔۔۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ صبو باجی آپ بھی میری طرح اپنی لکیر (پھدی) سے کھیلتی ہو ؟اس کی بات سن کر میں نے کہا تم ٹھیک کہہ رہی ہو تو وہ کہنے لگی ۔۔ اسی لیئے تم میں تم کو میسنی کہتی ہوں کہ تم آج تک اس بات کی ہوا بھی نہیں لگنے دی ۔ ۔۔
اور پھراس کے بعد اس نے مجھے اور میں نے اس کو بتایا کہ میں اپنی پھدی اور چھاتیوں کیسے کیسے چھو اور دبا کر مزہ لیتی ہوں ۔۔۔اور اس دوران اس نے مجھ سے پوچھا ۔۔۔ اچھا صبو! یہ بتاؤ۔۔۔ تیرا پانی نکلتا ہے؟ لیکن میں نے جواب دینے کی بجائے الُٹا اس سے پوچھا ۔۔۔۔ پہلاں توُں دس ( پلے تم بتاؤ) ۔۔تو وہ کہنے لگی ۔۔پہلے پہلے تو نہیں نکلتا تھا ۔۔لیکن جب سے ۔۔ کپڑے آنا (پیریڈز ) شروع ہوئے ہیں ۔۔۔ تب سے دانہ مسلنے سے میری پھدی پتلا پتلا پانی چھوڑتی ہے ۔۔ اس دن کے واقعہ کے بعد تو ہم دونوں ایک دوسرے کے اور بھی قریب آ گئیں تھیں ۔۔۔اور اب ہم ایک دوسرے کے ساتھ کھُل کر ہر قسم کی باتیں شئیر کر لیتی تھیں۔۔۔ اسی دوران میں عاشی کے ممے اور بھی بڑے ہونے شروع ہو گئے تھے اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کی چھاتیاں ٹینس بال سے بھی بڑی ہو گئیں تھیں لیکن دوسری طرف عاشی کے مقابلے میں میری چھاتیاں ابھی بھی کافی چھوٹی تھیں ۔۔۔ اس لیئے میں اکثر ہی اس سے پوچھتی تھی کہ اس نے کیا طریقہ اختیار کی ہے کہ جس سے اس کی چھاتیاں اتنی بڑی ہو رہیں ہیں ۔۔۔ تو وہ ہنس کر کہتی میں بھی اپنی چھاتیوں کے ساتھ وہی کچھ کرتی ہوں کہ جو تم کرتی ہو ۔۔ مسلہ صرف یہ ہے کہ میرا جسم ایسا ہے پھر کہتی دیکھو نا میں تم سے کافی چھوٹی ہوں لیکن تمہارے مقابلے میں میرا جسم کتنا بھاری ہے اور دیکھنے میں ۔۔میں پوری رَن (عورت ) لگتی ہوں جبکہ میرے مقابلے دبلی پتلی ہونے کی وجہ سے تم ۔۔۔۔۔ ابھی تک ایک چھوٹی سی لڑکی لگتی ہوں ۔۔۔اس کے دلائل سن کر میں وقتی طور پرتو مطمئن ہو جاتی تھی لیکن اس کی چھاتیاں دیکھ کر میں پھر سے غیر مطئن ہو جایا کرتی تھی۔۔۔
ہماری ایک پھوپھو ساتھ والے گاؤں میں بیاہی ہوئی تھی۔۔۔ ایک دن صبع صبع اطلاع ملی کہ اس کی ساس فوت ہو گئی ہے چنانچہ ابا امی چاچا چاچی معہ چھوٹے بچوں کے ٹا نگہ کروا کے ساتھ والے گاؤں میں پرسہ دینے چلے گئے جبکہ مجھے اور عاشی کو نہ صرف یہ کہ سکول سے چھٹی کروا دی بلکہ یہ کہتے ہوئے ہمیں اپنے اپنے گھر میں ہی چھوڑ گئے کہ ہم دونوں پیچھے سے گھر کا خیال رکھیں ۔۔۔۔ مجھے جہاں سکول سے چھٹی کرنے کی خوشی ہوئی تھی وہاں میں اس بات پر بھی خوش تھی کہ آج گھر میں کوئی نہیں ہو گا اس لیئے آزادی کے ساتھ اپنے جنسی اعضاء کے ساتھ کھیل سکوں گی ۔۔چنانچہ ٹانگہ جانے کے کچھ ہی دیر بعد ۔۔میں نے اپنی شلوار کا نالا (آزار بند ) کھولا اور چارپائی پر بیٹھ کر اپنی چوت کو مسلنے لگی۔۔۔۔ ۔۔ اپنی پھدی کو مسلتے ہوئے اچانک ہی مجھے عاشی کا خیال آ گیا۔۔۔ اور اس خیال کا آنا تھا کہ میں نے جلدی سے اپنی شلوار کا نالا دوبارہ سے باندھا اور عاشی کے گھر کی طرف چل پڑی جو کہ ساتھ ہی (پڑوس) میں واقعہ تھا
اور ۔۔۔۔ ابھی میں نے اپنے دروازے کو کنڈی لگائی ہی تھی کہ پاس کے درازے سے مجھے عاشی نکلتی ہوئی دکھائی دی۔۔۔۔ وہ مجھے اور میں اسے دیکھ کر ٹھٹھک گئی۔۔۔ اور پوچھنے پر وہ کہنے لگی کہ وہ میری ہی طرف آ رہی تھی ۔۔۔ پھر بولی۔۔۔۔ اب جبکہ تم نے اپنے گھر کو کنڈی لگا دی ہے تو تم ادھر ہی آ جاؤ۔۔۔ یہ کہہ کر وہ اپنے دروازے سے اندر چلی گئی ۔۔۔۔ اپنے دروازے کو کنڈی تو میں پہلے ہی لگا چکی تھی اس لیئے اس لیئے جیسے ہی عاشی اپنے گھر کے اندر داخل ہوئی ۔۔۔۔ اس کے چند ہی سکینڈ کے بعد میں بھی اس کے ہاں چلی گئی تھے اور جیسے میں نے اس کے دروازے کے اندر قدم رکھا تو میرے کانوں میں عاشی کی آواز سنائی دی ۔۔ صبو کنڈی لگا کے آنا ۔۔۔۔۔ چنا نچہ اس کے کہنے پرمیں نے اندر داخل ہو کر اس کے دروازے کو کنڈی لگا دی اور دیکھا تو سامنے برآمدے میں عاشی کھڑی میرا ہی انتظارکر رہی تھی۔۔۔ میں دھیرے دھیرے چلتے ہوئے اس کے قریب پہنچی اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی۔۔۔ تم کیوں میری طرف آ رہی تھی؟۔۔۔ تو اس نے بھی ترنت ہی جواب دیا ۔۔۔ کہ اسی کام کے لیئے جس کام کے سلسلے میں تم میری طرف آ رہی تھی ۔۔۔ اس کی بات سن کر میں نے شرارت سے اس کی طرف دیکھا اور بولی۔۔۔ میں تو تم سے ملنے آ رہی تھی۔۔۔ میری بات سن کر وہ مسکرائی اور کہنے لگی۔۔۔۔میں بھی تو تم سے ملنے ہی آ رہی تھی ۔۔۔پھر اپنی ایک دائیں آنکھ دبا کر بولی ۔۔۔ مجھے خوب اچھی طرح سے پتہ ہے کہ تم کیوں آئی ہو اور اس کے ساتھ ہی اس نے مجھے اپنے گلے سے لگا لیا۔۔۔۔۔۔۔ اور مجھے اپنے سینے کے ساتھ بھینچ لیا۔۔۔ اُس کے اس طرح گلے لگانے سے میرے سینے کے ساتھ اس کے موٹے ممے میری چھاتیوں کے ساتھ پریس ہو گئے ۔ اسے سینے سے سینہ لگانے سے میں گرم ہو گئی ۔۔۔۔اور اس سے بولی۔۔ عاشی مجھے تمہارے سینے پر لگے تمہارےموٹے ممے بڑے اچھے لگ رہے ہیں میری بات سنتے ہی عاشی نے ایک بار پھر اپنے مموں کو بڑی ذور سے میرے ساتھ پریس کیا اور پھر اپنی بڑی سی چھاتیوں کو میری چھاتیوں پر رگڑنی لگی۔۔ اس کے اس طرح چھاتی رگڑنے سے میرے اندر ایک انجانی سی کرنٹ دوڑنے لگی۔۔ اور میں مزے سے بے حال ہو کر تیزی سے سانس لینے لگی۔۔ میری یہ حالت دیکھ کر عاشی نے اپنی چھاتیوں کو میری چھاتیوں کےساتھ رگڑنا بند کر دیا اور ۔۔۔ کہنے لگی۔۔۔۔۔ کیا ہوا ۔۔۔۔صبو ۔۔۔ تم کو اتنا سانس کیوں چڑھا ہوا ہے ۔۔؟ تو میں نے اس کی طرف پیار سے دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔ تمھاری رگڑائی سے مجھے بہت مزہ آ رہا ہے۔۔ میری بات سن کر اس نے میرے ایک گال کو چوما ۔۔۔ اور کہنے لگی ۔۔۔سچ کہہ رہی ہوں صبو ۔۔ اس طرح چھاتیاں رگڑنے سے ۔۔۔مجھے ۔ تمہارے چھوٹے چھوٹے گیند بھی بڑا مزہ دے رہے ہیں۔ ۔۔۔ تو میں نے ویسے ہی مستی سے اس سے پوچھا وہ کیسے؟ تو وہ کہنے لگی وہ ایسے صبو باجی۔۔۔۔۔ کہ میرے بڑے بڑے اور تمھارے چھوٹے چھوٹے ممے آپس میں ٹکرا کر ہم دونوں کے جسموں میں بڑی آگ بھر رہے ہیں ۔۔
۔۔ پھر عاشی نے میری طرف دیکھا اور کہنے لگی ۔۔۔۔ کیا خیال ہے صبو ۔۔ اگر ہم اپنی اپنی قمیضیں اتار دیں تو؟ ۔۔ اس کی بات سن کر میں جو پہلے ہی کافی گرم ہو رہی تھی اس سے بولی۔۔۔ تو دیر کس بات کی ہے۔۔آج تو ہم خوب مستی کریں گی کہ نہ گھر والے نہ ما ں ۔۔پے ۔۔۔ہیں۔۔۔ میری بات سن کر وہ مجھ سے الگ ہوئی ۔۔۔ اور میرا ہاتھ پکڑ کر بولی چلو اندر چل کر اپنی اپنی قمیضیں اتارتی ہیں ۔۔۔ چنانچہ ہم دونوں برآمدے سے کمرے میں داخل ہو گئیں -
اندر جاتے ہی میں نے اپنی قمیض اتار کر پلنگ پر پھینک دی ۔۔۔۔اور عاشی کی طرف دیکھنے لگی ۔۔۔ جو بڑے غور سے میری ننگی چھاتیوں کی طرف دیکھ رہی تھی۔۔۔۔ اور اس نے ابھی تک اپنی قمیض کو نہ اتارا تھا۔۔۔ اسے یوں کھڑے دیکھ کر میں نے عاشی کو ڈانٹتے ہوئے کہا۔۔۔ چل چھیتی کر ( جلدی کرو)۔۔۔ میری آواز سن کر عاشی ایک دم سے چونک پڑی اور ۔۔۔۔ میری طرف دیکھ کر بولی۔۔۔ سچ کہہ رہی ہوں صبو ۔۔۔۔ تمہارے سینے پر لگی یہ چھوٹی چھوٹی چھاتیں دیکھنے میں بڑا مزہ کر رہی ہیں اور اس کے ساتھ ہی وہ آگے بڑھی ۔۔۔۔اور اس نے میری ننگی چھاتیوں کو اپنے ہاتھوں میں پکڑ لیا۔۔۔ اور انہیں ہولے ہولے دبانے لگی۔۔۔ مجھے اپنی چھاتیوں پر اس کے ہاتھوں کا لمس بہت ہی اچھا رہا تھا اور مزے کے مارے بے اختیار میرے منہ سے ۔۔۔ہائے ۔۔ہائے کی آوازیں نکل رہیں تھیں جسے سن کر وہ بھی مست ہو گئی ۔۔اور میری چھوٹی چھوٹی چھاتیوں کو دباتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔۔۔ مزہ آ رہا ہے ؟ تو میں نے ایک گرم آہ بھرتے ہوئے اس سے کہا ۔۔۔۔ کیا بتاؤں عاشی ۔۔۔ تمھارے ہاتھ لگانے سے مجھے کتنا سرُور مل رہا ہے میری بات سن کر وہ کہنے لگی ۔۔۔ صبو ۔۔ تمہاری چھاتیوں کو پکڑنے سے مجھے بھی بڑا صواد (مزہ) آ رہا ہے ۔۔اور پھر بڑی مستی سے میری چھاتیں کو دبانے لگی۔۔۔۔۔ اور کچھ دیر تک وہ میری چھاتیوں کو دباتی رہی ۔۔۔ پھر اچانک ہی مجھ پر شہوت کا غلبہ بڑھ گیا اور میں نے ہاتھ بڑھا کر اس کی چھاتیوں کو پکڑ لیا اور کہنے لگی۔۔۔۔ توں وی اپنے ممے ننگے کر نا ( تم بھی اپنی چھاتیاں ننگی کرو ۔۔نا) میری شہوت بھری بات سن کر وہ بولی ۔۔۔ میں اپنی چھاتیاں ننگی بھی کروں گی اور تم سے دبواؤں گی بھی ۔۔۔۔ لیکن ابھی مجھے اپنی چھایتوں کو دبانے کا مزہ تو لینے دو ۔۔ لیکن میں نے اس کی بات نہ سنی اور ہاتھ بڑھا کر اس کے بڑے بڑے گیندوں کو اپنی مُٹھی میں پکڑا اور ۔۔۔ بڑی ذور سے دبا دیا۔۔۔۔۔ اور میر ا خیال ہے کہ جزبات کی شدت میں ۔۔۔ ا ٓکر میں نے اس کی چھاتیوں کو کچھ زیادہ ہی زور سے دبا دیا تھا ۔۔تبھی میں نے عاشی کو چیخ سنی ۔۔۔۔ہائے میں مر گئی ۔۔اور ساتھ ہی کہنے لگی۔۔۔۔۔۔ ہولی دبا ۔۔۔حرام دییئے
۔۔۔۔لیکن چونکہ اس وقت مجھ پر پوری طرح سے شہوت سوار تھی اس لیئے میں نے اس کی بات سنی ان سنی کر دی ۔۔اور اس کی چھاتیوں کو اپنی مُٹھی میں پکڑ کر مسلسل دباتی رہی۔۔۔ کچھ دیر تک تو وہ مجھ سے ہولی ۔۔۔۔ نی ہولی حرام دیئے ۔۔۔ہولی۔۔۔دبا ۔۔کہتی رہی۔۔۔ پھر اس پر بھی شہوت سوار ہو گئی ۔۔۔اور اس دفعہ جب میں نے اس کی چھاتیوں کو دبایا تو ۔۔۔ عاشی نے ایک سسکی سی لی ۔اس کے جو ہاتھ میری چھاتیوں پر دھرے تھے اس نے ایک دم سے انہیں وہاں سے ہٹا لیا۔۔۔ اور میرے ساتھ چمٹ گئی ۔۔۔اس کا جسم بری طرح سے کانپ رہا تھا ۔۔۔اور وہ میرے ساتھ چمٹی ہوئی شہوت ذدہ لہجے میں کہہ رہی تھی ۔۔۔ہائے ۔نی مار سڑیا ای ۔(ہائے تم نے مجھے مار دیا) بڑا صواد آ رہیا اے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔صبو ہولی دب ۔۔نا ۔۔توں بڑی حرامن ایں ۔۔۔حرام دیئے بس کر ۔۔اور اس کے ساتھ ہی عاشی نے اپنے نچلے دھڑ کو میرے ساتھ جوڑ لیا اور ۔۔۔ میری ران کے ساتھ اپنی پھدی کو جوڑ کر رگڑنی لگی۔۔ اُف اس وقت اس کی نیچے والی چیز بہت گرم ہو رہی تھی اور اس کی چوت کا میری ران کے ساتھ جُڑنا تھا کہ ۔۔ خود میرے اپنے اندر۔۔۔ خاص طور پر میری چوت میں بھی ایک ہلچل مچنا شروع ہو گئی۔اور مجھے ایسا لگا کہ جیسے کسی نے میری دونوں رانوں کے بیچ والے حصے میں آگ لگا دی ہو ۔۔ چنانچہ میں نے اس آگ کی تپش سے مجبور ہو کر عاشی کا ہاتھ پکڑا اور شلوار کے اوپر سے ہی اپنی پھدی پر رکھ دیا۔۔۔عاشی نے اپنے ہاتھ پہ جیسے ہی میری چوت کو محسوس کیا تو اس نے ایک دم سے میری چوت کو اپنی مُٹھی میں ۔پکڑا اور اسے دبانے لگی۔۔۔۔ اس کے یوں دبانے سے میرے منہ سے ایک سریلی سی چیخ نکلی۔۔اوہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ۔۔ ۔۔ اور میں نے اس کے ہاتھ پہ ہاتھ رکھ دیا اور اسے اپنی چوت کی طرف دبانے لگی۔۔۔۔ ۔۔۔وہ میرا مطلب سمجھ گئی اور اپنی چوت کو میری ران پر رگڑتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔۔ میرے ہتھ دا صواد آیا ای ( میرے ہاتھ کا مزے آیا ہے) تو میں نے جزبات سے بھر پور مزے میں اس سے کہا ۔۔ ڈاھڈا سواد آیا اے ۔۔توں ہور دب ۔۔۔ ( بہت مزے آ یا ہے تم میری پھدی کو اور بھینچو ۔) اور عاشی نے ایسا ہی کیا ۔۔۔اور وہ بار بار میری پھدی کو اپنی مُٹھی میں لے کر بھینچنے لگی۔۔۔۔۔
اور اس کےساتھ ساتھ عاشی اپنی پھدی کو میرے پھدی کے ساتھ جوڑے اوپر نیچے ہو رہی تھی اور سسکیاں لیتے ہوئے کہہ رہی تھی کہ۔۔ بڑا مزہ آ رہا ہے صبو۔۔۔ میری چھاتیوں کو اور زور سے دبا ؤ ۔۔ لیکن اس وقت ہم دونوں کے جسم ایک دوسرے میں پیوست ہو چکے تھے ۔۔۔ اور اس حالت میں مجھ سے اس کے مموں کو دبانا ممکن نہ تھا۔۔۔۔ جبکہ دوسری طرف عاشی بار بار مجھے ایک ہی جملہ کہہ رہی تھی ہور ۔۔۔دبا ۔۔ میری چھاتیاں ہور دبا۔۔۔ لیکن اس کا جسم میرے ساتھ جُڑے ہونے کی وجہ سے میرے لیئے اس کی چھاتیوں کو دبانا ممکن نہ تھا اس لیئے میں نے اس سے کہا کہ اپنا جسم تھوڑا پیچھے کر تو میں تیری چھاتیوں کو دبانے کے قابل ہوں گی ۔۔۔۔میری بات سن کر اس نے اپنے اوپری دھڑ کو تھوڑا الگ کیا اور پھر تھوڑا پیچھے ہٹ کر اس نے اپنی قمیض بھی اتار دی اور اب میرے سامنے عاشی کی ننگی چھاتیاں آ گئیں تھیں ۔۔۔۔۔ اس کے گورے گورے جسم پر بڑے بڑے ممے بڑے ہی اچھے لگ رہے تھے ۔۔۔ اس لیئے میں آگے بڑھی اور اس کا ایک ممے کو اپنے ایک ہاتھ میں پکڑ لیا اور اس کے چھوٹے چھوڑے نپلز کو اپنی انگلیوں میں پکڑ لیا اور ان کو دبانے لگی۔۔ جبکہ دوسری طرف عاشی میری پھدی کو اپنی مُٹھی میں لیئے مسلسل بھینچ رہی تھی۔۔ اور ہم دونوں دیوانہ وار اپنے اس جنسی عمل میں مشغول تھیں کہ کچھ ہی دیر بعد ہم دونوں کے سانس چڑھنے لگے۔۔۔۔اورہمارے منہ سے بے ربط قسم کی باتیں نکلنے لگیں ۔۔۔۔سس۔۔سس۔۔۔۔اوئی ۔۔۔۔۔۔۔ اُف۔ف۔ف۔ف۔۔۔۔۔اوہ۔۔اوہ ہ ہ ۔ اور پھر جلد ہی ہم دونوں کی چوتوں میں لگی آگ سرد ہونا شروع ہو گئی ۔۔۔ اور پھر ہم دونوں کی پھدیوں میں پانی آتے ہی عاشی نے میری چوت اور میں نے اس کی چھاتیوں کو اپنے ہاتھوں سے چھوڑا ۔۔۔اور ایک دوسرے کے ساتھ گلے لگ گئیں اور جھٹکے مارتے ہوئے اپنی اپنی پھدیوں سے پانی چھوڑنے لگیں۔۔۔۔۔۔ اور ۔۔ پھر جب ہماری پھدیوں سے پانی نکلنا رُک گیا ۔۔۔ تو عاشی مجھ سے الگ ہو گئی ۔۔اور پاس ہی پڑی ہوئی چارپائی پر بیٹھ کر لمبے لمبے سانس لینے لگی۔۔ جبکہ اس دوران میں بھی اپنے سانس درست کرنے لگی۔۔۔
جب ہمارے سانس کچھ معمول پر آ گئے تو عاشی کہ جس کی نظریں مسلسل میری دونوں ٹانگوں کے بیچ میں تھیں نے مجھے اپنے پاس آنے کا اشارہ کیا اور جب میں اس کے قریب گئی تو اس نے ڈائیرکٹ میری پھدی پر ہاتھ رکھ دیا اور کہنے لگی ۔۔۔۔ بڑا پانی وگھایا ای۔۔۔(بہت پانی چھوڑا ہے) عاشی کی بات سن کر میں نے اس سے کہا کیوں تیری پھدی کُج نہیں چھڈیا ؟ ( تمھاری چوت نے کوئی پانی نہیں چھوڑا ) میری بات سن کر عاشی چارپائی سے اُٹھی اور اپنی چوت والی جگہ سے شلوار کو دکھاتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔۔ چھوٹی تو میں بھی ہوں لیکن جتنا پانی تمھاری چوت نے چھوڑا ہے اتنا میری پھدی نہیں چھوڑ سکی ۔۔ اور پھر خود ہی کہنے لگی ۔۔۔اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہاری پھدی میری پھدی سے زیادہ گرم ہے ۔۔۔ تو میں نے اس سے پوچھا و ہ کیسے؟؟ تو وہ بڑی شوخی سے بولی ۔۔وہ ایسے صبو باجی کہ تمہاری چوت میں زیادہ گرمی تھی اس لیئے اس نے زیادہ پانی چھوڑا ۔۔۔ جبکہ گرم تو میں بھی تمہارے ہی جتنی ہوں ۔۔۔ پر شاید میری چوت تمہاری چوت کے مقابلے میں اتنی زیادہ گرم نہیں ہے اس لیئے اس نے کم پانی چھوڑا ہے۔۔۔۔پھر کہنے لگی ۔۔۔شلوار اتار کے زرا اپنی پھدی تو دکھاؤ۔۔۔اور میں نے جھٹ سے اپنی شلوار اتار دی۔۔۔۔ اور اس کے قریب جا کر کھڑی ہو گئی ۔اس دوران وہ دوبارہ سے چارپائی پر بیٹھ گئی تھی۔۔۔۔ چنانچہ جیسے ہی میں اس کے قریب پہنچی تو وہ میری ننگی چوت دیکھ کر خاص کر میری چوت پر اُگے گھنے جنگل کو دیکھ حیران رہ گئی اور ان بالوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہنے لگی۔۔تیرا بھلا ہو جائے
۔۔۔۔ ان کو صاف کیوں نہیں کرتی؟ تو میں نے اس سے کہا ۔۔کہ اصل میں مجھے چوت پر بال رکھنا بہت پسند ہیں میری بات سن کر عاشی نے بڑی حیرانی سے میری طرف دیکھا اور کہنے لگی ۔۔ اس کی کوئی خاص وجہ؟ تو میں نے کہا کہ ہاں ۔۔۔۔ اس کی وجہ وہ بُو یا مہک ہے جو پسہنی آنے پر میری چوت سے آتی ہے ۔۔۔ یہ سنتے ہی عاشی نے میری کمر پرہاتھ رکھا اور میری چوت کو اپنے بلکل نزدیک کر لیا اور پھر اپنی ناک کو عین میرے بالوں والی پھدی کے درمیان رکھ دیا ۔۔۔اور سونگھنے لگی۔۔۔۔ کچھ دیر تک وہ میری چوت کی بوُ/مہک کو سونگھتی رہی پھر اس نے سر اُٹھا کر ایک نشیلی سی نظر سے میری طرف دیکھااور کہنے لگی۔۔۔۔ بات تو تم ٹھیک کہہ رہی ہو۔۔۔ تمہاری چوت کی بو ایسے ہےکہ جیسے کوئی نشہ آور چیز ہو اور ایک بار پھر اس نے اپنی ناک میری بالوں والی چوت پر رکھ دی اور لمبے لمبے سانس لینے لگی۔۔۔
پھر جب اس نے جی بھر کر میری چوت کو مہک کو سونگھ لیا تو اپنا ناک وہاں سے ہٹا کر بولی۔۔۔ ۔۔۔بڑی بات ہے یار ۔ بڑا عجیب سا نشہ ہے تیری پھدی میں ۔۔۔ اور میری چوت کے بالوں سے کھیلتے ہوئے کہنے لگی ۔۔ چوت پر اتنے بڑے بڑے بالوں سے تم کو انت کال نہیں آتی؟ تو میں نےمسکراتے ہوئے جواب دیا کہ نہیں انت کال نہیں آتی بلکہ بال جتنے بڑے ہوں مجھے اتنا زیادہ مزہ آتا ہے۔۔تو وہ میرے بالوں پر انگلی پھیرتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔۔ ہاں یار یہ چوت کے بال نہیں ہیں بلکہ پوری مزے کی فیکڑی ہیں۔۔۔
تب میں نے عاشی کا ہاتھ پکڑا اور اسے چارپائی سے اُٹھاتے ہوئے بولی۔۔۔ میری پھدی تو تم نے دیکھ لی اور میری چوت کے بالوں سے کھیل بھی لیا۔۔۔۔چل اب اپنی بھی دکھا ۔۔۔ میری بات سنتے ہی عاشی فوراً ہی اپنی جگہ سے اُٹھی اور اپنی شلوار اتارتے ہوئے مجھے چارپائی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔۔۔ میں جیسے ہی چارپائی پر بیٹھی عاشی اپنی ننگی پھدی لیکر میرے سامنے آ گئی اور اپنی پھدی کو میرے سامنے کرتے ہوئےبولی ۔۔لو جی بادشاہو ہماری چوت کا نظارہ بھی کر لو۔۔۔ لیکن اس کے یہ بات کہنے سے پیشتر ہی میں اس کی چوت کو بڑے غور سے دیکھ رہی تھی ۔۔چونکہ عاشی موٹاپے کی طرف مائل بھرے بھرے جسم کی مالک لڑکی تھی ۔۔۔۔اس لیئے عاشی کی چوت کافی موٹی اور ابھری ہوئ تھی اور اس کے ساتھ ساتھ میرے برعکس اس کی چوت بالوں سے بلکل پاک تھی ۔۔۔ اس کی پھدی کے دونوں ہونٹ موٹے اور آپس میں ملے ہوئے تھے ۔۔۔ میں نے اس کی چوت پر ہاتھ لگایا تو اس کی چوت کا اوپری حصہ بڑا ہی نرم و ملائم تھا ۔۔۔ میں نے ہاتھ پھیرتے ہوئے اس کی طرف دیکھا اور کہنے لگی کہ۔عاشی تیری پھدی تو بڑی مکھن ملائی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ تو وہ کہنے لگی۔۔۔ پر اتنی اچھی اور خوشبودار نہیں جتنی تمہاری ہے تو میں نے اس سے کہا کہ پھدی کو خوشبودار کرنا کون سا مشکل کام ہے بس تم بھی میری طرح اس پر بال رکھ لو تو وہ کہنے لگی ۔۔۔ یار رکھ تو لوں۔۔۔۔ پر ۔۔ مجھے اپنی پھدی پر اُگے ہوئے بال ذرا بھی اچھے نہیں لگتے اس لیئے میں ہر ہفتے اس کی صفائی کرتی ہوں۔۔۔عاشی کی پھدی پر ہاتھ پھیرتے پھیرتے بے دھیانی میں جیسے ہی میری انگلیانوں نے اس کے موٹے دانے کو چھوا تو اچانک عاشی کے منہ سے ایک سسکی سی نکلی جسے سن کر میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔ دانے پر ہاتھ پھیرنا اچھا لگتا ہے تو وہ کہنے لگی۔۔۔ اچھا نہیں بہت اچھا لگتا ہے ۔۔۔
عاشی کے منہ سے یہ بات سنتے ہی میں نے اس کے بڑے سے دانے کو اپنی انگلیوں کی مدد سے مسلنا شروع کر دیا۔۔۔ایسا کرتے ہی اس نے میرا ہاتھ پکڑ لیا ۔۔۔۔تو میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔ کیوں مزہ نہیں لینا ؟ تو وہ کہنے لگی ۔۔۔ لینا ہے ضرور لینا ہے ۔۔۔ پر تم سوکھی انگلیوں سے ہی لگی ہوئی ہو ۔۔۔ایسے مجھے تکلیف ہوتی ہے ۔۔ اپنی انگلیوں کو تھوڑا گیلا تو کر لو۔۔۔۔۔۔ یہ سنتے ہی میں نے اپنی انگلیوں کو منہ میں ڈالا اور پھر ان کو تھوک سے اچھی طرح تر کرنے کے بعد منہ سے باہرنکالا ۔۔ یہ دیکھتے ہی عاشی نےبھی اپنی دونوں ٹانگوں کو تھوڑا اور چوڑا کرلیا ۔۔۔اوراپنے دانے کو میرے سامنے کرتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔ چل رگڑ۔۔۔۔ یہ سنتے ہی میں نے اپنی انگلیوں سے اس کے دانے کو رگڑنا شروع کر دیا ۔پہلے آہستہ آہستہ انگلیوں کو چلایا ۔۔۔ پھر ۔۔۔ تھوڑی دیر بعد مجھے جوش آ گیا اور میں نے تیزی کے ساتھ اس کے دانے کی رگڑائی شروع کردی۔۔۔۔اور رگڑ رگڑ کر اس کا دانہ سرخ کر دیا۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی عاشی کے منہ لزت آمیز سسکیاں نکلنا شروع ہو گئیں اور وہ اپنی چوت کو میری انگلیوں کے ساتھ مزید جوڑنے لگی۔۔۔ اسی اثنا میں اس کے دانے پر رگڑائی سے جب میری انگلیاں خشک ہو گئیں تو عاشی نے میری انگلیوں کو پکڑ کر اپنی چوت کے لبوں کے اندر کر دیا اور کہنے لگی۔۔۔۔تمہارے تھوک سے زیادہ یہاں پر چکناہٹ موجو د ہے اس لیئے اسے استعمال کر ۔۔۔۔ پھر میں نے اس کے کہنے پر اپنی دو انگلیوں کو اس کی چوت کے پانی میں ڈبویا اور کچھ چکناہٹ اس کے دانے پر لگائی اور پھر ۔۔۔۔ مسلسل رگڑائی شروع کر دی۔۔رگڑائی کے کچھ ہی دیر بعد اس کے جسم میں اکڑ پیدا ہوئی اور ایک دفعہ پھر اس کی چوت نے پتلا پتلا پانی چھوڑ دیا۔۔۔
اس کے بعد اسی طرح اس نے بھی میری چوت کی رگڑائی کی۔۔۔اور اس دن ہم نے ایک دوسرے کے جسموں کے ساتھ خوب انجوائے کیا۔۔
اس طرح ہم بڑی ہوتی گئیں اور میں اس وقت کلاس 9 میں پڑھتی تھی کہ جب ساتھ کے گاؤں سےایک زرینہ نامی لڑکی ہمارے سکول میں داخل ہوئی کیونکہ اس کے گاؤں کا سکول مڈل تک تھا اب وہ مزید پڑھائی کے لیئے ہمارے سکول میں داخل ہو گئی تھی جو کہ ایک ہائی سکول تھا ۔۔ زرینہ کافی گوری چٹی اور خاصی خوش شکل سی لڑکی تھی ۔۔لیکن اس کے بارے میں اڑتے اڑتے پتہ چلا تھا کہ وہ کچھ اچھے کردار کی مالک نہ تھی کلاس فلیو ہونے کی وجہ سے میری اور عاشی کی اس کے ساتھ گپ شپ کی حد تک سلام دعا تھی لیکن پتہ نہیں کیا بات ہے کہ وہ مجھ سے دوستی کرنے کی بڑی کوشش کرتی تھی ۔۔ میں بھی اس بات چیت تو ضرور کرتی تھی لیکن دوستی بڑھانے کی کبھی کوشش نہ کی تھی۔۔۔ ویسے بھی میری اور عاشی میں دوستی ہونے کی وجہ سے ہم لوگ کسی اور کی طرف کم ہی کی طرف متوجہ ہوتی تھیں۔۔۔
اس کے باوجود پتہ نہیں کیوں وہ لڑکی میرے ساتھ کیوں دوستی کرنا چاہتی تھی۔۔۔ایک دفعہ ایسا ہوا کہ عاشی کچھ بیمار ہو گئی اور اسے سکول سے اکھٹے چار پانچ دن چھٹی کرنا پڑی۔۔۔ اب میں اکیلی ہی گھر سے سکول آنے لگی ۔۔ایک دن اس زرینہ نے مجھ سے پوچھا کہ ۔۔۔ یار آج کل عاشی تمہارے ساتھ نہیں نظر آ رہی؟ تو میں نے اس سے کہا کہ وہ بیمار ہے اور تین چار دن تک سکول نہیں آ سکے گی۔۔تب وہ کہنے لگی ۔۔۔ صبو جی کیا عاشی جگہ میں تمہارے ساتھ بیٹھ سکتی ہوں ؟ تو میں نے کہا اس میں پوچھنے والی کون سی بات ہے تم جہاں مرضی ہے بیٹھ سکتی ہو ۔۔۔۔ اوراس طرح وہ میرے ساتھ بیٹھنے لگی ۔۔کچھ دن بعد میں نے محسوس کیا کہ زرینہ اکثر خالی پیریڈ یا تفریع کے وقت چوری چوری کوئی نہ کوئی کتاب پڑھ رہی ہوتی تھی۔۔۔ ایک دن میں نے اس سے گپ شپ کے دوران بائی دی وے پوچھا ۔۔۔۔۔۔۔کہ زرینہ یہ تم چور ی چوری کیا پڑھتی رہتی ہو؟ میری بات سن کر پہلے تو وہ تھوڑا سا گھبرائی۔۔ پھر میرے اصرار پر کہنے لگی۔۔۔وہ یار ۔۔مجھ سے گھر جا کر پڑھنا پسند نہیں اس لیئے میں یہاں خالی پیریڈ یا تفریع کے وقت ہوم ورک کر لیتی ہوں ۔۔اس کی باتوں سے صاف نظر آ رہا تھا کہ وہ جھوٹ بول رہی ہے اس لیئے میں نے اسے آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ ۔۔۔۔ زرینہ بی بی جھوٹ نہ بولو ۔۔۔۔ ہوم ورک تو کاپی پر کیا جاتا ہے اور تم ۔۔ کتاب پڑھتی رہتی ۔۔۔ یہ کیا چکر ہے؟ میری بات سن کر اس نے ایک گہرا سانس لیا اور کہنے لگی۔۔۔ میں ایک شرط پر تم کو یہ سب بتاؤں گی ۔۔۔ کہ اگر تم کسی سے بھی اس بات کا ذکر نہیں کرو گی؟ تو میں نے اس سے کہا ۔۔۔ میں سے وعدہ کرتی ہوں کہ عاشی کے علاوہ میں اس بات کا کسی سے بھی تزکرہ نہیں کروں گی۔۔۔۔ میری بات سنتے ہی وہ مسکرائی اور کہنے لگی تم نے اس ماں کو ضرور بتانا ہے ؟ تو میں نے کہا ہاں یار ۔۔۔جیسا کہ تم جانتی ہو کہ وہ میری رشتے دار ہونے کے ساتھ ساتھ میری بیسٹ فرینڈ بھی ہے۔ اس لیئےاس ماں کو بتانا بہت ضروری ہے ورنہ تمہیں تو پتہ ہے کہ ایسے مجھے روٹی ہضم نہیں ہو گی ۔۔ میری بات سن کروہ کسی سوچ میں ڈوب گئی پھر تھوڑی دیر بعد کہنے لگی ۔ چل جیسے تیری مرضی ہے ۔۔۔ویسے تم کرو۔۔۔۔ ۔۔۔۔
تفریع کے وقت وہ مجھے سکول کے گراؤنڈ کے آخیر میں لگی ٹاہلی کے نیچے لے گئی ۔۔۔ اور وہاں بیٹھتے ہی میں نے اس سے کہا ہاں اب بول یہ کیا چکر ہے؟ میری بات سنتے ہی پہلے تو اس نے بڑی راز داری سے ادھر ادھر دیکھا ۔۔۔پھر کہنے لگی۔۔۔ وعدہ ہے نا کہ تو عاشی کے علاوہ اور کسی کو بھی یہ بات نہیں بتائے گی ؟تو میں نے اس سے کہا کہ یار ایک دفعہ وعدہ کر جو لیا ہے۔۔۔ اور پھر اس سے بولی۔۔ اب خدا کے اور سپنس نہ ڈال ۔۔۔تو وہ کہنے لگی ۔۔ بات سپنس کی نہیں ہے صبو جی ۔۔۔۔۔ پھر خود ہی کہنے لگی ۔۔۔تم نے ٹھیک اندازہ لگایا تھا صبو ۔۔ خالی پیریڈ میں ۔۔۔ میں کورس کی کتاب نہیں بلکہ سیکسی کتابیں پڑھتی ہوں ۔۔۔ سیکسی کتاب کے بارے میں سن کر میرا دل دھک دھک کرنے لگا اور میں نے بڑی یقینی سے اس کی طرف دیکھا اور بولی۔۔۔تُو ۔۔تو ٹھیک کہہ رہی ہے نا ۔۔۔مذاق تو نہیں کر رہی ۔۔تو وہ ایک دم سنجیدہ ہو کر بولی ۔۔ نہیں قسم سے میں بلکل ٹھیک کہہ رہی ہوں پھر کہنے لگی۔۔دیکھو تمہارے پوچھنے پر میں نے تم کو یہ سب بتایا ہے اب خدا کے لیئے ۔۔ ۔۔ مجھے سمجھانے کی کوشش نہ کرنا کہ یہ بری بات ہے ۔۔وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔ کیونکہ مجھے سیکسی کتابیں بڑھنا بہت اچھا لگتا ہے ۔۔ اس کے منہ سے سیکسی کتابوں کا ذکر سن کر میرے اندر ایک ہل چل سی مچ گئی تھی کیونکہ ۔۔۔ میں نے اور عاشی نے ان کتابوں کے بارے میں سُن تو رکھا تھا مگر یہ کہاں سے ملتی ہیں اس بارے میں ہمیں کچھ معلوم نہ تھا اور اگر پتہ بھی ہوتا تو ہماری اتنی جرات نہ تھی کہ ہم لوگ ایسی کتابوں کو منگوا کر پڑھ سکتیں ۔۔۔اب میں نے زرینہ کی طرف دیکھا اور بولی ۔۔۔ اچھا میں تمہیں نہیں سمجھاتی لیکن کیا تم یہ بات بتا سکتی ہو کہ تم اس قسم کی کتابیں تم لاتی کہاں سے ہو؟
میری بات سن کر وہ کہنے لگی بس مل جاتی ہیں ۔۔۔ لیکن اس کی یہ بات مجھ سے ہضم نہ ہوئی اورپھر میرے کریدنے پر اس نے بتلایا کہ اس قسم کی کتابیں اس کا ایک" یار" (لور-محبوب) مہیا کرتا ہے۔۔۔ جو کہ اس کے گاؤں کے نمبردار کا بیٹا ہے۔۔یار کا ذکر سن کر میں بڑی حیران ہوئی اور اسی حیرانی میں اس سے کہنے لگی ۔۔تت تمہارا کوئی یار بھی ہے؟ میری بات سن کر وہ ہنس پڑی اور کہنی لگی ۔۔ اوئے مولوی صاحب ۔۔۔۔۔ نہ صرف میرا بلکہ اس کلاس میں آدھی لڑکیوں نے یار بنائے ہوئے ہیں ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ پھر بولی ۔۔۔ ہاں پوری کلاس میں اگر کوئی واقعی ہی شریف بیبیاں ہیں تو وہ تم دونوں بہنیں ہو ورنہ تو جن کے یار نہیں ہیں وہ بھی ادھر ادھر منہ ضرور مار لیتی ہیں۔۔پھر آنکھ مار کر بولی کہ کیا خیال ہے صبو جی تم یہ کتاب پڑھنا پسند کرو گی؟ اس کی بات سن کر میرا سانولا چہرہ ایک دم سرخ ہو گیا اور اندر سے میرا جی چاہا کہ ابھی کی ابھی وہ مجھے یہ کتاب لا دے لیکن ۔۔۔ بھرم بھی کوئی چیز ہوتی ہے اس لیئے میں بظاہر نخرہ کرتے ہوئے بولی۔۔۔ نہیں بابا ایسی گندی کتابیں مجھے نہیں پڑھنی ۔۔تو وہ کہنے لگی ۔۔۔ یار ایک بار پڑھ کر تو دیکھ تیرے چودہ طبق نہ روش ہو گئے تو پھر کہنا ۔۔۔۔ پھر ۔۔کچھ سوچ کر بولی ۔۔۔چل کتاب نہ پڑھ ۔۔ایسا کرتی ہوں میں تم کو فوٹوؤں والا رسالہ لا دوں گی ۔۔۔تم اس کو دیکھنا ۔۔۔۔ اور اگر وہ رسالہ تم کو پسند آ گیاتو ۔۔پھر میں تم کو پڑھنے کے لیئے بھی رسالے دوں گی ۔۔۔۔ اس پر میں نے نیم رضامندی ظاہر کرتے ہوئے اس کے کہا کہ۔۔۔ان فوٹوؤں والے رسالے میں کیا ہوتا ہے ۔۔تو وہ شرارت سے مسکرا کر بولی۔۔۔ یہ تم خود ہی دیکھ لینا۔۔۔
اگلے دن گھر سے سکول آتے ہوئے میں نے عاشی کو اس بارے میں بتایا تو سن کر وہ خاصی پر جوش سی ہو گئی اور کہنے لگی۔۔۔ تم ضرور اس سے یہ رسالہ لینا ہم دونوں مل کر دیکھیں گی ۔۔۔ اور پھر سارے راستے ہم دونوں اسی بارے ڈسکس کرتی رہیں ۔۔۔ اور طے یہ پایا کہ زرینہ جو عاشی کی جگہ میرے ساتھ بیٹھی تھی اسے بیٹھے رہنے دینا ہے جبکہ عاشی بائیں جانب میری ساتھ بیٹھ جائے گی۔۔ چنانچہ سکول پہنچتے ہی اسمبلی سے پہلے زرینہ مجھے ایک طرف لے گئی اور کہنے لگی ۔۔۔۔وہ تمہارا رسالہ میں لائی ہوں ۔۔۔ تو میں نے بظاہر بے نیازی سے اس کی طرف دیکھ کر کہا ۔۔۔اس کی کیا ضرورت تھی ؟ تو وہ کہنے لگی ۔۔۔ ایک بار دیکھ تو لو۔۔۔۔ اس طرح تھوڑے سے نخروں کے بعد میں نے اس سے رسالہ لینے کی حامی بھر لی ۔۔ چنانچہ ایک خالی پیریڈ میں اس نے بڑے طریقے سے اردو کی کتاب میں رکھ کر وہ رسالہ میرے حوالے کیا ۔۔۔ جو میں نے کانپتے ہاتھوں سے اس سے وصول کیا اور پھر چوری چوری اس کو دیکھنے لگی۔۔۔۔ رسالے کی پہلی تصویر دیکھتے ہی میری تو سٹی گم ہو گئی۔۔۔ وہ ایک گوری کی ننگی فوٹو تھی ۔۔۔ جس نے اپنے ہاتھ میں ایک کالے حبشی کا بڑا سا لن پکڑا ہوا تھا ۔۔۔ یہ تصویر دیکھ کر میں تو کانوں تک سرخ ہو گئی ۔۔اور اس کے ساتھ ہی میرے نیچے بھانبڑ جلنا شروع ہو گیا۔۔۔ جیسے جیسے میں ان تصوروں کو دیکھتی جاتی ویسے ویسے میرے چودہ طبق روشن ہوتے جاتے اور مجھ پر سیکس کے نئے نئے افق طلوع ہونا شروع ہو گئے ۔۔۔اور مجھے سیکس کی نئی نئی ڈیفی نیشن معلوم ہونا شروع ہو گئیں کہاں میں اور عاشی صرف گالوں کو چومنا اور مموں کو چوسنا ۔دبانا اور پھدی کو مسلنا ہی سیکس کی معراج سمجھتی تھیں جبکہ یہاں تو لِپ کسنگ ۔۔۔ پھدی چاٹنا ۔۔۔۔ اور لن چوسنا ۔۔۔
وغیرہ وغیرہ دیکھ کر میں اندر سے بڑی ہی پرُ جوش سی ہو گئی اور خاص کر میری چوت بہت سخت اشتعال میں آ گئی۔۔ لیکن بظاہر میں نے زرینہ کی طرف دیکھ کر کہا کہ ۔۔۔یہ گوریاں کتنی گندی ہوتی ہیں ۔۔ دیکھو نا ۔۔۔اس کی پیشاب والی جگہ کو منہ میں لیا ہوا ہے۔۔۔ جبکہ اندر سے میرا جی یہ کر رہا تھا کہ کاش ایسا موٹا اور کالا ڈنڈا مجھے مل جائے تو اپنی بھی موجیں ہو جائیں۔۔۔ میری بات سن کر زرینہ کہنے لگی۔۔۔ اس بات کو چھوڑ تو یہ بتا کہ رسالہ کیسا ہے؟ تو میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔ اچھا رسالہ ہے ۔۔۔ تو وہ کہنے لگی ۔۔آرام سے دیکھ میں چھٹی کے وقت تم سے لے لوں گی۔۔۔ چنانچہ تفریع کے وقت اسی ٹاہلی کے نیچے بیٹھ کر میں نے عاشی نے جی بھر کر اس رسالے کی فوٹوؤں کو دیکھا اور پھر یہ بھی طے کیا کہ آئندہ ہم بھی ایک دوسرے کی پھدیاں چاٹا کریں گی۔۔۔۔ تفریع کے بعد مطالعہ کے پیریڈ میں بھی ۔۔۔ میں چوری چوری وہی رسالہ دیکھتی رہی۔۔۔ اور پھر ۔۔۔ جب میرے جزبات عروج پر پہنچ گئے تو میں نے چپکے سے عاشی کے کان میں کہا۔۔۔ عاشی ۔۔ فوٹوویں دیکھ دیکھ کر میں تو آؤٹ ہو رہی ہوں۔۔ میری پھدی کا کچھ کر ۔۔۔تو وہ بھی بظاہر کتاب کی طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگی حرام دیئے ۔۔۔اس وقت کچھ نہیں ہو سکتا چپ کر کے ٹیچر کا لیکچر سنو ۔۔۔ اس کی بات سن کر میں نے ٹیچر کی بات سننے کی بڑی کوشش کی لیکن نیچے سے میری پھدی میں سخت ابال آیا ہوا تھا اس لیئے میں نے۔۔۔۔پھر عاشی کی طرف جھکی اور بولی۔۔۔۔۔قسم سے عاشی بات میری برداشت سے باہر ہو گئی ہے۔۔تب عاشی نے برا سا منہ بنا یا اور بولی ۔۔۔ سنجا یوہنے ( پھدی مروانے والیئے) فوٹوؤں کو اتنا زیادہ نہیں دیکھنا تھا ۔۔اور پھر بولی اچھا ٹیچر سے اجازت لیکر کر تم واش روم کی طرف جاؤ میں بھی تھوڑی دیر تک آتی ہوں ۔۔۔ عاشی کی بات سن کر میں نے شکر کیا ۔۔۔اور ٹیچر سے اجازت لیکر کر واش روم کی طرف چلی گئی جو کہ ہمارے سکول کی کلاس رومز کے آخر میں ایک ساتھ لائین میں بنے ہوئے تھے۔۔۔
میں کلاس سے نکل کر آہستہ آہستہ ایک لائن میں بنے واش رومز کی طرف بڑھنے لگی جب میں ان کے قریب پہنچی تو پیچھے مُڑ کر دیکھا تو عاشی بھی تیز تیز قدموں سے چلتے ہوئے میری طرف آ رہی تھی میں نے اسے آخری واش روم کا اشارہ کیا اور جلد ی سے وہاں گھس کر عاشی کا انتظار کرنے لگی۔۔۔تھوڑی ہی دیر بعد عاشی بھی میرے واش روم میں آ گئی ۔۔۔اورکنڈی لگتے ہی اس نے اپنا ہاتھ میری شلوار کے اندر ڈال دیا ۔۔۔۔۔اور چوت پر ہاتھ لگا کر بولی۔۔۔۔۔ حرام دیئے لوکی جہیڑا کم رات دے اندھیرے وچ کردے نے ۔۔۔او ۔۔۔تُوں میتھوں شِکر دوپہرے کروا رہی ایں ۔۔۔۔(حرام ذادی ۔ لوگ جو کام رات کے اندھیرے میں کرتے ہیں تم وہی کام مجھ سے بھری دوپہر میں کروا رہی ہو) اور اس کے ساتھ ہی اس نے بڑی تیزی کے ساتھ میری پھدی کو مسلنا شروع کر دیا ۔۔۔۔
مجھے چونکہ پہلے ہی سے کافی گرمی چڑھی ہوئی تھی اس لیئے اس کے تھوڑی سی دیر چوت ملنے سے میری چوت نے پانی چھوڑ دیا۔۔ جیسے ہی میں خارج ہوئی اس نے میری طرف دیکھا اور کہنے لگی۔۔۔ بس ۔۔۔ تو میں نے شکریہ کے طور پر اس کے گال چومے اور اس کے ممے دبا کر بولی ۔۔بس ۔۔۔ تو وہ مجھ سے یہ کہتے ہوئے رُخصت ہوئی کہ اپنا حلیہ درست کر کے آ جاؤ ۔۔۔وہ تو چلی گئی ۔۔۔ لیکن میرے کانوں میں اس کا یہ جملہ مسلسل گونجتا رہا کہ ۔۔۔ لوگ جو کام رات کی تاریکی میں کرتے ہیں وہ ۔۔۔ پھر نا جانے کیوں میرے زہین عاشی کا کہا ہوا ۔۔۔رات کی تاریکی میں ۔۔۔۔رات کی تاریکی ۔۔۔ میرے ذہن میں مسلسل گردش کرتا رہا۔۔۔۔
جیسا کہ میں نے شروع میں آپ کو بتایا ہے کہ ہمارے گھر میں دو ہی کمرے تھے ایک میں امی اور ابا سوتے تھے جبکہ دوسرے کمرے میں ۔۔۔ میں ۔۔۔اور میرا چھوٹا بھائی شعیب سوتے تھے۔۔۔۔ جس دور کی میں بات کر رہی ہوں اس وقت شعیب جسے پیار سے ہم شبی کہتے تھے۔۔۔۔ پانچویں کلاس میں پڑھتا تھا ۔۔۔ یہاں یہ بات بھی آپ لوگوں کے گوش گزار کر دوں کہ بڑی ہونے کی وجہ سے شبی کو ٹیوشن بھی پڑھاتی تھی اور پڑھاتے وقت اس کو خوب مارا بھی کرتی تھی ۔۔۔اس لیئے شبی کی مجھ سے جان جاتی تھی ۔۔۔ مطلب وہ مجھ سے بہت ڈرتا تھا۔۔۔ یہ اسی دن کی بات ہے کہ عاشی کے ہاتھ مارنے سے وقتی طور پر تو میری پھدی ٹھنڈی ہو گئی تھی ۔۔۔ لیکن ۔۔۔۔۔ اس دن ننگی تصوریریں دیکھنے کی وجہ سے میں ضرورت سے سے کچھ زیادہ ہی گرم ہو گئی تھی۔۔۔ اور رسالے میں دیکھی ہوئی ننگی تصویریں بار بار میری آنکھوں کے سامنے آ جاتی تھی ۔۔۔۔اس لیئے میں بڑی بے چین تھی ۔۔۔ اور یہ سکول سے واپسی پر دوپہر کا واقعہ ہے کہ گرمی کی وجہ سے امی ابا اپنے کمرے میں سوئے ہوئے تھے اور ان کے ساتھ ہماری چھوٹی بہن زیب بھی سوتی تھی جبکہ میں اور شبی ایک ہی بستر پر سویا کرتے تھے۔۔۔۔
دوپہر کا وقت تھا ۔۔۔ میں سکول سے واپسی پر گھر آئی اور یونیفارم وغیرہ اتار کر واش روم سے ہو کر واپس اپنے کمرے آئی تو دیکھا کہ شبی سیدھے منہ بستر پر لیٹا ہوا ہے میں زرا اس کے پاس گئی تو دیکھا کہ ۔۔وہ گہری نیند سو رہا تھا ۔۔۔ اسے دیکھ کر ابھی میں واپس ہونے ہی والی تھی کہ ۔۔۔ اچانک میں ٹھٹھک کر رُک گئی۔۔۔ اور جس چیز نے مجھے رُکنے پر مجبور کر دیا تھا۔۔۔۔۔ وہ ۔۔۔ وہ ۔۔۔ شیعب کا لن تھا۔۔۔۔ جو اس وقت الف کھڑا تھا ۔۔۔ گو کہ وہ اتنا بڑا نہیں تھا ۔۔۔ لیکن پھر بھی اس کی شلوار اوپر کو اُٹھی ہوئی تھی۔۔جسے دیکھ کر ۔میرے بڑھتے ہوئے قدم رُک گئےتھے ۔۔۔۔۔ اور میں ۔۔میری نظریں ۔۔ شعیب کی شلوار میں بنے ابھارپر جم سی گئیں ۔۔۔ عین اسی وقت مجھے رسالے میں دیکھے ہوئے کالوں کے لن یاد آ گئے۔۔۔۔ ان کے لن کا یاد آنا تھا ۔۔۔۔ کہ میں پسینہ پسینہ ہو گئی ۔۔۔۔ اور چھوٹے بھائی کا لن دیکھتے ہوئے میرا دل دھک دھک کرنے لگا۔۔۔۔ پھر میں نے یہ کہہ کر اپنی نظروں کو وہاں سے ہٹا دیا ۔۔۔ کہ ۔۔یہ۔یہ میں کیا کر رہی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ میرا چھوٹا بھائی ہے۔۔۔ سگا چھوٹا بھائی۔۔۔ اور باہر جانے کے لیئے آگے بڑھ گئی۔۔۔۔ لیکن ابھی میں دو ہی قدم آگے بڑھی تھی ۔۔۔ کہ ۔۔۔ پھر سے میری آنکھوں کے آگے ۔۔۔ رسالے میں دیکھے ہوئے کالوں کے بڑے بڑے لن گھوم گئے ۔۔۔ اور میں نے یہ کہہ کر خود کو روک لیا کہ دیکھوں تو سہی کہ شبی کا لن ان کالوں کے لنوں سے کتنا چھوٹا ہے۔۔۔۔ اور دھڑکتے دل کےساتھ اُلٹے قدموں سے واپس ہو گئی۔۔۔۔ اور ایک بار پھر شبی کے کھڑے ہوئے لن کو دیکھنے لگی ۔۔۔ اچانک میرے ذہن میں خیال آیا کہ کہیں امی یا زیب نہ اُٹھ جائے چنانچہ میں جلدی سے دروازے کے پاس گئی اور باہر جھانک کر دیکھا تو ۔۔باہر ۔۔۔۔ ہُو کا عالم تھا ۔۔۔ یہ دیکھ کر میں واپس ہوئی ۔۔۔۔ اور شبی کی طرف بڑھنے لگی۔۔۔۔ اس وقت میرے دل میں طرح طرح کے خیال آ رہے تھے۔۔۔۔ لیکن میں خود کو مختلف دلیلیں دیتی ۔۔۔شبی کی چارپائی کی طرف بڑھنے لگی۔۔۔۔اس کا لن ابھی تک ویسے ہی کھڑا تھا۔۔۔پتہ نہیں کیوں اس وقت میں بڑی احتیاط کے ساتھ بڑے پھونک پھونک کر قدم رکھ رہی تھی ۔۔اور بڑے ہی احتیاط سے چلتے ہوئے جیسے ہی میں شبی کی چارپائی کے قریب ۔۔۔ پہنچی ۔۔ ۔۔۔ بہت احتیاط کے ساتھ ۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ اچانک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنی طرف سے تو میں بڑی ہی احتیاط کے ساتھ شبی کی طرف بڑھ رہی تھی ۔۔۔ لیکن پھر پتہ نہیں کیا ہوا ۔۔ یا پھر شاید اس کی چھٹی حس نے کچھ کام کیا تھا ۔۔۔۔کیونکہ جونہی ہی میں اس کی چارپائی کے قریب پہنچی تو اچانک ہی شبی ہڑ بڑا کر اُٹھ کھڑا ہوا ۔۔اور ادھر ادھر دیکھنے لگا ۔۔پھر۔۔جیسے ہی اس کی نظر مجھ پر پڑی تو وہ ایک دم خوف ذدہ سا ہو گیا اور ۔۔۔ میری طرف دیکھ کر بولا ۔۔۔ کیا ہوا باجی؟ تو میں نے حسبِ معمول اس سے تھوڑی سختی سے کہا ۔۔۔ کیا ہونا ہے؟ میرے لہجے کی پھنکار سن کر وہ بے چارہ سہم گیا ۔۔۔اور مزید کوئی بات کیئے بغیر چارپائی سے اُٹھ کر خاموشی سے باہر چلا گیا۔۔۔ اسے باہر جاتے دیکھ کر میں کافی مایوس ہوئی اور اپنا سر پکڑ کر چارپائی پر بیٹھ گئی۔چونکہ اس وقت میرے جزبات عروج پر تھے اس لیئے اس مایوسی کی وجہ سے میرے سر میں درد ہونا شروع ہو گیا ۔۔۔ لیکن میں نے اس درد کی پروہ نہ کی اور خاموشی سے بستر پر لیٹ گئی۔۔۔۔ اور چارپائی پر کروٹیں بدلتے ہوئے شبی کے بارے میں سوچنے لگی۔۔۔۔ اور پھر سوچتے سوچتے آخرِ کار میرے ذہن میں ایک ترکیب آ ہی گئی ۔اس ترکیب کا ذہن میں آنا تھا کہ میں چارپائی سے اُٹھ بیٹھی اور اس ترکیب کو فول پروف بنانے کے لیئے میں اس کے باقی جزیات پر بھی غور کرنے لگی۔۔۔ اور پھر ساری جزیات طے کرنے کے بعد جب میرے حساب سے جب یہ منصوبہ فائینل ہو گیا تو میں نے ایک دفعہ پھر اس پر غور کیا ۔۔۔ اور یہ سب طے کرنے کے بعد۔۔۔ میں خود کو ایک دم سے ہلکا پھلکا محسوس کرنے لگی۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی حیرت انگیز طور پر میرے سر کا درد بھی غائب ہو گیا ۔ چنانچہ میں چارپائی سے اُٹھی اور کمرے سے باہر آ گئی۔۔ اب مجھے بڑی شدت سے رات ہونے کا انتظار تھا۔۔۔
ہر چند کہ وہ گرمیوں کے دن تھےاور جیسا کہ آپ لوگ جانتے ہیں کہ گرمیوں کے دنوں میں گاؤں اور قصبوں کے لوگ کھلے صحن یا چھت پر سونا پسند کرتے ہیں ۔۔ لیکن چونکہ ان دنوں ہمارے علاقے میں اچانک ہی چوری اور ڈکیتی کی وارداتوں میں ایک دم سے بہت اضافہ ہو گیا تھا اور یہ گروہ چوری اور ڈکیتی کے ساتھ ساتھ مزاحمت پر اکثر گھر والوں قتل کو بھی کر دیا کرتے تھے اس لیئے علاقہ بھر میں ان کی بڑی دہشت پھیل گئی تھی ۔۔ چنانچہ اسی ڈر کی وجہ سے انہی دنوں ہم لوگ باہر صحن یا چھت پر نہیں بلکہ کمروں کے اندر کنڈیاں وغیرہ لگا کر سویا کرتے تھے ۔۔۔ہاں تو میں کہہ رہی تھی کہ شام کو کھانا کھانے کے بعد حسبِ معمول میں اپنے کمرے کی طرف جانے لگی ۔۔۔تو پیچھے سے اماں نے روز کی طرح ایک بار پھر سختی سے تاکید کی کہ سوتے وقت دروازے کو کُنڈی لگا کر سونا ۔۔۔۔اور جیسا کہ آپ کو پتہ ہے کہ میں تو پہلے ہی یہی چاہتی تھی کہ جب میں بھائی کے ساتھ واردات ڈال رہی ہوں تو دروازہ لاک ہو۔۔۔اس لیئے میں نے اماں کی بات سن کر خاموشی سے سر ہلا دیا اور اپنے کمرے میں چلی آئی ۔(اور میں کمرے میں اس لیئے پہلے آتی تھی کہ روز مجھے چارپائی پر بستر درست کرنا اور اسے جھاڑنا وغیرہ ہوتا تھا )۔چنانچہ اس رات بھی چارپائی پر بستر وغیرہ جھاڑنے کے بعد میں ۔۔۔ شبی کا انتظار کرنے لگی۔ پھر تھوڑی ہی دیر بعد ۔۔۔ شبی بھی آ گیا ۔۔
۔ ویسے تو وہ روز ہی اسی ٹائم پر کمرے میں آیا کرتا تھا لیکن اس رات مجھے ایسا لگا کہ جیسے وہ بہت لیٹ آیا ہو ۔۔۔ یہ شبی کی پکی روٹین تھی کہ وہ کمرے میں داخل ہو کر پہلے میرے ساتھ روز مرہ کی گپ شپ کرتا اور پھر کچھ دیر بعد میرے ساتھ ہی چارپائی پر سو جایا کرتا تھا لیکن پتہ نہیں کیوں آج شبی کو کمرے میں داخل ہوتے دیکھ کر ۔۔۔ مجھے خواہ مخواہ ہی انگڑائیاں کیوں آنے لگیں تھیں ؟؟۔۔ چنانچہ جیسے ہی شبی کمرے میں داخل ہوا ۔۔۔ اپنے آپ ہی مجھ پر ایک مستی سی چھانے لگی ۔اور میں نے ایک توبہ شکن انگڑائی لیتے ہوئے اس سے کہا ۔۔ آج بڑے لیٹ آئے ہو؟ میری بات سن کر وہ بے چارہ خاصہ حیران ہوا ۔۔۔۔۔اور اسی حیرانی میں ۔۔۔میری طرف دیکھتے ہوئے بولا۔۔۔میں تو کوئی لیٹ نہیں باجی ۔بلکہ۔۔ میں تو اپنے ٹائم پر آیا ہوں ۔۔اور پھر میری حالت سے بے خبر اس نے اپنے جوتے اتارے اور بستر پر آ کر لیٹ گیا اور پھر کچھ دیر ادھر ادھر کی باتوں کے بعد وہ نیند کی آغوش میں چلا گیا ۔۔۔ ادھر میں اس کے پاس لیٹی ۔۔۔ اس کی نیند گہری ہونے کے انتظار میں چارپائی پر کروٹیں بدلتی رہی ۔۔۔ اسی دوران آدھی رات ہو گئی اور جب مجھے اس بات کا پکا یقین ہو گیا کہ شبی گہری نیند میں چلا گیا ہے تو میں نے اسے چیک کرنے کی خاطر ۔۔۔اسے ہلکی سی آواز میں شبی کہہ کر پکارا ۔۔۔ لیکن دوسری طرف سے کوئی جواب نہ آیا ۔۔۔ اس کے بعد میں نے تھوڑی تیز اور غصے بھری آواز میں کہا ۔۔۔ شبی کیا تم جاگ رہے ہو؟ لیکن اس بار بھی دوسری طرف سے کوئی جواب نہ آیا۔۔۔ تب میں ادھر ادھر دیکھتے ہوئے بڑی آہستگی سے چارپائی اُٹھی۔۔اور اس کی طرف دیکھنے لگی۔۔۔ وہ چاندنی رات تھی اور چاند کی چاندنی ہمارے روشن دان اور کھڑکی سے چھن چھن کر کمرے میں آ رہی تھی۔۔۔ جس سے ہمارا تاریک کمرا تھوڑا سا روشن ہو گیا تھا ۔۔۔ اتنا روشن کہ اس ملگجے سے اندھیرے میں مجھے شبی کی دھندلی سی صورت نظر آ رہی تھی۔۔۔ اب میں نے چارپائی پر بیٹھ کر اس کی آنکھوں کے سامنے اپنا ایک ہاتھ لہرایا ۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی اس کے منہ پر ہلکی سی چپت مار کر ۔۔ بولی ۔۔۔شبی ۔۔۔او شبی کے بچے۔۔ لیکن وہاں سے کوئی جواب نہ پا کر میں تھوڑا مطمئن ہو گئی اور پھر ادھر سے ۔۔۔اطمینان حاصل ہونے کے بعد میں نے ایک دفعہ پھر ادھر ادھر دیکھا ۔۔۔ہر طرف ایک گہری خاموشی چھائی تھی ۔۔۔۔اورپھر اسی خاموشی اور خالی پن دیکھ کر ۔میں نے شبی کی طرف دیکھا ۔۔۔اور آنے والے لمحات کا تصور کرتے ہوئے میرا دل دھڑکنے لگا۔۔۔اور میں اسی دھڑکتے دل کے ساتھ چارپائی پر شبی کے ساتھ جُڑ کر لیٹ گئی۔اور اس کے ردِ عمل کا انتظار کرنے لگی۔ ۔۔ جب وہاں سے کوئی ردِ عمل نہ آیا تو میں تھوڑا اور آگے بڑھی اور اس کی ٹانگوں میں اپنی ٹانگیں پھنسا لیں ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی میں نے شبی کو اپنے ساتھ چمٹا لیا۔۔۔۔ اور پھر دھیرے دھیرے اس کے بدن کے ساتھ اپنے بدن کو ملا لیا ۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی ۔۔۔ اپنے جسم کے زیرں حصے اور اپر باڈی کو اس کے جسم کے ساتھ مسلنے لگی ۔شبی کے ساتھ اپنی باڈی کو مسلتے ہوئے کچھ دیر بعد۔۔۔۔
اچانک ہی مجھے اپنی رانوں کے اوپر ۔۔ کسی نوک دار چیز کی چھبن کا احساس ہوا ۔۔اور یہ نوک دار چیز میری دائیں ران کے اوپری حصے پر چُبھ رہی تھی ۔۔۔۔ میں نے اس کے جسم کے ساتھ اپنا جسم رگڑنا بند کیا اور اس چھبن کے بارے میں غور کرنے لگی ۔۔۔۔اور پھر فورا ً ہی مجھے اس بات کا احساس ہو گیا کہ وہ نوک دار چیز اور کوئی کچھ نہیں ۔۔۔۔۔۔بلکہ شبی کا لن تھا ۔ جو شاید میرے بدن کی رگڑ سے کھڑا ہو گیا تھا ۔شبی کے لن کا خیال آتے ہی میرے بدن میں ایک سنسنی سی دوڑ گئی – چنانچہ میں فورا ً ہی شبی سے الگ ہوئی اور ایک سائیڈ پر ہو کر اس کے لن کی طرف دیکھنے لگی۔۔ اس وقت شبی ایک سائیڈ کروٹ لیئے ہوا تھا اس لیئے مجھے شلوار کے اندر سے اس لن ٹھیک سے نظر نہ آ رہا تھا۔۔۔ چنانچہ میں نے شبی کی طرف دیکھتے ہوئے بڑی احتیاط سے اس کو کروٹ دلائی ۔۔۔۔اور اب میرے سامنے شبی سیدھا لیٹا ہوا تھا اور عین لن والی جگہ سے اس کی شلوار اوپر کو اُٹھی ہوئی تھی۔۔۔۔ جسے دیکھ کر مجھے دن کو دیکھے ہوئے کالوں کے لن یاد آ گئے اور اس کے ساتھ ہی میرے من میں ۔۔۔شبی کا لن دیکھنے کی شدید خواہش پیدا ہو گئی۔۔۔.. اس خواہش کا میرے زہن میں آنا تھا کہ میں تھوڑا آگے بڑھی اور شبی کی طرف دیکھتے ہوئے پہلے تو اس کی قمیض کو اوپر کیا ۔۔۔ جس سے شلوار میں کھڑا اس کا لن تھوڑا واضع نظر آنے لگا۔۔ لیکن بیچ میں شلوار ہونے کی وجہ سے میرا مزہ تھوڑا کرکرا ہو گیا ۔۔ پھر بھی اس کی اُٹھی ہوئی شلوار میں سے اس کا لن دیکھ کر میرے جسم میں ایک سنسنی سی دوڑ گئی ۔۔۔۔۔ اور میرے منہ میں پانی بھر آیا ۔۔۔ چونکہ مجھے شبی کا ننگا لن دیکھنے کی شدید حاجت ہو رہی تھی اس لیئے ۔۔۔ میں نے ایک نظر شبی کی طرف دیکھا اور پھر بڑی احتیاط سے ۔۔۔ اس کی طرف دیکھتے ہوئے ۔۔۔۔ میں نے اس کے نالے پر (آزار بند) پر ہاتھ رکھ دیا۔۔ اور پھر بڑی آہستگی کے ساتھ شبی کا نالا (آزار بند ) کھول دیا۔۔۔ اور پھر اس کی شلوار نیچے کر دی۔۔۔اور شبی کے ننگے لن کی طرف دیکھنے لگی۔۔۔۔ جیسے ہی میری نظر شبی کے لن کی طرف گئی تو اسے دیکھ کر مجھے ایک جھٹکا سا لگا ۔۔۔۔۔ شبی کا لن ۔۔۔۔۔۔۔ جسے میں لن سمجھ رہی تھی وہ ایک چھوٹی اور پتلی سی للی تھی۔۔۔ جو اس وقت پوری قوت کے ساتھ بلکل سیدھ میں کھڑی تھی ۔۔ چونکہ اس وقت میرے ذہن میں رسالے میں دیکھے ہوئے کالوں کے لن گھوم رہے تھے اس لیئے شبی کی چو ٹی سی ۔۔۔للی کو دیکھ کر میں خاصی مایوس ہوئی ۔۔۔۔ کیونکہ نا چاہتے ہوئے بھی میں شبی کے لن کا مقابلہ رسالے میں دیکھے ہوئے حبشیوں کے بڑے بڑے لنوں سے کر رہی تھی ۔۔۔ جبکہ شبی کی للی میری درمیانی انگلی جتنی لمبی اور اسی جتنی موٹی تھی۔۔۔ جبکہ پتہ نہیں کیوں میں اس سے حبشیوں جتنے لن کی تو قع کر رہی تھی جو کہ شبی جیسے بچے کے ساتھ سرا سر ظلم تھا ۔۔ لیکن شہوت کے عروج کی وجہ سے اس وقت مجھے یہ بات سمجھ نہ آ رہی تھی۔۔چنانچہ ادھر سے مایوس ہو کر میں نے دوبارہ سے اس کی شلوار کو باندھا اور ۔۔۔ پھر ۔۔۔ شبی کی للی کی طرف دیکھتے ہوئے رسالے میں دیکھے ہوئے حبشیوں کے لنوں کے بارے میں سوچنے لگی۔۔۔ ۔۔
اور جیسے ہی میرے زہن میں کالوں کے بڑے بڑے لنوں کا تصور آیا ۔۔۔میں ایک بار پھر گرم ہو نے لگی۔۔۔۔اور جو کیفیت شبی کے لن کو دیکھ کر ہوئی تھی ۔۔۔۔ وہ آہستہ آہستہ ختم ہونے لگی ۔۔ اور پھر اچانک میرے ذہن میں یہ خیال آیا کہ ۔۔۔ کاش ۔۔۔۔شبی کی جگہ کوئی بڑے لن والا مرد ہوتا۔۔تو۔۔۔۔۔ یہ خیال آتے ہی میرے جسم کے زیریں حصے میں دو ٹانگوں کے سنگم پر بنی چوت میں پانی آنا شروع ہو گیا۔اور میں دوبارہ سے اپنی فارم میں آ گئی ادھر چوت میں پانی آتے ہی ۔۔مجھ پر مزید گرمی چڑھ گئی ۔۔۔ چنانچہ اسی گرمی کے تحت میں نے ایک نظر کمرے میں دوڑائی اور پھر شبی کی طرف دیکھ کر میں نے اسے دوبارہ سے اپنی باہوں میں لے لیا ۔۔۔اور پھر اس کو اپنے ساتھ چمٹا کر میں نے اپنی دونوں ٹانگوں کو تھوڑا سا اور کھولا اور شبی کی نوک دار چیز کو ۔۔اپنی ۔ دونوں ٹانگوں کے بیچ میں کر لیا ۔۔اور اپنے ہپس کو ہلانے لگی۔ ۔۔ہپس ہلانے سے اس کی نوک دار للی جب میرے دانے سے رگڑ کھاتی تو ۔۔۔ مجھ پر مستی کی ایک عجیب لہر سوار ہو جاتی تھی ۔۔۔۔۔کچھ دیر تک میں ایسا کرتی رہی ۔۔۔۔ میں اس کی للی کو جتنا اپنی چوت کے دانے یا لیکر پر پھیرتی ۔۔۔ میرے اندر اتنی ہی آگ بھڑکتی جاتی تھی۔۔۔ اور پھر تھوڑی بعد ۔۔۔
اس کی للی رگڑتے ہوئے میری چوت نے پانی چھوڑ دیا ۔۔۔ ۔۔۔ یہ دیکھ کر میں نے اس نوک دار چیز کو اپنی ۔۔ ٹانگوں کے بیچ سے ہٹایا ۔۔۔اور ۔۔۔۔ تھوڑا ایک طرف ہو کر بیٹھ گئی ۔۔ شبی کے ساتھ اپنے جسم کو ٹچ کرنے ۔۔۔۔۔اور باالخصوص اس کی نوک دار چیز کی میرے دانے پر رگڑ سے مجھے کافی سکون ملا تھا ۔لیکن میرے اندر لگی ہوئی آگ ابھی ٹھنڈی نہ ہوئی تھی ۔اسی لیئے۔۔ میں علحٰیدہ ہو کر ۔دوبارہ سے۔۔ اس کی شلوار میں اُٹھی ہوئی نوک دار چیز کی طرف دیکھ رہی تھی ۔۔۔ جبکہ دوسری طرف شبی للی کھڑی کیئے ویسے کا ویسا ہی بے سدھ سو رہا تھا ۔۔۔۔ ۔۔اس بات پر میں تھوڑا حیران بھی ہوئی پھر یاد آیا کہ شبی ہمیشہ ہی گھوڑے بیچ کر گہری نیند سویا کرتا تھا لیکن پھر بھی میں نے اپنی تسلی کے لیئے اسے ہلا جُلا کر ٹٹولا تو واقعی ہی اسے سوتے ہوئے پایا ۔ ۔۔۔۔۔ چنانچہ اس طرف سے مطمئن ہو کر کر پہلے تو میں نے اپنی قمیض کو تھوڑا اوپر کیا ۔۔۔۔
اور پھر اپنی چھوٹی چھوٹی چھاتیاں کو ننگا کر دیا ۔۔۔ اور ۔۔۔پھر شبی کی طرف دیکھتے ہوئے میں نے اپنے جزبات سے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑلیا ۔۔۔۔اور۔۔۔ پھر اس کے ہاتھ کو بڑی آہستگی سے اپنی ننگی چھاتیوں پر رکھ دیا۔۔۔ اور پھر اس کے ہاتھ کو پکڑ کر اپنی چھاتیوں پر گھمانے لگی۔۔ ۔۔۔۔ ایسے کرتے ہوئے مجھے بڑی لزت ملی اور ۔۔ پھر اس کا ہاتھ گھماتے ہوئے ۔ مجھے اس کام میں اتنا مزہ ملا۔۔۔ کہ ایسا کرتے ہوئے میری چھاتیوں کے چھوٹے چھوٹے نپل اکڑ گئے اور میرے بدن میں شہوت کی گرمی بڑھنے لگی۔۔۔۔۔۔۔
۔اس لیئے کچھ دیر تک میں اس کے ہاتھ کو اپنی چھاتیوں پر گھماتی رہی ۔۔۔۔پھر اس کے تھوڑی د یر بعد میں اپنی چاپائی سے تھوڑا اوپر اُٹھی اور شبی کی طرف دیکھا ۔۔۔اور اس کی طرف سے کوئی ردِ عمل نہ پا کر میں ۔۔ پھر سے چارپائی پر لیٹ گئی ۔۔۔۔ اور ۔۔۔ خود بخود میرے ہاتھ ۔۔۔اپنی شلوار کے نالے (آزار بند ) کی طرف بڑھ گئے۔۔۔ ہر چند کہ کمرے میں میرے اور شبی کے علاوہ اور کوئی بھی نہ تھا۔۔۔ پھر بھی میں بڑی احتیاط برت رہی تھی ۔۔۔۔اور کوئی بھی حرکت کرنے سے پہلے میں آس پاس کے ماحول کو اچھی طرح چیک کر لیتی تھی۔۔۔ چنانچہ اپنی شلوار کا نالہ کھولنے سے پہلے میں نے ایک بار پھر ادھر ادھر دیکھا ۔۔۔ اس وقت میرا پورا جسم پسینے میں بھیگا ہوا تھا۔اور بار بار میرے دل میں یہ خیال آ رہا تھا کہ اب بس کروں ۔۔کہ ایسا نہ ہو کہ شبی اُٹھ جائے ۔۔۔۔ یا خدا نخواستہ گھر کا کوئی فرد کھڑکی سے دیکھ نہ لے ۔۔ اسی خوف اور انجان اندیشوں یا شہوت کے باعث میرا سارا جسم بری طرح کانپ رہا تھا ۔۔۔۔ لیکن چونکہ اس وقت میرے سر پر شہوت سوار تھی ۔۔اس لیئے میں ۔۔۔۔ انجانے خوف اور ۔ اندیشو ں ۔ کے ہوتے ہوئے بھی ۔۔۔اپنی شلوار کا نالا کھول رہی تھی۔۔۔۔ پھر میں نے بڑی احتیاط ادھر ادھر اور شبی کی طرف دیکھتے ہوئے اپنی شلوار کا نالا کھولا ۔۔۔۔ اور پھر شلوار کو اپنے گھٹنوں تک سرکا دیا۔۔۔۔ شلوار نیچی کرنےکے بعد میں ایک بار پھر اوپر اُٹھی اور ۔۔۔ اپنی چوت کو دیکھنے لگی ۔۔۔ لیکن رات اور پھر اوپر سے اس پر بھاری تعداد میں بالوں کے ہونے کی وجہ سے میں اپنی چوت کو اچھی طرح سے نہ دیکھ سکی ۔۔۔ اس لیئے میں نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے اپنا ایک ہاتھ اپنی پھدی پر رکھا ۔۔۔۔۔۔ اور ایک انگلی سے اپنی چوت کے لب چیک کرنے لگی۔۔۔ اُف ۔۔۔ میری چوت پانی کا پانی اس کے لبوں تک آیا ہوا تھا ۔۔۔ تھوڑی دیر تک میں نے اپنی چوت کے پانی میں انگلی پھیری ۔۔۔۔ پھر ۔۔۔ ایک نظر باہر دروازے کی طرف دیکھا ا ور پھر شبی کی طرف دیکھا۔۔۔۔ تو وہ ہنوز گہری نیند سویا ہوا تھا ۔۔۔۔ چنانچہ پھر سے میں چارپائی پر لیٹ گئی اور ایک بار پھر شبی کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا۔۔۔۔۔ اور پھر بڑی آہستگی کے ساتھ اسے اپنی پھدی پر لے آئی۔۔۔ اور پھر اس کی ہتھیلی کو اپنے دانے پر ایڈجسٹ کیا اور بڑی نرمی سے اسے اپنے دانے پر مسلنے لگی۔۔۔۔۔۔۔ آہ ہ ہ ہ ہ۔۔ میرے دانے پر شبی کا ہاتھ لگتے ہی ۔۔۔۔۔۔میں مزے کی انوکھی دینا میں پہنچ گئی۔۔۔اور پھر جوش کے مارے میں اس کا ہاتھ اپنے دانے پر رکھے رکھے ۔۔۔ خود ہی اوپر نیچے ہونے لگی ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ساتھ میں کبھی تو اس کے ہاتھ کو اپنے دانے پرلاتی اور کبھی۔۔۔ چوت کے درمیان میں رکھ کر خود خوب ہلنے لگتی تھی۔۔۔ ۔۔۔۔ شبی کے ہاتھ میں پتہ نہیں کیا جادو تھا کہ کچھ ہی دیر بعد
۔۔۔ ۔۔۔ میرے جسم میں مخصوص قسم کی اکڑن پیدا ہو گئی ۔۔ اور اپنے منہ کو سختی کے ساتھ بند کرنے کے باوجود بھی سرگوشیوں کی صورت میں میرے منہ سے مستی بھری آوازیں نکلنے لگیں ۔۔ ۔۔۔۔ایسی آوازیں جو چوت سے پانی نکلتے وقت نکلا کرتی ہیں۔۔۔ اور ۔۔پھر تھوڑی ہی دیر بعد میری چوت کے اندر سے ڈھیر سارا پانی برآمد ہونا شروع ہو گیا۔۔۔۔۔۔اور اس پانی کے نکلتے ہی میں ٹھنڈی پڑنا شروع ہو گئی۔۔۔ چنانچہ جب میری پھدی سے سارا پانی بہہ بہہ کر چارپائی کی چادر میں جزب ہو گیا تو میں نڈھال سی ہو گئی۔۔ اور میں نے شبی کا ہاتھ واپس اپنی جگہ پررکھا ۔۔۔اور ایک بار پھر چارپائی سے اُٹھ کر ادھر ادھر دیکھا ۔۔۔ اور سب امن شانتی دیکھ کر مطمئن ہو گئی ۔۔ اور پھر تھکاوٹ کی وجہ سے ۔۔اپنی پھدی کو صاف کیئے بغیر ہی شلوار باندھی۔اور بستر پر گر گئی ۔۔ اس وقت تھکن کے مارے میرا کافی برا حال تھا ۔۔۔۔چنانچہ بستر پر لیٹتے ہی میں نے شبی کی طرف کمر کی ۔۔۔۔۔ اور کروٹ بدل کر سو گئی۔۔۔
اگلے دن میں معمول کے مطابق اُٹھی اور پھر شبی کو بھی اُٹھا دیا ۔اُٹھتے ہی حسبِ معمول وہ پیشاب کرنے لیئے واش روم کی طرف بھاگ گیا ۔۔۔ اس کے باہر نکلتے ہی میں نے جلدی سے بستر کی چادر کو تبدیل کیا اور پھر سکول کی یونیفارم پہن کر باہر آگئی۔۔۔ اور پھر ناشتہ کرتے ہوئے بڑے غور سے شبی کو نوٹ کرنے لگی۔۔۔ مقصد صرف یہ تھا کہ آیا اس پر رات والے واقعہ کا کوئی اثر تھا کہ نہیں؟ لیکن بظاہر اس پر رات والی واردات کا کوئی خاص اثر دکھائی نہ دے رہا تھا ۔۔۔ سارا کام معمول کے مطابق پا کر میں دل ہی دل ۔۔۔ میں بڑی خوش ہوئی ۔۔۔ اور اس کے بعد میں بھی ناشتہ کر کے سکول جانے کے لیئے روانہ ہو گئی۔۔ اپنی رات والی واردات پر میں پھولے نہیں سما رہی تھی میری یہ حالت میری بیسٹ فرینڈ عاشی نے بھی نوٹ کر لی اور راستے میں مجھ سے پوچھنے لگی کہ کیا بات ہے صبو !!!!! آج تم ضرورت سے زیادہ ہی خوش نظر آ رہی ہو ؟ تو میں نے تھوڑے سوچنے کے بعد اس کو رات والی ساری واردات سنا دی۔۔۔ جسے سن کر وہ بڑی حیران ہوئی اور کہنے لگی۔۔
حرام دییئے ۔۔۔۔نکے بھرا نوں تے بخش دینا سی( حرام ذادی چھوٹے بھائی کو تو بخش دیتی) تو میں نے اسے جواب دیتے ہوئے کہا ۔۔۔ کہ جب میں نے اپنی نکی بہن کو ( اشارہ عاشی کی طرف تھا کیونکہ جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ وہ میرے چاچے کی بیٹی تھی ) نہیں بخشا تو بھائی کو کیسے بخش سکتی ہوں ۔۔۔ میری بات سن کر عاشی ہنسی اور ایک گالی دیتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔۔۔۔۔ توں پکی حرام دی ایں ۔۔پھد ا یوہنے تیری پھدی ویچ بڑا ووڈا کیڑا اے جیہڑا تینوں سکھ دا سا نہیں لین دیندا ۔۔ ( حرام زادیئے ۔۔۔ پھدی مروانے والی تیری چوت میں بہت بڑا کیڑا ہے جو تجھے چین نہیں لینے دیتا ) اور پھر اس کے بعد اس نے کرید کرید کر مجھ سے رات کے واقعہ کے بارے میں سوالات کرنے شروع کر دیئے جو میں نے تھوڑے مرچ مصالحہ لگا کر اس کو سنا دیا۔۔جسے سن کر اس کا چہرہ سُرخ ہو گیا اور پھر اس نے بڑی شوخی سے میری طرف دیکھا اور کہنے لگی ۔۔۔ شبی کا لن کیوں نہیں لیا؟ تو میں نے اسے سچ بتاتے ہوئے کہا کہ یار دل تو بڑا تھا ۔۔۔ لیکن اس کی للی بہت چھوٹی ہے میری بات سن کر وہ کہنے لگی ۔۔۔ کیا سائز تھا اس کی للی کا؟ تو میں اسے اپنی درمیانی انگلی دکھاتے ہوئے بولی ۔۔۔ یہ سائز تھا۔۔۔ عاشی نے بڑے غور سے میری درمیانی انگلی کی طرف دیکھا اور پھر کہنے لگی۔۔ اور موٹائی کتنی تھی؟۔۔تو میں نے برا سا منہ بناتے ہوئے کہا ۔۔۔ کہ میری اس انگل جتنی ہی موٹی بھی تھی۔۔۔ یہ سن کر اس نے ایک ٹھنڈی سانس بھری اور کہنے لگی تب تو واقعی ہی تمہارے لیئے اس کی للی بہت چھوٹی تھی۔۔۔۔ پھر ایک دم اس نے مجھے گالی دی اور کہنے لگی ۔۔۔ حرام دیئے ۔۔۔۔ اس چھوٹے سے بچے کی اتنی ہی للی ہو گی نا ۔۔۔ تو میں نےاس کی طرف دیکھ کر دانت نکالتے ہوئے کہا کہ بے شک اتنا ہی ہو گی پر ۔۔۔۔۔۔تُو تو جانتی ہی ہے کہ میں نے اس چھوٹی سی للُی کا کیا کرنا تھا ؟ چونکہ میرا اس چھوٹی سی للی سے گزارا نہیں ہونا تھا اس لیئے میں نے شبی سے دوسرے طریقے سے سُکھ لیا ہے کیونکہ تم تو جانتی ہی ہو کہ مجھے شبی کے لن سے نہیں اپنی پھدی ٹھنڈی کرنے سے غرض تھی اس لیئے میں نے اپنی پھدی کو ہر ممکن طریقے سے ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی ہے اور اس کوشش میں بہت حد تک کامیاب رہی ہوں ۔ تب عاشی نے میری طرف دیکھا اور کہنے لگی ۔۔ ہلا فیر ہن کی صلاح ای؟ ( اچھا یہ بتاؤ کہ اب تمہارا کیا پروگرام ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟ ) تو میں نے بھی اس کی طرف دیکھتے ہوئے آنکھ ماری اور کہنے لگی۔۔۔ کہ شام سویرے ہن موجا ں ای موجاں ۔۔۔
سکول میں پہنچی تو زرینہ نے مجھے بتایا کہ آج وہ میرے لیئے ایک دوسرا رسالہ لائی ہے ۔۔۔ اور پھر اس نے وہ رسالہ میرے حوالے کر دیا یہ رسالہ بھی پہلے کی طرح صرف تصویروں سے بھرا ہوا تھا پہلے رسالے کی نسبت اس میں فرق یہ تھا کہ اس میں ننگی گوریوں کے ساتھ حبشیوں کے برعکس گوروں کی تصویریں تھیں حبشیوں کی طرح ان گوروں کے بھی بڑے بڑے لن تھے ۔۔۔ میں نے اور عاشی نے یہ رسالہ پہلے تفریع پھر خالی پیریڈ میں دیکھا ۔ اور اس رسالے کو دیکھ کر مجھ سے زیادہ عاشی بہت زیادہ گرم ہو گئی تھی ۔۔۔ گرم تو میں بھی ہوئی تھی تھی لیکن مجھ پر اس درجے کی گرمی نہ چڑھ سکی تھی کہ جتنی گرمی عاشی کو چڑھی تھی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ ابھی رات کو ہی میرا بہت بڑا آرگیزم ہو ا تھا ۔۔جبکہ دوسری طرف عاشی کے گرم ہونے کی ایک وجہ میری صبع والی سیکس سے بھر پور داستان تھی جسے میں نے خوب نمک مرچ لگا کر اسے سنایا تھا اور جسے سن کر اس کے ہوش اُڑ گئے تھے اور وہ اپنے ہونٹوں پر زبان پھیر کر بار بار مجھ سے ایک ایک لمحے کے بارے میں تفصیل پوچھتی رہی تھی پھر کیا ہوا ؟۔۔۔ تم نے کیا کیا ؟۔۔۔اپنی پھدی کو اس کے جسم کے کس کس حصے پر رگڑا ؟؟ ۔کس جگہ پھدی رگڑنے کا ذیادہ مزہ آیا؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ دوسرا وہ رسالہ واقعی میں ہی بڑا شاندار تھا ۔۔۔ چنانچہ تفریع کے بعد خالی پیریڈ میں جب میں اور عاشی وہ رسالہ دوسری دفعہ دیکھ رہی تھیں ۔۔۔ تو اچانک ہی عاشی ۔۔۔ نے اپنا منہ میرے کان کے قریب کیا اور کہنے لگی۔۔۔۔میرا کُج کر صبو۔۔۔(صبو میرا کچھ کرو) تو میں نے اس سے کہا ۔۔۔۔ کیا ذیادہ چڑھ گئی ہے؟ تو وہ بجائے جواب دینے کے کہنے لگی۔۔میں واش روم میں جا رہی ہوں ۔۔۔ جلدی سے تم بھی آ جانا۔۔۔۔۔۔۔۔چنانچہ اس کے جاتے ہی ۔۔۔میں بھی اُٹھی اور ۔۔۔۔اسی کارنر والے واش روم میں جا کر اس کی پھدی کو خوب مسلا تھا جس کی وجہ سے اس کی چوت کا بخار کچھ کم ہوا۔۔۔۔جب اس کو کچھ تسلی ہو گئی تو میں واپس آگئی۔۔
چھٹی کے وقت رسالہ واپس کرتے ہوئے زرینہ نے مجھ سے کہا کہ وہ اگلا رسالہ سیکسی کہانیوں والا لائے گی ۔۔جس کی سٹوریاں پڑھ کے تم حیران رہ جاؤ گی ۔۔۔ زرینہ کی بات سن کر میں نے اس کا شکریہ تو ادا کیا ۔۔ لیکن وہ کن کہانیوں کا ذکر کر رہی تھی اس کا میں نے کوئی خاص نوٹس نہیں لیا ۔۔۔ کیونکہ اس وقت میرے ذہن میں رات کو کرنے والا پروگرم چل رہا تھا اور میں دل ہی دل میں یہ پلان بنا رہی تھی کہ آج رات شبی کے ساتھ میں فلاں جگہ اپنی چوت رگڑوں گی ۔۔فلاں جگہ ۔۔۔ پر اس کا ہاتھ رکھوں گی وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔
اسی لیئے چھٹی کے بعد گھر آ کر میں بڑی بے چینی سے رات ہونے کا انتطار کرنے لگی ۔۔۔۔ لیکن رات آنے سے پہلے ہی میرا کام خراب ہو گیا ۔۔۔ مطلب یہ کہ مجھے پیریڈز آ گئے تھے ۔۔چنانچہ یہ دیکھ کر میں نے پیریڈز کے ختم ہونے تک رات والا پروگرام ملتوی کر دیا ۔۔ ہاں سوتے میں اس کے ساتھ ہلکی پھلکی چھیڑ چھاڑ جاری رکھی۔۔۔– اگلے دن سکول جاتے ہوئے جب عاشی نے مجھ سے پوچھا کہ رات دی سنا تو میں نے برا سا منہ بناتے ہوئے اسے اپنے پیریڈز کے بارے میں بتایا ۔۔۔ تو میری بات سن کر وہ ہنس پڑی اور کہنے لگی۔۔۔ چنگا ہویا ۔۔اے ۔ ۔۔۔ تیرا یہی علاج ہے ۔۔۔ اسی طرح اگلے چار پانچ روز امن شانتی رہی ہاں اس دوران زرینہ روز ہی اردو کہانیوں پر مبنی پڑھنے والے رسالے لاتی رہی۔۔۔ جن کی کہانیاں پڑھ پڑھ کر میں اور عاشی بڑی خوار ہوئیں۔اور ان سٹوریز کو پڑھ پڑھ کر مجھے اور عاشی کو ایک بار پھر ایک دوسرے کی چوت چاٹنے کا شوق پیدا ہو گیا۔لیکن مصیبت یہ ہوئی کہ جیسے ہی میرے پیریڈز ختم ہوئے عاشی کے شروع ہو گئے اور ہم دونوں ٹھنڈی آہیں بھر نے کے باوجود موقعہ ملنے پر ایک دوسرے کے ساتھ مزے لیتی رہیں
دوسری طرف زرینہ سے میری دوستی مزید گہری ہو گئی تھی اور پتہ نہیں کیوں ۔۔وہ اکثر ہی میرے سانولے حُسن کی بڑی تعریف کیا کرتی تھی ۔۔آخر ایک دن میں نے اس پوچھ ہی لیا کہ وہ میرے حُسن کی اتنی تعریفیں کیوں کرتی ہے؟ تو میری بات سن کر وہ کہنے لگی۔۔۔۔ایک میں ہی نہیں ۔۔۔ صبو ۔۔جی تمہارے اس نمکین حسن کے تو کافی عاشق پیدا ہو گئے ہیں ۔۔۔۔۔۔ اس کی بات سن کر میں بڑی حیران ہوئی اور اس سے پوچھنے لگی کہ عاشق اور میرے ؟؟؟؟ تو وہ بولی ۔۔۔ارے تم کو معلوم نہیں کہ تم کتنی سیکسی لڑکی ہو پھر وہ گنگناتے ہوئے بولی۔۔۔تیری چال بھی سیکسی ۔۔۔۔تیرے بال بھی سیکسی ۔۔۔ تیرے ہونٹ بھی سیکسی ہیں۔۔۔ ۔۔۔۔ پھر اس نے میری طرف دیکھا اور آنکھ مار کر بولی ۔۔۔ میری جان تو سیکسی بہت ہی سیکسی ہے۔۔ اس کے بعد وہ ایک دم سے سیریس ہو گئی اور کہنے لگی ۔۔۔ صبو جی۔۔۔ہمارے گاؤں کا ایک لڑکا تو تمہارا نام لیکر جیتا مرتا ہے ۔۔۔ اور پھر اس کے بعد اس نے اس لڑکے کی مجھ سے محبت کا ۔۔۔۔۔۔۔۔کچھ ایسا سماع باندھا کہ ۔میں اندر سے باغ باغ ہوئی ۔۔۔ اور اسی خوشی میں ۔۔۔تھوڑی سی ہچکچاہٹ کے بعد زرینہ سے ۔۔۔بولی ۔۔کہ وہ لڑکا کون ہے ؟ جو میری محبت میں اتنا پاگل ہوا پھرتا ہے تو وہ کہنے لگی۔۔ہے ایک لڑکا جس پر تمہارے حسن کا جادو چل چکا ہے۔۔اس کی بات سن کر میں پھسل ہی گئی اور اس سے کہا بتا نا وہ کون ہے ؟ تو وہ کہنے لگی۔۔۔ کیا فائدہ بتانے کا کہ۔۔۔۔ تم ٹھہری ایک نیک پروین ۔۔۔اور مذہبی قسم کی لڑکی ۔۔۔۔۔۔
تم نے اس سے ملنا تو ہے نہیں۔۔اس لیئے اس بے چارے کو اپنی آگ میں جلنے دو۔۔۔ زرینہ کی یہ بات سن کر اندر سے میں تڑپ ہی گئی ۔۔۔اور اس لڑکے کا نام جاننے کے لیئے بے چین ہو گئی ۔۔لیکن بظاہر اسی متانت سے بولی۔۔۔۔۔ تم بتاؤ تو سہی اگر لڑکا اچھا ہو تو ملنے کا بھی سوچ لوں گی ۔۔۔میری بات سن کر اس کی آنکھوں میں ایک چمک سی آ گئی اور وہ کہنے لگی ۔۔۔اوکے میں بتاتی ہوں اور پھر اس نے مجھے اس لڑکے کے بارے میں تفصیل سے بتایا جو کہ زرینہ کے گاؤں کا رہنے والا تھا ۔۔۔۔ اور وہ بھی زرینہ کے ساتھ ہمارے ٹاؤن میں پڑھنے کے لیئے آتا تھا ۔ میں نے اس لڑکے کو دیکھا ہوا تھا۔ وہ بھی میری طرح سے رنگ میں تھوڑا سانولہ تھا اور مجھ سے ایک کلاس آگے یعنی میٹرک کا سٹوڈنٹ تھا لڑکوں کا سکول ہمارے سکول سے تھوڑا ہی آگے تھا۔۔۔
مجھے اپنے عاشق کے بارے میں بتانے کے بعد زرینہ نے مجھے اس اس بات کی سختی سے تاکید کی تھی کہ میں کسی طور بھی اس بات کا ذکر عاشی سے نہ کروں اور میرے پوچھنے پر کہنے لگی ۔۔۔۔۔ صبو یار اتنی بھولی بھی نہ بنو ۔۔۔ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ وہ تمھاری "شریکہ برادری" میں سے ہے؟ اور ابھی تو وہ تمھارے ساتھ پڑھتی ہے اور تمہاری دوست ہے۔۔۔ لیکن سوچو اگر کل کو ۔۔۔ ۔۔ تمہارے ساتھ لوگوں کی ان بن بھی ہو سکتی ہے ۔۔۔تو ایسے موقعہ پر شریکے والیاں ایک دوسرے کا سارا کھچا چھٹا کھول کے رکھ دیتی ہیں ۔اس لیئے میری مانو تو اس بات کا اس سے ذکر نہ کرو ۔۔غرض کہ یہ بات اس نے کچھ ایسے طریقے سے سمجھائی کہ میں نے عاشی سے اس بات کا زکر نہ کرنے کی ٹھان لی۔۔۔ ادھر دن بدن زرینہ سے میری قربت کو دیکھ کر عاشی نے بھی ایک دو ست بنا لی تھی۔۔ لیکن اس کے باوجود ہم دونوں اکھٹے ہی سکول آتی جاتی تھیں۔۔۔اور موقعہ ملنے پر ۔۔ایک دوسری کے ساتھ مزے بھی لیتی تھیں۔۔۔اور اب تو ہم نے ایک دوسری کی پھدیاں بھی چاٹنا شروع کر دیں تھیں چنانچہ گھر وں تک ہماری دوستی ابھی تک ویسی کی ویسی تھی ۔۔۔۔۔ لیکن سکول میں آ کر ہم دونوں الگ الگ ہو جاتیں تھیں ۔۔اور سارا دن اپنی اپنی دوستوں کے ساتھ مگن رہتیں تھی ۔۔۔۔مزے کی بات یہ ہے کہ ابھی تک آپس میں ہم نے اس تبدیلی کے بارے میں ایک دوسرے کے ساتھ کوئی ڈسکس نہیں کی تھی ۔۔۔ ایسا لگ رہا تھا کہ ہم دونوں نے ایک خاموش معاہدے کے تحت اس تبدیلی کو قبول کر لیا تھا اور اب ہم دونوں ہی اپنی اپنی کمپنی میں خوش تھیں ۔۔۔ ہاں ایک بات بتانا تو میں بھول ہی گئی کہ اس عاشقی کے ساتھ ساتھ شبی کے ساتھ میرا رات کا پروگرام بھی جاری تھا۔۔۔ زرینہ نے جس لڑکا کو میرا عاشق بتایا تھا اس کا نام اظہر تھا ۔۔وہ ایک بھرے ہوئے جسم کا مالک تھا۔۔ ۔۔ اور جس دن سے میں نے زرینہ کو اظہر کے بارے میں تھوڑی آمادگی ظاہر کی تھی اس سے اگلے دن سے اظہر روز ہی چھٹی کے وقت مجھے اپنی شکل دکھاتا تھا ۔وہ یوں کہ اکثر ہی چھٹی کے وقت وہ ۔۔ہمارے راستے میں کہیں نہ کہیں کھڑا ہوتا تھا ۔اور اس بات کا صرف مجھے پتہ ہوتا تھا کہ وہ میرے لیئے کھڑا ہے ۔۔ میں اس کو روز دیکھتی ضرور تھی لیکن عاشی کے سامنے نہ تو میں نے اس کے ساتھ کوئی اشارہ بازی کی تھی اور نہ ہی اس کے متعلق اس سے کوئی گفتگو کی تھی
۔۔اور مزے کی بات یہ ہے کہ اظہر کبھی ایک مخصوص جگہ پر نہیں کھڑا ہوتا تھا ۔۔ بلکہ میرے کہنے پر وہ روز جگہ بدل بدل کر ہمارے گھر کے راستے میں کہیں نہ کہیں کھڑا مل جاتا تھا۔۔۔۔ میں اور عاشی بڑے نارمل طریقے سے اس کے پاس سے گزر جاتی تھیں ۔ نہ میں اس سے کچھ کہتی اور نہ ہی وہ مجھ سے کوئی بات کرنے کی کوشش کرتا ۔۔۔ بس وہ روزانہ بقول زرینہ کے صرف میرے دیدار کے لیئے کھڑا ہوتا تھا ۔۔۔ اور جیسے ہی ہم اس کے پاس سے گزرتیں تو چند سکینڈ کے لیئے ہم دونوں کی نظروں سے نظریں ملا کرتی تھیں۔۔۔۔۔اور ان چند سیکنڈز میں ایک دوسرے سے ملنے والی ہماری نظریں بڑا کچھ کہہ جاتی تھیں۔۔۔ روز روز اس کے کھڑے ہونے سے عاشی کو کُھد بُد تو تھی لیکن چونکہ اس کے سامنے نہ تو میں نے کسی قسم کی دل چسپی کا اظہار کیا تھا اور نہ ہی اس نے کبھی کوئی اشارہ کیا تھا۔۔۔ اس لیئے عاشی چپ رہتی تھی ۔۔۔ ہاں ایک دو دفعہ اس نے یہ ضرور کہا کہ یہ لڑکا ہمیں روز ہی کہیں نہ کہیں کھڑا ملتا ہے اس پر میں نے اپنے لہجے کو بڑا ہی سرسری سا بنا کر اس سے کہا کہ چھٹی کا وقت ہے۔۔۔۔ یہ بھی دوسرے لڑکوں کی طرح لڑکیوں کو تاڑنے آتا ہو گا میری بات سن کر عاشی نے بڑی گہری نظروں سے میری طرف دیکھا ۔۔۔۔۔ لیکن وہ منہ سے کچھ نہیں بولی ۔۔۔۔اسی دوران زرینہ مجھ سے اظہر کے پیغامات شئیر کیا کرتی تھی ۔۔ ایک دفعہ اس نے اظہر کا رقعہ بھی دینے کی کوشش کی تھی لیکن میں نے ڈر کے مارے وہ رقعہ لینے سے صاف انکار کر دیا تھا۔۔۔ اس لیئے اب زرینہ صرف اس کے پیغامات ہی دیا کرتی تھی۔ جس سے پتہ چلتا تھا کہ وہ مجھ سے بڑی محبت کرتا تھا اور میرے لیئے جان بھی دے سکتا تھا ۔۔اس کے ساتھ ساتھ ہر پیغام میں وہ مجھ سے ملنے کی بھی درخواست کیا کرتا تھا۔۔
ایک دن زرینہ نے مجھ سے کہا کہ صبو۔۔ اظہری کہہ رہا ہے کہ اور کتنا تڑپاؤ گی ؟؟۔۔۔۔بس ایک ملاقات ہی کرلو ۔۔۔کہ مجھے کچھ صبر آ جائے۔۔۔پھر کہنے لگی ۔۔۔ وہ تم سے ملنے کو بہت بے تاب ہے اس وقت تک میرے دل میں بھی اظہر کے لیئے کافی تڑپ پیدا ہو چکی تھی اور سیکسی سٹوریز پڑھ پڑھ کے ویسے ہی میری مت ماری ہوئی تھی اور میری پھدی موٹا سا لن مانگ رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔ اس لیئے میں نے اظہری کا پیغام سن کر اس سے کہا کہ یار اب تو میرا بھی اظہری سے ملنے کو بہت دل کرتا ہے ۔۔۔۔ لیکن اس طرح ملنے سے مجھے بہت ڈر لگتا ہے کہ اگر کسی کو پتہ چل گیا تو ؟ تم تو جانتی ہی ہو کہ ہماری فیملی کتنی مزہبی ہے اگر کسی طرح ان کو پتہ چل گیا تو میرے ابا مجھے زندہ گاڑ دیں گے ۔۔پھر اس کی طرف دیکھتے ہوئے مزید بولی کہ دوسری بات کہ جس کی وجہ سے میں نہیں مل سکتی ۔۔اس کے بارے میں تم اچھی طرح سے جانتی ہو۔۔۔ کہ میرے ساتھ ایک چوکیدار بھی ہوتا ہے ۔۔۔ ( چوکیدار سے میری مراد عاشی سے تھی کہ جو روزانہ مر ے ساتھ سکول آتی جاتی تھی) میری بات سن کر وہ کہنے لگی ۔۔ تمہاری دونوں باتیں ٹھیک ہیں ۔۔ لیکن یار میں کیا کروں کہ وہ تم سے ملنے کے لیئے مرا جا رہا ہے ۔۔۔ تم ہاں کرو تو میں تم سے اس کی ملاقات کروا سکتی ہوں ۔۔۔ کیسے کرواتی ہوں یہ مجھ پہ چھوڑ دو۔ پھر اس نے اپنا منہ میرے کان کے قریب لے آئی اور سرگوشی میں کہنے لگی ۔۔۔کہ میں تمہاری اظہری کے ساتھ ایسے خفیہ طریقے سے ملاقات کرواؤں گی کہ کسی کو کانوں کان بھی اس بات کی خبر نہیں ہو گی ۔۔ اس کے ساتھ ہی اس نے اور بھی بہت سی چکنی چپڑی باتیں کیں اور مجھے بھر پور تسلی دی ۔۔۔اور اس کے تسلی کے بعد میں اس اظہر سے ملنے پر راضی ہو گئی۔۔۔
پھر ایک دن کی بات ہے کہ اتفاق سے اس دن بخار کی وجہ سے عاشی سکول نہیں آئی تھی ۔۔۔۔ اسمبلی کے وقت میں نے یہ بات زرینہ کو بتا دی کہ بخار کی وجہ سے عاشی آج نہیں آئی ہے۔۔۔۔۔ ۔۔۔ میری بات سن کر وہ بڑی خوش ہوئی اور مجھ سے کہنے لگی کیا خیال ہے ۔۔۔آج یار سے ملاقات نہ کر لی جائے ؟؟؟؟۔۔۔پھر اسملی ختم ہونے کے بعد مجھ سے کہنے لگی۔۔۔ تیار ہو جاؤ صبو۔۔۔ ۔۔ آج میں تمھاری اظہر سے ملاقات کرواؤں گی اس کی بات سن کر پتہ نہیں کیوں میرا دل دھڑکنے لگا ۔۔اور میں نے دھڑکتے دل کے ساتھ اس سے پوچھا ۔۔ ملاقات کیسے کراؤ گی کہ اس بات کا تو اظہر کو پتہ ہی نہیں ہے ۔۔تو وہ کہنے لگی۔۔یار تُو اس بات کی چنتا نہ کر ۔۔۔۔ اظہر سے تمہاری ملاقات کرانا میرا کام ہے ۔۔پھر کہنے لگی ۔۔۔۔۔تمہیں پتہ ہے ۔۔۔اس ملاقات کے لیئے وہ روز ہی میری منتیں کرتا رہتا ہے۔ اس کے بعد اس نے میری طرف دیکھا اور بولی آج چھٹی کے وقت عاشی کی جگہ میں تمہارے ساتھ جاؤں گی اور جہاں جہاں میں تمہیں لے جاؤں تم نے چپ چاپ میرے ساتھ چلنا ہو گا۔ ۔۔۔ رہی اظہر کی بات تو میں اسے اشارے سے بتا دوں گی۔۔۔ پھر کہنے لگی۔۔۔ تم دونوں کی ملاقات کے لیئے پہلے سے ہی میں نے جگہ سوچی ہوئی ہے۔۔۔
اس دن سکول میں ۔۔۔ میں سارا دن اظہر کے بارے میں ہی سوچتی رہی۔۔۔ اور چھٹی کا انتظار کرتی رہی ۔۔ پھر خدا خدا کر کے چھٹی کی گھنٹی بجی جیسے ہی میں جانے کے اُٹھی تو زرینہ نے مجھے بیٹھے رہنے کا اشارہ کیا ۔۔۔اور پھر جب ساری کلاس چلی گئی تو سب سے آخر میں ہم دونوں سکول سے نکلیں اور میں دھڑکتے دل کے ساتھ اظہر سے ملنے کے لیئے چل پڑی اس وقت میری عجیب حالت ہو رہی تھی ۔۔۔ڈر بھی لگ رہا تھا اور اظہر سے ملنے کا شوق بھی غالب آ رہا تھا۔۔۔ راستے میں زرینہ پتہ نہیں کیا کیا باتیں کر رہی تھی لیکن میں اپنی ہی سوچوں میں گم اس کے ساتھ چلی جا رہی تھی۔۔۔ سکول سے تھوڑے ہی فاصلے پر ہمیں اظہر کھڑا ملا ۔۔۔ جس کو دیکھ کر زرینہ نے مجھے کہنی ماری اور کہنے لگی۔۔۔ وہ دیکھ سامنے تیرا یار کھڑا ہے ۔۔ پھر پتہ نہیں اس نے اظہری کو کیا اشارہ کیا کہ وہ ایک دم سے تقریباً بھاگتا ہوا وہاں سے چل پڑا۔۔۔ اس کو یوں جاتے دیکھ کر میں نے زرینہ سے کہا ۔۔۔ کہ اسے کیا ہوا ہے؟ تو وہ بولی۔۔۔ کچھ نہیں میں نے اشارے سے ملاقات والی جگہ جانے کا بتایا ہے ۔۔۔ اس کی بات سن کر میں بڑی حیران ہوئی اور اس سے بولی ۔۔۔ ملاقات والی جگہ ؟ یہ کہاں ہے ؟ تو وہ میری طرف آنکھ مار کر کہنے لگی ابھی پتہ چل جائے گا۔۔۔پھر میرے اصرار پر اس نے بتلایا کہ اس ملاقات والی جگہ کے بارے میں بتایا ۔۔۔
کسی زمانے میں ہمارے ٹاؤن میں ایک چھوٹا سا ڈنگر ہسپتال بنا تھا ۔۔ جس میں ایک ڈنگر ڈاکٹر اور اس کا باقی سٹاف ہوا کرتا تھا ۔۔۔ پھر ایسا ہوا کہ اس ڈاکٹر صاحب کا وہاں سے تبادلہ ہو گیا ۔۔اور کافی عرصہ تک کوئی نیا ڈنگر ڈاکٹر وہاں تعین نہ ہو سکا ۔۔ پھر ہمارے پاس کے ایک گاؤں کے لڑکے نے جو کہ نیا نیا ویٹنری ڈاکٹر جسے ہم ڈنگر ڈاکٹر یا سلوتری بھی کہتے ہیں نے اپنا ٹرانسفر وہاں کروا لیا ۔۔۔ لیکن بجائے ہمارے قصبے میں آنے کے اس نے اپنے گاؤں میں یہ کام شروع کر دیا اور ہپستال کی ساری دوائیاں وغیرہ اپنے ہاں لے گیا ۔۔اسی طرح جب سارا سامان وہاں شفٹ ہو گیا تو باقی سٹاف بھی وہاں چلا گیا ہاں اس کا چوکیدار ہفتے میں ایک آدھ چکر لگا لیا کرتا تھا ۔۔۔۔ لیکن وہ بھی صرف چکر لگا کر چلا جایا کرتا تھا ۔۔۔اور اس طرح ہسپتال کی دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے آہستہ آہستہ اس کی حالت خستہ ہونے لگی ۔۔۔
یہ ہسپتال ہمارے ٹاؤن کے ایک کونےپر واقعہ تھا اور اس ہسپتال کے آگے کھیت وغیرہ شروع ہو جاتے تھے ۔۔ اور ہسپتال کی دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے خصوصاً اس کی بیک سائیڈ پر پاس کافی خود رپودے اور جھاڑیں اُگ آ ئیں تھیں ۔۔۔اور ان جھاڑوں کے پاس بہت سارے درختوں کا ایک جھنڈ تھا اور ہم نے اس ہسپتال کے پیچھے ان جھاڑیوں کی اوڑھ میں ملنا تھا ۔۔۔ کیونکہ ہسپتال کے سامنے سے زرینہ کے گاؤں کو راستہ جاتا تھا ۔۔۔ اوراس راستے سے تھوڑا ہٹ کر یہ ہسپتال بنا تھا جو آج کل ویران تھا ۔۔ ہاں شام کو ہمارے گاؤں کے لڑکے یہاں کرکٹ یا والی بال وغیرہ کھیلتے تھے۔۔۔ چنانچہ میں اور زرینہ چلتے ہوئے وہاں پہنچ گئیں ۔۔ جیسے ہی ہسپتا ل نزدیک آیا ۔۔۔تو زرینہ نے ایک نظر پیچھے دیکھا اور پھر مجھ سے کہنے لگی ہسپتال کی پچھلی سائیڈ پر وہ جو بڑی بڑی جھاڑیا ں ہیں نا ۔۔۔۔۔۔ وہاں تمہارا یار کھڑا ہو گا تم جاؤ۔۔۔ اور اگر کسی نے راستے میں پوچھ لیا تو کہہ دینا کہ میں یہاں پیشاب کرنے آئی تھی۔۔ ۔۔ اب میں نے ایک نظر زرینہ کی طرف اور پھر بڑی بڑی جھاڑیوں کی طرف دیکھا اور بولی۔۔۔۔ مجھے ڈر لگ رہا ہے تم بھی ساتھ چلو نا۔۔۔ میری بات سن کر وہ ہنس پڑی اور کہنے لگی کچھ نہیں ہوتا ۔۔۔ تو جا ۔۔۔تمہاری چوکیداری کے لیئے میں یہاں کھڑی ہوں نا۔۔۔۔ اورپھر وہ مجھے دھکا دے کر بولی۔۔۔ یہ جھاڑیاں بس دور سے ایسی لگتی ہیں ۔۔ تم پاس جاؤ گی تو پتہ چلے گا کہ اندر ایسی کوئی بات نہیں ہے ۔۔۔اس کی بات سن کر میں نے ڈرتے ڈرتے وہاں پہلا قدم رکھ دیا۔۔۔ ہسپتال کے پیچھے بڑی بڑی جھاڑیاں اور گھاس پھونس اُگی ہوئی تھی ۔۔۔۔اور انہی جھاڑیوں کے بیچ میں کہیں وہ کھڑا تھا۔۔۔ اس وقت میرا دل دھک دھک کر رہا تھا اور میں ادھر ادھر دیکھتے ہوئے بڑی احتیاط سے چلی جا رہی تھی۔۔۔۔ ابھی میں نے تھوڑا ہی راستہ طے کیا تھا کہ اچانک ہی اظہری میرے سامنے آ کر کھڑا ہوگیا۔۔۔۔ اسے یوں اچانک سامنے دیکھ کر میری تو چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی۔۔۔ اور اسے دیکھ کر میں نے شرم سے اپنا چہرہ جھکا لیا۔۔۔ اس وقت پتہ نہیں کیوں مجھے اس سے بڑی شرم ا ٓرہی تھی۔۔۔ اور اپنی اس حالت پہ میں خود بھی حیران تھی ۔۔ کیونکہ میں وہ لڑکی تھی جو کہ آدھی رات کو اپنی شلوار اتار کے بھائی کے ساتھ مزے لیتی تھی۔۔۔۔ لیکن اس وقت میں شرم سے دھری ہوئی جا رہی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ میں کانپ بھی رہی تھی۔۔۔ کچھ دیر تک ہم دونوں میں مکمل خاموشی رہی
پھر اس نے ہی ابتدا کی اور بولا ۔۔۔ ۔۔۔۔ کیسی ہو صبو؟ تو میں نے بجائے جواب دینے کے اپناسر ہلا دیا۔۔۔۔ میری حالت دیکھ کر وہ تھوڑا ہنسا اور کہنے لگا۔۔۔۔ یہ تم اتنی کانپ کیوں رہی ہو؟ میری طرف دیکھو میں کوئی بھو ُ بلا (بھوت) تو نہیں ہوں ۔۔۔ پھر اس نے میرا ہاتھ پکڑا ۔۔۔ اور بولا ۔۔ پلیزززز مجھ سے نہ ڈرو۔۔۔ لیکن یہ ڈرنا میرے بس میں تھوڑی تھا ۔۔۔اس لیئے میں ویسے ہی سر جھکائے کانپتی رہی تھوڑی دیر بعد اس نے اپنے ہاتھ میری تھوڑی پر رکھا اور میرا منہ اوپر کر دیا ۔۔۔ اور بڑے ہی رومانٹک لہجے میں بولا ۔۔ صبو ۔۔۔ آئی لو یو۔۔۔۔ پھر بولا ۔۔ تم بھی مجھ سے پیار کرتی ہو؟ تو میں نے اس کی طرف دیکھے بغیر ہی ہاں میں سر ہلا دیا۔۔۔۔ جسے دیکھ کر وہ کہنے لگا ۔۔۔ میری جان میں تمہارے منہ سے یہ بات سننا چاہتا ہوں۔۔ اور پھر اس کے بار بار اصرار پر میں نے ۔۔ صرف اتنا کہا ۔۔۔ جی میں وی۔۔۔ کہہ کر دوبارہ سے سر جھکا لیا اس وقت شرم کے مارے میرا سانولہ چہرہ لال ہو رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے بعد اس نے مجھ سے تھوڑی اور محبت بھری باتیں کیں ۔۔۔ جن کا میں نے بس ہوں ۔۔ہاں ۔۔۔ میں جواب دیا۔۔۔۔ اور پھر اس سے کہنے لگی ۔۔۔ اب میں چلتی ہوں ۔۔ میری بات سن کر وہ تڑپ گیا اور کہنے لگا۔۔۔۔ ابھی تو آئی ہو ۔۔۔ لیکن میرے باربار اصرار پر وہ کہنے لگا۔۔۔۔اچھا ایک شرط پر اجازت دیتا ہوں ۔۔۔ تم کل پھر آنا ۔۔۔ تو میں نے کہا۔۔۔ جی کوشش کروں گی ۔۔۔ میری یہ بات سن کر وہ بڑا خوش ہوا ۔۔۔اور اس نے آگے بڑھ کر مجھے اپنے گلے سے لگا لیا۔۔۔۔ اور پھر فوراً ہی میرے گالوں کو چوم کر بولا۔۔۔۔۔۔ پلیزززززززز کل ضرور آنا۔میں انتظار کروں گا ۔۔اور میں اس سے وعدہ کر کے جس راستے سے آئی تھی اسی راستے سے واپس آگئی۔۔۔۔
میں نے اس سے کل آنے کا وعدہ تو کر لیا تھا لیکن دل ہی دل میں یہ سوچ رہی تھی کہ کل اس سے کیسے ملوں گی؟ پھر خیال آیا کہ اگر عاشی ۔۔۔۔۔ اور پھر اس کے ساتھ ہی میں دل ہی دل میں عاشی کو مزید بیمار رہنے کی دعائیں کرنے لگی۔۔۔ہر چند کہ اظہر کے ساتھ ملاقات میں ۔۔۔۔ میں نے کچھ نہیں کہا تھا ۔۔۔ لیکن خاص کر مجھے اس سے گلے ملنے کا بہت مزہ آیا تھا ۔۔۔اور جو اس نے میرے گال کو چاما تھا۔۔۔وہ تو اور بھی "صوادلہ" تھا۔۔۔۔۔چنانچہ اس دن میں عاشی کے مزید بیمار رہنے کی دعائیں مانگتی رہی۔۔۔ اور میری یہ دعا ۔۔۔ یوں قبول ہوئی کہ ۔۔۔ اسی شام میرے چاچے کو اطلا ع ملی کہ عاشی کے نانا پر فالج کا اٹیک ہوا ہے ۔۔ اس اطلاع کا ملنا تھا کہ عاشی اور اس کی اماں بمعہ میری ماں کے فوراً ہی نانا کی خبر گیری کے لیئے روانہ ہو گئے۔۔۔ عاشی جاتے جاتے مجھے چار دن کی چھٹی کی درخواست بھی دے گئی تھی ۔
آپ نے وہ محاورہ تو ضرور سنا ہو گا ۔۔۔ کہ سیاں بھئے کوتوال اب ڈر کاہے کا۔۔۔۔ تو اس وقت یہ محاور مجھ پر بڑا فٹ نظر آ رہا تھا ۔۔۔ کیونکہ ایک تو چوکیدار یعنی کہ عاشی نہیں تھی اور دوسری گھر لیٹ آنے پر باز پرس کرنے والی میری اماں ۔۔۔۔بھی تین چار دن کے لیئے گھر سے چلی گئی تھی۔۔۔۔ اس لیئے اب میں بے غم ہو کر اپنے محبوب یعنی کہ اظہری سے مل سکتی تھی۔۔۔
چنانچہ اگلے دو تین دن میں اور اظہری ہسپتال کے پیچھے اُگی ہوئی انہیں بڑی بڑی جھاڑویوں میں ملتے رہے ۔۔اور ان دو تین ملاقاتوں میں ۔۔۔ میرا ڈر خاصہ دور ہو گیا تھا ۔۔۔اور اس کے ساتھ ساتھ آخری ملاقات میں اس نے جاتی دفعہ میرے ساتھ لپ کسنگ بھی کی تھی۔۔۔ اور یہ پہلی دفعہ تھی کہ کسی مرد کے ہونٹوں نے میرے کنواروں ہونٹوں کو چھوا تھا ۔۔ اور مجھے اس کے ہونٹوں کا لمس اتنا اچھا لگا تھا ۔ کہ میرا دل چاہ رہا تھا کہ وہ میرے ہونٹ چوستا جائے ۔۔۔۔ ہوا کچھ یوں تھا ۔۔کہ جب میں نے اظہری سے وداع لینے کا کہا تو حسبِ معمول اس نے مجھے اپنے گلے سے لگا لیا۔۔۔اور پھربجائے گالوں پر کس کرنے کے اس نے اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں پر رکھ دیئے۔۔۔ اور اس کے ہونٹوں کا میرے ہونٹوں سے مس ہونا تھا کہ میرے اندر ایک عجیب سی مستی بھر گئی ۔۔۔۔ ا ور اسی مستی کے عالم میں ۔۔۔ میں اس کے اور قریب ہو گئی۔۔۔۔ ادھر کچھ دیر تک وہ میرے ہونٹوں کو چوستا رہا ۔۔۔۔۔پھر اچانک ہی اس نے اپنی زبان میرے منہ میں ڈال دی۔۔۔اُف۔ف۔فف۔ف۔ف۔ف۔۔ف۔۔۔۔۔ اس کی زبان کا میری زبان سے ٹکرانا تھا۔۔۔ کہ میرے سارے وجود میں ایک کرنٹ سا دوڑ گیا۔۔۔اوراس سے قبل کہ میں اپنے حواس کھوبیٹھتی ۔۔۔ میں فوراً اس سے الگ ہو گئی ۔۔۔اور پھر ۔۔۔ بھاگ کر واپس چلی گئی۔۔۔۔۔ بھاگی اس لیئے کہ میرے اندر شہوت نے سر اُٹھانا شروع کر دیا تھا۔۔۔اور مجھے معلوم تھا کہ اگر اس نے ایسے ہی اپنی زبان کا میری زبان سے ٹکراؤ جاری رکھا تو ۔۔۔۔میری شہوت بے قابو ہو جائے گی ۔۔۔۔۔اور اگر میری شہوت بے قابو ہو گئی تو۔۔۔۔۔۔۔ اسی لیئے میں وہاں بھاگ آئی تھی۔۔۔
یہ اس دن کا واقعہ ہے کہ جس کے اگلے دن امی لوگوں نے واپس آنا تھا ۔۔۔اس دن کلاس میں بیٹھی ہوئی زرینہ نے مجھ سے کہا۔۔۔ کل بڑی بھاگی جا رہی تھی۔۔ خیر یت تو تھی ؟؟؟ تو میں نے اس سے کسنگ کے بارے میں بتایا ۔۔۔تو سن کر اس نے ایک جھرجھری سی لی اور کہنے لگی۔۔۔ یار زبانوں کے ٹکراؤ سے تو واقعی ہی بڑی آگ لگ جاتی ہے ۔۔۔ پھر مجھ سے کہنے لگی ۔۔۔۔ کتنا مزہ آیا تھا ؟ تو میں نے سرخ ہوتے ہوئے کہا کہ مت پوچھ یار۔۔۔۔ اس پر وہ کہنے لگی ۔۔۔صبو تیرے ہونٹ بڑے جوسی اور سیکسی ہیں ۔پھر کہنے لگی۔۔۔ جب تم کو اتنا مزہ مل رہا تھا تو پھر مزے کو جی بھر کے لینا تھا ۔۔۔۔ یوں بیچ میں چھوڑ کے کیوں بھاگ آئی تھی؟۔۔۔ تو میں نے اس سے جھوٹ بولتے ہوئے کہا۔۔۔یار مجھے اس بات کا ڈر تھا کہ کہیں کوئی آ نا جائے۔۔۔ تم کو تو پتہ ہے کہ وہ اوپن سی جگہ ہے جہاں کسی بھی وقت کوئی بھی آ سکتا ہے ۔۔۔ یہ سن کر اس نے میری طرف دیکھا اور کہنے لگی کہتی تو ٹھیک ہے یار۔۔۔۔۔ پھر اس کے بعد اس نے میرے ہونٹوں پراپنی انگلی رکھی اور میرے نرم ہونٹوں پر پھیر کر بولی ۔۔سچ کہہ رہی ہوں صبو۔ ۔۔ میرے خیال میں تو تم سے زیادہ ہونٹوں کی کسنگ کا ۔۔۔اظہری کو مزہ آیا ہو گا۔۔۔۔پھر کہنے لگی۔۔۔ چلو آج جی بھر کے اس کے ساتھ کسنگ کر لینا۔۔۔ آج میں تم سے اس کی ملاقات ایک ایسی جگہ کروؤں گی کہ جہاں کوئی ڈر جھکا نہیں ہو گا۔۔۔۔۔ اس پر میں نے اس سے پوچھا کیا مطلب؟؟ تو وہ کہنے لگی۔۔۔ اوہ ۔۔سوری یار میں تم کو ایک بات تو بتانا بھول ہی گئی تھی کہ آج ہم لوگ ہسپتال کے اندر ملیں گے؟ اس کی بات سن کر میں حیران ہو گئی اور اس سے بولی ۔۔۔
ہسپتال کے اندر لیکن وہ کیسے ؟ اس کے تو گیٹ پر تالہ ہوتا ہے؟ تو وہ کہنے لگی۔۔۔ بھولے بادشاہو ۔۔ تالا تو ہسپتال کے سامنے اس کے مین گیٹ پر ہوتا ہے ۔۔۔۔ پیچھے تو نہیں نا۔۔۔۔۔اس پر میں نے نہ سمجھتے ہوئے اس کی طرف دیکھا تو وہ کہنے لگی۔۔۔۔ اچھا میں تم کو تفصیل سے بتاتی ہوں پھر کہنے لگی۔۔۔ سنو صبو ۔۔۔ ڈنگر ہسپتال کی پچھلی دیوار کی کچھ اینٹیں ۔۔کافی عرصہ سے اکھڑی ہوئی ہے ۔۔اس لیئے اکثر میں اور میرا یار اس دیوار کو پھلانگ کر اندر کمروں میں ملتے ہیں ۔۔۔ وہاں نہ تو کسی کے آنے کا ڈر ہوتا ہے اور نہ کوئی آتا ہے۔۔اس لیئے آج میں اپنے یار سے اور تم اپنے یار سے ۔۔۔ہسپتال کی بیک سائیڈ سے اسی ٹوٹی دیوار کو پھلانگ کر ملیں گے۔۔۔۔ پھر آنکھ بند کر کے بولی ۔۔۔ وہاں کسی کا ڈر بھی نہیں ہو گا ۔۔۔ جتنی دیر مرضی ہے اپنے یار کے ساتھ کسنگ کرنا۔۔۔۔ اس کی بات سن کر میں بڑی خوش ہوئی اور تھوڑی سی انکوائیری کے بعد میں مطمئن سی ہو گئی۔۔۔۔۔
دوپہر کا وقت تھا میں اور زرینہ ادھر ادھر دیکھ کر ہسپتال کی چار دیوار پھلانگ رہیں تھیں ۔دیوار پھلانگ کر میں نے ہسپتال کے اندر نظر دوڑائی ۔۔۔تو ہر طرف ویرانی ۔۔۔اور سناٹے کا راج تھا۔۔۔۔ ابھی میں ہسپتال کا جائزہ لے ہی رہی تھی کہ زرینہ مجھے لیکر کر ایک سائیڈ پر بنے دو تین کمروں کے شیڈ کی طرف لے آئی ۔۔۔ اور پہلے کمرے میں داخل ہوتے ہی میں نے دیکھا کہ ۔۔۔ ہم سے پہلے ہی اس کمرے میں اظہر اور اس کے ساتھ ایک اور ہینڈ سم سا لڑکا کھڑا تھا ۔۔۔ جسے میں نہیں جانتی تھی لیکن اس دیکھ کر میں سمجھ گئی کہ یہی زرینہ کا"یار" ہو گا۔۔۔ تھوڑی علیک سلیک کے بعد اظہر نے میرا ہاتھ پکڑا اور ان سے کہنے لگا۔۔۔۔ اچھا جی آپ یہاں بیٹھ کر ایک دوسرے کے ساتھ باتیں کرو ۔۔۔میں اور صبو ۔۔ دوسرےکمرے میں جا رہے ہیں ۔۔ ا س کے ساتھ ہی ہم دونوں اس شیڈ کے اگلے کمرے میں آ گئے ۔۔
۔۔۔۔ وہ ایک بڑا سا کمرہ تھا جہاں کسی زمانے میں جانوروں کو باندھا جاتا ہو گا ۔۔ لیکن اس وقت وہ بلکل خالی تھا۔۔۔۔ بس ایک طرف کافی سارا گھاس پھونس پڑا ہوا تھا۔۔۔۔ ابھی میں کمرے کا جائزہ ہی لے رہی تھی کہ اظہر نے مجھے اپنی طرف متوجہ کیا اور کہنے لگا ۔۔ساڈے ول تک سجنا ۔۔۔(میری جان میری طرف بھی دیکھو) اس جیسے ہی میں نے اس کی طرف دیکھا تو وہ جلدی سے آگے بڑھا اور مجھے اپنے گلے سے لگا لیا اور میرے گال کو چوم کر بولا ۔۔ کہ۔۔۔ کل کیوں بھاگ گئی تھی؟ تو میں نے اس سے کہا کہ مجھے ڈر لگ رہا تھا کہ کوئی آ نہ جائے۔۔ اس پر وہ کہنے لگا۔آج نہیں بھاگنا ۔۔تو میں نے بڑی شوخی کے ساتھ اس سے پوچھا وہ کیوں جی؟ تو وہ ایک بار پھر میرے گال کو چوم کر بولا کہ وہ اس لیئے جی کہ یہاں کوئی آتا جاتا نہیں ۔۔۔۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی اس نے میرے گرد اپنے باز وؤں کی گرفت مضبوط کی اور ۔۔ میری چھاتیوں کے ساتھ اپنی چھاتی کو پریس کرتے ہوئے کہنے لگا۔۔ وعدہ کرو ۔۔۔آج تو نہیں بھاگو گی نا۔۔۔ تو میں نے اس کی باہنوں میں کسماتے ہوئے کہا ۔۔ کہ نہیں میری جان ۔۔۔۔آج میں ادھر ہی ہوں تمہارے پاس!!۔۔۔۔۔ میری بات سن کر وہ بڑا خوش ہوا اور اپنے منہ کو میرے کان کے قریب لاکر بولا۔۔ آئی لو یو میری جان ۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی اس نے اپنے منہ کو تھوڑا نیچے کیا اور میرے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیئے ۔۔۔اور اس کے فوراً بعد اس نے اپنی زبان کو میرے منہ میں ڈال دیا۔۔۔ اور پھر اس کے ساتھ ہی اس کی زبان میری زبان کے ساتھ ٹکرانے لگی۔۔۔۔اس ٹکراؤ کے ساتھ ساتھ اس کا ایک ہاتھ میری چھاتیوں پر چلا گیا اور وہ بڑی آہستگی کے ساتھ میری چھاتیوں کو دبانے لگا۔جس سے مجھے مزہ ملنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔
زبان کو چوسنے کے ساتھ ساتھ اس کا ہاتھ میرے سینے پر پھیرنے سے میرے اندر ایک عجیب سی کیفیت جنم لے رہی تھی۔۔اور اسی کیفیت کے زیرِ اثر میں بھی اس کے ساتھ چپک کر لگ گئی تھی ۔۔۔۔ اسی دوران مجھے اپنی دونوں رانوں کے بیچ اس کا سانپ لہراتا ہوا محسوس ہوا۔۔۔۔اور ابھی میں اس صورتِ حال کا جائزہ ہی لے رہی تھی کہ اچانک اس کا ایک ہاتھ سرسراتا ہوا میرے قمیض کے نیچے آیا ۔۔۔اور ۔۔۔ میرے آزار بند کی طرف بڑھنے لگا۔۔۔۔۔۔۔ اس سے پہلے کہ اس کا ہاتھ میرے آزار بند تک پہنچتا میں نے ایک دم سے اسکے بڑھتے ہوئے ہاتھ کو پکڑ لیا۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی اس سے الگ ہو گئی۔۔۔ تب اس نے بڑے پیار سے میری طرف دیکھا اور نشیلی آواز میں بولا ۔۔۔۔ میرا ہاتھ چھوڑ دو ۔۔۔پلیزززززززززز۔۔۔ تو میں نے انکار میں سر ہلاتے ہوئے اس سے کہا ۔۔۔ نہیں ۔۔اظہر ۔۔۔ شادی سے پہلے میں یہ سب نہیں کرنا چاہتی ۔حالانکہ کہ اس وقت اندر سے میری دل یہی چاہ رہا تھا کہ ۔۔ کہ اس کا میری رانوں سے ٹکرانے والا سانپ جلدی سے میری چوت میں چلا جائے لیکن ۔۔محض۔اسے یہ جتانے کہ لیئے کہ میں ایسی لڑکی نہیں ہوں میں نے اس سے شادی والی بات کی تھی ۔۔۔ میری بات سن کر پہلے تو اس نے میری منتیں کرنا شروع کر دیں ۔ لیکن جب میں نے اسے تڑپانے کی خاطر صاف انکار کیا تو اچانک ہی اس کا رویہ تبدیل ہو گیا ۔۔۔ اور اب اس نے ۔ زبردستی مجھے اپنی باہنوں میں کس لیا ۔۔۔اور مجھے دبوچ کر اور میری گردن پر اپنے ہونٹ رکھ دیئے اور پھر مجھ پر کسنگ کی بھر مار کرتے ہوئے بولا ۔۔۔ دو گی کیسے نہیں سالی ۔۔۔کہ میں نے تم پہ بہت خرچہ کیا ہوا ۔۔ہے ۔۔۔
اس کی یہ چیپ بات سن کر میں بھونچکا رہ گئی۔۔۔ اور اس سے کہنے لگی۔۔۔۔ کیسا خرچہ ؟ تو وہ اسی وحشت بھری آواز میں کہنے لگا ۔۔۔ یہ جو روز تم ننگے رسالے دیکھتے تھی اور گندی کہانیاں پڑھتی تھی۔۔۔ تمہارا کیا خیال ہے یہ سب رسالے مفت آتے تھے؟ پھر کہنے لگا ۔۔۔ کرائے پہ لیکر یہ میں تمہیں بھیجا کرتا تھا ۔۔۔اس لیئے اب زیادہ نخرہ نہ دکھا اور چپ چاپ اپنی شلوار کھول دے اس کے ساتھ ہی اس نے اپنی شلوار پہ ہاتھ ڈالا اور اور اسے اتار دی۔۔۔۔ اور اپنا لن ہاتھ میں پکڑ کر بولا ۔چل اب دیر نہ کر۔۔۔اس کی بات سن کر میں تو حیران و پریشان رہ گئی تھی۔۔ اور ایک دم سے میرے اندر کی گرمی ختم ہو گئی تھی ۔اور اس کی جگہ نفرت نے لے لی تھی ۔
لیکن میں نے اس پر اپنی یہ کیفیت ظاہر نہ ہونے دی اور اس کی طرف دیکھنے لگی ۔۔۔۔۔ تو میں نے اس کی آنکھوں میں چھلکتی ہوئی ۔۔۔۔ وحشت اور ہوس کو دیکھ کر میں نے محسوس کر لیا کہ اب اگر اب میں نے اس کے ساتھ نہ کیا تو وہ میرے ساتھ زبر دستی بھی کر سکتا ہے ۔۔۔ چنانچہ یہ سوچ کر میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔سوری اظہر میں تو مذاق کر رہی تھی ۔۔ اور اس کے ساتھ ہی منصوبے کے تحت اس کے لن کو ہاتھ میں پکڑ کر بولی ۔۔۔ کیسا زبرست لن ہے تیرا ۔۔۔ اور ایسے لن کو بھلا کون چھوڑتا ہے غرض کہ میری چکنی چپڑی باتوں سے وہ کچھ ٹھنڈا پڑ گیا اور بولا ۔۔۔ اب آئی ہو نا لائین پر ۔۔۔ اور اس سے پہلے کہ وہ میری شلوار پر ہاتھ ڈالتا اچانک ہی میں نے اداکاری کرتے ہوئے اس سے کہا ۔ ۔۔ ایک منٹ اظہر مجھے بڑے زور کا پیشاب لگا ہے۔۔۔ میری بات سن کر وہ ہنس پڑا اور کہنے لگا۔۔۔ تمھارا کیا خیال ہے ان بہانوں سے تمہاری جان چھوٹ جائے گی؟ پھر خود ہی کہنے لگا کہ ۔۔۔۔ بڑا صبر کر لیا ۔۔۔۔آج تو میں نے تمھاری ہر حال میں تمہاری لینی ہی لینی ہے تو میں نے بڑی مکاری سے کہا ۔۔۔ انکار کس کو ہے یار ۔۔۔لیکن مجھے اتنی مہلت تو دو کہ میں پیشاب کر لوں۔۔۔۔۔ ۔۔مجھے راضی دیکھ کر وہ کہنے لگا۔۔ ٹھیک ہے پیشاب کر آؤ ۔۔۔۔ لیکن جلدی آنا ۔۔۔ پھراس نے مجھے کمرے کی کھڑکی سے ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا ۔۔ کہ وہ سامنے گیٹ کے پاس واش روم ہے لیکن وہاں پانی نہیں ہو گا تو میں نے کہا ۔۔ میں نے صرف پیشاب کرنا ۔۔۔ تو کہنے لگا۔۔۔۔ جلدی سے پیشاب کر آؤ ۔۔۔اور میں یہ کہتے ہوئے کہ ابھی آئی ۔ اور گیٹ کے پاس بنے واش روم کی طرف چلی گئی۔اور سارے راستے میں اس سے بچنے کی ترکیبیں سوچتی رہی اسی اثنا میں واش روم بھی آ گیا ۔۔۔
اور ابھی میں شلوار اتار کر واش روم کے پاٹ پر بیٹھی ہی تھی۔۔۔ کہ اچانک میرے کانوں میں بہت سارے لوگوں کے شور کی آوازیں سنائی دیں۔۔ شور کی آواز سن کر میں ایک دم چونک اُٹھی ۔۔۔اور جلدی سے شلوار پہن کر ۔۔۔ دروازے کی اوڑھ سے باہر دیکھا تو میرے فرشتے کوچ کرگئے ۔۔ کیا دیکھتی ہوں کہ ہمارے ٹاؤن کے بہت سارے مرد ہاتھوں میں ڈنڈے لیئے ہپستال کی ادھڑی ہوئی ہوئی دیوار کو پھلانگ پھلانگ کے شیڈ کی طرف بڑھ رہے تھے۔ان پر ایک جنوں سا طاری تھا اور وہ اسی جنون کے زیرِ اثر گالیاں بک رہے تھے ۔۔ اب میں نے غور سے دیکھا تو اس ہجوم میں میرا ابا بھی شامل تھے۔۔۔ جو ڈنڈا ہاتھ میں پکڑے شیڈ کے تیسرے کمرے کی طرف جا رہے تھے اور اس کےس اتھ ساتھ وہ گالیاں دیتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ ان بے حیاؤں کو پکڑو۔۔۔ مارو۔۔۔ جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ میرے ابا ایک کٹر قسم کے مزہبی بندے تھے۔۔۔اور اس وقت وہ مذہبی جوش و خروش سے نعرہ بازی کر رہے تھے۔۔۔ ابا کو دیکھتے ہی میرے چہرے کا رنگ اُڑ گیا ۔۔۔ ہاتھ پاؤں شل ہو گئے ۔۔۔اور میرے ذہن میں پہلا ۔۔۔ جو خیال آیا وہ یہ تھا۔۔۔۔ کہ آج تو ۔۔۔میری موت یقینی ہے۔۔۔پھر میں نے دیکھا کہ ایک موٹا سا آدمی ہاتھ میں ڈنڈا لیئے ۔۔۔۔۔ ۔۔۔واش روم کی طرف بڑھ رہا ہے اسے اپنی طرف آتے دیکھ کر میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا ۔۔ اور میں بے بسی سے اس موٹے کی طرف دیکھ رہی تھی ۔۔ جو ہاتھ میں ڈنڈا لیئے ۔۔واش روم کی طرف بڑھ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔اسے اپنی طرف آتے دیکھ کر میں تھر تھر کانپنے لگی اور پھر تیزی سے اپنے بچاؤ کے بارے میں سوچنے لگی کہ اب میں کیا کروں۔۔؟؟؟؟؟؟ ۔۔لیکن سارے راستے ۔۔۔ بند تھے۔۔اور ابھی میں اس بارے میں سوچ ہی رہی تھی ۔۔۔ کہ میرا دل اچھل کر حلق میں آ گیا۔۔۔۔۔ وہ اس لیئے کہ اس موٹے نے واش روم کے دروازے پر ہاتھ رکھ دیا تھا۔۔۔اور ۔۔۔۔۔۔۔۔
جیسے ہی اس موٹے شخص نے واش روم کا درازہ کھولا۔۔تو ۔۔۔۔ مجھے اپنے سامنے دیکھ کر وہ حیران رہ گیا کیونکہ اتنے نزدیک سے دیکھ میں نے اسے۔۔۔۔ اور اس نے مجھے۔۔ پہچان لیا تھا ۔۔۔وہ ۔۔۔وہ ۔اور کوئی نہیں بلکہ ۔ شبی کے قاری صاحب تھے ۔جو کہ اس کو مدرسے میں پڑھایا کرتے تھے دوسری بات یہ کہ چونکہ ان قاری صاحب کے ابا کے ساتھ بہت اچھے تعلق بلکہ ہمارے ساتھ فیملی ٹرم تھے ۔۔۔۔ جیسے ہی ان کی نظر مجھ پر پڑی تو وہ غصے ۔۔۔ حیرت اور صدمے سے کنگ ہو کر رہ گئے۔۔۔ اور کچھ دیر تک تو وہ مجھے منہ کھولے بڑی بے یقینی کے ساتھ مجھے دیکھتے رہے ۔۔پھر اگلے ہی لمحے ان کے منہ ایک موٹی سی گالی نکلی اور وہ میری طرف دیکھ کر غرائے ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ۔۔ تیری ماں نوں لن۔۔۔توں ایتھے کتھے ؟؟؟( تیری ماں کو لن ماروں تم یہاں کیسے؟)۔۔۔ جبکہ دوسری طرف قاری صاحب کو دیکھ کر میں بڑی سخت شرمندگی محسوس کر رہی تھی اور اس وقت میرا جی چاہ رہا تھا کہ زمین پھٹ جائے اور میں اس میں سما جاؤں۔۔۔۔۔ لیکن ۔۔۔ یہ وقت ایسی باتوں کا نہ تھا کیونکہ اس وقت میری جان پر بنی ہوئی تھی ۔۔۔ دوسری بات یہ کہ قاری صاحب کو دیکھ کر اچانک ہی مجھے اس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ ایسا نہ ہو کہ یہ مجھے ۔۔۔ اس سے آگے میں نہ سوچ سکی ۔۔ اس لیئے میں نے قاری صاحب کی طرف دیکھا اور بڑی بے بسی کے ساتھ اپنے دونوں ہاتھ جوڑ کر ان کے سامنے کھڑی ہو گئی شرمندگی کے مارے میری آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی تھی اور میں روتے ہوئے ان سے مسلسل ایک ہی بات کہہ رہی تھی کہ قاری صاحب مجھے بچاؤ ۔۔۔۔ ۔۔۔مجھے معاف کر دو ۔۔ پلیززز۔۔ مجھے معاف کر دو۔۔۔۔ میں قاری صاحب کے سامنے جن کا نام قاری شفیق راشدی تھا اور جنہیں سب راشدی صاحب کہتے تھے کے سامنے ہاتھ جوڑے کھڑی تھی اور میری آنکھوں سے آنسوؤں کی نہریں جاری تھیں ۔ ۔۔۔مجھے ۔۔یوں بے بسی سے روتے دیکھ کر ان کے چہرے پر ۔۔۔ ۔۔ قاری صاحب کے چہرے پر بتدریج نرمی کے آثار پیدا ہو نے شروع ہو گئے اور انہوں نے قدرے ڈانٹ کر بس اتنا کہا کہ ۔۔ماں یاویئے چُپ کر ۔۔( ۔۔ چُپ کرو۔۔ مادر چود) ۔۔۔ اور پھر آہستہ سے بولے جب تک میں نہ کہوں تم نے ادھر سے باہر نہیں نکلنا ۔۔اور پھر انہوں نے اپنا منہ باہر کی طرف کیا اور کہنے لگی ۔۔۔۔ مولانا ۔۔۔واش روم خالی ہے ۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی وہ دم لینے کے لیئے واش روم کے دروازے میں ہی بیٹھ گئے اور گہرے گہرے سانس لینے لگے۔۔۔ ادھر واش رو م میں بیٹھے بیٹھے اچانک ہی مجھے اپنے سکول بیگ کا خیال آ گیا۔۔۔ اور میں نے پھنسی پھنسی آواز میں قاری صاحب کو آواز دیتے ہوئے کہا کہ۔۔ قاری صاحب ۔۔۔ تو وہ وہیں پر بیٹھے بیٹھے کہنے لگے ۔۔۔ کیا بات ہے ؟ تو میں نے شرمندگی سے کہا کہ وہ میرا سکول بیگ۔۔۔ ابھی میں نے اتنا ہی کہا تھا وہ ساری بات سمجھ کر بولے ۔۔۔ اوہ ۔۔تیرا بھلا ہو جائے۔۔ کہاں رکھا ہے تیرا بیگ؟ ۔۔۔ تو میں نے ان سے کہا کہ شیڈ کے دوسرے کمرے میں ۔۔۔ میری بات سنتے ہی وہ اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑے ہوئے اور پیچھے مُڑے بغیر ہی کہنے لگے ۔۔ کس رنگ کا ہے ؟تو میں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ مہرون ۔۔۔۔۔۔ میری بات سن کر وہ جاتے ہوئے بولے دعا کر و کہ اس پر کسی کی نظر نہ پڑی ہو ۔۔۔ اور پھر وہاں سے بھاگتے ہوئے چلے گئے ان کے جانے کے بعد میں دروازے کے پیچھے کھڑی ہو گئی ۔ لیکن میرے کان باہر کی طرف ہی لگے ہوئے تھے جہاں ایک قیامت کا شور برپا تھا ۔۔۔۔ اور میرا خیال ہے انہوں نے زرینہ اور اس کے یار کو حالتِ غیر میں پکڑ لیا تھا ۔۔۔ کیونکہ مجھے ایک بھاری بھر کم آواز سنائی دی ۔۔۔ ۔۔کہ بچی نوں شلوار پوا دو ( بچی کو شلوار پہنا دو) اور اس کے ساتھ ہی مسلسل دھپ دھپ کی آوازوں کے ساتھ ساتھ غلیظ قسم کی گالیاں بھی میرے کانوں میں گونج رہیں تھیں ۔۔۔ اب میں نے تھوڑا آگے بڑھ کر دیکھا تو وہ لوگ اظہر اور زرینہ کے یار کو حسبِ توفیق گالیاں دینے کے ساتھ مارتے بھی جا رہے تھے ۔۔اتنے میں اسی بھاری بھر کم آواز نے دوبارہ سے کہا کہ۔۔ بس کرو منڈیو۔۔ہن انہوں نوں باہر لے جاؤ ( مارنا بس کرو اور اب ان لڑکوں کو باہر لے جاؤ) اس وقت میں نے یہ آواز پہچان لی تھی یہ آواز ہمارے علاقے کے مولوی صاحب کی تھی جو کہ "اصلاحِ معاشرہ " نامی تنظیم کے سربراہ بھی تھے جس کے میرے والد اور چچا بڑے سرگرم رُکن تھے۔۔ اس تنظیم کا مقصد لوگوں کو برائی سے بچانا اور ان کے بقول ان کو اچھائی کے راستے کی طرف لانا تھا۔۔۔
پھر میں نے دروازے کی اووڑھ سے دیکھا تو اصلاح ِمعاشرہ کے نیک لوگ دونوں لڑکوں کو بری طرح سے مارتے ہوئے اسی دیوار کی طرف لے جا رہے تھے کہ جہاں سے ہم لوگ کودے تھے جبکہ ان کے پیچھے پیچھے چلتے ہوئے بڑے مولوی صاحب نے بڑی مضبوطی کے ساتھ زرینہ کا بازو پکڑا ہوا تھا اور اسے اپنے ساتھ چپکائے وہ آہستہ آہستہ چل رہے تھے جبکہ زرینہ ۔۔ سر جھکا ئے مرے ہوئے قدموں سے ان کا ساتھ دے رہی تھی ۔۔۔ یہ ہولناک منظر دیکھ کر میں نے اپنے بچ جانے پر شکر ادا کیا۔۔۔۔ اسی اثنا میں ۔۔ میں نے قاری صاحب کو دیکھا جو کہ واش روم کی طر ف آ رہے تھے ۔۔ جیسے ہی وہ واش روم کے پاس پہنچے وہ ادھر ادھر دیکھتے ہوئے بڑی ہی دھیمی آواز میں کہنے لگے ۔۔ ۔۔۔ خوش قسمتی سے تمہارا بیگ مل گیا تھا۔۔۔اور وہ میں نے کمرے کے مشرق میں پڑی گھاس نے نیچے دبا دیا ہے ۔۔۔ جاتی دفعہ لے جانا ۔۔تو میں نے ان سے کہا ۔۔۔قاری صاحب اب میں کیا کروں ؟ تو وہ کہنے لگے ابھی معاملہ بہت گرم ہے تم یہاں ہی دُبکی رہو ۔۔۔۔۔ہم ان بچوں کو لیکر بڑے مولانا کے حجرے کی طرف جا رہے ہیں ۔۔۔ پھر کہنے لگے تم ایسا کرنا ۔۔ اب سے ٹھیک ایک گھنٹے کےبعد یہاں سے نکل جانا اور ہاں سیدھے راستے سے گھر نہیں جانا بلکہ تھوڑا گھوم کر جانا۔۔ ۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی راشدی صاحب ادھر ادھر دیکھتے ہوئے وہاں سے چلے گئے۔۔۔
ان کے جانے کے ایک گھنٹہ کی بجائے دو گھنٹے تک میں اسی واش روم میں دُبکی رہی ۔۔۔ اور پھر جب مجھے اس بات کا یقین ہو گیا کہ اب وہ لوگ بڑے مولوی صاحب کے حجرے میں پہنچ چکے ہوں گے ۔۔ تو میں چپکے سے وہاں سے نکلی۔۔۔ اور بڑی مشکل سے ادھر ادھر دیکھتی ہوئی شیڈ کے نیچے اس کمرے میں پہنچی جہاں گھاس کے نیچے میرا بیگ پڑا تھا۔۔۔ میں نے وہاں سے اپنا بیگ اُٹھایا اور پھر بڑے محتاط طریقے سے کمرے سے باہر جھانک کر دیکھا ۔۔تو آس پاس کوئی نہ تھا ۔۔۔ سارا ہسپتال سونا پڑا تھا۔۔۔۔۔۔ سو میں بڑے محتاط قدموں سے چلتی ہوئی ہسپتال کی اسی ادھڑی ہوئی دیوار کے پاس پہنچی ۔۔۔ اور وہاں جا کر دیوار کے ساتھ نیچے بیٹھ گئی۔۔۔ پھر تھوڑی دیر بعد پہلے اپنے پیچھے کی طرف دیکھا ۔۔۔ کسی کو نہ پا کر ۔۔۔۔میں نے دھیرے دھیرے اپنا سر اُٹھایا اور دیوار کے اوپر سے ادھر ادھر کے حالات کا جائزہ لیا ۔۔۔ دیکھا تو وہاں باہر بھی سناٹے کا راج تھا ۔۔۔ چنانچہ میں نے بڑی احتیاط ۔۔۔اور ڈرتے ڈرتے ہسپتال کی دیوار پھلانگی اور۔۔۔ پھر قاری صاحب کے بتائے ہوئے رستے پر چل دی۔۔ لیکن میں۔۔۔۔ابھی بھی سخت ڈری ہوئی تھی ۔۔ اور چلتے ہوئے ۔۔۔ بار بار پیچھے مُڑ کر دیکھ لیتی تھی کہ کوئی میرے پیچھے تو نہیں آ رہا ۔۔۔۔۔۔ پھر جب میں نے ہپستال کی حدود کراس کی تو اس وقت میرے اوسان کچھ بحال ہوئے اور ۔۔۔ اس کے بعد میں تیز تیز چلتی ہوئی گھر پہنچ گئی۔۔۔ لیکن سارے راستے میں ایک انجان سا دھڑکا لگا رہا تھا جس کی وجہ سے بچ جانے کے باوجود بھی میں سخت پریشان تھی -پھر جیسے ہی میں اپنے گھر پہنچی تو بھاگ کر اپنے کمرے میں چلی گئی اور وہاں جا کر چارپائی پر لیٹ گئی۔۔۔اس وقت بھی مجھ پر سخت کپکپی طاری تھی۔۔۔ اور میں بیدِ مجنوں کی طرح لرز رہی تھی ۔۔۔ چارپائی پر لیٹنے کے کچھ دیر بعد تک تو میں ہوش میں رہی۔۔۔۔۔۔ پھرا س کے بعد کا مجھے نہیں کچھ یاد نہیں کہ کیا ہوا۔۔۔۔۔ ہاں رات گئے اس وقت میری آنکھ کھلی جب شبی مجھے ہلا رہا تھا ۔۔ میں اُٹھی اور اس کے ہاتھ میں دودھ کا گلاس اور گولی دیکھ کر بڑی حیران ہوئی ۔۔۔ اور اس سے پوچھنے لگی کہ یہ کیا ہے ؟ میری بات سن کر شبی کہنے لگا۔۔۔ کہ باجی آپ کو بڑا سخت بخار چڑھا ہوا ہے۔ اس لیئے یہ دوائی کھا لیں ۔۔ میں نے اس سے گولی لی اور کھا کر پھر سو گئی ۔۔۔
اگلی صبع معمول کے مطابق میری آنکھ کھل گئی دیکھا تو شبی ابھی بھی سویا ہوا تھا۔۔۔ میں نے جلدی سے اسے اُٹھایا اور کچن کی طرف چلی گئی اماں کے نہ ہونے کی وجہ سے صبع کا ناشتہ میں ہی بناتی تھی۔۔ ناشتے پر شبی نے میرا حال پوچھا اور پھر میرے ماتھے پر ہاتھ لگا کر بولا ۔۔۔ شکر ہے باجی آپ کا بخار اتر گیا ہے ۔۔ ۔۔ ناشتہ کرنے کے بعد شبی اپنے مدرسے اور میں عاشی کے ساتھ سکول چلی گئی۔۔۔ راستے میں عاشی نے مجھ سے میرا حال دریافت کیاپھر کہنے لگی ۔۔۔ صبو تم تو بخار سے بے ہوش پڑی تھی لیکن کیا تم کو معلوم ہے کہ کل تمہارے پیچھے ہمارے ٹاؤن میں کیا قیامت مچ گئی ہے تو میں نے بڑی حیرانی سے اس کی طرف دیکھا اور بولی۔۔۔ کیوں ایسا کیا ہوگیا ہمارے ٹاؤن میں ؟ تو وہ بڑے پُر اسرار لہجے میں کہنے لگی۔۔۔۔ وہ تمہاری دوست ہے نا زرینہ ؟ وہ کل اپنے یار کے ساتھ پکڑی ہے۔۔۔ اس پر میں نے شدید حیرانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا وہ کیسے؟ میری اس بات پر اس نے مجھے واقعہ کی تفصیل سناتے ہوئے کہا کہ ہوا کچھ یوں کہ زرینہ اور اس کا عاشق اور ان کے ساتھ ایک اور لڑکا ۔۔۔ روز ہی ہسپتال میں جا کر رنگ رلیاں منایا کرتے تھے۔۔۔ کسی طرح اس بات کی اطلاع ہمارے ٹاؤن کے اصلاحِ معاشرہ والے مولوی صاحب کو ہو گئی ۔۔ جنہوں نے مدرسے کے لڑکوں کی ڈیوٹی لگائی۔۔۔ اور پھر جیسے ہی یہ لوگ عیش و عشرت کی خاطر ہسپتال کے اندر داخل ہوئے تو ان لڑکوں نے مولانا صاحب کو خبر کر دی اور پھر کچھ ہی دیر بعد مولانا صاحب نے ٹاؤن کے معززین کے ساتھ ہسپتال پر چھاپہ مارا اور وہاں سے دو لڑکے اور ایک لڑکی کو عین حالتِ غیر میں پکڑ لیا۔۔۔اس کی بات سن کر میں نے شدید حیرت کا اظہار کرتے ہوئے اس سے پوچھا ؟ اچھا یہ سب ہو گیا اور تم نے مجھے اُٹھایا تک نہیں ؟ میری بات سن کر وہ کہنے لگی جیسے ہی مجھے یہ بات پتہ چلی تھی تو میں بھاگ کر تمہارے گھر آئی تھی لیکن اس وقت تم اپنی چارپائی پر بے سدھ ہو کر سوئی ہوئی تھی ۔۔۔ میں نے کافی آوازیں دیں ۔۔ لیکن جب تمہیں ہلا جلا کر دیکھا تو ۔۔۔۔۔ تمہیں بڑا سخت بخار چڑھا ہوا تھا ۔۔۔
عاشی کی بات سن کر دل ہی دل اس بات پر میں بڑی خوش ہوئی کہ جب وہ ہمارے گھر آئی تو اس وقت میں گھر پر ہی تھی۔۔۔۔۔ ورنہ اس نے میری غیر حاضری کے بارے میں پوچھ پوچھ کر میرا ناطقہ بند کر دینا تھا۔۔۔ لیکن میں نے اپنی اس خوشی کو عاشی پر ظاہر نہ ہونے دیا اور اپنے چہرے پر اسی حیرانگی کو طاری کرتے ہوئے اس سے بولی ۔۔۔ کہ اچھا پھر کیا ہوا؟ تو وہ کہنے لگی ۔۔ ہونا کیا تھا۔۔۔ تمہاری دوست کے والد اور چاچوں کو بلا کر زرینہ کو ان کے حوالے کر دیا گیا ۔۔۔ جبکہ پکڑے گئے دونوں لڑکوں کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا گیا ہاں اس کے ساتھ ساتھ ان دونوں کا اس ٹاؤن میں داخلہ بند کر دیا گیا ہے۔۔۔ اس کی باتیں سن کر میں نے ایک دفعہ شکر ادا کیا کیونکہ اگر میں پکڑی جاتی اور مجھے میرے والد اور چچا کے حوالے کر دیا جاتا تو ۔۔۔۔۔ آپ کو آج میں یہ کہانی سنانے کے لیئے زندہ نہ بچتی۔۔اس واقعہ کے بعد میں بہت ڈر گئی تھی اور کافی عرصہ تک بھائی کے ساتھ بھی کوئی چھیڑ چھاڑ نہ کی تھی ۔۔ ہاں عاشی کے کہنے پر ایک دو دفعہ اس کے ساتھ پروگرام ضرور کیا تھا وہ بھی اس لیئے کہ کہیں اس کو شک نہ ہو جائے لیکن اس کےساتھ سیکس کرتے ہوئے مجھے زرا بھی مزہ نہ آیا تھا۔۔۔ کوئی دس پندرہ دن تک میری یہی حالت رہی ۔۔
پھر ایک دن کی بات ہے کہ۔۔۔۔ کوئی آدھی رات کا وقت ہو گا کہ اچانک ہی میری آنکھ کھل گئی میں نے دیکھا تو میرا سارا بدن پسینے پسینے ہو رہا تھا ۔۔۔۔ ابھی میں اپنے اس طرح جاگنے پر حیران ہو رہی تھی کہ مجھے اپنی شلوار میں گیلے پن کا احساس ہوا ۔۔پہلے تو میں یہ سمجھی کہ میرا یہ گیلا پن پیریڈز کی وجہ ہو گا ۔۔ اس لیئے میں نے اپنی شلوار کو چیک کرنے کے لیئے نیچے ہاتھ مارا تو ۔۔یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ نیچے سے میری شلوار کافی گیلی تھی ۔۔۔۔اور غور کرنے پر معلوم کہ یہ گیلا پن پیریڈز والا نہیں ہے شلوار کو اتنا زیادہ گیلا دیکھ کر دل میں خیال آیا کہ ۔۔ سوتے میں کہیں میرا پیشاب تو نہیں نکل گیا۔۔۔ چنانچہ یہ خیال آتے ہی میں نے جلدی سے اپنی شلوار کی گیلی جگہ کو چیک کرنے کے اس پر اپنا ہاتھ لگایا تو اس گیلی جگہ پر میری انگلیوں کو کچھ چپ چپاہٹ سی محسوس ہوئی ۔۔۔ بلکہ ۔۔۔ یہ تو میری چوت سے خارج ہونے والا پانی ہے اور اس پانی کی وجہ سے میری شلوار بہت زیادہ بھیگی ہوئی تھی۔۔۔اس کا مطلب یہ تھا کہ مجھے بہت بڑا احتلام ہوا تھا جس کی وجہ سے میر ی ساری شلوار بھیگ گئی تھی۔۔۔۔۔۔۔ اپنی شلوار کو اتنا زیادہ بھیگا دیکھ کر مجھ پر شہوت کی مستی چڑھنے لگی۔۔۔۔ اور پھر میں نے بھائی کی طرف دیکھتے ہوئے اپنی شلوار گھٹنوں تک اتار دی اور اپنی چوت کے جائزے کی خاطر میں نے اپنی ایک ا نگلی چوت کے اندر داخل کی ۔۔۔تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ میری پھدی ابھی تک پانی سے بھری ہوئی ہے ۔۔۔ پھر میں نے اپنی انگلی کو اس پانی سے اچھی طرح تر ۔۔ کر کے باہر نکالا اور اسے اپنی آنکھوں کے سامنے کر کے دیکھنے لگی۔۔۔ لیکن اندھیرا ہونے کی وجہ سے مجھے اپنی ا نگلی پر لگی منی ٹھیک سے دکھائی نہ دی – اس لیئے میں نے ۔۔ اس انگلی کو اپنی ناک کے سامنے کیا اور اس کو سونگھنے لگی۔۔۔ واہ۔۔۔ میری چوت سے برآمد ہونے والے پانی کی بڑی ہی سیکسی مہک تھی ۔۔پھر میں نے اس مہک والے مادے کا ذائقہ چیک کرنے کی خاطر ۔۔اپنی زبان باہر نکالی اور ۔۔۔ اور اپنی انگلی پر پھیرنے لگی۔۔تو مجھے پتلے پتلے مادے کی ایک باریک سی تہہ اپنی انگلی پر لگی ہوئی محسوس ہوئی۔۔۔ جسے میں نے چاٹ کر صاف کر دیا۔۔ آہ ہ ہ ۔۔میری چوت سے نکلنے والے ۔۔اس پتلے پتلے مادے کا ٹیسٹ بہت ہی اچھا اور ۔۔ مزیدار تھا ۔۔۔ جیسے چاٹ کر میں اور بھی گرم ہو گئی تھی۔۔۔پھر جب میری انگلی پر لگا ہوا سار مادہ صاف ہو گیا تو پتہ نہیں کیوں میری نگاہ ۔۔۔۔ بھائی کی طرف چلی گئی جو کہ اس وقت بے سدھ ہو کر سویا ہوا تھا ۔۔بھائی کی طرف نظر پڑتے ہی۔۔۔۔ میرا انگ انگ ۔۔۔ میں ایک مستی سی چھا گئی چنانچہ میں نے کچھ کرنے سے پہلے کمرے سے باہر جا کر ایک چکر لگایا اور پھر ۔۔۔ ہر طرف سناٹا سا پا کر واپس کمرے میں آ گئی اور بھائی کو ہلا جُلا کر دیکھا تو اسے سوتے ہوئے پایا ۔۔۔ اب میں نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اپنے دانے پر رکھ دیا۔۔۔ پھر خود ہی اوپر نیچے ہلنے لگی۔۔۔اس طرح بھائی سے مزہ لیتے ہوئے میں ایک دفعہ اور خارج ہو گئی۔۔۔
اس کے بعد میں نے دوبارہ سے بھائی کے ساتھ مست پروگرام شروع کر دیا۔۔۔پھر ایک دن کی بات ہے کہ میں نے بھائی کا ہاتھ اپنے ننگی چھاتیوں پر رکھا ہوا تھا ۔۔۔۔اور اس سے اپنی چھایتوں پر ہولے ہولے مساج کر رہی تھی کہ اچانک مجھے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے بھائی جاگ رہا ہو۔۔۔۔ اسے چیک کرنے کی خاطر میں نے بھائی کا ہاتھ وہاں سے ہٹایا اور اپنی ننگی پھدی پر لے آئی اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے دانے پر رکھا ۔۔۔اور دھیرے دھیرے ہلنے کے ساتھ ساتھ ۔۔۔ بڑے غور سے بھائی کی بھی نگرانی کرنے لگی۔۔۔۔وہ بظاہر تو سویا بنا ہوا تھا ۔۔۔ لیکن اس کے چہرے کو غور سے دیکھنے پر پتہ چلا کہ ۔۔ بھائی کی پتلیاں حرکت حرکت کر رہی تھیں۔۔ جس سے مجھے کنفرم ہوگیا کہ وہ ۔۔۔ جاگ رہا ہے ۔۔۔
میں سمجھ تو گئی تھی لیکن میں نے اس پر کچھ ظاہر نہ ہونے دیا اور روٹین کے مطابق ساتھ اپنا پروگرام جاری رکھا۔۔۔ یہ اس سے اگلے د ن کی بات ہے دوپہر کا وقت تھا ۔۔۔ سکول سے واپس آ کر میں اور وہ کمرے میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے کہ پروگرام کے مطابق اچانک ہی باتوں باتوں میں ۔۔۔میں نے شبی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا اور کہنے لگی ۔۔۔۔ ۔۔۔ شبی تم رات کو جاگ رہے تھے نا؟ میری بات سن کر وہ ایک دم سے ا چھلا ۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی اس کے چہرے کا رنگ اُڑ گیا اور وہ میری طرف دیکھ کر ہکلاتے ہوئے بولا۔۔۔ جی؟ یہ۔۔۔یہ آپ کیا کہہ رہی ہو باجی؟ میں تو رات کو سویا ہوا تھا۔ یہ بات کر کے اس نے اپنا سر جھکا لیا ۔۔۔۔ اور نیچے کی طرف دیکھنے لگا ۔۔ اس کا انداز دیکھ کر میں سمجھ گئی کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے ۔۔۔ اور میرے دو تین بار پوچھنے پر بھی جب اس نے اپنا ناں میں جواب دیا ۔۔۔۔ تو گھی سیدھی انگلی سے نہ نکلتا ہوا دیکھ کر میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے بڑے ہی درشت لہجے میں کہا ۔۔۔ سچ سچ بتاؤ ۔ ورنہ ابھی الٹے ہاتھ کی دوں گی ۔۔ میری جھڑک سن کر بھائی کی سٹی گم ہو گئی اور اس نے بڑی مجروح نظروں سے میری طرف دیکھا اور سر جھکا لیا لیکن منہ سے کچھ نہ بولا ۔۔تب میں نے تھوڑے نرم لہجے میں اس سے پوچھا ۔۔۔ اچھا میں تم سے کچھ نہیں کہوں گی بس صرف یہ بتا دو کہ تم رات کو جاگ رہے تھے نا؟ تو میری بات سن کر اس نے ہاں میں سر ہلا دیا۔۔۔ اس کی ہاں سن کر میرے سارے جسم میں چیونٹیاں سی رینگنے لگیں اور ایک انجانی سی ۔۔ مسرت نے میرے جسم کو اپنے حصار میں لے لیا۔۔۔۔۔۔۔اب میں نے اس کی طرف دیکھا اور بولی۔۔ اچھا یہ بتاؤ کہ تم کس دن جاگ رہے تھے ؟ تو اس میری طرف دیکھا اور کہنے لگا۔۔۔ ۔۔۔ کہ بہت پہلے سے ۔۔۔ اور سر جھکا لیا۔۔۔ اب میں نے اس کے جھکے ہوئے سر کو اوپر اُٹھایا اور اور بولی۔۔۔میری طرف دیکھ یار ۔۔۔۔میں لڑکی ہو کر نہیں شرما رہی ۔۔ جبکہ تم لڑکے ہو کر اتنے گھبرا رہے ہو ۔پھر میں نے اسے پچکارتے ہوئے کہا کہ ۔ چلو شاباش ۔۔۔ اب شرمانا چھوڑو ۔۔۔ اور میری باتوں کا ٹھیک ٹھیک جواب دو ۔۔ تب شبی نے اپنا سر اُٹھایا اور میری طرف دیکھ کربولا۔۔ باجی میں شرما نہیں رہا ۔۔۔ مجھےآپ سے ڈر لگتا ہے ۔۔۔ اس کی بات سن کر میں نے اس کی طرف دیکھا اور بولی ۔۔۔ آج سے تم میرے بھائی اور دوست ہو۔۔ چلو ہاتھ ملاؤ۔۔ اور اس کی طرف ہاتھ بڑھا دیا ۔۔۔ یہ دیکھ کر بھائی نے بھی اپنا ہاتھ آگے بڑھایا اور میرا بڑھا ہوا ہاتھ تھام لیا۔۔۔ میں نے بڑی گرم جوشی کے ساتھ اس کا ہاتھ پکڑا ۔۔۔اور بولی ۔۔۔اچھا شبی یہ بتاؤ ۔۔ کہ جو کچھ میں تمہارے ساتھ کرتی تھی اس کا مزہ آتا تھا؟ میری بات سن کر شبی نے ادھر ادھر دیکھا اور کہنے لگا۔۔۔ باجی مجھے بھی بہت مزہ آتا تھا ۔۔۔ تو میں نے اس سے اچھا یہ بتاؤ کہ تمہیں کس جگہ ہاتھ لگانے سے زیادہ مزہ ملتا تھا۔۔۔ یہ بات کرتے ہوئے اچانک ہی میری نظر اس کی شلوار کی طر ف اُٹھ گئی۔۔۔۔ اور میرے دیکھتے ہی دیکھتے اس کی شلوار اوپر کو اُٹھنے لگی تھی ۔۔۔۔ ادھر شبی نے میری بات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ باجی مجھے آپ کے جسم پر ہر جگہ ہی مزہ آتا ہے ۔۔۔ تو میں نے اس کے لن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تھوڑا ہنسی اور کہنے لگی ۔۔۔ اچھا یہ بتاؤ کہ یہ کس مزے کو یاد کر کے ۔۔۔ کھڑا ہو گیا ہے۔۔۔ میری بات سن کر شبی نے ایک نظر نیچے اپنے کھڑے ہوئے لن کی طرف دیکھا اور پھر ۔۔۔۔ میری طرف دیکھ کر ۔۔بولا۔۔۔۔۔ مجھے آپ کی ہر جگہ اچھی لگتی ہے ۔۔۔ اس کا لن دیکھ کر اس بات سن کر اچانک ہی مجھے پر شہوت نے بڑی زور کا حملہ کر دیا ۔۔۔اور میں جزبات سے بھر پور لہجے میں اس سے بولی۔۔۔شبی میرے ساتھ ابھی مزہ لو گے ؟ میری بات سن کر وہ بڑا حیران ہوا اور ڈرے ڈرے لہجے میں بولا ۔۔۔ باجی ابھی تو بہت مشکل ہے کہ سارے گھر والے گھر میں ہی ہیں۔۔۔ دوپہر کا ٹائم ہے ۔۔۔ لیکن اس وقت میرے سر پر شہوت سوار ہو چکی تھی۔۔۔ اس لیئے میں نے اس سے کہا ۔۔۔ تو بتا ۔۔ ابھی مزہ چاہیے کہ نہیں ۔۔۔؟ تو وہ بولا۔۔۔۔ جیسے آپ کی مرضی باجی۔۔۔اور اچانک اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیرنے لگا۔۔۔۔
بھائی کو اپنے ہونٹوں پر زبان پھیرتے دیکھ کر میں سمجھ گئی کہ اس کو بھی شہوت چڑھنے لگی تھی میں اس کی ایک ایک حرکت کو نوٹ کرنے کے ساتھ ساتھ ۔۔۔۔ دل ہی دل میں سوچ رہی تھی کہ اگر ابھی مزہ لینا ہو تو کہاں لیا جائے۔۔۔۔۔۔ سوچتے سوچتے اچانک ہی میرے ذہن میں ایک جگہ آ گئی ۔۔۔۔ اس سے زیادہ محفوظ جگہ نہیں ہو سکتی تھی ۔۔۔۔
کسی زمانے میں ہمارے والدہ کو مرغیاں پالنے کا شوق پیدا ہوا تھا ۔۔۔ دن کو تو وہ ادھر ادھر پھر لیتی تھیں لیکن رات کو ان کے سونے کے لیئے اماں نے اپنے چھت پر ایک کھُڈا بنایا ہوا تھا اور مرغیوں کا یہ کُھڈا چار فٹ چوڑا اور تقریباً اتنا ہی لمبا تھا یعنی کہ اس میں بندہ ٹھیک سے کھڑا نہیں ہو سکتا ہے اس کو بلیوں سے بچانے کے لیئے اس کی باقی تین اطراف تو اینٹوں سے ڈھانپی ہوئیں تھیں جبکہ چھت والی سائیڈ پر ہوا کے لیئے اینٹوں کے درمیان جگہ چھوڑ کر دیوار بنائی ہوئی تھی۔اس کھڈے کے آگے دروازے کی بجائے ۔۔۔ایک بڑا سا ٹاٹ لگا ہوا تھا ۔۔۔ لیکن پھر یوں ہوا کہ بیماریوں کی وجہ سے ایک ایک کر کے اماں کی ساری مرغیاں مر گئیں ۔۔تو اس کے بعد اماں نے مرغیاں تو نہ پالیں تھیں ۔۔۔ لیکن۔۔۔ مرغیوں کے اس کھُڈے کو ویسے کا ویسا ہی رہنے دیا تھا ۔۔پھر کچھ عرصہ بعد اماں نے اس کا ایک اور تصرف سوچ لیا تھا اور وہ یہ کہ اس کھُڈے میں اب وہ مرغیوں کی جگہ بارش وغیرہ سے بچاؤ کے لیئے جلانے والی لکڑیوں کا ذخیرہ رکھا کرتی تھی۔۔۔ لیکن اتفاق سے ان دنوں مرغیوں کا یہ کُھڈا ۔۔ یا جسے اردو میں دڑبا کہتے ہیں بلکل خالی تھی ۔۔ اس دڑبے کا خیال آتے ہی میں نے شبی سے اس بارےمیں بات کی تو کچھ دیر سوچنے کے بعد وہ میرے ساتھ وہاں جانے پر راضی ہو گیا لیکن پھر کچھ سوچے ہوئے بولا ۔۔۔ کہ باجی وہ تو بہت گندہ ہو گا ۔۔۔ تو میں نے اس سے کہا ۔۔۔ نہیں وہ گندہ نہیں بلکہ بلکل صاف ہے کیونکہ ابھی پچھلے ہی ہفتے امی نے مجھ سے اس کی صفائی کرائی تھی۔۔اسی لیئے تو میرے زہن میں اس کا خیال آ یا ہے ۔۔۔ میری بات سن کر اس نے سر ہلا دیا ۔۔۔ اس پر میں اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔۔ ہاں اس کا فرش البتہ دھوپ کی وجہ سے خاصہ تپا ہوا ہو گا۔۔۔پھر میں نے اس سے کہا کہ ۔۔ اس کی تم فکر نہ کرو ۔۔۔ ہم وہاں درری بچھا دیں گے ۔ میری بات سن کر وہ کہنے لگا ہاں باجی یہ ٹھیک رہے گا ۔۔ ۔۔۔ چنانچہ بھائی کے ساتھ سارا پروگرام طے کرنے کے بعد میں وہاں سے اُٹھی اور اس سے کہنے لگی ۔۔۔۔۔ اوکے بھائی۔۔ میں چھت پر جا رہی ہوں ۔۔۔۔۔ٹھیک دس منٹ بعد تم بھی اسی دڑبے میں آ جانا ۔۔ پھر اسے آنکھ مارتے ہوئے بڑے ہی منی خیز لہجے میں بولی ۔۔۔ باقی باتیں وہیں پر ہو ں گی ۔۔
میری بات سن کر شدتِ جزبات سے شبی کا چہرہ سُرخ ہو گیا ۔۔اور اس نے بے دھیانی میں اپنے لن پر ہاتھ رکھا اور کہنے لگا۔۔۔۔ دیکھ لو باجی کہیں امی نہ آ جائیں ۔تو میں نے اس کے گال پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا کہ تم فکر نہ کرو میری جان ۔۔۔۔ دوپہر کو امی آرام کرتی ہیں ۔۔ اور دوسری بات یہ کہ اگر وہ اوپر آ بھی گئیں تو کبھی بھی ان کا دھیان کھُڈے کی طرف نہیں جائے گا ۔۔۔ ویسے بھی ہم کھڈے کے سوارخ میں سے باہر دیکھتے رہیں گے ۔۔۔۔ میری اس بات سے اس کی کچھ تسلی ہوئی اور وہ کہنے لگا ٹھیک ہے باجی آپ جاؤ میں آتا ہوں۔۔۔ اس کی بات سن کر میں وہاں سے اُٹھی ۔۔۔۔ اور باہر کی طرف چل پڑی۔۔۔۔ چونکہ چھت پر جانے والی سیڑھیاں صحن سے ہو کر جاتی تھیں ۔۔۔ اس لیئے میں دبے پاؤں صحن میں گئی اور ۔۔اور اماں کے کمرے کا ایک چکر لگایا ۔۔۔۔۔ ان کے کمرے کا دروازہ بند تھا ۔۔لیکن میں نے دروزے کو تھوڑا سا کھول کر دیا ۔۔۔تو وہ ۔۔۔۔ میری چھوٹی بہن کے ساتھ سو رہی تھیں ۔۔۔۔ادھر سے مطمئن ہونے کے بعد میں سیڑھیوں کی طرف گئی ۔۔۔اور دبے پاؤں چلتی ہوئی سیڑھیاں چڑھنے لگی۔۔۔۔۔ ۔۔۔ اور پھر اوپر ممٹی میں پہنچ کر میں نے ادھر ادھر دری تلاش کی لیکن ۔۔۔۔ وہ وہاں موجود نہ تھی تب میں نے ایک چارپائی پر بچھی تلائی ۔۔۔ اُٹھائی اور ممٹی سے با ہر چھت پر آ گئی۔۔۔اور یہاں آ کر میں نے ایک نظر آس پاس کی چھتوں کو دیکھا تو ۔۔۔ دور دور تک چھتوں کو سنسان پایا ۔۔۔۔۔۔۔ چنانچہ میں تلائی ہاتھ میں پکڑ کر ادھر ادھر دیکھتے ہوئے ۔۔۔ مرغیوں کے دڑبے کے قریب جا پہنچی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور یہاں آ کر ایک بار پھر آس پاس کے کوٹھوں پر نظر دوڑائی۔۔۔ دھوپ تیز ہونے کی وجہ سے آس پاس کے چھتوں پر سناٹے کا راج تھا۔۔۔۔ یہ دیکھ کر میں نے ایک ہاتھ سے دڑبے پر لگے ٹاٹ کو اوپر کیا ۔۔۔ ۔۔۔اور اندر داخل ہو گئی۔۔۔ پھر فرش پر تلائی بچھا کر بھائی کا انتظار کرنے لگی۔۔۔۔۔
اس دوران بھائی مسلسل میری گانڈ پر ہاتھ پھیرتا رہا ۔۔۔۔ ۔۔۔ جب میں اس کا سارا منہ چاٹ کر صاف کر چکی ۔۔۔تو بھائی نے اچانک ہی میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر شہوت ذدہ انداز میں میر ی طرف دیکھا ۔۔۔۔اور کہنے لگا۔۔۔۔ آپ کا کام ہو گیا باجی؟ تو میں نے اثبات میں سر ہلا کر اس سے کہا ۔۔۔ ہاں میرا کام ہو گیا میرے بھائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تب اس نے میری طرف دیکھا اور بڑے کھلے انداز میں کہنے لگا۔۔۔۔اب آپ میرا کام بھی کریں ۔۔۔۔ اس کی یہ بے باقی دیکھ کر میں حیران ہو گئی ۔۔اور اس سے کہنے لگی۔۔۔ بولا ۔۔۔ مجھے کیا کرنا ہے ۔۔۔ میری بات سن کر اس میرا ہاتھ پکڑا اور اپنے لن پر رکھ کر بولا۔۔۔۔باجی اب آپ میرے اس کو ٹھنڈا کریں ۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی اس نے اپنی شلوار اتار دی۔۔۔ اور اپنے لن کو ننگا کر کے بولا ۔۔۔۔۔۔ باجی مجھےاپنی گانڈ مارنے دیں۔۔۔۔ بھائی کی بات سن کر میں حیران رہ گئی اور سے بولی۔۔۔۔۔ گانڈ کیوں میرے بھائی ۔۔۔ اپنی بہن کی تم چوت مارو۔۔۔ تو وہ کہنے لگا۔۔۔۔ نہیں مجھے گانڈ اچھی لگتی ہے۔۔۔ چوت پھر کبھی ماروں گا۔۔۔۔ اس کی بات سن کر میں نے بڑی حیرانی سے شبی کی طرف دیکھا اور کہنے لگی۔۔۔۔ شبی یہ تم کہہ رہے ہو۔۔۔ کہ ابھی تھوڑی دیر پہلے تمہارے منہ سے بات نہیں نکل رہی تھی اور اب تم ۔۔۔ یہ کیا چکر ہے ؟؟۔۔۔ میری بات سن کر شبی ایک دم مسکرایا ۔۔۔اور کہنے لگا۔۔۔۔ تھوڑی دیر پہلے ہمارے درمیان ایک جھجھک سی تھی۔۔۔ جو آپ نے ختم کر دی ہے ۔۔۔۔ اب چونکہ میرے اور آپ کے درمیان کوئی پردہ نہیں رہ گیا ۔۔اس لیئے مجھے جو آپ سے چاہیئے تھا کہہ دیا ۔۔۔ اس پر میں نے اس سے کہا ۔۔کہ اچھا یہ بتاؤ کہ ۔۔ تم کو میری گانڈ ہی کیوں چاہیئے؟؟ جبکہ لوگ تو پھدی پر مرتے ہیں ؟۔۔۔ تو وہ کہنے لگا۔۔۔ باجی آپ تو جانتی ہی ہو کہ میں مدرسے میں پڑھتا ہوں ۔۔۔تو پڑھائی کے ساتھ ساتھ وہاں پر یہ کام بہت زیادہ ہوتا ہے ۔۔۔ بھائی کی بات سن کر میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں اور میں نے اس سے بڑی حیرانی سے پوچھا۔۔۔۔ تو کیا تمہارےاستاد اور قاری صاحب کو منع نہیں کرتے ؟ تو وہ کہنے لگا۔۔۔ بلکل کرتے ہیں ۔۔۔ لیکن جب وہ لوگ خود ہی یہ کام کریں گے ۔۔۔ تو پھر ہم لوگ کیسے منع ہو سکتے ہیں۔ اس پر میں مزید حیران ہو گئی ۔۔۔ اور اس سے بولی تم کب سے یہ کام کررہے ہو ؟؟۔۔۔تو وہ۔کہنے لگا۔۔ بہت عرصہ پہلے سے۔۔۔۔۔پھر خود ہی بولا۔۔۔۔۔۔حیران نہ ہوں باجی۔۔۔ میں نے اب تک کافی بنڈیں پھاڑی ہیں ۔۔۔ اس کی بات سن کر میں بڑی محظوظ ہوئی اور اس سے پوچھنے لگی۔۔۔ اچھا یہ بتاؤ۔۔۔۔کسی نے تمہاری بھی پھاڑی ہے؟ میری بات سن کر وہ تھوڑا شرمندہ سا ہو کر کہنے لگا۔۔۔۔ باجی ہمارے مدرسے میں" واری وٹہ" یعنی کہ ادلے کا بدلہ چلتا ہے ۔۔ اس لیئے جس کی ماریں ۔۔۔اس کو دینی بھی پڑتی ہے۔۔۔ پھر اس نے بڑی التجائیہ نظروں سے میری طرف دیکھا اور کہنے لگا ۔۔۔۔۔ باجی ۔مجھے عورتوں کی بنڈ مارنے کا بڑا شوق ہے ۔۔ اس لیئے مجھے اپنی بنُڈ مارنے دیں نا۔۔۔۔
بھائی کی یہ فرمائیش سن کر میں شش و پنج میں پڑ گئی۔۔۔۔ ادھر وہ بار بار میری منتیں کر رہا تھا کہ باجی بنڈ مارنے دو نا۔۔۔۔ پھر کچھ سوچ کر میں نے شبی کی طرف دیکھا اور اس سے کہنے لگی۔۔۔ ٹھیک ہے بھائی میں تم کو اپنی بنڈ مارنے دوں گی ۔۔ لیکن میر ی ایک شرط ہو گی تو وہ بے تابی سے بولا۔۔۔ کیا شرط باجی؟۔۔۔ تو میں نے اس سے کہا کہ آئندہ سے نہ تو تم کسی کو اپنی بنڈ دو گے اور نہ ہی کسی لڑکے کی بنڈ مارو گے۔۔۔۔ جب بھی تمہارا جی چاہے تم میری بنڈ مار لینا۔۔۔ میری بات سن کر وہ کہنے لگا۔۔۔ ٹھیک ہے باجی ۔۔۔ مجھے آپ کی شرط منظور ہے ۔۔۔ اس کے ساتھ ہی اس نے مجھے گھوڑی بننے کو کہا ۔۔۔ اس کی بات سن کر میں اپنا منہ کھُڈے کی دوسری طرف کیا ۔۔۔اور اس کے سامنے گانڈ کر کے بولی۔۔۔ لے مار لے میرے بھائی۔۔۔ میری بات ختم ہوتے ہی ۔۔۔گھٹنوں کے بل چلتا ہوا شبی عین میری ہپس کے پیچھے آ کر کھڑا ہوگیا۔۔۔۔ اور مجھے اپنی دونوں ٹانگیں کھولنے کو کہا۔۔۔۔ اور جب میں نے اپنی دونوں ٹانگیں کھول دیں تو اس نے اپنی انگلیوں کی مدد سے میری گانڈ کے دونو ں پٹ کھولے اور ان کا معائینہ کرتے ہوئے بولا۔۔۔۔ باجی آپ کی بنڈ تو بڑی کالی اور سوکھی ہوئی ہے۔۔۔ اس کی بات مجھے اچھی نہیں لگی اور میں نے اپنا منہ پیچھے کیا اور اس سے بولی۔۔۔۔ اگر میری بنڈ اتنی ہی کالی اور سوکھی ہے ۔۔۔تو پھر کسی اور کی جا کر مار لو۔۔۔۔ میری یہ جلی کٹی بات سنتے ہی بھائی کھسیانہ سا ہو گیا ۔۔۔۔اور ہنستے ہوئے بولا۔۔۔۔ وہ ۔۔وہ باجی میں تو مزاق کر رہا تھا۔۔۔۔ آپ کی بنڈ تو بڑی سیکسی اور کافی تنگ ہے۔۔۔ پھر اس کے ساتھ ہی اس نے میری گانڈ کے رنگ پر بہت سارا تھوک لگایا ۔۔۔۔اور کچھ اپنے لن پر لگا کر ۔۔۔۔ اس کے ٹوپ کو میری بنڈ کے درمیان رکھ دیا۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی اس نے ایک ذور دار گھسہ مارا۔۔۔۔۔چونکہ یہ میری پہلی بار تھی اوپر سے یہ بھی حقیقت ہے کہ واقعی اس وقت میری گانڈ بڑی ہی تنگ تھی۔۔اوپر سے بھائی نے پہلا گھسہ بجائے آرام سے مارنے کے ۔۔۔۔فل پاور سے مارا تھا ۔۔۔ اس لیئے ۔۔۔ بھائی کا گھسہ لگتے ہی میری آنکھوں کے سامنے نیلے پیلے تارے سے ناچنے لگ گئے اور مجھے ایسا لگا کہ کسی نے بہت بڑا لوہے کا پائپ میری گانڈ میں گھسا دیا ہو۔۔مجھے اس قدر شدید درد محسوس ہوا کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس درد کی شدت سے خود بخود ہی میرے منہ سے ایک زور دار چیخ نکل گئی۔۔۔۔ اؤئی۔۔۔۔۔ امی جی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میرے حلق سے نکلنے والی چیخ اتنی بلند تھی کہ وہ کھڈے کا حدود دربہ کراس کرتے ہوئے نیچے گھر میں بھی سنی گئی۔۔۔ عین اسی وقت نیچے سے ابا جو کسی کام سے ابھی گھر میں داخل ہی ہوئے تھے۔۔۔چیخ سن کر بڑی ہی گھبرائی ہوئی آواز میں بولے۔۔۔ ۔۔اوپر کون ہے؟۔۔۔۔ ۔۔ ۔۔۔ کیا ہوا صبو پُتر۔۔۔؟؟۔۔۔؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟۔۔۔ ۔۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی ۔۔۔ دگڑ دگڑ ۔دگڑ کی آوازیں آنے لگیں ابا بڑی تیزی کے ساتھ سیڑھیاں چڑھنے لگے تھے۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ادھر ابا کی آواز سنتے ہی میری اور شبی کی حالت غیر ہو گئی تھی۔۔۔۔اوپر سے ان کے سیڑھیاں چڑھنے کی آواز۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جیسے جیسے یہ آواز نزدیک آتی جا رہی تھی ۔۔۔ ویسے ویسے ہم دونوں کی اپنی جان نکلتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔۔۔پھر یہ آواز قریب ہوتی گئی ۔۔۔قریب ۔۔۔۔۔۔۔اور ۔۔۔ قریب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ ہی دیر بعد ۔۔۔ چھت پر قدموں کی آواز سنائی دی ۔۔۔ فوراً ہی میں نے کھُڈے کے سوراخوں سے دیکھا تو وہ بھائی تھا اس لیئے میں مطمئن ہو گئی۔۔۔۔۔۔۔ اگلے ہی لمحے بھائی کھڈے کے دروازے پر کھڑا تھا۔۔۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی مجھے بھائی کی جزبات سے کانپتی ہوئی سرگوشی نما آواز سنائی دی ۔۔۔ باجی۔۔!!!!!!۔ بھائی کی آواز سن کر میں نے ٹاٹ کو ایک سائیڈ پر کیا ۔۔۔اور بھائی کی طرف دیکھتے ہوئے سرگوشی میں بولی۔۔۔ ۔۔۔۔ شبی اندر آ جاؤ۔۔۔ میری آواز سنتے ہی شبی نے اپنا سر جھکایا اور کھُڈے میں داخل ہو گیا ۔۔۔ جیسے ہی بھائی کھڈے میں داخل ہوا میں نےجلدی سے ٹاٹ کو واپس اپنی جگہ پر کر دیا ۔۔۔۔ ۔۔ دڑبے کے اندر آ کر ۔۔۔ شبی ۔۔سر جھکا کر بیٹھ گیا۔۔۔۔ ادھر میری اندر آگ لگی ہوئی تھی۔کہ شبی کچھ کہے تو "کام " شروع کروں لیکن دوسری طرف بھائی سر جھکائے بلکل چُپ بیٹھا تھا ۔۔۔ یہ دیکھ کر میں نے ہی ہمت کرنے کی ٹھانی اور تھوڑا کھسک کر شبی کے ساتھ لگ کر بیٹھ گئی۔۔۔ ۔۔ اور اس سے سرگوشی میں بولی۔۔۔۔ کیسا لگ رہا ہے میرے بھائی؟ تو اس نے سر اُٹھا کر میری طرف دیکھا اور کانتپی ہوئی آواز میں کہنے لگا۔۔۔ ۔۔۔ باجی مجھے بہت اچھا لگ رہا ہے۔۔۔ اس کی بات سن کر میں اس کے ساتھ تھوڑا اور جُڑ کر بیٹھ گئی۔۔۔اور اس کا منہ اپنی طرف کر کے بولی۔۔۔۔ بھائی بتاؤ نہ کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہیئے؟؟؟؟؟ ۔لیکن میری باس سن کر وہ چپ رہا اور کوئی جواب نہ دیا ۔۔۔ یہ دیکھ کر میں نے جزبات سے رندھے ہوئے لہجے میں اس سے بولی۔۔۔ شرماؤ نہ بھائی ۔۔تمہارے دل میں جو بات ہے کہہ دو۔۔۔ میری بات سن کر اس نے ایک نظر مجھے دیکھا۔۔۔ اور پھر سر جھکا دیا ۔۔آخر میرے بار بار کے اصرار پر اس نے اپنا سر اُٹھایا ۔۔۔اور ۔۔۔ میری طرف دیکھ کر کہنے لگا ۔۔ جو ۔آپ کہو ۔۔۔ اسے یوں شرماتے دیکھ کر ۔۔ میں خود ہی کچھ کرنے کا سوچا ۔۔اور پھر یہ سوچتے ہی ۔۔ میں نے اس کا ہاتھ پکڑا ۔۔۔۔اور اپنے چھاتیوں پر رکھ دیا ۔۔اور کہنے لگی ۔۔۔شبی ۔۔۔ میری چھاتیاں کیسی ہیں؟ تو وہ اپنے ہاتھ کو میری چھاتیوں پر رکھے رکھے کہنے لگا۔۔۔باجی آپ کی چھاتیاں اچھی ہیں۔۔ تو میں نے اس سے کہا اچھا یہ بتاؤ۔۔۔میری چھاتیاں تم کو کپڑوں میں اچھی لگتی ہیں یا کہ ننگی؟ تو اس نے میری طرف دیکھا اور ہونٹوں پر زبان پھیر کر کہنے لگا۔۔۔ باجی۔۔۔۔چھاتیاں تو ننگی ہی اچھی لگتی ہیں ۔۔۔ تو میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔تو کیا خیال ہے بھائی ۔۔۔ میں اپنی چھایتوں کو ننگا نہ کر دوں؟ میرے منہ سے یہ بات سن کر اس نے ایک جھر جھری سی لی ۔۔۔اور بولا۔۔۔ ہاں باجی۔۔۔ کر۔۔ دو۔۔۔ اس کی بات سن کر جلدی سے میں نے اپنی قمیض کو اوپر کیا ۔۔۔ اور پھر ننگی چھاتیوں کو اس کے سامنے کرتے ہوئے بولی۔بھائی اب بتاؤ ۔۔ میری چھاتیاں کپڑوں میں اچھی لگتی ہیں یا ایسے ننگی ننگی ۔۔میری بات سن کر اس کو چہرہ مزید سرخ ہو گیا ۔۔ لیکن وہ کچھ نہ بولا ۔۔۔۔ چنانچہ اب میں اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی ۔۔۔ زرا چیک کر کے بتا ۔۔۔ کہ میری ننگی چھاتیاں کیسی ہیں؟ اور اس کے ساتھ ہی اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنی چھاتیوں پر رکھ دیا۔۔۔ اس نے میری چھاتیوں کو اپنے ہاتھ میں پکڑا اور تھوک نگھلتے ہوئے کہنے لگا۔۔۔۔ باجی آپ کی چھاتیاں بہت سخت ہیں ۔۔۔ تو میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔ میرے بھائی۔۔۔ تمہاری بہن کی چھاتیاں اس لیئے سخت ہیں ۔۔۔ کہ ابھی تک ان کو تمہارے علاوہ کسی اور مرد نے نہیں پکڑا۔۔۔ اور تم نے بھی کہاں پکڑا ہے ۔۔۔ خود میں نے ہی تمہارا ہاتھ پکڑ کر ان پر رکھا ہے۔۔۔ ہاں اس سے پہلے بھی تم نے ان چھاتیوں پرا پنا ہاتھ رکھا تھا لیکن اس وقت تم سوئے ہوئے ہوتے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔ اور اب جبکہ تم جاگ رہے ہو تو اپنی بہن کی چھاتیوں کو خوب ذور سے دباؤ نا۔۔۔۔ میری بات سن کر اس نے جوش میں آ کر میری چھاتیوں کودبانا شروع کر دیا۔۔۔ اور پھر اتنے زور سے دبایا کہ میری چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی اور میں نے سسکی لیتے ہو ئے اس سے کہا کہ بھائی۔۔۔ آرام سے ۔۔۔تو وہ کہنے لگا۔۔۔مجھے ایسے ہی دبانے دو نا باجی۔۔۔ لیکن اس کے بعد وہ بڑے آرام آرام سے میری چھاتیوں کو دبانے لگا۔۔۔۔ وہ میری چھاتیوں کو دباتے ہوئے مسلسل اپنے ہونٹوں پر زبان پھیر رہا تھا ۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی اس کی شلوار بھی کافی اوپر کو اُٹھی ہوئی تھی۔۔۔ چھاتیوں کو دباتے دباتے اچانک ہی بھائی نے مجھ سے پوچھا۔۔ باجی آپ کی چھایتاں اتنی سخت کیوں ہیں ؟ تو میں نے اس سے کہا ۔۔۔ میرے بھائی میری چھایتاں اس لیئے سخت ہیں کہ ان میں دودھ بھرا ہوا ہے ۔۔۔ پھر میں نے اپنی ایک چھاتی کا نپل اس کے منہ کے قریب کردیا اور کہنے لگی۔۔۔ بھائی میرا دودھ پیو گے؟ میری بات سنتے ہی اس نے اپنا منہ کھول دیا اور میری چھاتی کو اپنے منہ میں لیکر چوسنے لگا۔۔۔۔ اس کے میرے نپل کو اپنے منہ میں لینے کی دیر تھی ۔۔۔ کہ مزے کی ایک تیز لہر میرے سارے جسم سے ہوتی ہوئی چوت تک جا پہنچی ۔۔۔اور مزے کی اس تیز لہر نے میری پھدی میں سپارک کا کام کیا ۔۔۔ کیونکہ اس کے ساتھ ہی میری چوت میں بہت تیزی کے ساتھ آگ بھڑک اُٹھی تھی ۔۔۔ یہ دیکھ کر میں نے بھائی کے ساتھ اپنی دوسری چھاتی کو بھی رگڑتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔ زور سے چوس نہ میرے بھائی۔۔میری بات سن کر بھائی نے اور بھی جوش سے باری باری میری دونوں چھاتیوں کو چوسنا شروع کر دیا۔۔۔۔۔۔ ادھر چھاتیاں چوستے دیکھ کر مجھے اپنے بھائی پر بہت زیادہ پیار آ رہا تھا اور میں شہوت کے نشے میں ٹُن ہوتی جا رہی تھی ۔۔۔۔۔ اس لیئے میں نے بڑے ہی پیار سے بھائی کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔۔۔۔ مُنا ۔۔۔۔۔۔ میری چھاتیوں سے دودھ نکل رہا ہے نا۔۔ میری چھاتیو ں کو چوستے چوستے منا یعنی کہ میرا بھائی بھی بہت گرم ہو چکا تھا ۔۔۔اس لیئے اس نے میری بات سن کر میری چھاتی سے اپنا منہ ہٹایا اور۔۔۔ اور میری طرف دیکھتے ہوئے جزبات سے چُور لہجے میں کہنے لگا۔۔۔۔ ہاں باجی ۔۔ آپ کی چھاتیوں سے دودھ نکل رہا ہے۔۔۔اور پھر اس کے ساتھ ہی اس نے دوبارہ سے میری چھاتیوں کو اپنے منہ میں لیا اور میرا دودھ پینے لگا۔۔۔۔ بھائی سے اپنی چھاتی کو چسواتے ہوئے مجھ پر ایک عجیب سا نشہ چڑھتا جا رہا تھا ۔۔اور اس لزت آمیز نشے کے زیرِ اثر میں ۔۔۔۔ میں بڑے پیار سے بھائی کے بالوں میں انگلیوں پھیرتے ہوئے آہستہ آہستہ سسکیاں لے رہی تھی۔۔۔۔اُف بھائی توُ کتنا اچھا بھائی ہے۔۔۔ اپنی بہن کو کتنا مزہ دے رہا ہے ۔۔۔آہ ہ ہ۔۔۔ بھائی اور زور سے چوس نہ بہن کی چھاتی کو ۔۔۔۔۔اُف ف فف فف ف ف ف۔۔۔
میری چھاتیوں کو چوستے چوستے اچانک بھائی نے سر اُٹھایا اور کہنے لگا۔۔۔ باجی آپ کی چھاتیوں کو چوستے ہوئے میرے ادھر (لن پر) پر ایک عجیب سی بے چینی ہو رہی ہے۔۔۔ تو میں نے اس سے کہا کیسی بے چینی میرے بھائی؟ تو وہ معصومیت سے بولا۔۔۔ مجھے نہیں پتہ ۔۔۔۔ بس اس میں بڑی سخت قسم کی اکڑن پیدا ہو گئی ہے۔اور اس اکڑاہٹ کی وجہ سے میرے اس (لن ) میں بہت درد ہو رہا ہے ۔۔ پھر وہ کہنے لگا۔۔۔۔ باجی۔۔۔۔ آپ ہی میرے اس درد کو کچھ کم کر سکتی ہو تو میں نے اس سے کہا کہ وہ کیسے؟ تو وہ کہنے لگا۔۔ وہ ایسے باجی کہ آپ اس کو اپنے ہاتھ میں پکڑ کر تھوڑا دباؤ۔۔۔۔۔۔ اس کی بات سن کر میں نے اس کی طرف دیکھا اور بولی۔۔۔۔ ٹھیک ہے ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی میں نے اپنا ہاتھ اس کے کھڑے ہوئے لن پر رکھ دیا۔۔۔۔ واقعی ہی اس کا لن بڑی سختی کے ساتھ اکڑا ہوا تھا ۔۔۔۔ اس لیئے میں نے اس کو مُٹھی میں پکڑ کر تھوڑا دبا یا ۔۔۔۔ اور اس کے لن کو دباتے ہوئے میں نے غور کیا تو جیسے ہی میں اس کے لن کو دباتی تھی ۔۔۔ وہ مزے سے مخمُور نظروں سے میری طرف دیکھتا تھا اور اشارے سے مجھے مزید دبانے کو کہتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس طرح کچھ دیر تک میں اس کے لن کو دباتی رہی۔۔۔ پھر ۔۔۔ اس کی طرف دیکھ کر بولی۔کچھ درد کم ہوا؟۔تو اس نے ہاں میں سر ہلا دیا۔۔۔اس پر میں نے اس سے کہا ۔۔۔ لن کو دبانا بس کروں یا اور دباؤں ؟؟ تو وہ کہنے لگا۔۔۔۔ابھی کے لیئے اتنا ہی ٹھیک ہے اور وہ پھر سے میرے مموں کو چوسنے لگا۔۔۔۔اس کا لن ہاتھ میں پکڑنے اور اس سے ممے چسوانے کی وجہ سے میری پھدی میں آگ کا ایک بھانبڑ سا جلنے لگا تھا ۔۔۔اس لیئے میں نے بھائی کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے کہا۔۔۔۔ اب بس کر دو بھائی۔۔۔ میری بات سن کر اس نے میرے مموں سے اپنا سر ہٹایا اور بولا۔۔۔ بس کردوں لیکن کیوں باجی؟ تو میں نے اس سے کہا ۔۔۔ اس لیئے کہ ابھی تم نے میری پھدی بھی چوسنی ہے۔۔ میری بات سن کر اس کی آ نکھوں میں حیرانی امنڈ آئی اور وہ کہنے لگا۔۔۔ پھدی ؟؟؟؟۔۔۔مطلب آپ کی ؟؟۔۔۔۔۔۔ تو میں نے اپنی شلوار اتار کر اپنی پھدی کو اس کے سامنے کر دیا ۔۔۔ اور اس کی طرف دیکھ کر بولی ۔۔۔۔ ہاں بھائی میری پھدی چوسو۔۔۔۔ میر ی با ت سن کر وہ تھوڑا حیران ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور ابھی کچھ کہنے ہی والا تھا کہ اچانک میں تھوڑا پیچھے کو ہٹی اور بھائی کے سر کو پکڑ کر اپنی پھدی کی طرف دبا دیا۔۔ اور اس سے بولی۔۔۔۔۔میری پھدی کو چوس نہ بھائی۔۔ اور بھائی کبھی مجھے اور کبھی میری کالی پھدی کی طرف دیکھ رہا تھا جس پر پھدی سے بھی بڑے بڑے کالے بال اُگے ہوئے تھے اسی لیئے وہ کبھی مجھے اور کبھی میری پھدی پر اُگے بڑے بڑے بالوں کو دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔۔ پھر میری بار بار کی فرمائیش سن کر اس نے ایک نظر میری طرف دیکھا پھر نیچے کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگا۔۔۔۔ باجی میں آپ کی پھدی کہاں سے چوسوں ۔۔۔اس پر تو اتنے بڑے بڑے بال اُگے ہوئے ہیں ۔۔۔؟ تو میں نے اس کو بتایا کہ بھائی تم ان بالوں کو ایک طرف ہٹا کر میری چوت کو چاٹ سکتے ہو۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی میں نے اس کے سر کو اپنی پھدی کی طرف دبا دیا۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی اپنی دونوں ٹانگوں کو آخری حد تک کھول دیا۔۔۔ میری کھلی ٹانگیں دیکھ کر بھائی بھی گھٹوں کے بل نیچے بیٹھ گیا اور میری چوت پر منہ رکھ دیا۔۔۔۔۔ پھر اس کے بعد اس نے ایک گہرا سانس لیا۔۔۔ اور اپنا سر اُٹھا کر میری طرف دیکھتے ہوئے بولا۔۔ باجی۔۔۔۔ آپ کے ادھر (پھدی ) سے بڑی ہی ظالم قسم کی مہک آ رہی ہے۔۔۔اس پر میں نے اس سے پوچھا ۔۔۔ اچھا یہ بتا کہ میری پھدی سے آنے والی یہ مہک تم کو اچھی لگ رہی ہے یا برُی؟ میری بات سن کر بھائی اپنے ناک کو میری چوت کے بالوں میں میں لے گیا ۔۔۔اور وہاں پر اس نے ایک گہرا سانس لیا ۔۔۔اور چوت سے نکلنے والی مہک کو اپنے اندر سموتے ہوئے بولا۔۔۔ باجی آپ کی اس (چوت) سے اُٹھنے والی مہک اتنی شاندار ہے کہ مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے میں نے کوئی نشہ کیا ہوا ہے۔۔۔۔ تو میں نے اس سے کہا ۔۔۔ بھائی میری جان ۔۔۔ اس نشے والی چیز کو چاٹو نا۔۔۔۔ میری بات سن کر بھائی بڑی خوشی سے بولا۔۔۔ ابھی چاٹتا ہوں ۔۔۔ میری باجی۔۔۔ اور پھر اس کے ساتھ ہی اس نے اپنی دو انگلیوں سے میری چوت کے بالوں کو ادھر ادھر کر کے اس کے لبوں کو ننگا کیا اور پھر اپنے منہ سے زبان نکلا کر ان لبوں پر رکھ دی۔۔۔ اور پھر اس نے میری چوت کو چاٹنا شروع کر دیا۔۔۔ جیسے جیسے اس کی زبان میری چوت پر لگتی ویسے ویسے میری جسم میں لزت کی لہریں اُٹھتی جاتیں تھیں اور ویسے ویسے جوش میں آ کر میں۔۔ سسکتے ہوئے ۔۔۔۔ اپنی ہپس کو نیچے سے تھوڑا اوپر کرتی اپنی چوت کو اس کے منہ میں گھسانے کی کوشش کرتی تھی۔۔۔۔اس کو نتیجہ یہ نکلا کہ میری چوت سے رسنے والا پانی اس کے منہ میں جانا شروع ہو گیا۔۔۔ اور پھر یہ دیکھ کر اس نے اپنا سر اوپر اُٹھایا ۔۔۔اور مجھ سے کہنے لگا۔۔۔۔ باجی ۔۔۔ آپ نمک کم کھایا کرو۔۔۔ تو میں نے اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے کہا۔۔۔ وہ کیوں میرے پیارے بھائی ؟ تو وہ کہنے لگا ۔۔۔ وہ ۔۔یوں کہ آپ کے چوت کے پانی میں نمک کی مقدار خاصی زیادہ ہے۔۔۔ اس پر میں نے ہنستے ہوئے اس سے کہا ۔۔ اچھا یہ بتاؤ کہ میری چوت کا جوس کیسا ہے؟ تو وہ بھی مسکراتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔۔ چوت کا پانی تو ٹھیک ہے لیکن اس میں نمک تھوڑا زیادہ ڈل گیا ہے۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی اس نے میری چوت کی لکیر پر اپنی زبان کو تیزی سے چلانا شروع کر دیا۔۔۔ یہ دیکھ کر میں اور بھی جوش میں آ گئی اور اس سے کہنے لگی۔۔۔ اپنی زبان کو چوت کے اندر ڈال۔۔۔ میری بات سن کر اس نے اپنی دونوں انگلیوں سے میری چوت کے لبوں کو تھوڑا اور کھولا ۔۔۔۔۔ اور اپنی زبان اندر ڈال دی۔۔۔۔جیسے ہی اس کی زبان نے میری چوت کی اندرونی تہہ کو چاٹا ۔۔۔۔ میرے منہ سے سسکیوں کا طوفان نکلنا شروع ہو گیا ۔۔۔ اور شاید جوش میں آ کر میں تھوڑا اونچی ۔۔۔۔۔۔ آواز میں سسکیاں لے بیٹھی تھی ۔۔۔تبھی تو بھائی نے میری پھدی سے اپنا سر ہٹایا اور کہنے لگا۔۔۔ باجی۔۔۔زرا آہستہ چیخیں ۔۔۔ اس کی با ت سن کر مجھے کچھ ہوش آ گیا اور میں نے اس سے کہا ۔۔۔ سوری بھائی ۔۔ لیکن میں کیا کروں کہ تمہاری زبان کی چٹائی نے مجھے پاگل کر دیا ہے ۔۔۔ پھر میں نے اس سے کہا کہ بھائی اب ایسا کرو کہ اپنی زبان کو میری پھدی میں ڈالنے کی بجائے میری میری چوت کے عین اوپر سجے اس موٹے دانے کو اپنے ہونٹوں میں لیکر چوسو۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ساتھ ۔۔۔ اپنی انگلیوں کو بھی میری چوت میں اندر باہر کرو۔۔۔ میری بات سنتے ہی بھائی نے کسی معمول کی طرح ۔۔۔۔۔۔ میری ہدایت پر عمل کرتے ہوئےمیرے پھولے ہوئے دانے کو اپنے دونوں ہونٹوں میں لیا ۔۔۔ اور دوسری طرف اپنی دو انگلیوں کو میری چوت میں ڈال دیا۔۔ اور دانے کو چوستے ہوئے انگلیوں کو اندر باہر کرنے لگا۔۔۔۔بھائی کے اس عمل سے میں اس قدر بے خود ہو گئی کہ کچھ ہی دیر بعد میرے جسم میں اکڑن پیدا ہونا شروع ہو گئی۔۔۔۔ اور ۔۔ اس کے ساتھ ہی میرے منہ سے بے ربط سی باتیں نکلنے لگیں آہ۔۔۔ بھائی۔۔۔ی۔۔ی ی۔۔۔۔۔۔۔۔۔چ چچ ۔۔وسس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔چوسسس۔۔۔۔س۔س۔س۔۔۔۔ انگلی تیز ۔۔۔چلا۔۔۔ اُف ۔۔ف۔میں مر گئی۔ئ ئی۔۔۔۔۔ ابھی میں نے اتنا ہی کہا کہ تھا ۔۔۔ اچانک ہی ۔۔۔ میری پھدی سے بہت سا را گرم پانی۔۔۔۔ ایک ریلے کی صورت میں ۔نکلا۔۔۔۔ اور۔۔ اس گرم پانی سے میرے بھائی کا سارا منہ لپڑ گیا۔۔۔ ادھر جیسے ہی میں چھوٹی ۔۔ اور کچھ دیر میں میرا سانس بحال ہوا تو ۔۔۔ ایک دم سے میں اوپر اُٹھی ۔۔۔اور بھائی کو بھی اُٹھا لیا ۔۔۔اور پھر کھُڈے میں ۔۔۔میں اور بھائی گھوناں کے بل آمنے سامنے کھڑے ہو گئے ۔۔۔ بھائی نے بڑے شہوت بھرے انداز میں میری طرف دیکھا ۔۔اور کہنے لگا۔۔۔۔۔مزے آیا باجی؟ ۔۔ اس کی بات سن کر میں ایک دم آگے بڑھی اور اس کو اپنے گلے لگا کر بولی۔۔۔ بہت مزہ آیا میری جان ۔۔ تم نے بہت مزہ دیا ۔۔۔ پھر میں نے اپنا چہرہ اس کے مقابل کیا اور اس کے منہ پر لگی اپنی ساری منی چاٹ لی۔۔۔
ابا کے سیڑھیاں چڑھنے کی آواز سن کر ایک لمحے کے لیئے تو مجھے اپنی جان نکلتی ہوئی محسوس ہوئی لیکن پھر اچانک ہی میرے ذہن میں خیال آیا کہ اگر ہم دونوں اس حالت میں پکڑے گئے تو بے موت مر جائیں گئے یہ خیال آتے ہی میں نے جلدی سے اپنی شلوار پہنی اور ۔۔۔ بھائی سے یہ کہتی ہوئی تیزی سے باہر نکل گئی کہ تم یہیں رُکو۔۔۔ اس وقت چونکہ میرے زیادہ وقت نہیں تھا اس لیئے میں نے دڑبے کا ٹاٹ ایک طرف کیا اور پھر بڑے ہی بے ڈھنگے انداز میں کھڈے سے سے باہر چھلانگ لگا دی۔۔ چھلانگ بے ڈھنگی ہونے کی وجہ سے میں ڈربے سے باہر ننگے فرش پر آڑھی ترچھی ہو کر گر گئی۔۔۔ اس طرح زوردار طریقے سے گرنے کی وجہ تھوڑے سے میرے گوڈے اور کافی حد تک میرے باذوؤں کی دونوں کہنیاں چھیلی گئیں ۔۔ اس کے ساتھ ساتھ میرے باقی جسم پر بھی کچھ خراشیں آئیں ۔۔۔ لیکن چونکہ اس وقت مجھے اس سے بہتر مجھے اور کوئی طریقہ نہ سوجھ رہا تھا
۔۔ اس لیئے میں نے یہ سب برادشت کیا اور عین اس وقت کہ جب ابا سیڑھیاں چڑھ کر چھت پر قدم رکھ رہے تھے میں بھی اپنی کہنیاں ملتی ہوئی اُٹھ کھڑی ہوئی تھی مجھے یوں کہنیاں ملتے ہوئے دیکھ کر ابا کہنے لگے ۔۔ کیا ہوا صبو پُتر؟ تو میں نے روہانسہ منہ بنایا اور ابا کی طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔ وہ ابا میں کھُڈے کی چھت سے لکڑیاں اُٹھا کر اندر رکھنے کے لیئے آئی تھی ۔۔۔ لیکن پاؤں پھسلنے کی وجہ سے نیچے گر گئی۔۔۔ میری بات سن کر ابا آگے بڑھے اور میری دونوں کہنیوں کا معائینہ کرتے ہوئے بڑی شفقت سے کہنے لگے۔۔۔ شبی کہاں ہے؟ تو میں نے جلدی سے جواب دیا کہ وہ باہر دوستوں کے ساتھ کھیلنے گیا ہوا ہے اس پر ابا نے مجھے ڈانٹتے ہوئے کہا کہ ہزار دفعہ کہا ہے کہ اس کو زیادہ دیر تک باہر نہ گھومنے دیا کرو ۔۔۔ لیکن تم لوگ اس کی پرواہ بھی نہیں کرتے ۔۔۔پھر میری طرف دیکھ کر بڑی شفقت سے کہنے لگے صبو پُتر ۔۔ آئندہ کھڈے کی چھت پر تم نے خود نہیں چڑھنا بلکہ اس نالائق کو چڑھانا ہے۔۔ ۔۔۔ تو میں ابا کی بات سن کر کہنے لگی ۔۔۔ٹھیک ہے ابا آئندہ میں اس بات کا خیال رکھوں گی۔۔۔یہ سن کر ابا مسکرائے اور اسی شفقت سے کہنے لگے چل میری پتر نیچے چل ۔۔ میں تمہاری کہنیوں پر کوئی دوائی وغیرہ لگا دیتا ہوں ۔۔۔ سیڑھیان اترتے ہوئے ایک دفعہ پھر انہوں نے مجھ سے کہا ۔۔۔میری بات سن لی ہے نا کہ آئندہ سے تم نے کھڈے کی چھت پر نہیں چڑھنا بلکہ اس کام کے لیئے شبی کو کہنا ہے اور پھر وہ مجھے ساتھ لیئے نیچے چلے آئے۔۔ابا کی باتیں سن کر میں نے سُکھ کا سانس لیا ۔۔۔ اور دل ہی دل اپنی کامیابی پر خوش ہو گئی۔۔۔
یہ اسی شام کا واقعہ ہے کہ اماں سے ملنے ہماری بڑی خالہ جو کہ ہمارے ٹاؤن سے بیس پچیس کلومیٹر دور رہتی تھیں آ گئیں۔۔۔ خالہ کے ساتھ ان کی بیٹی فوزیہ بھی آئی تھی جو کہ مجھ سے چار سال بڑی تھی میری طرح اس کا رنگ بھی سانولہ تھا بڑی بڑی چھاتیوں کے ساتھ ۔۔۔ اس کے ہونٹ قدرے موٹے اور تھوڑے لٹکے ہوئے تھے فوزیہ کی خاص بات اس کی بڑی سی گانڈ تھی جو کہ تھوڑی باہر کو نکلی ہوئی تھی اور اس بڑی سی گانڈ کے ساتھ جب وہ ایک ردھم میں چلتی تھی ۔۔۔تو دیکھنے والے کا دل بے قابو ہو جاتا تھا ۔۔۔ اس مستانی چال کے ساتھ فوزیہ باجی ایک مضبوط اور کافی ہاٹ جسم کی مالک تھی ۔۔ خالہ کے آنے پر اماں بہت خوش ہوئیں اور اور ان کو دیکھ کر کہنے لگیں ۔۔۔ آپا اس دفعہ آپ برے دنوں بعد آئی ہو ۔۔ اماں کی بات سن کر خالہ کہنے لگی ۔۔ میں تو پھر بھی گاہے بگاہے تم سے ملنے ا ٓ ہی جاتی ہوں لیکن تم نے تو ہمارے ہاں نہ آنے کی قسم کھائی ہے۔۔خالہ کی بات سن کر اماں تھوڑا شرمندہ سی ہو گئیں اور ان سے بولیں ۔۔۔ ایسی کوئی بات نہیں ہے آپا۔۔ کیا کروں گھر کے کام کاج اور بچوں سے فرصت ہی نہیں ملتی ۔۔۔ اماں کی بات سن کر خالہ مسکرائیں اور قدرے طنزیہ لہجے میں بولیں ۔۔۔۔ لگتا ہے کہ ساری دینا کو تم نے ہی اپنے سر پر اُٹھایا ہوا ہے ۔۔۔ اور ۔۔ بچے پالنے کی فقط تمہاری ہی زمہ داری ہے ۔۔ باقی ہم سب لوگ تو ویسے ہی ویلے واندے پھرتے ہیں ۔۔ اس پر اماں بات کو ختم کرنے کی نیت سے بولیں ۔۔ آپا آپ کے آنے کا بہت بہت شکریہ اب یہ بتاؤ کہ کیا کھاؤ گی ؟ تو خالہ کہن ے لگی ۔۔ کھانے پینے کو چھوڑ ۔۔ تو سب سے پہلے مجھے چائے پلا۔۔۔اس پر فوزیہ باجی جو اب تک خاموشی سے دونوں بہنوں کی بات چیت سن رہی تھی مسکراتے ہوئے کہنے لگی ۔۔ ہاں ہاں خالہ امی کو جلدی سے چائے پلاؤ کہ ان کا نشہ ٹوٹ رہا ہے۔۔ فوزیہ کی اس بات پر دونوں بہنوں نے ایک فرمائشی قہقہہ لگایا ۔۔۔ اور پھر اماں یہ کہتے ہوئے وہاں سے ا ُٹھ گئی کہ میں چائے لیکر ابھی آئی۔
اماں کے جانے کے بعد خالہ میری طرف متوجہ ہوئیں اور مجھ سے میری پڑھائی اوردیگر مشاغل کے بارے میں بات چیت کرنے لگیں ۔۔ اسی دوران اماں چائے کے ساتھ بھاری مقدار میں کھانے پینے کے دوسرے لوازمات بھی لے آئیں جنہیں دیکھ کر خالہ کہنے لگیں کہ یہ اتنے تکالفات کی کیا ضرورت تھی؟ میرے لیئے تو بس ایک پیالی چائے ہی کافی تھی ۔۔۔ اس پر اماں مسکراتے ہوئے کہنے لگیں ۔ آپا یہ تکلف میں نے آپ کے لیئے تھوڑی کیا ہے یہ ساری چیزیں تو میں اپنی پیاری سی بھانجی فوزیہ کے لیئے لائی ہوں ۔۔۔۔۔۔ چائے پینے ے بعد اماں اور خالہ جھوٹے برتنوں کو اُٹھا کر کچن میں چلی گئیں اور وہاں اماں کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کرنے لگیں ۔۔۔ مجھے ہوم ورک کرتے دیکھ کر فوزیہ بھی ان کے پیچھے پیچھے کچن میں چلی گئی۔ جبکہ میں ان سے تھوڑی دور بیٹھ کر اپنا ہوم ورک کر رہی تھی اتنے میں باہر سے شبی بھی آ گیا ۔۔۔ اور آتے ہی خالہ کو سلام کرنے کے بعد اس نے فوزی (فوزیہ) کے ساتھ گپ شپ شروع کر دی ۔۔۔۔ پھر وہاں سے اُٹھ کر میرے پاس آ کر بیٹھ گیا اور پھر میری طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگا۔۔۔۔۔۔ آج تو بال بال بچے تھے۔۔پھر تھوڑا آگے بڑھ کر بڑی دھیمی آواز میں کہنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔ باجی میں سوچ رہا تھا کہ اگر عین وقت پر آپ چھلانگ نہ لگاتیں تو آج ہمارا پکڑا جانا یقینی تھا ۔ بھائی کی بات سنتے ہی میری آنکھوں کے سامنے دن والا سارا منظر گھوم گیا۔اور پھر وہ منظر یاد آتے ہی میری ریڑھ کی ہڈی میں ایک سنسناہٹ سی ہو گئی۔۔۔۔ پھر یہ سوچ کر میں نے خود پر قابو پایا کہ اگر بھائی کے سامنے میں بھی ڈر گئی تو ہو سکتا ہے آئندہ کے لیئے یہ میرے ساتھ پروگرام نہ کرے۔۔۔ اس لیئے میں اس کی طرف دیکھ کر مسکرائی اور ۔۔۔ اس کو تسلی دیتے ہوئے بولی کہ فکر نہ کرو بھائی ۔۔ جب تک میں ہوں ۔۔تم کو کچھ نہیں ہو گا۔ اور پھر اس کی طرف دیکھ کر بولی۔۔اچھا یہ بتاؤ کہ تم کھُڈے سے کس وقت نکلے تھے اور کہاں چلے گئے تھے۔۔؟ ؟ تو بھائی نے میری بات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ۔۔ ہمارے جانے کے کافی دیر تک وہ ڈر کے مارے اسی پوزیشن میں چُپ کر کے بیٹھا رہا ۔۔۔۔۔۔۔پھر جب اسے یقین ہو گیا کہ ابا گھر سے چلے گئے ہیں تو پھر اس کے بعد وہ ادھر ادھر دیکھتا ہوا کھڈے سے باہر نکلا ۔۔ ڈر کے مارے وہ سیڑھیوں سے نیچے اتر کر گھر میں نہیں آیا ۔۔۔۔بلکہ اپنی چھت پھلانگتے ہوئے چاچے کے گھر اتر گیا اور پھر وہاں سے باہر چلا گیا۔۔۔ پھر اس نے فوزیہ لوگوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا۔۔۔ یہ لوگ کب آئے باجی؟ تو میں نے جواب دیا کہ ۔۔۔ابھی کچھ ہی دیر پہلے ۔۔۔تو اس نے میری طرف دیکھتے ہوئے بڑے ہی معنی خیز انداز میں کہا کہ ۔۔۔ آپ نے فوزیہ باجی کی گانڈ دیکھی ہے؟ اس کے منہ سے یہ بات سن کر میں ایک دم چونک گئی اور گھبرائی ہوئی نظروں سے فوزی کی طرف دیکھتے ہوئے بولی ۔۔۔ آہستہ بول کہیں وہ سن نہ لے۔۔۔۔ میری بات سن کر شبی ایک دم مسکرا دیا اور پھر اپنا منہ آگے کر کے بولا۔۔۔۔ باجی آپ نے فوزیہ باجی کی گانڈ دیکھی ہے؟ تو میں نے کہا دیکھی ہے ؟ کیا خاص بات ہے اس میں ۔۔۔؟؟؟؟؟اس پر وہ کہنے لگا۔۔۔۔۔ ایک دم مست گانڈ ہے ان کی ۔۔۔ ابھی ہم یہی باتیں کر رہے تھے کہ اچانک فوزیہ جو کہ امی اور خالہ کے پاس بیٹھی تھی ہماری طرف آتے ہوئے بولی۔۔۔۔ یہ بہن بھائی کے در میان کیا کھسر پھسر ہو رہی ہے جناب؟ تو میں نے فوزیہ کی طرف مسکراتے ہوئے دیکھا اور کہنے لگی کچھ خاص نہیں باجی ۔۔۔۔ یہ ایسے ہی بکواس کر رہا تھا۔۔۔ اس پر فوزیہ نے شبی کی طرف دیکھا اور کہنے لگی ۔۔۔۔ کون سی بکواس ؟؟۔۔۔ کچھ ہمیں بھی تو پتہ چلے؟ فوزی کی یہ بات سنتے ہی شبی فوراً ہی وہاں سے یہ کہتے ہوئے اُٹھا کہ یہ بات تو آپ کو باجی ہی بتا سکتی ہیں۔۔۔ اس پر فوزی نے میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا تو میں نے بڑی مشکل سے بات کو کور کیا۔۔۔۔
اس کے بعد میں اور فوزیہ عاشی سے ملنے اس کے گھر چلے گئے اور وہاں عاشی کے ساتھ خوب گپ شپ لگائی ۔۔ لیکن چونکہ فوزی ہم سے کافی بڑی تھی اس لیئے ہم دونوں نے اس کے ساتھ ایسی ویسی کوئی بات نہ کی ۔۔۔دوستو جیسا کہ آپ کومعلوم ہے کہ ہمارے گھر میں دو ہی کمرے تھے ایک میں اماں ابا اور چھوٹی بہن زیب سوتی تھی جبکہ دوسرے کمرے میں ۔۔۔۔۔ میں اور شبی سویا کرتے تھے۔۔ اس لیئے ہمارے گھر میں جب بھی کوئی مہمان آتا تھا تو اسے ہمارے کمرے میں سلایا جاتا تھا ۔۔۔۔ اس دن بھی ہمارے کمرے میں خالہ اور فوزیہ باجی ہماری چارپائی پر سوئیں تھیں ۔۔۔ جبکہ حسبِ روایت میرے اور بھائی کے لیئے اماں نے نیچے فرش پر ایک گدا بچھا دیا۔۔۔۔
خالہ اور خاص کر فوزیہ باجی کی وجہ سے اس رات میں نے بھائی کے ساتھ مستی نہ کرنے کی ٹھانی تھی ۔۔۔ اس لیئے خالہ لوگوں کے ساتھ باتیں کرتے کرتے میں بھی جلد ہی سو گئی تھی ۔۔۔ آدھی رات کا وقت تھا کہ مجھے اپنی شلوار میں کچھ سرسراہٹ سی محسوس ہوئی ۔۔ پہلے تو اسے میں اپنا وہم سمجھی ۔۔۔ لیکن جب یہ سرسراہٹ کچھ زیادہ بڑھ گئی۔۔۔ تو اسی سرسراہٹ کی وجہ سے میری آنکھ کھل گئی اور میں نے چونک کر دیکھا ۔۔ تو شبی کا ہاتھ میرے آزار بند پر تھا۔۔ اس کا ہاتھ اپنی شلوار پر دیکھتے ہی مجھے چارپائی پر سوئی فوزیہ اور خالہ جان کی یاد آ گئی۔۔۔۔اور پھر یہ سوچ کر ہی میری جان ہی نکل گئی کہ اگر یہ اُٹھی ہوئیں تو۔۔ ۔۔۔۔ یہ سوچ آتے ہی میں نے اپنے نالے (آزار بند) پر دھرا بھائی کا ہاتھ پکڑ لیا اور پھر اس سے سرگوشی میں بولی۔۔۔۔۔۔ کیا کر رہے ہو شبی؟؟؟ میری بات سن کر وہ بھی سرگوشی میں بولا ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ باجی میں آپ کی شلوار اتار رہا ہوں تو میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے قدرے سخت لہجے میں کہا ۔۔۔۔پاگل ہو گئے ہو کیا؟ ۔۔۔ خالہ لوگ اُٹھ جائیں گے۔۔۔ میری بات سن کر بھی اس نے میرے آزار بند پر رکھا ہاتھ اور بھی مضبوطی سے پکڑ لیا۔۔۔۔ اور بولا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ باجی غور سے سنو ۔۔۔۔۔خالہ خراٹے لے رہیں ہیں ۔۔۔۔ اس کے کہنے پر میں نے بھی غور کیا تو کمرہ خالہ کے ہلکے ہلکے خراٹوں سے گونج رہا تھا ۔۔ خالہ کے خراٹوں کی آواز سن کر بھی میری تسلی نہ ہوئی اور میں نے بھائی سے کہا۔۔۔ ٹھیک ہے خالہ تو سو رہی لیکن ۔۔۔ فوزیہ باجی بھی تو ہیں ۔۔۔ میری اس بات پر بھائی کہنے لگا۔۔۔۔باجی زرا گدے سے اُٹھ کر دیکھو ۔ تو فوزیہ باجی ہماری مخالف سمت منہ کر کے سو رہی ہیں ۔۔۔۔۔چنانچہ بھائی کے کہنے پر میں نے سر اُٹھا کر دیکھا تو ۔۔۔۔ واقعی ہی فوزیہ باجی۔۔۔ ہمارے مخالف سمت اپنا کروٹ کے بل سو رہی تھی۔۔۔ پھر میں نے فوزیہ باجی کی اس پوزیشن پر بڑے دھیان سے غور کیا ۔۔۔۔
تو واقعی ہی انہیں بے سدھ سوتے ہوئے پایا۔۔۔ ۔۔۔ یہ منظر دیکھ کر اب میں بھائی کی طرف متوجہ ہوئی ۔۔۔ اور اس سے پوچھا ۔۔۔اب بتاؤ ۔۔۔ کہ تم میرا نالا (آزار بند) کیوں کھول رہے تھے؟۔۔ میری بات سنتے ہی بھائی نے شہوت بھری نظروں سے میری طرف دیکھا اور ۔۔۔ پھر کہنے لگا۔۔۔۔ باجی میں نے آپ کو کرنا ہے۔۔۔ بھائی کی بات سنتے ہی ایک دم میرے چیونٹیاں سی رینگنے لگیں اور اندر سوئی ہوئی شہوت پھر سے جاگ اُٹھی ۔۔۔ اور میں نے خالہ کی چارپائی کی طرف دیکھتے ہوئے خود ہی اپنا آزار بند کھول دیا۔۔۔اور بھائی سے بولی۔۔۔ لو میں نے اپنی شلوار اتار دی ہے۔۔ تو بھائی کہنے لگا۔۔ باجی اب اپنا منہ دوسری طرف کر لیں ؟ بھائی کی بات سن کر میں نے بڑی حیرانی سے اس کی طرف دیکھا اور کہنے لگی ۔۔۔۔ وہ کیوں بھلا؟
میری بات سن کر وہ بھی اپنی شلوار اتارتے ہوئے کہنے لگا۔۔۔۔۔۔ وہ اس لیئے باجی ۔۔کہ مجھے ابھی اور اسی وقت آپ کی بُنڈ مارنی ہے بھائی کے منہ سے یہ بات سن کر میں حکا بقا رہ گئی ۔۔اور میں نے بڑی حیرانی سے بھائی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔ یہ تم کیا کہہ رہے ہو بھائی۔۔۔۔ تو وہ بڑی سنجیدگی سے کہنے لگا۔۔۔ وہ باجی دوپہر کھڈے میں ۔۔۔۔ جو کام ادھورا رہ گیا تھا۔۔۔ اس کو مکمل کرنے کے لیئے آپ کو اُٹھایا ہے ۔۔پھر کہنے لگا ۔۔۔قسم سے باجی میرا بڑا دل کر رہا ہے۔۔۔ دل تو میرا بھی کر رہا تھا لیکن میں زمینی حقائق بھی مدِ نظر رکھا کرتی تھی۔۔ جو کہ اس سقت ہمارے حق میں نہ تھے۔۔ اس لیئے میں خالہ لوگوں کی چا رپائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے شبی سے کہا۔۔۔ ان دو خواتین کے ہوتے ہوئے تم یہ کام کیسے کرو گے؟ تو وہ کہنے لگا ۔۔۔ باجی جیسا کہ ابھی آپ نے خود اپنی نظروں سے دیکھا ہے کہ یہ دونوں خواتین بے خبر سوئی ہوئی ہیں ۔۔۔ اس لیئے
۔۔اتنی دیر میں میں آپ کی مار لوں گا۔۔۔ اس پر میں نے اس کو آنکھیں نکالتے ہوئے کہا ۔۔۔ بے وقوف تم کو پتہ بھی ہے کہ پیچھے سے اندر کراتے ہوئے کتنی تکلیف ہوتی ہے اور کیا تمہیں یاد نہیں کہ دوپہر کو بھی ابھی تم نے اپنا ہیڈ کو ۔۔ اندر داخل کرنے کی کوشش کی تھی ۔۔ کہ درد کی وجہ سے میرے منہ سے اتنی بڑی چیخ نکل گئی تھی کہ جسے سن کر ابا اوپر آ گئے تھے ۔۔۔۔ پھر بھی تم مجھ سے یہ مطالبہ کر رہے ہو؟ میری بات سن کر وہ کہنے لگا۔۔۔ آپ کی بات ٹھیک ہے باجی ۔۔۔ پر ۔۔۔ میں کیا کروں دوپہر سے میرا آپ کی گانڈ مارنے کو بہت دل کر رہا ہے ۔۔۔ اور باجی خاص کر جب سے میں نے اس کی (فوزیہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) کی بڑی سی گانڈ دیکھی ہے میں تو پاگل ہو گیا ہوں ۔۔۔اس لیئے باجی پلیززززززززززززززز ۔۔ مجھے اپنی بُنڈ مارنے دیں نا ۔۔۔۔۔ یہ بات کہہ کر وہ اپنے گدے سے تھوڑا اوپر اُٹھا ۔۔۔اور ایک نظر سوئی ہوئی خواتین پر ڈال کر کہنے لگا۔۔۔ دیکھ لیں دنوں لیڈیز ابھی تک بے خبر سو رہی ہیں ۔۔۔ ۔پتہ نہیں کیو ں بھائی کی بات سن کر مجھ پر سیکس بخار چڑھتا جا رہا تھا ۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی میری گانڈ میں بھی ایک عجیب سی کجھلی ہونے لگی تھی ۔۔۔ اور میرا بھی دل کر رہا تھا کہ میں اور بھائی۔۔۔ سیکس والا کھیل کھیلیں ۔۔
۔ لیکن دوسری طرف جب میری نظر چارپائی کی طرف جاتی تو ۔۔۔ میں اپنے اس ارادے سے باز آ جاتی ۔۔ کیونکہ ابھی دوپہر کو ہی ہم لوگ بڑی مشکل سے بچے تھے۔۔ابھی میں اسی ادھیڑ پن میں مبتلا تھی کہ ۔۔۔ بھائی نے اپنا ہاتھ میری طرف بڑھا دیا ۔۔۔ یہ دیکھ کر میں نے بھی اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا ۔۔۔ اور کہنے لگی ۔۔ یقین کرو بھائی دل تو میرا بھی بہت کر رہا ہے۔۔۔ لیکن پلیزز۔۔۔۔ تھوڑا صبر کر لو۔۔۔ پھر اس کے بعد ۔۔ جیسا تم کہو گے ویسا ہی میں کروں گی۔۔۔ میری بات سن کر بھائی نے اپنے لن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔۔۔ باجی یہ مجھے بہت تنگ کر رہا ہے ۔۔ اس کی بات سن کر میں نے ایک نظر چارپائی کی طرف دیکھا۔۔۔اور بھائی سے کہنے لگی ۔۔۔ چلو تمہارے اس (لن ) کا میں کچھ کر دیتی ہوں ۔۔۔۔ اور پھر اس کے لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑلیا۔۔۔اُف۔ف۔ف۔ بھائی کا لن بہت گرم اور سخت اکڑا ہوا تھا۔۔۔جسے پکڑ تے ہی میری پھدی میں پانی کے قطرے جمع ہونے شروع ہو گئے ۔اور میرا جی چاہا ۔۔۔۔ کہ اسے ابھی میں اپنے اندر لے لوں ۔۔۔ لیکن ۔۔ میں مجبور تھی۔۔۔ اس لیئے میں نے خود پر تھوڑا قابو پایا ۔ اور اس کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے بولی۔۔۔۔ میں اسے پکڑ کر ہلا دیتی ہوں ۔جس سے تمہاری بے چینی تھوڑی کم ہو جائے گی۔۔ میری بات کو سمجھتے ہوئے بھائی نے اپنا سر اثبات میں ہلا دیا اور پھر نیچے گدے پر لیٹے لیٹے میری طرف دیکھنے لگا۔۔۔ جبکہ دوسری طرف میں ایک نظر چارپائی پر اور دوسری نظر بھائی کے لن پر ڈالتے ہوئے اسے ہلا رہی تھی۔۔۔ ۔۔۔۔ بھائی نے کچھ دیر تک تو مجھے اپنے لن کو ہلانے دیا۔۔۔ پھر اس نے اپنے لن پہ رکھا میرا ہاتھ پکڑ لیا ۔۔۔۔ اور گدے سے تھوڑا اوپر اُٹھ کر میرے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے بولا۔۔۔ باجی آپ کے اس طرح ہلانے سے مجھے مزہ نہیں مل رہا۔۔۔۔۔ اس پر میں نے بھی اس سے سرگوشی میں پوچھا ۔۔۔ پھر تم بتاؤ نا۔۔کہ تم کو کیسے مزہ ملے گا میں ویسے کر دیتی ہوں۔۔۔۔۔۔
تو وہ کہنے لگا ۔۔ یہاں (لن پر) سوکھا ہاتھ چلانے سے مجھے مزے کی بجائے تکلیف ہو رہی ہے اس لیئے ۔۔۔۔ آپ اسے (لن کو ) تھوڑا گیلا کر لیں۔۔۔۔ ۔۔۔ اس وقت تک مجھے لڑکے کیسے مُٹھ مارتے ہیں کا اتنا پتہ نہیں ہوتا تھا اس لیئے میں نے اس سے سوال کیا کہ میں کس چیز سے تمہارے اس کو گیلا کروں؟ تو وہ کہنے لگا۔۔۔ باجی آپ کو مٹھ مارنے کا نہیں پتہ؟ تو میں نے نفی میں سر ہلا دیا ۔۔۔تب وہ تھوڑا اوپر اُٹھا اور خالہ لوگوں کی طرف دیکھتے ہوئے سرگوشی میں کہنے لگا۔۔۔۔ باجی اس (لن) پر ڈھیر سارا تھوک لگا کر پہلے اسے چکنا کریں ۔۔۔۔ پھر جب یہ چکنا ہو جائے تو اپنے ہاتھ آگے پیچھے کرنا شروع کر دیں ۔۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی وہ اپنے لن کو میرے منہ کے قریب لے آیا۔۔۔ اس کا لن اتنے قریب دیکھ کر ایک دفعہ تو میرا جی چاہا کہ میں اسے اپنے منہ میں لے لوں ۔۔ لیکن پھر چارپائی پر سوئی خواتین کا خیال آ گیا ۔۔۔اور میں نے اپنا منہ اس کے لن کے ہیڈ کے قریب کیا اور اس پر بہت سارا تھوک پھینک دیا۔۔۔۔ اور کچھ تھوک میں نے اپنی ہتھیلی پر پھینکا اور پھر اس کے لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑا کر ہلانا شروع کر دیا۔۔۔۔پہلے اوپر سے نیچے۔۔۔۔ پھر نیچے سے اوپر ۔۔۔ میرے مُٹھ مارنے کا بھائی کو بھی مزہ آنے لگا اور وہ بولا۔۔۔۔ باجی تیز تیز ہاتھ چلاؤ۔۔ اس پر میں نے اس کے لن پر تھوڑا اور تھوک پھینکا اور ۔۔ پھر ایک نظر چارپائی پر ڈالی اور ۔۔۔۔ تیز تیز ہاتھ چلانے لگی۔۔۔۔ لیکن یہ کیا۔۔ میرے تیز تیز ہاتھ چلانے سے ۔۔ کمرے میں پچ پچ کی گیلی گیلی آوازیں آنے لگیں ۔۔ جو کہ رات کی اس گہری خاموشی میں بہت زیادہ لگی۔۔۔ ابھی میں اس پر غور ہی کر رہی تھی کہ اچانک ساتھ والی چارپائی سے چرچراہٹ کی آواز گونجی۔۔۔۔۔۔۔ یہ دیکھ کر میں نے بھائی کے لن پر چلتا ہوا اپنا ہاتھ روک لیا۔۔۔۔ اور جلدی سے پاس پڑی ہوئی چادر کو اپنے اوپر اوڑھ لیا۔۔۔ اور پھر چادر سے منہ باہر نکال کر دیکھنے لگی۔۔۔۔۔۔۔میں نے دیکھا کہ خالہ نے کروٹ لیکر کر اپنا منہ ہماری طرف کر لیا تھا۔۔۔
میری طرح بھائی نے بھی ایک نظر خالہ کی طرف دیکھا تھا ۔۔۔اور وہ بھی چادر کے نیچے سٹل ہو کر لیٹا ہوا تھا جبکہ اس لن ابھی تک میرے ہاتھ میں پکڑا ہوا تھا ۔۔۔ لیکن ۔۔۔ فرق صرف یہ تھا کہ پہلے بھائی کا لن تنا کھڑا تھا ۔۔۔ اور پھر جیسے ہی چارپائی کی چرچڑاہٹ کی آواز سنائی دی تھی اسی وقت سے بھائی کا لن بیٹھ گیا تھا۔۔ اور اب ایک مرے ہوئے چوہے کی مانند میرے ہاتھ میں بے جان سا پڑا تھا۔۔۔
ہمیں ایسے لیٹے لیٹے کافی ہی دیر ہو گئی تھی۔۔۔ کہ اچانک پھر سے فضا ۔۔۔ چارپائی کی مخصوص چرچڑاہٹ سے گونج اُٹھی ۔۔۔۔ میں چادر سے منہ نکال کر سامنے چارپائی کی طرف دیکھا تو ۔۔۔۔ خالہ جان نے کروٹ لیکر اپنا منہ دوسری طرف کر لیا تھا۔۔۔۔۔۔ میری طرح بھائی نے بھی سر اُٹھا کر خالہ اور فوزیہ باجی کی طرف دیکھا ۔۔۔۔۔ اور پھر مطمئن ہو کر تھوڑا آگے کھسک آیا اور اپنا منہ میرے کان کے قریب لا کر بولا۔۔۔۔ دونوں کا منہ دوسری طرف ہو گیا ہے ۔۔۔ اس کا اتنا ہی کہنا تھا ۔۔۔ کہ اچانک میرے ہاتھ میں پکڑے ہوئے اس کے لن میں جان آنی شروع ہو گئی۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ۔۔۔۔ اس کا لن دوبارہ سے اپنے جوبن پر آ گیا۔۔۔یہ دیکھ کر میں نے اس کے سخت لن کو اپنی مُٹھی میں پکڑ کر دبانے لگی۔۔۔۔کچھ دیر تک میں ایسا کرتی ر ہی پھر بھائی اوپر اُٹھا اور میرے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے بولا۔۔۔۔ باجی تھوڑا تھوک لگا لو۔۔۔ لیکن میں نے ایسا نہ کیا اور اس سے بولی ۔۔۔۔ یار تمھارے لن کو چکنا کر کے مُٹھ مارنے سے جو آوازیں بنتی ہیں میرے خیال میں ان کی وجہ سے پہلے بھی خالہ نے کروٹ لی تھی۔۔۔اس لیئے میں ایسے ہی ہاتھ چلاؤں گی ۔ میری بات سن کر بھائی نے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔۔۔۔اور لن پر تھوڑا تھوک لگا کر میرے ہاتھ کو اس پر اوپر نیچے کرتے ہوئے بولا۔۔۔۔ باجی۔۔۔ یہ ظلم نہ کرو ۔۔ اپنے ہاتھ کو مت روکو ۔۔۔۔ تو میں نے اس سے کہا کہ ٹھیک۔ ہے میں ہاتھ نہیں روکوں گی لینہ تیز تیز بھی نہیں چلاؤں گی ۔۔ تو وہ راضی ہو گیا۔۔۔اور میں چارپائی کی طرف دیکھتے ہوئے۔۔اس کے لن پر آرام آرام سے ہاتھ چلانے لگی۔۔۔ میرے خیال میں اسے میرا یہ انداز پسند نہ آیا تھا اس لیئے کچھ دیر بعد وہ اوپر اُٹھا اور کہنے لگا۔۔۔ ایک بات کہوں باجی تو میں نے کہا اب کیا ہے؟؟؟؟؟؟؟۔۔ تو وہ بولا۔۔۔۔۔ ایسے مجھے مزہ نہیں آ رہا ۔۔تو میں نے کہا تو پھر تم کو کیسے مزہ ملے گا کہ جس سے شور بھی نہ ہو اور تمکو مزہ بھی مل جائے تو وہ بولا ۔۔۔ ایک طریقہ ہے تو میں نے پوچھا وہ کیا؟؟؟؟؟؟۔۔۔ تو وہ کہنے لگا۔۔ آپ میرا چوپا لگاؤ۔۔۔چوپے کی بات سن کر میرے اندر ایک تھرتھرلی سی مچ گئی۔۔۔حقیت یہ ہے کہ بھائی کے لن کو ہلاتے ہوئے میں بھی یہی سوچ رہی تھی کہ کیوں نہ اس کے سخت لن کو اپنے منہ میں لیا جائے ۔۔۔۔ ۔۔۔
لیکن میں نے اس سے کہا۔۔۔ میں تمھارے لن کو کیسے چوسوں ۔۔ کہ اس کے لیئے مجھے اوپر اُٹھنا پڑے گا۔۔۔ تو وہ کہنے لگا۔۔۔۔ باجی ایک طریقہ ہے جو ہم اکثر اپنے مدرسے سے چھٹی کے وقت کھیتوں میں کیا کرتے ہیں ۔۔۔ تو میں نے اس سے پوچھا کہ وہ کیا طریقہ ہے ؟ تو وہ کہنے لگا۔۔۔ اس طریقے میں دونوں کے منہ مخالف سمت میں ہوتے ہیں۔۔ اس کے اتنے کہنے پر میں سمجھ گئی تھی کیونکہ فوٹوں والے رسالے اور اردو کہانیوں میں اس کے بارے میں ۔۔۔ میں نے کافی کچھ پڑھا ہوا تھا ۔۔۔ اس طریقے کو گورے لوگ 69 کہتے ہیں۔۔۔۔ اور یہ سکس نائین ایک دفعہ میں نے اور عاشی نے کیا بھی تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چنانچہ میری رضامندی دیکھتے ہی ۔۔۔ بھائی بڑے محتاط انداز میں گھوما ۔۔۔اور اپنے سر کو میری دونوں ٹانگوں کے بیچ لے آیا ۔۔۔ جبکہ دوسری طرف اس پوزیشن میں بھائی کا سنسناتا ہوا لن میرے منہ کے قریب آ چکا تھا۔۔۔
۔۔ جیسے ہی بھائی میری ٹانگوں کے درمیان آیا ۔۔۔ اس نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا ۔۔۔۔ اور میری پھدی پر جا کر رکھ دیا۔۔۔۔۔۔۔ یہ دیکھ کر میں نے ایک بار پھر اپنا سر اُٹھا کر خالہ اور فوزیہ کی جانب دیکھا ۔وہاں امن شانتی دیکھ کر میں نے ۔۔۔اپنی دونوں ٹا نگوں کو مزید کھول دیا۔۔۔ میری ٹانگوں کے کھلتے ہی بھائی نے اپنی ایک انگلی کو میرے دانے پر رکھا اور اسے مسلنے لگا۔۔۔۔۔ شبی کا میرے دانے پر ہاتھ رکھنے کی دیر تھی کہ ۔۔۔شہوت بھری گرمی کے مارے میری پھدی سے جوس نکلنا شروع ہو گیا۔۔ ۔۔۔اور میں نے اپنی پھدی کی گرمی کے زیرِ اثر ۔بھائی کے لن کو بھول گئی ۔۔۔۔۔اور اس کے دانے پر رکھے ہاتھ کو اور تیز مسلنے کو کہا ۔۔ میری بات سنتے ہی بھائی نے اور تیزی کے ساتھ میرے دانے کو مسلنا شروع کر دیا۔۔۔۔اس کے ساتھ ہی مزے اور سرور کی تیز لہریں میرے جسم میں سرائیت کرنے لگیں ۔۔۔۔۔ اور میں نے اس ڈر سے کہ کہین میرے منہ سے آواز نہ نکل جائے اپنا منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور ۔۔۔اس کے ساتھ ساتھ میں بڑی ہی محتاط نظروں سے خالہ اور فوزیہ لوگوں کی طرف بھی دیکھتی رہی تھی۔۔۔ اور انہیں سوتا دیکھ کر ۔۔ شبی کو اور تیز ہاتھ چلانے کا کہتی تھی۔۔۔۔۔ ادھر شبی بھی لیٹے لیٹے ۔۔۔ میرے دانے کو اور تیزی سے مسل رہا تھا ۔۔۔۔ جس کی وجہ سے کچھ دیر بعد میری چوت نے ڈھیر سارا پانی چھوڑ دیا۔۔۔ جب شبی نے دیکھا کہ میرا پانی نکل گیا ہے تو اس نے مجھے ہلا یا اور اپنا لن کو میرے ہونٹوں کے قریب لا کر بولا۔۔۔ اب آپ اس کو چوسو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھائی کی بات سن کر میں نے اپنے منہ سے زبان نکالی اور بھائی کے لن کے ہیڈ پر پھیرنے لگی۔۔۔۔ بھائی کے لن پر میری زبان لگنے کی دیر تھی کہ بھائی کے منہ سے ایک ہلکی سی سسکاری سی نکلی ۔۔۔۔۔ اور وہ گدے سے کھسک کر تھوڑا اور آگے ا ٓگیا۔۔۔۔ بھائی کے منہ سے سسکاری سن کر میں نے اس کے لن سے منہ ہٹایا اور کہنے لگی۔۔۔۔ بھائی منہ بند رکھو۔۔۔ تو وہ ہلکی سی سرگوشی میں کہنے لگا۔۔۔۔۔۔۔ کوشش کروں گا باجی۔۔۔۔ لیکن مجھے بہت مزہ آ رہا ہے۔۔۔آپ میرے ٹوپے پر زبان پھیرتی جاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کی بات سن کر میں نے اس کے لن کو نیچے سے پکڑا اور اس کے ٹوپے کو اپنے ہونٹوں کے بیچ میں کر کے اس پر زبان پھیرنے لگی۔۔۔۔ میری اس حرکت سے بھائی ماہی بے آب کی طرح تڑپنے لگا۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی اس نے میرے سر کو بڑی سختی سے پکڑا اور اسے اپنے لن کی طرف دبانے لگا۔۔۔۔ بھائی کی اس حرکت سے میں بھی جوش میں آگئی اور پورا منہ کھول کر اس کے لن کو اندر لے لیا۔۔۔۔ اور پھر اس کے لن کو چوسنے لگی۔۔۔۔اس کے ساتھ ساتھ میں نے بھائی کے لن کے نیچے بالز کو بھی ایک ہاتھ میں پکڑا اور ان پر ہلکا ہلکا مساج کرنے لگی۔۔۔۔ میرے لن چوسنے سے بھائی دم بدم مست سے مست تر ہوتا جا رہا تھا اور ۔۔۔ پھر ۔۔۔۔ کچھ ہی دیر بعد ۔۔۔۔ بھائی نے میرے منہ میں گھسنے مارنے شروع کر دیئے ۔۔اور میں اس کے گھسے مارنے کے انداز سے سمجھ گئی کہ بھائی کی منزل قریب آ گئی ہے۔۔۔ اور یہ سوچ آتے ہی میرا سارا بدن جوش سے بھر گیا ۔۔اور شاید اسی جوش کی وجہ سے میری پھدی کی ساری لیسیں میرے منہ میں جمع گئیں تھیں کیونکہ جیسے جیسے میں بھائی کا لن چوستی جا رہی تھی ۔۔۔ویسے ویسے میرا منہ ان لیسیوں سے بھرتا جا رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر بھائی کا لن چوستے چوستے اچانک ہی بھائی کا جسم آڑھا ترچھا ہونے لگا۔۔۔۔ اور میں سمجھ گئی کہ اب بھائی چھوٹ رہا ہے ۔۔ اس وقت ایک تو میرا جی کیا کہ میں اس کے لن سے اپنے منہ کو ہٹا لوں ۔۔۔ لیکن پھر خیال آیا کہ عاشی کی چوت چاٹتے وقت ہر دفعہ ہی اس کی منی کھائی ہے ۔۔۔تو کیو ں نہ آج بھائی کی منی کا ٹیسٹ ہو جائے۔۔۔۔ ابھی میں یہ سوچ ہی رہی تھی کہ۔۔۔ اچانک بھائی کا جسم تڑپا ۔۔۔۔ اور اس کے لن کے سوراخ سے پانی نکلنا شروع ہو گیا۔۔۔۔۔ جس کی ایک ایک بوند میں نے اپنے حلق میں اتار لی۔۔۔۔ بھائی کی منی کا ٹیسٹ عاشی کے منی سے ہزار گنا بہتر تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس وقت آدھی رات ہو چکی تھی۔۔۔ چنانچہ میں نے جلدی سے اپنا منہ صاف کیا اور دوسری طرف منہ کے سو گئی۔۔۔ جبکہ دوسری طرف بھائی بھی مجھ سے ایک فٹ کے فاصلے پر گدے کے دوسرے کنارے پرلیٹ کر سو گیا۔۔۔پھر بھائی کا تو مجھے پتہ نہیں ۔۔۔البتہ میں جلد ہی سو گئی۔۔۔۔اگلی صبع سکول جاتے ہوئے میں نے رات والے واقعہ کی تفصیل سے عاشی کا آگاہ کیا تو وہ بڑی خوش ہوئی۔۔۔ اور خاص کر اس بات پر کہ میں نے بھائی کا چوپا لگایا ہے وہ ایک دم گرم ہو گئی ۔۔۔اور کہنے لگی ۔۔۔ حرام دیئے ۔۔ کلیں کلیں ہی بھرا دا لن منہ چ پا لیا ای۔۔۔( حرام زادی اکیلی ہی بھائی کا لن منہ میں ڈال لیا ہے) پھر بڑی بے تابی سے مجھ سے بھائی کے لن کے ٹیسٹ اور خاص کر اس کی منی کے بارے میں کرید کرید کر سوال کرنے لگی۔۔۔۔ یہاں تک کہ سکول میں بھی وہ اسی 69 کے بارے میں باتیں کرتی رہی۔۔۔ یہاں میں ایک اور بات بتا دوں کہ ڈنگر ہسپتال والے واقعہ کے بعد ایک بار پھر ہم دونوں ایک دوسرے کے قریب آ گئیں تھیں۔۔۔۔ جبکہ دوسری طرف زرینہ کے بارے میں ہمیں بہت تجسس تھا کہ اس کے گھر والوں نے اس کے ساتھ کیا سلوک کیا۔۔۔ تو اس پر اس کے گاؤں کی ایک لڑکی نے جو کہ ہم سے ایک سال جونئیر تھی نے بتلایا کہ زرینہ کے گھر والوں نے پہلے تو اس کو بہت مارا تھا ۔۔۔۔ پھر اس سے اگلی رات ہی اس کا نکاح ایک دور کے گاؤں کے 60 سالہ رنڈوے کے ساتھ کر دیا تھا۔۔۔ اپنی اتنی پیاری دوست کے اس انجام سے میں بہت افسردہ ہو گئی تھی۔۔۔۔ لیکن اس واقعہ کا سائیڈ افیکٹ یہ ہوا تھا ---
کہ میں اور عاشی پھر سے یک جان و دو قالب ہو گئے تھے ۔۔۔۔۔ اس دن بھی وہ میری واردات کی روداد سن کر بہت گرم ہو گئی تھی ۔۔۔ اور بار بار مجھ سے خاص کر چوپے کے بارے میں تفصیل سے پوچھتی تھی۔۔۔اور میں بھی اس کو مزید نمک مرچ لگا کر یہ داستان سناتی تھی۔۔۔۔۔آخر وہ نہ رہ سکی اور ایک خالی پیریڈ میں وہ بڑے ہی شہوت ذدہ نظروں سے میری طرف دیکھ کر ۔۔۔۔ کہنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صبو ۔۔۔ میں واش روم جا رہی ہوں ۔۔۔ اس نے اتنا ہی کہا اور اُٹھ کر چلی گئی کچھ ہی دیر میں میں بھی اسی ٹکر والے واش میں پہنچ چکی تھی ۔۔۔ جیسے ہی میں واش روم میں داخل ہوئی اس نے ایک نظر میری طرف دیکھا اور پھر اپنی شلوار کی پھٹی ہوئی جگہ کو اپنی پھدی پر سیٹ کر لیا۔۔ اور مجھے اشارہ کر کے بولی۔۔۔ چل حرام دیئے ۔۔۔۔۔۔ اور میں اس کی صاف شفاف چوت کو چاٹنا شروع ہو گئی۔۔۔ اور جب وہ فارغ ہو گئی۔۔۔ تو اس نے مجھے اوپر اُٹھایا اور میرے ساتھ گلے لگ گئی۔۔۔ تو میں نے اس سے پوچھا ۔۔۔۔ عاشی مزہ آیا ۔۔۔۔ تو وہ کہنے لگی۔۔۔۔۔۔ صبو ۔۔۔ہن تیری جیبھ نال صواد نئیں آندا ۔۔۔۔۔(صبو اب تمہاری زبان مزہ نہیں دیتی ) تو میں نے اس کے منہ کو چوم کر کہا ۔۔۔۔۔ وہ کیوں میری جان؟؟؟۔۔۔۔۔ ۔ یہ سن کر عاشی نے مجھے اور ٹائیٹ جھپی لگائی اور کہنے لگی۔۔۔۔۔۔صبو۔۔۔ مینو ۔۔۔ لن چاہی دا اے۔۔۔۔۔ ( صبو مجھے لن چاہیئے) ۔۔۔۔ اور پھر میرے گرد اپنی گرفت کو اور ٹائیٹ کر لیااااااااااااا۔۔۔۔۔۔۔
اس طرح اگلے دو تین روز خیریت سے گزر گئے۔۔۔۔ اس دوران میرے ساتھ سیکس کرنے کے باوجود بھی ۔۔۔۔ بھائی ابھی تک فوزیہ باجی کی بنڈ کے پیچھے پڑا ہوا تھا۔۔۔لیکن میرا خیال ہے کہ وہاں سے ابھی تک اس کو کوئی خاص رسپانس نہ ملا تھا ۔اس کی وجہ یہ تھی کہ شاید فوزیہ باجی شبی کو ابھی تک ایک چھوٹا لڑکا ہی تصور کرتی تھی۔۔۔۔ایک دن کی بات ہے کہ میں اور وہ ہوم ورک کر رہے تھے جبکہ اماں خالہ اور فوزیہ باجی چاچی کے گھر گئے ہوئے تھے ۔۔۔انہوں نے مجھے بھی ساتھ چلنے کو کہا تھا لیکن اس دن چونکہ میرا ہوم ورک بہت زیادہ تھا اس لیئے میں نے انکار کر دیا تھا۔۔۔۔ ان کے جانے کے بعد شبی آ کر میرے پاس بیٹھ گیا ۔۔۔ اور اماں وغیرہ کے بارے میں پوچھنے لگا۔۔۔۔ اور جب میں نے اس کو بتایا کہ وہ سب چاچی کے گھر گئیں ہیں ۔۔۔تو ایک دم سے اس کو ہوشیاری آ گئی اور مجھ سے کہنے لگا کہ چلو اوپر ۔۔۔۔ اس کی فرمائیش سن کر خود میری شہوت بھی جاگ اُٹھی تھی۔۔ لیکن مسلہ یہ تھا کہ اگلے دن میرا ٹیسٹ تھا ۔۔۔اور سئینر کلاس ہونے کی وجہ سے ہمیں ہوم ورک بھی بہت زیادہ ملتا تھا ۔۔۔ اس لیئے میں نے اس کو اپنی مجبوری بتائی ۔۔۔ اور ویسے بھی یہ میرا اصول تھا کہ میں کام کے وقت کام اور انجوائے کے وقت انجوائے کرتی تھی ۔۔۔۔اس لیئے میں نے اس سے صاف انکار کر دیا۔۔۔ میرا انکار سن کر اس نے برا نہیں مانا کیونکہ وہ اچھی طرح سے جانتا تھا کہ خود میں کس قدر سیکسی لڑکی ہوں ۔۔ جو مشکل سے ہی سیکس کا چانس مس کرتی ہے ۔۔۔ تب وہ میرے پاس بیٹھ گیا اور کہنے لگا ۔۔۔ اچھا سیکس نہیں کرنا تو کوئی بات نہیں ۔۔۔ میں ویسے تو آپ کے پاس بیٹھ سکتا ہوں نا۔۔۔۔۔ اور میرے ہاں کے اشارے پر وہ میرے پاس بیٹھ کر باتیں کرنے لگا ۔۔۔ جب سے فوزیہ باجی ہمارے گھر آئی تھی ۔
۔۔۔۔ بھائی کی تان فوزی کی گانڈ پر ہی آ کر ٹوٹتی تھی ۔۔ چنانچہ باتیں کرتے ہوئے جب کوئی ایک سو اٹھاریوں باری شبی نے مجھ سے فوزیہ کی گانڈ کے بارے میں بات کی تو تنگ آ کر میں نے اس سے کہا ۔۔۔ شبی یار ۔۔۔۔ تم کو تو فوزیہ کی گانڈ کا فوبیہ ہو گیا ہے۔۔۔ ورنہ تو اس کی گانڈ بس ایک عام سی گانڈ ہے۔۔۔۔ میری بات سن کر بھائی نے میری طرف دیکھا اور کہنے لگا۔۔۔۔ کچھ ۔۔۔ ہتھ ہولا رکھو باجی ۔۔۔ آپ فوزیہ کی گانڈ کو عام سی گانڈ کہہ رہی ہو؟ تو میں نے اس سے پوچھ ہی لیا کہ اس میں ایسی کیا خاص بات ہے مجھے تو وہ بس عام سے بنڈ نظر آتی ہے۔۔ تو بھائی کہنے لگا۔۔۔۔کیا بتاؤں باجی جب فوزیہ باجی اپنے کولہے مٹکا مٹکا کر چلتی ہے نا تو میرے دل پر عجیب چھریاں چلتی ہیں۔۔۔۔۔پھر بڑی حسرت سے کہنے لگا۔۔۔ کاش میں ایک دفعہ اس کی بنڈ مار سکوں ۔۔۔ تو میں نے اس سے کہا ۔۔ بدتمیزی نہیں کرو بھائی وہ ایک شریف لڑکی ہے اور تم کو اپنا چھوٹا بھائی سمجھتی ہے میری بات سن کر ترنت ہی شبی کہنے لگا ۔۔۔۔ چھوٹا بھائی تو میں آ پ کا بھی ہوں ۔۔۔ لیکن۔۔۔ ابھی اس نے اس آگے کچھ کہنا تھا کہ میں نے اسے بڑی سختی سے ڈانٹ دیا۔۔ میری ڈانٹ سن کر وہ وہاں سے اُٹھا اور باہر چلا گیا ۔۔۔۔۔۔
خالہ کوئی تین چار دن ہمارے گھر رہیں اور اس دوران ہر رات کو میں اور بھائی نے بڑے ہی محتاط انداز میں ۔۔اپنا شو جاری رکھا۔۔۔ پانچویں دن جب خالہ لوگ ہمارے گھر سے جانے لگے تو میرے ساتھ ملتے ہوئے اچانک ہی فوزیہ مجھے تھوڑا الگ لے گئی ۔۔۔۔ وہ اس وقت بڑے غصے میں لگ رہی تھی ۔۔۔ ۔۔۔چنانچہ الگ جے کر وہ اسی ٹون میں کہنے لگی ۔۔۔ صبو میں نے تم سے ایک نہایت ضروری بات کرنی ہے؟ فوزیہ باجی کی بات سن کر میں ایک دم چونک پڑی اور اس سے پوچھا کہ حکم باجی؟ تو وہ بڑے غصے میں بولی ۔۔۔۔ اپنے بھائی کو سنھبالو۔۔۔۔ ورنہ اگر میں نے اس کی شکایت خالہ جان سے لگا دی تو ۔۔۔۔ تو وہ اس کی ہڈی پسلی ایک کر دیں گی ۔۔۔ فوزیہ باجی کی بات سن کر حقیقتاً میں بڑی پریشان ہو ئی اور اسی پریشانی کے عالم میں ان سے پوچھا کہ بات کیا ہے باجی؟ تو وہ تھوڑا جھجھک کر مجھ سے کہنے لگی ۔۔۔ بات ایسی ہے کہ خود مجھے بتاتے ہوئے شرم آتی ہے لیکن میں چپ بھی نہیں رہ سکتی ۔۔۔ پھر باجی نے ادھر ادھر دیکھا اور کہنے لگیں ۔۔۔ آتے جاتے ہوئے تمہارا بھائی خواہ مخواہ ہی میرے پرائیویٹ جگہوں پر ہاتھ لگاتا رہتا ہے۔۔۔۔ فوزی باجی کی بات سن کر میں حیران رہ گئی اور اپنے بھائی کا دفاع کرتے ہوئے ۔۔۔
ان سے کہنے لگی۔۔۔ ہو سکتا ہے باجی کہ ایک آدھ بار غلطی سے ایسا ہو گیا ہو۔۔۔میری بات سن کر باجی تو پھٹ پڑی اور بڑے غصے میں کہنے لگی ۔۔۔۔ دیکھو میں ایک لڑکی ہوں اور مجھے خوب پتہ ہوتا ہے کہ مرد کا کون سا ہاتھ غلطی سے اور کون سا جان بوجھ کر لگایا گیا ہے۔۔۔پھر اسی غصے والی ٹون میں مزید بولیں۔۔۔ ۔۔۔ دیکھ صبو اس دفعہ تو میں اس کوچھوٹا سمجھ کر معاف کر رہی ہوں ۔۔۔اس لیئے تم اس کو سمجھا لو ۔۔۔۔ ورنہ اگلی دفعہ میں نے اسکی ان حرکتوں کے بارے میں خالو جی کو بتا دینا ہے ۔۔۔ ابا کا نام سن کر میں دل ہی دل میں سہم سی گئی اور فوزیہ باجی سے بولی۔۔ فوزیہ باجی ویری سوری اگر بھائی کی وجہ سے آپ کا دل دکھا ہے ۔۔۔آپ بے فکر رہو میں بھائی کو سمجھا دوں گی۔۔۔ میری بات سن کر وہ کہنے لگی۔۔۔۔۔میری بہن تم نے اسے صرف سمجھانا ہی نہیں بلکہ اس کے کان پر دو لگانی بھی ہیں تا کہ آئندہ وہ ایسی غلطی نہ کرے۔۔۔۔۔
چنانچہ خالہ لوگوں کے جانے کے بعد میں نے یہ ساری باتیں بھائی کو بتائیں ۔۔۔ اور ساتھ ہی فوزیہ باجی کی وارننگ کے بارے میں بھی بتایا تو یہ دیکھ کر میں حیران رہ گئی کہ بجائے ڈرنے یا معزرت کرنے کے بھائی نے بڑی ڈھٹائی سے کہا ۔۔۔ کہ جب تک وہ فوزیہ کی بنڈ نہ مار لے تب تک وہ اس پر ٹرائیاں کرتا رہے گا۔۔۔ پھر اسی رات ۔۔ بھائی کی زبردست فرمائیش پر میں نے بھائی سے گانڈ مروا لی تھی۔۔۔ لیکن اس دفعہ اس نے پوری تیاری کی ہوئی تھی اور تھوک کی بجائے اس نے میری گانڈ کے رِنگ پر بہت سارا سرسوں کا تیل لگایا تھا جس سے میری گانڈ کا رِ نگ نرم ہو گیا تھا اور پھر اس نے اسی طرح اپنے لن پر بھی بہت سارا آئیل لگا کر میری بقول بھائی بنڈ ماری تھی۔۔۔۔۔
اگلے دن جب میں نے یہ بات عاشی سے کی تو وہ ایک دم ہی جوش میں آ گئی ۔۔۔۔ اور پھر بڑے غصے میں کہنے لگی ۔۔۔صبو توں ترت حرام دی ایں ۔۔۔۔ ( صبو تم پکی حرامن ہو) ۔۔۔ اور جب میں نے اس کی وجہ پوچھی تو وہ کہنے لگی۔۔۔ آپی تے مزے لے جا رہیئں تے بہن دا کوئی خیال نہیں ( خود تو مزے لے رہی ہو اور میرا کوئی خیال نہیں ہے)۔۔۔ پھر وہ تھوڑی سیریس ہو گئی۔۔۔۔اور چلتے ہوئے ادھر ادھر دیکھتےہوئے کہنے لگی ۔۔۔صبو سنا ہے کہ بنڈ مروانے سے بڑی پیڑ ہوندی اے( سنا ہے کہ گانڈ مروانے سے بڑی درد ہوتی ہے) پھر کہنے لگی تمہارے اس بارے میں کیا تجربہ ہے؟؟ تو میں نے اس سے کہا۔۔۔۔ عاشی یار پہلے پہلے تو واقعی ہی بڑی درد ہوتی ہے ۔۔۔اور خاص طور پر جب تک ٹوپا گانڈ کے اندر داخل نہیں ہوا تھا تب تک تو دن میں تارے نظر آ رہے تھے ۔۔۔ ہاں جب (لن کی) کیپ (فُل ) اندر چلی گئی ۔۔۔۔۔ تو کچھ سکون سا محسوس ہوا تھا ۔۔۔۔ ورنہ تو جب تک کیپ نے میرے رنگ کو کراس نہیں کیا تھا۔۔۔ مجھے بڑا سخت درد ہوا تھا ۔۔۔۔ میری بات سن کر عاشی نے اپنے ہونٹوں پر زبان پھیری اور کہنے لگی۔۔۔۔۔ سچی دس صبو ۔۔۔ بنڈ مروان دا صواد آیا سی ؟ ( سچ بتاؤ صبو ۔۔۔۔۔ گانڈ مرانے کا کچھ مزہ بھی آیا تھا ۔۔۔ تو میں نے رات والا واقعہ کو یاد کرتے ہوئے اس سے کہا ۔۔۔۔۔۔ جب تک ٹوپا اندر نہیں داخل ہوا تھا تب تک تو درد ہی درد تھا ۔۔۔ ہاں جب ۔۔۔ ٹوپا اندر چلا گیا ۔۔۔ اور بھائی کا لن روانی کے ساتھ اندر آنے جانے لگا۔۔۔ تو پھر مجھے بھی مزہ ملنا شروع ہو گیا تھا۔۔۔۔
میری بات سن کر اچانک ہی عاشی رک گئی اس وقت اس کا گورا چٹا چہرہ بہت سرخ ہو رہا تھا ۔۔۔ اور وہ میری طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔۔۔۔ صبو۔۔ مجھے لن چاہیئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر کہنے لگی میں نے تم کو پہلے بھی بتا یا تھا کہ انگلی سے اب میرا گزراہ نہیں ہوتا ۔۔۔ پھر بڑی ہی جزباتی ہو کر بولی۔۔۔۔۔۔۔۔ صبو میری پھدی لن منگدی اے۔۔( صبو میری پھدی لن مانگتی ہے) عاشی کی بات سن کر اچانک میرے زہن میں ایک آئیڈیا آیا ۔۔۔ اور میں نے اس سےکہا ۔۔۔۔ عاشی ۔۔۔۔۔ ایک لن ہے تو سہی اگر تم چاہو تو۔۔۔۔ میری بات سن کر وہ چونک اُٹھی۔۔۔اور بڑی بے تابی سے کہنے لگی ۔۔۔۔۔۔۔ چھیتی دس ۔۔۔ حرام دیئے۔۔۔۔( حرام ذادی جلدی بتاؤ) تو میں نے اس سے کہا ۔۔۔ وہ شبی ہے ۔۔۔ شبی کا نام سن کر وہ ۔۔۔۔۔ایک دم سے چپ ہو گئی۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر کہنے لگی۔۔۔۔ پر یار وہ ابھی چھوٹا ہے۔۔۔ تو میں نے اس سے کہا کہ وہ چھوٹا ضرور ہے لیکن زہر اک ٹوٹا ہے۔۔۔۔۔اور اس کا ہتھیار کافی ٹھیک ہے ۔۔۔ پھر اسے دلیل دیتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔ دیکھو نا اس کام کے لیئے ہم لوگوں کو جس قسم کی پرائیویسی کی ضرورت ہوتی ہے اس کے لیئے شبی سب سے فِٹ بندہ ہے۔۔۔ میری بات سن کر اس نے سر ہلایا اور کہنے لگی ۔۔۔ کہتی تو تو ٹھیک ہے۔۔۔۔ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور بات آئی گئی ہو گئی۔۔۔۔۔ اس طرح اگلے تین چار دن تک میں اسے شبی کے ساتھ اپنے سیکس کے بارے میں بڑھا چڑھا کر ۔۔۔۔۔۔ جھوٹی سچی باتیں بتاتی رہی ۔۔۔ جس سے اس کو اپنے اندر لن لینے کے کا مزید شوق پیدا ہو گیا۔۔۔ اس کے ساتھ ساتھ میں نے ایک دفعہ بھی اس کو شبی کے ساتھ سیکس کا نہیں کہا ۔۔۔۔۔۔۔۔ وجہ یہی تھی کہ کہیں وہ اس کا غلط مطلب نہ لے لے۔۔۔۔ ایک دن سکول جاتے ہوئے جب میں پروگرام کے مطابق چپ چاپ اس کے ساتھ چل رہی تھی تو اچانک ہی اس نے میری طرف دیکھا اور کہنے لگی۔۔۔ کیا بات ہے صبو آج تم بڑی چپ چپ ہو ۔۔۔۔ راتی لُلاُ نئیں ملیا ؟ ( رات لن نہیں لیا؟) تو میں نے اس سے کہا ایسی بات نہیں ہے یار ۔۔۔۔۔۔۔۔ تو وہ کہنے لگی ۔۔۔ تو پھر کیا بات ہے؟ پھر خود ہی بولی ۔۔۔۔۔ جو بھی بات ہے اس کو گولی مارو۔۔۔۔۔۔ بس مجھے رات ہونے والے سیکس کی سٹوری سناؤ؟ اس پر میں نے اس کو خوب نمک مرچ لگا کر سٹوری سنائی ۔۔۔۔ جس کے اینڈ میں وہ ایک بار پھر جزباتی ہو گئی۔۔۔ اور میرے طرف دیکھتے ہوئے بولی۔۔۔۔ صبو ۔۔۔ میری پھدی ۔۔۔۔۔ ابھی اس نے اتنا ہی کہا تھا کہ اس دفعہ بجائے اس کے میں نے اس کو ۔۔۔ اس کی پسندیدہ گالی دیتے ہوئے کہا۔۔۔۔ حرام دیئے پھدی لن منگدی اے تو انوں لن کھلا ندی کیوں نئیں ۔۔۔ پھر مزید بولی ۔۔۔۔ حرام دیئے ۔۔۔ اپی وی ترسنی ایں۔۔ تے اپنی پھدی نوں وی ترسانی ایں ( حرام زادی اگر تمہاری پھدی لن مانگتی ہے تو اسے لن کھلتی کیوں نہیں ۔۔۔ ۔۔۔ حرام زادی خود بھی لن کے لیئے ترس رہی ہو اور پھدی کو بھی ترسا رہی ہو) ۔۔۔۔ میری بات ختم ہو تے ہی اچانک وہ کہنے لگی۔۔۔۔ اچھا یہ بتاؤ ۔۔۔۔ شبی میرے ساتھ سیکس کرنے پر مان جائے گا؟ اس کی بات سن کر میں نے کہا ۔۔ پہلے تم بتاؤ کہ تم راضی ہو؟ تو وہ اثبات میں سر ہلا کر بولی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں یار ۔۔۔۔ بنا لن کے اب میں نہیں رہ سکتی ۔۔۔ تو میں نے اس سے کہا ۔۔۔ ٹھیک ہے میں آج شبی سے پوچھ لوں گی۔۔۔۔ تو وہ کہنے لگی ۔۔۔۔۔ ایک بات اور صبو۔۔۔۔ اور وہ یہ کہ میں نے اس کے ساتھ تمہارے گھر میں سیکس نہیں کرنا ؟ تو میں نے اس سے کہا کہ تو پھر کہاں کرنا ہو گا؟ تو وہ بولی۔۔۔ ہمارے گھر کے اس کمرے میں جہاں میں اور تم سیکس کیا کرتی ہیں ۔۔۔ تو میں نے اس سے کہا ٹھیک ہے۔۔۔۔۔۔۔
سکول سے واپسی پر دوپہر کے وقت جب میں اور بھائی اکیلے تھے تو میں نے اس کے ساتھ فوزیہ کی بات شروع کر دی ۔۔ میری بات سنتے ہی اس نے ایک ٹھنڈی سانس بھری اور پھر کہنے لگا۔۔۔۔۔ ایک بات لکھ لو باجی ۔۔۔۔اور وہ یہ کہ ایک نہ ایک دن میں فوزیہ باجی کی گانڈ ضرور ماروں گا۔۔۔۔۔ اس پر میں نے اس سے کہا کہ اچھا یہ بتا کہ فوزیہ کے ساتھ ساتھ اور کس کی گانڈ تم کو اچھی لگتی ہے تو اس پر اس نے محلے اور رشتے داروں میں جس جس خاتون کی موٹی گانڈ تھی اس کے بارے میں بتا دیا لیکن حیرت انگیز طور پر اس نے عاشی کا نام نہیں لیا۔۔۔۔ اس لیئے جب بھائی خاموش ہوا تو میں نے اس سے کہا ۔۔۔کمال ہے بھائی ایک نام تو تم بھول ہی گئے ہو ۔۔۔ تو وہ بڑی حیرانی سے بولا کون سا نام ؟ تو میں نے جب عاشی کا نام لیا۔۔۔ تو وہ برا سا منہ بنا کر بولا۔۔۔۔۔ ارے باجی آپ اس نک چڑھی کی بات کر رہی ہو ۔۔ جس کا نخرہ ہی بہت زیادہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس پر میں نے اس سے کہا ۔۔۔۔ بھائی تو اس کے نخرے کو چھوڑ بس یہ بتا کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ ہے کیسی؟ تو بھائی میری طرف دیکھ کر بولا۔۔۔ وہ ۔۔۔وہ۔۔۔ باجی عاشی باجی تو ایک دم پٹاخہ ہےپٹاخہ۔۔ ۔۔۔ لیکن ہے بڑی مغرور ۔۔۔۔ تو میں نے اس سے کہا ۔۔۔ فرض کرو ۔۔۔ وہ تم سے سیکس کرنا چاہے تو؟ میری بات سن کر وہ ایک دم زمین سے ایک فٹ اوپر اچھلا ۔۔۔ اور بڑی بے یقنی سے کہنے لگا۔۔ سیکس ۔۔۔۔۔ میرے ساتھ اور وہ بھی ۔۔۔ عاشی باجی۔۔۔۔حیرت سے ابھی تک اس کا منہ کھلا ہوا تھا ۔۔۔اور وہ بڑی بے یقینی سے میری طرف دیکھ رہا تھا۔۔۔۔پھر جب میں نے اسے ساری بات سمجھائی ۔۔۔ تو کچھ ہچکچاہٹ کے بعد وہ مان گیا۔۔۔۔۔
دوپہر کا وقت تھا ۔۔اور سورج سوا نیزے پر آیا ہوا تھا ۔۔۔۔اس دن کچھ زیادہ ہی گرمی پڑ رہی تھی لیکن یہ گرمی اس گرمی سے بہت کم تھی جو اس وقت عاشی کے جسم میں گھوم رہی تھی اس کا صرف اندازہ ہی کیا جا سکتا ہے میں نے سکول کا بیگ لیا اور اماں سے کہنے لگی ۔۔۔۔ امی میں عاشی کے گھر پڑھنے جا رہی ہوں ۔۔۔ تو حسب ِ معمول امی نے وہی بات کی جو وہ روز کیا کرتی تھیں ۔۔۔یعنی کچھ آرام کر لو ۔۔ پھر ٹھنڈے ویلے چلی جانا۔۔ ۔۔۔ لیکن میں امی کو کیا بتاتی کہ یہ ایک ایسا ہوم ورک تھا کہ جو صرف گرم ویلے ہی کیا جا سکتا تھا ۔۔۔۔۔ اس لیئے میں نے امی کو صرف اتنا کہا ۔۔۔ کُج نہیں ہوندا ۔۔۔۔ (کچھ نہیں ہوتا ) اور باہر نکل گئی ۔۔۔۔پھر میں بیگ لیئے ہوئے عاشی کے گھر پہنچی ۔۔۔ اور اوپر دیکھا تو عاشی کی چھت پر کھڑا بھائی میرے اشارے کا منتظر تھا--
عاشی کے گھر داخل ہوتے ہی میری نگاہ عاشی کے کمرے کی کھڑکی کی طرف گئی ۔۔ جہاں کھڑکی سے چپکی عاشی میرا ہی انتظار کر رہی تھی مجھے اندر داخل ہوتے دیکھ کر وہ اپنے دروازے میں آگئی ۔۔۔۔اور پھر میرا اشارہ کرنے پر اس نے بھی آل اوکے کا سگنل دے دیا۔۔۔چنانچہ اس کی طرف سے سگنل ملتے ہی میں نے بھائی کو اشارہ کر دیا تو وہ بڑے ہی محطاط انداز میں سیڑھیاں اترنے لگا۔۔۔ پھر وہ خاموشی سے عاشی کے کمرے میں چلا گیا۔۔۔ اس کے پیچھے پیچھے میں بھی کمرے میں داخل ہو گئی۔۔۔ اور جیسے ہی میں اندر داخل ہوئی عاشی نے آگے بڑھ کے دروازے کو کنڈی لگا دی ۔۔۔ کمرے کو کنڈی لگاتے ہی عاشی سامنے پلنگ پر بیٹھ گئی جبکہ شبی پہلے ہی پلنگ کے پاس پڑے موڑھے سر جھکائے قدرے۔۔۔۔۔ کنفیوز سا بیٹھا ہوا تھا ۔۔ جبکہ دوسری طرف پلنگ پر بیٹھی عاشی میری طرف دیکھ رہی تھی ۔۔۔ کچھ دیر تک کمرے میں گھنی خاموشی رہی ۔۔۔۔ ان دونوں میں ۔۔۔ واحد میں ایسی فرد تھی کہ جس کے ان دونوں کے ساتھ جنسی تعلق تھے اس لیئے ان دونوں کو کھولنے کے لیئے مجھے ہی کچھ کرنا تھا ۔۔۔ چنانچہ میں آگے بڑھی اور شبی کا ہاتھ پکڑ کر عاشی کے ہاتھ میں دے دیا۔۔۔ پتہ نہیں کیوں ۔۔۔ بھائی کا ہاتھ لگتے ہی عاشی نے ایک جھٹکا سا کھایا اور اپنا ہاتھ پیچھے کر لیا۔۔۔۔ اور میں نے دیکھا تو عاشی اور بھائی دونوں کے چہرے شرم کے مارے لال ہو رہے تھے ۔۔۔ بھائی نےتو مرد ہونے کی وجہ سے پھر بھی گزارا کر جانا تھا ۔۔۔ لیکن مسلہ عاشی کا تھا کہ اس کے چہرے پر شدید کشمکش کے آثار نظر آ رہے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ دیکھ کر میں نے بھائی کو موڑھے سے ا ُٹھایا اور عاشی کی طرف دیکھتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔ بھائی یہ تو شرم ہی کرتی رہے گی ۔۔۔ اس لیئے آؤ ہم کچھ مستی کر لیں۔۔اس کے ساتھ ہی میں نے بھائی کا چہرہ اپنے سامنے کیا ۔۔۔ اور پھر عاشی کی طرف دیکھتے ہوئے اس سے بولی۔۔۔۔۔ بھائی میرے ہونٹوں پر ایک چوما دو۔۔۔۔ میری بات سن کر بھائی نے ایک نظر عاشی کی طرف دیکھا پھر ۔۔۔تھوڑا جھجھکتا ہوا آگے بڑھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور میرے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیئے۔۔۔۔ اور پھر میرے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں لیکر چوسنے لگا۔۔۔ جب بھائی میرے ہونٹ چوس رہا تھا تو ہمارے اس عمل کو عاشی بڑے غور سے دیکھ رہی تھی ۔۔۔ پھر میں نے عاشی کی طرف دیکھتے ہوئے ایک ۔۔سسکی لی ۔۔ اور بھائی کے منہ سے منہ ہٹا کر بولی۔۔۔۔۔ اُف تم کتنے سیکسی ہو بھائی۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی دوبارہ سے کسنگ سٹارٹ کر دی۔۔۔۔ کچھ دیر بعد میں نے بھائی کے ساتھ کسنگ کرتے ہوئے۔۔۔۔ بھائی کی قمیض اتار دی ۔۔۔ اور پھر اگلے ہی لمحے ۔۔۔ اپنی قمیض اور برا کو اتار کر پرے پھینک دیا۔۔۔۔۔اور پھر عاشی کی طرف دیکھتے ہوئے ۔۔۔۔ بھائی سے کہنے لگی۔۔۔میرے بھائی میری چھاتیوں کو اپنے منہ میں لے کر خوب چوسو۔۔۔ اور میں نے دیکھا کہ عاشی کی نظریں بھائی کی شلوار کی طرف لگی ہوئیں تھیں جہاں بھائی کے تنے ہوئے لن کی وجہ سے شلوار اوپر کو اُٹھی ہوئی تھی۔۔۔ ادھر بھائی میری ننگی چھاتیوں کو چوس رہا تھا کہ دوسری طرف عاشی بھائی کے لن کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔۔اور بار بار اپنے ہونٹوں پر زبان پھیر رہی تھی۔۔۔۔ یہ دیکھ کر میں نے بھائی کے منہ سے اپنی چھاتی کو ہٹایا اور اس کو پکڑ کر عاشی کے پاس لے گئی۔۔۔بھائی کو اپنی طرف آتے دیکھ کر عاشی نے بھائی کے لن سے اپنی نظروں کو ہٹا لیا تھا اور اب چوری چوری اس کو دیکھ رہی تھی۔۔۔
جیسے ہی میں عاشی کے پاس پہنچی تو میں نے بھائی سے کہا ۔۔۔بھائی ۔۔عاشی چوری چوری تمہارے لن کی طرف دیکھ رہی تھی۔۔۔۔ پھر اس کے ساتھ ہی میں نے عاشی کا ہاتھ پکڑا اور بھائی کے لن پر رکھ دیا اور کہنے لگی۔۔۔ اسے یوں چوری چوری کیوں دیکھتی ہو؟؟ ۔۔۔ ہاتھ میں پکڑ کر چیک کرو نا۔۔۔۔۔۔ میرے ہاتھ پکڑے پر عاشی نے تھوڑی سے ۔۔۔۔ہچکچاہٹ دکھائی لیکن ۔۔۔ چونکہ میں نے اس کے ہاتھ کو بڑی سختی کے ساتھ پکڑا ہوا تھا ۔۔۔اس لیئے وہ بے چاری زیادہ ۔۔۔ دیر تک مزاحمت نہ کر سکی اور شلوار کے اوپر سے ہی بھائی کا لن پکر لیا۔۔۔۔۔۔۔ جیسے ہی عاشی نے بھائی کا لن اپنے ہاتھ میں ۔۔پکڑا میں نے جلدی سے اس کی شلوار بھی اتار دی۔۔۔ اور اب بھائی کا ننگا لن عاشی کے سامنے تھا۔۔۔۔۔ بھائی کی شلوار اتارتے وقت عاشی نے بھائی کے لن پر سے ہاتھ ہٹا لیا تھا ۔۔۔۔ اس لیئے میں نے بھائی کا لن اپنے ہاتھ میں پکڑا ۔۔۔۔۔ اور اسے ہلاتے ہوئے عاشی سے بولی۔۔۔ عاشی بھائی کا لن کیسا؟ پہلے تو عاشی چپ رہی پھر میرے بار بار پوچھنے پر وہ کہنے لگی۔۔ م۔۔مم ۔۔مجھے کیا پتہ۔۔ اس دوران بھائی بلکل چپ کھڑا تھا۔۔۔۔۔ پھر میں آگے بڑھی اور عاشی کی طرف دیکھتے ہوئے بولی۔۔۔ عاشی ۔۔ایسے لن چوستے ہیں ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی میں نے بھائی کا لن اپنے منہ میں لے لیا ۔۔۔اور دو تین بار چوس کے عاشی کی طرف دیکھا تو وہ میری طرف دیکھتے ہوئے مسلسل اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیر رہی تھی۔۔۔ یہ دیکھ کر میں اوپر اُٹھی اور عاشی کا ہاتھ پکڑ کر ایک دفعہ پھر بھائی کے لن پر رکھ دیا ۔۔۔ خلافِ توقع اس دفعہ عاشی نے کوئی مزاحمت نہیں کی اور بڑے آرام سے بھائی کے لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا تھا۔۔۔۔ میں نے کچھ دیر تک عاشی کو بھائی کا لن پکڑنے دیا۔۔۔۔پھر میں نے عاشی کی قمیض کو اتارنا شروع کر دیا ۔۔۔ یہ دیکھ کر عاشی نے ایک جھر جھری سی لی ۔۔۔ اور پھنسے پھنسے لہجے میں کہنے لگی ۔۔۔ ک۔کیا کر رہی ہو؟ تو میں نے اس سے کہا۔۔۔۔۔ بھائی سے پھدی نہیں مروانی؟ میری بات سن کر وہ شرم سے لال ٹماٹر ہو گئی اور ۔۔۔ منہ سے کچھ نہ بولی ۔۔۔۔ اس پر میں شرارت سے بولی۔۔۔ اچھا بتاؤ نہ عاشی ۔۔۔۔۔ بھائی سے پھدی نہیں مروانی؟ تو اچانک ہی عاشی نے میری طرف دیکھا اور کہنے لگی۔۔۔۔ صبو ۔۔۔ پلیززز ۔۔اپنے بھائی سے کہو۔۔۔کہ یہ آج والے واقعہ کا کسی سے بھی زکر نہ کرے۔۔۔ اس بارے میں ۔۔۔ میں بھائی کو پہلے ہی سمجھا چکی تھی ۔۔۔اس لیئے جب میں نے اس سے عاشی والی بات کی تو وہ کہنے لگا۔۔۔ کیسی باتیں کر رہی ہو صبو باجی۔۔۔۔ بھلا اس طرح کی باتیں بھی کسی کو بتانے والی ہوتی ہیں؟؟ ۔۔۔ پھر بولا ۔۔۔۔ اور خاص کر اپنی بہنوں کی بات کو تو باہر کرنے کا مطلب اپنی ہی بے عزتی کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا ۔۔ اور پھر اس کے بعد بھائی نے میرے بتائے ہوئے اسی ٹائپ کے کافی فقرے ادا کیئے ۔۔۔ جنہیں سن کر عاشی مطئن ہو گئی۔۔۔
اور پھر اس نے بجائے مجھ سے مخاطب ہونے کے براہِ راست بھائی سے بولی۔۔۔۔ قسم کھاؤ کہ ہمارے اس تعلق کے بارے میں تم کسی سے بات نہیں کرو گے۔۔۔ بھائی تو پہلے سے ہی تیار تھا ۔۔۔ چنانچہ اس نے جلدی سے ایک کی بجائے دو قسمیں کھائیں ۔۔۔ جس سے عاشی مزید مطمئن ہو گئی۔۔۔۔ اور ۔۔ میں نے واضع طور پر اس کے چہرے پر طمانیت کے آثار دیکھے ۔۔۔ میری طرح یہ بات بھائی نے بھی نوٹ کر لی تھی اس لیئے اس وہ عاشی کی طرف متوجہ ہوا ۔۔۔ اور کہنے لگا۔۔۔ باجی ۔۔۔ کپڑ ے اتاریں نا۔۔۔ بھائی کی بات سن کر عاشی گلنار سی ہو گئی ۔۔۔ اور جلدی سے اپنی قمیض اتار دی ۔۔۔پھر برا اتار کر بھائی کے سامنے کھڑی ہوگئی اس وقت عاشی کے بڑے بڑے ممے اس کے سینے پر جھول رہے تھے اور ان چھاتیوں پر اس کے نپل اکڑے کھڑے تھے ۔۔۔ اب بھائی آگے بڑھا اور عاشی کے دونوں مموں کو اپنے ہاتھوں میں پکڑ کر بولا۔۔۔باجی آپ کے تو بہت بڑے بڑے ہیں۔۔۔ پھر ۔۔۔ اس سے پہلے کہ عاشی کوئی جواب دیتی اس نے اس کا ایک نپل اپنے منہ میں لے لیا۔۔۔۔ اور اسے چوسنے لگا۔۔۔۔۔ عاشی کے نپل چوستے ہوئے بھائی کا ایک ہاتھ عاشی کی شلوار کی طرف گیا۔۔۔۔ اور اس نے عاشی کی شلوار اتار دی ۔۔۔۔۔ اب عاشی پوری طرح سے ننگی ہو گئی تھی۔۔۔۔۔ تب میں نے بھائی سے کہا۔۔۔۔ بھائی عاشی کے ممے کیسے ہیں ۔۔۔؟ تو وہ بڑے حریص لہجے میں بولا۔۔ باجی عاشی باجی کے ممے بڑے ہی سیکسی اور نپل نمکین ہیں۔۔۔ مجھے چوسنے میں بڑا مزہ آ رہا ہے۔۔۔ اور ایک بار پھر سے عاشی کے ممے چوسنے لگا۔۔۔ کچھ ہی دیر میں ۔۔۔ کمرے کی فضا مست ہو گئی اور اس مستی میں عاشی کی سسکیوں کی آوازیں سنائی دنیے لگیں۔۔۔ وہ کہہ رہی تھی۔۔۔۔ اُف بھائی ۔۔۔ اور ۔۔۔ چوس نا ں ۔۔ میرے ممے۔۔۔۔ پھر اس نے میری طرف دیکھا اور کہنے لگی۔۔۔۔ حرام دیئے اروں آ۔۔۔(حرام زادی ادھر آؤ) اور جب میں اس کے پاس پہنچی تو اس نے اپنے منہ سے زبان باہر نکال دی جسے آگے بڑھ کر میں نے اپنے منہ میں لے لیا ۔۔۔۔اور عاشی کی زبان چوسنے لگی۔۔۔۔
کچھ دیر بعد عاشی نے اپنی زبان کو میرے منہ سے نکالا اور کہنے لگی۔۔۔۔ صبو ۔۔اینوں کہہ میری پھدی چٹے ( صبو اسے کہو کہ میری چوت چاٹے) ممے چوستے ہوئے بھائی نے بھی عاشی کی بات سن لی تھی چنانچہ اس نے عاشی کے مموں کو چھوڑا ۔۔۔۔اور عاشی کو پلنگ پر لیٹنے کو کہا۔۔۔۔۔ اور پھر جیسے ہی عاشی پلنگ پر لیٹی ۔۔۔۔۔وہ گھٹنوں کے بل چلتا ہوا اس کی دونوں ٹانگوں کے درمیان پہنچا۔۔۔۔۔۔اور پھر اس اس کی پھدی کی طرف جھک گیا۔۔۔۔ اور پھر اس کی بالوں سے پاک پھدی دیکھ کر چونک گیا۔۔۔ اور سر اُٹھا کر عاشی سے بولا۔۔۔۔ واہ باجی آپ کی پھدی تو بڑی کمال ہے اور اس کے ساتھ ہی اس نے اپنی زبان باہر نکالی اور اس کی پھدی کو چاٹنا شروع کر دیا۔۔۔ ادھر عاشی پھدی چٹواتے ہوئے مزے کے مارے بے حال ہوتی جا رہی تھی ۔۔ اس کے ساتھ ہی اس نے میری طرف دیکھا اور آنکھ مار کر بولی۔۔۔صبو ۔۔ مرد دی جیبھ دا صواد ای ہور اے( صبو مرد کی زبان کا اپنا مزہ ہے)۔۔۔اور جیسے جیسے بھائی کی زبان اس کی چوت پر پھرتی جاتی تھی اس کی سسکیوں میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔۔۔۔۔پھراچانک ہی عاشی فلُ جوبن میں آ گئی ۔۔۔اور بھائی کے سر کو اپنی پھدی پر دباتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حرام دے یا ۔۔۔توُں پھدی بڑی سوہنی چٹ دا ایں ۔۔۔( حرام زادے تم پھدی اچھی چاٹتے ہو۔۔۔) اور اس کے ساتھ ہی عاشی بھائی کے منہ میں ہی چھوٹ گئی۔۔۔
کچھ دیر بعد عاشی نے بھائی کو اوپر اُٹھایا اور کہنے لگی۔۔۔ مجھے اپنا لن دکھاؤ۔۔۔ عاشی کی بات سن کر بھائی فوراً ہی گھٹنوں کے بل کھڑا ہو گیا۔۔۔اور اپنے لن کو عاشی کے سامنے کر دیا۔۔۔۔ اب عاشی میری طرف متوجہ ہوئی اور کہنے لگی ۔۔۔۔ مجھ ے لن چوسنا ہے اور اس کے ساتھ ہی اس نے بھائی کا لن پکڑا اور اپنے منہ میں لے لیا ۔۔۔اور پھر بڑے جوش کے ساتھ اس کے لن کو اپنے منہ میں اندر باہر کرنے لگی۔۔۔۔ کچھ دیر تک وہ ایسے ہی کرتی رہی۔۔۔ پھر اس نے بھائی کا لن اپنے منہ سے نکلا ۔۔۔۔۔اور دوبارہ پلنگ پر لیٹ گئی اور بھائی کو مخاطب کر کے بولی۔۔۔۔۔میری پھدی مار۔۔۔۔ یہ سن کر ب ھائی آگے بڑھا ۔۔ اور اس نے عاشی کی دونوں ٹانگیں اوپر اُٹھا کر اپنے لن کو عاشی کی چوت پر فٹ کیا۔۔۔ اور پر ہلکی سی پُش کےساتھ لن کا ٹوپا عاشی کی چوت میں داخل کر دیا۔۔۔جیسے ہی بھائی کا لن عاشی کی چوت میں داخل ہوا ۔۔۔ عاشی کے ایک طویل سسکی لی ۔۔۔ اور کہنے لگی۔۔۔۔۔ لن پورا ڈال ۔۔۔۔۔ اور بھائی نے دوسرا ۔۔ گھسہ مارا۔۔۔تو اس کا لن عاشی کی چوت میں غائب ہو گیا۔۔۔ اور پھر اس کے بعد بھائی نے عاشی کی چوت میں پمپنگ شروع کر دی۔۔۔۔ جیسے جیسے بھائی اپنے لن کو عاشی کی چوت میں ان آؤٹ کرتا ۔۔ویسے ویسے عاشی خوشی سے سسکیاں بھرتی اور میری طرف دیکھ کر کہتی ۔۔۔ اینوں کہہ لن ہور موٹا کرے۔۔۔۔۔ ( اسے کہوں لن کو اور موٹا کرے) تو میں شرارت سے عاشی کو کہتی ۔۔ کتنا موٹا کرے ۔۔۔ تو عاشی ۔۔۔۔ مزے میں کہتی اتناااااااااااااا۔۔۔۔۔۔۔۔اس پر میں عاشی سے کہتی ۔۔۔۔ بہن چود اس طرح تو تیری پھدی پھٹ جائے گی ۔۔۔۔تو وہ جوش میں کہتی ۔۔۔ پھدی ہی تو پھڑوانی ہے نا ۔۔۔حرام دیئے۔۔۔۔اور پھر بھائی اور تیز گھسے مارنے کا کہتی ۔۔۔۔ کچھ دیر بعد اچانک ہی عاشی اور بھائی دونوں نے ایک ساتھ سسکنا شروع کر دیا۔۔۔ عاشی بھائی سے کہہ رہی تھی حرام دے یا ۔۔۔۔۔ کس کے مار( حرام ذادے زور سے مار) جبکہ بھائی گھسے مارتے ہوئے کہہ رہا تھا ۔۔۔۔ باجی باجی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور کچھ سیکنڈ کے بعد دونوں نے ایک ساتھ چیخنا شروع کر دیا۔۔۔ اور ۔۔۔۔۔پھر ۔۔ دونوں ایک ساتھ چھوٹ گئے۔۔۔۔۔
اس سے اگلے دن کی بات ہے میں گھر میں بیٹھی ہوم ورک کر رہی تھی کہ بھائی گھر میں داخل ہوا اور سیدھا میرے پاس آ کر بیٹھ گیا۔۔۔ اس سے گپ شپ کرتے ہوئے میں نے اس سے پوچھا ۔۔۔کہ بھائی۔۔۔۔۔ کل مزہ آیا تھا۔۔۔تو وہ اپنے ہونٹوں پر زبان پھیر کر بولا۔۔ باجی عاشی باجی کے ساتھ سیکس کا اپنا ہی مزہ ہے ۔۔۔ پھر میری طرف دیکھ کر بولا۔۔۔ ویسے باجی اس کی پھدی آپ کی پھدی سے زیادہ صاف اور گوری ہے پھر شرارت سے بولا۔۔۔اور تو اور باجی عاشی باجی کی بنڈ بھی آپ کی بُنڈ سے زیادہ موٹی اور گوری ہے۔۔۔۔عاشی کی تعریف سن کر میں اندر سے جل گئی لیکن اس پر ظاہر نہیں کیا کیونکہ اگر میں اسے یہ بات بتا دیتی تو اس نے مجھے اور چھیڑنا تھا۔۔۔ اس لیئے میں نے بات بدلنے کی خاطر اس سے پوچھا کہ اچھا یہ بتاؤ کہ تمہاری پڑھائی کیسی جا رہی ہے؟ تو وہ کہنے لگا۔۔۔ ایک دم فسٹ کلاس ۔۔۔ پھر اچانک ایسا لگا کہ جیسے اسے کوئی بات یاد آ گئی ہو۔۔ اور وہ کہنے لگا۔۔۔۔۔ باجی آج قاری صاحب ہمارے گھر آنے والے ہیں۔۔۔ قاری صاحب کا نام سن کر میں ایک دم چونک پڑی اور اس سے پوچھا ۔۔ کون سے قاری؟ تو وہ کہنے لگا وہی قاری راشدی صاحب جو کہ ابا کے دوست بھی ہیں قاری راشدی صاحب کا نام سن کر اندر سے میں ہل گئی۔ اور میری آنکھوں کے سامنے ڈنگر ہسپتال والا گھوم گیا۔۔۔ اس لیئے میں نے بھائی سے پوچھا ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ کہ وہ کیوں آرہے ہیں؟ تو وہ بھائی کہنے لگا ۔۔کس لیئے آ رہے ہیں اس کا تو پتہ نہیں ۔۔۔ ہاں البتہ وہ مجھ سے یہ ضرور پوچھ رہے تھے کہ تمہارے ابا کس وقت گھر پر ہوتے ہیں۔۔۔۔ مجھے ان سے کوئی ضروری کام ہے ۔۔ ابا اور کام کا نام سن کر اندر سے میں بڑی پریشان ہوئی اور سوچنے لگی ۔۔۔ کہ کہیں وہ ۔۔۔۔۔۔ اس سے آگے سوچنے کی مجھ میں ہمت نہ تھی۔۔۔کچھ دیر بیٹھ کر بھائی تو چلا گیا لیکن مجھے سوچوں کے ہجوم میں اکیلا چھوڑ گیا۔۔۔۔۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قاری صاحب ابا کے دوست تھے لیکن اس سے پہلے وہ اس طرح بتا کر کبھی ہمارے گھر نہیں آئے تھے۔۔ پھر آج انہیں پوچھنے کی ضرورت کیوں پر گئی۔؟؟کہیں وہ۔۔۔۔۔ یہی سوچتے سوچتے ۔۔۔۔۔۔شام ہو گئی۔۔۔۔ اور میں پریشانی کے عالم میں صحن میں ہی بیٹھی رہی ۔۔۔ اسی دوران اچانک دروازے پر دستک ہوئی۔۔۔اور میرا دل دھک دھک کرنے لگا۔۔۔ اتنے میں دوبارہ دستک ہوئی تو مجھے اماں کی آواز سنائی دی۔۔ صبو جا کر دیکھو کون ہے؟ اور میں نے ڈرتے ڈرتے دروازہ کھولا تو ۔۔۔سامنے قاری راشدی صاحب کھڑے تھے۔۔۔۔ مجھے سامنے دیکھ کر پتہ نہیں کیوں مجھے ایسا لگا کہ وہ کچھ غصے میں ہیں ۔۔پھر انہوں نے شعلہ بار نظروں سے میری طرف دیکھا اور پھر بڑے ہی پر اسرار لہجے میں بولے۔۔۔۔۔۔ ابا گھر پر ہیں؟؟؟؟؟؟؟؟؟
چونکہ اس وقت میرے دل میں ڈنگر ہسپتال والے واقعہ کا چور چھپا بیٹھا تھا اس لیئے قاری صاحب کو دیکھ کر میری حالت بہت عجیب ہو رہی تھی ۔اور۔ان کی طرف دیکھتے ہوئے میں نہ جانے کن خیالوں میں کھوئی ہوئی تھی۔۔۔ مجھے یوں چپ دیکھ کر اس دفعہ قاری صاحب قدرے جلال سے بولے ارے سنتی ہو۔۔ تمہارے والد محترم توفیق صاحب گھر پر ہیں؟ ابھی قاری صاحب نے اتنا ہی کہا تھا کہ ۔۔ اندر سے مجھے امی کی آواز سنائی دی وہ پوچھ رہی تھیں کہ ۔۔ ۔۔ باہر کون ہے صبو۔۔ امی کی بات سن کر میں نے اپنا منہ دروازے کے اندر صحن کی طرف کر کے جواب دیا کہ امی باہر قاری راشدی صاحب کھڑے ابا کا پوچھ رہے ہیں راشدی صاحب کا سن کر امی دوڑتی ہوئی دروازے پر آئیں اور مجھے ڈانٹتے ہوئے بولیں ۔۔ باہر کیوں کھڑا کیا ہے ۔۔۔قاری صاحب کو اندر آنے دو۔۔۔اور پھر خود دروازہ کھول کر قاری صاحب سے مخاطب ہو کر بولیں ۔۔۔ باہر کیوں کھڑے ہیں؟ اندر آئیے نا ۔۔ یہ آپ کا اپنا ہی گھر ہے ۔۔۔ لیکن قاری راشدی صاحب جو ابھی تک باہر کھڑے تھے تھوڑا جھجھک کر بولے ۔۔۔۔ بہت بہت شکریہ بہن جی ۔۔۔ لیکن مجھے توفیق بھائی صاحب سے ملنا تھا ۔۔۔کیا بھائی صاحب گھر پر موجود ہیں؟ تو اماں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ جی وہ گھر پر ہی ہیں آپ تشریف لے آیئے۔۔۔ امی کی بات سن کر قاری صاحب نے اپنے سر پر رکھی جناح کیپ کو درست کیا اور امی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے بولے ۔۔۔ بہت شکریہ بہن جی ۔۔۔۔ اگر آپ ایک منٹ کےلیئے بھائی صاحب کو باہر بلا لیں تو آپ کی بڑی مہربانی ہو گی ۔۔۔ اتنی آنا کانی سن کر ابا جو کہ اپنے کمرے میں آرام کر رہے تھے بھی اُٹھ بیٹھے اور آنکھیں ملتے ہوئے باہر آ گئے اور امی کی طرف دیکھ کر کہنے لگے ۔۔ بار کون اے مسرت؟ (باہر مسرت کون ہے؟) تو امی جو کہ ابھی تک دروازے میں کھڑی تھیں ابا کی آواز سن کر دروازے سے ایک طرف ہٹ کر بولیں ۔۔۔۔۔۔۔ وہ جی راشدی صاحب آئے ہیں ۔۔۔۔ راشدی صاحب کا نام سن کر ابا کو جیسے کوئی کرنٹ سا لگ گیا تھا ۔۔۔اور وہ ایک دم چوکس ہو کر بولے ۔۔۔۔ تو نیک بخت ان کو اندر آنے دو ناں ۔۔۔ اس پر امی دروازے سے ہٹ کر واپس آتے ہوئے بولیں ۔۔۔ میں نے تو بھتیرا کہا ہے لیکن وہ آپ کو ہی بلا رہے ہیں ۔۔۔ امی کی یہ بات سنتے ہی ابا ایک دم سے باہر چلے گئے۔۔۔اور راشدی صاحب کو بڑی عزت و احترام سے لیکر لے کر اندر آ گئے تب تک امی نے صحن میں بچھی چارپائی پر پھرتی سے بستر بھی بچھا دیا تھا ۔۔۔۔ اور اس چارپائی کے سامنے ایک موڑھا بھی رکھ دیا تھا۔۔۔۔
ایک طرف تو اماں اور ابو راشدی صاحب کو اس قدر پروٹو کو ل دے رہے تھے جبکہ دوسری طرف دور کھڑی میں یہ سوچ سوچ کر ہلکان ہو رہی تھی کہ پتہ نہیں یہ قاری کا بچہ ہمارے گھر کیا کرنے آیا ہے؟۔۔ ۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی بار بار میری آنکھوں کے سامنے جب ہسپتال واقعہ گھومتا ۔۔تو میرا دل دھک دھک کرنے لگتا اور یہ سوچ کر میری جان ہی نکل جاتی کہ اگر اس نے میری شکایت لگا دی تو کیا ہو گا ؟ غرض ہزار طرح کی سوچوں اور وسوسوں نے مجھے چاروں طرف سے گھیرا ہوا تھا اور میں بظاہر تو بڑی مطئمن۔۔۔ لیکن اندر سے سخت پریشان تھی کہ پتہ نہیں کیا ہو نے والا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسی سوچ کے تحت میں قاری صاحب کی ایک ایک حرکت کو بڑے ہی غور سے مانیٹر بھی کر تی جا رہی تھی لیکن بظاہر ابھی تک انہوں نے میری طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہ دیکھا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں انہی سوچوں میں گم تھی کہ ابا قاری صاحب کو لیکر صحن میں بچھی چارپائی کہ جس کے بستر پر اماں نے جلدی سے نئی چادر بھی بچھی دی تھی ۔۔۔ پر بٹھا کر خود سامنے موڑھے پر بیٹھ گئے ۔۔۔ جبکہ اماں ابا کے پاس اور میں ان دونوں سے ہٹ کر صحن کے پاس برآمدے کےایک پلر سے لگی کھڑی تھی۔۔۔ جیسے ہی قاری صاحب چارپائی پر بیٹھے تو ابا نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے پہلے تو ان کا بہت ادب سے شکریہ ادا کیا پھر کہنے لگے ۔۔جناب آپ نے خود کیوں زحمت کی ۔۔۔۔ مجھے بلا لیا ہوتا ۔۔۔ میں آپ کی خدمت میں خود حاضر ہو جاتا ۔قاری صاحب ابا کی یہ بات سن کر کہنے لگے ۔۔ایسی باتیں کر کے آپ مجھے شرمندہ کر رہے ہو توفیق میاں۔۔۔۔۔۔۔پھر اس قسم کی رسمی باتوں کے بعد ابا نے ان سے کھانے کے بارے میں پوچھا تو کہنے لگے ۔۔۔ میں کھانا نہیں کھاؤں گا ہاں اگر ایک کپ چائے مل جائے تو کیا کہنے۔۔۔ قار ی صاحب کی بات سن کر ابا نے اماں کی طرف دیکھا اور اماں یہ کہتے ہوئے کہ ابھی لائی ۔۔۔ کچن کی طرف چلی گئیں ۔۔۔۔ اس دوران میرا سارا دھیان ابا اور قاری صاحب کی گفتگو کی جانب مبزول تھا ۔۔ لیکن ان کی باتوں میں مجھے بظاہر ایسی کوئی بات نظر نہ آ رہی تھی ۔۔ کوئی دس منٹ کے بعد اماں چائے کے ساتھ بسکٹ لیکر کر آگئیں اور مجھے اشارہ کیا تو میں اندر سے تپائی لے آئی اور قاری صاحب کے سامنے رکھ دی جہاں پر اماں نے ان کے سامنے چائے اور بسکٹ وغیرہ رکھ دیئے۔۔۔ اور خود ایک اور موڑھا لے کر ابا کے ساتھ ان کے سامنے بیٹھ گئیں۔۔۔۔
چائے وغیرہ پینے کے بعد قاری صاحب نے کچھ دیر تک ادھر ادھر کی باتیں کیں ۔۔۔ پھر ابا سے مخاطب ہو کر کہنے لگے۔۔۔ وہ توفیق میاں ۔۔۔میں آپ کے پاس ایک غرض لے کر آیا تھا۔۔۔ تو ابا نے نہایت ادب سےجواب دیا کہ آپ حکم کریں جناب ۔۔۔ مجھ سے جو ہو سکا میں وہ ضرور کروں گا۔۔۔ابا کی بات سن کر راشدی صاحب کے چہرے بشاشت سی پھیل گئی اور ۔۔ انہوں نے ٹھہر ٹھہر کر کہنا شروع کر دیا کہ ۔۔۔۔ وہ میاں جیسا کہ آپ کو معلوم ہی ہے کہ ہماری بیگم صاحبہ امید سے ہیں ۔۔اور دس بارہ روز تک ہمارے گھر میں چاند اترنے والا ہے تو اس سلسلہ میں ۔۔ مجھے آپ کی مدد درکار ہے ۔۔۔ تو ابا نہ سمجھتے ہوئے کہنے لگے آپ حکم کریں ۔۔۔۔اس پر قاری صاحب کہنے لگے ۔۔۔ وہ جیسا کہ آپ کو معلوم ہی ہے کہ اس سے پہلے ہمارے جب بھی ڈیلوری کا موقعہ آتا تو ایسے میں گاؤں سے ہماری سالی صاحبہ آ جایا کرتی تھیں ۔۔۔ لیکن اتفاق کی بات ہے کہ اس دفعہ خود ان کے ہاں بھی کچھ یہی صورتِ حال ہے۔۔اس لیئے اس دفعہ وہ ہمارے ہاں نہیں آ سکتیں ۔۔۔ اتنی بات کرنے کے بعد راشدی صاحب نے براہِ راست ابا کی طرف دیکھا اور تھوڑا جھجھک کر بولے۔۔۔چنانچہ اس سلسلہ میں میری آپ سے درخواست ہے کہ اگر آپ بھابھی صاحبہ کو کچھ دنوں کے لیئے ہمارے ہاں بھیج دیں تو۔۔۔۔۔۔۔پھر جلدی سے بولی ۔۔۔۔۔ وہ بھی صرف صبح کے وقت کہ اس وقت میں مدرسے میں درس و تدریس کے سلسلہ میں مصروف ہوتا ہوں ہاں مدرسے سے چھٹی کے وقت بھابھی صاحبہ بے شک اپنے گھر آ جایا کریں ۔۔۔ ۔۔۔یہ بات کرتے ہی راشدی صاحب نے امید بھری نظروں سے ا با کی طرف دیکھا اور کہنے لگے ۔۔۔وہ توفیق میاں آپ تو جانتے ہی ہیں کہ میرے ایک اشارے سے بہت سے لوگ اس خدمت کے لیئے اپنی خواتین کو بھیجنے کے لیئے راضی ہو جائیں گے۔۔۔ لیکن ۔۔۔ میرا بھروسہ صرف آپ اور بھابھی جان پر ہے کہ پورے قصبے میں آپ جیسی نیک اور شریف فیملی نہ ہے۔۔۔اسی لیئے میں خود درخواست لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں ۔۔۔اگر آپ قبول کر لیں تو آپ کی بڑی نوازش ہو گی۔۔۔۔راشدی صاحب کی بات سن کر ابا جوش میں بولے ۔۔ اس میں نوازش کی کونسی بات ہے جناب ۔۔۔ بندہ ہی بندے کے کام آتا ہے ۔۔۔۔۔ اس کے بعد ا با مزید جوش میں آ گئے اور کہنے لگے۔۔۔آپ میری بیگم کی بات کر رہے ہیں۔۔۔ لیکن کل سے میری بڑی بیٹی بھی اپنی ماں کے ساتھ آپ کے گھر آ جایا کریں گی ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ابا کی یہ بات سن کر راشدی صاحب از حد خوش ہوئے اور کہنے لگے ۔۔۔ آپ کو اس بات کی جزا ملے گی ۔۔۔ لیکن ۔۔۔ صاحب ۔۔۔( میری طرف اشارہ کر کے ) اس بیٹیا کی کوئی خاص ضررورت نہیں ۔۔ بس آپ بھابھی جی کو ہی بھیج دیا کریں ۔۔ تو بڑی نوازش ہو گی۔۔۔۔ لیکن ابا نے اصرار کرتے ہوئے کہا ۔۔۔ کہ نہیں جناب مجھے معلوم ہے کہ آپ کے بچے ابھی بہت چھوٹے ہیں ۔۔۔ اس لیئے میری بیٹی صبو ان کو سنبھال لے گی جبکہ مسرت ہماری بھا بھی جی کی خدمت کیا کریں گی ۔۔۔ پھر ابا نے امی کی طرف دیکھا اور کہنے لگے ۔۔۔ کیوں مسرت میں ٹھیک کہہ رہا ہوں ناں؟ تو امی نے کسی سعادت مند بیوی کی طرح سر ہلا کر جواب دیا۔۔۔۔۔ جیسے آپ کہیں ۔۔۔۔ پھر ابا کی طرف دیکھ کر کہنے لگی ۔۔۔ میری بات تو ٹھیک ہےجی ۔۔ لیکن میرا خیال میں صبو کی وہاں کوئی ضرورت نہیں ہو گی کیونکہ یہ پڑھنے والی لڑکی ہے تو یہ گھر میں رہ کر پڑھا کرے گی ۔۔۔امی کی بات سن کر ابا نے نفی میں سر ہلا یا اور کہنے لگے۔۔۔۔۔ ہر گز نہیں مسرت ۔۔۔۔ ہمیں ایک موقعہ مل رہا ہے قاری صاحب کی خدمت کا ۔۔۔اس لیئے میں ہرگز پیچھے نہیں ہٹوں گا ۔۔۔ پھر ابا نے میری طرف دیکھ کراشارے سے مجھے اپنے پاس بلایا ۔۔۔اور کہنے لگی ۔۔صبو پُتر کل سے تم نے اپنی اماں کے ساتھ قاری صاحب کے گھر جانا ہے اور ہاں اپنی کتابیں وغیرہ بھی ساتھ لے جانا ۔۔۔ اور جو چیز سمجھ نہ آئے بے دھڑک راشدی صاحب سے پوچھ لینا ۔۔۔ ابا کی بات سن کر قاری صاحب نے اپنا بڑا سا سر ہلایا اور ابا کی طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگے۔۔۔ کہ ۔۔۔۔ میرے خیال میں بچی کو آپ رہنے ہی دیں کہ ماں کے پیچھے گھر کے چھوٹے موٹے کام کاج کون کرے گی؟۔۔ تو اس پر ابا بڑے فخر سے کہنے لگے ۔۔۔۔ حضرت اس بات کی آپ فکر نہ کریں کہ چھوٹے موٹے کاموں کے لیئے میری چھوٹی بیٹی زیب جو ہے۔۔۔ جو کہ آپ کی دعا سے اس قابل ہو گئی ہے کہ گھر کے چھوٹے موٹے کام سنبھال سکے ۔۔۔ابا کی بات سن کر راشدی صاحب نے ایک دفعہ پھر ہیچر میچر کر نے کی کوشش کی ۔۔۔۔ لیکن ابا نہ مانے اور کہنے لگے کوئی بات نہیں حضرت صاحب ۔۔۔صبو کو ویسے ہی آج کل چھٹیاں ہیں ۔۔۔۔ اس لیئے اس کے سکول کا بھی حرج نہیں ہو گا ۔۔۔ ابا کی حتمی بات سن کر راشدی صاحب کچھ نہ بولے بس ان کے لیئے دعائے خیر کی ۔۔۔ اور پھر ان سے یہ کہتے ہوئے چلے گئے کہ کل صبح بھابھی جی کو بھیج دیجئے گا
یہاں میں پڑھنے والوں کی دل چسپی کے لیئے قاری راشدی صاحب کا تعارف کر ا دوں تو مناسب ہو گا ۔۔۔ قاری صاحب ہمارے قصبے کے سب سے بڑے مدرسے کے نائب ناظم تھے ۔۔اور میرا بھائی شبی بھی اسی مدرسے میں پڑھتا تھا ۔۔۔ یہاں دینی تعلیم کے ساتھ جدید تعلیم دینے کا بھی بندوبست تھا ۔۔۔ اس بڑے سے ۔۔۔ مدرسے کے ساتھ ہی قاری صاحب کا گھر تھا جو کہ مدرسے کی جانب سے انہیں رہنے کے لیئے دیا گیا تھا ۔۔۔ راشدی صاحب ایک گھٹے ہوئے اور مضبوط جسم کے مالک تھے ان کی گردن موٹی اور کافی چھوٹی تھی ۔۔۔ ان کا چہرہ بہت سرخ و سپید اور بارعب تھا انہوں نے اپنے چہرے پر داڑھی بھی رکھی ہوئی تھی ۔۔ جس کو وہ لال مہندی سے رنگا کرتے تھے ۔۔۔ لال داڑھی کے ساتھ ان کی مونچھیں صفا چٹ تھیں جبکہ سر پر ہمیشہ ہی ٹنڈ کراتے تھے ۔۔۔ اور اس بڑے سے گنجے سر پر ہمہ وقت جناح کیپ پہنا رکھتے تھے اس کے ساتھ ساتھ راشدی صاحب کافی ایکٹو آدمی تھی جبکہ ان کے بر عکس ان کی بیگم کافی موٹی اور سسب الوجود تھیں ۔۔ قاری صاحب کے دو بچے تھے ایک لڑکا اور ایک لڑکی ۔۔۔ دونوں ہی 5/4 سال کی عمر کے ہوں گے جن کو صبع کے وقت سنبھالنا میری ذمہ داری تھی ۔۔۔ جبکہ امی نے ان کی بیوی کے ساتھ دیگر گھریلو کاموں جیسے ہانڈی روٹی کرنا اور کپڑے وغیرہ دھونا کا کام سنبھالا ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔...............بیوی کے ساتھ تو میں نے ویسے ہی کہہ دیا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سارے کام اماں ہی کیا کرتی تھیں ۔۔۔۔ جبکہ ان کی بیوی اماں کے پاس بیٹھی یا تو اونگھتی رہتی تھی یا پھر اپنے کمرے میں جا کر بستر پر سو جایا کرتی تھی۔۔۔ ابا کو ناشتہ وغیرہ دے کر میں اور اماں راشدی صاحب کے گھر آ جایا کرتے تھے اور ان کے گھر دو تین ۔۔۔ یا کام زیادہ ہو تو بعض دفعہ چار گھنٹے بھی رہ کر ہم لوگ واپس آ جا یا کرتے تھے۔۔۔
ادھر جس دن سے ہم نے راشدی صاحب کے گھر جانا شروع کیا تو اسی دن سے میں ایک اَن جان سے ڈر کی وجہ سے میں اماں کے ساتھ ہی چپکی رہتی تھی ۔۔۔وہ کچن میں جاتی تو میں بھی راشدی صاحب کے بچے لیکر ان کے پاس کچن میں بیٹھ جاتی تھی ۔۔۔۔ اور اگر وہ کپڑے دھو کر سکھانے کے لیئے چھت پر جاتی تو میں بھی بچوں کو لیکر کر امی کے ساتھ ہی چھت پر چلی جاتی تھی ۔۔۔ اصل بات یہ تھی کہ میں ہسپتا ل والے واقعہ کی وجہ سے راشدی صاحب کا اکیلے میں سامنا نہ کرنا چاہتی تھی ۔۔۔کہ مبادا وہ مجھ سے کوئی بات نہ پوچھ بیٹھیں وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ اپنی طرف سے تو میں یہ سارا بندوبست ظاہر ہے قاری صاحب کی وجہ سے کر رہی تھی لیکن ۔۔ دوسری طرف میرا اس طرح اماں کے ساتھ ساتھ چپکے رہنا ان کو ایک آنکھ نہ بھا رہا تھا ۔۔۔ اور وہ اکثر مجھ سے کہتی تھیں کہ ۔۔۔ گشتی رنے میرا کھیڑا چھوڑ ( گشتی عورت میری جان چھوڑ)۔۔( ویسے بائی دا وے ۔گشتی ان کی پسندیدہ گالی تھی) ۔۔ لیکن میں اپنے اندر کے خوف کی وجہ سے ان کے ساتھ ساتھ رہنے پر خود کو مجبور پاتی تھی۔۔۔ ۔۔۔ اور وہ اکثر ہی مجھ سے کہا کرتی تھیں کہ گھر میں تو تم مجھے پوچھتی ہی نہیں ہو جبکہ قاری کے گھر آتے ہی میرے ساتھ ایسے چپک جاتی ہو کہ جیسے یہ قاری کا گھر نہیں کوئی بھوت بنگلہ ہو۔۔۔۔ لیکن اماں کی تمام تر ڈانٹ اور لعنت ملامت کے باوجود میں ان کا پیچھا نہ چھوڑا کرتی تھی ۔۔۔
پھر ایک دن کی بات ہے کہ میں راشدی صاحب کے چھوٹے بیٹے کہ جس کی عمر تین چار سال ہو گی۔۔۔ کو لیکر امی کے پاس کچن میں بیٹھی تھی کہ اچانک ہی امی نے میری طرف دیکھا اور کہنے لگی ۔۔۔صبو بیٹی قاری نے آلو گوشت پکانے کے لیئے کہا ہے لیکن وہ گوشت تو مجھے دے گئے ہیں لیکن آلو ۔۔۔دینا بھول گئے ہیں ۔۔۔اس لیئے تم ایسا کرو کہ اس لڑکے کو لیکر اپنے گھر جاؤ اور وہاں کچن میں پڑی ٹوکری میں سے تین چار موٹے موٹے آلو لے آؤ۔۔۔ امی کی بات سن کر میں نے اس بچے کو اپنے کاندھے سے لگایا اور اپنے گھر کی طرف چل پڑی۔۔۔۔ ابھی میں نے قاری صاحب کی گلی کا نکڑ ہی کراس کیا ہو گا کہ اچانک قاری صاحب کے بیٹے کہ جسے ہم سب پیار سے کاکا کہتے تھے نے میرے اوپر سُو سُو کر دیا۔۔۔۔۔ جس سے کاکے کی ساری نیکر خراب ہو گئی۔۔۔ جیسے ہی کاکے نے سُوسُو کرنا شروع کیا تھا تو میں نے اس کو کندھے سے ہٹا کر ایک دم ایک طرف کر دیا تھا جس کی وجہ سے اس کا تھوڑا سا ہی پیشاب مجھ پر گر ا تھا لیکن ۔۔ چونکہ اس کی ساری نیکر خراب ہو گئی تھی۔۔۔۔اس لیئے کاکے کی گیلی نیکر دیکھ کر میں نے سوچا کہ پہلے گھر جا کر کاکے کی نیکر کو تبدیل کر لیا جائے پھر اپنے گھر جاؤں گی یہ سوچ کر میں وہاں سے واپسی کے لیئے مُڑی اور پھر چلتی ہوئی واپس قاری کے گھر میں داخل ہو گئی اور پھر سیدھی قاری صاحب کی بیوی کے کمرے میں چلی گئی ۔۔ جہاں پر وہ موٹا سا پیٹ لیئے پلنگ پر ہلکے ہلکے خراٹے لے رہی تھی اس کے ساتھ ہی اس کی چھوٹی بیٹی بھی سوئی ہوئی تھی۔۔۔۔ قاری کی بیگم کو دیکھتے ہوئے میں نے ادھر ادھر کاکے کی دوسری نیکر تلاش کرنے کی کوشش کی ۔۔۔ لیکن مجھے وہاں کوئی نیکر دکھائی نہیں دی ۔۔۔ اس لیئے میں نے کاکے کو ادھر ہی بٹھایا اور اس کی نیکر ڈھونڈنے ۔۔ ساتھ والے کمرے کی طرف چل پڑی ۔۔۔ باہر آ کر دیکھا تو ساتھ والے کمرے کا دروازہ بند تھا۔۔۔ اور پھر جیسے ہی میں نے دروازے کو کھولنے کے لیئے اس کے پٹ پر ہاتھ رکھا تو اچانک مجھے اندر سے کھُسر پھُسر کی آوازیں سنائیں دیں ۔اور یہ آوازیں ایسی تھیں کہ جن کو سن کر میری چھٹی حس جاگ اُٹھی اور میں نے بجائے دروازہ کھولنے کے اس کے "کی" ہول سے جھانک کر دیکھا ۔۔۔تو سامنے کا نظارہ دیکھ کر میرے چودہ طبق روشن ہو گئے۔۔۔۔۔
۔۔اندر کا منظر دیکھ کر تھوڑی دیر کے لیئے میں پریشان ضرور ہوئی ۔۔ ۔۔۔۔ لیکن اس پریشانی نے صرف چند سیکنڈ تک مجھے اپنے حصار میں رکھا ۔۔۔ پھر ۔۔۔ میں تیزی سے نارمل ہو گئی۔۔اور اندر کے منظر کے بارے سوچ سوچ کر مجھے بھی کچھ کچھ ہونا شروع ہو گیا ۔۔۔۔ دروازے کی جھری سے میں اماں کو دیکھا جو کہ دروازے کے بلکل سامنے پلنگ پر پیر لٹکائے بیٹھی تھیں جبکہ ان کے عین سامنے راشدی صاحب کھڑے تھے اور خاص کر راشدی صاحب کے جسم کا نچلا حصہ امی کے جسم کو چھو رہا تھا ۔۔۔۔ اور حیرت کی بات یہ ہے کہ اس نچلے حصے کے ٹچ کے باوجود ۔۔ امی کوئی ری ایکشن دینے کی بجائے راشدی صاحب سے بڑے ہی بے تکلفی سے باتیں کر رہی تھی ۔۔۔ جبکہ میرے مشاہدے کے مطابق عام حالات میں امی راشدی صاحب کو بڑے ہی عزت و احترام سے بلایا کرتی تھیں لیکن اس وقت وہ راشدی صاحب سے کہہ رہیں تھی کہ ۔۔۔ زیادہ نیڑے آن دی کوشش نہ کریں مولوی ۔۔۔۔ میری کڑی اجے ایتھے ہی ہونی اے ( زیادہ نزدیک آنے کی کوشش نہ کرنا مولوی کہ میری بیٹی ابھی ادھر ہی ہے) اس پر راشدی صاحب نے اپنے جسم کے اگلے حصے کو امی کی کندھے سے ٹچ کرتے ہوئے کہا۔۔ فکر نہ کرو ۔۔مسرت ۔۔
میں نے خود اپنی آنکھوں سے تمہاری بیٹی کو گلی کی نکر مُڑتے ہوئے دیکھا ہے ۔۔۔ اس لیئے تم کو ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی راشدی صاحب نے اپنی شلوار کی اُٹھی ہوئی جگہ کو ایک دفعہ پھر امی کے بازؤں پر رگڑا۔۔۔ ادھر قاری صاحب کی بات سن کر امی نے کچھ سکھ کر سانس لیا اور قدرے ڈھیلی ہو کر بیٹھ گئی اور کہنے لگی ۔۔۔ میری بات مان جاؤ مولوی!!! ۔۔۔ صبو کے ابا کو ہم دونوں پر شک ہو گیا ہے تبھی تو اس نے صبو کو میرے ساتھ نتھی کر کے تمہارے گھر بھیجا ہے اور تم نے دیکھ ہی لیا ہو گا کہ یہاں آ کر ہر وقت صبو میرے ساتھ ہی چپکی رہتی ہے ۔۔۔ اس پر راشدی صاحب نے امی کا ہاتھ پکڑا اور اپنی شلوار کی ابھری ہوئی جگہ پر رکھتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔ مان جاؤ مسرت جی کہ یہ سب آ پ کا وہم ہے ۔۔۔ پھر کہنے لگے کہ تم کو اندازہ ہی نہیں کہ توفیق میرا کتنا اچھا دوست اور بھگت ہے وہ مر تو سکتا ہے لیکن مجھ جیسے نیک شریف بندے پر کبھی بھی شک نہیں کر سکتا راشدی صاحب کی بات سن کر امی تھوڑا طنزیہ ہنسی اور ان کی شلوار کی ابھری ہوئی جگہ پر ہاتھ مار کر بولیں ۔۔۔ ہاں ۔۔۔شرافت تو آپ کی شلوار سے باہر تک آ رہی ہے۔۔۔ اس پر دونوں نے ایک ہلکہ سا قہقہہ لگایا ۔۔۔۔اور پھر اس کے بعد اماں تھوڑا فکر مندی سے بولیں ۔۔۔ کہ راشدی صاحب کسی حد تو تمہاری یہ بات بھی درست ہے لیکن ایک بات کی مجھے ابھی تک سمجھ نہیں آئی کہ تمہارے گھر آ کر صبو سارا وقت میرے ساتھ ہی کیوں چپکی رہتی ہے؟ جبکہ اس کے بر عکس گھر جاتے ہی وہ مجھ سے ایسے الگ ہو جاتی ہے کہ جیسے میں کوئی چھوت کی بیماری ہوں ۔۔۔ ۔۔۔۔پھر انہوں نے راشدی صاحب کی طرف دیکھا اور کہنے لگیں۔۔۔۔ اور تم کو شاید پتہ نہیں مولوی ۔۔۔ کہ بڑی ہونے کی وجہ سے صبو اپنے باپ کے کتنے قریب ہے اسی لیئے تو مجھے شک ہو رہا ہے۔۔
امی کی بات سن کر راشدی صاحب نے انہیں بازو سے پکڑ کر اوپر اٹھایا اور انہیں اپنے گلے سے لگاتے ہوئے کہنے لگے ۔۔۔اگر تم کو صبو پر اتنا ہی شک تھا تو تم نے اس کو ساتھ کیوں آنے دیا ؟ اور اس کے ساتھ ہی راشدی صاحب نے امی کو ایک ٹائیٹ سی جھپی لگا دی لیکن امی کی سوئی ابھی تک مجھ پر ہی اڑی ہوئی تھی۔۔۔۔ اور دروازے کے دوسری طرف کھڑی میں سوچ رہی تھی کہ امی جان!!!۔۔۔ کاش میں آپ کو بتا سکتی کہ یہاں آ کر میں آپ سے کیوں چپکی رہتی ہوں۔۔۔۔۔ جبکہ ادھر راشدی صاحب کی بات سن کر امی کہہ رہی تھیں ۔۔۔ کیا بتاؤں مولوی میں نے تو بڑے جتن کیے لیکن تم کو تو ۔۔ توقیق کا پتہ ہی ہے کہ ایک دفعہ جو اس نے بات کہہ دی پھر اس پر قائم رہتا ہے۔۔ چاہے اس کو اس میں نقصان ہی کیوں نہ اُٹھا نا پڑ جائے۔۔۔
۔۔۔۔ اب جبکہ میری اماں کا کریکٹر تھوڑا کھل کر آپ کے سامنے آ رہا ہے تو میں اپنے پڑھنے والوں کی دل چسپی کے لیئے میں امی کا حلیہ بیان کر رہی ہوں ۔۔۔ میری امی ایک چھوٹے قد کی عورت تھی اور جس وقت کا میں آپ کو یہ واقعہ بیان کر رہی ہوں اس وقت ان کی عمر لیٹ تھرٹیز میں ہو گئی۔۔ اتنی عمر کے باوجود بھی انہوں نے اپنے آپ کو بڑا سنبھالا ہوا تھا۔۔۔ میرے بر عکس ان کی چھاتیاں اور ہپس (گانڈ) بہت بڑی اور پرُ کشش تھی ۔۔۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ ان کی بڑی بڑی چھاتیاں ۔۔۔۔ اور موٹی سی گانڈ ا ن کے چھوٹے سے قد پر بہت سجتی تھیں ۔۔ امی تھوڑی موٹی اور ان کا پیٹ زرا سا باہر کو نکلا ہوا تھا ۔۔۔ آنکھیں میری طرح کالی اور رنگ سانولہ تھا۔۔۔ جس میں میری طرح غضب کی سیکس اپیل پائی جاتی تھی ۔۔ مجھے ابھی تک یاد ہے کہ امی گرمیوں میں ہمیشہ جارجٹ کاٹن کی نہایت باریک قمیض کے نیچے کبھی بھی شمیض نہیں پہنا کرتی تھیں۔۔۔اس کے ساتھ ساتھ وہ ساری گرمیاں سفید یا ہلکے رنگ کی قمیضیں پہنا کرتی تھیں۔۔۔ اور اس ہلکے رنگ کی قمیضوں کے نیچے ہمیشہ ہی وہ کالے رنگ کا برا استعمال کیا کرتی تھی ۔۔ جو کہ ان کی باریک سی کرتی میں بڑی بڑی چھاتیوں پر چڑھا ہوا صاف دکھائی دیتا تھا۔۔۔ ہم سب کے سامنے تو وہ یونہی رہا کرتی تھیں لیکن جیسے ہی ابا گھر پر آتے تو اسی وقت وہ اپنے اوپر ایک موٹی سی چُنی اوڑھ لیا کرتی تھی جس سے ان کی کالی برا چھپ جاتی تھی۔۔۔ ہاں امی کی ایک اور بات یاد آ گئی کہ جب ابا گھر پر نہ ہوتے تو وہ چارپائی پر اُلٹی لیٹا کرتی تھی۔۔جس سے ان کی موٹی سی گانڈ۔۔۔بڑی نمایاں نظر آتی تھی ۔۔۔اور اسی عالم میں وہ کبھی کھبی بھائی کو اپنی ٹانگیں دبانے کے لیئے بھی کہا کرتی تھی۔۔۔۔ اور اس بات کا مجھ سے بھائی نے تو کبھی ذکر نہیں کیا لیکن ۔۔۔۔ مجھےمعلوم تھا کہ وہ امی کی موٹی گانڈ کو دیکھ کر بڑا خوش ہوا کرتا تھا۔۔۔۔اور کبھی کبھی ان کی رانوں کو دباتے دباتے ۔۔۔ان کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاں تو میں کہہ رہی تھی کہ امی راشدی صاحب کے گلے سے لگی کہہ رہی تھیں کہ مولوی جب توفیق صبو کو میرے ساتھ نہ بھیجنے پر رضا مند نہ ہوا ۔۔۔۔ تو میں نے اس کے ساتھ صبو کی جگہ زیب کو بھیجنے کی بھی بات کی تھی ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔ لیکن وہ اڑیل ٹٹو ۔۔اس بات پر بھی نہیں مانا تھا ۔۔۔۔۔۔ بات ختم کرتے ہی امی نے ایک نخریلی مگر سیکسی سی چیخ ماری ۔۔ اوئی ماں ۔۔۔ امی کی چیخ سن کر راشدی صاحب کہنے لگے ۔۔۔ کیا ہوا میری جان؟؟؟؟؟۔۔۔ تو امی بڑی ادا سے کہنے لگیں ۔۔ ۔۔۔ ہونا کیا تھا مولوی ۔۔۔تم نے اتنی زور سے جھپی لگائی ہے کہ تمہارا ۔۔۔۔۔۔یہ ( لن ) بڑے زوروں سے میری رانوں میں سے چُھب گیا ہے ۔۔۔ پھر راشدی صاحب کی طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگیں۔۔۔ پتہ نہیں اپنے اس جانور کو تم کیا کھلاتے ہوکہ ۔۔ظالم کا بچہ آج تک ویسے کا ویسا ہی ہے۔۔۔۔ امی کی بات سن کر راشدی صاحب بڑے خوش ہوئے اور اس دفعہ امی کی ٹانگوں میں اپنے لن کو دباتے ہوئے بولے۔۔۔ تم کو معلوم ہے مسرت کہ میرا یہ جانور نرم اور گرم غذا کھاتا ہے جس کی وجہ سے یہ ابھی تک مست ہے۔۔۔ راشدی کی بات سن کر امی اٹھلاتے ہوئے کہنے لگیں ۔۔۔۔ راشدی جی یہ گرم غذا کی بات تو کچھ سمجھ میں آتی ہے لیکن یہ نرم غذا کون سی ہوتی ہے؟ امی کی بات سنتے ہی قاری صاحب کا ہاتھ حرکت میں آیا اور انہوں نے امی کی موٹی گانڈ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے جواب دیا ۔۔۔۔ نرم غذا سے مراد ۔۔۔ گانڈ ہے میری جان ۔۔راشدی صاحب کی بات سن کر امی نے ایک جھر جھری سی لی اور کہنے لگی۔۔۔۔ پر اس دفعہ مجھ سے گانڈ کی توقعہ نہ رکھنا ۔۔۔ اس پر راشدی صاحب حیران ہو کر کہنے لگے۔۔۔ مسرت پہلے تو تم نے کبھی بھی یہ پابندی نہیں لگائی تھی۔۔۔۔ تو امی مسکرا کر کہنے لگیں ۔۔۔۔۔پابندی تو ابھی بھی نہیں ہے لیکن اس دفعہ میرا جی چاہ رہا ہے کہ تمھارے اس جانور کو خوب گرم غذا کھلاؤں ۔۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی اچانک امی فکر مندی سے کہنے لگیں۔۔ اب ہمیں بس کرنا چاہیئے کہ صبو کے آنے کا وقت ہو گیا ہے۔۔۔ میرا ذکر سن کر اچانک ہی راشدی صاحب بے زاری سے بولے ۔۔ یہ کیا صبو صبو لگا رکھی ہے۔۔۔۔ کہا نا کہ ابھی اس کے آنے میں ٹائم ہے پھر اچانک ہی انہوں نے اپنا منہ امی کی طرف کیا اور بڑے ہی معنی خیز لہجے میں کہنے لگے۔۔۔۔۔ اگر تم کو صبو کی ذیادہ فکر ہے ۔۔۔ تو کیا خیال ہے میں اسےبھی "فکس" نہ کر دوں؟۔۔ اسی بہانے تمہاری گرم غذا کے ساتھ ساتھ اس کی نرم غذا ۔۔(گانڈ) بھی کھا لوں گا۔۔۔ ۔۔ راشدی صاحب کو بات سن کر امی ایک دم اس سے الگ ہو گئیں اور تھوڑی ناراضگی سے کہنے لگیں۔۔ مجھے معلوم ہے مولوی کہ لڑکی پھنسانا تمہارے لیئے کوئی مسلہ نہیں ہے لیکن۔۔۔۔۔۔۔ خبردار!!!!!۔۔۔۔ تم صبو کے ساتھ ایسا ویسا کچھ بھی نہیں کرو گے۔۔ اس پر راشدی صاحب حیران ہو کر کہنے لگے وہ کیوں جی؟ ۔۔راشدی صاحب کی بات سن کر امی اپنی ایڑھیوں کے بل کھڑی ہو گئیں ۔۔۔۔اور پھر راشدی صاحب کے ہونٹ چوم کر بولیں ۔۔۔۔ وہ اس لیئے میری جان کہ میرے ہوتے ہوئے تم کسی اور کی طرف دیکھو ۔۔۔۔یہ مجھ سے برداشت نہیں۔چاہے وہ میری بیٹی ہی کیوں نا ہو۔۔۔۔ پھر انہوں نے راشدی صاحب کو پیار سے دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔ میری بات مان لو مولوی۔۔۔۔ اور مجھ سے الگ ہو جاؤ کہ صبوکسی بھی وقت آ سکتی ہے۔اس پر راشدی صاحب نے اماں کو اپنے بازؤں کے گھیرے میں مزید کستے ہوئے کہا ۔۔ کہ اگر میں ایسا نہ کروں تو؟ ۔۔۔راشدی کی بات سن کر اماں مسکرا ئیں ۔۔ اور انہیں پنجابی کا ایک مشہور گیت سناتے ہوئے بولیں ۔۔۔ تیرا کی جاناں اے پرائے پُت دا۔۔۔۔ وال وال ہو جاؤ میری گُت دا۔۔۔ ( پکڑے جانے پر تم پرائے مرد کا کچھ نہیں جانا ۔۔۔۔ ہاں میرے سر پر ایک بال بھی نہیں رہے گا ۔۔۔ مطلب سر پہ اتنے جوتے پڑیں گے ) امی کا گیت نما شعر سُن کر راشدی صاحب کہنے لگے ۔۔۔ ٹھیک ہے مسرت میں تم سے الگ ہو جاتا ہوں لیکن یہ بتاؤ کہ ۔۔۔۔ میرے ساتھ پیار والا کھیل کب کھیلو گی؟ ان کی بات سن کر امی کہنے لگیں ۔۔۔۔ اڑیا ۔۔۔ جی تے میرا وی بڑا کردا اے ۔۔۔۔۔۔۔( دل تومیرا بھی بہت کرتا ہے ) ۔۔۔ پھر اچانک ہی وہ فیصلہ کن لہجے میں کہنے لگیں۔۔۔۔۔۔ٹھیک اے مولوی ۔۔ کل توں تے میں انج ملاں گے جیوں ۔۔۔ ٹچ بٹناں دی جوڑی) ( ٹھیک ہے مولوی صاحب کل میں اور تم ۔۔۔۔۔۔ ایسے ملیں گے جیسے ٹچ بٹن آپس میں جُڑتے ہیں ) امی کی بات سن کر راشدی صاحب ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ کہنے لگے ۔۔اپنی بات پر قائم رہنا ۔۔ مسرت ۔۔۔۔۔ اس پر امی شرارت بھرے لہجے میں کہنے لگیں میں قائم ہوں تم بس اینوں قائم رکھیں ۔۔۔۔( میں اپنی بات کی پابند ہوں تم بس اپنے لن کو کھڑا کرنا ) ۔۔۔۔
اماں کی فائینل بات سن کر میں کمرے کے دروازے سے الٹے پاؤں واپس ہوئی اور بھاگ کر کاکے کو اُٹھایا اور باہر نکل گئی ۔۔۔ اور پھر بھاگتے ہوئے اپنے گھر پہنچی اور اپنے کچن سے آلو لیکر واپس چلی پڑی ۔۔۔ جاتے ہوئے تو نہیں ۔۔ البتہ واپسی پر میں سارا راستہ یہی پلان بناتی رہی کہ کس طرح میں راشدی اور امی کا چودائی شو دیکھوں؟ ایک بات تو طے تھی کہ انہوں نے اسی کمرے میں کاروائی ڈالنی تھی کہ جس میں انہوں نے آج جپھی لگائی تھی ۔(کیونکہ ان کے دو ہی کمرے تھے)۔ اور مجھے کہاں چھپ کر یہ شو دیکھنا تھا ۔۔۔ سارے راستے میں اسی کے بارے میں غور و غوض کرتی رہی۔۔۔ لیکن مجھے کچھ بھی سمجھ نہ آیا ۔۔۔ اس کے ساتھ ہی میں اس بات پر بھی غور کرتی رہی کہ اگر کل امی نے مجھے دونوں بچے پکڑا دیئے ۔۔۔ تو ایسی صورت میں ۔۔۔ میں بچوں کو سنبھالوں گی یا ۔۔۔ان کا شو دیکھوں گی؟ یہ بھی بہت اہم نکتہ تھا۔۔۔۔۔ غرض کہ میں اپنے پلان کے ہر پہلو پر اچھی طرح سے غور کرتی جا رہی تھی ۔۔۔۔اور جب میں راشدی صاحب کے گھر کے نزدیک پہنچی تو کل کا ۔۔۔ سارا ۔۔۔پلان میرے دماغ میں ترتیب پا چکا تھا۔۔۔
یہ اگلے دن کی بات ہے کہ میں اور امی راشدی صاحب کے گھر جا رہے تھے اور میں نے نوٹ کیا تھا ان کے ہاں آج امی سپیشل تیار ہو کر کی جا رہی تھی آج انہوں نے نہانے میں بھی کافی ٹائم لگایا تھا ۔۔۔۔اور میرے اندازے کے مطابق انہوں نے اپنی چوت کی صفائی کی تھی کیونکہ واپسی پر ان کے ہاتھ میں بال صفا کریم پکڑی ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔.. پلان کے مطابق راشدی صاحب کے گھر میں داخل ہوتے ہی اس سے پہلے کہ امی میری کوئی ڈیوٹی لگاتیں ۔۔۔۔الُٹا میں ان سے بولی۔۔۔ ۔۔۔ امی آپ سے ایک بات کہنی تھی۔۔۔ امی کہ جو کہ آج بہت ہی خوش گوار موڈ میں تھیں ۔۔۔ نے بڑے ہی پیار سے جواب دیتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ہاں۔۔ بول صبوکیا بات ہے؟ تو میں نے ان سے کہا ۔۔۔ وہ امی اگر اجازت ہو تو آج میں جلدی چلی جاؤں ؟ میری بات سن کر امی کے چہرے پر ایک چمک سی آ گئی ۔۔۔ لیکن بظاہر وہ بڑی ہی بے نیازی سے کہنے لگیں جلدی کیوں جانا ہے خیریت تو ہے؟ تو میں نے ان سے کہا کہ وہ امی ۔۔۔۔ مجھے حساب کے کچھ سوال سمجھ نہیں آ رہے تھے تو اس سلسلہ میں عاشی سے بات کی تھی ۔۔۔تو اس نے جلدی آنے کا کہا تھا پھر میں اور وہ اس میتھ والی ٹیچر کے گھر جا کر یہ سوال سمجھیں گی۔۔۔ میری بات سن کر امی نے ایک گہری سانس لی اور کہنے لگی۔۔ واقعہ ہی بیٹا حساب بڑا سخت مضمون ہے تم ایسا کرو ابھی چلی جاؤ۔۔ تو میں نے کہا اتنی صبع جا کر کیا کرنا ہے امی جان ۔۔۔ کہ آپ کو معلوم ہی ہے کہ وہ بیگم صاحبہ کتنی لیٹ اُٹھتی ہے تو امی کہنے لگیں ۔۔ٹھیک ہے جس وقت مرضی ہے چلی جانا ۔۔۔ بس جاتے ہوئے مجھے ضرور بتا دینا۔۔۔۔۔۔
اس وقت میں اور امی راشدی صاحب کی بیگم کے ساتھ بیٹھیں تھیں اور میں کاکے کو کھلا رہی تھی کہ جبکہ ان کی بییی حسبِ معمول اپنی ماں کے ساتھ لگی بیٹھی تھی۔۔۔۔ کہ راشدی صاحب گھر میں داخل ہوئے اور امی کو دیکھ کر بولے آپ کیسی ہیں بہن جی؟ راشدی صاحب کو دیکھ کر امی نے پاس پڑی چادر سے اپنے سر اور چھاتیوں کو اچھی طرح سے ڈھانپ لیا ۔۔۔ اور کہنے لگیں ۔۔۔۔ ٹھیک ہوں بھائی صاحب۔۔۔ اور میں ان دونوں کی یہ ایکٹنگ دیکھ کر دل ہی دل میں بڑی محظوظ ہوئی ۔۔۔کہ اتنے میں امی نے راشدی صاحب سے کہا ۔۔۔ بھائی صاحب آپ سے ایک بات کہنی تھی؟ تو راشدی صاحب کہنے لگے حکم کیجئے بہن جی؟ اس پر امی نے اپنی نگاہ نیچ کیئے گردن جھکا کر بولیں۔۔۔ ۔۔۔۔۔ کہ بھائی صاحب صبو نے آج تھوڑا جلدی جانا ہے اس لیئے آپ ان بچوں کے لیئے مدرسے سے کسی کو بلا لیجئے ۔۔۔ اماں کی بات سن کر راشدی صاحب کا چہرہ بقعہء نو ر بن گیا ۔۔۔۔ اور وہ کچھ سوچتے ہوئے کہنے لگے۔۔۔۔ صبو بیٹی نے کس وقت جانا ہے؟ تو اماں کہنے لگیں کوئی گھنٹہ بعد۔۔۔ تو راشدی صاحب کہنے لگے ٹھیک ہے بہن جی ۔۔۔ میں بندوبست کر دیتا ہوں ۔۔۔۔ پھر وہ اپنی بیگم کی طرف مُڑے اور کہنے لگے ۔۔تم کیسی ہو نیک بخت؟ تو ان کی سست الوجود بیگم کہنے لگیں۔۔۔۔ ویسے تو میں ٹھیک ہوں لیکن ۔۔۔۔۔ نیند بہت آتی ہے۔۔۔تو راشدی صاحب کہنے لگے۔۔۔ نیند تو صحت کے لیئے اچھی ہوتی ہے آپ کو جب بھی نیند آئے سو جائیں ۔۔۔ پھر کہنے لگے ۔۔۔ایسی حالت میں اکثر خواتین کو بہت نیند آتی ہے اس کے ساتھ ہی انہوں نے امی کی طرف دیکھا اور کہنے لگے ۔۔ کیوں بہن جی میں ٹھیک کہہ رہا ہوں ناں؟؟؟؟؟؟؟۔۔۔۔۔۔تو امی نے اسی حالت میں ۔۔ ہاں میں سر ہلا دیا۔۔۔ اس کے بعد راشدی صاحب پھر سے اپنی موٹی بیگم سے مخاطب ہوئے اور کہنے لگے۔۔بیگم آپ بے غم ہو کر سو جاؤ۔۔۔ گھرکی دیکھ بھال کے لیئے۔ مسرت بہن ہے نا۔۔۔۔اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنی جناح کیپ سیدھی کی اور پھر گھر سے باہر چلے گئے،۔۔۔۔ان کے جانے کے بعد اماں دوپہر کا کھانا بنانے کے لیئے کچن میں گھس گئیں۔۔۔اور میں کاکے کو لیکر کر باہر آ گئی۔۔۔۔۔ اور پھر باہر نکل کر اس کمرے کا جائزہ لینے لگی کہ جہاں پر چودائی ہونا تھی۔۔۔ کمرے کا معائینہ کرنے کے بعد میں خاصی مایوس ہوئی کیونکہ کمرے میں چھپنے کے ل یئے مجھے کوئی خاص جگہ نظر نہ آئی تھی۔۔۔۔۔۔۔ لیکن پھر اچانک ہی میری نظر کھڑکی پر چلی گئی۔۔۔۔ دیکھا تو اس پر چٹخی لگی ہوئی تھی۔۔۔۔۔ اس لیئے میں آگے بڑھی ۔۔۔ کھڑکی کے بند پٹ کو تھوڑا سا کھول کر باقی کے آگے پردہ کر دیا۔پٹ اس لیئے کھولا کہ دیکھنے کے ساتھ ساتھ مجھے اندر کی آوازیں بھی سننا تھیں ۔یہ کام کر کے میں نے پلنگ کی طرف دیکھا تو محسوس ہوا کہ پلنگ اور کھڑکی کا بلکل ساتھ ساتھ تھے ۔۔ یا یوں کہیئے کہ پلنگ کھڑکی سے چند ہی انچ کے فاصلے پر بچھا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔۔یہ سب محسوس کرتے ہی ۔۔۔ میرا دل دھک دھک کرنے لگ پڑا ۔۔۔کیونکہ ۔۔۔۔۔۔ آج میں اپنی امی کا ایک غیر محرم کے ساتھ چودائی شو دیکھنے جا رہی تھی ۔۔۔۔
ہر چیز اوکے کرنے کے بعد میں کاکے کو لیئے باہر آئی ۔۔۔اور پھر صحن سے گھوم کر کچن کی طرف چلی گئی۔ اس وقت تک ایک گھنٹہ ہو چکا تھا۔۔۔۔۔ چناچہ کچن میں داخل ہو کر میں امی سے بولی۔۔۔۔۔ امی میرے جانے کا وقت ہو گیا ہے۔۔۔ تو وہ کہنے لگی ۔۔۔ٹھیک ہے بچے کو تم اس کی ماں کو پکڑا آؤ۔۔ امی کی بات سن کر میں راشدی صاحب کی مسز کی طرف گئی ۔۔۔تو حسبِ معمول وہ انٹا غفیل ہو چکی تھی ۔۔۔ اس لیئے میں کاکے کو لیئے اُلٹے قدموں سے واپس آئی اور امی سے بولی ۔۔۔وہ تو سوئی ہوئی ہیں ۔۔اس پر امی نے اُٹھ کر میرے ہاتھ سے کاکے کو پکڑا۔۔۔۔ اورکہنے لگیں۔۔۔ ٹھیک ہے پتر تم جاؤ۔۔۔ اس طرح میں امی سے اجازت لیکر ان کے سامنے گھر سے باہرنکل گئی۔۔جیسے ہی گھر سے باہر نکلی تو دیکھا تو سامنے سے راشدی صاحب ایک چھوٹی سی بچی کو لیئے گھر میں داخل ہو رہے تھے۔۔ مجھے دیکھ کر بڑی شفقت سے پیش آئے ۔۔۔
ان کے گھر سے نکل کر میں دبے پاؤں چلتی ہوئی ساتھ والے گھر میں داخل ہو گئی ۔۔۔ اتفاق سے خاتونِ خانہ ۔۔۔ کہیں آگے پیچھے گئی ہوئی تھی۔۔ویسے بھی اگر وہ یہاں ہوتی بھی تو میں نے کوئی نہ کوئی بہانہ لگا کر چھت پر چلے جانا تھا ۔۔۔۔ اس لیئے میں ۔۔ سیڑھیاں چڑھ کے ان کے چھت پر پہنچ گئی۔۔۔ اور ایک کونے میں جا کر کھڑی ہو گئی جہاں سے راشدی صاحب کے گھر کا منظر صاف دکھائی دے رہا تھا ۔۔۔ ۔۔۔پھر میں نے دیکھا کہ کچھ ہی دیر بعد وہ لڑکی کاکے کو لیکر باہر نکل گئی ۔۔۔۔ اور اس کے جانے کے چار پانچ منٹ بعد راشدی صاحب اپنے دروازے کی دہلیز پر آئے اور دروازے سے سر باہر نکال کر بڑی چور نگاہوں سے گلی میں جھانک کر دیکھا۔۔۔۔ پھر انہوں نے اپنا سر اندر کیا اور واپس مُڑکر دروازے کو کنڈی لگا دی۔۔۔ اس کے بعد وہ اپنی بیگم کے کمرے میں گئے ۔۔اور اپنی بیگم کو سوتا دیکھ کر ۔۔۔۔ انہیں قدموں سے واپس آگئے۔۔۔ اور پھر چودائی والے کمرے میں داخل ہو گئے ۔۔۔ جیسے ہی راشدی صاحب چودائی والے کمرے میں داخل ہوئے میں دبے پاؤں آگے بڑھی۔۔۔۔ان کے ہمسائیوں کی چھوٹی سی دیوار کو پھلانگ کر ۔۔۔راشدی صاحب کی چھت پر آ گئی ۔۔۔۔ اور پھر ان کی چھت سے ممٹی میں گئی اور پھر سیڑھیوں سے ہوتے ہوئے دبے پاؤں نیچے اترنے لگی۔۔۔۔۔ پھر وہاں سے چلتی ہوئی اسی کھڑکی کے پاس پہنچی ۔۔۔۔۔ اور ایک سائیڈ پر ہو کر اندر کا منظر دیکھنے لگی۔۔۔۔۔۔
جیسا کہ میرا اندازہ تھا۔۔۔۔۔۔اندر کا منظر بہت دل کش اور ہاٹ تھا۔۔۔۔ امی اور راشدی صاحب ایک دوسرے کے گلے سے لگے ہوئے تھے۔۔۔اور راشدی صاحب امی کے گالوں کو چوم کر کہہ رہے تھے۔۔۔۔مسرت تمہارے گال بڑے تپے ہوئے ہیں ۔۔۔اس پر امی نے ان کو جوابی پپی دی اور کہنے لگیں ۔۔۔ تم گالوں کی گرمی کی بات کر رہے ہو۔۔۔ زرا آگے بڑھ کر تو دیکھو۔۔۔۔ میرا تو پورا وجود ہی تپا ہوا ہے ۔۔اور اندر کی گرمی سے میرا برا حال ہو رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ امی کی بات سن کر راشد ی صاحب بولی ۔۔۔ تمہاری گرمی کے علاج کے لیئے میرے پاس بڑا سا کھیرا ہے۔جو اندر جاتے ہی تمہیں ٹھنڈ ڈال دے گا۔۔۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے ایک بار پھر امی کے منہ سے اپنا منہ جوڑ لیا۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ کمرے کی فضا میں پوچ پوچ کی مخصوص آوازیں سنائی دینے لگیں ۔۔پھر کسنگ کرتے ہوئے راشدی صاحب نے اماں کو پلنگ پر لٹا دیا اور خود ان کے اوپر لیٹ کر ان کے منہ میں اپنی زبان ڈال دی ۔۔۔۔ اور دور سے میں نے دیکھا کہ راشدی صاحب ۔۔۔ اپنی زبان کو بار بار اماں کے منہ میں لا ۔۔ لے جا رہے تھے۔۔۔۔ یہ سین دیکھ کر میری بھی پھدی گرم ہونا شروع ہو گئی۔۔۔ لیکن میں نے اس پر کوئی توجہ نہ دی اور چپ چاپ اندر کا نطارہ دیکھتی رہی ۔۔۔۔۔۔۔ کافی دیر تک کسنگ کے بعد راشدی صاحب اوپر اُٹھے اور اپنی قمیض کو اتارنا شروع کر دیا ۔۔۔۔۔ یہ دیکھ کر اماں بھی پلنگ سے نیچے اتریں ۔ اور انہوں نے بھی اپنے کپڑے اتارنا شروع کر دیئے۔۔۔ کچھ ہی دیر میں وہ دونوں ننگے ہو گئے تھے ۔۔۔۔ راشدی پلنگ پر جبکہ اماں نیچے فرش ننگی کھڑی تھیں ۔۔۔۔ واؤؤؤ۔۔۔ جیسا کہ میں نے پہلے بھی بتایا ہے کہ اماں کا جسم تھوڑا بھاری تھا ۔۔۔سینے پر بڑی بڑی چھاتیں تھیں ۔۔۔۔ اور ان چھاتیوں پر ۔۔ ان کے گہرے براؤن رنگ کے موٹے نپلز۔۔ اکڑے کھڑے تھے۔۔ چھاتیوں کے نیچے ان کا تھوڑا بڑا سا پیٹ تھا ۔۔۔اور پیٹ کے عین درمیان میں ایک دل کش گول سا گڑھا تھا ۔۔۔جسے پنجابی میں دُھنی اور اردو میں ناف کہتے ہیں۔۔۔۔۔ اس پیٹ کے نیچے ان کی کافی موٹی رانیں تھیں ۔۔۔اور یہ رانیں اس قدر موٹی تھیں کہ یہ آپس میں ملی ملی ہونے کی وجہ سے ۔۔۔۔ اماں کی خاص چیز ۔۔۔۔ یعنی کہ ان کی چوت ان کے پیچھے کو چھپی ہوئی تھی۔۔۔۔لیکن پھر بھی رانوں کے ختم ہونے پر چوت کے اوپر والے حصے کو دیکھ میرے اس اندازے کی تصدیق ہو گئی کہ اماں نے اپنی چوت کی تازہ شیو کی تھی۔۔۔۔
کپڑے اتارنے کے بعد اماں واپس بستر پر آ گئیں اور پلنگ پر لیٹ کر راشدی صاحب کی طرف دیکھنے لگیں۔۔۔۔۔۔ ۔ اس وقت راشدی صاحب بھی کپڑے اتار کے اپنے گھٹنوں کے بل کھڑے اماں کی طرف دیکھ رہے تھے۔۔۔ دونوں کی نظروں سے ہوس اور شہوت ٹپک رہی تھی ۔۔اور ان کو دیکھ کر میری چوت سےبھی رس ٹپک رہا تھا۔۔۔۔ پھر میرے دیکھتے ہی دیکھتے راشدی صاحب آگے بڑھے اور اماں کے پاس بیٹھ گئے اور ۔۔۔ پھر اپنے ہاتھ اماں کی چھاتیوں پر لے گئے اورسیکسی آواز میں کہنے لگے۔۔۔۔مسرت۔۔۔ تمہاری چھاتیوں کو چوس لوں؟۔۔۔۔ تو نیچے سے اماں بھی شہوت بھرے لہجے میں کہنے لگیں ۔۔۔ میں نے اپنی چھاتیاں ننگی ہی اس لیئے کی ہیں کہ تم ان کو چوسو ۔۔۔۔ اماں کی بات سن کر راشدی صاحب نیچے جھکے اور اماں کے ایک نپل کو اپنے منہ میں لے لیا اور اسے چوستے ہوئے دوسرے نپل کو مسلنے لگے۔۔
اس وقت راشدی صاحب کے منہ میں اماں کی بھاری چھاتی کا ایک نپل تھا جبکہ دوسرے ہاتھ سے وہ اماں کی دوسری چھاتی کے نپل کو مسل رہے تھے ۔۔۔۔اس نپل کو مسلتے ہوئے اچانک ہی انہوں نے اپنے منہ سے دوسرا نپل نکالا اور اماں کی طرف دیکھ کر کہنے لگے ۔۔مسرت تمہاری چوچیاں ( نپلز) بہت سخت ہو رہی ہیں تو اماں نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔ چوچیاں سخت ہونے کا کیا مطلب ہوتا ہے۔۔تو راشدی صاحب کہنے لگے ۔۔۔ چوچیاں سخت ہونے کا مطلب ہے تم چودائی کے لیئے تیار ہو ۔۔۔ اس پر اماں ہنسے لگی اور بولیں۔۔۔ اتنے عرصے بعد ان پر تیرا ہاتھ لگا ہے تو کیا یہ سخت نہیں ہوں گی؟؟ ۔۔۔ پھر کہنے لگیں جہاں تک چودائی کے لیئے تیاری کا تعلق ہے۔۔۔تو اس کے لیئے نپلز کا سخت ہونا ضروری نہیں ۔۔ کیونکہ میں تو ہر وقت ہی چودائی کے لیئے تیار ہوتی ہوں ۔۔۔ پھر انہوں نے راشدی صاحب کے سر پر ہاتھ رکھا اور اپنی چھاتیوں کی طرف دبا کر کہنے لگیں ۔۔۔ اب ان کو چوس۔۔۔ اور راشدی صاحب اماں کی چھاتیوں کو اپنے منہ میں لیکر چوسنے لگے۔۔۔۔ کچھ دیر بعد انہوں اماں کی چھاتیوں سے اپنا منہ ہٹایا اور بولے۔۔۔۔ چل اب گھوڑی بن جا۔۔۔۔ یہ سن کر اماں نے بڑی غصیلی نظروں سے راشدی صاحب کی طرف دیکھا اور کہنے لگیں ۔۔۔ میں نے کہا تھا نا کہ میں تم کو بُنڈ نہیں دوں گی۔۔۔۔تو اس پرراشدی صاحب کہنے لگے ۔۔ٹھیک ہے بابا تم بنڈ نہ دینا لیکن اس پر ہاتھ تو پھیرنے دو نا۔۔۔۔ راشدی صاحب کی بات سن کر اماں پلنگ سے اوپر اُٹھیں اور ۔۔۔بڑبڑاتے ہوئے بولیں۔۔ ۔۔۔ چور چوری توں ۔۔جائے ۔۔پر ہیرا پھیری سے نہیں۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی وہ راشدی صاحب کے سامنے گھوڑی بن گئیں ۔۔۔
راشدی صاحب کے ساتھ ہی میں نے بھی زندگی میں پہلی دفعہ اماں کی ننگی بنڈ دیکھی تھی۔۔۔واہ ۔۔۔ کیا گول سی بنڈ تھی ۔۔۔اور اس پر اتنے سلیقے سے گوشت چڑھا ہوا تھا کہ ایک بوٹی بھی فالتو نہیں لگ رہی تھی۔۔ ۔۔۔۔اتنی شاندار بنڈ دیکھ کر ۔۔۔۔راشدی صاحب بڑے خوش ہوئے ۔۔۔۔اور اماں کی فومی بنڈ پر ہاتھ پھیرنے لگے ۔۔ اور پھر اچانک ہی ہاتھ پھیرتے پھیرتے راشدی صاحب نیچے جھکے اور ان کی بنڈ پر پیار کرنا شروع کر دیا ۔۔۔ پھر انہوں نے میرے دیکھتے ہی دیکھتے ۔۔۔اماں کی بنڈ کے دونوں پھاڑیوں کو اپنے ہاتھ کی انگلیوں سے الگ کیا اور بڑے غور سے ان کی موری کو دیکھنے لگے۔۔۔۔۔۔۔ اماں کی بڑی سی گانڈ پر ایک مناسب سائز کی موری تھی اور اس موری کے اس پاس گہرے براؤن رنگ گول سا حلقہ بنا ہوا تھا ۔۔۔۔ اور اس حلقے کے ارد گرد گہری گہری لکیروں کا ایک جال سا بنا ہوا تھا ۔۔۔۔ اور ہر لکیر ان کی موری پر ختم ہوتی تھی۔۔۔۔۔ اور میں نے دیکھا کہ اماں کی موری کا منہ کافی کھلا ہوا تھا ۔۔۔ جس کو دیکھ کر راشدی صاحب نے اپنی درمیان والی انگلی اپنے منہ میں ڈالی اور اسے اچھی طرح گیلا کرنے کے بعد تھوڑا سا تھوک اماں کی موری پر بھی پھینک دیا ۔۔۔۔ یہ دیکھ کر اماں نے مُڑ کر راشدی صاحب کی طرف دیکھا اور کہنے لگیں ۔۔۔۔ تم نے باز نہیں آنا۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی وہ سیدھی ہو کر لیٹ گئیں۔۔اور راشدی صاحب کی منت کے باوجو د بھی نہ مانی ۔۔اور کہنے لگی۔۔۔۔ اپنی گیلی انگلی سے میرا دانہ مسل۔۔۔۔۔یہ دیکھ کر راشدی صاحب نے اماں کی ٹانگوں کو پکڑ کر ان کو تھوڑا سا کھولا ۔۔۔۔۔ اور پھر ان کے درمیان آ کر بیٹھ گئے ۔۔۔اور پھر اسی گیلی انگلی کو اماں کے دانے پر رکھ دیا ۔۔۔اور پھر اس کا ہولے ہولے مساج کرنے لگے۔۔۔۔۔۔ راشدی صاحب کے مساج سے پہلے میں نے بڑی کوشش کی کہ میں اماں کی چوت کا نظارہ کر سکوں لیکن ۔۔۔۔ چونکہ ان کی چوت کے عین سامنے راشدی صاحب بیٹھے ہوئے تھے اس لیئے میں ایک جھلک بھی ان کی چوت کی نہ دیکھ سکی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
راشدی صاحب اماں کا دانہ سہلا رہے تھے ۔۔ اور پھر کچھ ہی دیر بعد اماں کے سارے بدن نے کسمسانا شروع کر دیا۔۔۔یہ دیکھ کر راشدے صاحب اماں کے دانے پر اور تیزی سے اپنا ہاتھ چلانے لگے۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی شاید انہوں نے اپنی انگلیوں کو اماں کی پھدی میں ڈال دیا تھا۔۔۔۔ کیونکہ کسمساتی ہوئی اماں اچانک سٹل ہو گئی تھی۔۔۔۔ اور پھر انہوں نے خود ہی اپنی ٹانگوں کو ہوا میں اُٹھا دیا اور راشدی صاحب کی طرف دیکھ کر کہنے لگیں۔۔۔۔راشدی ی ی ی ی ی۔۔۔ تیرا لن کھتے اے ( راشدی تمہارا لن کہاں ہے ) اماں کی بات سن کر راشدی صاحب نے اماں کی چوت سے انگلی نکالی اور گھٹنوں کے بل چلتے ہوئے اماں کے منہ کی طرف چلے گئے اور اپنا لن ان کے آگے کر کے بولے ۔۔۔ مسرت۔۔۔ یہ ہے میرا لن۔۔۔ راشدی صاحب کی بات سنتے ہی اماں نے ان کا لن اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا ۔۔۔۔ اور اسے سہلاتے ہوئے بڑی ہی مست اور شہوت بھری آواز میں کہنے لگیں۔۔۔۔۔۔
راشدی ۔۔۔۔تیرا ۔۔لوڑا کِنا سوہنا اے۔۔۔۔( راشدی تیرا لن کتنا خو ب صورت ہے) اماں کی بات سن کر راشدی صاحب نے اپنا ہاتھ تھوڑا پیچھے کی طرف کیا ۔۔۔اور اماں کی پھدی پر ہاتھ پھیر کر کہنے لگا۔۔۔ تیری پھدی بھی بہت سوہنی ہے میری جان۔۔۔ تب اماں نے اس کے لن پر ہاتھ پھیرنا بس کیا اور کہنے لگی ۔۔۔۔ تو پھر اس سوہنے کو میری سوہنی کے اندر ڈال دو ناں۔۔۔۔ اماں کی بات سن کر راشدی صاحب دوبارہ اماں کی دونوں ٹانگوں کے بیچ میں آ گئے اور اپنا لن پکڑ کر بولے ۔۔۔ مسرت جی بتاؤ کہ میں اپنے سوہنے کو آپ کی سوہنی کے اندر کہاں تک لے جاؤں؟۔۔۔ اس کی بات سن کر اماں پھنکارتے ہوئے کہنے لگیں ۔۔۔۔ کہاں تک کا کیا مطلب ۔۔۔۔۔۔۔لن سارے کا سارا میرے اندر ڈالو۔۔۔۔ اور خبردار جو اپنے لن کا ایک انچ بھی باہر رہنے دیا تو۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر اپنی دونوں ٹانگوں کے بیچ میں اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگیں ۔۔۔ راشدی مجھے اپنے یہاں تمہارے پورے کا پورا لوڑا چاہیئے۔۔۔۔۔ اور راشدی صاحب نے ان کی بات سن کر اپنے لن کے ہیڈ پر تھوڑا تھوک لگا کر اسے گیلا کیا ۔۔اور پھر اماں کی دونوں ٹانگوں کو اپنے کندھے پر رکھ کے بولا۔۔۔۔۔ مسرتی جی میں لن کواب میں اپنے سوہنے لن کو آپ کی چوت میں ڈالنے لگا ہوں۔۔۔ تو نیچے سے اماں چلاتے ہوئے بولیں ۔۔۔چھیتی کر ۔(جلدی کر)۔۔۔۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی راشدی صاحب نے ایک زور دار گھسہ مارا ۔۔۔۔اور ان کا سارا لن اماں کی چوت میں غائب ہو گیا ۔۔۔ جیسے ہی ان کا لن اماں کی چوت میں غائب ہوا ۔۔۔اماں نے ایک شہوت بھری سسکی لی۔۔۔۔۔۔ہائے ئے ئے ئے۔۔۔۔۔۔اور راشدی کی گانڈ پر ہاتھ پھیر کر بولیں۔۔۔ اب رکنا نہیں ۔۔۔۔ میری پھدی کو مارتے جاؤ۔۔۔۔ مارتے جاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اماں کی بات سن کر راشدی صاحب گھسہ مارتے ہوئے بولے۔۔۔ تمہاری پھدی میں لن چل پڑا ہے اب نہیں رُکے گا ۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی کمرہ ۔۔۔۔ چودائی کی مخصوص آوازوں سے گونجنے لگا۔۔۔۔۔۔۔جس میں اماں کی لزت آمیز سسکیوں کے ساتھ ساتھ راشدی کی زور داردھکوں کی آوازیں بھی شامل تھیں ۔۔۔
پھر کچھ دیر بعد راشدی صاحب اماں سے کہنے لگے۔۔۔ مسرت اب گھوڑی بنو اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنے لن کو اماں کی چوت سے باہر کھینچ لیا۔۔۔۔۔ راشدی کی بات سن کر اماں جلدی سے اُٹھی اور راشدی کے گلے لگ کر بولی۔۔۔ بڑا صواد اے تیرے لن وچ( تمہارے لن میں بڑا مزہ ہے) اور اس کے ساتھ ہی وہ راشدی کے سامنے گھوڑی بن گئیں۔۔۔۔ یہ دیکھ کر راشدی صاحب بھی اماں کے پیچھے آ کھڑے ہوئے۔۔۔ اور اپنے لن کو اماں کی چوت میں ایڈجسٹ کر کے ایک دھکا لگایا ۔۔۔۔۔ اور ان کی لن پھلستا ہوا اماں کی چوت میں داخل ہو گیا۔۔۔۔ جیسے ہی ان کا لن اماں کی چوت میں داخل ہوا۔۔۔۔ انہوں نے اپنا منہ پیچھے کیا اور بڑی سیکسی آواز میں بولیں ۔۔۔۔راشدی ۔۔۔ لن کو توڑ ( آخر ) تک لے جاؤ ۔۔۔۔۔ تو راشدی صاحب گھسہ مارتے ہوئے کہنے لگے ۔۔۔ فکر نہ کر مسرت ۔۔۔ لن توڑ تک ہی جائے گا اور پھر ایک مخصوص ردھم سے دھکے مارنا شروع کر دیئے۔۔۔ کمرہ دھپ دھپ کی آوازوں سے گونجنا شروع ہو گیا۔۔۔۔۔ اور ان دونوں کی چودائی کا منظر دیکھ کر میرا حال بہت برا ہو گیا تھا۔۔۔ خاص کر ڈوگی سٹائل میں جب راشدی صاحب پیچھے ہٹ کے اماں کی چوت میں ایک گھسہ مارتے تو ان کا لن جڑ تک اماں کی چوت میں چلا جاتا تھا اور اس کے ساتھ ہی ان کی رانیں اماں کی نرم بُنڈ میں کُھب سی جاتیں تھی۔۔ اور یہ منظر اتنا دل کش ہوتا کہ اسے دیکھتے ہوئے میری چوت نے بھی پانی چھوڑ دیا تھا۔۔۔۔ ہاں تو میں کہہ رہی تھی ۔۔ ردھم سے گھسے مارتے ہوئے اچانک ہی راشدی صاحب کی سپیڈ میں اضافہ ہو گیا ۔۔۔۔ یہ بات اماں نے بھی محسوس کر لی تھی ۔۔۔اور اپنا منہ پیچھے کی طرف کر کے کہنے لگیں۔۔۔۔ آخری گھسے ۔۔ہور زور دی مار۔۔۔۔(آخری گھسے اور زور سے مارو ) اماں کی بات سن کر راشدی صاحب مزید جوش میں آ گئے ۔۔۔۔۔۔ اور پھر اور سپیڈ سے گھسے مارنے شروع کر دیئے۔۔۔ ادھر ان دھکوں کی تاب نہ لاتے ہوئے اچانک ہی اماں چلانے لگیں ۔۔۔ راشدی ی ی ی ی ی۔۔ ی ی ۔۔۔ میں وغ ۔۔ گئی ( راشدی میں چھوٹ گئی) اور اس کے ساتھ ہی اپنی گانڈ کو راشدی صاحب کے لن کے ساتھ دبانے لگیں ۔۔۔ اس کے چند سیکنڈ کے بعد ۔۔۔۔ راشدی صاحب بھی گہرے گہرے سانس لیتے ہوئے بولی۔۔۔ مسرت۔ت۔میں بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی اماں کے اوپر ڈھے گئے۔۔۔ میرا خیال ہے اس وقت ان کا ان کا لن اماں کی چوت میں پچکاری مار رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔
ان کی چودائی ختم ہوتے دیکھ کر میں بڑی آہستگی سے واپس مڑی۔۔۔۔۔ اور پھر دبے پاؤں چلتی ہوئی جدھر سے آئی تھی اسی سمت واپس چلی گئی۔۔۔۔ اس وقت شہوت کے مارے میرا بڑا برا حال ہو رہا تھا۔۔۔۔ اور میں جلد از جلد گھر پہنچ کر فنگرنگ کرنا چاہتی تھی۔۔۔۔ اس لیئے تیز تیز چلتی ہوئی جیسے ہی میں گھر پہنچی ۔۔۔۔ اور سیدھی اپنے کمرے میں جا کر اچھی طرح فنگرنگ کی۔۔۔۔ اور جب میری پھدی نے اچھا خاصہ پانی چھوڑ دیا تھا تو میں کمرے سے باہر آ گئی۔۔۔ یاد آیا کہ صبح کچھ کپڑے دھو کر تار پر لٹکائے تھے۔۔۔ جو اب تک سوکھ گئے ہوں گےچل کر ان کو اتار لوں اور پھر میں سیڑھیاں چڑھتے ہوئے ۔۔۔اوپر اپنے چھت پر پہنچ گئی۔۔۔ ابھی میرا ایک پاؤں ۔ممٹی سے باہر چھت پر پڑا تھا کہ اچانک کھڈے کی طرف سے میرے کانوں میں ایک درد بھری آواز سنائی دی۔۔۔۔ ہائے ۔بار کڈ لے۔ بڑی۔۔۔۔ پیڑ ہوندی اے(ہائے باہر ۔۔۔ نکا لو مجھے بڑی درد ہو رہی ہے )۔۔۔ یہ آواز سن کر میں ٹھٹھک گئی۔۔۔ اور پھر دبے پاؤں چلتی ہوئی اپنے کھڈے کے سوراخ کے پاس پہنچ گئی۔۔۔ وہاں سیکس سے بھر پور یہ آواز کچھ اور واضع سنائی دے رہی تھی ۔۔۔کہ بار کھڈ۔۔۔ پیڑ ہوندی اے( باہر نکالو بڑی درد ہو رہی ہے) آواز سن کر میں نے کھڈے کے سوراخ سے جھانک کر دیکھا تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میری آنکھیں حیرت سے کھلی کی کھلی رہ گئیں تھیں ۔۔۔۔ وہ ۔۔۔۔۔۔وہ۔۔۔ وہ۔۔۔۔۔۔
وہ ۔۔وہ۔۔ کھڈے میں گانڈ مروانے والی اور کوئی نہیں بلکہ میری چھوٹی بہن زیب تھی۔۔۔جسے اس حالت میں دیکھ کر میں حکا بقا رہ گئی تھی ۔۔ جبکہ دوسری طرف وہ اس لڑکے کے لن کو اپنی گانڈ میں لیئے بڑے ہی سیکسی انداز میں سسک رہی تھی اور سسکیاں لینے کے ساتھ ساتھ اس فکنگ کو انجوائے بھی کر رہی تھی۔۔۔ مناسب ہو گا کہ یہاں پڑھنے والوں کو میں زیب کے بارے میں کچھ بتا دوں وہ گہرے سانولے رنگ کی ایک موٹی سی لڑکی تھی۔۔۔ اور اس چھوٹی سی عمر میں بھی اس کی گانڈ مجھ سے کافی موٹی اور دیکھنے میں کافی سیکسی تھی جیسا کہ میں نے ابھی آپ کو بتایا کہ زیب گہرے سانولے رنگ کی۔۔۔۔ جبکہ اس کے بر عکس ۔۔۔ وہ لڑکا جو کہ اس وقت زیب کی گانڈ مار رہا تھا ۔۔زیب کی نسبت بہت گورا چٹا سا تھا ۔۔۔۔ اس کا نام ساجد تھا اور وہ ہمارے چاچے کا بیٹا اور عاشی کا چھوٹا بھائی تھا ساجد زیب سے چھ ماہ بڑا اور بہت ہی سلم اور سمارٹ ۔۔ بلکہ کمزور سا لیکن بہت حرامی قسم کا لڑکا تھا ۔۔ چونکہ ساجد کی رنگت گوری تھی ۔۔۔۔ اس لیئے کھڈے میں اس وقت بلیک اینڈ وہائیٹ چودائی کا ایک دلکش منظر نظر آ رہا تھا ۔اور ساجد کا گورا لن زیب کی کالی گانڈ میں اندر باہر جاتے ہوئے بہت دل کش لگ دے رہا تھا ۔۔۔۔اور ساجد کے لن کو اندر باہر ہونے کے ساتھ ساتھ میں نے دیکھا کہ جیسے ہی ساجد گھسہ مارتا تو ۔۔۔گھسے کے ساتھ ہی تھوڑا ۔۔۔۔آگے پیچھے ہونے سے زیب کی بڑ ی سی کالی گانڈ بہت چمک رہی تھی ۔پہلے میں سمجھی کہ یہ آئیل ہو گا جو ساجد نے اس کی گانڈ مارنے کے لیئے اس پر لگایا ہو گا ۔۔لیکن پھر یاد آیا کہ آئیل تو صرف موری پر لگایا جاتا ہے ۔۔۔۔جبکہ یہاں تو زیب کی پوری گانڈ ۔۔۔ہی اس لیکوئڈ کی وجہ سے چمک رہی تھی لیکن پھر غور کرنے پر پتہ چلا کہ یہ تو وہ تھوک تھا جو یا تو زیب کی گانڈ کو چکنا کرنے کے لیئے ساجد نے لگایا ہو گا ۔۔۔یا پھر دوسری صورت میں اس نے اندر ڈالنے سے پہلے اس کی گانڈ کو خوب چاٹا تھا ۔جس کی وجہ سے زیب کی گانڈ ابھی بھی تھوک کی وجہ سے بہت چمک رہی تھی ۔۔۔۔
۔۔ اور اس چمک دار گانڈ میں جب ایک گورے رنگ کا لن اندر باہر ہوتا تو وہ نظارہ کم از کم مجھے تو بہت اچھا لگ رہا تھا ۔۔۔لیکن دوسری طرف اس لن کے اندر باہر ہونے سے زیب کی ٹائیٹ گانڈ اس لن کی تاب نہ لا رہی تھی اس لیئے درد کی وجہ سے زیب کبھی ہلکے اورکبھی اونچے سُروں میں شور مچا رہی تھی کہ ہائے بڑی پیڑ ہوندی اے ۔۔۔ اینوں بار کڈ لے۔۔۔( مجھے درد ہو رہا ہے اس کو باہر نکا لو۔) ۔۔۔ لیکن اس کے کراہنے کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ۔۔۔ساجد نے جب نسبتاً ایک زور دار گھسہ مارا تو اس کے ساتھ ہی زیب ساجد سے کہنے لگی۔۔۔ ۔۔کہ ہائے میں مر گئی ساجد۔۔۔اور پھر سی۔۔۔سی۔۔ کرتے ہوئے ۔۔۔ بولی ۔۔۔ ایڈی زور دی نہ مار ۔۔ظالما ۔۔۔مینوں بڑی پیڑ ہوندی اے۔۔( ظالم اتنے زور سے نہ مارو کہ مجھے بہت درد ہو رہا ہے) ۔۔۔ زیب کی ہائے فریاد سن کر ساجد کو شاید اس پر کچھ رحم آ گیا تھا اسی لیئے اس دفعہ اس کی درد بھری چیخ سن کر وہ کہنے لگا۔۔۔۔ زیب اگر تم کو زیادہ درد ہو رہا ہے تو میں اسے ( لن کو ) باہر نکال لوں؟ اس پر زیب بڑے ہی دل کش انداز میں کراہتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔۔۔ اتنی مشکل سے تو اندر لیا ہے اس لیئے اب اس کو اندر ہی رہنے دو۔۔ یہ سن کر ساجد بڑے پیار سے بولا۔۔۔۔ اس کا مطلب ہے کہ تم کو اس کا مزہ آ رہا ہے تو زیب کہنے لگی ۔۔۔ ہاں لیکن یہ بڑا عجیب مزہ ہے کہ جس میں درد کے ساتھ ساتھ تمہارے اندر باہر کرنے سے ایک عجیب سا مزہ بھی مل رہا ہے ۔۔۔ پھر اس نے اپنا منہ پیچھے کی طرف کیا اور ساجد کی طرف دیکھ کر بولی۔۔۔۔۔۔۔ ساجد ۔۔۔۔۔۔۔ہن ہولی ہولی اندر بار کریں ۔۔۔( ساجد اب بڑے آرام آرام سے اِن آؤٹ کرنا) اپنی چھوٹی بہن کو ساجد سے گانڈ مرواتے ہوئے دیکھ کر ایک لمحے کے لیئے تو میں غصے میں آ گئی ۔۔کہ بھلا اس کی عمر ہی کیا ہے جو ۔۔۔۔۔۔۔ابھی سے اس دھندے میں ۔ ۔۔۔ یہ سوچتے آتے ہی اچانک میرے ذہن میں خیال آیا کہ میں اس سے چھوٹی تھی جب میں نے اپنا سیکس پروگرام شروع کیا تھا ۔۔۔ اس سوچ کا آنا تھا کہ میں نے ان کو پکڑنے یا ڈانٹنے کا پروگرام ملتوی کر دیا اور پھر دل ہی دل میں یہ کہتے ہوئے وہاں سے چلی گئی۔۔۔ کہ لگی رہو میری بہنا۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ بعد میں کسی مناسب وقت پر میں تمہیں ساجد کے بارے میں بریف کر دوں گی۔۔۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی میں نے کھڈے کے سوراخ سے لگی اپنی آنکھ ہٹائی اور پھر دبے پاؤں چلتے ہوئے واپس اپنے کمرے میں آ گئی ۔۔۔
پھر کمرے میں ا ٓ کر ۔۔۔ میں اپنی چارپائی پر بیٹھ گئی ۔۔۔اور سوچنے لگی کہ زیب نے ساجد کے ساتھ سیکس کر کے کوئی اچھا کام نہیں کیا ۔۔۔۔پھر سوچ آئی کہ چلو جو ہو گیا۔۔۔۔ سو ہو گیا ۔۔۔لیکن اب مسلہ یہ تھا کہ آئندہ کے لیئے میں اپنی بہن کو ساجد کے ساتھ ایسی حرکات کرنے سے کیسے روکوں ؟ میں کافی دیر تک اس سبجیکٹ پر غور کرتی رہی لیکن کچھ سمجھ نہ آیا۔۔۔۔ اسی اثنا میں اماں بھی گھر واپس آ گئیں ۔۔۔اور میں نے دیکھا کہ باقی دنوں کی نسبت آ ج وہ بہت خوش اور فریش فریش لگ رہی تھیں ۔۔۔۔اماں کو اس حالت میں دیکھ کر میں نے دل ہی دل میں ایک فیصلہ کیا ۔۔۔۔۔۔ اور پھر اس کے بعد گھر کے کام کاج کرتے ہوئے دن تو گزر گیا لیکن ۔۔۔۔۔میرا سارا دھیان زیب اور ساجد کی طرف ہی لگا رہا۔۔۔ کہ میں کونسا طریقہ استعمال کر کے زیب کو سمجھاؤں کہ جس سے وہ ساجد کے ساتھ سکیس کرنے سے باز آ جائے۔۔۔ اسی رات کا ذکر ہے کہ ۔۔۔۔ میں اور بھائی 69 کر رہے تھے کہ میری چوت چاٹتے ہوئے اچانک ہی بھائی نے اپنے منہ کو وہاں سے ہٹایا اور کہنے لگا۔۔۔ کیا بات ہے باجی ۔۔۔آج سیکس کرنے پر دل نہیں کر رہا کیا؟ تو میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے بڑی حیرانی سے کہا یہ تم کیسے کہہ سکتے ہو؟ دیکھ لو تمہارے لن کو چوس تو رہی ہوں اور کیا کروں؟؟؟؟۔۔۔ تو میری بات سن کر وہ کہنے لگا۔۔۔ وہ تو ٹھیک ہے پر باجی آپ میرے لن کو اتنے برے انداز میں چوس رہی ہو کہ مجھے زرا بھی مزہ نہیں آ رہا ۔۔ پھر کہنے لگا ۔۔ یہ تو بتاؤ باجی کہ آخر چکر کیا ہے؟ اسکی بات سن کر میں جلدی سے اُٹھی اور سیدھی ہو کر چارپائی پر بیٹھ گئی اور اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولی ۔۔ سوری بھائی میں تم سے ڈسکس کرنا بھول گئی۔۔۔۔میری بات سن کر بھائی بھی اپنی جگہ سے اُٹھ بیٹھا اور میرے سامنے بیٹھ کر بولا ۔۔۔۔ سب خیر تو ہے نا باجی؟؟؟؟؟ ۔۔۔ اس پرمیں نے اس کی طرف دیکھا اور کہنے لگی ۔۔۔ہاں خیریت ہی ہے ۔۔۔۔ پر۔۔ یار ہمارے گھر میں ایک مسلہ آن پڑا ہے ۔۔ میری بات سن کر بھائی میرے اور قریب آیا اور کہنے لگا۔۔۔ بتاؤ تمہارے ساتھ کیا پرابلم پیش آ گئی ہے ؟ اس پر میں نے بڑے ہی سنجیدہ لہجے میں اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔ نہیں بھائی مجھے کچھ نہیں ہوا ہے۔۔ ہاں ۔۔۔۔ ہمارے گھر میں ایک پرابلم ضرور چل رہی ہے۔۔ اس پر شبی نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ۔۔۔ کون سی پر ابلم باجی؟ کچھ بتاؤ گی بھی ؟ یا یونہی پہلیاں بجھواتی رہو گی تب میں نے شبی کو دن میں ہونے والے زیب اور ساجد کے بیچ ہونے والے واقعہ کے بارے میں بتا دیا۔۔۔ جسے سن کر وہ بڑا حیران ہوا اور بڑی فکرمندی سے کہنے لگا۔۔۔ باجی زیب تو ابھی بہت چھوٹی ہے۔۔۔ اور دوسری بات یہ کہ ساجد کو میں اچھی طرح سے جانتا ہوں وہ کوئی اچھا لڑکا نہیں ہے۔۔
مزید یہ کہ وہ پیٹ کا بہت ہلکا ہے۔۔ایسا نہ ہو کہ وہ زیب کو بدنام نہ ہو جائے۔۔ ۔اس پر میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ یہ بات تو مجھے بھی معلوم ہے۔۔۔ کہ ساجد ایک چھچھورا لڑکا ہے ۔۔۔ تم بس یہ بتاؤ کہ ہم اس کام سے زیب کو کیسے روک سکتے ہیں؟ بھائی کچھ دیر تک سوچتا رہا پھر کہنے لگا۔۔کیوں نہ میں ساجد کو پکڑ کر ایک زبردست سی پھینٹی لگا دوں کہ میری بہن کے ساتھ یہ کام کرنے سے سے باز آ جائے۔۔بھائی کی بات سن کر میں نے اس سے کہا کہ کسی قسم کا بھی تشدد اس مسلے کا حل نہیں ہے کہ تشدد سے ان میں بغاوت پیدا ہو گی۔اس لیئے کچھ اور سوچو۔۔۔میری بات سن کر بھائی تھوڑی سوم میں پڑ گیا۔۔۔اور کچھ دیر سوچنے کے بعد اس نے سر اُٹھا کر میری طرف دیکھا اور کہنے لگا اگر تشدد نہیں کرنا ۔۔۔۔تب باجی ۔۔ ایک ہی طریقہ ہے کہ میں ان دونوں کو رنگے ہاتھوں پکڑ لوں اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ اس سے وہ دونوں ڈر جائیں گے اور دوبارہ ایسی حرکت نہیں کریں گے ۔۔۔ بھائی کی یہ بات سن کر میں نے اس سے کہا ۔۔ نہیں بھائی سیکس ایک ایسا چسکا ہے کہ ایک بار جس کواس کی لت پڑ جائے وہ پھر اس کا اسیر ہو جاتا ہے ۔۔۔۔ میری بات سن کر بھائی کہنے لگا کہ آپ کی اس بات کا کیا مطلب ہے باجی؟ تو میں نے اس کو سمجھانے کی غرض سے کہا کہ بھائی سیکس ایک سپرنگ کی طرح ہوتا ہے ۔۔۔ اس کو جتنا بھی دبانے کی کوشش کرو یہ اتنا ہی اوپر کو ابھرتا ہے اور جتنی مرضی ہے اس کو روکنے کی کوشش کرو ۔۔۔۔ یہ روکے نہیں رکتا ۔۔۔ میری بات سن کر بھائی فکر مندی سے کہنے لگا۔۔۔۔ تو باجی کچھ آپ ہی اس پر روشنی ڈالو کہ زیب کو اس کام سے کیسے روکا جائے؟؟؟ ۔کیونکہ مجھے اس بات کا اچھی طرح اندازہ ہے کہ زیب سے سیکس کرنے کے بعد ساجد نے یہ بات اپنے سارے دوستوں کو بتا دینی ہے ۔۔۔ جس سے محلے میں ہماری اچھی خاصی بدنامی ہو جائے گی۔۔۔پھر اسی پریشانی کے عالم میں کہنے لگا ۔۔باجی ۔ میری تو کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا کہ میں اس بات سے زیب کو کیسے روکوں ؟۔۔ بھائی کی بات سن کر میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔ کہ بھائی ۔۔ زیب کو روکنے کا بس ایک ہی طریقہ ہے۔۔۔ تو بھائی جلدی سے بولا ۔۔ وہ کیا باجی ؟
اس پر میں نے بھائی کی طرف دیکھتے ہوئے بڑے ہی معنی خیز طریقے سے کہا کہ اس کے لیئے زیب کو کوئی ترغیب دینی پڑے گی ۔۔۔۔میرا خیال ہے کہ میری یہ زُو معنی بات بھائی کی سمجھ میں نہیں آئی ۔۔۔۔تبھی تو وہ ہونقوں کی طرح میری طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگا ۔۔۔ ۔۔سوری باجی میری سمجھ میں تو آپ کی یہ بات بلکل بھی نہیں آئی۔۔ ۔۔ اس پر میں نے بھائی سے کہا ۔۔ تم کو زیادہ مغز کھپائی کی ضرورت نہیں ہے بس جیسے میں کہوں گی تم کرتے جاؤ ۔۔۔ میری باس سن کر وہ بڑے ادب سے کہنے لگا ٹھیک ہے باجی جیسا آپ کہو گی میں کروں گا ۔ وہ اسلیئے کہ میں اپنی بہن کو اس فضول لڑکے کے چُنگل سے نکالنا چاہتا ہوں ۔۔ کیونکہ اگر میں نے ایسا نہ کیا تو کچھ ہی دنوں میں وہ اس پورے علاقے میں بدنام ہو جائے گی۔ بھائی کی بات سن کر میں نے اس سے کہا کہ میں بھی یہی چاہتی ہوں اس لیئے ۔۔۔ سب سے پہلے تم نے ایسا کرنا ہے کہ ان کو کو رنگے ہاتھوں پکڑو ۔۔۔اس کے بعد کیا کرنا ہے وہ میں تم کو بعد میں بتاؤں گی۔۔۔ میری بات سن کر بھائی نے ہاں میں سر ہلایا ۔۔۔۔اور پھر ہم دونوں مل زیب اور ساجد کو رنگے ہاتھوں پکڑنے کے منصوبے بنانے لگے۔۔۔ جب ہمارا منصوبہ فائینل ہو گیا تو میں نے بھائی ۔۔۔۔اور بھائی نے میری طرف دیکھا ۔۔اور اس کے ساتھ ہی ہم دونوں کی آنکھوں میں ایک سر شاری کی کیفیت پیدا ہو گئی اور اسی سرشاری کے عالم میں۔۔۔۔ میں نے اپنا منہ بھائی کے آگے کر دیا ۔۔۔ بھائی نے بھی اسی سرشاری کے عالم میں اپنے منہ کو میرے منہ کے ساتھ جوڑ دیا ۔۔۔ اور پھر ہم دونوں کے ہونٹ آپس میں لاک ہو گئے اور اسی دوران میں نے ہاتھ بڑھا کر بھائی کا نیم مرا ہوا لن کہ جس میں اس وقت جان پڑ رہی تھی ا پنے ہاتھ میں پکڑ لیا ۔۔۔۔ اور بھائی کے ساتھ کسنگ کرتے ہوئے اس کے لن کو آگے پیچھے کرنے لگی۔۔۔
ادھر راشدی صاحب اور اماں کے چودائی شو کے دوران اماں کا میرے بارے تبصرہ سن کر میں ان کی ساری بات کو سمجھ چکی تھی چنانچہ اس دن کے بعد میں نے اماں کے ساتھ چپکے رہنا اور کباب میں ہڈی بننا چھوڑ دیا تھا۔۔۔۔ بلکہ اب میں کوشش کر کے ان سے دور دور رہنے لگ گئی تھی جس کی اصل وجہ یہ تھی کہ میں اماں کو مواقعہ دینا چاہتی تھی کہ وہ کھل کر راشدی صاحب کے ساتھ اپنے دل کی حسرتیں پوری کر لیں ۔۔۔۔۔ چنانچہ اس پلان کے تحت اب میں صبع اماں کے ساتھ راشدی صاحب کے گھر آتی پھر اماں کے ساتھ ہی ان کی بیوی کے ساتھ کچھ گھڑیاں گپ شپ کرتی ۔۔۔۔ اور پھر جب وہ سونے کے لیئے لیٹ جاتی تھیں۔۔۔۔ تو میں ۔۔۔۔۔ کاکے اور کبھی کبھی راشدی صاحب کی بیٹی کو بھی ساتھ لیکر کر ان کو کھلانے کے لیئے باہر نکل جایا کرتی تھی۔۔۔ اور مجھے اس بات کا اچھی طرح سے اندازہ تھا کہ میری عدم موجودگی میں اماں اور راشدی صاحب خوب گل چھڑے اُڑاتے ہوں گے ۔۔۔ لیکن میں اس بات کو نظر انداز کر رہی تھی اور اماں کو انجوائے کرنے کے مواقعہ فراہم کر رہی تھی۔۔۔۔ میری اس حرکت سے اماں بہت خوش اور راضی تھی ۔۔ہاں کبھی کبھی موقعہ ملنے پرمیں ۔۔۔اپنے مزے کے لیئے ۔۔ ان کا تھوڑا بہت شو بھی دیکھ لیا کرتی تھی ۔۔
ایک دن کی بات ہے کہ میں کاکے اور راشدی صاحب کی بیٹی کو لیکر ہمسائیوں کے گھر گئی اور اس کے بچوں کے ساتھ راشدی صاحب کے بچے بھی کھیلنا شروع ہو گئے ۔۔۔۔۔ابھی ان بچوں کو کھیلتے ہوئے ہوئے آدھا گھٹہ ہی ہو ا تھا کہ ہمسائی کی بچی کے پیچھے بھاگتے ہوئے اچانک ہی راشدی صاحب کی بیٹی بڑے زور سے فرش پر گر گئی ۔۔۔ اور فرش پر گرتے ہی اس نے اونچی آواز میں رونا شروع کر دیا۔اس کی دیکھا دیکھی چھوٹے راشدی صاحب نے بھی رونا شروع کر دیا ۔۔۔ دونوں کو روتا دیکھ کر میرے ہاتھ پاؤں پھول گئے اور میں کبھی ایک کو چپ کرانے کی کوشش کرتی تو کبھی دوسرے کو۔۔ لیکن وہ دونوں بہن بھائی ایک ہی ٹون میں روئے جا رہے تھے خاص کر میں نے اس بچی کو چپ کرانے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن وہ مسلسل روتے ہوئے امی۔۔ امی کا ورد کر رہی تھی ۔۔۔ جب ہمسائی کہ جس کے گھر میں بچوں کو کھلانے کے لیئے لے کر گئی تھی نے دیکھا کہ بچی کسی بھی طور میرے قابو نہ آ رہی ہے تو وہ مجھ سے کہنے لگی کہ صبو بیٹا اس بچی نے اپنی اماں سے ہی چپ ہونا ہے تم ایسا کرو کہ اس کو لیکر گھر چلی جاؤ۔۔۔ اس خاتون کی بات سن کر میں سوچ میں پڑ گئی۔۔۔ وہ اس لیئے کہ میرے خیال میں ابھی راشدی صاحب اور اماں کا شو جاری ہو گا۔اور میں روتے ہوئے بچوں کو گھر لے جا کر انہیں ڈسٹرب نہیں کرنا چاہتی تھی ۔۔۔ اس لیئے میں نے بہانہ کرتے ہوئے اس خاتون سے کہا کہ خالہ جی اس وقت وہ بے چاری سوئی ہوں گی چنانچہ ۔۔ میں خود ہی انہیں اسے چپ کرانے کی کوشش کرتی ہوں ۔۔۔ لیکن میرے ہزار دفعہ چپ کرانے کے باوجود بھی ۔۔۔۔ وہ بچی نہ چپ ہوئی ۔یہ دیکھ کر وہ خاتون دوبارہ سے کہنے لگی بیٹی میری مانو تو اس کو اپنی امی کے پاس لے جاؤ اور اس بات کی فکر نہ کرو کہ اس وقت وہ سو رہی ہو گی کیونکہ وہ تو ہر وقت ہی سوئی رہتی ہے۔۔۔ چار و نا چار میں نے روتے ہوئے کاکے اور بچی کو ساتھ لیا اور راشدی صاحب کے گھر کی طرف چل پڑی ۔۔۔ اور راشدی صاحب کے دروازے سے تھوڑی دور ۔۔۔ سے ہی ۔۔۔۔۔۔ میں نے اونچی اونچی آوازوں میں بچوں کو چپ کرانا شروع کر دیا ۔۔ اور ان اونچی آوازوں میں بچوں کو چپ کرانے کا مقصد اماں لوگوں کو ہوشیار کرنا تھا کہ خبردار ہو جاؤ میں بچوں کو لے کر گھر آ رہی ہوں ۔۔۔۔۔۔ اور پھر ایسا ہی ہوا ،۔۔۔ جیسے ہی میں گھر میں داخل ہوئی تو دیکھا تو سامنے دونوں ہا تھ سینے پر باندھے راشدی صاحب کھڑے تھے۔۔۔ دونوں بچوں کو روتا دیکھ کر کہنے لگے ۔۔صبو بیٹا ۔۔۔ ان کو کیا ہوا؟ تو میں نے راشدی صاحب کو جواب میں بتلایا کہ کھیلتے ہوئے ان کی بیٹی فرش گر گئی تھی جس کی وجہ سے یہ رونا شروع ہو گئی تھی اور ابھی تک چُپ نہ ہو رہی ہے ۔۔۔ اتنا سن کر راشدی صاحب نے میرے ہاتھ سے بچی کو لیا اور اسے اُٹھا کر چپ کرانے لگ گئے۔۔۔ ۔۔ جبکہ کاکے کو میں نے چپ کرانا شروع کر دیا۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
ادھر راشدی صاحب نے اپنی بیٹی کو کاندھے سے لگایا اور ۔۔پھر میرے دیکھتے ہی دیکھتے کچھ ہی دیر میں روتے ہوئے وہ بچی نہ صرف چپ ہو گئی بلکہ راشدی صاحب کے کندھے سے لگ کر سو بھی گئی ۔۔۔ ۔۔۔ جبکہ دوسری طرف میری گود میں پکڑا ہوا کاکا ابھی تک رو رہا تھا جسے میں چپ کرانے کی ہر ممکن کوشش کر رہی تھی۔۔لیکن وہ کسی طور بھی چپ نہ ہو رہا تھا ۔۔۔ ۔۔۔ جیسے ہی بچی کی نیند تھوڑی گہری ہوئی ۔۔۔۔۔ راشدی صاحب اسے کاندھے سے لگائے ہوئے میرے پاس آئے اور کہنے لگے ۔۔تم اس کو اندر ( اپنی ماں کے پاس ) ڈال آؤ اتنے میں ۔۔۔ میں کاکے کو چپ کرانے کی کوشش کرتا ہوں ۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے سوتی ہوئی بچی کو میرے ہاتھوں میں پکڑایا اور خود کاکے کو لیکر چپ کرانے لگ گئے۔۔۔ ادھر میں نے بچی کو اٹھایا اور اسے دوسرے کمرے میں قاری صاحب کی مسز کے پاس ڈال آئی جو کہ اس وقت گہری نیند سو رہی تھی ۔۔ اور واپس آ کر دیکھا تو حیرت انگیز طور پر کاکا بھی چپ کر چکا تھا ۔۔ اور راشدی صاحب کے کندھے سے لگا نیم غنودگی کے عالم میں تھا۔۔۔ مجھے دیکھتے ہی قاری صاحب نے اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھی اور مجھے خاموش ہونے کا اشارہ کیا۔۔۔۔ان کا اشارہ دیکھتے ہی میں چپ کر کے ان کے پاس کھڑی ہوئی ۔۔۔ پھر تجربہ کار راشدی صاحب نے کچھ ہی منٹوں میں کاکے کو بھی چپ کرا کے سلا دیا ۔۔۔۔ اور پھر مجھے دیتے ہوئے بولے کہ اسے بھی اپنی امی کے پاس ڈال آؤ۔۔
چنانچہ کاکے کو بھی میں نے قاری صاحب کی بیگم کے پہلو میں ڈال کر میں وہاں سے باہر آ گئی۔۔۔ دیکھا تو سامنے قاری صاحب کھڑے تھے۔۔۔ مجھے دیکھتے ہی کہنے لگے کہ اب ان دونوں کی کیا پوزیشن ہے؟؟؟ تو میں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ جی دونوں اپنی امی کے ساتھ لگے سو رہے ہیں۔۔۔ اس کے بعد میں نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے قاری صاحب سے پوچھا کہ ۔۔۔ میری اماں کہاں ہیں ؟ تو قاری صاحب نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ وہ تو کب کی اپنے گھر چلی گئیں ہیں۔۔۔۔۔ اس پر میں نے حیران ہوتے ہوئے کہا کہ وہ کس وقت گئیں تھیں؟ تو قاری صاحب کہنے لگے جب آپ بچوں کو لیکر ہمسائیوں کے گھر گئیں تھیں تو اس وقت آپ کی چھوٹی بہن ہمارے گھر آئی تھی جس نے بتلا یا تھا کہ گھر میں کوئی مہمان آئے ہیں جن کا سن کر آپ کی امی اس کے ساتھ فوراً ہی روانہ ہوگئی تھیں۔۔۔
قاری صاحب کی بات سن کر میں اپنا سر نیچے کر کے بولی ۔۔۔ اب مجھے بھی گھر جانے کی اجازت ہے ۔۔۔ تو میری بات سن کر قاری صاحب کہنے لگے ۔۔۔۔ چلی جانا ۔۔ لیکن اس سے پہلے ایک منٹ کے لیئے میری بات سنتی جاؤ۔۔۔ قاری صاحب کی اس بات پر۔۔۔۔۔۔۔ دل میں چور ہونے کی وجہ سے ۔۔۔۔۔ میں ایک دم سے گھبرا گئی اور سوچنے لگی کہ پتہ نہیں قاری صاحب مجھ سے کیا بات کرنے والے ہیں؟ کہیں ۔۔۔ اتنا سوچتے ہی میرے ماتھے پر ٹھنڈی تریلی (پسینہ ) نمودار ہو گئی ۔۔۔اور میں دل ہی سوچنے لگی کہ اب میں قاری صاحب کے سوالوں کا کیا جواب دوں گی؟ لیکن بظاہر میں قاری صاحب کی طرف دیکھے بغیر ہی بولی ۔۔۔ جی فرمایئے کیا بات ہے قاری صاحب؟ تو وہ کہنے لگے ۔۔ وہ بات یہاں کرنے والی نہیں ہے اس لیئے تم میرے ساتھ کمرے میں آؤ۔۔۔ قاری صاحب کی یہ بات سن کر میں اندر سے لرز سی گئی اور سمجھ گئی کہ جس بات کی وجہ سے میں کئی دنوں سے قاری صاحب سے کنی کترا رہی تھی ۔۔۔ آج وہی بات میرے سامنے آ گئی تھی گویا کہ جس سے ڈرتے تھے وہی بات ہو گئی۔۔۔۔۔۔۔۔ چنانچہ ہزار وسوسوں کے ہوتے ہوئے میں قاری صاحب کے عقب میں چلی جا رہی تھی ۔۔۔
کمرے میں داخل ہوتے ہی قاری صاحب خود تو پلنگ کے پاس پڑے موڑھے پر جا کر بیٹھ گئے اور مجھے پلنگ پر بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔۔۔ ان کا اشارہ دیکھ کر ۔۔۔۔۔۔میں بڑے ڈھیلے انداز میں پلنگ پر جا کر بیٹھ گئی اسی پلنگ پر کہ جہاں پر وہ اماں کے ساتھ چودائی شو کیا کرتے تھے۔۔اس وقت کمرے میں گھمبیر خاموشی چھائی ہوئی تھی اور میں پلنگ پر سر جھکائے بڑی پریشان سی بیٹھی تھی کہ اچانک ہی میرے کانوں میں قاری صاحب کی آواز گونجی ۔۔۔ وہ کہہ رہے تھے پریشان ہونے ۔۔۔۔ اور ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔۔۔۔ میں نے صرف تم سے دو تین سوال پوچھنے ہیں ۔۔۔۔ اس پر میں نے سر اُٹھا کر ان کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا ۔۔۔۔ لیکن منہ سے کچھ نہیں بولی۔۔۔ میری نظروں کا مفہوم جان کر پہلے تو قاری صاحب نے کھنگار کر اپنے گلے کو صاف کیا ۔۔۔۔اور پھر میری طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگے۔۔۔ صبو بیٹی سب سے پہلے تو تم میرے اس سوال کا جواب دو کہ آخر تم مجھ سے اتنا کیوں چھپتی پھرتی ہو۔۔۔؟ اس پر میں اپنا سر جھکائے ہوئے بولی۔۔۔ آپ کو کچھ غلط فہمی ہوئی ہے ورنہ میں تو آپ سے ہر گز نہیں چھپ رہی تھی میری بات سن کر قاری صاحب نے ایک ہلکا سا قہقہ لگایا اور کہنے لگے تم کیا مجھے بے وقوف سمجھتی ہو؟
پھر تھوڑا سیریس ہو کر کہنے لگے۔۔۔۔دیکھو بیٹا میں نے دینا دیکھی ہے اور میں یہ بات اچھی طرح سے جانتا ہوں کہ کون مجھے سے چھپ رہا ہے اور کون سامنے آ رہا ہے ۔۔۔ پھر اپنے زہن پر زور دیتے ہوئے کہنے لگے ۔۔۔ بیٹی کہیں تم اس دن والے واقعہ کے حوالے سے تو نہیں مجھ سے چھپ رہی ہو ؟ ان کی بات سن کر مجھے ایک کرنٹ سا لگا ۔۔۔ لیکن میں چُپ رہی اور پلنگ پر سر جھائے بیٹھی رہی ۔۔۔ مجھے مسلسل خاموش دیکھ کر وہ بڑے ہی نرم لہجے میں کہنے لگے۔۔۔ ارے بابا کچھ تو بولو۔۔۔ کہ میں سچ کہہ رہا ہوں ناں؟ لیکن میں شرم کے مارے منہ سے کچھ نہ بولی ۔۔اور سر جھکائے بیٹھی رہی۔۔۔ یہ دیکھ کر قاری صاحب نے اپنے موڑھے کو تھوڑا آگے کھسکایا اور میرے قریب ہو کر بیٹھ گئے ۔۔۔پھر انہوں نے میری ٹھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھ کر میرے منہ کو تھوڑا اوپر اُٹھایا ۔۔۔۔اور کہنے لگے۔۔۔میرے خیال میں یہی بات ہے۔۔۔ پھر بڑی شفقت سے کہنے لگے چلو منہ سے نہیں ۔۔۔۔تو اشارے سے ہی کہہ دو کہ میری بات سچ ہے -
قاری صاحب کی بات سن کر میں نے ہاں میں سر ہلا دیا۔۔۔۔ یہ دیکھ کر قاری صاحب نے ایک گہری سانس لی اور کہنے لگے تو میرا اندازہ درست نکلا ۔۔۔تم اسی دن والے واقعہ کی بنا پر مجھ سے کنی کترا رہی تھی۔۔۔ پھر تھوڑا توقف کر کے کہنے لگے ۔۔۔ لیکن بیٹا اس دن تو ۔۔۔میں نے آپ کی جان بچائی تھی ۔۔۔۔ پھر بھی آپ میرے ساتھ ایسا کیوں کر رہی ہو؟ ۔۔۔۔۔پھر کہنے لگے کہ بیٹا ا س بات کا تم اپنے منہ سے جواب دو تو بڑی مہربانی ہو گی۔۔۔ اس پر میں نے سر جھکائے جھکائے ان سے کہا ۔۔۔۔ وہ قاری صاحب میں ڈر گئی تھی کہ کہیں آپ وہ والی بات امی کی موجودگی میں نہ پوچھ لیں اس پر وہ مسکرائے اور کہنے لگے۔۔۔ بیٹا آپ نے یہ کیسے سوچ لیا کہ میں آپ کی امی جو کہ میری بہن لگتی ہیں کے سامنےآپ کا پردہ فاش کر دوں گا؟؟؟؟؟؟؟؟ ۔۔۔ پھر کہنے لگے ۔۔۔ نہیں بیٹا نہیں۔۔۔ میں ایسا بندہ ہر گز نہیں ہوں۔۔۔ پھر کہنے لگے ۔۔۔دیکھو بیٹا میں مرتا ۔۔۔مر جاؤں گا لیکن آپ کے راز کو کبھی بھی افشاں نہیں کروں گا۔۔۔۔اس کے بعد انہوں نے میری طرف دیکھا اور کہنے لگے ۔۔ تم میری بات کو سمجھ رہی ہو نا بیٹی ۔۔۔ اور میں نے ہاں میں سر ہلا دیا۔۔۔۔ اس کے بعد ہم دونوں کے بیچ کافی دیر تک خاموشی طاری رہی۔۔۔ پھر اس خاموشی کو قاری صاحب نے ہی توڑا اور بولے۔۔۔۔۔۔ ۔۔
اچھا بیٹا اگر میں آپ سے ایک بات پوچھنا چاہوں تو کیا آپ اس کا سچ سچ جواب دیں گے؟؟؟؟؟؟۔۔۔تو میں نے سر جھکائے ان سے کہا ۔۔۔ آپ پوچھیں ۔۔۔۔۔ اور دل ہی دل میں سوچ رہی تھی کہ یہ قاری کا بچہ اسی بات کی طرف آ رہا ہے کہ جس کی وجہ سے میں اس سے بھاگ رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ساتھ دل ہی دل میں اماں کو بھی کوسنے دے رہی تھی کہ جاتے ہوئے مجھے بتا دیتی تو میں بھی ان کے ساتھ چلی جاتی ۔۔۔۔اور اس قاری سے میری جان چھوٹ جاتی ۔۔۔۔۔ میں انہی سوچوں میں گم تھی کہ۔۔۔۔ قاری صاحب مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہنے لگے۔۔۔۔۔۔۔ سوچو بیٹا اس دن اگر میری جگہ آپ کے ابا ہوتے تو کیا ہوتا ؟؟؟؟؟؟؟۔۔۔ ابا کا نام سن کر میں نے ایک جھر جھری سی لی ۔۔۔۔ لیکن منہ سے کچھ نہ بولی۔۔۔اس پر وہ کہنے لگے ۔۔۔ تمہارے وجود کا کانپنا اس بات کی دلیل ہے کہ تمہیں اچھی طرح سے اندازہ ہے کہ اگر وقت میری جگہ ۔۔۔۔۔ تمہارے ابا ہوتے تو اب تک تمہارا ۔۔۔ چہلم بھی ہو چکا ہونا تھا ۔۔۔پھر کہنے لگے یہ میں ہوں کہ جس نے نہ صرف یہ کہ تمہاری عزت بحال رکھی بلکہ کسی کو اس کے بارے میں کچھ بھی نہ بتایا ۔۔۔۔ اور تو اور میں نے اتنا بڑا رسک لیکر کر تمہارے بیگ کو بھی جائے واردات سے غائب کر دیا تھا۔۔۔۔۔۔
بات تو وہ ٹھیک کہہ رہے تھے ۔۔۔اس لیئے قاری صاحب کی بات سن کر میرے دل میں ان کے لیئے ممنونیت اور بڑھ گئی جبکہ دوسری طرف اتنی لمبی تمہید باندھنے کے بعد وہ کہنے لگے ۔۔۔ اچھا یہ بتاؤ کہ تمہارے اس لڑکے کے ساتھ کب سے تعلق تھے؟ ان کی بات سن کر میں شش و پنج میں پڑ گئی اور ان سے بولی۔۔۔ وہ قاری صاحب۔۔۔ میری بات سنتے ہی انہوں نے اپنا دائیاں ہاتھ فضا میں بلند کیا اور کہنے لگے دیکھو مجھے تمہارے سکینڈل کے بارے میں سب پتہ ہے کیونکہ بڑے قاری صاحب نے ڈیرے پر جا کر اس لڑکے۔۔۔۔ پھر سر پر ہاتھ مارتے ہوئے کہنے لگے ۔۔۔ کیا نام تھا اس کا ۔۔۔۔۔ پھر میری طرف دیکھ کر کہنے لگے تم بتاؤ نا اس کا نام ۔۔تو میں نے ہولے سے کہہ دیا ۔۔۔ جی اظہر۔۔۔۔ میرے منہ سے اظہر کا لفظ سنتے ہی وہ ایک دم جوش میں آ گئے اور بولے ہاں ۔۔ہاں یہی نام تھا اس لونڈے کا ۔۔۔ پھر میری طرف گہری نظروں سے دیکھ کر بولے۔۔۔ ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ اظہر سے ساری تفتیش میں نے کی تھی ۔۔۔اور وہ حرامذدہ تو تمہارا نام بھی لے رہا تھا ۔۔۔ لیکن میں نے اسے ڈرا دھمکا کر اس بات سے منع کر دیا تھا ۔۔۔۔ اتنا کہہ کر ایک دفعہ پھر انہوں نے میری طرف دیکھا اور کہنے لگے۔۔۔ ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ تمہاری اس لڑکے کیا نام تھا ۔۔۔ ہاں اظہر کے ساتھ دوستی کیسے ہوئی؟ قاری صاحب کا سوال سن کر میں سوچ میں پڑ گئی اور کچھ دیر تو چپ رہی پھر قاری صاحب کے بار بار کے اصرار پر کہنے لگی ۔۔۔ وہ ۔۔۔ قاری صاحب میری ایک کلاس فیلو تھی اس کے زریعے سے میری اظہر کے ساتھ دوستی ہوئی تھی۔۔۔ اس پر قاری صاحب نے میری آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا۔۔۔ کہیں اس لڑکی کا نام زرینہ تو نہیں تھا؟
قاری صاحب کے منہ سے زرینہ کا نام سن کر میں نے بڑی حیرانی سے ان کی طرف دیکھا اور کہنے لگی آپ کو کیسے معلوم ؟ تو انہوں نے جواب دیتے ہوئے کہا ۔۔ بیٹا میں نے پہلے ہی آپ کو بتایا ہے کہ تمہاری خاطر اظہر سے اس کیس کی تفتیش میں نے کی تھی ۔۔۔ پھر کہنے لگے تم کو شاید معلوم نہیں کہ تم کو ایک پلان کے تحت پھنسایا گیا تھا۔۔۔ ان کی بات سن کر میں نے بڑی حیرانی سے ان کی طرف دیکھا اور کہنے لگی۔۔۔۔ پلان کے تحت ۔۔ لیکن وہ کیسے قاری صاحب ؟ تو وہ کہنے لگے وہ ایسے صبو کہ اس لڑکے اظہر کو تم پسند آ گئی تھی ۔۔۔ بس تم کو اپنے ساتھ سیٹ کرنے کے لیئے اس نے زرینہ ۔۔۔جو کہ اس کی سابق معشوقہ تھی کے زریعے تم پر یہ جال پھینکا تھا ۔۔۔ اور تم بڑی آسانی کے ساتھ اس کے جال میں پھنس گئی تھی۔۔۔
اس کے بعد قاری صاحب نے پندرہ بیس منٹ تک میرے ساتھ زرینہ اور اظہر و دیگر معاملات کے علاوہ بھی دوسری باتیں بھی کیں جس کی وجہ سے میرے دل میں ان کا خوف کافی حد تک دور ہو گیا ۔۔۔۔۔اور پھر کچھ ہی دیر میں انہوں نے مجھ سے مزید کچھ اس قسم کی باتیں کیں کہ جنہیں سن کر کمرے میں بنی خوف کی فضا ایک دم تحلیل ہو گئی اور اس کی جگہ ۔۔۔۔۔۔۔ ایک آزاد ماحول نے لے لی تھی ۔۔بلا شبہ قاری صاحب کو باتیں کرنے کا فن آتا تھا تبھی تو بیس پچیس منٹ میں ہی انہوں نے صرف یہ مجھے اپنے ساتھ کہ فری کر لیا تھا ۔۔۔ بلکہ اب میں ان کے ساتھ کھل کر گفتگو بھی کر رہی تھی ۔۔۔۔ قاری صاحب نے مجھے بتلایا کہ زرینہ کے زریعہ وہ دونوں (اظہر اور اس کا دوست جو اس دن زرینہ کےساتھ پکڑا گیا تھا ) لڑکیوں کو اپنے جال میں پھنساتے تھے اورپھر ہسپتال کے اسی کمرے میں ان کے ساتھ عیاشی بھی کرتے تھے۔۔۔۔۔ پھر وہ کہنے لگے صبو بیٹا یہ لوگ مختلف لڑکیوں پر مختلف ہتھکنڈے استعمال کرتے تھے یہ بتاؤ کہ آپ کے ساتھ ان لوگوں نے کیا ہتھکنڈا استعمال کیا تھا؟ قاری صاحب کی بات سن کر ایک لمحے کو تو میں گھبرا گئی پھر تسلی دینے پر بولی ۔۔۔ ۔۔۔ قاری صاحب وہ لڑکی انگریزی رسالے لایا کرتی تھی جس میں کہ ۔۔۔میری بات سنتے ہی قاری صاحب کہنے لگے بس بس ۔۔۔۔ میں سمجھ گیا ۔۔۔۔ اور میری طرف دیکھ کر کہنے لگے تم انہی رسالوں کی بات کر رہی ہو ناں کہ جن میں وہ لوگ میاں بیوی والے کرتب کرتے ہیں۔۔۔ ان کے منہ سے نکلا ہوا کرتب کا لفظ ۔۔۔میری سمجھ میں نہیں آیا اس لیئے میں نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ ۔۔۔کر تب مطلب؟ تو قاری صاحب پہلے تو مسکرائے اور پھر وہ موڑھے سے اُٹھ کر میرے ساتھ پلنگ پر بیٹھ گئے ۔۔۔۔ اور میری ران پر ہاتھ مارتے ہوئے بولے۔۔۔ارے کرتب کا مطلب وہی ہے جو عورت اور مرد تنہائی میں کیا کرتے ہیں ۔۔۔۔ قاری صاحب کی بات سن کر میں شرم سے لال ہو گئی ۔۔اور اپنا منہ نیچے کر لیا۔۔۔۔ تب انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور مزاحیہ انداز میں بڑے ہی بے تکلف ہو کر کہنے لگے۔۔۔ وہی یار جس میں عورت اورمرد ننگے ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور اس کےساتھ ہی ان کا ہاتھ دوبارہ سے رینگتا ہوا ۔۔۔ میری رانوں کی طرف چلا گیا۔۔۔ جس کے ٹچ سے مجھے کچھ کچھ ہونے لگا۔۔۔۔۔
میری رانوں پر ہاتھ پھیرنے کے بعد وہ کہنے لگے۔۔۔۔ایسے رسالے دیکھ کر تو میرے جیسا بڈھا بھی جوان ہونے لگتا ہے جبکہ تم تو ابھی بلکل نوجوان بلکہ نو خیز ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو یہ بتاؤ۔۔کہ ایسے رسالے دیکھ کر تم نے خود پر کیسے قابو پایا؟؟؟؟؟؟۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے ایک بار پھر اپنا ہاتھ میری ران پر رکھ دیا۔۔۔۔ ان کا ہاتھ بار بار میر ی رانوں کو چھو رہا تھا۔۔۔اور اپنی رانوں پر یوں ہاتھ رکھنے سے میں قاری کا مطلب اچھی طرح سے سمجھ رہی تھی۔۔۔۔۔۔ اورپھر اس بات کو سمجھ کر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں شہوت ذادی ۔۔۔۔ اندر سے گرم ہو نے لگی۔۔۔۔۔۔ ابھی میں اسی سوچ میں تھی کہ قاری صاحب نے دوسرا سوال جُڑ دیا اور کہنے لگے اچھا صبو یہ بتاؤ کہ ۔۔۔۔۔۔۔کہ زرینہ تم کو صرف انگریزی رسالے ہی دیا کرتی تھی یا پڑھنے والے اردو رسالے بھی دیتی تھی۔۔۔۔۔ان کی بات سن کر میں نے اندر ہی اندر ان کے ساتھ مستی کا فیصلہ کر لیا اور ان کی طرف دیکھ بظاہر شرماتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔۔وہ جی ۔۔۔۔ اردو رسالے بھی دیتی تھی ۔۔ جس پر قاری صاحب میری ران پر رکھا ہاتھ۔۔۔۔ تھوڑا اور اندر کی طرف لے گئے اور میری چوت سے تھوڑی دور اپنے ہاتھ کو روک کر بولے۔۔۔۔ اردو کہانیوں والے رسالے تو نری تباہی ہوتے ہیں ۔۔۔۔ میرے جیسا بندہ بھی اگر پڑھ لے تو گرمی کے مارے اس کا برا حال ہو جاتا ہے۔۔۔پھر میری طرف دیکھ کر بولے۔۔۔تم کو گرمی نہیں چڑھتی تھی۔۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی میری رانوں پر دھری ان کی گستاخ انگلی رینگتی ہوئی ۔۔چلی اور جا کر میری چوت کے لبوں کو ٹچ کر دیا ۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔۔۔اور میری طرف دیکھتے ہوئے میرے ردِ عمل کا جائزہ لینے لگے۔۔۔ ادھر جیسے ہی ان کی انگلی نے میری گرم چوت کے لبوں کو ٹچ کیا ۔۔۔۔۔۔تو نہ چاہتے ہوئے بھی میر ے منہ سے ہلکی سی سسکی نکل گئی۔۔۔ جو قاری صاحب نے نوٹ کر لی۔۔۔۔۔ اور پھر اپنی دو انگلیوں سے گرمی کے مارے میرے موٹے ہوتے ہوئے دانے کو چھو کر بولے۔۔۔۔ لگتا ہے تم کو رسالے میں پڑھی ہوئی کوئی جنسی کہانی یاد آ گئی ہے۔۔۔
لیکن میں نے ان کے سوال کا کوئی جواب نہ دیا۔۔۔ تو اب انہوں نے براہِ راست میری آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا کہ اچھا صبو یہ بتاؤ کہ تم نے اظہر کے ساتھ کتنی دفعہ ملاپ کیا تھا؟ اس کے ساتھ ہی ا نہوں نے میرے دانے پر رکھا ہاتھ وہاں سے ہٹایا اور میری چوت کی دنوں پھانکوں کے درمیان پھیر کر بولے۔۔۔۔۔۔ بول نا۔۔۔۔ اور دوسری حرکت انہوں نے یہ کی کہ اپنے دوسرے ہاتھ سے مجھے اپنی دونوں ٹانگوں کو مزید کھولنے کا اشارہ کیا ۔۔۔جو کچھ ہچکچاتے ہوئے میں نے اپنی دنوں ٹانگوں کو کھول دیا۔۔۔ میری ٹانگیں کھولنے سے ان کی گستاخ انگلیاں بڑی آسانی کے ساتھ میری چوت کی پھانگوں کے آر پار رینگنے لگیں ۔۔جس سے میں مزید گرم سے گرم تر ہوتی گئی۔۔۔ اور اس وقت میرا جی کرنے لگا کہ قاری صاحب ابھی کے ابھی اپنے لن کو میرے اندر ڈال دیں ۔۔۔ لیکن وہ ستم گر ۔۔۔ مجھ پر سوال پہ سوال کر کے میری گرمائیش کو اور بڑھا رہا تھا ۔۔۔۔۔میں انہی سوچوں میں گم تھی کہ اچانک ہی قاری صاحب نے میرے دانے کو اپنی دو انگلیوں میں پکڑ کر ہکا سا دبایا اور کہنے لگے ۔۔۔۔ میں نے تم نے کچھ پوچھا ہے صبو ۔۔۔۔۔ اس پر میں نے سر اُٹھا کر ان کی طرف دیکھا اور کہنے لگی۔۔۔ایک بار بھی نہیں۔۔۔۔۔ تو وہ میرے دانے کو مسلتے ہوئے بولے۔۔۔ پکی بات ہے ؟ تو میں نے ہاں میں سر ہلا دیا۔۔۔ اس کے بعد قاری صاحب نے میرے دانے کو اپنی انگلیوں میں پکڑا ۔۔۔۔اور میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہنے لگے۔۔۔۔ کیسا لگ رہا ہے صبو؟ تو میں نے ان کی انکھوں میں چپھی شہوت کو دیکھ اپنا سر جھکا لیا اور منہ سے کچھ نہیں بولی۔۔۔۔لیکن ان کی آنکھوں میں شہوت کو دیکھ کر میری پھدی مزید گرم ہونا شروع ہو گئی۔۔۔ ادھر میرے منہ سے کوئی جواب نہ پا کر قاری صاحب نے میرے دانے کو مزید مسلتے ہوئے بڑے ہی ہوس بھرے لہجے میں کہا ۔۔۔۔۔ بتا نہ صبو ۔۔۔ ان کی بات سن کر ابھی میں نے اتنا ہی کہا تھا کہ ۔۔۔۔
قاری صاحب۔۔۔۔کہ اچانک انہوں نے بیچ میں ہی میری بات کاٹ دی اور کہنے لگے ۔۔۔ ۔۔۔ قاری نہیں ۔۔۔بلکہ اب سے تم مجھے راشدی صاحب کہو گی ۔پھر کہنے لگے ہاں اب بولو کہ تم کیا کہہ رہی تھی؟۔۔۔۔۔ اس پر میں شرماتے ہوئے ان سےبولی ۔۔۔۔ اچھا لگ رہا ہے راشدی صاحب ۔۔۔۔ میری بات سن کر وہ خوش ہو کر کہنے لگے۔۔۔۔۔۔تو پھر کیا خیال ہے میں خود کو یہیں تک محدود رکھوں یا کچھ آگے بڑھوں ؟ ۔۔۔۔لیکن میں نے ان کی اس بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔۔۔۔۔ تو وہ بولے بتاؤ نا صبو ۔۔۔۔ کہ میں مزید آگے بڑھوں؟ لیکن اس دفعہ بھی۔۔۔ مجھے خاموش پا کر انہوں نے ایک بار پھر سے میری چوت کی پھانکوں میں اپنی انگلی پھیری ۔۔۔ اس وقت تک میری گرم پھدی نے رطوبت چھوڑنا شروع کر دی تھی۔۔۔۔ چنانچہ جیسے ہی ان کی انگلیاں میری چوت کی لکیر کے آر پار ہوئیں تو میری پھدی کی رطوبت سے وہ گیلی ہو گئیں۔۔۔۔ یہ دیکھ کر انہوں نے اپنی انگلیوں کو میری چوت کی لکیر میں غوطہ دیا جس سے میری چوت کے پانی سے ان کی انگلیاں بھیگ گئیں ۔۔۔۔اور پھر اپنی گیلی انگلیوں کو میری آنکھوں کے سامنے لہرا کر بولے ۔۔صبو تم بھلے اپنے منہ سے کچھ نہ بولو ۔۔۔۔لیکن تمہارے اس گیلے پن نے میرے سوال کا جواب دے دیا ہے۔۔۔
اس کے بعد انہوں نے مجھے اپنے ساتھ چمٹا لیا اور کہنے لگے ۔۔۔اچھا یہ بتاؤ ۔۔اظہر کے ساتھ کوئی کسنگ کرنے کا موقعہ بھی ملا تھا یا نہیں؟۔۔۔اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنے ہونٹوں کو میرے گالوں پر رکھا اور انہیں چوم کر بولے۔۔۔۔ میں اس والی کسنگ کی بات نہیں کر رہا بلکہ وہ والی کسنگ۔۔۔۔کہ جس میں دونوں فریق ایک دوسرے کے ہونٹوں کو چومتے اور زبانیں چوستے ہیں ۔۔۔۔۔راشدی صاحب جان بوجھ کر ایسے الفاظ استعمال کر رہے تھےکہ جس سے میں جنسی طور پر مزید مشتعل ہوتی جا رہی تھی۔۔۔ ۔مزید یہ کہ ان کی اس طرح کی حرکتوں کی وجہ سے شہوت تو مجھ پر پہلے ہی چڑھی ہوئی تھی لیکن جب سے ان کے ہونٹوں نے میرے گالوں کو چھوا تھا ۔۔۔۔تو اس سے میری شہوت عروج پر پہنچ گئی تھی ۔۔۔۔ اور اس شہوت نے پوری طرح سے مجھے اپنے قبضے میں کر لیا تھا ۔۔۔ اور میں شہوت ذادی۔۔۔ فُل گرم ہونے پر کچھ دلیر بھی ہو گئی ۔۔۔اس لیئے میں نے اپنا ہونٹ ان کے ہونٹوں پر رکھا اور ۔۔۔ان کو چھوکر بولی۔۔۔راشدی صاحب یہ والی کسنگ ہم نے خوب کی تھی۔۔۔۔ میری بات سن کر انہوں نے اپنی زبان کو میرے منہ میں دیا۔۔۔اور میری زبان کے ساتھ اپنی زبان کو بہت دفعہ لڑایا۔۔۔۔۔۔ پھر میری زبان کو اپنے منہ میں لیکر چوسنے کے بعد کہنے لگے ۔۔۔۔۔ اور یہ والی کسنگ بھی کی تھی؟
تو میں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔۔۔ یہ دیکھ کر انہوں نے میری قمیض کو تھوڑا اوپر کیا ا ور برا کو ایک طرف کر کے میری چھوٹی چھوٹی چھاتیوں کو ننگا کر دیا اور کہنے لگے ۔۔۔۔۔۔صبو کیا وہ تمہاری ان چھاتیوں سے بھی کھیلا تھا ؟؟۔۔۔۔ اور پھر میرے جواب کا انتظار کیئے بغیر انہوں نے میرے نپل کو اپنے منہ میں لیا اور انہیں بے دریغ چوسنے لگے-
جیسے ہی راشدی صاحب نے میرے نپلز کو چوسنا شروع کیا ۔۔۔تو شہوت کے مارے میرا بہت برا حال ہو گیا تھا ۔۔اور ان کے چھاتیاں چوسنے سے میرے اندر آگ مزید بھڑک اُٹھی تھی ۔۔۔ اور پھر بے قرار ہو کر میں نے راشدی صاحب کے لن پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔۔۔۔ ان کے لن پر ہاتھ رکھنے کی دیر تھی کہ راشدی صاحب نے اپنے منہ میں لیا ہوا میرا نپل باہر نکالا اور میری طرف دیکھ کر کہنے لگے ۔۔۔۔ اس کو اپنے ہاتھ میں پکڑ کر دباؤ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنا آزار بند کھولا اور شلوار کو نیچے کر کے اپنے لن کو ننگا کر دیا۔۔۔ اور پھر میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے لن پر رکھ دیا۔۔۔ اس وقت ان کا لن فل جوبن پر اکڑا کھڑا تھا۔۔۔ یہ دیکھ کر راشدی صاحب نے مجھے ایک بوسہ دیا اور میرے کان میں۔کہنے لگے۔۔۔ صبو ۔۔پہلے کبھی میں اتنی جلدی گرم نہیں ہوا تھا
۔اور نہ ہی آج تک اتنی جلدی یہ (لن ) کھڑا ہوتا تھا جتنی جلدی تم نے اسے کھڑا کر دیا ہے ۔۔۔اس کے بعد انہوں نے میرے ساتھ تھوڑی سی کسنگ کی اور پھر میری طرف دیکھ کر کہنے لگے اچھا یہ بتاؤ کہ کیا تم نے اظہر کے ساتھ وہ والا کام بھی کیا تھا۔۔۔۔ ان کی بات سن کر میں نے حیرانی سے اس کی طرف دیکھا اور کہنے لگی وہ والا کون سا کام؟ اس پر انہوں نے بڑی نشیلی سی نظروں سے میری طرف دیکھا اور کہنے لگے ۔۔۔۔ وہ والا کام جو انگلش رسالوں میں ہوتا ہے ۔۔۔۔ یعی انگلش سٹائل۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنے انگھوٹھے کو منہ میں ڈالا اور چوپے کا اشارہ کر دیا۔۔۔۔ان کا اشارہ سمجھ میرے اندر ایک کرنٹ سا دوڑ گیا ۔۔۔۔لیکن میں نے ان سے کہا کہ ۔۔ نہیں جی ۔۔۔ میں نے ان کے ساتھ ایسا کوئی کام نہیں کیا ۔۔تو راشدی صاحب کہنے لگے ۔۔۔ اس کے ساتھ تو تم نے واقعی ہی نہیں کیا ۔۔۔ لیکن ۔۔ اگر میں کہوں تو میرے ساتھ کر لو گی؟ اس کے ساتھ ہی انہوں نے میرے سر کو پکڑ کر اپنے لن کی طرف جھکانا شروع کر دیا۔۔۔۔۔۔ جب میرا منہ ان کے لن کے ہیڈ کے پاس پہنچا تو وہ کہنے لگے۔۔۔۔ صبو ۔۔۔ سب سے پہلے اپنے زبان نکال کر میرے ہیڈ اور باقی کے لن پر پھیرو ۔۔۔۔ ان کی ہدایت سن کر میں نے اپنی زبان نکالی اور ان کے کہنے کے مطابق سب سے پہلے ان کے لن کے ہیڈ پر زبان پھیرنا شروع کر دی۔۔۔ اس کے بعد ۔۔۔ میں نے ان کے لن کو پکڑا اور اوپر سے نیچے تک۔۔۔۔۔ اور نیچے سے اوپر تک اس کو چاٹنا شروع کر د یا میں ان کے سخت لن کو اوپر سے لیکر نیچے تک بار بار چاٹ کر مزے لے رہی تھی ۔۔۔کہ وہ کہنے لگے اب میں ان کے لن کے ہیڈ پر کو گول گول زبان پھیروں اور میں نے ایسا ہی کیا ۔۔۔ میرے لن چاٹنے سے راشدی صاحب اتنے مست ہوئے کہ ان کے منہ سے بے ساختہ آہ۔۔۔۔اوہ۔۔۔۔اوں۔۔۔ جیسے آوازیں نکلنا شروع ہو گئیں ۔۔ پھر کچھ دیر بعد وہ کہنے لگے ۔۔۔۔بس۔۔بس۔۔صبو ۔۔تم نے میرے لن کو بہت اچھا چاٹا ہے ۔۔۔اب اسے پنے منہ میں لیکر چوسو۔۔ ان کی بات سنتے ہی میں نے نظر اُٹھا کر ان کی طرف دیکھا ۔۔۔۔۔ اور پھر ان کے لن کو اپنے منہ میں لے لیا ۔۔۔اور چوسنے لگی۔۔۔ ان کے لن کو اپنےمنہ میں ڈالنے کی دیر تھی کہ راشدی صاحب کے منہ سے سسکیوں کا طوفان نکلنا شروع ہو گیا اور انہوں نے میرے سر کو پکڑ کر اپنے لن کے اوپر نیچے کرنا شروع کر دیا۔۔۔۔ کچھ دیر تک میں ایسے ہی ان کا لن چوستی رہی ۔۔۔۔ پھر خود ہی انہوں نے میرے سر کو اپنے لن سے ہٹایا اور کہنے لگے۔۔۔ صبو ۔۔۔۔آج تو تم نے مزہ دینے کی حد کر دی۔۔۔۔
پھر کہنے لگے اب تم اپنے کپڑے اتار کے نیچے لیٹ جاؤ۔۔۔ اس پر میں نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔ وہ راشدی صاحب ۔۔۔ اور پھر کہتے کہتے رُک گئی۔۔۔ میرے اس طرح کرنے سے اپنے کپڑتے اتارتے ہوئے راشدی صاحب رُک گئے اور میری طرف دیکھ کر کہنے لگے۔۔۔۔ جو کہنا ہے کھل کر کہو صبو۔۔۔ اس پر میں نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔ راشدی صاحب آپ بھی انگلش سٹائل کرتے ہو؟ پہلے تو راشدی صاحب میری بات کو بلکل نہ سمجھے اور میری طرف دیکھ کر سوالیہ نظروں سے کہنے لگے ۔۔۔ کیا مطلب؟ پھر اچانک ہی ان کے دماغ میں میری کہی ہوئی بات آ گئی اور ۔۔۔۔ وہ میری طرف دیکھ کر کہنے لگے۔۔۔ ہوں۔۔ تم چٹوانے کی بات کر رہی ہو؟ تو میں نے ہاں میں سر ہلا دیا۔۔۔ اس پر وہ کہنے لگے ۔۔۔ میں ہر فن مولا ہوں ۔۔۔ تم بیڈ پر لیٹو ۔۔۔۔میں کپڑے اتار کے آتا ہوں ۔۔ ان کی بات سن کر میں نے بھی جلدی سے اپنے باقی کے کپڑے اتارے اور ننگی ہو کر ان کے پلنگ پر لیٹ گئی۔۔۔ کچھ دیر بعد راشدی صاحب بھی اپنے کپڑے اتار کے پلنگ پر آ گئے۔۔۔ اور جیسے ہی ان کی نظر میری بالوں والی پھدی پر پڑی تو وہ ایک دم چونک کر کہنے لگے۔۔۔۔ صبو بیٹا ۔۔۔تم اپنی پاکی نہیں کرتی ہو؟ ۔۔۔۔۔ان کی بات سن کر میں کہنے لگی ۔۔ جی کیا کہا آپ نے ؟ اتنی دیر میں وہ میرے چوت کے پاس بیٹھ چکے تھے اس لیئے انہوں نے میری چوت پر اُگے ہوئے بڑے بڑے بالوں کو اپنی انگلیوں میں پکڑا اور کہنے لگے ۔۔۔ ان کو کیوں نہیں کاٹتی؟ تو میں نے جواب دیتے ہوئے کہا ۔۔۔
کہ مجھے اپنی چوت پر بال رکھنا بڑا پسند ہے۔۔۔ تو وہ میرے بالوں سے کھیلتے ہوئے تھوڑی ناگواری سے بولے۔۔۔ لیکن کیا تم کو معلوم ہے کہ ان کو ہفتے میں ایک دفعہ کاٹنے کا حکم ہے۔۔۔۔ اس لیئےآئندہ سے تم اس بات کا خیال رکھنا ان کی بات سن کر میں نے ان کو ٹالنے کی غرض سے کہا ۔۔ ٹھیک ہے راشدی صاحب آئندہ میں اس بات کا خیال رکھوں گی۔۔۔۔اور دل میں ان کو ایک گالی دیتے ہوئے بولی سالے یہ جو تم میرے ساتھ کر رہے ہو ۔۔اس کا کہاں پر حکم ہے؟ میری بات سن کر راشدی صاحب کہنے لگے ۔۔۔شاباش ۔۔۔اور پھر وہ اپنی جگہ سے اُٹھے اور میری ٹانگوں کے بیچ میں آ گئے اور پھر میری پھدی کی طرف جھک گئے۔۔اور اپنی دو انگلیوں کی مدد سے میری پھدی کے بالوں کو ادھر ادھر کیا ۔۔۔۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی میں نے اپنے دانے پر ان کے گرم تھوک کو محسوس کیا۔۔۔ انہوں نے میرے دانے پر تھوکا اور۔۔ پھر اپنی زبان نکال کر اسے چاٹنے لگے۔۔۔۔ ان کے دانہ چاٹنے سے مجھے اتنا مزہ آیا کہ میں ۔۔۔۔۔۔ ان کی زبان کے نیچے ماہیء بے آب کی طرح تڑپنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے یوں تڑپتا دیکھ کر انہوں نے میری پھدی سے اپنا سر ہٹایا ۔۔۔۔ اور کہنے لگے۔۔۔۔ مزہ آ رہا ہے نا۔۔۔۔ اور پھر سے نیچے میری پھدی پر جھک گئے اور اب میری چوت کی لکیر کو چاٹنا شروع ہو گئے۔۔۔۔ کافی دیر تک وہ میری چوت کو چاٹتے رہے اور ان کے اس طرح چاٹنے سے ان کی زبان کے نیچے میں ۔۔ تڑپتی رہی اور ان سے کہتی رہی کہ ۔۔۔راشدی صاحب اور چاٹو۔۔۔۔ اور میری چوت سے نکلنے والا پانی بھی ٹیسٹ کرو۔۔۔۔اور وہ بے دریغ ایسا ہی کرتے رہے یہاں تک کہ جب انہوں نے میری چوت سے اپنا منہ ہٹایا ۔۔۔تو اس وقت ان کے ہونٹوں کے آس پاس کا سارا ایریا ۔۔۔۔ میری چوت کے پانی سے لتھڑا ہوا تھا۔۔۔۔
چوت چاٹنے کے کے بعد انہوں نے مجھے گھوڑی بننے کو کہا ۔۔۔۔ اور خود ہی اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہنے لگے ۔۔۔ کہ چونکہ ان کو گانڈ بڑی پسند ہے اس لیئے وہ میری گانڈ بھی چیک کرنا چاہتے ہیں اور اگر ان کو میری گانڈ پسند آ گئی تو وہ مجھے پیچھے سے کریں گے۔۔۔ ان کی بات سن کر میں نے اپنا منہ دوسری طرف کیا اور ان کی طرف اپنی گانڈ کر دی۔۔۔ اب انہوں نے میری گانڈ کے ساتھ خود کو ایڈجسٹ کیا اور پھر میری گانڈ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولے ۔۔۔۔ اپنی ٹانگوں کو تھوڑا اور کھلا کرو۔۔۔ اور میں نے ایسا ہی کیا۔۔۔ اب انہوں نے اپنی ایک انگلی ۔۔۔ میری گانڈ کے رنگ پر پھیری اور پھر۔۔۔۔۔۔۔۔اچانک ہی مجھ سے مخاطب کر کے کہنے لگے۔۔۔صبو ۔۔۔تم نے مجھ سے جھوٹ کیوں بولا۔۔۔؟ تو میں نے حیران ہو کر اپنی گردن کو ان کی طرف موڑا اور کہنے لگی ۔۔۔کونسا جھوٹ؟؟؟؟؟؟؟ تو وہ بولے۔۔۔۔۔ اظہر کے ساتھ سیکس والی بات ؟ اور پھر خود ہی کہنے لگے۔۔۔۔ دیکھو صبو ۔۔ میں گانڈ مارنے کا ماسٹر ہو ں ۔
اور بلا مبالغہ اب تک ہزاروں گانڈیں مار چکا ہوں۔۔۔۔۔اور گانڈ دیکھ کر مجھے ایک منٹ میں پتہ چل جاتا ہے کہ یہ گانڈ کنواری ہے یا اس میں کوئی لن گیا ہے ۔۔۔اور پھر میری موری میں اپنی انگلی ڈال کے بولے اور تمہاری یہ گانڈ چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ اس یہ ایک دفعہ نہیں بلکہ کئی دفعہ مروائی گئی ہے۔۔۔ پھر میری گانڈ پر ہلکا سا تھپڑ مارتے ہوئے کہنے لگے ۔۔۔ کتنی دفعہ مروائی ہے؟ ان کی بات کے جواب میں ۔۔۔۔ میں ان سے یہ تو نہیں کہہ سکتی تھی کہ میں نے اپنی گانڈ ۔۔۔ اظہر سے نہیں بلکہ بھائی سے مروائی ہے اور بار بار مروائی ہے ۔۔۔ اس لیئے ۔۔۔۔ ان سے جھوٹ بولتے ہوئے کہنے لگی ۔۔۔۔ وہ بس راشدی صاحب ۔۔۔۔۔۔یہ بتاتے ہوئے مجھے شرم آ رہی تھی۔ میری بات سن کر انہوں نے ایک فاتحانہ قہقہہ لگایا اور کہنےلگے۔۔۔ دیکھا میری بات کبھی غلط نہیں ہو سکتی ۔۔۔
پھر انہوں نے میری گانڈ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا ۔۔ ایک بات کہوں صبو۔۔۔۔ میرا تجربہ یہ بھی کہہ رہا ہے کہ تمہاری گانڈ بہت مزے کی ہو گی۔۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے میری گانڈ پر بہت سا تھوک لگایا اور کہنے لگے ۔۔۔ تیار ہو جاؤ ۔۔ اب میں تمہاری گانڈ مارنے والا ہوں۔۔۔ پھر انہوں نے کچھ تھوک اپنے لن پر بھی لگایا اور اپنا ٹوپا میری گانڈ کی موری پر رکھتے ہوئے بولے۔۔۔۔ امید تو نہیں کہ تم کو درد ہو ۔۔۔ لیکن پھر بھی۔۔۔۔ تھوڑا بہت درد برداشت کر لینا۔۔۔اس کے ساتھ ہی ۔۔۔انہوں نے ہلکا سا دھکا لگایا ۔۔۔اور ان کے لن کا ہیڈ میری گانڈ میں گھس گیا۔۔۔ چونکہ اپنے بھائی سے میں روزانہ رات کو گانڈ مرواتی تھی ۔۔۔اس لیئے لن آ جا کر میری گانڈ خاصی یوز ٹو ہو چکی تھی۔۔اسی لیئے راشدی صاحب کے لن کے ہیڈ کے جانے سے مجھے بس معمولی سی تکلیف ہوئی۔۔۔اور وہ بھی اس لیئے کہ راشدی صاحب کا لن میرے بھائی کے لن سے تھوڑا بڑا اور موٹا تھا ۔۔۔ ورنہ تو لن کے اندر جاتے ہی مجھ پر ایک عجیب سی سرشاری کی کیفیت طاری ہو جایا کرتی تھی۔۔۔ ۔ان کے لن کے ہیڈ کو اپنی گانڈ میں محسوس کرتے ہی مجھ پر وہی عجیب سی خماری طاری ہونے لگی تھی۔۔۔۔ اور میرا دل کر رہا تھا کہ راشدی صاحب جلدی سےاپنا سارا لن میری گانڈ میں اتار کر ان آؤٹ کرنا شروع کر دیں ۔۔۔۔۔چنانچہ ان کا ہیڈ اپنی گانڈ میں لیئے میں اسی خماری کے عالم میں ان سے بولی۔۔۔راشدی صاحب ۔۔۔۔ باقی کا لن بھی اندر ڈالو ۔۔۔۔۔ میری بات سن کر وہ کہنے لگے۔۔۔ میری بات سن لو صبو۔۔تم بہت بڑی شہوت ذادی ہو
۔۔ تمہاری گانڈ مار کے مجے مزہ آئے گا۔۔ ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی ایک اور ہلکا سا گھسہ مارا۔۔۔ اور ان کا لن پھسل کر تھوڑا ۔۔۔۔اور اندر آ گیا۔۔۔ جس سے مجھے بڑا مزہ ملا۔۔۔۔۔لیکن میں ان کے پورے لن کو اپنے اندر لینا چاہ رہی تھی ۔۔۔اس لیئے میں نے اپنی گانڈ کو ان کی طرف دباتے ہوئے کہا۔۔۔ جڑ تک ڈال نا۔۔۔۔۔۔ میری بات سن کر وہ بھی جوش میں آ گئے اور ایک دم سے ایک ذور دار گھسہ مارا ۔۔۔۔ جس سے ان کا پورے کا پورا لن پھسلتا ہوا ۔۔۔ میری گانڈ کے اینڈ تک پہنچ گیا۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی مزے اور سرُور کی ایک تیز لہر میرے سارے بدن میں پھیل گئی۔۔۔اور میں نے ان سے کہا۔۔۔۔۔ گھسوں کو روکنا نہیں۔۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی راشدی صاحب نے اپنا ایک ہاتھ نیچے کیا اور میرے دانے کو مسلتے ہوئے کہنے لگے۔۔۔فکر نہیں کرو صبو۔۔۔۔۔۔۔ اب میں رکنے والا نہیں ہوں۔۔۔ اور پھر انہوں نے میری گانڈ پر تابڑ توڑ حملے شروع کر دیئے ۔۔۔ان کے ہر گھسے سے مزے کے مارے میں ساتویں آسمان پر پہنچ رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔ اور ان سے ڈُو مور کا مطالبہ کرتی جا رہی تھی۔۔۔کافی دیر تک وہ ایسے ہی میری گانڈ میں اپنے لن کو ان آؤٹ کر کے مجھے مزہ دیتے رہے۔۔۔۔ پھر اچانک میں نے محسوس کیا کہ راشدی صاحب کی ٹانگیں بُری طرح سے کانپنا شروع ہو گئیں ہیں ۔۔۔اور میں سمجھ گئی کہ اب قاری صاحب چھوٹنے والے ہو گئے ہیں ۔۔۔۔ چنانچہ یہ بات سوچتے ہی میں نے چلاتے ہوئے ان سے کہا ۔۔۔۔ کہ ۔۔۔اور زور سے مارو ۔۔۔۔اور۔۔۔۔۔اور۔۔۔۔ جیسے جیسے ۔۔۔ میں ان کو زور سے کہتی ۔۔۔وہ اتنے ہی زور سے مجھے گھسہ مارتے جا رہے تھے اور ان کے ان گھسوں سے میں اپنے مزے کے انتہا پر پہنچ گئی تھی ۔۔۔اور مزے کی پیک پر پہنچنے کی وجہ سے میری خواہ مخواہ ہی چوت نے پانی چھوڑنا شروع کر دیا۔۔۔ اور ادھر راشدی صاحب نے میری گانڈ میں اپنا امرت دھارا چھوڑا ۔۔۔ادھر ۔۔۔۔۔میری چوت نے پانی چھوڑنا شروع کر دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
راشدی صاحب سے فارغ ہو کر میں سیدھی اپنے گھر گئی کیونکہ پروگرام کے مطابق آج شبی نے زیب لوگوں کو سیکس کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑنا تھا ۔۔۔۔۔ جیسے ہی میں گھر میں داخل ہوئی دیکھا تو سامنے ہی شبی کھڑا تھا اور اس وقت اس کی شکل پر بارہ بج رہے تھے ۔۔۔ مجھے دیکھ کر اس نے مجھے کمرے میں آنے کا اشارہ کیا۔۔ جیسے ہی می ں کمرے میں پہنچی تو میں نے اس سے کہا۔۔۔ ہاں بتاؤ شبی کہ تمہارے مشن ( جو کہ زیب کو رنگے ہاتھوں پکڑنے کا تھا ) کا کیا ہوا؟ میری بات سن کر شبی نے بڑی پریشانی کے عالم میں میری طرف دیکھا اور کہنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ باجی وہ زیب ۔۔۔۔۔ اس کی شکل دیکھ کر پہلے ہی میں پریشان ہو گئی اور اسی پریشانی کے عالم میں اس سے پوچھنے لگی۔۔۔۔ زیب کو کیا ہوا ؟؟؟۔۔۔۔
؟؟ میری بات سن کر شبی نے ایک نظر کمرے کے باہر دیکھا اور کہنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری بات سنتے ہی بھائی نے ایک دفعہ پھر پریشانی کے عالم میں اپنے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہنے لگا۔ ۔۔۔۔وہ ۔۔باجی وہ ۔۔۔۔ زیب ۔۔۔۔ تو میں نے اسے ٹوکتے ہوئے کہا ۔ اتنا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں یار ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ بلکہ آرام سے بیٹھ کر مجھے تفصیل سے بتاؤ کہ آخر بات کیا ہوئی تھی؟؟ ۔۔۔۔۔ میری تسلی دینے اسے کچھ حوصلہ ہوا اور وہ کہنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔. باجی آج دوپہر کو کہ جب آپ قاری صاحب کی طرف گئیں ہوئیں تھیں اور امی نیچے مصروف تھیں تو میں نے ساجد اور زینی کو پکڑنے کے لیئے اپنی چھت پر ناکہ لگا لیا تھا ۔۔۔ اس پر میں نے حیران ہو کر ا س سے پوچھا کہ چھت پر ایسی کون سی جگہ ہے؟ تو وہ کہنے لگا کہ باجی میں ممٹی کی چھت پر لیٹ گیا تھا۔۔۔۔ جہاں سے نیچے کا منظر اور چھت صاف نظر آتی ہے اس پر میں مزید حیران ہو گئی اور اس سے پوچھنے لگی کہ یار اتنی تیز دھوپ میں لیٹ کر تمہاری جلد کو کچھ نہیں ہوا تو وہ کہنے لگا ۔۔۔ ہر گز نہیں باجی ۔۔۔ اس پر میں نے حیران ہو کر اس کی وجہ پوچھی تو وہ کہنے لگا ۔۔۔ وہ اس لیئے کہ میں نے اپنے نیچے چٹائی بچھائی ہوئی تھی ۔۔۔ پھر کہنے لگا ۔۔۔ باجی مجھے ممٹی کی چھت پر بیٹھے کافی دیر ہو گئی تھی ۔۔۔۔اور قریب تھا کہ میں مایوس ہو کر وہاں سے اُٹھ جاتا ۔۔۔ ۔۔۔ لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسی دوران میری نظر زینی پر پڑ گئی ۔۔ جو کہ اس وقت سیڑھیوں چڑھ کر ہماری چھت پر پہنچ چکی تھی ۔۔۔۔ ۔۔۔اور اپنی چھت پر آ کر بڑے محتاط انداز میں ادھر ادھر دیکھ رہی تھی ۔۔۔ کہنے لگا کہ جب اس کو یقین ہو گیا کہ ہر طرف امن شانتی ہے تو اس نے ایک بار پھر پورے چھت کا چکر لگایا ۔۔۔۔۔۔ اور آس پاس کے گھروں کی کو دیکھنے لگی ۔۔۔۔اور میرے خیال میں ادھر سے بھی آل اوکے دیکھ کر وہ چاچے کی چھت کی طرف چلی گئی ( جو کہ ہمارے چھت کے ساتھ بلکل جڑی ہوئی تھی) میرے خیال میں وہاں پہلے سےہی کسی جگہ ساجد چھپا بیٹھا تھا۔۔۔۔ کیونکہ چاچے کی چھت پر پہنچ کر اس نے اس طرف دیکھا اور پھر کوئی اشارہ کر کے وہ اپنے چھت پر آ گئی ۔۔۔۔۔ اس کے بعد اس نے ایک دفعہ پھر نیچے گھر میں جھانک کر دیکھا اور پھر آہستہ آہستہ چلتے ہوئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے کھڈے کا پردہ ہٹایا اور ایک دفعہ پھر مُڑ کر ممٹی کی طرف دیکھا اور پھر کھڈے کے اندر گھس گئی۔۔۔۔
۔۔۔ بات کرتے ہوئے شبی نے تھوڑا سا وقفہ لیا اور پھر کہنے لگا کہ جیسے ہی زینی کھڈے میں داخل ہوئی تو ۔۔۔۔ اسے اندر جاتے دیکھ کر میری عجیب سی حالت ہو گئی اور میرا دل دھک دھک کرنے لگا۔۔۔ پھر زینی کی طرف سے فارغ ہو کر اب میرا سارے کا سارا ۔۔۔۔۔۔۔ دھیان چاچے کی چھت کی طر ف چلا گیا تھا کہ جس طرف جا کر زینی نے کچھ اشارہ کیا تھا ۔۔۔یقیناً یہ اشارہ اس نے ساجد کے لیئے ہی کیا ہو گا ۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔۔ اور پھر میرے اندازے کے عین مطابق ۔۔۔۔۔ کچھ ہی دیر کے بعد ۔۔۔ میں نے ساجد کو دیکھا جو بڑی ہی محتاط نظروں سے ہماری چھت کی طرف دیکھ رہا تھا اور پھر ۔۔۔۔۔ وہاں پر کسی کو نہ پا کر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اگلے ہی لمحے اس نے ہمارے چھت کی چھوٹی سی دیوار پھلانگی ۔۔۔ ۔۔۔۔ اور بڑی بے تابی کے ساتھ ہمارے کھڈے کی طرف بڑھنے لگا ۔۔۔ اور ۔۔ جب وہ کھڈے کے قریب پہنچا تو اس نے ایک نظر ہماری سیڑھیوں کی طرف دیکھا اور پھر اگلے ہی لمحے اس نے کھڈے کا پردہ ہٹایا اور اندر گھس گیا ۔۔۔ یہ منظر دیکھ کر میرا تو خون ہی کھول اُٹھا اور یقین کرو باجی ۔۔۔ ایک دفعہ تو میرا جی چاہا کہ میں ابھی بھاگ کے جاؤں اور ان دنوں کی ایسی کی تیسی کر دوں ۔۔۔ پھر یہ سوچ کر چُپ رہا کہ ۔۔آپ نے مجھے ایسا کرنے سے منع کیا ہے ۔۔۔۔ چنانچہ میں خون کے گھونٹ پی کر وہیں ممٹی کی چھت پر لیٹا رہا ۔۔۔ اور اس بات کا انتظار کرنے لگا کہ وہ اپنا سیکس پروگرام شروع کریں تو میں ان کو پکڑوں کیونکہ میرا خیال تھا کہ ابھی تو کھڈے میں ان کا کسنگ سین وغیرہ چل رہا ہو گا۔۔۔ پھر کچھ دیر لیٹنے کے بعد میں ممٹی کی چھت سے نیچے اترا اور پنجو ں کے بل چلتا ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کھڈے کے قریب پہنچ گیا۔۔۔۔۔ اور اینٹوں کے بنے سوراخ کے ساتھ آنکھ لگا کر دیکھا تو۔۔۔ کھڈے میں زینی لیٹی ہوئی تھی اس کی آنکھیں بند تھیں ۔۔ اور اس کی قمیض اوپر کو اُٹھی ہوئی تھی اور اس کی بھاری چھاتیاں ساجد کے دونوں ہاتھوں میں پکڑی ہوئیں تھیں اور وہ ان کو اپنے ہاتھوں میں پکڑے ہوئے مسل رہا تھا۔۔۔۔۔ یہ دیکھ کر میں واپس ہو گیا ۔۔ کیونکہ آپ نے مجھے ان کو رنگے ہاتھوں پکڑنے کا کہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ممٹی میں بیٹھ کر انتظار کرنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں بیٹھ کر ایک ایک پل مجھ پر ایک ایک سال کے برابر لگ رہا تھا۔۔۔۔ چنانچہ تنگ آ کر میں واپس کھڈے کی طرف آیا اور ۔۔۔۔۔ اور پہلے کی طرح اینٹوں سے بنے سوراخ سے اندر کا نظارہ دیکھنے لگا۔۔۔۔۔۔ یہاں تک بات سنا کر اس نے اپنی آنکھوں کو پھیلایا اور کہنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیا بتاؤں باجی ۔۔۔۔۔کہ اس وقت کھڈے میں ساجد لیٹا ہوا تھا۔۔۔۔اور اس کی شلوار اتری ہوئی تھی۔۔۔ اور اس کا لن زینی کے ہاتھ میں پکڑا ہوا تھا ۔۔۔اور وہ اس کو آگے پیچھے کر رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر شبی نے بڑی حیرت سے میری طرف دیکھ کر کہنے لگا۔۔۔۔ باجی پھر آپ کو پتہ ہےکہ پھر کیا ہوا؟ تو میں انکار میں سر ہلاتے ہوئے اس سے بولی مجھے کیا پتہ یار ۔۔۔تم کچھ بتاؤ گے تو پتہ چلے گا ناں ۔۔۔۔اس پر وہ کہنے لگا۔۔۔۔ پھر باجی یوں ہوا کہ میرے دیکھتے ہی دیکھتے زینی ۔۔۔
ساجد کی دونوں ٹانگوں کے بیچ میں اپنا سر لے گئی۔۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔اور ۔۔۔باجی۔۔۔ یہ دیکھ کر میری حیرانی کی کوئی انتہا نہ رہی کہ اس نے ساجد کے لن کو اپنے منہ میں لے لیا۔ اور اسے چوسنے لگی ۔۔ اس پر میں نے شبی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔اس میں حیران ہونے کی کونسی بات ہے؟ میں روزانہ ہی تمہارے لن کو اپنے منہ میں لیتی ہوں۔۔۔ تو میری بات کو کاٹتے ہوئے شبی کہنے لگا ۔۔۔۔ باجی آپ کی بات اور ہے ۔۔۔آپ تو کافی بڑی اور سمجھدار ہو۔۔۔۔ پر باجی زینی تو ابھی بہت چھوٹی اور ناسمجھ ہے۔۔ اس کو اس طرح لن چوسنے کا کیسے پتہ چلا۔۔۔۔؟؟ ۔اس پر میں نے شبی کے گال کو تھپ تھپایا اور اس سے کہنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے پیارے بھائی۔۔۔۔ چھوٹی وہ میری اور تمہاری نظروں میں ہے ورنہ ۔۔۔ تم کو شاید پتہ نہیں ۔۔۔دو سال سے اس کو پیریڈز آ رہے ہیں ۔ ۔۔اس لیئے میرے حساب سے تو وہ جوان ہی ہے۔۔۔۔ میری بات سن کر شبی کی آنکھیں ۔۔حیرت سے پھٹنے کے قریب ہو گئیں اور وہ کہنے لگا۔۔۔یہ آپ کیا کہہ رہی ہو باجی؟؟؟۔۔۔۔یعنی پورے دو سال سے؟ تو میں نے ہاں میں سر ہلا دیا ۔۔۔ اس پر وہ کہنے لگا۔۔۔۔ لیکن اس بات کا پہلے آپ نے مجھ سے تزکرہ نہیں کیا۔۔۔۔ تو میں نے اس کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ پہلے کبھی اس موضوع پر بات جو نہیں ہوئی تھی۔۔۔میری بات سن کر اس نے سر ہلا دیا۔۔اور اس کے ساتھ ہی وہ کہنے لگا کہ چلو باجی پیریڈز کی حد تک تو یہ بات درست ہے لیکن میری سمجھ میں ابھی تک یہ بات نہیں آ رہی کہ اس کو لن چوسنے کا کیسے پتہ چلا؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟۔۔۔۔ اس پر میں نے اس کی طرف دیکھا اور کہنے لگی۔۔۔ شبی میری جان ۔۔۔۔۔۔۔ اس میں حیرت کی کو نسی بات ہے ۔۔۔ جہاں تک لن چوسنے اور پھدی چاٹنے کا تعلق ہے تو جیسا کہ تم بھی اس بات سے اچھی طرح واقف ہو کہ آج کل یہ بات تو ہر جوان ہونے والا بچہ اور بچی جانتے ہیں ۔۔۔۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ اس قسم کے ننگے انگریزی ۔۔۔۔ رسالے اور فلمیں عام مل جاتی ہیں کہ جس میں مرد اور عورت ایک دوسرے کے نہ صرف یہ کہ جنسی اعضاء کو چاٹتے ہیں بلکہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بلکہ بعض تصویروں میں گوریوں کی زبان پر تو مرد کی منی بھی رکھی ہوئی صاف نظر آتی ہے جسے دیکھ کر لڑکے اور لڑکیاں متاثر ہوتے ہیں اور ایکد وسرے کے ساتھ ان جیسا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔۔۔ اس کے بعد اپنے تجربے کو یاد کرتے ہوئے میں بھائی سے کہنے لگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے خیال میں فلمیں تو نہیں البتہ ساجد نے زینی کو دیکھنے کے لیئے یہ رسالے ضرور دیئے ہوں گے تبھی تو تمہارے بقول زینی بڑے شوق سے ساجد کا لن چوس رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔ میری اتنی لمبی بات سن کر اس نے اپنے سر کو ہاں میں تو ہلا دیا تھا لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اس کی آنکھیں بتا رہیں تھیں کہ وہ ابھی تک حیرت میں مبتلا ہے۔۔شاید ا سے میری کہی ہوئی بات ہضم نہ ہو ر ہی تھی ۔۔۔۔۔ یہ دیکھ کر میں نے اس سے کہا۔۔۔ ان باتوں کو چھوڑو ۔۔۔ یہ بتاؤ کہ آگے کیا ہوا ؟؟۔۔۔۔ تو میری بات سن کر شبی حیرت کے دریا سے نکلتے ہوئے کہنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اوہ ہاں۔۔۔۔ باجی۔۔۔ اس کے بعد میں یہی دیکھتا رہا ۔۔۔۔ کہ زینی بڑے شوق سے اس کے لن کو چوستی رہی پھر ۔۔ نیچے لیٹے ہوئے ساجد نے اسے کوئی اشارہ کیا ۔۔۔اور زینی نے اس کے لن کو اپنے منہ سے نکالا اور ۔۔۔ اپنی شلوار اتار کے گھوڑی بن گئی۔۔۔ اسی اثنا میں اپنی جگہ سے اُٹھ کر ساجد بھی گھٹنوں کے بل چلتا ہوا ۔۔اس کے پیچھے آ گیا ۔۔۔۔ اور یہ سین دیکھ کر ۔۔۔اچانک ہی مجھے یاد آگیا کہ میں یہاں ان کی سیکس موی دیکھنے نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بلکہ۔۔۔۔ ان کو رنگے ہاتھوں پکڑنے کے لیئے آیا ہوں ۔۔۔ یہ سوچ کر میں نے کھڈے کے سوراخ سے لگی اپنی آنکھوں کووہاں سے ہٹایا اور ۔۔اور دھیرے دھیرے چلتا ہوا ممٹی کے اندر آ گیا۔۔۔ اور کچھ دیر توقف کے بعد میں ایک دو سڑھیاں نیچے اترا ۔۔۔۔اور پھر انہی سیڑھیوں پر جان بوجھ کر زور زور سے قدم مارتا ہوا ۔۔۔ ممٹی پر پہنچ گیا۔ اور پھر چھت پر آ کر خواہ مخواہ ہی آپ کو آوازیں دینے لگ گیا۔۔۔۔ کہ باجی باجی۔۔۔ آپ کہاں ہو؟؟؟۔۔۔ آوازیں دینے کے ساتھ ساتھ میرا ساتھ دھیان کھڈے کی طرف ہی لگا ہوا تھا ۔۔۔
پھر میں نے پروگرام کے مطابق ایسے ہی اونچی آواز میں ہانک لگائی کہ یہ کھڈے میں کون ہے؟ میری آواز سنتے ہی کھڈے میں کچھ کھسر پھسر ہوئی اور اس سے پہلے کہ میں کھڈے کے قریب پہنچتا ۔۔۔۔اچانک ہی کھڈے کا پردہ ہٹا اور اس میں سے اپنی شلوار کو باندھتا ہوا ۔۔۔ساجد باہر نکلا اور میری طرف دیکھے بغیر ہی بھاگ وہ بھاگ کر ہماری چھوٹی سی دیوار کے پاس پہنچا اور پھر اسے پھلانگتا ہوا ۔۔۔۔ اپنی چھت پر کود گیا ۔۔۔ میں نے بھتیرا رولا ڈالا ۔۔۔۔ لیکن وہ بھاگ گیا ۔۔۔اس کے بھاگ جانے کے بعد میں ۔۔ کھڈے کی طرف متوجہ ہوا تو دیکھا کہ اس میں سے زینی نکل رہی تھی اسے دیکھ کر حقیقت میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے غصہ آ گیا ۔۔۔۔اور میں نے غصے کے عالم میں اس سے پوچھا کہ یہ تم لوگ کھڈے میں کیا کر رہے تھے؟ تو بجائے شرمندہ ہونے کے۔۔۔ بڑی ڈھٹائی کے ساتھ وہ کہنے لگی۔۔۔ وہی جو تم اور عاشی ۔۔۔صبو باجی کے ساتھ مل کے ان کے کمرے میں کرتے ہو۔۔۔ کہنے لگا زینی کی یہ بات سن کر ایک لمحے کے لیئے تو میں اپنے سارے تور پور بھول گیا ۔۔۔۔اور بڑی حیرانی سے اس کی طرف دیکھ کربولا ۔۔۔کہ یہ تم کیا بکواس کر رہی ہو؟ تو وہ بڑے اطمینان سے کہنے لگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں بکواس نہیں کر رہی بلکہ مجھے سب معلوم ہے کہ تم خود عاشی باجی اور صبو باجی کے ساتھ خراب ہو ۔۔۔۔ اتنا کہہ کر اس نے میری طرف دیکھا اور کہنے لگا ۔۔۔ کیا بتاؤں باجی ۔۔۔زینی نے مجھ سے یہ بات اتنے اطمینان اور زہریلے انداز میں کہی تھی۔۔۔۔۔۔۔ کہ اسے سن کر ایک دم سے میں نہ صرف گھبرا گیا تھا بلکہ اس کی طنزیہ نظروں کی تاب نہ لاتے ہوئے ۔۔۔۔میں پانی پانی بھی ہو گیا ۔۔۔۔ پھر کہنے لگا ۔۔۔کہ اس کی بات سن کر کچھ دیر کے لیئے تو میں سُن ہو کر رہ گیا ۔۔۔ پھر ۔۔۔۔ اس سے پہلے کہ میں اس سے مزید کچھ کہتا وہ بڑے اطمینان سے چلتی ہوئی سیڑھیوں سے نیچے اتر گئی۔تھی ۔۔۔ اتنی بات کر کے شبی نے بڑی ہی پریشانی کے عالم میں میری طرف دیکھا اور کہنے لگا۔۔۔۔ ۔۔۔باجی زینی کو نہ صرف میرے اور آپ کے تعلق بلکہ ۔۔۔ میرے عاشی کے ساتھ ہونے والے سارے واقعات کا بھی پتہ ہے۔۔۔۔ بھائی نے بات ہی ایسی کی تھی کہ اس کی بات سن کر ایک لمحے کے لیئے کو تو میں بھی ششدر رہ گئی تھی ۔۔
۔۔ اور کافی دیر تک حیرانی کے عالم میں اسے دیکھتی رہی ۔۔۔۔۔۔۔ پھر کچھ دیر بعد جب میرے حواس کچھ بحال ہوئے تو میں نے اس سے کہا ۔۔۔ کہ بھائی ۔۔ ہو نہ ہو یہ بات اس کو ساجد نے بتائی ہو گی۔۔۔اور پھر میں نے شبی کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور اس سے مخاطب ہو کر بولی ۔۔۔ تم فکر نہیں کرو بھائی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔ تو میری بات سن کر وہ کہنے لگا کیسے ٹھیک ہو جائے گا باجی۔۔۔ میرا تو خیال تھا کہ میرے یوں چھاپہ مارنے سے وہ لوگ ڈر جائیں گے ۔۔ لیکن یہاں تو معاملہ ہی الٹ ہو گیا ہے اور ہمیں لینے کے دینے پڑ گئے ہیں۔۔۔
شبی کی بات بھی درست تھی کیونکہ پہلے میرا پروگرام یہ تھا کہ بھائی کے چھاپہ مارنے وہ ڈر جائے گی ۔۔۔۔ اور میں اسی ڈر کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے اسے ساجد سے متنفر کر دوں گی ۔۔۔ یوں سانپ بھی مر جائے گا اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے گی لیکن بھائی کے چھاپے کے بعد اب معاملے نے دوسرا رُخ اختیار کر لیا تھا ۔۔۔اس لیئے میرا زہن تیزی کے ساتھاس بات پر کام کر رہا تھا کہ اب کیا کیا جائے؟ پھر اچانک ہی میرے زہن میں زینی کی بیسٹ فرینڈ ۔۔۔ ثمینہ سیناری کا نام آ گیا۔۔۔ اور جوں جوں میں اس پوائینٹ پر غور کرتی رہی اس کے ساتھ ساتھ میرے شیطانی زہن میں ایک پلان تیار ہوتا رہا ۔۔۔۔۔اور پھر اگلے چند سیکنڈز میں ۔۔۔میرے زہن میں اس پلان کے سارے خدو خال نمایاں ہونا شروع ہو گئے ۔۔۔ لیکن اس پلان کی ساری کامیابی کا دارومدار ۔۔ثمینہ سنیاری کے تعاون پر تھا ۔۔۔ یہاں میں ثمینہ سیناری کے بارے میں ۔۔بتا دوں کہ وہ زینی کی سب سے اچھی دوست اور ہم نوالہ و ہم پیالہ تھی۔۔۔۔ زینی کی اچھی دوست ہونے کی وجہ سے اس کے ساتھ میری بھی بہت اچھی سلام دعا تھا ۔۔۔۔۔۔ زینی کے بر عکس ثمینہ سنیاری ایک گوری چٹی اور موٹاپے کی طرف مائل ایک بھرے بھرے جسم کی مالک تھی ۔۔۔۔اس کے ساتھ ساتھ اس کی شکل و صورت کی بہت اچھی تھی اور موٹاپے کی وجہ سے زینی کی طرح وہ بھی اپنی عمر سے تھوڑی زیادہ دکھتی تھی۔۔۔۔
اپنے ذہن میں پلان ترتیب دینے کے بعد میں نے ۔۔۔ بھائی کی طرف دیکھا جو بڑی پریشانی کے عالم میں میری طرف ہی دیکھ رہا تھا ۔۔۔ چنانچہ جب میری اور اس کی نظروں سے نظریں ملیں تو وہ کہنے لگا۔۔۔ کہ پھر آپ نے کیا سوچا ہے باجی؟ تو میں نے اس کے کندھے پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا ۔۔ فکر نہ کر بچے سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔ اس پر بھائی روہانسے لہجے میں کہنے لگا۔۔۔ فکر کیوں نہ کروں باجی ۔۔۔ فرض کرو کہ اگر زینی نے یہ بات اماں کو بتا دی تو؟ بھائی کی بات سن کر میں ہنس پڑی اور اس سے کہنے لگی ۔۔۔ نہیں میرے بھائی زینی کبھی بھی یہ بات اماں سے نہیں بتا ئی گی ۔۔۔وہ اس لیئے کہ اس طرح پھر اس کو ساجد کے ساتھ اپنے تعلق کی بھی وضاحت کرنی پڑے گی اور اس بات کو وہ کبھی بھی افورڈ نہیں کر سکے گی ۔۔۔۔ میری بات سن کر بھائی پھر بھی مطئن نہ ہوا اور بولا کہ پھر بتاؤ نہ باجی کہ اب کیا کیا جائے ؟ تو میں نے اس کو کہا کہ ۔۔۔ میرے بھائی ہو گا وہی جو ہم نے سوچا ہے ۔۔۔اور پھر اس کے استفسار پر میں نے اس کے ساتھ اپنا سارا پلان شئیر کر دیا۔۔۔ سن کر کہنے لگا ۔۔۔ پلان تو بہت اچھا ہے لیکن یہ بتاؤ کہ ثمینہ سنیاری اس بات کے لیئے راضی ہو جائے گی؟ تو میں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ امید تو بہت ہے ۔۔۔باقی آگے کی آگے جانے۔۔۔
اگلی صبع حسبِ معمول میں اور امی قاری صاحب کے گھر چلی گئی ۔۔۔اور ھسبِ سابق قاری صاحب کی بیگم کے پاس جا کر بیٹھ گئیں ۔۔۔۔ ان کی بیگم کی حالت دیکھ کر میرے کان میں اماں کہنے لگی۔۔۔۔ ایک دو دن کی بات ہے۔۔۔۔ پھر کچھ دیر کی گپ شپ کے بعد میں نے کاکے کو اُٹھایا اور اماں کو بتا کر باہر چلی آئی۔۔۔ جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ اماں تو پہلے ہی یہی چاہتی تھیں ۔۔۔ اس لیئے انہوں نے مجھے بخوشی اس بات کی اجازت دے دی ۔۔۔چنانچہ کاکے کو اُٹھائے اُٹھائے بجائے ہمسائیوں کے ۔۔۔ میں سیدھی ثمینہ سنیاری کے گھر کی طرف چل دی۔۔۔ جس کا گھر قاری صاحب اور ہمارے گھر کے درمیان واقعہ تھا۔۔۔ ثمینہ سیناری گھر پر ہی موجود تھی ۔۔۔۔ مجھے دیکھ کر بڑی خوش ہوئی ۔۔۔اور ہم دونوں برآمدے میں ہی بیٹھ گئیں ۔۔۔۔ چارپائی پر بیٹھتے ہی اس نے میرے آنے کی وجہ پوچھی تو میں نے کاکے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ گھر میں یہ تنگ کر رہا تھا سوچا کیوں نا اسے باہر گھومایا جائے ۔۔۔ میری بات سن کر وہ مطمئن ہو گئی اور اس دن میں نے اس کے ساتھ خوب گپ شپ کی۔۔۔ لیکن اسکے ساتھ زینی کے ٹاپک پر ایک لفط بھی نہیں کہا ۔۔۔۔اس کی وجہ یہ تھی کہ ابھی میں اس کے ساتھ اپنی دوستی کو مزید بڑھانا چاہتی تھی ۔۔۔۔۔۔ تا کہ بعد میں ۔۔۔ جب میں اسے کوئی کام کہوں تو وہ انکار نہ کر سکے ۔۔۔۔ اس طرح پلان کے مطابق اس دن میں نے اس کے ساتھ دو تین گھنٹے گزارے ۔۔۔ اور اس کے ساتھ زیادہ سے زیادہ فری ہونے کی کوشش کی۔۔۔ جس میں ۔۔۔۔ میں کافی حد تک کامیاب رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔
اسی طرح اگلے دو تین دن تک صبع صبع ہی میں کاکے کو لے کر ثمینہ سنیاری کے ہاں چلی جایا کرتی تھی۔۔۔ اس لیئے چند ہی دنوں میں ۔۔۔وہ زینی کے ساتھ ساتھ اب وہ میری بھی بہت اچھی دوست بن چکی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس لیئے اب میں اس کے ساتھ وہ والی باتیں بھی ہلکے پھلکے انداز میں کر لیتی تھی کہ باتیں صرف گہری سہلیاں ہی کیا کرتی ہیں ۔۔۔۔۔۔ یہ چوتھے یا پانجویں دن کی بات ہے کہ اس دن قاری صاحب کے ہاں ڈلیوری بھی ہو گئی اور انہوں نے ایک لڑکی کو جنم دیا تھا۔۔۔۔ قاری صاحب کے ہاں ڈلیوری کی وجہ سے پروگرام کے مطابق اس دن میں ثمینہ سنیاری کے ہاں نہ جا سکی تھی ۔۔۔۔۔۔جب قاری صاحب کے ہاں بچی کی پیدائیش کا مرحلہ بخریت سر انجام پا گیا ۔۔۔ تو اس وقت ڈلیوری سے فارغ ہو کر آس پاس کی سب خواتین قاری صاحب کے بیٹھی باتیں کر رہیں تھیں کہ اماں نے اشارے سے مجھے اپنے پاس بلایا اور کچھ پیسے دیتے ہوئے کہنے لگیں کہ میں ان خواتین کے لیئے چائے وغیرہ کا بندوبست کرتی ہوں اتنے میں تم دوڑ کے جاؤ اور فضل کریانے والے سے بسکٹ وغیرہ لے آؤ۔۔۔ اماں کی بات سن کر میں نے برا سا منہ بنایا ۔۔۔۔۔اور فضل کریانہ والے کی طرف چل پڑی ۔۔اس وقت سہ پہر کا وقت تھا اور غضب کی گرمی پڑ رہی تھی۔۔۔ اور اس گرمی کی وجہ سے ہمارے ٹاؤن کے گلیاں و کوچے ویرانی کا منظر پیش کر رہے تھے۔۔۔۔ چنانچہ اس تیز دھوپ میں چلتی ہوئی ۔۔۔میں فضل کریانہ والے کے پاس جا پہنچی ۔۔۔۔ تو دیکھا کہ اس کا دروازہ ادھ کھلا ہوا تھا یہ دیکھ کر میں سمجھی کہ دروازہ بند کر کے چاچا اب آرام کر رہا ہو گا ۔۔۔اس لیئے اس آدھ کھلے دروازے کے قریب پہنچ کر میں واپسی کے لیئے جیسے ہی مُڑی ۔۔۔اچانک اندر سے مجھے کھسر پھسر کی آواز سنائی دی ۔۔۔ یہ سوچ کر کہ فضل چاچا دکان پر ہے اور شاید کسی گاہگ کے ساتھ بزی ہے ۔۔۔۔میں چپکے سے دکان کے اندر داخل ہو گئی۔۔۔۔ اور جیسے ہی میں دکان میں داخل ہوئی ۔۔۔۔ تو سامنے کا منظر دیکھ کر میں حیران رہ گئی۔۔۔۔۔ واہ کیا نظارہ تھا۔۔۔۔ کیا دیکھتی ہوں کہ دروازے کی اوڑھ میں ثمینہ سنیاری کھڑی تھی ۔۔۔۔ اور اس کی ساری قمیض اوپر کو اُٹھی ہوئی تھی جس سے اس کی موٹی موٹی چھاتیاں ننگی ہو گئیں تھیں ۔۔۔۔۔اور اس کی ان ننگی چھاتیوں کو چاچے فضل نے اپنے دونوں ہاتھوں میں پکڑ رکھا تھا ۔۔۔۔اور انہیں دبا رہا تھا ۔۔۔ مجھے یوں اپنے پاس کھڑے دیکھ کر وہ دونوں ہی گھبرا گئے۔۔۔ اور خاص کر ثمینہ سنیاری کے چہرے کا تو رنگ ہی اُڑ گیا ۔۔اور میری طرف دیکھے بغیر ہی اس نے جلدی سے اپنی قمیض کو نیچے کیا ۔۔۔۔۔ اور بغیر کوئی بات کیئے وہاں سے بھاگ گئی۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے جانے کے بعد میں نے فضل چاچا کے ساتھ ایسے پیش آئی کہ جیسے میں نے کچھ دیکھا ہی نہیں اور اسے پیسے پکڑاتے ہوئے بسکٹ دینے کا کہا ۔۔۔ میری بات سن کر اس نے جلدی سے بہت سارے بسکٹ ایک شاپر میں ڈال کر میرے ہاتھ پکڑائے اور پیسے بھی واپس کرتے ہوئے میرے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہوگیا ۔۔۔اور کہنے لگا۔۔۔ صبو پتر ۔۔ میری عزت اب تمہارے ہاتھ میں ہے۔۔۔ اس کی بات سن کر میں نے اسے کوئی جواب نہ دیا ۔۔۔۔ بسکٹ اور پیسے اُٹھا کر میں واپس قاری صاحب کے گھر آ گئی۔۔ راستے میں اس حادثے کے بارے میں سوچ سوچ کر میں بہت خوش ہوتی رہی کیونکہ اس حادثے کے بعد ثمینہ سنیاری میری "کانی" ہو گئی تھی ۔۔۔ اور اب میں جو چاہوں اس سے کام لے سکتی تھی ۔۔۔ چنانچہ یہی سوچتے ہوئے کہ اب میں نے ثمینہ سے کیسے کام لینا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک پروگرم ترتیب دے دیا۔۔۔
اماں کو بسکٹ وغیرہ دینے کے بعد میں نے ان سے جانے کی اجازت لی تو وہ کہنے لگیں پہلے تم یہ چائے سرو کر دو پھر بے شک گھر چلی جانا۔۔۔ چنانچہ ان کے کہنے پر میں نے مہمان خواتین و حضرات میں چائے و بسکٹ وغیرہ پیش کرنے کے بعد میں اماں سے اجازت لی لیکن وہ کہنے لگی کہ تھوڑی دیر اور رُک جاؤ تو میں بھی تمہارے ساتھ وپس گھر چلوں گی۔۔۔ اماں کے کہنے پر میں وہاں رُک گئی اور پھر کچھ ہی دیر بعد میں اور اماں اکھٹے ہی گھر آ گئے۔۔۔۔۔ گھر آ کر میں شام ہونے کا انتظار کرنے لگی۔۔۔۔ اور پھر شام ہوتے ہی میں گھر سے نکلی ۔۔۔..۔۔۔۔۔۔ اب میری منزل ۔۔۔ثمینہ سنیاری کا گھر تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ثمینہ کے گھر پہنچ کر میں نے اس کی امی سے پوچھا کہ خالہ ثمینہ کہاں ہے تو وہ کہنی لگی ۔۔۔ وہ تو دوپہر سے ہی اپنے کمرے میں گھسی ہوئی ہے۔۔۔ اس پر میں سیدھی اس کے کمرے میں چلی گئی ۔۔۔ دیکھا تو وہ سامنے ہی اپنے پلنگ پر لیٹی ہوئی تھی۔۔۔ مجھے کمرے میں آتا دیکھ کر وہ ایک دم سے گھبرا گئی۔۔۔۔اور کہنے لگی۔۔۔ صبو باجی ۔۔آ۔۔آ۔۔آپ۔۔۔۔ ؟ تو میں نے اس کے پاس پلنگ پر بیٹھ گئی اور اس کا ہاتھ پکڑ کر سہلاتے ہوئے بولی۔۔۔۔ ہاں کیوں میں تمہارے پاس نہیں آ سکتی ؟ میری بات سن کر وہ کہنے لگی ۔۔۔ کیوں نہیں آ سکتی آپ ۔۔۔ پھر میری طرف دیکھتے ہوئے وہ کہنے لگی ۔۔۔صبو باجی ۔۔۔ وہ دوپہر کو جو ہوا ( اس بات پر وہ سخت شرم محسوس کر رہی تھی)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے لیئے سوری۔۔۔ تو میں نے اس کا ہاتھ سہلاتے ہوئے تھوڑا دبایا اور اس کی طرف دیکھ مسکراتے ہوئے بولی ۔۔۔ اس میں سوری کی کون سی بات ہے یار۔۔۔۔ میری بات سنتے ہی اسے ایک جھٹکا سا لگا اور۔۔۔۔ وہ پلنگ سے اُٹھ بیٹھی اور میری طرف دیکھتے ہوئے بڑی حیرانی سے کہنے لگی ۔۔۔ ۔۔۔ یہ ۔۔۔۔۔۔ یہ آپ کیا کہہ رہی ہو باجی ۔۔۔تو میں نے اس کی طرف آنکھ مار تے ہوئے کہا۔۔۔۔ اس میں حرج ہی کیا ہے کہ اگر تم نے کسی کے ساتھ تھوڑی سی مستی کر لی تو اس میں کسی کے باپ کا کیا جاتا ہے۔۔۔ میری اس بات کو سن کر حیرت سے اس کی بڑی بڑی آنکھیں پھیل گئیں ۔۔۔اور وہ میری طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگی ۔۔۔آپ سچ کہہ رہی ہو نا باجی؟۔۔۔۔ تو میں نے بدستور اس کے ہاتھ کو سہلاتے ہوئے کہا۔۔۔۔ اس میں جھوٹ کی کیا بات ہے یار؟ تم میری چھوٹی بہن کی بیسٹ فرینڈ ہو اور اس لحاظ سے تم بھی میری چھوٹی بہن اور دوست ہو ۔۔۔ ثمینہ کو ابھی تک میری بات کا یقین نہیں آ رہا تھا۔۔۔ اس لیئے اب اس نے بھی میرا ہاتھ تھام لیا اور کہنے لگی۔۔۔سچ بتاؤ صبو باجی واقعی ہی آپ دوپہر والے واقعہ کا کسی کے ساتھ تزکرہ نہیں کرو گی؟؟؟؟؟؟؟؟ ۔۔۔ تو میں نے اس کو یقین دلاتے ہوئے کہا کہ اچھا یہ بتاؤ کہ اگر تمہاری چھوٹی بہن سے ایسی کو ئی بات ہو جائے تو تم کیا کرو گی؟ کیا تم اپنی چھوٹی بہن کے معاملے پر مٹی ڈالو گی یا اسے سرِ بازار اچھالو گی؟ میری بات سنتے ہی اچانک ثمینہ اپنی جگہ سے اُٹھی اور میرے ساتھ گلے لگتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔ تم بہت اچھی ہو باجی۔۔۔۔
جیسے ہی وہ مجھ سے گلے ملی ۔۔۔۔تو پروگرام کے مطابق میں نے اس کی چھاتیوں کے ساتھ اپنی چھاتیوں کو رگڑتے ہوئے کہا کہ۔۔۔ وہ تو ٹھیک ہے پر ثمینہ کی بچی یہ تو بتاؤ کہ مجھ سے چھوٹی ہونے کے باوجود بھی تم نے اپنی ان (چھاتیوں ) کو اتنا بڑا کیسے کر لیا؟ میری بات سن کر وہ شرما سی گئی اور کہنے لگی۔۔۔۔۔ آپ بھی نا باجی۔۔۔۔۔۔۔ اور مجھ سے الگ ہو کر بیٹھ گئی۔۔۔ اس پر میں نے اس کے منہ کو پکڑ کر اوپر کیا اور کہنے لگی ۔۔۔میں سچ کہہ رہی ہوں ثمینہ ۔۔۔۔۔ تیری یہ چھاتیاں بڑی سیکسی ہیں ۔۔۔ میری بات سن کر ثمینہ کے چہرے پر ایک رنگ سا آ گیا۔۔۔۔۔۔ لیکن وہ چُپ رہی ۔۔۔ اس پر میں نے اس کو کہاکہ بتا نا یار میں نے بھی اپنی ان چھوٹی چھوٹی چھاتیوں کو تمہاری طرح سے بڑا اور سیکسی کرنا ہے اب تو ہی بتا کہ ان کو میں بڑا اور سیکسی کیسے کروں؟؟؟؟۔۔۔
اس کے ساتھ ہی میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنی چھاتیوں پر رکھ دیا اور بولی ۔۔دیکھ نا یار میری چھاتیاں کتنی چھوٹی چھوٹی ہیں ۔۔اور پھر اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولی ۔۔۔ ارے یار میری بات کا کچھ تو جواب دو ۔۔۔۔۔کہ آخر میں تمہاری بڑی بہن اور اچھی دوست ہوں۔۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی میں نے اس کے ہاتھ کوپکڑ کر اپنی چھاتی پر رکھا اور ۔۔۔۔۔۔پھر دبا دیا۔۔۔۔۔ ثمینہ سنیاری فری تو میرے ساتھ پہلے ہی سے تھی اب میری اس حرکت سے اس کے اور میرے بیچ جو تھوڑی بہت جھجھک باقی رہ گئی تھی وہ بھی دور ہو گئی تھی (اور یہی تو میں چاہتی تھی) ۔۔۔ چنانچہ اس نے میری چھاتی پر رکھا ہوا اپنا ہاتھ ہٹانے کی زرا بھی کوشش نہ کی اور میری چھاتی پر ہاتھ دھرے دھرے کہنے لگی۔۔۔۔ باجی آپ کی چھاتیاں چھوٹی ضرور ہیں ۔۔ پر ۔۔۔ دیکھنے میں بڑی ہی غضب کی سیکسی ہیں ۔۔۔اس پر میں نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور پروگرام کے مطابق اپنی قمیض کو اوپر کیا اور پھر برا کو ہٹاتے ہوئے اپنی چھاتی کو ننگا کر کے اس کے سامنے کر دیا اور بولی۔۔۔۔ اسے دیکھ کر سچ سچ بتاؤ کہ کیا یہ واقعی ہی سیکسی ہیں؟؟؟؟ ۔۔۔ میری ننگی چھاتی کو دیکھ کر وہ ایک دم سے گھبرا گئی اور ۔۔ دروازے کی طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگی قمیض نیچے کرو باجی کوئی آ جائے گا۔۔۔۔ اس کے کہنے پر میں نے اپنی قمیض کو نیچے کر دیا اور پھر اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولی ۔۔۔ یہ لو میں نے اپنی قمیض کو نیچے کر دیا ہے ۔۔۔۔۔ اب بتا۔۔۔ کہ میری چھاتیاں کیسی ہیں ؟؟ ۔۔۔ حقیقت یہ ہے کہ میری ننگی چھاتی کو دیکھ کر ثمینہ تھوڑی سی گرم ہو گئی تھی ۔۔۔ اور یہ گرمی اس کی آنکھوں سے صاف دکھائی دے رہی تھی رہی تھی۔۔۔
میری بات سن کر اس نے ایک دفعہ پھر دروازے کی طرف دیکھا تو میں نے اس سے کہا کہ اتنی جو ڈر رہی ہو ایسا کرو تم ایک چکر باہر کا لگا آؤ۔۔۔۔پھر آ کر مجھے بتانا ۔۔۔ میری بات سنتے ہی وہ اپنے پلنگ سے اُٹھی اور چپل پہن کر باہر چلی گئی ۔۔۔اور یہ ہمارے حق میں اچھا ہی ہوا ۔۔ کیوں کہ عین اسی وقت ثمینہ کی امی ہاتھ میں ٹرے لیئے کہ جس میں روح افزاء کا جگ اور گلاس رکھے کمرے میں داخل ہو رہی تھی انہیں دیکھتے ہی ثمینہ نے ان کے ہاتھ سے ٹرے کو پکڑ لیا۔۔۔ ٹرے پکڑاتے ہوئے اس کی امی ثمینہ سے کہنے لگی بیٹی تم صبو باجی کے ساتھ گپ شپ لگاؤ میں تمہارے چاچے کے گھر سے ہو کر دس پندرہ منٹ تک واپس آ جاؤں گی اپنی امی کی بات سن کر ثمینہ مسکراتے ہوئے کہنے لگی ۔۔۔امی یہ تو بتاؤ پندرہ منٹ یا دو گھنٹے ۔۔۔۔ تو اس کی امی جواب دیتے ہوئے بولی۔۔۔ ہائے ہائے اڑیئے جاتی تو میں پندرہ منٹ کے لیئے ہی ۔۔۔ لیکن پھر اگلی ہی نہ اُٹھنے دے تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں کیا کروں ۔۔۔۔ یہ کہتے ہوئے وہ واپسی کے لیئے مُڑیں اور جاتے ہوئے کہہ گئیں کنڈی مار لے پتر۔۔۔۔۔ چنانچہ ثمینہ سنیاری نے وہیں ٹرے رکھا اور کنڈی لگانے کے اپنی امی کے پیچھے پیچھے چل دی۔۔۔۔
واپسی پر اس نے ایک گلاس میں میرے لیئے روح افزاء ڈالی اور ایک میں اپنے لیئے ڈال کر چُپ کر کے پینے لگی۔۔۔اس پر میں نے اسے چھیڑتے ہوئے کہا کہ تم نے بتایا نہیں ثمینہ۔۔۔ میری بات سن کر اس نے چونک کر میری طرف دیکھا اور کہنے لگی۔۔۔۔کیا بات باجی ؟ تو میں نے اس کی چھاتیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔۔۔۔ ان کو کیسے بڑا کیا۔۔۔۔ میری بات سن کر اس کا چہرہ سرخ پڑ گیا اور وہ سر جھکا کر بولی۔۔۔۔وہ باجی میرے قدرتی ایسے ہیں۔۔۔۔۔اس پر میں اپنی جگہ سے اُٹھی اور اس کے قریب جا کر بیٹھ گئی اور پھر بڑے ہی رومینٹک لہجے میں اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔ تم یقین نہیں کرو گی ثمینہ جب سے میں نے تمہاری چھاتیوں کو دیکھا ہے ۔۔۔ اپنی چھاتیوں کے بارے میں ۔۔۔ میں احساسِ کمتری کا شکار ہو گئی ہوں ۔۔ اپنی چھاتیوں کی تعریف سن کر سرخ ہوتا ہوا ثمینہ کا چہرہ جزبات کی شدت سے مزید سرخ ہو گیا ۔۔۔اور وہ میری طرف دیکھتے ہوئے اپنے ہونٹوں پر زبان پھیرنے لگی۔۔۔۔ اس پر میں نے براہِ راست اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔اگر تم ناراض نہ ہو تو میں ۔۔۔ ایک دفعہ پھر ان کو دیکھ سکتی ہوں ؟ اور اس کے جواب کا انتظار کیئے بغیر اس کی قمیض کو اوپر کرنے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔۔یہ دیکھ کر ثمینہ نے خود ہی ہاتھ بڑھا کر اپنی قمیض کو اوپر کیا اور پھر۔۔۔۔ برا ہٹا کر ۔۔۔۔ اپنی چھاتیوں کو میرے سامنے کر دیا۔۔۔ واؤؤؤؤؤؤؤؤؤؤ۔۔ثمینہ کی چھاتیاں کافی گوری اور گول تھیں ان گول گول چھاتیوں پر ہلکے براؤن رنگ کے چھوٹے چھوٹے نپلز تھے۔۔۔۔ جو اس وقت اکڑے ہوئے تھے۔۔۔۔
اپنی چھاتیوں کو ننگا کر کے ثمینہ میری طرف دیکھ رہی تھی جبکہ اس کی چھاتیوں کو دیکھ کر واقعتاً میں بہت گرم ہو گئی تھی اس لیئے میں نے اس کی ایک چھاتی کو اپنے ہاتھ میں پکڑا اور پھر اس کی طرف دیکھتے ہوئے اپنے منہ میں لے لیا۔۔اور اسے چوسنے لگی۔۔۔۔ میرا چھاتی کو منہ میں ڈالنے کی دیر تھی کہ ثمینہ نے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور میرے نپل چوسنے کو انجوائے کرنے لگی۔۔۔ اس کے ساتھ ہی اس کے منہ سے لزت آمیز ۔۔۔لیکن ہلکی ہلکی ۔۔۔۔ کراہیں نکلنے لگیں۔۔اُف۔ف۔ باجی۔۔آہ۔۔۔۔۔۔ اس کی کراہیں سن کر میں نے اس کی چھاتی کے نپل کو اپنے منہ سے ہٹایا ۔۔۔۔اور اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ثمینہ تمہیں مزہ آ رہا ہے۔۔۔۔ تو وہ آنکھیں کھول کر کہنے لگیں ۔۔۔۔۔۔ مجھے بہت لزت مل رہی ہے باجی ۔۔۔۔۔آپ ایسے ہی چوستی جاؤ۔۔۔۔۔ اور میں ۔۔۔۔۔ کچھ اور جوش سے اس کی دونوں چھاتیوں کو چوسنے لگ گئی۔۔۔۔۔۔۔ثمینہ کی چھاتیوں کوچوستے چوستے اب میں نے اپنا ایک ہاتھ اس کی رانوں کی طرف لے گئی۔۔۔ جیسے ہی میرا ہاتھ اس کی رانوں کی طرف بڑھا ۔۔۔ایک دفعہ پھر ثمینہ نے اپنی آنکھیں کھولیں اور کہنے لگی۔۔۔۔۔باجی نیچے بھی جاؤ گی؟ تو میں نے اس کے نپل کو منہ سے نکالتے ہوئے شہوت بھرے لہجے میں کہا۔۔۔۔ کیوں تیری پھدی نہ چیک کروں ؟؟؟؟۔۔۔۔۔ میری بات سن کر وہ ایک دم سے جوش میں آ گئی اور بڑی ہی سیکسی آواز میں کہنے لگی ۔۔۔ باجی میری پھدی بھی چاٹو گی؟؟؟۔۔۔۔۔۔۔ اس پر میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔ تم کیا کہتی ہو؟ تو وہ کہنے لگی۔۔۔چاٹو۔۔!!!!!!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی اس نے اپنی پھدی کی طرف جانے والی ۔۔۔۔ میری انگلیوں کو جو اس وقت اس کی سڈول رانوں پر رینگ رہیں تھیں ۔۔۔۔۔ کے لیئے اپنی دونوں ٹانگوں کو کچھ مزید کھول دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ثمینہ کی چھاتیوں کو چوسنے کے بعد میں نے سر اُٹھا کر اس کی طرف دیکھا تو ۔۔۔۔۔۔ تو اس کی آنکھوں میں ہوس کے سرخ ڈورے تیرتے دیکھ کر میں آگے بڑھی اور اس سنیاری کے سیکسی ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں لے لیا اور ان کو چوسنے لگی ۔۔۔ کچھ ہی دیر میں اس نے اپنی زبان سے میرے ہونٹوں پر دستک دینی شروع کر دی ۔۔۔ یہ دیکھ کر میں نے اپنا منہ کھولا اور اس کی زبان کو اپنے منہ میں لے لیا۔۔۔۔اور اس کی زبان کو چوسنے لگی۔۔۔۔۔ بھر پور کسنگ کے دوران اچانک ہی اس نے اپنا منہ ہٹایا اور مجھ سے کہنے لگی۔۔۔۔ باجی اب نیچے بھی جاؤ نا۔۔۔۔ یہ دیکھ کر میں نے اس کی پھدی پر انگلیاں پھیرتے ہوئے کہا۔۔۔ پہلے پھدی کو پہلے بھی کسی نے چاٹا ہے یا میری پہلی دفعہ ہے تو وہ شرماتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔۔ نہیں باجی ۔۔۔میں پہلے بھی کافی دفعہ اپنی پھدی چٹوا چکی ہوں ۔۔۔تو میں نے اس سے پوچھا کہ کس سےچٹوائی ہے ؟؟؟؟؟ تو میری طرف دیکھتے ہوئے کچھ ہچکچاہٹ کے بعد وہ بولی۔۔۔۔وہ باجی آپ کی چھوٹی بہن زینی سے۔۔۔ مجھے بھی اس سے یہی امید تھی ۔۔۔ پھر میں نے اس کا آزار بند کھول دیا اور اس اپنی انگلی کو اس کی ننگی چوت پر پھیرتے ہوئے بولی۔۔۔۔ اچھا یہ بتاؤ کہ چاچے فضل سے کب کا یارانہ ہے تو میری بات سن کر وہ ایک دم سرخ ہو گئی اور سر جھکا کر بولی ۔۔۔ اس بات کو ایک دو ماہ ہو گئے ہیں باجی ۔۔۔ تو میں نے اس سے پوچھا اچھا یہ بتاؤ ۔۔۔ چاچے نے تم کو کیا بھی ہے؟ میری بات سن کر اس کے چہرے پر ایک ناگواری سی پھیل گئی اور کہنے لگی ۔۔۔ نہیں باجی ۔۔۔ بس اوپر اوپر سے ہی (لن) پھیرا ہے اس نے ۔۔۔ اس پر میں نے حیران ہوتے ہوئے اس سے پوچھا کہ اندر کیوں نہیں ڈالا؟ تو وہ کہنے لگی۔۔۔ باجی وہ ڈرتا ہے کہیں کوئی گڑبڑ نہ ہو جائے اس لیئے اوپر اوپر ہی رگڑتا ہے ۔۔۔ پھر خود ہی کہنے لگی ویسے بھی باجی اس کا ۔۔۔۔۔وہ (لن) بڑا ڈھیلا ہے۔۔۔ایک دو دفعہ اس نے پیچھے سے اندر ڈالنے کی کوشش کی تھی لیکن وہ جلد ہی چھوٹ گیا تھا۔۔۔۔اس کے ساتھ ہی اس نے اپنی چوت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔۔۔ باجی۔۔۔۔ اور میں اس کی بات سمجھتے ہوئے اس کی ٹانگوں کے بیچ بیٹھ گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب میں نے اس کو پلنگ پر بیٹھنے کو کہا اور خود فرش پر بیٹھ گئی۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر اس کی شلوار اتار کر اس کی چوت چیک کرنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ثمینہ سنیاری کی چوت کسی ڈبل روٹی کی طرح موٹی اور کلین شیو تھی ۔۔۔ اس کی چوت کے دونوں لب اندر کی طر ف مُڑے ہوئے تھے اور پھدی کی لکیر کے عین اوپر ایک موٹا سا پھولا ہوا دانہ تھا ۔۔۔۔۔۔ اب میں نے اس کی کلین شیو پھدی پر ہاتھ پھیرا اور ۔۔۔۔۔۔ اپنی ایک انگلی اس کی چوت میں داخل کر دی ۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی میں اس کی چوت پر جھکی اور ۔۔۔اس کے پھولے ہوئے دانے کو اپنے منہ میں لے لیا اور اسے چوسنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جیسے ہی میں نے اس کے دانے کو اپنے ہونٹوں میں لیا ۔۔۔۔ ثمینہ سسکی لیتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔۔۔۔ با جی۔۔۔۔ میری پھدی ۔۔۔ کو ایسے نہیں ۔۔ بلکہ زور سے چوسو۔۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی میں جو کہ پہلے اس کے دانے کو اپنے ہونٹوں میں لیئے ہلکے ہلکے چوس رہی تھی۔۔۔اب اس کے دانے کو اپنے دانتوں سے کاٹتے ہوئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کی چوت کو چوسنے کی رفتار تیز کر دی ۔۔۔۔۔ میری اس حرکت سے ثمینہ تڑپنے لگی۔۔۔اور میرے سر کو ۔۔اپنی پھدی کی طرف دباتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔ایویں چوس باجیئے ۔۔۔۔ ( اس طرح چوسو باجی۔)۔۔۔۔اور میں نے اسی طرح اس کی چوت کو چوسنا شروع کر دیا۔۔۔۔ کچھ ہی دیر بعد ۔۔۔۔ ثمینہ سنیاری نے اپنی پھدی کے دونوں لبوں کو کھول کر بولی ۔۔۔۔ باجی ایتھے وی جیب مار ( باجی ادھر بھی زبان ڈالو) اس کی یہ بات سن کر میں نے اکے کھولے ہوئے لبوں پر نظرڈالی تو اس کی چوت کی دونوں پھانکوں کے درمیان والی جگہ آف وائیٹ پانی سے بھری ہوئی تھی۔۔۔ چنانچہ سب سے پہلے میں نے زبان نکال کر اسس کی چوت کے درمیان لگے آف وائیٹ پانی کو صاف کیا اور پھر اس کی چوت کی دیواروں کو چاٹنا شروع ہو گئی۔۔۔ ایسا کرتے ہی مزے اور جوش کے مارے اس کے منہ سے ہیجان خیز آوازیں نکلنا شروع ہو گئیں اور وہ مستی بھرے لہجے میں کہنے لگی۔۔۔۔۔ باجی میری پھدی نوں ہور چٹ۔۔۔۔( باجی میری چوت کو اور چاٹو) اور یوں میں اس کی پھدی کو مزید جوش سے چاٹنا شروع ہو گئی ۔۔۔ میرے اس طرح چوت چاٹنے سے وہ بے قرار ہو گئی اور ۔۔۔ میرا سر پکڑ کر اپنی پھدی کی طرف دباتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔۔۔۔ باجیئے۔۔۔میری پھدی۔۔۔اور میں نے محسوس کیا کہ ایسا کہتے ہوئے اس پر کپکی طاری تھی۔۔۔۔ اور وہ بار بار مجھ سے کہہ رہی تھی۔۔۔۔ باجییئے میری پھدی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور پھر اس کے ساتھ ہی اس نے کانپتے ہوئے اس کی چوت نے ڈھیر سارا پانی چھوڑا ۔۔ جو میں نے امرت سمجھ کر پی لیا۔۔۔۔۔۔۔۔
جیسے ہی میں نے ثمینہ کی چوت سے منہ ہٹایا تو بجلی کی تیزی سے وہ اپنی جگہ سے اُٹھی اور اپنے پلنگ پر مجھے لٹا دیا اور پھر میری شلوار کو اتار کر اس نے میری بالوں بھری پھدی کو چوسنا شروع کر دیا۔۔۔۔ اور پھر ٹھیک اسی طرح مجھے بھی مزہ دیا کہ جیسے کچھ دیر پہلے تک میں نے اس کو دیا تھا۔۔۔ اور جب میں بھی چھوٹ گئی تو اس نے بھی سیم میری طرح میری چوت سے نکلا ہوا سارا پانی پیا ۔۔۔۔اور پھر اُٹھ کر میرے ساتھ ہی پلنگ پر لیٹ گئی۔۔۔۔پھر اس نے اپنا منہ میری طرف کیا اور کہنے لگی۔۔۔۔ شکریہ باجی بڑے دنوں بعد ۔۔۔۔بہت مزہ آیا ہے تو میں نے اس سے کہا کہ اس سے پہلے کس کے ساتھ اتنا مزہ آیا تھا ؟؟؟ تو بغیر ہچکچاہٹ کے وہ کہنے لگی آپ کی بہن زینی کے ساتھ ۔۔۔۔۔ اس پر میں نے چونک کر اس کی طرف دیکھا اور کہنے لگی ۔۔۔ اب زینی کیوں نہیں تیری پھدی کو چوستی ؟ تو وہ کہنے لگی ۔۔۔۔ ایسی بات نہیں ہے باجی ۔۔ میں اسے جب بلاؤں وہ آ جاتی ہے ۔۔۔ لیکن ۔۔۔ آج کل وہ تھوڑی بزی ہو گئی ہے ۔۔۔اس پر میں نے پتہ ہونے کے باوجود بھی اس سے کہا کیا تم بتا سکتی ہو کہ وہ کس کے ساتھ بزی ہے؟ میری بات سن کر وہ پلنگ سے اُٹھ بیٹھی اورمیری طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔۔ میں بتا تو دوں۔۔۔ لیکن پلیز باجی آپ اس کو کچھ نہیں کہیئے گا تو میں نے اس کو یقین دھانی کرا دی ۔۔۔تو اس پر وہ میری طرف دیکھتے ہوئے ٹھہر ٹھہر کر کہنے لگی۔۔۔ ۔۔باجی زینی آج کل آپ کے کزن ساجد کے ساتھ سیٹ ہے۔۔۔اور خوب مزے کر رہی ہے۔۔۔
ثمینہ کی بات سن کر میں نے شدید حیرانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ ۔۔کیا کہا ساجد ۔۔۔؟ تو اس نے اقرار میں سر ہلا دیا ۔۔۔ اس پر میں نے اپنے چہرے پر شدید پریشانی طاری کی اور اس سے کہنے لگی ۔۔۔ لیکن یار ۔۔یہ ساجد تو کوئی اچھا لڑکا نہیں ہے ۔۔۔بلکہ یہ تو زینی کے ساتھ اپنے تعلقات کو سارے ٹاؤن میں نشر کرتا پھرے گا ۔۔ میری بات سن کر ثمینہ ایک دم اُچھلی اور کہنے لگی ۔۔۔ یہی بات ۔۔۔ باجی بالکل یہی بات میں نے بھی اس کو سمجھائی تھی کہ ساجد پیٹ کا بہت ہلکا لڑکا ہے اور اس سے پہلے بھی اس نے دو تین لڑکیوں کے ساتھ سیکس کر کے ان کو خوب نشر کیا ہے ۔۔۔۔ لیکن وہ خبیث عورت ۔۔۔میری بات کو جانتے ہوئے بھی ۔۔بلکل نہیں مانی اور اس کے ساتھ سیکس پروگرام شروع کر دیاہے۔۔۔ ثمینہ کی بات سن کر میں نے اپنے چہرے پر مزید پریشانی کے آثار پیدا کیئے اور اس سے کہنے لگی۔۔۔وہ تو ٹھیک ہے ثمینہ یار ۔۔ لیکن اب مجھے مشورہ دو کہ اپنی بہن کو میں ساجد سے ملنے سے کیسے روکوں؟ میری بات سن کر ثمینہ بھی تشویش بھرے لہجے میں کہنے لگی ۔۔۔۔ باجی آپ سے پہلے میں نے بڑی ٹرائی کی ہے لیکن آپ کی بہن ٹس سے مس نہیں ہوئی۔۔۔۔۔تو میں نے اس سے کہا کہ اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ تو میری طرف دیکھتے ہوئے ثمینہ کہنے لگی۔۔۔۔ اس کی وجہ سیکس ہے باجی۔۔۔ پھر اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے وہ مزید کہنے لگی۔۔۔ کہ اب تو میں نے آپ دونوں کے ساتھ سیکس کر لیا ہے اس لیئے اپنے تجربے کی بنا پر کہہ رہی ہوں کہ ۔۔۔۔۔۔ یقین کرو باجی ۔۔۔ آپ کی بہن آپ سے سو گنا ذیادہ سیکسی ہے اور ہر وقت اس کے سر پر شہوت کا بھوت سوار رہتا ہے۔۔۔اس پر میں دل ہی دل میں کہنے لگی۔۔کہ آخر وہ میری بہن ہے ۔۔۔ اس لیئے اس کے سر پر شہوت کا سوار ہونا کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن بظاہر خود پر سنجیدگی طاری کرتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔۔ وہ سب تو ٹھیک ہے یار مگر یہ تو بتاؤ کہ اب ہم اس کو اس کام سے کیسے روک سکتے ہیں؟ تو وہ بھی فکر مندی سے کہنے لگی ۔۔۔آپ جو مرضی ہے کر لو باجی وہ ہر گز نہیں رکے گی ۔۔۔۔۔۔
اس پر میں نے اس سے کہا کہ آخر کوئی تو حل ہو گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو وہ بولی ۔۔حل ہوتا تو اب تک میں اپنی پیاری دوست پر آزما نہ چکی ہوتی ۔۔ یہ کہہ کر ثمینہ سنیاری اپنی جگہ سے اُٹھ کر میرے پاس آئی اور میری ران پر ہاتھ رکھ کر کہنے لگ ۔۔۔ باجی کچھ تم ہی بتاؤ کہ اس سلسلہ میں ہم کیا کریں؟ تو میں نے بظاہر کچھ سوچتے ہوئے ثمینہ کی طرف دیکھتے ہوئے بولی ۔۔۔۔۔اس سلسلہ میں میرے پاس ایک ترکیب تو ہے لیکن اگر تم ساتھ دو تو ۔۔۔۔۔ میری بات سن کر سیناری کہنے لگی جو تم کہو گی باجی وہی میں کروں گی ۔۔۔۔۔بس تم مجھے بتاؤ کہ کرنا کیا ہے۔۔۔اس پر میں نے اس کو اپنے پلان کے بارے میں بتایاتو سن کر کہنے لگی ۔۔۔۔ پروگرام تو اچھا ہے صبو باجی ۔۔۔ لیکن اس میں تھوڑا جھوٹ بولنا پڑے گا ۔۔۔ اس کی بات سن کر میں نے اس سے کہا ۔۔تم تو جاتنی ہی ہو کہ محبت اور جنگ میں سب جائز ہوتا ہے تو وہ کہنے لگی ٹھیک ہے باجی آپ کی خاطر اپنی دوست سے میں یہ جھوٹ بھی بول لوں گی لیکن میری ایک شرط ہو گی ۔۔۔ جب میں نے اس سے پوچھا کہ کونسی شرط تو میری بات سن کر ثمینہ سنیاری نے اپنی لمبی سی زبان باہر نکلا لی اور اپنی پھدی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔۔ اگر آپ میرا یہ کام کرتی رہو تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کی بات سن کر میں نے اسے اپنے گلے سے لگا لیا اورکہنے لگی ۔۔۔۔۔ میری جان اگر تم میرا کام نہ بھی کرو گی تو بھی میں تمہارے ساتھ یہ والا کام کرنے کو ہر وقت تیار ہوں گی اس کے بعد ہم نے ایک دوسرے کا بہت لمبا سا زبانوں کا بوسہ لیا ۔۔۔۔۔۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی میں اپنے گھر آ گئی۔۔۔اور گھر آ کر شبی کو ساری صورتِ حال بتائی اور اسے اس بات کی تاکید کی کہ وہ اپنے تعقات کو زینی کے ساتھ بہتر کرے۔۔۔۔
زینی کے بارے میں میرا پروگرام یہ تھا کہ ثمینہ سنیاری اور اس کی دو تین دوستوں نے کہ جن پر زینی بہت اعتبار کرتی تھی نے بڑی رازداری سے زینی کو یہ بات بتلانی تھی ۔۔۔ کہ زینی کے ساتھ چودائی کے بارے ساجد سب کو بتا تا پھر رہا ہےاور اس کے ساتھ ہی میں نے ان کو کھڈے والے واقعہ کا کچھ حصہ بھی بتایا تھا ۔۔ تا کہ جب وہ بات کریں تو زینی اسے سچ سمجھے کیونکہ کھڈے والی بات زینی اور ساجد کے علاوہ اور کوئی نہیں جانتا تھا ( اور شبی کی طرف تو اس کا دھیان ہی نہیں جا سکتا تھا کہ وہ اپنی بہن کی بات کسی کو بتا سکتا ہے)۔۔۔۔ ۔۔۔ اور پھر یہ سکینڈل سنانے کے بعد انہوں نے زیی کو یہ بات بھی باور کرانی تھی کہ ۔۔۔ جس طرح ساجد تمہارے ساتھ سیکس کی اس واردات کو نشر کرتا پھر رہا ہے ۔۔۔۔ چلتے چلتے اگر یہ بات تمھارے باپ نے سن لی تو ۔۔۔ پھر تم بے موت ماری جاؤ گی اور سب سے آخر میں ثمینہ سیناری نے زینی کے ساتھ بڑی ہی راز داری کے ساتھ یہ بات بتانی تھی کہ اس کے ساتھ کیئے گئے سیکس کے بارے میں ساجد کا بچہ ۔۔۔۔ سب کو بتا رہا ہے۔۔۔ اس کے ساتھ ہی ثمینہ نے چاچے فضل کو بھی اس بات کے لیئے تیار کر لیا تھا کہ جب زینی کسی خریداری کے سلسلہ میں اس کے پاس آئے تو اس نے چپکے سے یہ بات زینی سے کر دینی تھی۔۔۔ اس طرح جب بہت سے بندے ایک ہی قسم کی بات زینی سے کریں گے ۔۔تو لازمی بات ہے کہ اس نے اس پراپیگنڈہ سے یہ سوچ کر متاثر ہو جانا تھا کہ ۔۔۔۔ہر بندہ تو جھوٹ نہیں بول سکتا نا۔۔۔۔ ۔۔اور اس دوران ۔۔۔شبی نے زینی کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید بہتر کر لینا تھا۔۔۔۔۔اس سلسلہ کی آخری چوٹ میں نے مارنی تھی اور وہ بھی اس وقت کہ جب ثمینہ سیناری نے مجھے اس بات کی رپورٹ دینی تھی کہ زینی اور ساجد کی اس بات پر لڑائی ہو گئی ہے۔۔۔تب میں نے زینی کا ہمدرد بن کر اسے ساجد کی بجائے شبی کے ساتھ سیکس کی راہ دکھانی تھی ۔۔ کیونکہ ثمینہ سنیاری کے بقول ۔۔ زینی سیکس کی دیوانی تھی ۔۔۔اور سیکس کے بغیر وہ نہیں رہ سکتی تھی۔۔۔۔۔
پھر ایک ہفتے کے اندر اندر وہ سب کچھ ہو گیا جس کے بارے میں ۔۔۔ میں نے اور ثمینہ سنیاری نے پلان کیا تھا ۔۔۔ اس کے ساتھ ساتھ جلد نتائج کے لیئے میں نے اپنے پلان میں ایک اور تبدیلی کر لی تھی اور وہ یہ کہ ایک دن میں اور زینی بیٹھے ہوئے تھے کہ باتوں باتوں میں اچانک میں نے زینی سے کہا ۔۔۔ کیا بات ہے زینی تیری ساجد کے ساتھ کوئی لڑائی ہوئی ہے ؟ تومیری بات سن کر زینی چونک گئی اور کہنے لگی ۔۔۔ ایسی کوئی بات نہیں باجی ۔۔تب میں نے اس سے کہا کہ اگر ایسی بات نہیں تو کل وہ ۔۔۔۔۔ ماسی تہمینہ کے گھرسے کیوں نکل رہا تھا (ماسی تہمینہ بھی ہمارے علاقے کی ایک بدنام عورت تھی ۔۔جس کی بیٹی رضو اس سے بھی چار ہاتھ آگے بدنام تھی) میری بات سن کر بظاہر تو زینی نے کچھ نہیں کہا لیکن مجھے معلوم تھا کہ اندر ہی اندر وہ حسد کی آگ میں جل گئی ہو گی اس کے ساتھ ساتھ ویسے بھی اسے ساجد کے بارے میں کوئی اچھی خبریں سننے کو نہیں مل رہی تھیں۔۔۔ چنانچہ مجھ سے تھوڑی دیر باتیں کرنے کے بعد زینی ۔۔۔ ثمینہ کے گھر چلی گئی ۔۔۔اور اسے میں نے پہل ہی اس بات کے لیئے تیار کیا ہوا تھا۔۔۔ خیر قصہ مختصر دو ہفتوں کے اندر اند ر زینی اور ساجد کی سخت لڑائی ہو گئی۔۔۔۔۔ اور یہ بات مجھے سنیاری نے بتائی تھی۔۔۔۔
اس دن صبع کا وقت تھا اماں کسی کام کے سلسلہ میں گئی ہوئیں تھیں ۔۔ ۔۔۔ میں اور زینی گھر میں اکیلے تھے۔۔ اس وقت میں پڑھ رہی تھی جبکہ زینی کے ہاتھ میں بھی کتاب تھی لیکن وہ پڑھنے کی بجائے کہیں خلاؤں میں گھور رہی تھی۔۔۔ یہ دیکھ کر میں اپنی جگہ سے اُٹھی اور اس کے پاس جا کر بیٹھ گئی۔۔۔۔ اور بڑی ہی محبت سے زینی کی طرف دیکھ کر بولی۔۔۔ کیا بات ہے زینی تم کچھ پریشان لگ رہی ہو؟ میری بات سن کر پہلے تو اس نے مجھے ٹالنے کی بڑی کوشش کی پھر ۔۔۔ میرے اصرار پر کہنے لگی ۔۔۔وہ باجی ساجد۔۔۔۔ اس کے منہ سے ساجد کا نام سن کر میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔اگر برا نہ مانو تو ایک بات کہوں زینی ۔۔۔ تو وہ کہنے لگی جی باجی ۔۔تو میں اس سے کہنے لگی ساجد کے ساتھ دوستی کر کے تم نے کچھ اچھا نہیں کیا تھا۔۔۔۔ میری بات سن کر وہ کہنے لگی وہ کیوں باجی ؟ تو میں نے اس سے کہا وہ اس لیئے کہ ساجد ایک کچا اور پیٹ کا بہت ہلکا ہے جو ایسی باتوں کو کارنامہ بنا کر لوگوں سے شئیر کرتا پھرتا ہےجو کہ کوئی بھی لڑکی ۔۔۔اور خاص کر ہم لوگ تو بلکل بھی افورڈ نہیں کر سکتیں ۔۔ ۔۔۔۔ پھر اس کی طرف دیکھ کر بولی۔۔۔ زینی تم تو جانتی ہو کہ اس سلسلہ میں ہمارا گھرانہ کس قدر سخت واقعہ ہوا ہے اور خاص کر خواتین کے معاملے میں تو یہ لوگ ایک منٹ بھی نہیں لگاتے اور ۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی میں نے اپنے گلے کو کاٹنے کا اشارہ کیا ۔۔۔جسے دیکھ کر اسے ایک جھر جھری سی آ گئی۔۔۔ اور وہ کہنے لگی میں کیا کرتی باجی۔۔ میں مجبور تھی۔۔۔ اس پر میں نے اس کو اپنے سینے سے لگا لیا اور کہنے لگی ۔۔۔۔ مجھے معلوم ہے کہ میری طرح میری بہن بھی بہت سیکسی واقعہ ہوئی ہے ۔۔۔ اس لیئے میں نے تو اپنی شہوت مٹانے کے لیئے اپنے گھر میں ہی پناہ لی تھی کہ اس طرح گھر کی بات گھر میں ہی رہنی تھی۔۔ اور خاص طور پر یہ بات مدِ نظر رکھی کہ دینا کا کون سا بھائی ایسا ہو گا جو کہ اپنی ہی بہن کے ساتھ ایسا ویسا کام کر کے اسے بدنام کرے گا پھر اس کے بعد میں نے تقریباً ایک گھنٹے تک زینی کے ساتھ بات چیت کی ۔۔۔۔ جس کا لبِ لباب "ہوم سیکس" تھا۔۔۔ میری بات سن کر پہلے تو وہ کچھ ۔۔۔۔ ہچکچائی ۔۔۔۔ پھر میرے ساتھ فری ہو گئی ۔۔۔ اور سیکس کے بارے میں کھل کر میرے ساتھ ڈسکس کرنے لگی۔۔۔۔۔
اسی رات میں نے شبی کو بتا دیا تھا کہ لوہا گرم ہے اب بس چوٹ لگانے کی دیر ہے ویسے تو وہ خود بھی بہت ماسٹر قسم کا بندہ تھا لیکن پھر بھی میں نے اسے اچھی طرح سمجھا دیا تھاکہ اسے کیا کرنا ہے ۔۔۔۔اور پھر اسے بتایا کہ کل صبع اس کے پاس گولڈن چانس ہو گا۔۔۔۔۔کیونکہ میں نے اور اماں نے قاری صاحب کے بیٹی کے حقیقے پر جانا تھا ۔۔۔ اس پر بھائی نے میری طرف دیکھا اور شرارت سے کہنے لگا واقعی ہی باجی آپ قاری صاحب کی بیٹی کے حقیقے پر جا رہی ہو؟؟۔۔ تو میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے آنکھ مار کر کہا۔۔۔۔ نہیں یار میں حقیقے پر نہیں بلکہ ۔۔۔۔ بہن بھائی کا حقیقی سیکس پروگرام دیکھوں گی ۔۔۔اس کے ساتھ ہی میں نے شبی کو بتا دیا تھا کہ اس نے زینی کے ساتھ کھڑکی کے بلکل پاس سیکس کرنا ہے تا کہ میں ان کے ایک ایک سین کو دیکھ کر انجوائے کر سکوں ۔۔۔۔ یہ سب کچھ سیٹ کرنے کے بعد ہم دونوں ایک ساتھ جُڑ کر سو گئے۔۔۔۔
بچی کی پیدائیش کے بعد اماں اور میں نے قاری صاحب کے گھر جانا چھوڑ دیا تھا ۔۔لیکن آج چونکہ ان کی بیٹی کا حقیقہ تھا اس لیئے ابا اماں اور میں تیار ہو کر ان کے گھر کی طرف چل پڑے تھے ۔۔۔۔۔ جبکہ میری ہدایت پر شبی صبع سے ہی گھر سے غائب تھا وجہ اس کی یہ تھی کہ کہیں ابا اس کو بھی اپنے ساتھ نہ لے جائیں ۔۔جبکہ اس وقت گھر میں زینی اکیلی تھی ۔۔راستے میں ۔۔۔ میں نے ابا اماں سے الگ ہونے کی بڑی کوشش کی لیکن کوئی چانس نہ بن سکا۔۔۔۔۔ آخر قاری صاحب کے گھر پہنچ کر کافی دیر بعد میں نے اماں کو بتایا کہ میرے سر میں شدید درد ہو رہا ہے چنانچہ اس بہانے سے مجھے گھر جانے کی چھٹی مل گئی۔۔
قاری صاحب کے گھر سے میں بھاگم بھاگ اپنے گھر پہنچی تو دیکھا کہ دروازہ اندر سے بند تھا ۔۔۔ میں نے دروازے کو ہلکا سا دبایا تو وہ کھل گیا ۔۔۔۔ پھر میں دبے پاؤں گھر کے اندر داخل ہو گئی اور بنا آواز کیئے درازے کو کنڈی لگا دی۔۔اور پھر دبے پاؤں چلتے ہوئے کھڑی کے پاس پہنچ گئی۔۔۔۔۔ اور اندر جھانک کر دیکھا تو اس وقت زینی بھائی کے ساتھ چمٹی ہوئی تھی اور اس سے کہہ رہی تھی کہ سوری بھائی ۔۔۔تو بھائی نے حیران ہو کر اس سے پوچھا کس بات کی سوری کر رہی ہو؟ اس پر زینی کہنے لگی ۔۔۔وہ بھائی اس دن آ پ کے ساتھ خواہ مخواہ بد تمیزی جو کی تھی۔۔۔ اس پر بھائی اس کی طرف جھکا اور اس کے ہونٹوں سے ہونٹ ملا کر بولا ۔۔۔۔ ایک بدتمیزی تم نے کی تھی ۔۔۔۔اور اب ایک گستاخی میں کر رہا ہوں۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی اس نے زینی کے ہونٹوں کو اپنے منہ میں لے لیا ۔۔۔۔ اپنے منہ کو بھائی کے منہ کے ساتھ جوڑتے وقت زینی تھوڑا سا کسمائی اور پھر ۔۔۔ اپنے منہ کو بھائی کے منہ کے ساتھ جوڑ دیا ۔۔۔اور بھائی کی کسنگ کا ساتھ دینے لگی۔۔۔اس وقت بھائی کا منہ کھڑی کی طرف جبکہ زینی کا مخالف سمت میں تھا۔۔اور کمرے میں بہن بھائی کی کسنگ کی مخصوص پوچ ۔۔پوچ کی آوازیں سنائی دے رہیں تھی۔۔۔۔زینی کے ساتھ کسنگ کرنے کی دیر تھی کہ زینی کے اندر کی شہوت پوری سے جاگ گئی اور اب اس کا ہاتھ کسنگ کرتے ہوئے بھائی کی شلوار کی طرف بڑھ رہا تھا ۔۔۔۔۔یہ دیکھ کر بھائی تھوڑا اوپر کو اُٹھا اور اس نے اپنی رانوں میں دبے ہوئے لن کو نمایاں کر دیا ۔جس سے اس کا اکڑا ہوا لن صاف نظر آنے لگا۔۔۔۔۔۔ جسے دیکھ کر زینی نے شلوار کے اوپر سے ہی اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا۔۔۔۔ اس کے بعد زینی نے بھائی کے منہ سے اپنے منہ کو ہٹایا اور بولی۔۔۔۔ بھائی اپنی زبان کو باہر نکالو ۔۔۔ اور میں نے دیکھا کہ بھائی نے اپنی زبان کو منہ سے باہر نکال دیا تھا۔۔۔ جیسے ہی بھائی کی زبان اس کے منہ سے باہر نکلی ۔۔۔۔ زینی آگے بڑھی اور بھائی کی زبان کو اپنے منہ میں لے لیا اور پورے جوش کے ساتھ بھائی کی زبان کو چوسنے کے ساتھ ساتھ ۔۔۔ نیچے سے اس کے لن کو دبانے لگی۔۔۔۔۔
کچھ دیر تک زبان چوسنے کے بعد زینی اپنی جگہ سے اُٹھی اور اپنی قمیض کو اُٹھا کر بھائی سے بولی۔۔۔۔۔ بھائی میرے دودھ چوسو۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی اس نے اپنے دونوں ہاتھوں میں اپنی بھاری چھاتی کو پکڑا اور بھائی کے منہ کے ساتھ لگا دیا۔ یہ دیکھ کر بھائی تھوڑا سا اوپر اُٹھا اور ایسے زاویے سے بیٹھ گیا کہ جس سے مجھے وہ زینی کی چھاتی کو چوستے ہوئے صاف نظر آئے ۔۔۔۔ اور میں نے دیکھا کہ زینی کی بھاری چھاتی پر موٹا سا نپل تھا ۔۔۔۔ جس پر اس وقت بھائی دائرے کی شکل میں اپنی زبان پھیر رہا تھا۔۔۔ یہ دیکھ کر زینی بے چین سی گئی اور کہنے لگی۔۔۔۔ بھائی۔۔۔۔بھائی نپل نہ چاٹ ۔۔ بلکہ میری چھاتیوں کو چوسو ۔۔۔۔۔اور اسے چوس چوس کر اس میں سے دودھ نکال ۔۔۔۔ یہ سن کر بھائی نےاپنے دونوں ہونٹ جوڑے اور زینی کی چھاتی کو اپنے منہ میں لے لیا اور اسے چوسنے لگا۔۔۔ اس کے ساتھ ہی ۔۔زینی کی منہ سے لزت آمیز آوازوں کا نکلنا شروع ہو گیا ۔۔۔ جنہیں سن سن کر میری چوت بھی گرم ہو گئی ۔ اور میں نے نیچے ہاتھ مار کر دیکھا تو میری چوت نے بھیگنا شروع کر دیا تھا۔۔۔۔۔ پھر میں نے دیکھا کہ بھائی نے باری باری زینی کی دونوں چھاتیوں کو خوب چوسا۔۔۔۔ پھر اس کے بعد زینی کہنے لگی ۔۔۔۔اب بس کر دو بھائی۔۔۔۔
اور اس کے ساتھ ہی بھائی نے اس کی چھاتی کو اپنے منہ سے آزاد کیا اور پھر اپنی شلوار کو اتارنے لگا۔۔۔۔۔۔ پھر میرے دیکھتے ہی دیکھتے اس نے اپنی قمیض بھی اتار دی اور اب بھائی پوری طرح ننگا ہو گیا تھا ۔۔۔اور میں نے دیکھا کہ بھائی کی رانوں کے درمیان میرا دیکھا بھالا ۔۔۔اور اچھی طرح سے استعال کیا ہوا ۔۔۔۔ اس کا لن پوری طرح سے اکڑا کھڑا تھا جسے اکڑا دیکھ کر میرے منہ میں پانی آ گیا۔۔۔۔۔ لیکن ۔کیا کرتی کہ ۔۔۔۔۔۔۔میں مجبور تھی۔۔۔۔ ادھر دوسری طرف زینی نے بھی جلدی سے اپنے کپڑے اتارے اور پھر جیسے ہی اس کی نظر بھائی کے پنڈولم کی طرف پڑی تو وہ سحر ذدہ انداز میں اُٹھ کر بھائی کی ٹانگوں کے بیچ جا کر بیٹھ گئی۔۔۔۔اور کہنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔ بھائی تیرا تو لن تو بہت بڑا ہے ۔۔اس پر بھائی نے شرارت سے اس کی طرف دیکھا اور کہنے لگا۔۔۔۔۔ ساجد سے بھی بڑا ہے نا۔۔۔ اور میں نے دیکھا کہ ساجد کا نام سن کر زینی کے چہرے پر ایک ناگوار سا تاثر ابھر آیا تھا اور وہ بھائی کا لن اپنے ہاتھ میں پکڑ کے اسے ہلاتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔۔ اس دا لن تے تیرے لن سے پاسکو وی نئیں ۔۔۔۔۔(اس کا لن تمہارے لن سے بہت چھوٹا ہے) تب بھائی نے شرارت سے کہا۔۔۔ اس دن کھڈے میں جیسے تم اس کا لن چوس رہی تھی میرا بھی چوسو نا۔۔۔۔ یہ سن کر زینی نے بھائی کو لن سے پکڑا اور خود چارپائی پر بیٹھ گئی۔۔۔۔اور بھائی کی طرف دیکھ کر کہنے لگی۔۔۔ چوسوں؟ تو بھائی نے ہاں میں سر ہلا دیا۔۔ یہ دیکھ کر زینی نے اپنی بڑی سی زبان کو منہ سے باہر نکالا اور بھائی کے ٹوپے پر پھیرنے لگی۔۔۔۔ اس کی زبان کا ٹوپے پر پھیرنے کی دیر تھی کہ اچانک بھائی کے ٹوپے سے مزی کا ایک موٹا سا قطرہ نکلا ۔۔۔۔۔ جسے دیکھتے ہی زینی نے اپنی زبان پر لپیٹ لیا۔۔۔اور پھر اپنے منہ کے اندر لے گئی پھر اس نے بھائی کی طرف دیکھا اور کہنے لگی۔۔ صوادلا سی ( مزہ کا تھا ) اور پھر اس کے بعد اس نے اپنا منہ کھولا اور بھائی کے لن کو اندر لے لیا ۔۔۔۔ جیسے ہی زینی کے منہ میں بھائی کا لن غائب ہوا ۔۔ تو بھائی کے منہ سے ایک سسکاری سی نکلی۔۔۔اوہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔جسے سن کر زینی نے اپنے منہ سے لن کو نکالا اور کہنے لگی ۔۔۔ کی ہویا بھائی ( کیا ہوا بھائ ) تو بھائی نے اسی لزت آمیز لہجے میں جواب دیا۔۔۔۔ مزہ آ رہا ہے تم جلدی جلدی لن چوس۔۔۔۔۔ اور یہ سنتے ہی زینی بھائی کے لن پر پل پڑی اور مزے لے لے کر اسے چوسنے لگی۔۔۔ چونکہ بھائی کے لن کو چوسنا میرا بھی پسندیدہ مشغلہ تھا اس لیئے زینی کو لن چوستا دیکھ کر میرے منہ سے بھی سسکی سی نکل گئی جسے میں نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر بڑی مشکل سے روک لیا اور اس کے ساتھ ہی ایک ہاتھ اپنی شلوار میں لے گئی۔۔۔اور شہوت سے سوجے ہوئے اپنے دانے کو مسلنے لگی۔۔۔۔
کچھ دیر تک لن چوسنے کے بعد اچانک ہی زینی نے اپنے منہ سے بھائی کے اکڑے ہوئے لن کو باہر نکالا اور اس کی طرف دیکھ کر کہنے لگی۔۔۔۔ بھائی ۔۔۔۔ میری پھدی چٹیں گا؟ ( بھائی میری پھدی کو چاٹو گے؟) تو اس پر بھائی جلدی سے بولا ۔۔ ہاں تیری پھدی چٹاں گا ( ہاں میں تمہاری چوت کو چاٹوں گا) تو یہ سن کر زینی اپنی جگہ سے اُٹھی اور بھائی کو اُٹھا کر خود اس کی جگہ پر بیھک گئی ۔۔ یہ دیکھ کر بھائی نیچے فرش پر بیٹھا اور اس کی دونوں ٹانگوں کے بیچ میں اپنا سر لے گیا۔۔۔ زینی کے لن چوسنے کا منظر تو مجھے صاف نظر آ رہا تھا اس لیئے اس منظر کو میں نے آپ سے ہو بہو شئیر کر دیا۔۔۔ لیکن بھائی کی چوت چاٹنے کا منظر مجھے دکھائی نہیں دے رہا تھا ۔۔۔اس لیئے مجھے بھائی کی چوت چاٹنے کا منظر تو نظر نہ آ رہا تھا تا ہم اس دوران ان کی آپس میں کی ہوئی باتیں صاف سنائی دے رہیں تھی۔۔۔ مثلاً ۔۔۔چوت چاٹنے کے کچھ دیر بعد زینی بھائی سے مخاطب ہو کر کہنے لگی۔۔۔۔ بھائی میری پھدی دا صواد کیسا اے؟( بھائی میری چوت کا ٹیسٹ کیسا ہے) تو نیچے سے چوت چاٹتے ہوئے بھائی کی آواز سنائی دی۔۔۔۔ بڑا اچھا ٹیسٹ ہے ۔۔۔ تو زینی کہنے لگی ۔۔۔فئیر دب کی چٹ نا (پھر دبا کے چاٹو) اور اس کے بعد واقعی ہی بھائی بڑی تیزی کے ساتھ اس کی چوت کو چاٹنے لگ پڑے۔۔ اور زینی کے منہ سے وہی مزے دار قسم کی سسکیاں نکلنا شروع ہونے لگ گئیں جنہیں سن سن کر میری پھدی نے فریاد کرنا شروع کرد ی کہ اسے بھی چاٹا جائے ۔۔۔ لیکن چونکہ وہ موقع ایسا نہیں تھا اس لیئے میں نے اس سے رات تک کہ مہلت لے لی۔ اس دوران زینی کی پھدی نے ایک دو دفعہ پانی بھی چھوڑا تھا۔۔۔۔۔
پھدی چٹوانے کے کچھ دیر بعد زینی بھائی سے مخاطب ہوئی اور کہنے لگی ۔۔۔ بس کر بھائی اب اُٹھ اور میری پھدی مار۔۔۔ یہ بات سن کر بھائی۔۔۔۔ اوپر اُٹھا ۔۔۔ تو میں دیکھا کہ بھائی کا لن ویسے ہی الف کھڑا تھا۔۔۔ جسے دیکھ کر زینی نے اس پر ایک کس کی اور کہنے لگی۔۔۔ اس کی بڑی اکڑاہٹ ہے بھائی ۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی بھائی نے اس سے پوچھا کہ وہ کس سٹائل میں چدوانا پسند کرے گی بھائی کے منہ سے یہ بات سن کرزینی بڑے ہی مست لہجے میں کہنے لگی۔۔۔ بھائی اس سٹائل میں چودو ۔۔ کہ جس سٹائل میں تمہارا یہ لن جڑ تک میری چوت میں چلا جائے۔۔۔۔ اس پر بھائی نے اس کو لیٹنے کو کہا۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی وہ بھی چارپائی پر آ گیا۔۔۔اور اس نے زینی کی چوت کے نیچے دو تکیئے رکھے جس سے زینی کی موٹی چوت ابھر کر اور بھی سامنے آگئی۔۔۔اب بھائی زینی کی ٹانگوں کے بیچ میں آ گیا ۔۔۔اور اس نے زینی کی ابھری ہوئی چوت پر تھوڑا سا تھوک لگایا ہی تھا کہ زینی کہنے لگی ۔۔۔ اس کی کوئی ضرورت نہیں ۔۔۔ کہ میری پھدی پہلے ہی پانی پانی ہو رہی ہے ۔۔۔ زینی کی بات سن کر بھائی نےاس کی دونوں ٹانگوں کو اپنے کندھے پر رکھا ۔۔۔۔ جس کی وجہ سے زینی کی پھدی اور بھی نمایاں ہو کر سامنے آ گئی۔۔۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی بھائی نے زینی کی طرف دیکھا۔۔۔اور بولا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں پاون لگا آ ( میں ڈالنے لگا ہوں) تو نیچے سے زینی نے بڑی ہی سیکسی آواز میں جواب دیا۔۔۔۔ پورا پاویں ( پورا ڈالنا ) اور اس کے ساتھ ہی بھائی نے ایک جھٹکا مارا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور لن پھسلتا ہوا زینی کی چوت میں اتر گیا۔۔۔۔ جیسے ہی بھائی کا لن زینی کی چوت میں اترا ۔۔۔۔ اس نے ایک لزت آمیز سی چیخ ماری۔۔۔۔۔ ہائے نی میرئے مائے ۔۔۔۔۔ لن ٹُر گیا اے ( ہائے میری ماں۔۔۔ لن میرے اندر چلا گیا ہے) اس کے ساتھ ہی بھائی نے گھسے مارنے شروع کر دیا۔۔۔ ۔۔۔ میرے خیال میں زینی کی چوت میں پہلے سے بہت زیادہ پانی آیا ہوا تھا ۔۔۔ کیونکہ بھائی کے ہر گھسے پر کمرے میں پچک پچک کی شہوت آمیز آوازیں سنائی دے رہیں تھیں ۔۔۔جنہیں سن سن کر میری پھدی بھی پانی سے بھر گئی تھی۔۔ادھر لزت کے مارے زینی بھائی سے کہہ رہی تھی ۔۔۔ بھائی توڑ تک پایا ای نا ( بھائی جڑ تک ڈالا ہے ناں ) تو بھائی بھی گھسہ مارتے ہوئے کہا۔۔۔۔ تینوں پتہ نہیں چلیا ( تمہیں محسوس نہیں ہو رہا) اور زینی کہتی ۔۔۔۔ ہاں پتہ چل رہا ہے اور چود مجھے اور چود۔۔۔۔۔۔۔ کافی دیر تک گھسے مارنے کے بعد ۔۔۔۔اچانک ہی بھائی بولا۔۔۔۔۔۔۔زینی اپنی پھدی سنبھال۔۔۔۔۔۔ میں گیا۔۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی اس کے گھسے مارنے کی رفتار میں بہت اضافہ ہو گیا۔۔۔۔ اور میں نے دیکھا کہ گھسے مارتے ہوئے بھائی اور زینی دونوں ہی پسینے میں نہائے ہوئے تھے۔۔۔اس کے ساتھ ہی اگلے چند گھسو ں کے بعد۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بھائی نے بلند آواز میں ۔۔اوہ۔۔۔اوہ ۔۔اوہ کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور اس۔۔۔ اوہ۔۔۔ اوہ ۔۔۔کے دوران ہی بھائی زینی کی چوت کے اندر ہی کہیں پانی نے اپنا پانی چھوڑ دیا تھا۔۔۔۔۔
اس سے اگلے دن کی بات ہے کہ اس دن ثمینہ سیناری نے مجھے اپنے گھر آنے کو کہا تھا کہ اس دن اس کی امی گھر پر نہیں تھی ۔۔۔۔ اس لیئے میں اس کے گھر چلی گئی مجھے دیکھتے ہی سنیاری میرے ساتھ لپٹ گئی اور میں نے محسوس کیا کہ اس وقت اس نے اپنے نیچے برا نہیں پہنی ہوئی تھی ۔۔۔۔ اس لیئے اس کے ساتھ جھپی لگاتے ہوئے اس کی چھاتیوں کے لمس سے میں تو مست ہی ہو گئی ۔۔۔اور اس کے ساتھ گلے ملتے ہوئے میں نے ڈائیرکٹ ہی اس کے منہ میں اپنی زبان ڈال دی۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی ہم دنو ں ایک دوسرے کی زبانوں کو چوستے چوستے اندر کمرے میں آ گئیں ۔۔ اور اس کے بعد کافی دیر تک ہم ایک دوسرے کے سیکسی جسموں سے اپنے اپنے حصے کی لذت کو کشید کرتی رہیں ۔۔۔۔ اور پھر اتنا زیادہ سیکس کرنے کے بعد جب ہم سیر ہو گئیں۔۔۔( واضع رہے کہ خاص طور پر میرا تو سیکس سے کبھی بھی دل نہیں بھرتا ) تو اس سے اجازت لے کر میں اپنے گھر کی طرف چل پڑی۔۔۔۔ابھی میں اپنے گھر سے کچھ ہی دور پہنچی تھی کہ۔۔۔ میں نے اپنے گھر کے آس پاس لوگوں کا کافی رش دیکھا۔۔۔۔۔اپنے گھر کے آس پاس اتنے زیادہ لوگوں کو دیکھ کر میں کچھ پریشان سی ہو گئی ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی میرے دل میں طرح طرح کے وسواس آنے لگے۔۔۔ اور لوگوں کا رش دیکھ کر تیز تیز قدموں سے چلتی ہوئی میں اپنے گھر کے قریب پہنچ گئی ۔۔۔ اور پھر۔۔۔۔جیسے ہی میں اپنے گھر میں داخل ہوئی تو ایک خوف ناک خبر میری منتظر تھی۔۔۔۔۔ اور وہ خوف ناک خبر یہ تھی کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جیسے ہی میں اپنے گھر میں داخل ہوئی تو ایک خوف ناک خبر میری منتظر تھی۔۔۔۔۔ اور وہ خوف ناک اور اندوہ ناک خبر ایسی تھی کہ جسے سن کر مجھے ایسے لگا کہ جیسے میرے جسم سے کسی نے جان ہی نکال دی ہو ۔۔ اور کافی دیر تک میں بے یقینی کے عالم میں خبرسنانے والے کی طرف دیکھتی اس نے مجھے بتایا تھا کہ وہ گھر میں بجلی کا سو ئچ ٹھیک کر رہے تھے کہ کوئی تار ننگی رہنے کی یا کوئی بے احتیاطی کی وجہ سے اچانک ان کو بجلی کا کرنٹ لگ گیا اور بجلی کا یہ کرنٹ اتنا شدید تھا کہ جس کی وجہ سے موقع پر ہی میرے والد صاحب کی ڈیتھ واقعہ ہو گئی۔۔ ۔۔۔ جیسے ہی میرے کانوں میں یہ خبر پہنچی ۔۔ تو اس خبر کو سن کر مجھ پر ایک سکتہ سا طاری ہو گیا ۔۔۔۔۔اور اس کے بعد کافی دیر تک میں خالی خالی نظروں سے اس کی طرف دیکھتی رہی پھر جیسے ہی میرے کچھ حواس بحال ہوئے تو میں نے درد میں ڈوبی ہوئی ایک زبردست چیخ ماری اور اس کے بعد شدتِ غم سے میں بے ہوش ہو گئی تھی جب میری آنکھ کھلی تو میں نے دیکھا کہ کافی ساری خواتین میرے اوپر جھکی ہوئی تھیں۔۔۔
میں سچ کہ رہی ہوں دوستو کہ یہ میری زندگی کا ایک ایسا واقعہ ہے کہ جس نے مجھے ہلا کر رکھ دیا تھا ۔۔۔۔اور اس واقعہ نے نہ صرف میری بلکہ میرے سارے گھر کی زندگی کو یک سر تبدیل کر کے رکھ دیا تھا۔۔۔۔۔۔ اور پہلی دفعہ صحیح معنوں میں مجھے اس بات کا ادراک ہوا تھا کہ غم کسے کہتے ہیں اور کس طرح شامیں ویران ہوتی ہیں ۔۔۔ ابو کی وفات کے بڑے عرصے بعد تک اداسی بال کھولے ہمارے گھر میں ٹھہری رہی تھی چونکہ گھر میں کمانے والے صرف وہی فرد تھے اس لیئے ابو کے جانے کے بعد سب سے پہلے ہمیں معشیت کی فکر پڑ گئی۔۔جسے امی نے سلائی کڑھائی کر کے ۔۔۔اور امی کے ساتھ میں نے بھی بچوں کو ٹیوشن پڑھا کر جیسے تیسے پورا کرنے کی کوشش کی ۔۔۔ چونکہ یہ ہم پہ بڑا کڑا وقت تھا اس لیئے ایک ایک کر کے سب رشتے دار اور عزیز وں نے ہمارا ساتھ چھوڑنا شروع کر دیا ۔۔۔ یہاں تک کہ چاچا اور اس کی فیملی نے بھی ہمیں لفٹ کرانا چھوڑ دی تھی ۔۔۔ جس کی وجہ سے صحیع معنوں میں ہم لوگ تنہا ہو گئے تھے۔۔۔۔ اسی دوران میرا میٹرک کا رزلٹ بھی آ گیا تھا جس میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں بہت اچھے نمبروں سے پاس ہو گئی تھی لیکن چونکہ گھریلو حالات کی وجہ سے میں عاشی کی طرح کالج پڑھنا افورڈ نہیں کر سکتی تھی اس لیئے میں نے پرائیویٹ طور پر پڑھنا شروع کر دیا۔۔ ۔۔۔۔۔جہاں تک سیکس وغیرہ کا تعلق ہے تو یقین کرو ۔۔دوستو ۔۔کہ اس سلسلہ میں میری حالت ایسی ہو گئی تھی کہ جس کے بارے میں شیخ سعدی نے اپنی کتاب گلستان سعدی یا بوستان سعدی میں بزبانِ فارسی ایک شعر لکھا ہے کہ جس کے مطابق ایک دفعہ دمشق میں اس قدر قحط پڑ گیا تھا کہ یار لوگ عشق کرنا بھول گئے تھے۔۔۔ بلکل اسی طرح چونکہ اس دوران ہمیں بھی ۔۔۔کھانے اور زندگی گزارنے کے دوسرے لوازمات کے اس قدر لالے پڑے ہوئے تھے کہ اس حادثے کے بعد میں اور میرے بہن بھائی ہم سب سیکس وغیرہ کرنا ۔۔۔تو دور کی بات اس کے بارے میں سوچنا بھی۔۔۔ بھول چکے تھے ۔۔۔ وہ اس لیئے کہ بقول غالب ۔۔۔۔۔۔گیا ہو جب اپنا ہی جیوڑا نکل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو کہاں کی رباعی ۔۔اور کہاں کی غزل۔۔۔۔۔۔
سوری دوستو آپ بھی سوچتے ہوں گے کہ میں اپنے سیکس سے متعلق واقعات سناتے سناتے یہ کیا بیچ میں لے آئی؟؟؟ ۔۔۔ لیکن ۔۔ چونکہ ابو کی وفات میری زندگی سے جڑُا ایک ایسا خوف ناک اور اندوہ ناک حادثہ تھا کہ جس نے میری ساری زندگی کو اتھل پتھل کر کے رکھ دیا تھا ۔۔۔۔ اس لیئے میں نے مناسب سمجھا کہ یہ بات بھی آپ لوگوں کے ساتھ شئیر کر لوں ۔۔۔ چلیں ان تلخ واقعات کو یہیں چھوڑتے ہیں اور آگے بڑھتے ہیں۔۔۔
اسی دوران پرائیویٹ طور پر پڑھتے ہوئے میں نے بہت اچھے نمبروں سے بی اے کر لیا تھا اور اب آگے بی ایڈ کرنے کا ارادہ تھا ۔۔۔۔ ادھر میرے بی اے کرنے کی دیر تھی کہ ہر ماں کی طرح میری امی کو بھی میری شادی کی فکر ستانے لگی ۔۔ لیکن چونکہ میں ایک غریب گھرانے کی لڑکی تھی اور گھرانہ بھی ایسا کہ جہاں سے لوگوں کو جہیز ملنے کو کوئی خاص امید نہ تھی ۔۔۔۔۔ اس لیئے ہمارے ہاں اچھے رشتے کا آنا تو خواب و خیال تھا ۔۔۔۔ تا ہم گاہے رنڈوے ۔۔۔یا دوسری شادی کرنے کے خواہش مند حضرات ہمارے گھر کا چکر ضرور لگایا کرتے تھے جن کو ظاہر ہے کہ میری امی منع کر دیا کرتی تھی۔۔۔دوستو!۔۔میں نے کہیں پڑھا تھا کہ بیوہ عورت ایک کٹی پتنگ کی طرح ہوتی ہےکہ جسے ہر کوئی لوُٹنے کی کوشش کرتا ہے لیکن پر یہاں میں اپنے تجربے کو مدِ نظر رکھتے ہوئے بیوہ کے ساتھ ساتھ غریب لڑکی کا بھی اضافہ کرنا چاہوں گی کیونکہ بیوہ کی طرح غریب لڑکی کا بھی کوئی والی وارث۔۔۔۔ کوئی پرسانِ حال نہیں ہوتا ۔۔۔۔۔۔ اور بیوہ عورت کی طرح اسے بھی ہر کوئی مفت کا مال سمجھ کر ڈکارنا چاہتا ہے۔۔۔ کچھ اسی قسم کی صورتِ حال کا مجھے بھی سامنا تھا۔۔۔۔۔
ہماری ایک بڑی خالہ تھیں جو کہ ہمارے قصبے سے کچھ ہی دور رہتی تھیں ا ن کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں سب سے بڑے بیٹے کا نام عدنان تھا ۔ جو کہ بعد میں میرا خاوند بنا ۔۔پھر اس کے بعد دوسرا لڑکا اور پھر فوزیہ باجی اور سب سے آخر میں عاصمہ جسے پیار سے گڈی کہتے تھے ۔ خالہ بھی امی کی طرح ایک بیوہ خاتون تھیں ۔۔۔۔ اور بیوہ عورت کے بارے میں آپ جانتے ہی ہیں کہ عام طور پر ان کی اولاد خاص کر لڑکے بہت کم سدھرے ہوئے ہوتے ہیں یہی حال عدنان صاحب کا بھی تھا ۔۔۔ عدنان ایک بلکل جاہل گنوار اور اجڈ ٹائپ کا بندہ تھا ۔۔۔اور بڑا ہونے کے ناطے وہ خالہ کے کنٹرول سے بلکل باہر تھا ۔اسی لیئے وہ چوتھی جماعت سے آگے تعلیم نہ حاصل کر سکا تھا ۔۔۔۔ ۔۔۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کا چھوٹا موٹا زاتی کاروبار بھی تھا ۔ عدنان شکل و صورت کا بھی بہت ماٹھا تھا رنگ اس کا کالا ا ور نین نقش بھی اچھے نہ تھے اوپر سے آوارہ اور لوفر مشہور ہونے کی وجہ سے اتنی عمر ہونے کے باوجود بھی اسے فیملی میں کوئی بھی رشتہ دینے کے لیئے تیار نہ تھا اس کے ساتھ ساتھ ۔۔۔
ہاں تو میں کہہ رہی تھی کہ انہی دنوں میں نے نوٹ کیا کہ ان دنوں بڑی خالہ ہمارے گھر کے کچھ زیادہ ہی چکر لگانا شروع ہو گئی تھی ۔۔۔وہ جب آتی تو اپنے ساتھ کوئی پھل فروٹ وغیرہ ضرور لایا کرتی تھی حالانکہ اس سے قبل بھی خالہ ہمارے گھر آیا کرتی تھی لیکن کبھی بھی اپنے ساتھ پھل وغیرہ نہ لایا کرتی تھی ۔۔۔ اب وہ اور اس کی بڑی بیٹی فوزیہ جو کہ بہاولپور کسی کالج میں پڑھاتی تھی اور وہاں پر اکیلی ہی کسی وومن ہاسٹل میں رہا کرتی تھی نے بار بار ہمارے گھر کے چکر لگانے شروع کر دیئے تھے اس کے ساتھ ساتھ دونوں ماں بیٹیاں میرے ساتھ بڑی میٹھی میٹھی باتیں بھی کرتی تھیں۔۔۔میرا شاید اس طرف دھیان نہ جاتا ۔۔۔۔ لیکن ایک دن زینی نے مجھ سے کہا کہ کیا باجی آپ کو معلوم ہے کہ آج کل بڑی خالہ ہمارے گھر کے اتنے چکر کیوں لگا رہی ہیں ؟ تو میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ وہ امی کی دل جوئی کے لیئے آتی ہوں گی میری بات سن کر زینی ہنس پڑی اور کہنے لگی ۔۔۔ تم بھی بڑی بھولی ہو باجی۔۔۔۔ پھر بولی ۔۔۔ باجی سوچو کہ اگر بڑی خالہ کے دل میں امی کے لیئے اتنا ہی درد ہوتا تو وہ اس وقت امی کے پاس کیوں نہ آتیں تھیں کہ جب امی کو خاص طور پر ان کے سہارے کی اشد ضرورت تھی ۔۔۔ اس کی بات سن کر میں نے ہاں میں سر ہلایا اور پھر اس کی دیکھتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔ کہتی تو تم ٹھیک ہی ہو۔۔۔۔۔ پھر میں نے اس سے پوچھا کہ اچھا یہ بتا کہ جب ایسی کوئی بات نہیں ہے تو پھر خالہ ہمارے گھر کے بار بار کیوں چکر لگا رہی ہیں ۔۔۔ میری بات سن کر زینی نے میری طرف دیکھا اور آنکھ مارتے ہوئے بولی ۔۔۔ وہ اس لیئے باجی جی کہ جس گھر میں بیری لگی ہو وہاں پر پتھر تو پڑتے ہی رہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کی بات سن کر میں نے اُلجھی ہوئی نظروں سے اس کی طرف دیکھا اور کہنے لگی۔۔۔ یار زینی پہلیاں نہ بجھوا اور جلدی سے بتا کہ آخر چکر کیا ہے؟
میری بات سن کر زینی کہنے لگی باجی جی چکر سیدھا سیدھا ہے۔۔۔۔۔ بڑی خالہ عدنان کے لیئے آپ کا رشتہ مانگ رہی ہیں۔۔۔ زینی کی بات سن کر مجھے ایک کرنٹ سا لگا اور میں بڑی ہی حیرانی سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگی ۔۔عدنان کا رشتہ اور وہ بھی میرے لیئے؟؟؟؟؟؟؟؟۔۔۔ تو زینی کہنے لگی جی باجی آپ کے لیئے۔۔۔۔۔ یہ سن کر میرے تو تن بدن میں آگ لگ گئی کیونکہ عدنان کی حرکتوں سے میں ہی نہیں بلکہ پوری فیملی ہی واقف تھی ۔۔۔ چنانہ اسی دن شام کو میں امی کو الگ لے گئی اور ان سے پوچھا کہ امی یہ بتاؤ کہ بڑی خالہ آج کل ہمارے گھر کے اتنے چکر کیوں لگا رہی ہیں؟ میرا جارحانہ لہجہ دیکھ کر امی کہنے لگی ۔۔۔ گیس تو میرا بھی وہی ہے جو کہ تم سوچ رہی ہو ۔۔۔ لیکن ابھی تک باجی نے میرے ساتھ اس بارے میں کوئی بات نہیں کی ہے۔۔۔ اس پر میں نے امی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کان کھول کر سن لیں امی ۔۔۔ میرا ابھی شادی کا کوئی پروگرام نہ ہے۔۔اسلیئے اگر بڑی خالہ میرا رشتہ مانگیں بھی۔۔۔ تو آپ نے صاف انکار کر دینا ہے۔۔۔ میری بات سن کر امی نے بڑی گہری نظروں سے میری طرف دیکھا اور کہنے لگیں۔۔۔۔۔ جب موقع آیا تو دیکھا جائے گا۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی وہ اپنی جگہ سے اُٹھ کر وہاں سےباہر چلی گئیں۔۔۔
اس واقعہ کے ایک ہفتے بعد کا زکر ہے کہ ایک دن بڑی خالہ ۔۔۔ ان کے ساتھ فوزیہ باجی اور ان کی سب سے چھوٹی بہن گڈی ( جو کہ مجھ سے تین چار سال بڑی تھی) اور ان کے ساتھ چھوٹے ماموں بھی ہمارے گھر آ گئے ۔۔۔ چھوٹے ماموں کے بارے میں۔۔ میں آپ کو بتا دوں کہ یہ بڑی خالہ کے ساتھ ایک گلی چھوڑ کر رہتے تھے بہت ہی اچھے اور ہمدرد آدمی تھے ان کی عمر چالیس پینتالیس سال ہو گی اور وہ شادی شدہ تھے ان کی بیوی بہت گوری چٹی اور قد کاٹھ کی بہت اچھی تھی جبکہ ان کے مقابلے میں ماموں کا رنگ ڈرک براؤن تھا ۔۔۔۔ لیکن بد قسمتی سے شادی کو اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود بھی ابھی تک ان کے ہاں کوئی اولاد نہ ہوئی تھی جس کی وجہ سے چھوٹے ماموں کبھی کبھی اداس بھی ہو جاتے تھے لیکن مجموعی طور پر وہ ایک اچھے آدمی تھے اور ان کا خاصہ بڑا کاروبار تھا ۔۔۔۔۔چونکہ بڑی خالہ کی بیوگی کے بعد چھوٹے ماموں نے ان کی فیملی بہت خیال رکھا تھا جس کی وجہ سے بڑی خالہ نہ صرف یہ کہ ان کی ہر بات مانتی تھیں ۔۔۔ بلکہ گھر کے ہر اہم فیصلہ میں ان کی رائے کو فوقیت دیتی تھیں ۔۔۔ جس کی وجہ سے خالہ کے گھر میں چھوٹے ماموں کو بہت زیادہ اثر و رسُوخ حاصل تھا اور خالہ بھی اپنے ہر اہم فیصلے میں ان کو اپنے ساتھ رکھتی تھی ۔۔ ۔۔۔ہاں تو میں کہہ رہی تھی کہ ۔۔۔۔ان مہمانوں کو دیکھ کر میرا ماتھا تو پہلے ہی ٹھنک گیا تھا ۔۔۔ لیکن جب زینی نے مجھ سے یہ بات کنفرم کی کہ بقول گڈی باجی کے یہ لوگ میرے رشتے کے لیئے آئے ہیں تو ایک دفعہ پھر میں امی کے پاس چلی گئی اور دوبارہ سے ۔۔ انہیں اس رشتے کے بارے میں اپنی رائے سے آگاہ کیا میری بات سن کر اماں نے ایک نظر مجھے دیکھا اور پھر میرے بار بار کے اصرار پر مجھے پچکارتے ہوئے گول مول سا جواب دیتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔ ویلا تے آن دے پھر وینے آں ( وقت آنے دو پھر دیکھا جائے گا ) تو میں نے اماں سے کہا ۔۔۔ اماں جس وقت کا آپ ذکر کر رہی ہو وہ وقت آ گیا ہے
لیکن اماں نے مجھے ادھر ادھر کی باتوں میں ٹال دیا۔۔۔۔ ادھر میری بے چینی کم ہونے میں نہیں آ رہی تھی اور میں عدنا ن سے ہر گز شادی نہ کرنا چاہتی تھی۔۔۔۔میرے بار بار کے کہنے پر بھی اماں ٹس سے مس نہ ہو رہیں تھی اور میں نے یہ بات نوٹ کر لی تھی کہ اس سلسلہ اماں میری بات کو ُسنا ان سنُا کر رہی ہیں ۔۔۔ پھر ۔۔۔اگلے دن کی بات ہے کہ میرے بد ترین خدشات درست ہونا شروع ہو گئے اور وہ یوں کہ اگلے دن صبع بڑی خالہ اور چھوٹے ماموں نے امی سے عدنان کے لیئے میرا ہاتھ مانگ لیا ۔۔۔۔جسے سن کر امی نے ان سے شام تک کی مہلت مانگی ۔۔ اور پھر اسی دن دوپہر کے وقت اماں مجھے اپنے ساتھ ایک دوست کے گھر لے گئیں اور وہاں تنہائی میں مجھ سے کہنے لگی ۔۔صبو ۔۔۔جیسا کہ تم کو معلوم ہی ہے کہ ۔۔۔ آپا نے مجھ سے آج عدنان کے لیئے تمہارا ہاتھ مانگ لیا ہے۔۔ اب تم بتاؤ کہ اس سلسلہ میں تم کیا کہتی ہو؟ ۔۔۔ امی کی بات سن کر ایک دم سے میں پھٹ پڑی اور کہنے لگی ۔۔۔ امی۔۔۔اس رشتے کے بارے میں ۔۔۔۔ میں آپ کو پہلے ہی بتا چکی ہوں۔۔۔اور پھر اس کے بعد میں نے امی کے سامنے ایک لمبی چوڑی تقریر کر دی۔۔ جسے وہ بڑے اطمینان کے ساتھ سنتی رہیں ۔۔۔
مجھے ابھی تک یاد ہے کہ جب میری تقریر ختم ہوئی ۔۔۔۔تو اس سن کر اماں ایک دم سے سیریس ہو کر کہنے لگی ۔۔۔ میرے خیال میں تو صبو تمہارے لیئے اس سے اچھا رشتہ اور نہیں آئے گا ۔۔۔ اماں کی بات سن کر اس سے پہلے کہ میں کوئی جواب دیتی ۔۔۔۔انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے مزید کچھ کہنے سے منع کیا اور پھر بڑی شفقت سے کہنے لگی ۔۔۔ صبو پتر ۔۔۔ انکار کرنے سے پہلے تم میری حثیت کا ضرور اندازہ لگا لینا ۔۔۔۔۔۔ پھر مزید کہتے ہوئے بولیں دیکھو بیٹی میں ایک بیوہ عورت ہو ں اور اس بات سے تم بہت اچھی طرح واقف ہو کہ زمانے کے لحاظ سے ہماری حثیت کیا ہے اور ہم کن مشکلوں سے گزر رہے ہیں ۔۔۔ اور تم یہ بھی جانتی ہوکہ تمہیں جہیز میں دینے کے لیئے میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔۔۔ پھر کہنے لگی ۔۔۔ میری بچی ۔۔ تم اپنی آنکھوں میں جس قسم کے رشتوں کا خواب سجائے بیٹھی ہو ۔۔۔ایسا رشتہ ہمارے ہاں کبھی بھی نہیں آئے گا ۔۔۔پھر تھوڑا ۔۔رُک کر بولیں۔۔۔اور وہ اس لیئے میری بچی ۔۔کہ جیسا رشتہ ہوتا ہے اس کے ساتھ جڑی ہوئی ویسی ہی ڈیمانڈز بھی ہوتی ہیں۔۔۔ اس کے بعد بات کرتے ہوئے اماں کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور وہ بھرائے ہوئے لہجے میں بولیں۔۔۔
۔صبو !۔۔ آج اگر تمہارے ابا زندہ ہوتے تو پھر مجھے کوئی پرواہ نہ تھی لیکن ۔۔۔۔۔ لیکن اب جبکہ وہ اس دینا میں نہیں ہیں ۔۔۔تو تم مجھ پر بوجھ بنتی جا رہی ہو ۔۔۔۔ اماں کی بوجھ والی بات تیر کی طرح سیدھے میرے دل میں جا کر ترازو ہو گئی۔۔۔ اور میں نے بڑی ہی دل گرفتگی کے ساتھ ان سے پوچھا کہ اماں میں آپ پر کب سے بوجھ ہو گئی ہوں ؟ تو وہ کہنے لگی ۔۔۔ دیکھ پتر جوان بچیاں ماں باپ پر بوجھ ہی ہوتی ہیں ۔۔۔اور اس بات کو تم اچھی طرح سے جانتی ہو۔۔۔۔ چنانچہ اماں کی بوجھ والی بات سن کر میں نے دل ہی دل میں نے ایک فیصلہ کیا اور ان سے بولی۔۔۔ ٹھیک ہے اماں اگر آپ اسی بات میں راضی ہو تو مجھے یہ رشتہ منظور ہے۔۔۔ میرے منہ سے ہاں سن کر اماں نے مجھے اپنے گلے سے لگا لیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور کافی دیر تک ہم دونوں ماں بیٹی آنسوؤں کے ساتھ روتی رہیں ۔۔۔
عدنان سے میرے رشتے کے لیئے ہاں کرتے ہوئے اماں نے ان سے صاف کہہ دیا تھا کہ چونکہ ان پوزیشن ایسی ہے کہ وہ زیادہ براتی افورڈ نہیں کر سکتی اس لیئے لڑکی کو لینے آپ صرف گھر والے آئیں ۔۔۔ اور بیٹی کو اپنے ساتھ لے جائیں ۔ہاں ولیمے پر انہوں نے اپنی جو خوشیاں کرنی ہیں وہ ضرور کریں۔۔ سو دوستو اس طرح نہایت سادگی کے ساتھ میرا نکاح پڑھا گیا اور بڑی خالہ مجھے بیاہ کے اپنے گھر لے آئی۔۔۔ بڑی خالہ ہماری نسبت کافی خوشحال تھی جس کی وجہ عدنان کا چھوٹا موٹا بزنس اور فوزیہ باجی کا گورنمنٹ کالج بہاولپور میں لیکچرار کا ہونا تھا۔۔۔ امی نے مجھے اور تو جہیز میں کچھ نہیں دیا البتہ کسی طرح انہوں نے ایک سُرخ رنگ کا کام والا جوڑا دیا تھا جسے پہن کر میں اپنے گھر سے رُخصت ہوئی تھی ۔۔۔ اسی رات مجھے عدنان کے کمرے میں پہنچا دیا گیا جہاں پر مسہری سجی ہوئی تھی ۔۔میں دلہن بنی مسہری پر بیٹھی ہوئی تھی۔۔اور میرے آس پاس عدنا ن کی بہنیں اور ان کی سکھیاں بیٹھیں آپس میں چُہلیں کر رہیں تھیں ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ساتھ کبھی کبھی وہ میری طرف مخاطب ہو کر بھی ذو معنی باتیں کر رہیں تھی ۔۔۔ جبکہ میں ان کی باتوں کو سُنی ان سُنی کرتے ہوئے ۔۔ آنے والے وقت کے بارے میں سوچ رہی تھی۔۔۔۔ اور آنے والے وقت کے بارے میں ہی سوچ سوچ کر میرا دل دھک دھک کر رہا تھا۔۔۔پھر رات کے کسی پہر عدنان کمرے میں داخل ہوئے۔۔۔ تو میری پاس بیٹھی ہوئیں ساری لڑکیاں وہاں سے اُٹھ کر چلی گئںی ۔۔ جب حجلہء عروسی لڑکیوں سے خالی ہو گیا ۔۔۔ تو عدنان نے کمرے کو لاک کیا اور میرے پاس آ کر بیٹھ گئے۔۔ اس وقت میں ایک لمبا سا گھونگھٹ نکالے مسہری پر بیٹھی ہوئی تھی عدنان نے میرا گھونگٹ اُٹھایا اور میرا چہرہ دیکھ کر کہنے لگا۔۔۔ اس سُرخ جوڑے میں تم بہت خوب صورت لگ رہی ہو ۔۔۔۔۔پھر اس نے میرا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے ہاتھ میں لے لیا ۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی اس نےاس ایک ہاتھ اپنی جیب میں ڈالا اور اندر سے ایک انگھوٹھی نکالتے ہوئے بولا۔۔۔
اجازت ہو تو میں تمہارے ہاتھ میں یہ انگھوٹھی پہنا دوں؟ ۔۔اور پھر میری اجازت کے بغیر ہی انہوں نے ۔۔۔میری انگلی کو پکڑ کر منہ دکھائی میں وہ انگھوٹھی پہنا دی ۔۔۔اور پھر اس ہاتھ کو میری آنکھوں کے سامنے کرتے ہوئے کہنے لگے۔۔ دیکھو تو یہ انگھوٹھی تم کو کیسی لگ رہی ؟ لیکن میں شرم کے مارے چُپ ہی رہی۔۔۔ تو اس پر وہ کہنے لگے اچھا بتاؤ ۔۔کہ میری انگھوٹھی پسند آئی ؟ اس پر بھی جب میں خاموش رہی تو وہ کہنے لگے ارے بابا چپ رہنے سے کام نہیں چلے گا ۔۔۔۔ کچھ منہ سے بھی بولو ناں۔۔۔۔۔ لیکن۔۔ میں کیا کہتی ۔۔۔ اسلیئے میں نے خاموش رہنا ہی بہتر جانا۔۔ ۔۔۔تو یہ دیکھ کر وہ آگے بڑھا اور میرا منہ اپنی طرف کر کے کہنے لگا۔۔۔ دیکھو تو تم نے اپنے منہ میں کوئی گھونگیارں تو نہیں ڈال رکھیں؟ اور اسی بہانے وہ میرے منہ کو اپنے منہ کے قریب لے گیا ۔۔۔اور بنا کچھ کہے ۔۔۔۔اس نے میرے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھے اور ۔۔۔۔ انہیں چومتا رہا ۔۔ پھر میری طرف دیکھ کر بولا۔۔۔۔ تمہارے لب تو بہت نرم ہیں صبو۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی وہ دوبارہ سے میرے لبوں کی طرف جھکا اور پھر ۔۔۔۔ میرے لبو ں کو اپنے لبوں میں لے لیا اور بڑے آرام کے ساتھ میرے لبوں کو چوسنے لگا۔۔۔۔ پسند نا پسند کی بات اپنی جگہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن ایک لمبے عرصے بعد میرے ہونٹوں پر کسی کے ہونٹوں کا لگنا ۔۔ میرے لبوں کو چومنا ۔۔۔اور پھر انہیں چوسنا ۔۔۔۔۔۔ مجھے بہت اچھا محسوس ہو رہا تھا۔۔۔۔لیکن میں اپنے منہ سے کچھ نہ بولی تھی ۔۔۔۔اور جو وہ کر رہے تھے انہیں کرنے دے رہی تھی۔۔۔ اس کے بعد انہوں نے اپنی زبان کو میرے منہ میں ڈالا ۔۔۔۔۔اور ۔۔۔۔اُف۔ف۔ف۔ف۔ف۔ اتنے عرصے بعد میری زبان کو کسی نے اپنے منہ میں لے کر چوسا تھا ۔۔۔۔ظاہری بات ہے مزہ تو آنا ہی تھا۔۔۔۔ اس لیئے مجھے نا چاہتے ہوئے بھی عدنان کے ساتھ کسنگ کرنے کا مزہ آنے لگا۔۔۔
کافی دیر تک کگسی کرنے کے بعد اس نے میری قمیض اوپر اُٹھا دی ۔۔۔۔ پھر نیچے سرخ رنگ کی برا کو دیکھ کر کہنے لگا ۔۔۔واہ جی واہ۔۔۔۔ بڑی میچنگ کی ہوئی ہے لیکن اس وقت یہ تمہارے جسم پر بلکل بھی نہیں جچ رہی ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی اس نے ہاتھ بڑھا کر برا کی ہک بھی کھول کر میری چھاتیوں کو ننگا کر دیا۔۔۔۔ جیسے ہی اس کی نظر میری چھاتیوں کی طرف گئی تو وہ ایک دم خوش ہو کر کہنے لگا۔۔۔۔ واہ یار تیری چھاتیاں تو ایک دم مست ہیں۔۔۔ پھر میری طرف دیکھ کر کہنے لگا۔۔۔ میں ان کے ساتھ تھوڑی مستی کر سکتا ہوں ؟ اور اس کے ساتھ ہی اس نے میری ایک چھاتی کو اپنے دونوں ہاتھوں میں پکڑا اور گرمیوں میں جیسے لوگ بالٹی میں رکھے آموں کو پکڑ کر پہلے نرم کرتے ہیں پھر ان کو چوستے ہیں ویسے عدنان نے باری باری میر ی چھوٹی مگر سخت چھاتیوں کو اپنے دونوں ہاتھ میں پکڑا۔۔ اور ان کو دباتے رہے۔۔ان کے ہلکے ہلکے دبانے سے مجھے بڑا مزہ مل رہا تھا اور میرا جی چاہ رہا تھا کہ ساری رات وہ ایسے ہی میری چھاتیوں کو دباتے رہیں ۔۔۔۔ لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا اور کچھ دیر تک ہی میری چھاتیوں کو دباتے رہے۔۔ پھر کہنے لگے ۔۔۔ اب میں ان کو چوسنے لگا ہوں۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنے دونوں ہاتھوں میں میری ایک چھاتی کو پکڑا اور پہلے تو میرے اکڑے ہوئے نپل پر گول گول زبان گھمائی۔۔۔۔ پھر۔۔۔ میری اس چھاتی کو اپنے منہ کھول کر اپنے ہونٹوں میں لے لیا ۔۔۔۔اور پھر اس کے بعد باری میری دونوں چھاتیوں کو چوسنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔ میری چھاتیوں کا عدنان کے منہ میں جانے کی دیر تھی کہ نیچے سے مجھے اپنی چوت سے سگنل ملنے شروع ہو گئی۔۔اور جیسے جیسے وہ میری چھاتیوں کو چوستے جاتے ویسے ویسے ان سگنلز کی تعداد میں اضافہ ہوتا جاتا تھا ۔۔ ویسے تو میں ۔۔۔۔اور میری چوت صبع سے ہی چودائی کے لیئے تیار تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اس وقت جبکہ عدنان کے منہ میں میری چھاتی دبی ہوئی تھی اور وہ میرے نپلز کو چوس رہا تھا ۔۔۔۔۔ تو میر ی چوت نے اپنی آمادگی ظاہر کرتے ہوئے آنے والے وقت کے لیئے اسے چکنا کرنا شروع کردیا۔۔۔۔۔۔۔
ادھر عدنان میری چھاتیوں کو ایسے چوسے جا رہا تھا کہ جیسے وہ صرف انہیں ہی چوسنے کے لیئے دنیا میں آیا ہو۔۔۔۔ اور جوں جوں عدنان میری چھاتیوں کو چوستا جا رہا تھا ۔۔۔۔ توُن تُوں اس کا لن اپنے اندر لینے کے لیئے میری چوت کی آمدگی بڑھتی جا رہی تھی۔۔۔ اور کچھ دیر بعد اس کی حالت یوں ہو گئی تھی کہ اب میری چوت جو کہ پہلے صرف چکنی ہوئی تھی ۔۔۔اب اس میں اچھا خاصہ پانی بھر چکا تھا۔۔۔ میرے خیال میں عدنان کو چھاتیاں چوسنا از حد پسند تھا تبھی تو کافی دیر سے وہ میری چھاتیوں کو بس چوسے جا رہا تھا۔۔۔۔ پھر کافی دیر کے بعد اس نے میری چھاتیوں سے اپنے منہ کو ہٹایا اور پھر ۔۔۔۔ میری طرف دیکھتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔ کچھ مزہ آیا ۔۔۔ تو میں نے شرم کے مارے کوئی جواب نہ دیا ۔۔۔ یہ دیکھ کر وہ اپنی قمیض کو اتارتے ہوئے بولا ۔۔۔۔ مجھ سے کیسی شرم کر رہی ہو صبو جی۔۔۔ میں تو تمہارا خاوند ہو ں۔۔۔اور ابھی تھوڑی دیر بعد میں تمہاری پھدی مارنے والا ہوں۔۔۔۔ اس کی بات سن ایک لمحے کے لیئے مجھے تھوڑا برا تو لگا ۔۔۔ لیکن پھر یہ سوچ کر میں چپ رہی کہ بات تو وہ ٹھیک ہی کر رہا ہے ۔۔ قمیض اتارنے کے بعد وہ میرے پاس آیا اور کہنے لگا۔۔۔ چل اب تو بھی اپنی قمیض کو اتار ۔( جو کہ اس وقت تک صرف چھاتیوں تک ننگی تھی)۔۔ لیکن میں چپ رہی یہ دیکھ کر وہ آگے بڑھا اور اس نے میری قمیض کو اتار دیا ۔برا تو وہ پہلے ہی اتار چکا تھا۔۔۔۔۔ جیسے ہی میری قمیض اتری اس نے میری ننگی چھاتیوں کو اپنے ہاتھ میں پکڑا اور دوبارہ سے انہیں دبانا شروع کردیا۔۔۔ پھر کچھ دیر دبانے کے بعد ۔۔ اس نے میری چھاتیوں کو اپنے ہاتھوں سے چھوڑ دیا اور مجھ سے کہنے لگا۔۔۔۔ کیا خیال ہے صبو اب ۔۔۔ تمہیں چودا جائے؟ یہ سن کر ایک دفعہ پھر سے میرا میٹر شارٹ ہونے لگا ۔۔۔ لیکن میں۔۔۔ بوجہ چپ رہی ۔۔۔اور اپنی چھاتیوں پر ہاتھ رکھے خاموش بیٹھی رہی ۔۔ یہ دیکھ کر اس نے جلدی سے اپنی شلوار اتاری اور ۔۔۔ مجھ سے بولا ۔۔۔ چلو اب میں تمہاری شلوار کو اتارتا ہوں ۔۔اور ایک ہی منٹ میں اس نے میری شلوار اتار دی۔۔۔ عام طور پر میں اپنی چوت پر بال رکھنا پسند کرتی ہوں ۔۔۔ لیکن آج خاص طور پر اپنی سہاگ رات کے لیئے میں نے اپنی چوت کی بہت اچھی طرح صفائی کی تھی۔۔۔اور اس وقت بالوں کے بغیر اسے میری چوت بہت اچھی لگ رہی تھی تبھی تو وہ آگے بڑھا اور میری چوت پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہنے لگا۔۔۔۔۔ تمہارے لبوں کی طرح تمہاری چوت کا ماس ( جلد) بھی بہت نرم ہے اور اس پر ہاتھ پھیرنے لگا ۔۔۔ پھر ہاتھ پھیرتے ہوئے اس نے میرا ہاتھ پکڑا ۔۔۔۔اور کہنے لگا۔۔۔ مجھے تو تمہاری چوت بہت پسند آ ئ ی ہے ۔۔۔اب تو بھی میرا شیر پکڑ کر بتا کہ ۔۔۔ یہ کیسا ہے؟ یہ کہتے ہوئے اس نے میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے لن پر رکھ دیا۔۔۔ اس کے لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑتے ہوئے میں نے چوری چوری اس کے لن کی طرف دیکھا تو۔۔۔۔ وہ ایک ایوریج سا لن تھا
۔۔۔ میرے خیال میں ۔۔۔۔اس کی لمبائی پانچ۔۔۔۔ساڑھے پانچ اینچ ۔۔۔۔ اور موٹائی میں تھوڑا زیادہ ہو گا۔۔۔۔ جب میں نے اس کے لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑا تھا تو اس وقت شہوت کے مارے عدنان کا لن اکڑا ہوا تھا اور اپنے فُل جوبن پر تھا۔۔۔۔ لن پکڑانے کے تھوڑی ہی دیر بعد اس نے میری چوت پر ہاتھ پھیرنا بند کیا اور ۔۔۔ مجھ سے کہنے لگا۔۔۔۔ صبو ۔۔اب میں تمہارے ساتھ وہ کام کرنے لگا ہوں کہ جس کی وجہ سے ہمارا ولیمہ حلال ہو جائے گا۔۔۔ اور مجھے نیچے لیٹنے کو کہا۔۔۔ اس کا اشارہ پا کر میں چپ چاپ مسہری پر لیٹ گئی۔۔۔اب اس نے مسہری کے دراز میں ہاتھ مارا اور ایک شیشی ہاتھ میں پکڑ کر کہنے لگا۔۔۔صبو جی ۔۔۔ یہ تیل کی شیشی ہے ۔۔۔ویسے تو میں نے تمہاری چوت چیک کر کے دیکھ لیا ہے ۔۔۔ وہ بے حد چکنی ۔۔۔۔۔۔اور میرا لن لینے کے لیئے بے پناہ آمدہ ہے لیکن ۔۔۔۔ پھر وہ شیخی مارتے ہوئے کہنے لگا کہ چونکہ میرا لن بہت بڑا اور موٹا ہے اور تم کو اسے اندر لیتے ہوئے تکلیف نہ ہو اس لیئے میں اپنے لن پر ۔۔۔ سرسوں کا تیل لگانے لگا ہوں۔۔۔اس کے منہ سے اپنے لن کی تعریف سن کر ہم ہنس دیئے ۔۔ ہم چُپ رہے۔۔۔۔ کیونکہ ہمیں اس کے لن ۔۔۔اور اپنا ۔۔۔پردہ منظور تھا ۔۔۔ اس کے بعد اس نے ڈھیر سا تیل میری چوت پر اور کافی زیادہ اپنے لن پر لگایا ۔۔۔۔اور میری ٹانگوں کو اپنے کندھے پر رکھ کر کہنے لگا۔۔ درد ہوا تو مجھے بتانا ۔۔۔ میں باہر نکال لوں گا۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی اس نے میری چوت پر اپنا لن رکھا ۔۔۔اور آہستہ آہستہ اندر کرنے لگا۔۔۔۔۔
جیسے جیسے اس کا لن میری چکنی اور تنگ چوت میں جاتا جا رہا تھا ۔۔۔ویسے ویسے میری پھدی کو ایک عجیب سا سکون ملتا جا رہا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ چونکہ بڑے عرصے کے بعدمیں نے لن لیا تھا اس لیئے شہوت کے مارے میری چوت سے ڈھیروں ڈھیر مزی برآمد ہو رہی تھی۔۔۔۔ جب اس کا سارا لن میرے میری چوت کے اندر چلا گیا تو روکنے کے باوجود بھی مزے کے مارے میرے منہ سے " اوپ" کی سی آواز نکلی ۔۔۔ جسے سن کر وہ سمجھا کہ میں درد کے مارے ایسا کر رہی ہوں ۔۔۔ اس لیئے وہ گھسہ مارتے ہوئے رکا اور کہنے لگا۔۔۔ درد ہو رہی ہے تو لن باہر نکالوں۔۔۔ لیکن میں نے کوئی جواب نہ دیا تو وہ پھر سے گھسے مارنا شروع ہو گیا۔۔۔ اور پھر ہر دوسرے گھسے کے بعد پوچھتا کہ درد تو نہیں ہو رہا؟ ۔۔۔۔اس طرف اس رات عدنان نے مجھے تین دفعہ چودا ۔۔۔دو دفعہ لٹا کر اور ایک دفعہ ۔۔۔۔گھوڑی بنا کر۔۔۔۔ اور اس چودائی سے مجھے بہت زیادہ مزہ ملا۔۔۔۔ اور بڑے عرصے کے بعد میری پھدی نےتھوڑا سکون کا سانس لیا تھا۔۔۔۔۔
طرح میری شادی کو تین چار ماہ گزر گئے اور ان تین چار ماہ کے دوران میری پیاسی چوت نے اپنے اندر رُکا ہوا سارا پانی گرا دیا ۔ ۔۔لیکن پھر بھی ایک تشنگی ۔۔۔۔ ایک پیاس ۔۔مزید لن کے لیئے میری چوت کی تراس۔۔ ہمیشہ ہی برقرار رہتی تھی۔۔۔۔ جہاں تک عدنان کو پسند کرنے کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں ابھی تک میری رائے ویسے کی ویسی تھی لیکن جہاں تک اس کے ساتھ میرے سیکس کا تعلق تھا تو جیسے کہ آپ لوگ جانتے ہی ہیں کہ میری پھدی کسی بھی لن کے لیئے ہر وقت۔۔ اپنا منہ کھولے تیار رہتی ہے۔۔
یہ شادی کے پانچویں یا چھٹے ماہ کی بات ہے اس وقت تک ہمارا سیکس کچھ معمول پر آ گیا تھا بلکہ اب تو کبھی کبھار اس میں ناغہ بھی ہو جاتا تھا جو کہ ظاہر ہے مجھے بہت کھلتا تھا ۔کہ میں چوت میں لن کا ناغہ برداشت نہیں کر سکتی تھی ۔۔ اسی پیریڈ کی بات ہے کہ ۔۔۔ میری چھٹی حس نے مجھے اپنے چھوٹے ماموں کے بارے میں سگنل دینے شروع کر دیئے ۔۔۔۔اور اس دوران میں نے محسوس کیا کہ وہ مجھے بھانجھی کے علاوہ بھی کسی اور نظروں سے دیکھتے ہیں پہلے تو میں نے اس بات پر غور نہیں کیا لیکن پھر ۔۔۔جب انہوں نے تواتر کے ساتھ ۔۔۔۔۔ کچھ حرکات کرنا شروع کردیں ۔۔۔ تو میرے اندر بھی کچھ کچھ ہونے لگا۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ یہاں ۔۔ میں ایک مزے کی بات آپ سے شئیر کرنا چاہوں گی کہ جس سے آپ کو ماموں کی نیت کا اندازہ ہو جائے گا۔۔۔ اور وہ یہ کہ ماموں ہر روز کام پر جانے سے پہلے ہمارے گھر آتے تھے اور یہ عموماً وقت وہ ہوتا تھا کہ جب میرے میاں ( عدنان) اپنے کام پر چلے گئے ہوتے تھے اور اکثر خالہ جان گھر پر نہ ہوتی تھیں اور عام طور پر وہ بازار سے دوپہر کے کھانے کا سامان لینے گئی ہوتیں تھیں ۔۔۔اس وقت میں اور گڈی باجی ۔۔۔گھر پر اکیلی ہوتی تھیں ۔۔۔۔۔ تو میں کہہ رہی تھی کہ جب ماموں ہمارے گھر آتے تو رواج کے مطابق میں ان کے سامنے اپنا سر کر دیا کرتی تھی جس پر وہ ہاتھ پھیر کے مجھے دعا دیتے تھے ۔۔۔ لیکن پچھلے کچھ دنوں سے میں نوٹ کر رہی تھی کہ سر پر پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے اکثر اوقات وہ مجھے اپنے ساتھ لگا لیا کرتے ہیں ۔۔۔ کچھ عرصہ تک تو میں اسے ان کے پیار کرنے کی ادا ہی سمجھ رہی تھی
۔۔۔۔ لیکن پھر میں نے دیکھا کہ میری طرف سے کوئی احتجاج۔۔۔۔۔۔۔ یا ری ایکشن نہ پا کر وہ مزید شیر ہو گئے تھے۔۔۔۔اور اب انہوں نے مجھے اپنے گلے کے ساتھ لگا کر خاص کر میرے سینے کو اپنے ساتھ ہکا سا دبانا بھی شروع کر د یا تھا ۔۔۔۔۔ اس کے ساتھ ساتھ ماموں نے ایک اور حرکت بھی شروع کر دی تھی ۔۔۔اوہ ۔۔سوری پہلے میں آپ کو ماموں کی روٹین بتا دوں ۔۔۔جیسے ہی ماموں ہمارے گھر میں داخل ہوتے ۔۔۔تو وہ بلند آواز سے کہتے او گڈیئے جلدی سے چائے بناؤ ۔۔ اور بہ قول ان کے ان کو صرف گڈی باجی کے ہاتھوں سے بنی ہوئی چائے کا ہی مزہ آتا تھ ا ۔۔ ان کی بات سن کر گڈی باجی تو فورا ً ہی ان کے لیئے چائے بنانے کچن میں گھس جاتی تھی جبکہ پیچھے میں اور وہ اکیلے رہ جاتے تھے اور حسبِ معمول میں پیار لینے کے لیئے ان کے آگے اپنا سر کرتی تو وہ مجھے اپنے گلے سے لگا کر میرے سخ ت مموں کو تھوڑا دبایا کرتے تھے۔۔۔ اس کے بعد وہ برآمدے میں بیٹھ جاتے اور جیب سے سگریٹ نکال کر کہتے کہ جاؤ کچن سے ماچس لے کر آؤ۔۔ اور جب میں کچن سے ماچس لے کر آتی تو وہ مجھے اپنے پاس بٹھا لیتے تھے ۔۔۔۔۔اور پھر مارون گولڈ سگریٹ کی ڈبی سے وہ ایک سگریٹ نکالتے تھے اور پھر میرے ہاتھ سے ماچس پکڑ کر میری طرف دیکھتے ہوئے اس سگریٹ کو اپنی زبان نکال کر اس پر پھیرا کرتے تھے ۔۔۔اور جب میں ان سے پوچھتی تھی کہ ماموں آپ سگریٹ کو چاٹتے کیوں ہو؟ تو وہ میری طرف دیکھ کر بڑے ہی معنی خیز انداز میں کہتے وہ اس لیئے صبو پتر ۔۔۔ کہ مجھے چاٹنا بہت اچھا لگتا ہے۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی بڑی گہری نظروں سے میری طرف دیکھا کرتے تھے۔۔۔ پہلے پہلے تو میں ۔۔ان کے چاٹنے کا مطلب نہیں سمجھی ۔۔۔۔۔ پھر جب غور کیا ۔۔۔۔تو مجھے سب سمجھ آ گئی۔۔۔اور آہستہ آہستہ میں بھی ان کی باتوں ۔۔۔۔۔اور حرکتوں کو انجوائے کرنے لگی۔۔۔
پھر ایک دن کی بات ہے کہ تب تک میں ماموں کی ہر ادا کو اچھی طرح سے سمجھ چکی تھی ۔۔۔۔ چنانچہ اس دن عدنان کے جانے کے فوراً بعد میں نہائی اور ۔۔پھر ۔۔۔ جان بوجھ کر نیچے برا نہیں پہنی۔۔۔۔ اور ایک پتلی سی قیمض پہن کر باہر آ گئی۔۔۔ کہ جس میں سے میری سخت چھاتیاں صاف چھپتی بھی نہیں ۔۔۔اور سامنے آتی بھی نہیں۔۔۔ والے حساب میں تھیں ۔۔۔قمیض کے اوپر میں نے موٹی سے کالی چادر لے لی تا کہ گڈی باجی یا اگر خالہ وہاں موجود ہوں تو ان کو پتہ نہ چلے کہ میں نے اپنی چادر کے نیچے ۔۔۔۔ پتلی سی قمیض ۔۔۔اور قمیض کے نیچے کچھ بھی نہیں پہنا ہوا ۔۔۔۔چنانچہ وہی ہوا۔۔۔ جیسے ہی ماموں گھر میں داخل ہوئے ان کی آواز سن کر گڈی باجی ان کے لیئے چائے بنانے کے لیئے کچن میں چلی گئی ۔۔۔ جبکہ اس وقت خالہ جان دوپہر کے کھانے کے لیئے سبزی لینے باہر جا رہیں تھیں۔۔۔ میں نے ان کے جانے کا انتظار کیا اور جیسے ہی خالہ نے اپنا قدم گھر سے باہر رکھا میں اپنے کمرے سے باہر نکلی اور سیدھی ماموں کے پاس جا کھڑی ہوئی۔۔۔ اور پھر ان سے پیار لینے کے لیئے جیسے ہی سر جھکایا ۔۔۔تو عین اسی وقت کسی طرح میری چادر نیچے گر گئی ۔۔اور ماموں نے پیار دیتے ہوئے جیسے ہی مجھے اپنے گلے سے لگایا ۔۔۔ تو تقریباً میری ننگی چھاتیاں ان کے سینے کے ساتھ ٹچ ہوئیں ۔۔۔ اور جیسے ہی میری آدھ ننگی چھاتیوں نے ماموں کے فراخ سینے کو چھوا۔۔۔۔ماموں ان کا لمس پا کر ایک دم سے بدک گئے۔۔۔اور تھوڑا پیچھے ہٹ کر میری طرف دیکھنے لگے۔۔۔ جیسے ہی ماموں پیچھے ہٹے ۔۔۔ میں بڑے اطمینان سے نیچے جھکی ۔۔۔اور اپنی چادر اُٹھا کر اپنے سینے پر ڈھک دی۔۔۔ جیسے ہی میں چادر لینے کے لیئے نیچے فرش پر جھکی۔۔۔۔ تو میری کھلی قمیض کے گلے سے میری آدھ ننگی چھاتیاں کو دیکھ کر ماموں کا اوپر کا سانس اوپر ۔۔۔اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔۔۔ یہ سارا ایکٹ صرف چند سیکنڈ کا تھا۔۔۔۔۔ لیکن مجھے معلوم تھا کہ ان چند سیکنڈوں نے چھوٹے ماموں کے دل پر خنجر چلا دیا ہو گا۔۔۔۔
پھر جیسے ہی میں نے چادر سے اپنے سینے کو ڈھکا تو دیکھا کہ اس وقت تک چھوٹے ماموں ہونقوں کی طرح منہ کھولے میری طرف دیکھ رہے تھے ۔۔۔ یہ دیکھ کر میں سمجھ گئی کہ میرا تیر نشانے پر لگ گیا ہے۔۔۔ چنانچہ میں ماموں سے بولی ماموں۔۔۔ آپ بیٹھو میں آپ کے لیئے ماچس لے کر آتی ہوں ۔۔۔۔ماموں نے میری بات سنی اور سر ہلا کر سامنے بچھی چارپائی پر بیٹھ گئے۔۔۔ اسی چارپائی پر جو روزانہ ہی ان کے لیئے بچھائی جاتی تھی۔۔۔۔ اس کے بعد میں کچن سے ماچس لے کر آئی تو دیکھا کہ ماموں چارپائی پر بیٹھے کسی گہری سوچ میں گم تھے۔۔۔ انہیں یوں گم دیکھ کر میں نے ان سے کہا کہ ماموں سگریٹ تو نکالو ۔۔ مییر بات سن کر ماموں نے جلدی سے اپنی جیب سے مارون گولڈ کی ڈبی نکالی ۔۔اور اس میں سے سگریٹ نکال کر اپنے منہ میں داب لیا۔۔۔ اس پر میں نے ماموں سے کہا کہ ۔۔ کیا بات ہے ماموں آج آپ نے سگریٹ کو گیلا نہیں گیا۔۔۔۔ تو میری بات سن کر انہوں ایک نظر میری طرف دیکھا اور کہنے لگے۔۔۔ آج موڈ نہیں بن رہا ۔۔تب میں آگے بڑھی اور ان کے منہ سے سگریٹ نکال لیا۔۔۔اور ماموں کو مخاطب کرتے ہوئے کہنے لگی ۔۔۔۔ لاؤ ماموں آج اسے میں گیلا کر دیتی ہوں۔۔۔۔یہ کہہ کر میں نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے سگریٹ کےفلٹر والے حصے کو اپنی انگلیوں میں پکڑا اور۔۔۔ ماموں کی آنکھوں میں آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی ۔۔۔ ماموں آپ سگریٹ کو زبان سے گیلا کرتے ہیں ۔۔۔
جبکہ مجھے تو اسے اپنے منہ سے گیلا کرنے کا مزہ آتا ہے۔۔ اس کے ساتھ ہی میں نے اپنے زہن میں ماموں کے لن کا تصور کیا۔۔۔اورپھر بڑی مستی سے اپنے ہونٹوں کو کھول کر ماموں کا سگریٹ اپنے منہ میں لے لیا ۔۔۔اور پھر پہلے تو اسے لن کی طرح اپنے منہ کے اندر باہر کیا ۔۔۔۔۔ پھر ان کے سگریٹ کو اپنے منہ سےباہر نکالا ۔۔اور جیسے لن کو چاروں طرف سے چاٹتے ہیں ۔۔۔۔ ویسے ہی ان کے سگریٹ کو چاروں طرف سے چاٹ کر گیلا ۔۔۔ کر دیا ۔۔اور پھر ماموں کی طرف بڑھاتے ہوئے بڑے ہی زُومعنی الفاظ میں بولی۔۔۔ ۔۔۔ ماموں جی آپ کا سگریٹ کافی پتلا ۔۔۔اور چھوٹا ہے۔۔۔۔ یہ اگر تھوڑا ۔۔اور موٹا ۔۔۔اور بڑا ہوتا تو اسے گیلا ۔۔ کرنے کا صواد آ جاتا۔۔۔ یہ کہہ کر میں نے ماموں کے ہاتھ میں سگریٹ پکڑا دیا۔۔۔ اور اس سے پہلے کہ ماموں میری حرکت یا بات کا کوئی جواب دیتے ۔۔۔اتنے میں گڈی باجی چائے لیکر کر ہمارے پاس آ گئ اور ۔۔۔ ماموں کے سامنے تپائی پر چائے رکھ دی۔۔۔۔ اس دن پہلی دفعہ ماموں نے بڑی خاموشی سے چائے پی۔۔۔ اور پھر گڈی باجی اور میرا شکریہ ادا کرتے ہوئے اپنے کام پر چلے گئے۔۔۔
اسی طرح ایک اور دن کا واقعہ ہے کہ اس دن ہفتہ وار چھٹی کی وجہ سے عدنان بھی گھر پر ہی تھے۔۔۔ کہ ماموں اپنی بیگم کو لے کر ہمارے گھر آ گئے۔۔اتفاق ایسا تھا کہ اس دن ۔۔ میں کچن میں کام کر رہی تھی ۔۔۔اور میرے ساتھ عدنان بھی کھڑے تھےکہ اچانک ماموں کچن میں داخل ہو گئے اور میرے پاس آ کر مجھ سے پوچھنے لگے کہ آج کیا پکا رہی ہو؟ ۔۔۔ تو میں نے ان سے کہا کہ ماموں آلو گوشت چڑھایا ہے۔۔اسی اثنا میں عدنان باہر جانے کے لیئے نکلے تو ان کے پیچھے پیچھے میں اور ماموں بھی کچن سے نکلنے لگے حسنِ اتفاق سے عدنان آگے جبکہ میں ان کے پیچھے اور میرے پیچھے ماموں تھے جیسے ہی عدنان کچن کا دروازہ کراس کرنے لگے تو آگے سے خالہ اندر آتے ہوئے دکھائی دیں ۔۔۔ جسے دیکھ کر عدنان نے بریک لگائی۔۔۔۔۔ اور عدنان کی بریک دیکھ کر میں نے موقعہ غنیمت جانا اور میں بھی رک گئی۔۔۔ لیکن رکنے سے پہلے میں نے اپنی گانڈ کو تھوڑا پیچھے کی طرف کھسکا لیا ۔۔۔اور جان بوجھ کر اپنی گانڈ کو ماموں کے اگلے حصہ کی طرف جوڑ دیا۔۔۔ماموں نے بھی دیر نہیں لگائی اور اپنے لن کو میری بیک کے ساتھ جوڑ دیا۔۔۔۔۔ اورپھر۔۔۔ واضع طور پر میں نے ماموں کا ادھ مویا سا لن اپنی گانڈ کے کریک میں فیل کیا۔۔۔ ماموں کے لن کو اپنی گانڈ کے کریک میں محسوس کرتے ہی میں نے برش کی طرح اپنی گانڈ کو ان کے لن پر رگڑا۔۔۔اور تھوڑا اور پیچھے ہوگئی۔۔۔۔ جس سے ماموں کا لن میری گانڈ کے ساتھ بلکل جُڑ سا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ سارا کھیل بھی چند ہی سیکنڈ کا تھا۔۔۔ لیکن۔۔۔۔ مجھے ماموں کو ٹیز /تنگ کر کے بڑا مزہ آیا۔۔۔۔ اور پھر اس کے بعد میں نے اپنا معمول بنا لیا کہ ہر روز میں بنا برا والی آدھ ننگی چھاتیاں ماموں کے ساتھ گلے لگتے ہوئے رگڑتی تھی۔۔۔ او ر پھر اسی طرح ان سے سگریٹ لیکر کر چوپے کے انداز میں اسے گیلا کرتی تھی۔۔۔۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ میں نے ماموں کو تنگ کرنے میں کوئی کسر نہیں اُٹھا رکھی تھی۔۔۔۔ لیکن پتہ نہیں کیا بات تھی کہ میرے اتنے بولڈ سٹیپس لینے کے باوجود ابھی تک ماموں میرے ساتھ کہانی نہیں ڈال رہے تھے۔۔۔۔۔۔جبکہ دوسری طرف میں اس انتظار میں تھی کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے اپنی شہوت کے ہاتھوں مجبور ہو کر اشاروں اشاروں میں ماموں کو اپنی چوت دینے پر آمدگی تو ظاہر کر دی تھی ۔۔۔جبکہ اس دوران ایک اور بات کو میں نے بڑے شدت کے ساتھ محسوس کیا تھا ۔۔۔ اور وہ ۔۔۔ عاصمہ یعنی کہ میری نند جس کو کہ سب پیار سی گُڈی کہتے تھے اور چھوٹے ماموں کے بیچ میں بے تکلفی۔۔۔۔ ویسے تو ماموں کا رشتہ کچھ ایسا ہوتا ہے کہ خواں مخواہ ہی اس کے ساتھ بھانجھے بھانجیوں کی بے تکلفی ہو جا تی ہے لیکن ۔۔۔ چونکہ میں خود بھی ایک شہوت ذادی ہوں ۔۔۔ اس لیئے میری تجربہ کار نظروں نے جلد ہی اس بات کو محسوس کر لیا کہ گُڈی باجی اور ماموں کے بیچ میں ۔۔۔ ماموں بھانجی کے علاوہ۔۔۔۔اور بھی کچھ چل رہا ہے۔۔چونکہ ماموں کا گھر ہمارے گھر سے کچھ ہی فاصلے پر تھا ۔۔۔۔اور جیسا کہ آپ کو معلوم ہی ہے کہ ماموں کی پکی روٹین تھی کہ وہ صبع صبع ہمارے گھر آتے اور دروازے سے ہی شور مچانا شروع کر دیتے تھے کہ او گڈیئے جلدی سے میرے لیئے چائے بنا ۔۔۔۔
اور اس کے ساتھ ہی اکثر کہا کرتے تھے کہ صبع کے وقت جب تک میں گڈی کے ہاتھ کی چائے نہ پی لوں مجھے کام پہ جانے کا مزہ ہی نہیں ملتا ۔۔۔۔ اسی طرح وہ شام کو بھی کام سے فارغ ہو کر ہمارے گھر ضرور آتے اور گڈی کے ہاتھوں کی چائے پی کر جاتے تھے۔۔۔۔لیکن میری چھٹی حس یہ بتا تی تھی کہ میرے ساتھ ساتھ ماموں ۔۔۔ گڈی سے صرف چائے ہی نہیں پیتے ۔۔بلکہ۔۔۔ میرے برعکس گڈی باجی ان کے قابو میں تھی ۔۔۔ پھر ماموں کو لفٹ کرانے کے ساتھ ساتھ میں نے چوری چوری گڈی اور ماموں کی رکھوالی کرنی بھی شروع کر دی تھی۔۔۔۔۔پھر ایک دن کی بات ہے کہ میں ابھی نہا کر واش روم سے نکلی ہی تھی کہ دروزے کی طرف سے مجھے ماموں کی آواز سنائی دی ۔ گڈیئے نی۔۔گڈیئے۔۔ماموں کی آواز سن کر میں جلدی سے اپنی کھڑکی میں کھڑی ہو گئی۔۔۔۔اور باہر کا نظارہ دیکھنے لگی۔۔۔۔۔ میرے دیکھتے ہی دیکھتے ماموں کچن کی طرف گئے ۔۔ اور اندر جھانک کر دیکھا تو وہاں گڈی باجی کو نہ پا کر کچن سے باہر آ گئے۔۔۔۔۔ جیسے ہی ماموں کچن سے باہر آئے۔۔۔ عین اسی لمحے گڈی باجی کچن میں داخل ہو رہی تھی ۔۔اور ۔۔۔اسی دوران ۔۔ان دونوں کا ٹاکرا ہو گیا۔۔۔۔ اور پھر میرے دیکھتے ہی دیکھتے ماموں نے اپنے بازو کی کہنی کی مدد سے گڈی باجی کی چھاتیوں کو دبایا ۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی ان دونوں نے ایک نظر باہر کی طرف دیکھا ۔۔۔۔ اور پھر وہاں کسی کو نہ پا کر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ماموں نے گڈی باجی کی طرف دیکھا ۔۔۔ اور پھر اس کو ہاتھ سے پکڑ کر۔۔۔انہیں اپنی طرف کھینچ لیا ۔۔۔۔ جس سے گڈی باجی اور ماموں آپس میں گلے مل گئے۔۔۔ کچھ دیر جپھی لگانے کے بعد ماموں نے اپنے ہونٹوں کو گڈی باجی کے ہونٹوں پر رکھا ۔۔اور گڈو باجی کی ایک ہلکی سی چومی لےلی ۔۔۔ یہ دیکھ کر گڈی باجی نے بھی اپنی زبان باہر نکالی اور ماموں کی زبان سے اپنی زبان کو ٹچ کر کے اپنی زبان واپس کھینچ لی ۔۔اور اسکے بعد ایک بار پھر سے دونوں نے ایک نظر پیچھے کی دیکھا ۔۔۔۔۔ اور پھر گلے ملتے ملتے ۔۔۔گڈی باجی نے ماموں کے لن کو پکڑ کر اپنی پھدی پر لگایا ۔اور اس کے ساتھ ہی وہ دونوں ایک دوسرے سے الگ ہو گئے۔۔۔۔ ان دونوں نے یہ کام اتنی پھرتی اور تیزی سے کیا کہ اگر میں خاص طور پر ان کی رکھوالی نہ کر رہی ہوتی تو میں ماموں بھانجی کے بیچ میں کیئے گئے اس سین کو کبھی بھی نہ سمجھ پاتی۔۔۔ ۔۔۔۔۔ یہ لو سین دیکھنے کے بعد پہلے تو مجھے صرف شک تھا اب پکا یقین ہو گیا کہ گڈی اور ماموں کے بیچ میں شہوت کا رشتہ موجود ہے ۔۔۔۔
ادھر سے کنفرم ہونے کے بعد اب میں یہ سوچ رہی تھی کہ جب گڈی باجی پہلے سے ہی ان کے قبضے تھی تو پھر ماموں مجھ پر کیوں اپنا جال پھینک رہے تھے۔۔۔۔؟ یہ شاید ان کی ہوس تھی یا کوئی چال؟ ابھی تک مجھے سمجھ نہ آ سکا تھا۔۔۔۔۔جیسے ہی ماموں گڈی باجی سے الگ ہو کر چارپائی پر بیٹھے تو اتنے میں۔۔۔ میں اپنے کمرے سے باہر چلی گئی۔۔۔۔ اور ماموں کے ساتھ پیار کے بہانے گلے ملی۔۔۔۔۔ پھر جیسے ہی میں نے ان سے سگریٹ طلب کی تو وہ اُٹھ کھڑے ہوئے ۔۔۔اور کہنے لگے ۔۔ صبو کیوں نہ آج تمہیں میں ایک بڑا اور موٹا سگریٹ گیلا کرنے کو دوں ؟؟؟۔۔۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنے تہ بند کی طرف ہاتھ بڑھایا تو میں نے ان کو روکتے ہوئے کہا۔۔۔ کیا کر رہے ہو ماموں۔۔۔ گڈی باجی آ جائے گی۔۔۔تو وہ دھوتی سے اپنا لن نکالتے ہوئے کہنے لگے۔۔۔ اس کی تم فکر نہ کرو۔۔۔۔ تو میں نے ان سے کہا ۔۔۔ کیسے فکر نہ کروں آپ کو معلوم تو ہے نہ کہ وہ میری نند ہے۔۔۔ اور اگر اس نے آپ کو میرے ساتھ اس حالت میں دیکھ لیا۔۔۔ مجھے تو طلاق پکی ہی سمجھو۔۔۔۔ میری بات سن کر ماموں بڑے جوش سے کہنے لگے۔۔۔۔ میں نے کہا نا ۔۔۔ کہ گڈی ایسا کبھی بھی نہیں کرے گی۔۔۔ تب میں ماموں کی طرف جھکی اوران کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہنے لگی۔۔۔آپ ایسا کیسے کہہ سکتے ہیں؟؟ ۔۔۔۔میری بات سن کر ماموں گڑبڑا سے گئے ا ور آئیں بائیں ۔۔شائیں کرنے لگے۔۔۔۔تب میں نے بغیر کسی لگی لپٹی کے ماموں سے کہا۔۔۔۔ دیکھو ماموں ۔۔۔ اگر آپ نے مجھے حاصل کرنا ہے تو پہلے میرے سامنے گڈی کے ساتھ کچھ کرنا پڑے گا۔۔۔ ورنہ۔۔۔۔۔ میری طرف سے جواب ہے۔۔۔میری بات سن کرماموں سوچ میں پڑ گئے اور کہنے لگے ۔۔ٹھیک ہے مجھے تمہاری شرط منظور ہے لیکن اس کے لیئے مجھے تھوڑی سی مہلت دو۔۔۔ تو میں نے ان سے کہا ۔۔۔ میری طرف سے آپ کو مہلت ہی مہلت ہے اور اس کے ساتھ ہی ہم دونوں خاموش ہو کر اپنے اپنے خیالوں میں کھو گئے ۔۔۔
یہ اس کے ایک ہفتہ بعد کی بات ہے کہ صبع کے وقت میں اور ماموں بیٹھے گپ شپ کر رہے تھے کہ اسی دوران ماموں نے میری طرف دیکھا اور کہنے لگے۔۔۔ دیکھتی رہنا صبو ۔۔میں آج تمہاری شرط کو پورا کر رہا ہوں۔۔۔ تو میں نے جان بوجھ کر انجان بنتے ہوئے ان سے کہا کہ کیسی شرط ماموں ؟ تو وہ کہنے لگے۔۔۔گڈی کے ساتھ کرنے والی ۔۔ پھر میری طرف دیکھا ۔۔اور بولے صبو ۔۔۔۔ تیرے سامنے گڈی کو صرف اوپن کروں گا ۔۔۔لیکن کرنا تم کو ہے بولا منظور ہے؟ تو ۔۔۔ میں نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔۔ منظور ہے۔۔۔۔۔تب ماموں نے اپنی ہوس بھری نظریں۔۔۔ میرے سراپے پر نظریں جمائے کہنے لگے۔۔۔۔۔ میرے لیے تیار رہنا ۔۔اور میں نے ہاں میں سر ہلا دیا۔
جبکہ دوسری طرف حسبِ معمول گڈی باجی ماموں کے لیئے چائے بنا کر لائی۔۔۔ ماموں نے چائے پی ۔۔۔اور گڈی باجی کی طرف دیکھ کر کہنے لگے پتہ نہیں کیوں ۔۔ٹانگوں میں بڑا درد ہو رہا ہے ۔۔۔گڈیئے زرا میری ٹانگوں کو تو دبا دو۔۔۔۔ ماموں کی بات سن کر گڈی باجی نے ایک نظر میری طرف دیکھا اور کہنے لگی۔۔۔۔۔ اچھا ماموں میں دبا دیتی ہوں اور پھر وہ ماموں کے سامنے زمین پر بیٹھ گئی ۔۔۔ جبکہ اس وقت ماموں چارپائی پر اپنی ٹانگیں لمکا ئے بیٹھے تھے۔۔۔۔ پھر میرے دیکھتے ہی دیکھتے گڈی باجی نے ماموں کی دائیں ٹانگ کو پکڑا ۔۔۔اور اس کو دباتے ہوئے بولی۔۔۔ کج سکون ملیا؟ (کچھ سکون ملا) تو ماموں اپنی ٹانگوں کو تھوڑا اور نیچے کرتے ہوئے بولے۔۔ہان کجُ کُج مل تے ریئے اے( ہاں کچھ کچھ مل تو رہا ہے)۔۔۔ پھر انہوں نے اپنے تہمند کے پلو کو ایک طرف کیا اور اپنی ٹانگ کو ننگا کرتے ہوئے گڈی باجی سے بولے تھوڑا ہور اُتے ول آ۔۔۔( تھوڑا اور اوپر کی طرف آؤ) ماموں کی بات سن کر گڈی باجی کے ہاتھ۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کی ران پر پہنچ گئے اور ان کو دباتے ہوئے بولی بس۔۔۔ تو ماموں اس سے کہنے لگے۔۔۔ نہیں تھوڑا ۔۔۔ہور اُتے آ۔۔( نہیں تھوڑا اور اوپر آؤ) اور گڈی باجی کی طرح میں نے بھی دیکھا کہ ماموں کی دھوتی سے ان کا لن سر اُٹھا رہا تھا۔۔۔۔جبکہ گڈی باجی ان کی ران کےاوپر اوپر ہاتھ چلا رہی تھی ۔۔۔ یہ دیکھ کر ماموں کہنے لگے۔۔۔ تھوڑا ہور اُتے آ۔۔۔(تھوڑا اور اوپر آؤ) تو گڈی باجی کہنے لگی ۔۔۔ نہیں ماموں ہور اتے نہیں آنا ۔۔۔تو ماموں کہنے لگے وہ کیوں؟
تو گڈی باجی میری طرف دیکھتے ہوئے مسکرائی اور کہنے لگے۔۔۔ نا بابا ۔۔۔ آگے کالا ناگ پھن پھیلائے کھڑا ہے۔۔۔ تو ماموں اس سے کہنے لگے ۔۔۔ اخاں ہو جا تینوں کالا ناگ کج نہیں کہندا۔۔۔۔( تو آگے چل کالا ناگ تمہیں کچھ نہیں کہتا) ماموں کی یہ بات سن کر میرے ساتھ ساتھ گڈی باجی کا بھی رنگ سرخ ہو گیا۔۔۔۔ اور وہ اپنے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔۔ماما ۔۔ جیویں کالے ناگ دا ڈسیا پانی نئیں منگا ۔۔۔اویں تیرے ناگ د ا ڈسیا ۔۔۔ بار بار انیوں منگا دا اے ( ماموں جیسے کالے ناگ کا ڈسا ہوا پانی نہیں مانگتا ویسے ہی تمہارے ناگ کا ڈسا ہوا ۔۔۔ بار بار اسی کو مانگتا ہے) گڈی باجی کی بات سن کر ماموں نے اپنی دھوتی کو مزید کھسکایا اور گڈی کی طرح میں نے بھی ماموں کے ناگ کو دیکھا اور دیکھتی ہی رہ گئی۔۔۔۔ ماموں کا لن کافی بڑا اور بہت موٹا اور کالا سیاہ تھا۔۔۔ ٹوپا اس کا کافی موٹا اور آگے سے نوک دار تھا۔۔۔۔ ماموں کے موٹے تازے لن کو دیکھ کر میری چوت نے اپنی آمدگی ظاہر کرتے ہوئے ایک قطرہ پانی کا چھوڑ دیا۔۔جو میری چوت سے ہوتا ہوا نیچے گرا ۔۔اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میری شلوار میں آ کر جزب ہو گیا۔۔۔۔
دوسری طرف ماموں گڈی باجی سے کہہ رہے تھے۔۔۔۔ چل ہن اس ناگ کو اپنے ہتھ وچ پھڑ ( میرے ناگ کو اپنے ہاتھ میں پکڑو ) یہ دیکھ کر گڈی باجی نے میری طرف دیکھا اور ماموں سے کہنے لگی ۔۔۔ اینوں وی کہ نا ( اسے بھی کہو۔۔۔) تو ماموں میری طرف دیکھ کر کہنے لگے چل صبو تو بھی نیچے آ۔۔۔ ان کی بات سن کر میں بھی نیچے آ گئی ۔۔۔اتنی دیر میں گڈی باجی نے ماموں کے لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا تھا۔۔۔اور جیسے ہی میں ا س کے ساتھ زمین پر بیٹھی۔۔۔ اس نے وہ لن میری طرف کرتے ہوئے کہا۔۔۔ چکھ کے ویکھ کیسا اے۔۔۔ تو میں نے اس سے کہا پہلے آپ چیک کرو۔۔۔ تو یہ سن کر ماموں کہنے لگے۔۔۔۔ اس نے تو ہزار دفعہ چیک کیا ہوا ہے اب تیری باری ہے۔۔۔ لیکن میں نے اصرار کر کے کہا کہ نہیں پہلے گڈی باجی چیک کرے میری بات سن کر گڈی باجی نے اپنا سر نیچے جھکایا اور ماموں کے لن کو منہ میں لیکر اسے چوسنے لگی۔۔۔ پھر کافی دیر تک چوستی رہی پھر کہنے لگی انتا بہت ہے یا اور چیک کروں ۔۔۔ گڈی باجی کی بات سن کر ماموں کہنے لگے۔۔۔ یہ اندر جاکر چیک کر لے گی۔۔۔اور پھر مجھے ہاتھ سے پکڑ کر اُٹھاتے ہوئے گڈی باجی سے کہنے لگے ۔۔۔ گڈیئے ۔۔۔ زرا باہر کا دھیان رکھنا ۔۔۔ میں صبو کے ساتھ اندر جا رہا ہوں ۔۔۔ہمیں اندر جاتا دیکھ کر گڈی باجی ہنس کر کہنے لگی ۔۔۔۔سارا ای اینوں نا دے دیں ۔۔۔کج میرے لئے وی رکھیں ( سارا۔۔لن اس کو ہی نہ دے دینا کچھ میرے لیئے بھی رکھنا)
گڈی کی بات سن کر ماموں نے اپنے اکڑے ہوئے لن پر ہاتھ مارا اور کہنے لگے۔۔۔۔ فکر نہ کر ۔۔۔ اس میں ابھی بڑا دم ہے اور ہم اندر کمرے میں داخل ہو گئے۔۔۔ کمرے میں جاتے ہی ماموں نے کنڈی لگائی اور اپنے کپڑے اتارنے لگے۔۔۔ ان کی دیکھا دیکھی میں نے بھی اپنے کپڑے اتار دیئے ۔۔۔اور ہم دونوں گڈی باجی کے پلنگ پر بیٹھ گئے۔۔ پھر ماموں نے مجھے نیچے لیٹنے کو کہا ۔۔۔اور جیسے ہی میں پلنگ پر لیٹی ماموں نے میری دونوں ٹانگیں اُٹھائیں اور میری پھدی کو نمایاں کرتے ہوئے اس پر اپنی زبان رکھ دی۔۔۔۔۔ اور پھر اپنی زبان کو میرے دانے پر ٹچ کرتے ہوئے بولے۔۔۔ تمہیں کہا تھا نا کہ مجھے چاٹنے کا بہت شوق ہے۔۔۔ اور پھر اس کے ساتھ ہی ماموں نے میری پھدی پر اپنی زبان رکھی اور اسے چاٹنا شروع ہو گئے ۔۔۔اس کے ساتھ ساتھ کبھی کبھی وہ میرے دانے کو بھی اپنے منہ میں لیکر چوسنے لگ جاتے۔۔ ماموں کے اس طرح پھدی چاٹنے سے میں تو باؤلی سی ہو گئی ۔۔اور میرے منہ سے عجیب عجیب آوازیں نکلنا شروع ہو گئیں۔۔ جیسے۔۔۔اوہ۔۔۔آہ۔۔۔اُف۔۔۔۔۔ ہائے ماما۔۔۔ہوں۔ں ں ں ۔۔۔ اور ۔۔۔اس کے ساتھ ساتھ میری پھدی نے لیس دار پانی چھوڑنا بھی شروع کر دیا۔۔۔۔ جسے ماموں بے دریغ پیتے گئے ۔اور میں ماموں کی زبان کے نیچے تڑپتی رہی ۔۔۔۔۔۔۔اور پھر جیسا کہ ماموں نے کہا تھا واقعی انہوں نے بڑے شوق ۔۔۔اور بہت ہی مستی سے میری چوت کو چاٹا ۔۔اور ایسا چاٹا کہ میری پھدی نے کم از کم دو دفعہ پانی چھو ڑ ا تھا ۔۔۔۔۔
پھر ماموں اوپر اُٹھے اور اپنے لن کو لہراتے ہوئے کہنے لگے۔۔۔۔۔ صبو تجھے موٹے اور لمبے سگریٹ کی تمنا تھی نا ۔۔۔تو اس سے موٹا اور لمبا سگریٹ تم کو اور کہیں نہیں ملے گا۔۔۔ یہ کہتے ہی انہوں نے مجھے پلنگ سے اُٹھنے کا کہا۔۔اور جب میں اُٹھ کر بیٹھی تو انہوں نے اپنا موٹا سا لن میرے منہ میں ڈال دیا۔۔۔۔جس وقت میں نے ماموں کے لن کو اپنے منہ میں لیا تو اس وقت ان کے ٹوپے کے سوراخ سے ہلکا ہلکا پانی ٹپک رہا تھا۔۔۔ جسے میں چاٹ اور چوس کر جتنا صاف کرتی وہ اتنا ہی ۔۔۔۔۔۔۔ باہر کی طرف رستا جاتا۔۔۔ آخر ان کے مزیدار ۔۔نمکین پانی کے موٹے موٹے قطروں کو میں نے پینا شروع کر دیا۔۔۔۔۔۔ میرے لن چوسنے سے دوسری طرف ماموں بھی میر ی طرح ۔۔۔ باؤلے سے ہو کر سسکیاں بھرتے جا رہے تھے۔۔۔ ان کے منہ سے کبھی یہ نکلتا ۔۔۔۔آہ ۔۔۔لن پورا ڈال۔۔۔ ساری مزی نگھل جا۔۔۔۔ چوس میرے لن کو چو س س س۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سس۔۔۔
پھر کچھ دیر کے بعد ماموں نے میرے منہ سے لن کو نکالا اور مجھے گھوڑی بننے کو کہا۔۔۔اور جیسے ہی میں گھوڑی بنی۔۔۔۔انہوں نے پیچھے سے اپنے موٹے تازے لن کو میرے اندر ڈال دیا۔۔۔ اور گھسے پہ گھسہ مارنے لگا۔۔۔۔وہ گھسہ بھی مارتے اور منہ سے بھی کہتے جاتے کہ تیری پھدی بڑی ٹائیٹ ہے صبو۔۔۔اور ان کی بات سن کر میں کہتی آپ کا لن بھی بہت جاندار ہے ماموں ۔۔۔اور پھر ۔۔۔۔۔ایسے ہی مست انداز میں چودتے چودتے ۔۔۔۔اچانک ہی ماموں چلانے لگے۔۔۔ص۔صبو۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی ماموں کے گھسے مارنے کی رفتار تیز سے تیز تر ہوتی چلی گئی۔۔۔اور اتنے شدید گھسوں کی تاب نہ لا کر میری چوت نے بھی ہار مان لی اور ۔۔۔۔ ماموں کی طرح اب میں بھی چلاتے ہوئے کہہ رہی تھی کہ۔۔۔۔۔۔۔۔ماما ۔۔۔اور تیز۔ز۔ز۔ز۔ز۔ز۔ز۔ز۔ز۔۔۔اور تیززززززززز۔۔اور اسی تیزی تیزی میں ۔۔آخر ماموں اور میں نے اکھٹے ہی ایک خوشی بھری چیخ ماری ۔۔۔۔اور پھر مجھے ایسا لگا کہ جیسے میری پھدی میں منی کا سیلاب آ گیا ہو۔۔۔ میری تنگ پھدی میں پھنسا ماموں کا لن ۔۔۔۔۔۔اپنی منی کو فوارے چھوڑتا جا رہا تھا ۔۔۔ ۔۔۔ چھوڑتا جا رہا تھا ۔۔۔ چھو۔۔۔۔ڑ۔۔تا۔۔۔جا رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماموں سے فراغت کے بعد میں نے اپنے آپ کو درست کیا اور کپڑے پہن کر ۔۔۔ کمرے سے باہر نکلنے سے پہلے میں نے ایک نظر ماموں پر ڈالی تو وہ ویسے کے ویسے ہی ننگے لیٹے ہوئے تھے ان کا نیم جان لن ہم دونوں کی مشترکہ منی سے لتھڑا ہوا کھڑا تھا ۔۔اور وہ اسے صاف کرنے کی بجائے بڑی بے فکری سے لیٹے ہوئے سگریٹ پی رہے تھے یہ دیکھ کر میں نے ان سے کہا ۔۔۔ ماموں ۔۔ میرے بعد گڈی باجی آنے والی ہے ۔۔۔آپ اس ( لن ) کو صاف نہیں کرو گے؟ میری بات سن کر ماموں بڑی بے نیازی کے ساتھ مسکرائے اور کہنے لگے۔۔۔۔۔۔۔ تم جاؤ ۔۔گڈی آ کے یہ سب خود ہی کر دے گی ۔۔اس پر میں نے شرارت سے کہا کہ اگر گڈی باجی نے بھی آپ کے اس (لن) پر لگے اتنے زیادہ ملبے کو صاف نہ کیا تو؟ ۔۔۔میری بات سنتے ہی ماموں نے اپنے نیم مردہ لن کو ہاتھ میں پکڑ کر ہلاتے ہوئے کہا ۔۔۔ کہ اگر وہ اسے صاف نہیں کرے گی تو پھر میں۔۔۔ اس کو ایسے ہی اس کی چُت (چوت) میں ڈال دوں گا ۔۔ ۔۔۔ اس کے بعد اچانک ہی ماموں سیریس ہو کر مجھ سے کہنے لگے ویسے صبو ۔۔۔ تم بہت سیکسی لڑکی ہو۔اور تمہارے اندر بہت گرمی بھری ہوئی ہے اور یہ گرمی دیکھ کر میں کہہ سکتا ہوں ۔۔۔ عدنان تم کو پورا نہیں کر سکے گا۔۔ ماموں کی بات سن کر میں ان کے قریب جا کر بیٹھ گئی اور ان کے نیم جان لن کی طرف دیکھتے ہوئے بولی ۔۔۔۔ کوئی بات نہیں ماموں ۔۔۔۔اگر عدنان مجھے پورا نہ کر سکا تو آپ کر دینا ۔۔۔میری بات سن کر ماموں نے اپنا بڑا سا سر ہلایا اور سگریٹ کا کش لیتے ہوئے بولے۔۔۔ اس خدمت کے لیئے تو میں ہر وقت حاضر ہوں۔۔۔۔۔ماموں کی بات سن کر میں بھی ان کی طرف دیکھتے ہوئے مسکرائی اورپھر ان کو ٹاٹا کرتے ہوئے کمرے سے باہر آ گئی۔۔۔
جیسے ہی میں کمرے سے باہر نکلی تو دیکھا تو گڈی باجی برآمدے میں بڑی بے چینی کے ساتھ ٹہل رہی تھیں ۔۔۔ مجھے دیکھتے ہی وہ بے تابی سے میری طرف بڑھیں ۔۔۔اور پھر بڑے ہی سیکسی موڈ میں اپنے ہاتھ سے ایک نازیبا سا اشارہ کرتے ہوئے بولیں ۔۔۔ ۔۔لَے ائیں ایں ۔ مامے دا ۔۔ ( ماموں کا لن لے آئی ہو) ۔۔ تو میں نے ہاں میں سر ہلا کر ان سے کہا ۔۔۔ جاؤ ہن تہاڈی واری اے( آپ اندر جاؤ کہ اب آپ کی باری ہے) ۔۔۔ میری بات سن کر وہ تھوڑا مسکرائی اور کہنے لگی۔۔۔۔ صواد آیا سی؟ ( مزہ آیا تھا ) ۔۔۔۔ تو میں نے گڈی باجی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔ ہاں باجی مزہ تو بہت آیا تھا۔۔۔۔ میری بات سن کر گڈی باجی نے سر ہلایا ۔۔۔۔۔اور جیسے ہی ماموں کے پاس کمرے میں جانے لگیں تو میں نے شرارت سے ان کو بازو سے پکڑ لیا اور اندر جانے سے روکتے ہوئے بولی۔۔۔کھلو جا ۔۔۔۔ مامے نوں سا تے لین دے (۔۔ٹھہر جاؤ۔۔ ماموں کو تھوڑا ریسٹ تو کرنے دو) میری بات سن کر گڈی باجی مسکرائی اور کہنے لگی۔۔۔۔ میں تے مامے نوں سا لین دینی آں ۔۔۔ پر۔۔۔۔ (پھر اپنی پھدی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی) اینوں بڑی کا ہلی پیئی اے۔۔۔ مینوں ایہ نئیں ساہ لین دیندی ( میں تو ماموں کو ریسٹ کرنے دیتی ہوں ۔۔۔ لیکن میری پھدی کو لن لینے کی بڑی جلدی پڑی ہے ) اس کے ساتھ ہی گڈی باجی نے بڑی بے تکلفی کے ساتھ میرے ہاتھ کو پکڑا ۔۔۔۔اور اپنی شلوار کے اوپر سے ہی چوت پر لگا دیا۔۔۔ ۔۔۔۔جب میرے ہاتھ نے گڈی باجی کی چوت کو چھوا۔۔ تو سچ مُچ ان کی چوت والی جگہ سے شلوار گیلی ہوکر چپکی ہوئی تھی۔۔ پھر انہوں نے اپنی پھدی پر رکھے ہوئے میرے ہاتھ کو تھوڑا سا رگڑا ۔۔۔اور کہنے لگی ۔۔۔ کیوں میں ٹھیک کہہ رہی تھی نا ؟؟۔۔۔ تو میں نے اپنے ہاتھ پہ گڈی باجی کی چوت کی گرمی کو محسوس کرتے ہوئے کہا۔۔۔اندر جاؤ باجی۔۔۔میری بات سن کر گڈی باجی نے مجھے باہر کا دھیان رکھنے کی ہدایت کی اور خود کمرے میں چلی گئی ۔۔۔۔ جہاں پر ماموں میری اور اپنی منی سے لتھڑا ہوا لن لیئے اس کے منتظر تھے۔۔۔۔
اس کے بعد ہماری روٹین بن گئی تھی کہ جس دن بھی خالہ گھر پر موجود نہ ہوتیں تو میں اور گڈی باجی باری باری ماموں کے ساتھ خوب انجوائے کرتیں تھیں اس دوران ماموں نے بہت کوشش کی کہ وہ ہم دونوں کو اکھٹے چودسکیں ۔۔۔ لیکن میں اور گڈی باجی اس کام کے لیئے راضی نہ ہوئیں ۔۔۔۔ اور پہلے کی طرح باری باری ماموں کے ساتھ سیکس کرتیں رہیں ۔۔۔
ماموں کے ساتھ آئے روز کی فکنگ سے میں اور گڈی باجی آپس میں کافی فری ہو گئیں تھیں ۔۔اس لیئے اگر کبھی ایسا ہوجاتا کہ ماموں کاروبار کے سلسلہ میں کہیں باہر گئے ہوتے تو خاص کر گڈی باجی ان کو بہت مس کرتی تھی ۔۔اور اکثر اداس ہو جایا کرتی تھیں۔۔۔ ایسے میں ان کو اداس دیکھ کر ۔۔۔ میں ان کو چھیڑتی تو وہ کہتی کہ تمہارا کیا ہے یار ۔۔۔ تم کو تو لینے کے لیئے روز ہی لن مل جاتا ہے مسلہ ہم غریبوں کا ہے کہ ہم کیسے گزارا کریں ؟؟؟؟۔۔۔۔ اسی طر ح ماموں کے ساتھ سیکس کے لیئے کمرے میں آتے جاتے ہوئے اکثر اوقات ہم دونوں ہاتھ لگا کر ایک دوسرے کی پھدیوں کو بھی چیک کر لیا کرتی تھیں کہ کس کی کتنی گرم ہے۔۔ یا کمرے سے پھر واپسی پر کبھی کبھار گڈی باجی سے ہلکی پھلکی کسنگ ہو جاتی تھی لیکن نہ تو گڈی باجی نے اور نہ ہی میں نے کبھی ان کے ساتھ فُل سیکس کرنے کی کوشش کی تھی ۔۔۔ حالانکہ ہم دونوں سیکس کے معاملے ایک دوسرے کے ساتھ کافی فری ہو چکی تھیں۔۔۔
اسی طرح میری شادی کو کافی عرصہ گزر گیا ۔۔اس دوران میں اماں سے ملنے اپنے گھر آتی جاتی رہتی تھی اور اماں بھی اکثر ہی میرے پاس آیا کرتی تھیں چلتے چلتے میں ایک بات آپ سے کرنا چاہتی ہوں اور وہ یہ کہ عدنان کے بارے میں آج بھی میری رائے وہی ہے جو کہ پہلے ہوا کرتی تھی ۔۔ لیکن کیا کروں کہ خود کو حالات کے مطابق ایڈجسٹ رکنا پڑتا ہے ۔۔اور یہاں آ کر میں نے حالات کے ساتھ سمجھوتہ کر لیا تھا۔۔ ۔۔۔ ایک دن کی بات ہے کہ دوپہر کا وقت تھا میں اور گڈی باجی خالہ کے پاس بیٹھیں گپیں لگا رہیں تھیں کہ اچانک ہی شبی میرا بھائی گھر میں داخل ہوا۔۔۔ شبی کو یوں اچانک اپنے سامنے دیکھ کر میں تو کھل سی گئی اور ظاہر ہے کہ اپنے بھائی کو میں نے بڑی ہی گرم جوشی سے خوش آمدید کہا ۔۔۔۔ کھانا وغیرہ کھانے کے بعد شبی نے بتلایا کہ اس کے سیکنڈ ائیر کے امتحان نزدیک آ رہے ہیں اس لیئے وہ امتحان کی تیاری کے سلسلہ میں مجھ سے پڑھنے کے لیئے آیا ہے۔۔۔ شبی کی بات سن کر بڑی خالہ کہنے لگی ۔۔۔۔ تم بہت اچھے موقعہ پر آئے ہو بیٹا۔۔اور وہ اس لیئے کہ آج کل میں فوزیہ بیٹی بھی گھر آنے والی ہے چنانچہ جو سبجیکٹ تم کو صبو نہ سمجھا سکی وہ فوزیہ سے سمجھ لینا۔۔۔ فوزیہ کا نام سن کر شبی ایک دم سے چونک گیا اور ۔۔۔پھر اس نے بڑے ہی پر اسرار طریقے سے میری طرف دیکھا ۔۔ میرا خیال ہے کہ فوزیہ باجی کے نام پر شبی کا یوں چونک کر میری طرف دیکھنا خالہ اور گڈی باجی نے بھی نوٹ کیا تھا ۔ لیکن بولی کچھ نہ تھیں ۔۔ ۔۔۔۔۔ جبکہ دوسری طرف شبی کی یہ حرکت مجھے بہت کھٹکی تھی اس لیئے ۔۔۔ کھانا وغیرہ کھانے کے بعد میں شبی کو لیکر پڑھانے کے لیئے اپنے کمرے میں لے آئی اور کمرے میں داخل ہوتے ہی میں نے شبی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔ یار کچھ تو شرم کرنی تھی ۔۔۔ میری بات سن کر شبی نے بڑی حیرانی سے میری طرف دیکھا ۔۔۔ اور کہنے لگا شرم کس بات کی باجی؟؟؟۔۔۔ تو میں نے اس کی طرف آنکھیں نکالتے ہوئے کہا ۔۔۔ . وہ اس بات کی میرے چندا کہ فوزیہ باجی کا نام سن کر یہ جو تم نے چونک کر میری طرف کیوں دیکھا تھا ؟ اس کے بعد میں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے اس سے کہا ۔۔۔ کیا تم کو معلوم ہے کہ تمہارے اس طرح چونک کر دیکھنے سے خالہ اور گڈی باجی نے بھی نوٹ کیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔میری اس بات پر شبی کہنے لگا ۔۔ باجی آپ تو جانتی ہی ہو کہ فوزیہ باجی کی گانڈ کا میں بچپن سے ہی عاشق ہوں ۔۔۔اور آپ کو یہ بھی یاد ہو گا کہ ایک دفعہ انہوں نے اس سلسلہ میں آپ سے میری شکایت بھی لگائی تھی ۔۔۔۔۔اس لیئے خالہ جان کے منہ سے فوزیہ کا نام سن کر مجھے ان کی موٹی سی گانڈ یاد آ گئی اور اس بات پر میں خوش ہو کر آپ کی طرف دیکھنے لگا ۔۔۔۔ اس کے بعد شبی نے میری طرف دیکھا اور کہنے لگا ۔۔۔اور جسے آپ چونکنا کہہ رہی ہونا باجی ۔۔ وہ دراصل میں اپنی خوشی کو آپ کے ساتھ سے شئیر کر رہا تھا ۔۔۔ کہ چلو اتنے عرصے کے بعد ایک بار پھر اسی بہانے فوزیہ باجی کی موٹی گانڈ کا دیدار ہو جائے گا۔ اور اگر ہو سکا تو۔۔۔۔۔۔۔شبی کی بات سن کر میں بڑی حیران ہوئی اور اس سے کہنے لگی ۔۔۔ یہ شکایت والی بات کو تم ابھی تک بھولے نہیں ؟ تو وہ کہنے لگا ۔۔۔ نہیں باجی ۔۔۔ پھر اس نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں اور کہنے لگا۔۔۔ باجی تم خود ہی بتاؤ کہ فوزیہ باجی کی موٹی گانڈ ۔۔۔اور ان کی لگائی ہوئی شکایت کوئی بھولنے والی چیز ہے؟ اس سے پہلے کہ میں شبی کی بات کا کوئی جواب دیتی ۔۔۔کہ اچانک ہی کسی کام سے بڑی خالہ کمرے میں داخل ہو ئیں اور اس طرح فوزیہ والی بات آئی گئی ہو گئی۔۔۔۔
میرے پاس آ کر شبی نے واقعہ ہی بڑی سنجیدگی کے ساتھ پڑھنا شروع کر دیا تھا۔۔۔۔۔ جہاں شبی کے آنے سے مجھے خوشی ہوئی تھی وہاں پر مجھے اور گڈی باجی کو ایک نقصان یہ ہوا تھا ۔۔۔کہ اس کے ہوتے ہوئے ۔۔۔۔ ہم لوگ ماموں کے ساتھ موج مستی نہیں کر سکتیں تھیں ۔۔۔لیکن جیسا کہ میں نے پہلے بھی آپ کو بتلا یا ہے کہ شادی شدہ ہونے کے ناطے ۔۔۔۔ میں تو پھر بھی عدنان کے ساتھ سیکس کر کے اپنا کوٹہ پورا کر لیا کرتی تھی لیکن ۔۔۔۔۔۔ بے چاری گڈی باجی ایسے ہی رہ جاتی تھی۔۔ اور مزاق مزاق میں اس بات کا وہ اکثر ہی مجھ شکوہ بھی کرتی رہتی تھی ۔۔ان کی بات سن کر میں ہنس پڑتی تھی ۔۔۔لیکن پھر ایک دن میں نے ان کو موقع دے دیا۔۔۔۔ہوا کچھ یوں کہ جیسے ہی ماموں گھر میں داخل ہوئے اور دروازے سے ہی چائے کے لیئے ہانک لگائی تو اس وقت میں گڈی باجی کے ساتھ کچن میں کھڑی شبی کے لیئے ناشتہ بنا رہی تھی ۔۔۔ ماموں کی آواز سن کر گڈی باجی نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور مجھ سے کہنے لگی ۔۔۔ صبو یار میرا نہیں تو ۔۔۔۔۔ (اپنی پھدی کی طرف اشارہ کر کے ) اس بے چاری کا ہی کچھ خیال کرو۔۔۔۔۔۔ اس وقت تک میں شبی کا ناشتہ بنا چکی تھی اس لیئے میں نے گڈی باجی کی طرف دیکھ کر آنکھ مارتے ہوئے کہا ۔۔۔ لو بچہ آپ بھی کیا یاد کرو گی۔آج کی ڈیٹ میں آپ کا کام ہو جائے گا ۔۔۔ اور آپ ماموں کے ساتھ اپنے واسنا کی آگ بجھا سکو گی ۔۔۔۔ میری بات سن کر گڈی باجی آنکھوں میں چمک سی آ گئی اور وہ کہنے لگی۔۔۔۔ وہ تو ٹھیک ہے ۔۔۔جوگی بابا ۔۔پر یہ بتاؤ کہ یہ سب ہو گا کیسے؟۔۔۔ گڈی باجی کی بات سن کر میں نے ان سے کہا ۔۔۔۔ وہ یوں بچہ کہ ابھی میں شبی کا ناشتہ لے کر جا رہی ہوں ۔۔۔۔۔۔ اور ناشتے کے فوراً بعد میں نے اس کا ٹیسٹ لینا ہے ۔۔۔ اور اس ٹیسٹ کے دوران آپ ماموں کے ساتھ ۔۔۔۔ جس طرح چاہیں گُل چھڑے اُڑا سکتی ہیں ۔۔۔پھر ۔۔ اس کے بعد میں نے گڈی باجی کی طرف انگلی کرتے ہوئے کہا،۔۔۔ یاد رکھنا بچہ ۔۔۔ واسنا کی آگ بجھانے کے لیئے تمہارے پاس صرف ایک گھنٹہ ہو گا۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔ اس کے بعد ۔۔ جوگی بابے کی گارنٹی ختم ہو جائے گی ۔۔۔ میری بات سن کر گڈی باجی بڑی خوشی سے بولی۔۔۔۔۔ تم ایک گھنٹے کا کہہ رہی ہو۔۔۔ جبکہ میں کوشش کروں گی کہ پچاس منٹ میں ہی سب کام تمام ہو جائے ۔۔پھر گڈی باجی نے بڑے پیار سے میرے گالوں کو تھپ تھپاتے ہوئے کہا کہ ۔۔۔۔جیتی رہو میری بچی۔میں دیکھ رہی ہوں کہ آگے۔۔۔ تم بہت ترقی کرو گی۔۔۔
اس کے بعد ایک دم سے گڈی باجی سیریس ہو کر میری طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگی ۔۔۔۔۔۔ صبو ۔۔۔اس دوران تم نے نہ صرف یہ کہ اپنے بھائی کو انگیج رکھنا ہے بلکہ باہر کا دھیان بھی تمہاری زمہ داری پر ہے۔۔۔ اس پر میں نے کہا ۔۔ اس بات کی آپ فکر ہی نہ کرو باجی۔۔میں اس کام کو سنبھال لوں گی۔۔ چنانچہ میری یقین دھانی کرانے پر گڈی باجی بہت خوش ہوئی ۔۔۔اور میرا شکریہ ادا کرنے کے بعد انہوں نے میرے ہونٹوں پر ایک ہلکی سی چومی لی ۔۔۔۔اور کہنے لگی۔۔۔۔۔ اب تم جاؤ۔۔۔۔۔ چنانچہ میں نے ٹرے میں شبی کے ناشتے کے برتن رکھے ۔۔۔۔اور اپنے کمرے کی طرف آ گئی۔۔۔۔۔
اس دوران میں شبی کو بڑی محنت کے ساتھ پڑھا رہی تھی اور حیرت انگیز طور پر شبی بھی بغیر حیل و حجت کے( شاید امتحان نزدیک ہونے کی وجہ سے) ۔۔۔بڑی سنجیدگی کے ساتھ اپنی سٹڈی کی طرف توجہ دے رہا تھا ۔۔مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ اس دوران ہم دونوں نے سیکس کرنا تو دور کی بات ہے اس ٹاپک پر ابھی تک گفتگو بھی نہیں کی تھی لیکن کب تک؟؟؟۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ پھر ایک دن کی بات ہے کہ میں کچن میں دوپہر کے کھانے کے لیئے آٹا گُوند رہی تھی کہ ہاتھ میں کتاب لیئے ۔۔ شبی کچن میں داخل ہو گیا ۔۔۔اور مجھے آٹا گوندھتے دیکھ کر وہ ایک دم سے ٹھٹھک کر رُک گیا اور واپس جانے کے لیئے جیسے ہی مُڑا تو میں نے آواز دے کر اسے واپس بلا لیا اور پوچھنے لگی کہ کیسے آنا ہوا ؟۔۔۔ میری بات سن کر وہ بولا ۔۔ ۔۔ وہ باجی ایک انگلش کا پیرا میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا ۔۔۔۔ اس لیئے میں اس پیرے کا مطلب آپ سے پوچھنے آیا ہوں ۔۔۔۔۔پھر میری طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگا ۔۔۔ کوئی بات نہیں باجی ۔۔آپ آٹا گوندھ لیں میں دوبارہ آ جاؤں گا تو اس پر میں نے کہا کہ دوبارہ آنے کہ ضرورت نہیں ۔۔ میں ایسا کرتی ہوں کہ آٹا گوندھنا بند کر دیتی ہوں ۔۔اتنے میں تم متعلقہ پیرا گراف پڑھ کے سنا دو ۔۔۔۔ میں تم کو اس کا مطلب سمجھا دوں گی ۔۔۔.۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی میں نے آٹا گوندھنا بند کیا اور اپنی قمیض کے کف سے ماتھے پر آئے ہوئے پسینے کو پونجتے ہوئے اس کی طرف دیکھا اور ہمہ تن گوش ہو گئی۔۔۔ لیکن میرا خیال ہے کہ اس پیرا گراف میں شاید بڑی سخت انگریزی لکھی ہوئی تھی اسی لیئے شبی اسے اٹک اٹک کے پڑھ رہا تھا ۔۔۔۔ پھر انگریزی پڑھتے پڑھتے اس نے بڑی بے بسی سے میری طرف دیکھا اور کہنے لگا۔۔۔۔ باجی یہ پیرا گراف مجھ سے نہیں پڑھا جا رہا ۔۔۔۔ اسے یوں اٹک اٹک کر پڑھتے دیکھ کر مجھے بھی اندازہ ہو گیا تھا اس لیئے میں نے اس سے کہا کہ تم ایسا کرو کہ کتاب کو میرے پاس لے کر آؤ ۔۔۔ میں اسے پڑھ کے تم کو اس کا مطلب سمجھا دیتی ہوں ۔۔۔ میری بات سن کر شبی نے بڑی شرمندگی سے میری طرف دیکھا اور کتاب لیکر میرے پاس آ گیا ۔اور میرے پیچھے کھڑے ہو کر کتاب کو میرے سامنے کر دیا ۔۔لیکن اس نے جس اینگل سے میرے سامنے کتاب رکھی ہوئی تھی ۔۔۔۔ اس اینگل سے میں اس کتاب کو نہیں پڑھ پا رہی تھی۔۔۔ ۔ اس لیئے میں نے اس سے کہا کہ یار کتاب کو تھوڑا نیچے کرو۔۔۔کہ مجھے ٹھیک سے نظر نہیں آ رہا۔۔۔ اس پر شبی میری طرف تھوڑا اور جھک گیا ۔۔ ۔۔۔اور کتاب کو میرے سامنے کر دیا۔۔بھائی کے جھکنے سے اس کی فرنٹ سائیڈ میری گردن کو ٹچ کرنے لگی۔۔۔لیکن میں نے اس پر دھیان نہیں دیا۔۔ اور کتاب کی طرف دیکھتے ہوئے ۔۔۔ میں نے سارا پیرا گراف پڑھا او ر پہلے اسے خود سمجھا پھر اس کو سمجھانے لگی ۔۔۔اسی دوران میں نے محسوس کیا کہ بھائی کی شلوار کے اندر سے اس کے اوزار میں جان پڑ رہی ہے ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ لیکن میں نے کوئی نوٹس نہیں لیا ۔۔۔۔ لیکن ۔۔ ۔۔۔۔ جب اس کے لن کی نوک میری گردن پر چھبی تو میں نے گردن موڑ کر شبی کی طرف دیکھا اور اس سے کہنے لگی ۔۔۔ یہ کیا شبی ؟ تو اس دفعہ شبی نے جان بوجھ کر اپنے لن کو میری گردن کے ساتھ ٹچ کرتے ہوئے کہا۔۔ سوری باجی اسے میں نے نہیں کھڑا کیا ۔۔۔ بلکہ آپ کی گردن کے ساتھ ٹچ ہو کر یہ خود ہی کھڑا ہو گیا ہے ۔۔۔شبی کی بات سن کر میں نے اس کی شلوار کی طرف دیکھا تو بھائی کا لن کھڑا ہونے سے اس کی شلوار مسلسل اوپر کو اُٹھتی جا رہی تھی۔۔۔شبی کے لن کو کھڑا ہوتے دیکھ کر میرے سارے جسم میں ایک سنسناہٹ سی پھیل گئی۔۔اور اچانک ہی بھائی کا لن لینے کی پیاس میرے من میں جاگ گئی۔۔۔ لیکن میں نے یہ بات بھائی پر ظاہر نہ ہونے دی ۔۔۔اور اس کی شوکار کواوپر کی طرف اُٹھتے ہوئے دیکھنے لگی۔۔۔پھر میں نے اس کے اُٹھے ہوئے لن کی طرف دیکھتے ہوئے اپنے منہ کو آگے بڑھا یا ۔۔۔۔۔اور اس کے لن کو شلوار کے اوپر سے ہی اپنے دانتوں میں پکڑ لیا۔۔۔۔ اور اس پر ہلکا سا کاٹ کر بولی۔۔۔۔۔ بھائی تیرے امتحان نزدیک آ گئے ہیں اس لیئے تم اپنا سارا دھیان پڑھائی پر رکھو۔۔۔۔
میر ی بات سن کر شبی کے چہرے پر ایک رنگ سا آ گیا ۔۔۔ اور وہ بڑی ہی لجاجت سے میری طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگا۔۔۔۔۔آپ کی بات درست ہے باجی ۔۔۔ لیکن میں کیا کروں کہ ابھی اور اسی وقت میرا آپ کو چودنے پر دل آ گیا ہے ۔۔۔۔ بھائی کی بات سن کر ۔۔میں اس سے کیا کہتی کہ اسی وقت میرا بھی چدوانے پر دل آ گیا تھا ۔۔۔ لیکن کچھ نہ بولی ۔۔لیکن اندر سے ۔۔میری پھدی نے ۔مزید گرم ہونا شروع کر دیا ۔۔۔ اور پھر میں نے اس کے اُٹھے ہوئے لن کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔ دل تو میرا یہی کر رہا ہے لیکن ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ تو بھائی کہنے لگا ۔۔ لیکن کیا باجی ۔۔۔جب میں اور تم راضی ہیں تو ۔۔۔ یہ بیچ میں لیکن کہا ں سے آ گیا؟؟؟۔۔۔۔۔۔ بھائی کی بات سن کر قبل اس کہ میں اس سے کچھ کہتی ۔۔اس نے اپنے لن کو ہاتھ میں پکڑا اور مجھے دکھاتے ہوئے کہنے لگا۔۔باجی پلیزززز۔۔ اس پر میں نے اس کے لن پر نظریں گاڑتے ہوئے جواب دیا ۔۔۔ لیکن چندا ۔۔ اس وقت تو یہ کام ممکن نہیں ۔۔۔ میری بات سن کر اس کے ماتھے پر بل پڑ گئے اور وہ اپنے لن کو ہلاتے ہوئے تیز لہجے میں کہنے لگا۔۔۔۔۔۔ اس وقت کیوں نہیں ۔۔۔۔؟؟؟۔۔ ۔۔۔اس کے بولنے کے انداز سے میں تھوڑی نروس سی ہو گئی ۔۔۔۔اور کہنے لگی۔۔۔ وہ اس لیئے کہ۔۔۔ اس وقت بہت رسک ہے۔۔ ۔۔۔۔میری بات سنتے ہی وہ آگے بڑھا ۔۔اور پھر اپنے لن کو میرے گالوں سے ٹکراتے ہوئے کہنے لگا۔۔۔رسک ہے تو کیا ہوا۔۔بس تھوڑی ہی دیر کی تو بات ہے۔۔۔ اس کے بعد وہ مجھے ماضی یاد دلاتے ہوئے کہنے لگا۔۔۔ باجی کیا تم وہ زمانے بھول گئیں جب ہم روزانہ رات کو کیا کرتے تھے۔۔ادھر جب سے آپ کی شادی ہوئی ہے آپ نے ایک دفعہ بھی میرے ساتھ سیکس نہیں کیا ۔پھر بھائی میرے سامنے کھڑا ہو کر بولا۔۔۔۔ آئی مس یو باجی۔۔۔ تو میں نے بھی اس کے لن کو شلوار کے اوپر سے ہی چومتے ہوئے کہا۔۔ مس یو ٹو بھائی۔۔۔ لیکن۔۔۔ میری اس بات سے اس نے قہر بھری نظروں سے میری طرف دیکھا اور بولا۔۔۔۔خاک مس کرتی ہو باجی۔۔۔
بھائی کی بات سن کر میں تڑپ سی گئی اور اسے کہنے لگی۔۔۔ ایسی بات نہ کرو بھائی تم مجھے دینا جہان سے پیارے ہو۔۔ میری بات سن کر بھائی نے میری طرف دیکھا اور کہنے لگا ۔۔۔کچھ بھی ہو باجی میں نے ابھی ا ور اسی وقت تمہاری لینی ہے۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی میری طرف منہ کر کے اس نے اپنی شلوار کا آزار بند کھولا اور میرے سامنے آ کر اپنے لن کو لہرانے لگا۔۔۔۔۔اُف ف ف ف ۔۔اس کا لن دیکھ کر میں تو حیران ہی رہ گئی۔۔۔ یہ وہ لن ہر گز نہیں تھا کہ جس کے ساتھ میں نے شادی سے پہلے اپنا ٹائم گزارا تھا ۔۔۔ بلکہ جو اس وقت بھائی کے ہاتھ میں پکڑا ہوا تھا یہ تو ایک پورے مرد کا جوان اور طاقت ور لن تھا خاص کر اس کا ہیڈ پہلے سے بہت زیادہ موٹا ہو گیا تھا اور اس کے ساتھ لن کی لمبائی بھی تھوڑا اضافہ نظر ا ٓ رہا تھا جسے دیکھ کر میرے منہ اور چوت دونوں میں پانی بھر آیا تھا ۔۔۔۔۔۔ ۔۔ ۔۔۔ جبکہ وہ اسے میرے سامنے لہرا تھا۔۔۔۔۔۔؟
شبی کا طاقت ور لن دیکھنے کی دیر تھی ۔۔کہ میرے انگ انگ میں شہوت کی مستی پھلنے لگی ۔۔۔۔ اور مجھے بھی یاد آ گیا کہ شبی درست کہہ رہا ہے کہ شادی کے بعد سے اب تک میں نے اور شبی نے ایک بار بھی سیکس نہیں کیا تھا۔۔ ۔۔ ۔۔۔ لیکن اس وقت مسلہ یہ تھا کہ کچن کے عین باہر ۔۔ خالہ اور گڈی باجی ایک ہمسائی کے ساتھ بیٹھی ہوئیں باتیں کر رہیں تھیں اور وہ ہمسائی بھی ایسی تھی کہ جس سے اس کے اپنے گھر والے بھی پناہ مانگتے تھے اور اس ہمسائی کی وجہ سے میں تھوڑا ہچکچا رہی تھی۔۔۔۔ ورنہ تو میں آپ جانتے ہی ہیں کہ بچپن سے ہی میں اپنے بھائی کی دیوانی ہوں ۔۔۔ اور اپنے بھائی کے لیئے میں کچھ بھی کر سکتی تھی ۔۔ ۔۔ لیکن اس وقت مسلہ باہر کا تھا ۔۔۔ کیونکہ کچن کے ساتھ ہی تو برآمدہ تھا اور ۔۔۔ اور باہر برآمدے میں وہ جاسوس ہمسائی بیٹھی تھی۔۔۔ جوکہ ادھر ادھر کی باتیں کرنے میں بہت مشومر تھی۔۔۔اور جس کی اسی خصوصیت کی وجہ سے سارا محلہ اسے بی بی سی کہتا تھا ۔۔۔۔۔ ادھر بھائی کا جاندار لن دیکھ کر میری پھدی بھی اسے اندر لینے کے لیئے کھل بند ہو رہی تھی۔۔۔۔ لیکن میری عقل کہتی تھی کہ وہ جگہ اس کام کے لیئے مناسب نہیں ہے۔۔۔ اس لیئے۔۔۔میں نے بھائی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔ پہلے اسے (لن کو) تو (شلوار کے) اندر کر لو۔۔ پھر میں کچھ سوچتی ہوں ۔۔۔شکر ہے بھائی نے میری بات مان لی۔۔۔ اور جلدی سے لن کو شلوار کے اند ر کر کے اپنا ازار بند باندھ لیا۔۔۔ اور میری طرف دیکھنے لگا۔۔۔
یہ دیکھ کر میں نے آٹے والی پرات کو تھوڑا سائیڈ پر رکھا ۔۔اور اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔ اور بھائی کے لن پر نظریں گاڑتے ہوئے سوچنے لگی۔۔۔ مجھے سوچتے دیکھ کر بھائی میرے پاس آ کر کھڑا ہو گیا اور میرا ہاتھ پکڑ کر اپنا لن کی طرف بڑھانے لگا تو میں نے ایک دم اس سے اپنا ہاتھ چھڑا لیا اور کہنے لگی۔۔۔۔ پاگل دیکھ نہیں رہے کہ میرے ہاتھ آٹے سے بھرے ہوئے ہیں ۔۔ اس پر بھائی نے میرے ہاتھوں کی طرف دیکھا اور کہنے لگا ۔۔سوری باجی میں نے خیال نہیں کیا ۔۔۔ اور پھر کہنے لگا۔۔۔ چلو ہاتھ دھو لو۔۔ اور اس کی بات سن کر میں سنک کی طرف بڑھ گئی سنک میں ہاتھ دھوتے دھوتے اچانک میری نظر سنک کے ساتھ بنی کھڑی پر پڑی اور ۔۔۔ پھر ایک لمحے میں ۔۔۔ساری پلاننگ میرے زہن میں آ گئی۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی میں دھیمی آواز میں ۔۔ بھائی سے کہا چل بھائی میری پھدی مارنے کے لیئے تیار ہو جا --
تو وہ بے تابی سے کہنے لگا۔۔۔ سچ باجی ۔۔۔ تو میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔ ہاں بھائی تم ابھی اور اسی وقت میرے ساتھ سیکس کرو گے۔۔۔ اس کے ساتھ بات کرتے ہوئے میں نے کچن کی کھڑکی سے ایک نظر باہر دیکھا تو وہ تینوں اپنی باتوں میں مست تھیں ۔۔۔ان کو باتوں میں مگن دیکھ کر میں واپس مُڑی اور بھائی کی طرف دیکھنے لگی اس وقت میرا دل دھک دھک کر رہا تھا ۔۔۔ اور میرے ہاتھ پاؤں ہلکے ہلکے کانپ رہے تھے کیونکہ میں بہت بڑا رسک لینے لگی تھی۔۔۔ لیکن اسی رسک میں تو زندگی ہے یہ سوچ کر ۔۔۔۔ میں نے بھائی کے لن کو ہاتھ میں پکڑ کر اسے ہدایت دیتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔ اندر ڈالتے ہوئے شور نہیں مچانا ۔۔اور نہ ہی زور سے دھکا مارنا ۔۔۔۔ اور جیسے ہی میں اشارہ کروں تم نے اپنے لن کو واپس شلوار میں ڈال لینا ہے ۔۔ میری بات سن کر بھائی نے جیسے ہی اپنی شلوار کا نالہ کھولنے کے لیئے ہاتھ بڑھایا تو میں نے اسے ایسا کرنےسے منع کر دیا۔۔۔تو وہ حیران ہو کر میری طرف دیکھنے لگا۔۔۔ اس پر میں نے اسے ویٹ کرنے کا کہا ۔۔۔۔ اور کوئنٹر پر پڑی کچن کی چھری اُٹھا لی ۔۔۔ اور پھر اس چھری کی مدد سے بھائی کی شلوار کو نیچے سے پھاڑ دیا ۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی میں نے ایک نظر کھڑکی سے باہر ڈالی۔۔۔وہ تینوں ویسی ہی بیٹھی تھیں یہ دیکھ کر میں نے کوئنٹر پر اپنی دنوں کہنیاں رکھیں اور اپنی گانڈ کو پیچھے کی طرف نکال دیا۔۔۔۔ اور بھائی کو اشارے سے پاس آنے کو کہا۔۔۔
اتنی دیر میں بھائی نے شلوار کی موری سے اپنے لن کو باہر نکال دیا تھا۔۔۔اور جیسے ہی میں نے اس کو اشارہ کیا ۔۔۔ اس نے وہیں پہ کھڑے کھڑے اپنے لن کو تھوک لگا کر گیلا کیا ۔۔۔اور میرے پیچھے آ کر تیاری کی حالت میں کھڑا ہو گیا۔۔۔ بھائی کا لن اندر لینے سے قبل۔۔۔میں نے ایک بار پھر دھڑکتے دل کے ساتھ ۔۔۔۔۔ ایک نظر کھڑکی سے باہر کی طرف دیکھا۔۔۔ وہ تنیوں بدستور ۔۔۔ بیٹھی باتیں کر رہی تھیں۔۔۔ یہ دیکھ کر میں نے بڑی آہستگی کے ساتھ اپنی الاسٹک والی شلوار کو تھوڑا نیچے کر دیا۔۔۔۔ ۔۔۔اور اپنی ٹانگیں کھول کر پھدی کو نمایاں کرتے ہوئے ۔۔۔ بھائی کو ڈالنے کا اشارہ کای۔۔۔۔۔ میری شلوار کو اترا دیکھ کر بھائی تھوڑا سا جھکا اور میری چوت کو چکنا کرنے کے لیئے اس پر تھوڑا سا تھوک ملا لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میری چوت تو اس کے تھوک سے پہلے ہی سو گنا زیادہ گیلی ہو چکی تھی۔۔۔۔اس لیئے میں کوئنٹر پر رکھا ۔۔۔اپنا ایک ہاتھ پیچھے کو کیا اور اس کا ٹوپا پکڑ کر اپنی چوت کے لبوں پر رکھ دیا ۔۔اور پھر کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے اسے میرے اندر ڈالنے کا اشارہ دیا۔۔۔۔۔۔۔۔اس وقت ۔۔خوف مستی اور۔۔۔ شہوت کے مارے میرا دل دھک دھک کر رہا تھا ۔۔۔
ادھر میرا اشارہ پاتے ہی بھائی نے جلدی سے اپنا ٹوپا میرے اندر کر دیا۔۔۔اور اس کے لن کا میرے اندر جانا تھا کہ میں بے خود ہی گئی اور اس وقت میرا جی کر رہا تھا کہ میں شہوت بھری چیخیں ماروں ۔۔۔ لیکن پھر ۔۔۔ جیسے ہی میری نظربرآمدے میں بیٹھی ہوئی خواتین پر پڑی ۔۔۔۔ میں نے جلدی سے اپنا ایک ہاتھ منہ پر رکھ لیا جبکہ دوسرا ہاتھ کوئنٹر پر ہی پڑا رہنے دیا۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اس کے باوجود بھی میری منہ سے شہوت بھری سسکیاں نکل رہیں تھیں ۔۔۔۔ ادھر بھائی اپنے طاقتور لن سے میری چوت میں ہلکے ہلکے دھکے مار رہا تھا جبکہ میری چوت فل سپیڈ سے دھکوں کا مطالبہ کر رہی تھی۔۔۔۔۔ اس لیئے میں نے اپنے منہ سے ہاتھ ہٹایا اور بھائی کی طرف گردن موڑ کر دیکھتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔ بھائی ۔۔۔ فاسٹ ۔۔۔ میری بات سنتے ہی بھائی نے بڑی احتیاط سے تیز تیز گھسے مارنے شروع کر دیئے۔۔۔ اور اپنے لن کو میری چوت کی گہرائیوں تک لے جانے لگا۔۔۔ اس دوران میں اس کے گھسوں کو بھی انجوائے کر رہی تھی اور ساتھ ساتھ ۔۔۔۔۔۔۔ باہر والیوں پر بھی نظریں جمائے ہوئے تھی۔۔۔ کچھ ہی دیر بعد بھائی تھوڑا آگے ہوا ۔۔ اور ہلکی آواز میں میرے کان میں کہنے لگا ۔۔۔ باجی میں چھوٹنے لگا ہوں۔۔۔ بھائی کی یہ بات سن کر میں تو مست ہی ہو گئی اور خود ہی اپنی ہپس کو بھائی کے لن پر مارنے لگی۔۔۔ اس کے کچھ ہی دیر بعد میری چوت بھائی کے لن کے ساتھ لپٹ گئی ۔۔اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میرا بھائی میری چوت میں ہی چھوٹ گیاتھا۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلے دن شام کو فوزیہ باجی بھی گھر میں آ گئیں ۔۔جسے دیکھ کر خالہ جان بہت خوش ہوئیں اور پھر شام کی چائے پیتے ہوئے خالہ جان نے باتوں باتوں میں فوزیہ باجی کہنے لگیں بیٹا آپ نے تو کافی دن پہلے آنے کا کہا تھا پھر اتنی لیٹ کیوں آئی ہو؟ خالہ جان کی بات سن کر فوزیہ باجی نے قدرے غصے سے ان کی طرف دیکھا اور بڑی تلخی سے بولیں ۔۔۔ امی جی ۔۔۔۔ ایک تو آپ ہر وقت مجھ پر شک ہی کرتی رہتی ہیں ۔۔۔اس پر خالہ جان کہنے لگیں ۔۔۔ اس میں شک کی کیا بات ہے بیٹا میں نے تو بس تم سے یہ پوچھا ہے کہ تم لیٹ کیوں آئی ہو۔۔۔۔۔ سب خیر تو تھی نا؟؟؟؟۔۔۔ خالہ جان کی اس بات پر بھی فوزیہ باجی نے کافی ناک چڑھایا اور پھر۔۔۔ اسی تلخ لہجے میں کہنے لگیں ۔۔۔ ۔۔۔ کہ ان کی ایک کولیگ کی شادی تھی اس لیئے وہ ان کے ہاں رُک گئی تھیں۔۔ اور پھر چائے چھوڑ کر بڑے غصے میں وہاں سے اُٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔۔۔ باجی کے اٹھ کر جانے کے تھوڑی دیر بعد خالہ جان بھی ان کے پیچھے پیچھے کمرے میں چلی گئیں ۔۔۔۔اب باقی رہ گئیں میں اور گُڈی باجی۔۔۔ ۔۔۔چنانچہ خالہ کے اُٹھتے ہی میں نے گڈی باجی کی طرف۔۔۔۔۔ اور انہوں نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگیں ۔۔۔کہ میں نے امی کو ہزار دفعہ سمجھایا ہے کہ اس کالی کلوٹی کے منہ نہ لگا کریں ۔۔۔ لیکن امی پھر بھی بات کرنے سے باز نہیں آتیں ۔۔ ۔۔۔۔ پھر میری طرف دیکھتے ہوئے بولی ۔۔۔۔۔میرا خیال ہے کہ باجی کی ایسی باتیں سن کر امی کو بھی مزہ آتا ہے۔۔۔ اس پر میں نے گڈی باجی سے کہا۔۔ کہ ایک بات تو بتاؤ باجی ۔۔۔۔ یہ فوزیہ باجی خالہ جان کے ساتھ اتنی بد تمیزی سے کیوں بولتی ہیں؟؟۔۔۔۔۔۔۔ تو ایک دم گُڈی باجی کے منہ سے نکل گیا ۔۔۔ کہ.......چور کی داڑھی میں تنکہ۔۔۔ پھر چونک کر میری طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگیں ۔۔۔۔۔ کہ بات دراصل یہ ہے یار کہ باجی گھر کی کمانے والی فرد ہے۔۔ اور ہر ماہ امی کے ہاتھ پر اچھی خاصی رقم رکھتی ہے ۔۔۔ اس لیئے میری جان ۔۔۔۔۔ خدا جب حُسن دیتا ہے۔۔ تو پھر۔۔۔ نزاکت آ ہی جاتی ہے ۔۔۔۔ اس کے بعد اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے بولیں ۔۔۔۔اور اوپر سے اتنی عمر ہونے کے باوجود بھی باجی کا کہیں سے رشتہ نہیں آ رہا ۔۔۔۔۔۔پھر گڈی باجی مجھے آنکھ مارتے ہوئے کہنے لگیں ۔۔۔ تو پھر میری جان اتنی بدتمیزی کرنا ..... اس کا حق بنتا ہے نا۔۔۔۔۔۔۔
جیسا کہ میں اس سے پہلے بھی بتا چکی ہوں کہ فوزیہ باجی کوئی خوبصورت خاتون نہیں ..... بلکہ ایک کالی کلوٹی اور قدرے موٹی سی عورت تھی جس کے بڑے بڑے ہونٹ حبشنوں کی طرح لٹکے ہوئے تھے ۔ اور حبشنوں ہی کی طرح ۔۔۔۔۔۔۔ان کا ڈیل ڈول بھی تھا ۔۔۔۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان پلس پوائینٹ یہ تھا کہ پتہ نہیں کیسے ان میں سیکس اپیل بہت غضب کی تھی ۔۔ اور اس سیکس اپیل میں سب سے زیادہ حصہ ان کی موٹی گانڈ کا تھا ۔۔۔ اور یہ بات میں پہلے بھی کسی قسط میں بھی بتا چکی ہوں کہ لڑکپن سے ہی فوزیہ باجی کی بُنڈ بہت ہی سیکسی اور شاندار تھی جسے دیکھ کر شبی ......جو کہ ان دنوں تقریباً روزانہ ہی میری گانڈ کو مارا کرتا تھا ۔۔۔۔ فوزیہ باجی کی موٹی اور سیکسی گانڈ کو دیکھ کر اکثر مچل اُٹھتا تھا اور بار بار مجھ سے کہا کرتا تھا ۔۔۔۔ کہ باجی پلیز تم بھی اپنی گانڈ کو فوزیہ باجی جتنی موٹی کر لو نا ۔۔۔۔بھائی کی بات سن کر اکثر میں جل جایا کرتی تھی اور پھر اس کی طرف آنکھیں نکالتے ہوئے کہا کرتی تھی ۔۔۔ کہ کیوں میری اپنی گانڈ میں کیا برائی ہے؟؟؟؟ ۔۔۔ کیا یہ سیکسی نہیں ہے ....؟ تو میری اس بات پر وہ بے چارہ گڑبڑا سا جایا کرتا تھا ۔۔۔۔۔ اور جلدی جلدی کہتا ۔۔۔۔ باجی آپ کی گانڈ ....سیکسی بلکہ بہت زیادہ سیکسی ہے۔۔۔ تبھی تو میں اسے روز ہی مارتا ہوں ..... اور مجھے معلوم تھا کہ وہ یہ بات محض میرا دل رکھنے کے لیئے کہہ رہا ہے ورنہ تو وہ فوزیہ باجی کی گانڈ کا دیوانہ تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ جب فوزیہ باجی خالہ کے ساتھ ہمارے گھر آئیں تھیں تو شبی نے ان پھنسانے کی بہت کوشش کی تھی ۔۔۔۔۔ لیکن بے سود ۔۔۔ فوزیہ باجی نے اس کو زرا بھی لفٹ نہیں دی تھی ۔۔۔ بلکہ الٹا انہوں نے مجھ سے بھائی کی بڑی سخت شکایت بھی لگا دی تھی ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔ اور ان کی اس شکایت پر میں نے انہیں یقین دھانی کروائی تھی کہ آپ اماں ابا سے اس کے بارے میں کوئی بات نہ کریں میں خود ہی اسے سمجھا لوں گی اور میرے کہنے پر اس دفعہ انہوں نے شبی کو چھوڑ دیا تھا۔۔۔
اس سے اگلے دن صبع کی بات ہے کہ ....کمرے میں ۔۔۔میں اور بھائی اکیلے تھے ۔۔۔ حسبِ معمول میں بھائی کے لیئے ناشتہ لے کر آئی تھی اور اس کے سامنے ناشتے کی ٹرے رکھ کر خود اس کے لیئے ٹیسٹ بنا رہی تھی ۔۔۔ کہ ناشتہ کرتے ہوئے اچانک ہی شبی نے میری طرف دیکھا ۔۔۔۔اور کہنے لگا ۔۔میرا ایک کام کرو گی باجی ........؟؟؟ ۔۔تو اس پر میں نے ٹیسٹ بناتے ہوئے اس کی طرف دیکھا اور کہنے لگی ۔۔ ضرور کروں گی تم کام بتاؤ۔۔۔ تو وہ بڑی سنجیدگی سے کہنے لگا ۔۔ باجی جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ اس روز خالہ جان نے بھی مجھ سے کہا تھا کہ پڑھتے ہوئے اگر مجھے آپ سے کوئی بات سمجھ نہ لگے تو فوزیہ باجی سمجھا دیں گی۔۔۔ پھر مجھے آنکھ مارتے ہوئے بولا ۔۔۔ کیا کروں باجی...... کہ آپ سے پڑھتے ہوئے مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی ۔۔اس لیئے فوزیہ باجی کو کہو نا کہ وہ مجھے پڑھا دیا کریں ۔۔۔ اپنے چھوٹے بھائی کے منہ سے یہ بات سن ۔۔۔اور اس کے بات کرنے کے سٹائل سے میں سمجھ گئی کہ ۔۔۔۔۔دراصل شبی کا پروگرام کیا ہے۔۔۔۔ اس لیئے میں اس کو ڈانٹتے ہوئے بولی۔۔۔ مجھے سب معلوم بیٹا ہے کہ تم نے مجھ سے یہ فرمائیش کیوں کی ہے۔۔۔۔ ۔ پھر بولی ۔۔۔۔ میری جان فوزیہ باجی کا خیال اپنے دل سے نکال دو اور چپ چاپ مجھ سے ہی پڑھتے جاؤ ۔۔۔اس پر شبی ایک دم سے سیریس ہو گیا اور کہنے لگا۔۔۔۔ باجی پلیزززززززززززززز۔۔۔۔۔ پڑھ میں آپ سے ہی لوں گا ۔۔۔ لیکن ۔۔پلیزززززز۔۔۔۔ ایک دفعہ بس ایک دفعہ آپ میرا یہ کام کر دو ۔۔۔ آگے میں سنبھال لوں گا۔۔۔ بھائی کی بات سن کر میں نے اسے غصے سے دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔ بے وقوف نہ بنو بھائی تم جانتے ہی کہ وہ کس قدر نک چڑھی خاتون ہے۔۔۔۔ اس لیئے کم از کم میں اس سے ہر گزتمہارے متعلق نہیں کہوں گی۔۔۔ پھر میں نے بھائی کو پچھلی بات یاد دلاتے ہوئے کہا کہ تم کو اچھی طرح سے معلوم ہے کہ یہ خاتون ایک بار پہلے بھی مجھ سے تیری شکا یت لگا چکی ہے۔۔۔ میری اس بات پر بھائی بڑے ہی اعتماد کے ساتھ بولا۔۔۔۔۔۔۔۔ یقین کرو باجی اس دفعہ میری شکایت نہیں آئے گی۔۔۔۔
بھائی کو اس قدر پُر اعتماد دیکھ کر میں حیران رہ گئی اور پھر اس کے ٹیسٹ والی کاپی کو ایک طرف رکھا اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی ۔۔۔۔۔ شبی فوزیہ کے بارےمیں اس قدر اعتماد کی وجہ۔۔۔ کیا میں جان سکتی ہوں ؟ میری بات سن کر بھائی آئیں بائیں شائیں کر نے لگا۔۔۔ لیکن میں اس کے اس طرح بولنے سے سمجھ گئی تھی ۔۔۔ کہ معاملہ گڑبڑ ہے ۔۔۔۔۔ اس لیئے میں نے تھوڑا سخت لہجے میں اس سے کہا ۔۔سچ سچ بتاؤ کہ چکر کیا ہے؟میری بات سن کو کر اور میرے لہجے کی سختی جانچ کر بھائی سمجھ گیا کہ بات بتائے بغیر اس کی جان نہیں چھوٹے گی اس لیئے تھوڑی ہچکچاہٹ کے بعد وہ کہنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٹھیک ہے باجی میں آپ کو بتا دوں گا ۔۔۔ لیکن ۔۔۔۔آپ وعدہ کرو کہ آپ فوزیہ باجی کو پڑھانے کے لیئے ضرور کہیں گی۔۔۔۔ اس پر میں مزید سخت لہجے میں بولی ۔۔ سیدھی طرح بتاؤ ۔۔ میں ساری حقیقت جاننے کے بعد ہی کوئی فیصلہ کروں گی۔۔۔۔
میری بات سن کر بھائی نے تھوڑی مایوسی سے سر ہلایا اور کہنے لگا۔۔۔ باجی بات جاننے کے بعد ہو سکے تو مجھے ایک چانس ضرور دینا ۔۔۔اور پھر اس نے مجھے بتایا کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ ان دنوں کی بات تھی کہ جب پاکستان میں ابھی موبائل نیا ینا عام ہوا تھا ۔۔۔۔ اس وقت میں نے بھی اسے ایک موبائل خرید کر دیا تھا ۔۔۔ چنانچہ نے بھائی نے اپنے موبائل کے لیئے دو سمیں خریدیں ۔۔۔ ایک سم کا نمبر تو سب کو معلوم تھا جبکہ دوسری سم کے بارے میں اس نے کسی کو نہیں بتایا تھا۔۔۔وہ کہتا ہے کہ ایک دن وہ امی کے ساتھ مجھ سے ملنے آیا تو اس وقت اتفاق سے فوزیہ باجی بھی بہاولپور سے آئی ہوئی تھی ۔۔۔۔ اور فوزیہ کو ۔۔۔۔۔۔۔۔خاص کر اس کی بنڈ کر دیکھ کر بھائی .... نے اسے حاصل کرنے کے لیئے ایک منصوبہ بنایا۔۔۔۔ اس کام کے لیئے اسے فوزیہ کا نمبر درکار تھا ۔۔۔ جو کہ اسے بڑی آسانی سے مل گیا ۔۔۔اور ایک رات وہ چھت پر گیا ۔۔۔اور فوزیہ باجی کو میسج بھیجا ۔۔۔۔ کہ آپ بہت گریس فل ہو۔۔۔۔ کہتا ہے کہ پہلے کچھ دن تو فوزیہ نے اس کو لفٹ ہی نہیں کرائی ۔۔۔ لیکن بھائی کہتا ہے کہ اسے معلوم تھا کہ فوزیہ اتنی آسانی سے نہیں پھنسے گی ۔۔۔ اس لیئے وہ دن میں اسے دس پندرہ میسج بھیجنے لگا۔۔۔۔۔کہتا ہے کہ آخر ۔۔۔ایک دن پتھر کو بھی جونک لگ گئی۔۔۔۔اور بجائے مسیج بھیجنے کے فوزیہ نے اسے فون کر دیا۔۔۔۔ بھائی کہتا ہے کہ فوزیہ کا فون سن کر میں بڑا پریشان ہوا ۔۔۔۔ کہ اگر میں نے اس سے بات کر لی تو انس نے میری آواز پہچان لینی ہے ۔۔۔۔اورمیں مارا جاؤں گا۔۔۔۔ اس لیئے میں نے بجائے بات کرنے کے اسے مسیج بھیجا کہ اس وقت میں پاپا کے ساتھ ہوں ۔۔۔ بعد میں بات ہو گی۔۔۔۔۔
کہتا ہے کہ سوچ سوچ کر کہ فوزیہ کے ساتھ کیسے بات کروں ۔۔۔ آخر اس کے زہن میں ایک ترکیب آ گئی اور یہ ترکیب اس نے ایک فلم سے لی تھی ۔۔۔ جس میں اسی طرح ہیرو فون کے موتھ پیس پر کپڑا ڈال کر اور تھوڑا لہجہ بدل کر اپنی محبوبہ سے بات کرتا ہے ۔۔ کیونکہ میری طرح اس فلم کی ہیرؤین بھی اس ہیرو کو جانتی ہوتی ہے ۔۔ یہ طے کر کے میں آیئنے کے آگے کھڑا ہو گیا ۔۔۔اور زہن میں مختلف لوگوں کی آوازوں کو لا کر ان کے لہجے میں بات کرنے کی پریکٹس کرنے لگا۔۔۔۔۔ کہتا ہے کہ ایسے کرنے سے اسے اپنا ایک کلاس فیلو یاد آگیا کہ جس کی آواز تھوڑی باریک تھی ۔۔۔۔ اور اس کی آواز کا ہم اکثر مزاق اُڑایا کرتے تھے ۔۔۔ چنانچہ ۔۔۔۔اس نے بھی اسی دوست کی آواز میں بات کرنے کا فیصلہ کر لیا ۔۔۔۔اور تھوڑی سی مشق کے بعد آخر وہ۔۔۔۔۔۔ایسا کرنے میں کامیاب ہو گیا۔۔۔۔ جب اسے یقین ہو گیا کہ اب وہ باآسانی اس دوست کی آواز نکال لے گا تو پھر کچھ دیر بعد اس نے فوزیہ باجی کو مسیج بھیجا ۔۔۔ کہ کیا حکم ہے میری آقا۔۔۔۔ کہتا ہے کہ مسیج بھیجنے کی دیر تھی کہ مجھے ۔۔۔۔۔۔۔۔ فوزیہ باجی کا فون آ گیا۔۔۔۔ اور اس دفعہ میں نے بڑے اعتماد سے اپنا سیل فون آن کیا۔۔۔اور اسی دوست کی آوازمیں بولا۔۔۔ جی فرمایئے۔۔۔ تو دوسری طرف سے فوزیہ باجی کی غصے میں ۔۔۔پھنکارتی ہوئی آواز سنائی دی ۔۔۔ وہ کہہ رہی تھی۔۔۔ دیکھو مسٹر تم جو بھی ہو میں تم کو یہ بتانا چاہتی ہوں کہ میں ایسی لڑکی ہر گز نہیں ہوں ۔۔۔۔اس لیئے آئندہ مجھے میسج بھجنے کی کوشش نہ کرنا۔۔۔۔ بھائی کہتا ہے کہ اس سے قبل کہ میں کوئی بات کرتا ۔۔۔۔۔ اس نے بڑے غصے سے فون بند کر دیا۔۔۔۔ لیکن اس کا لہجہ۔۔۔اس کے تیور۔۔۔سے صاف نظر آ رہا تھا کہ وہ مجھے موڈ دکھا رہی ہے ۔۔۔ اس لیئے میں نے فوراً ہی جوابی ۔۔ میسج پہ میسج دے مارا ۔۔۔ جس میں اس سے معزرت کے ساتھ ساتھ ۔۔۔ مختلف محبت بھرے اشعار بھی لکھے ۔۔۔
قصہ مختصر بھائی کہتا ہے کہ جلد ہی فوزیہ کا مسیج آگیا کہ آپ مجھ سے کیا چاہتے ہو؟ ۔۔توجواب میں بھائی نے لکھا کہ میں صرف آپ سے دوستی چاہتا ہوں۔۔۔اور اس طرح سلسلہ چل پڑا۔۔۔ اور ہوتے ہوتے فوزیہ باجی سے بھائی کی اچھی خاصی دوستی ہوگئی ۔۔سوری میں آپ کو یہ بتانا تو بھول ہی گئی کہ فوزیہ باجی کے پوچھنے پر بھائی نے انہیں بتایا تھا کہ وہ میڈیکل کا سٹوڈنٹ ہے اور ملتان میں رہتا ہے ۔۔۔ کہتا ہے میڈیکل کا نام سن کر وہ بڑی امپریس ہوئی ۔۔ اور یوں ان کی دوستی اور بھی گہری ہو گئی اور پھر آہستہ آہستہ بھائی فوزیہ باجی کو اپنے ڈھب پر لے آیا۔۔۔۔ اور پہل اسی نے کی اور ایک دن میسج پر بتایا کہ آج اس نے اپنی ایک کلاس فیلو کے ساتھ کسنگ کی ہے۔۔۔ پھر اس نے فوزیہ باجی سے بھی ایسے ہی بات پوچھی ۔۔۔ اور پھر تھوڑے ہی عرصے کے بعد فوزیہ باجی بھی بھائی کے ساتھ کھل گئی اور اسے اپنے معاشقوں اور کیئے گئے سیکس کے بارے میں میسج بھجنے لگی۔۔ اور پھر اس کے ساتھ فون سیکس کرنے لگی جو کہ بھائی نے پلان کے مطابق سب ریکارڈ کر لیئے تھے۔۔فون سیکس کے ساتھ ساتھ اس نے بھائی کو بھی ایک دو دفعہ آفر لگائی ۔۔۔ لیکن بھائی نے امتحانوں کو بہانہ بنا کر اس کومنع کر دیا۔۔۔ بھائی نے مجھے بتایا کہ فوزیہ بہت سیکسی اور چوداکڑ عورت ہے اور بہاولپور میں اس کے کافی آدمیوں کے ساتھ سیکس کیا ہوا ہے اور اس کے ساتھ سیکس کرنے کی اب اس کی باری ہے ۔۔۔
بھائی کی بات سن کر میں تو ہکا بکا رہ گئی۔۔۔ اور قبل اس کہ میں اس سے کچھ کہتی اس نے اپنے سیل فون سے فوزیہ کی ریکارڈنگ کی ہوئی بات سنائی دی۔۔۔ جس میں فوزیہ بھائی کے ساتھ فون سیکس کرتے ہوئے کہہ رہی تھی۔۔۔ جان ۔۔۔ مجھے کب چودو گے؟ میں تمہارے لن کے لیئے ترس گئی ہوں ۔۔۔ اسے میری پھدی میں ڈالو نہ ۔۔۔ بولو نہ کب ڈالو گے؟ تو دوسری طرف سے میں نے ایک باریک سی آواز سنی ( جو کہ بھائی کی تھی) ۔۔۔ اور وہ فُل مستی میں فوزیہ باجی سے کہہ رہا تھا ۔۔نہیں ڈارلنگ میں ایک دم سے اپنے لن کو تمہاری چوت میں نہیں ڈالوں گا۔۔۔ تو اس پر فوزیہ باجی کی مست آواز ابھری ۔۔۔۔ تو کہاں ڈالو گے؟ جہاں ڈالنا ہے جلدی سے ڈال بھی دو پلیززززززززززز۔۔۔۔۔ اتنی سی بات سنا کر بھائی نے فون والی بات آف کر دی اور میری طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگا۔۔۔ ہاں باجی اب کیا کہتی ہو؟ تو میں نے اس سے کہا ۔۔۔ ٹھیک ہے بھائی ۔۔۔ لیکن دیکھنا کہیں تمہیں لینے کے دینے نہ پڑ جائیں ۔۔۔ تو میری بات سن کر بھائی مسکراتے ہوئے کہنے لگا۔۔۔ اس بات کی تم چنتا ہی نہ کرو مائی ڈئیر ڈارلنگ باجی۔۔۔۔۔
اسی دن دوپہر کو میں نے فوزیہ باجی اور خالہ کے ساتھ بات کی شبی کے کو پڑھانے کے بارے میں بات کی ۔۔۔تو تھوڑی سی رد و کد کے بعد فوزیہ باجی نے بھائی کو پڑھانے پر آمادگی ظاہر کر دی۔۔۔لیکن اس نے ساتھ یہ شرط رکھی کہ وہ شبی کو صرف میری موجودگی میں ہی پڑھائے گی۔۔۔ چنانچہ اب میرے کمرے میں ۔۔۔ میرے سامنے بیٹھ کر بھائی نے بڑی شرافت کے ساتھ فوزیہ باجی سے پڑھنا شروع کر دیا۔۔۔ اسی طرح دو تین گزر گئے۔۔۔اور بھائی کی رویے کی وجہ سے فوزیہ باجی کو اس پر تھوڑا اعتبار آنا شروع ہو گیا ۔۔۔ پھر ایک دن ایسا ہوا کہ خالہ کے سسرال میں کسی کی ڈیتھ ہو گئی ۔۔۔ جہاں پر میں اور فوزیہ باجی شبی کی پڑھائی کی وجہ سے نہ جا سکیں ۔۔۔ چنانچہ خالہ کے ساتھ چھوٹے ماموں ان کی بیوی اور گڈی باجی روانہ ہو گئیں۔۔ اسی شام بھائی مجھ سے کہنے لگا کہ باجی کل میرا فوزیہ کو چودنے کا پروگرام ہے اس لیئے مہربا نی کر کے آپ نے مجھے تھوڑا موقع دینا ہے۔۔۔ تو میں نے اس سےکہا ٹھیک ہے میں تم کو پورا موقع دوں گی ۔۔۔ لیکن اس کے ساتھ میں تم دونوں کا لائیو سیکس شو بھی دیکھنا چاہوں گی ۔۔۔۔ میری بات سن کر بھائی نے میری ہاں میں ہاں ملائی اور پھر ہم دونوں نے اگلی صبع کے لیئے ایک پلان ترتیب دے دیا۔۔۔ جس کے مطابق میں نے بھائی کا سیکس شو دیکھنے کے لیئے کھڑکی کے پاس کھڑا ہوا جانا تھا اور بھائی نے فوزیہ باجی کے ساتھ سیکس کرتے وقت اسے عین کھڑکی کے پاس لے آنا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلے دن کی بات ہے کہ اس وقت میں کچن کی کھڑکی کے سا منے کھڑی اس انتظار میں تھی کہ کب فوزیہ باجی میرے کمرے میں داخل ہو ۔۔۔ مجھے زیادہ دیر تک انتظار نہیں کرنا پڑا ۔۔۔۔ کچھ ہی دیر بعد فوزیہ باجی اپنے کمرے سے نکل کر جیسے ہی میرے کمرے کی طرف جاتی ہوئی دکھائی دی ۔۔۔ میں بھی چپکے سے باہر نکلی اور اپنے کمرے کی کھڑکی کے پاس جا کھڑی ہوئی ۔۔۔چونکہ یہ وقت شبی کی پڑھائی کا ہوتا ہے اس لیئے کمرے میں ساری لاٹئیس آن تھیں جس کی وجہ سے مجھے تو کمرے کا منظر صاف دکھائی دے رہا تھا لیکن ۔۔۔ روشنی کی وجہ سے اندر سے باہر کا منظر نہیں نظر آتا تھا ۔۔۔۔۔۔ جیسے ہی میں کھڑکی کے پاس پہنچی تو مجھے اندر سے فوزیہ باجی کی آواز سنائی دی وہ کہہ رہیں تھیں کہ صبو کہاں ہے تو بھائی کہنے لگا ۔۔۔ کہ وہ کچن میں گئی ہیں اور ابھی آنے والی ہوں گی اس کے ساتھ ہی بھائی نے فوزیہ باجی کی طرف دیکھ کر جھوٹ ب ولتے ہوئے کہا کہ باجی آج تو آپ بڑی گریس فل لگ رہی ہیں اور خاص کر یہ لان کا سوٹ تو آپ پر بہت جچ رہا ہے ۔۔ پھر وہ تھوڑا آگے بڑھا اور لان کے سوٹ کو دیکھنے کے بہانے باجی کے پیٹ پر ہاتھ پھیر کر بولا ۔۔ خاصہ مہنگا سٹف لگ رہا ہے تو فوزیہ باجی اسی نخوت سے کہنے لگی ۔۔۔ تم نے درست پہچانا ۔۔۔ میں نے کبھی سستا سوٹ نہیں پہنا ۔۔پھر شبی کو کہنے لگی چل اب اپنی بکس نکال ۔۔۔اور خود اس کے سامنے دوسری کرسی پر بیٹھ گئیں ۔۔۔ میں نے دیکھا کہ بھائی نے اپنے بیگ سے بک نکالی اور پھر باجی کے سامنے وہ بک لے جا کر اس کے مموں کے ساتھ جوڑ دی اور کہنے لگا باجی آج یہ جیپڑ پڑھانا ہے ۔۔ اپنی بڑی سی چھاتی پر بھائی کا ہاتھ محسوس کر کے فوزیہ تھوڑی سی بدکی لیکن بھائی کو کچھ نہیں کہا ۔۔۔ اور اشارے سے اسے پڑھنے کے لیئے کہا۔۔۔ لیکن بھائی کا موڈ پڑھنے کو بلکل نہیں تھا اس لیئے وہ ایک بار پھر اپنی جگہ سے اُٹھا اور وہی کتاب فوزیہ باجی کے پاس لے گیا اور۔۔۔ اس سے قبل کہ وہ ان کے اور نزدیک آتا فوزیہ باجی ایک دم سخت لہجے میں بولیں ۔۔۔ بدتمیزی نہیں شبی۔۔۔ لیکن شبی نے ان کی بات سنی ان سنی کرتے ہوئے ان کے قریب چلا گیا ۔۔ لیکن اس دفعہ فوزیہ باجی چونکہ پہلے سے ہی ہوشیار تھی اس لیئے اس نے بھائی کو ہاتھ کے اشارے سے پرے ہٹایا ۔۔۔۔اور پھر کہنے لگی۔۔۔۔۔۔ آرام سے بیٹھو ورنہ میں تمہاری شکایت لگا دوں گی۔۔۔ اور باجی کی بات سن کر شبی جا کر اپنی کرسی پر بیٹھ گیا اور تھوڑی دیر بعد اس نے اپنے سر پر ہاتھ پھیرا ۔۔۔ یہ اس بات کی نشانی تھی کہ اب میں کمرے میں آ جاؤں ۔۔ چنانچہ شبی کا اشارہ پا کر میں کمرے میں داخل ہوئی اور جاتے ہی بڑے خوش گوار انداز میں بولی۔۔ اوہ سوری باجی ۔۔۔ آج چونکہ گڈی باجی گھر پر نہیں ہیں ۔۔اس لیئے مجھے ہی دوپہر کے کھانے کا بندوبست کرنا پڑ رہا ہے۔۔۔ پھر میں نے فوزیہ باجی کی طرف دیکھا اور کہنے لگی باجی اس کا ٹیسٹ لے لینا ۔۔۔ میری بات سن کر نک چڑھی فوزیہ نے ہاں میں سر ہلایا اور میں وہاں پر تھوڑی دیر بیٹھ کر پھر ہانڈی کا بہانہ کر کے واپس چلی باہر نکل گئی اور سیدھی کھڑکی کے ساتھ لگ کر کھڑی ہو گئی --
کچھ دیر بعد میں نے دیکھا کہ دیکھا کہ پڑھتے پڑھتے اچانک شبی نے اپنے پاؤں لمبے کیئے اور سامنے بیٹھی فوزیہ باجی کی گود میں رکھ دیئے ۔۔ادھر شبی کے پاؤں اپنی گود میں دیکھ کر نک چڑھی فوزیہ آگ بگولہ ہو گئی اور غضب ناک انداز میں شبی سے کہنے لگی ۔۔۔ اپنے پاؤں کو یہاں سے ہٹاؤ ۔۔۔ درنہ۔۔۔۔ تو شبی فوزیہ باجی کی طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگا۔۔۔ اگر نہ ہٹاؤں تو؟ اس پر باجی مزید غضب ناک انداز میں بولی۔۔۔ تو میں اُٹھ کر یہاں سے چلی جاؤں گی ۔۔۔اور اس بات کی شکایت نہ صرف اپنی امی سے بلکہ تمہارے بہن اور بہنوئی سے بھی جو کہ اتفاق سے میرا بھائی بھی ہے سے لگاؤں گی ۔۔۔ بہنوئی والی بات سن کر شبی نے اچانک خوف زدہ ہونے کی ایکٹنک کی اور کہنے لگا۔۔۔ نا باجی ایسا غضب نہ کرنا اور شریف بچوں کی طرح اپنے پاؤں کو وہاں سے ہٹا لیئے ۔۔۔ اور پڑھنے لگا۔۔۔۔۔ اسے پڑھتے دیکھ کر اچانک فوزیہ باجی نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔ یہ آج تمہیں کیا ہو گیا ہے شبی؟ تو شبی نے جیب پاس پڑا ہوا موبائل اُٹھایا ارور فوزیہ باجی کی طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگا۔۔۔ وہ دراصل باجی آج مجھے اپنی ایک معشوق بہت یاد آ رہی ہے۔۔۔ پھر خود ہی موبائل کھولا ۔۔۔ اور کہنے لگا۔۔۔ وہ حرام زادی بڑی سیکسی تھی ۔۔۔اور میرے خیال میں اس نے فوزیہ کی آواز والا فولڈر نکالا ۔۔۔۔۔۔۔اور ایک بار پھر اپنے پاؤں پسار کر فوزیہ کی گود میں رکھ دیئے۔۔۔
اپنی گودی میں شبی کے پاؤں کو دیکھتے ہی فوزیہ باجی آگ بگولہ ہو گئی اور اس نے بڑے غصے سے اس کے پاؤں کواُٹھا کر پرے پھینکا ۔۔۔۔ اور یہ کہتی ہوئی اُٹھ کر جانے لگی کہ ۔۔۔ حرامزدگی بھی کوئی حد ہوتی ہے ۔۔۔ جیسے ہی فوزیہ باجی نے دروازے کی طرف اپنا قدم بڑھایا تو بلکل فلمی سٹائل میں شبی نے اپنے موبائل کا والیم فُل کھولا ۔۔۔ اور بڑی بے نیازی سے فوزیہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگا۔۔۔۔ جانے سے پہلے باجی جان یہ تو سنتی جاؤ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی کمرے میں فوزیہ کی آواز گونجی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے کب چودو گے میری جان۔۔۔۔ ؟دوسری طرف باہر کی طرف قدم بڑھاتی ہوئی فوزیہ باجی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اپنی آواز سن کر ایک دم ٹھٹھک کر رُک گئی۔۔۔۔ اور پھر وہ بڑی پھرتی سے واپس ہوئی اور کسی چیل کی طرح واپس میز پر پڑے موبائل پر جھپٹا مارا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن موبائل وہاں پڑا ہوتا تو ملتا نا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شبی کو شاید باجی سے پہلے ہی اس اقدام کی توقع تھی اس لیئے جیسے ہی باجی نے موبائل پکڑنے کے لیئے جھپٹا مارا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شبی نے فورا ً ہی وہاں سے اپنے موبائل کو اُٹھا لیا ۔۔۔اور بھاگ کر واش روم کے دروازے کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا ۔۔۔اور کہنے لگا۔۔۔۔ اس بھول میں ہر گز نہ رہنا باجی کہ تمہارا یہ فون سیکس صرف اس موبائل میں ہی محفوظ ہے۔۔ بلکہ اس کی ایک کاپی میں نے اپنے کمپیوٹر اور دوسری کاپی میل بکس میں بھی محفوظ کی ہے ۔۔۔ اس کے ساتھ ہی اس نے موبائل میں کیا ہوا پاز کا بٹن آن کر دیا۔۔۔ اور دوسری طرف ۔۔۔۔ فوزیہ باجی کی سیکس میں ڈوبی ہوئی آواز گونجی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ کہہ رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔آؤ نا جان کہ میری پھدی سے گرمی کے مارے بھاپ اُٹھ رہی ہے۔۔۔۔اور میں نے فوزیہ باجی کی طرف دیکھا ۔۔۔ اپنی آواز سن کر اس کا گہرا سانولہ چہرہ تاریک تر ہو گیا تھا ۔۔۔ پھر میں نے دیکھا کہ کافی دیر تک وہ اپنے ہونٹ کاٹتی رہی پھر وہ بڑے ہی مجروح لہجے میں بولی ۔۔۔۔۔شبی۔۔۔۔ کیا تم ہی شہزاد ہو؟ تو شبی مسکراتے ہوئے دل ہاتھ رکھ کر بولا ۔۔۔ جی مس سیکسی میں ہی آپ کا شہزاد ہوں جو کہ ایم بی بی ایس کا سٹوڈنٹ اور آپ کے جسم کا سچا عاشق ہے۔
شبی کی بات سن کر فوزیہ باجی کے تاریک چہرے پر ایک لہر سی آ گئی ۔۔ اور اس سے قبل کہ وہ کچھ کہتی شبی اس سے کہنے لگا۔۔۔ میڈم پلیز۔۔اب اپنی چئیر پر بیٹھ جاؤ۔۔۔ فوزیہ باجی نے شبی کی بات سنی ان سنی کرتے ہوئے کہا کہ فرض کرو کہ میں تمہارے بات نہ مانوں تو تم کیا کرو گے؟ پھر خود ہی طنزیہ لہجے میں کہنے لگی ۔۔۔ میری آواز لوگوں کو یہ کہہ کر سناؤ گے کہ یہ ہے فوزیہ باجی میری خالہ کی بیٹی اور میری بہن کی نند ۔۔۔ جس کو میں نے دھوکے سے پھنسایا تھا۔۔۔۔ فوزیہ باجی کی بات سن کرشبی کہنے لگا ۔۔۔ کس زمانے کی بات کر رہی ہو باجی ۔۔۔ میں بھلا ایسا کیوں چاہوں گا ؟ پھر باجی کی آنکھو ں میں آنکھیں ڈال کر بولا۔۔۔۔ تم کہاں رہتی ہو پیاری باجی ۔۔۔ سنو اگر آپ نے میری بات نہ مانی تو میں صرف اور صرف اتنا کروں گا کہ ۔۔۔ آپ کے فون سیکس کی ساری فائلز ۔۔۔۔اپنے جعلی اکاؤنٹ سے یو ٹیوب اور اس جیسی باقی سائیٹس پر اپ لوڈ کر دوں گا ۔۔۔ اور پھر صرف چند بندوں کو یہ کہوں گا ۔۔ یار دیکھو کیا زمانہ آ گیا ہے فوزیہ باجی یو ٹیوب پہ خود ہی اپنے سیکس کے بارے میں بتا رہی ہے کہ اس کو کس کس نے چودا ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے یار کے ساتھ فون سیکس بھی کر رہی ہے۔۔۔۔ شبی کی بات سن کر فوزیہ باجی کو حالات کی سنگینی کا احساس ہوا اور وہ شبی کی طرف دیکھ کر بولی۔۔۔۔ بہت حرامی ہو تم۔۔۔۔ باجی کی گالی سن کر بھائی زرا بھی بے مزہ نہ ہوا ۔۔ بلکہ ہنس کر بولا ۔۔۔۔ کیا خیال ہے میڈم ۔۔۔ اب کرسی پر بیٹھا جائے؟ بھائی کی بات سن کر فوزیہ باجی نے ایک لمحے کے لیئے سوچا ۔۔۔۔اور پھر شبی کی طرف قہر بھری نظروں سے دیکھتی ہوئی کرسی پر بیٹھ گئی۔۔۔۔۔
جیسے ہی باجی کرسی پر بیٹھی ۔۔۔۔ تو شبی نے دوبارہ سے اپنی ٹانگوں کو لمبا کیا اور سامنے پڑے میز پر رکھ دیا ۔۔۔ پھر باجی سے مخاطب ہو کر کہنے لگا۔۔۔۔ آپ نے میری ٹانگوں کو جہاں سے اُٹھا کر اس میز پر رکھا تھا ۔۔اب انہیں دوبارہ وہیں پر رکھ دو۔۔۔۔ اس کی بات سن کر فوزیہ باجی نے بڑے غصے سے اس کی طرف دیکھا ۔۔۔اور پھر شبی کی ٹانگیں اپنی گود میں رکھ لیں۔۔۔۔ اس کے بعد شبی بولا۔۔۔۔ باجی آپ سے ایک درخواست ہے کہ غصے والے پوز دینا چھوڑ دیں۔۔۔اور اب میری دائیں ٹانگ کو پکڑ کر۔۔۔۔ اپنی دونوں ٹانگوں کے درمیان والی جگہ پر رکھ دیں ۔۔۔۔اور فوزیہ باجی نے ایسے ہی کیا ۔۔۔ پھر بھائی فوزیہ باجی سے کہنے لگا۔۔۔۔ اب میرے پاؤں کے انگھوٹھے کو پکڑ کر اپنی ۔۔۔۔ پھدی پر رگڑو۔۔۔۔ بھائی کی یہ بات سن کر فوزیہ باجی کہنے لگی ۔۔ شبی دیکھو تم حد سے آگے بڑھ رہے ہو۔۔تو بھائی جواب دیتے ہوئے بولا۔۔۔نو نو ۔۔۔ میڈم ابھی تو شروعات ہوئی ہے۔۔۔ اور آپ ابھی سے حد کی بات کر رہی ہو۔۔۔ پھر بولا ۔۔۔ جو آپ سے کہا گیا ہے وہ کرو پلیززززززز۔۔۔۔ اور پھر میرے دیکھتے ہی دیکھتے فوزیہ باجی نے بھائی کا انگھوٹھا پکڑا ۔۔۔اور اپنی چوت پر پھیرنے لگی۔۔۔
کچھ دیر بعد بھائی بولا۔۔۔۔ ہوں ۔۔ باجی آپ اتنی دیر سے میرا انگھوٹھا اپنی پھدی پر رگڑ رہی ہو ۔۔۔۔۔لیکن ۔۔۔ آپ کی پھدی ابھی تک گیلی کیوں نہیں ہوئی؟۔۔شبی کی بات کا فوزیہ باجی نے کوئی جواب نہیں دیا۔۔۔۔ بس اس کی طرف دیکھتے ہوئے اپنی چوت پر اس کا انگھوٹھا رگڑتی رہی ۔۔ تھوڑی دیر بعد ۔۔۔ شبی کہنے لگا ۔۔مزہ نہیں آ رہا باجی۔۔۔۔ اب ایسا کریں کہ اپنی شلوار کا نالہ کھولیں ۔۔۔ شبی کی بات سن کر فوزیہ باجی بڑے ہی سخت لہجے میں کہنے لگیں ۔۔۔۔ کیا بک رہے ہوشبی۔۔۔ اس پر شبی ان سے بھی اونچی آواز میں بولا۔۔۔ جیسا کہا ہے کرو۔۔ شبی کی اونچی آواز سن کر باجی ایک دم گھبرا گئی۔۔۔اور کہنے لگی ۔۔تم آرام سے نہیں بول سکتےتھے۔۔صبو نے سن لیا تو؟اس پر شبی ایک شیطانی مسکراہٹ کے ساتھ بولا۔۔۔ آپ باجی کے سننے سے گھبرا رہی ہو ۔۔۔ سوچو ۔۔۔ جب آپ کی آواز آپ کی ساری سٹوڈنٹ۔۔۔اور آس پڑوس کے لوگ ۔۔۔اور فیملی والے سنیں گے تو کیا ہو گا؟؟؟؟؟؟؟۔۔۔ بھائی کی بات سن کر فوزیہ باجی کی رہی سہی اکڑ بھی ختم ہو گئی۔۔۔اور وہ بڑے ہی التجائیہ لہجے میں شبی سے کہنے لگی۔۔۔۔ ایسا نہیں کرنا پلیززززز ۔۔۔ورنہ میں تو مر جاؤں گی ۔۔۔اس پر شبی کہنے لگا۔۔۔آپ چاہتی ہو نا کہ میں ایسا نہ کروں ؟ تو جیسا میں کہہ رہا ہوں ویسا ویسا کرتی جائیں اب چلیں شاباش ۔۔۔ اپنی شلوار کا نالہ کھولیں ۔۔۔اس پر فوزیہ باجی کہنے لگیں میں نالہ نہیں پہنتی۔۔۔ تو شبی بولا یہ تو اور بھی اچھی بات ہے چلیں اب اپنی شلوار اتار یں۔۔۔ شبی کی بات سن کر فوزیہ باجی نے بغیر حیلہ و حجت کے اپنی شلوار گھٹنوں تک اتار دی۔۔۔ یہ دیکھ کر شبی کہنے لگا۔۔۔۔۔ پوری شلوار کیوں نہیں اتاری۔۔۔ تو وہ بولی۔۔۔ صبو نہ آ جائے اس لیئے۔۔۔ اور پھر اس نے شبی کا دائیں پاؤں پکڑ کے اپنی ننگی چوت پر رکھ دیا۔۔۔۔اور اسے ہولے ہولے رگڑنے لگی۔۔۔۔ تھوڑی دیر بعد شبی کی آواز گونجی ہو کہہ رہا تھا ۔۔۔ باجی تیری چوت گرم ہونا شروع ہو گئی ہے۔۔۔ اس لیئے اب میرے انگھوٹھے کو اپنی چوت کے اندر لے جا۔۔۔ شبی کی بات سن کر فوزیہ باجی تھوڑا سا آگے کو کھسکی ۔۔۔۔اور پھر اپنی ٹانگیں مزید کھو ل کر شبی کے انگھوٹھے کو اپنی چوت میں لے گئی۔۔۔ اب شبی بولا۔۔۔۔ باجی میرا انگھوٹھا کہاں ہے ۔۔۔تو فوزیہ باجی پھنسی پھنسی آواز میں بولی۔۔ جہاں تم نے کہا تھا۔۔۔ تو شبی کہنے لگا ۔۔۔ نہیں جگہ بتاؤ۔۔۔۔ تو فوزیہ باجی ہولے سے بولی۔۔۔ میری چوت میں ہے۔۔۔ تو شبی کہنے لگا۔۔۔ اپنی پھدی میں میرا انگھوٹھا لیکر مزہ آ رہا ہے۔۔ تو فوزیہ باجی نے ہاں میں سر ہلا دیا۔۔۔ پھر شبی کہنے لگا۔۔۔۔ اب میرے انگھوٹھے کو تھوڑا اور آگے لے جاؤ۔۔ اور اس کو اپنی پھدی میں لے کر آگے پیچھے کرو ۔۔۔ جیسے کہ تمہارے اندر لن گیا ہو۔۔۔۔
شبی کی بات سن کر فوزیہ باجی تھوڑا اوپر کو اُٹھی ۔۔۔ اور بھائی کے انگھوٹھےکو اپنی پھدی میں ایڈجسٹ کرتے ہوئے بولی۔۔۔۔اس طرح تو تمہارے پاؤں کا سارا پنجہ اندر چلا جائے گا ۔۔۔تو بھائی کہنے لگا۔۔۔۔ جانے دو۔۔۔ اور پھر میں نے دیکھا کہ فوزیہ باجی نےایک اپنا ایک پاؤں ز مین پر رکھا اور دوسرے کو کرسی پر رکھے رکھے ہاتھ سے بھائی کے پاؤں کا انگھوٹھا ۔۔۔اپنی پھدی کے درمیان میں رکھا۔۔۔ اور اس پر اوپر نیچے ہونے لگی۔۔۔۔ دور سے مجھے باجی کی پھدی تو نظر نہ آ رہی تھی ۔۔ لیکن وہ جس حساب سے بھائی کے انگھوٹھے پر اُٹھک بیٹھک کر رہی تھی اس سے مجھے اچھی طرح اندازہ ہو گیا کہ فوزیہ باجی واقعی ہی ایک چداکڑ عورت تھی۔۔۔۔
کچھ دیر اوپر نیچے ہونے کےبعد فوزیہ باجی بھائی سے کہنے لگی ۔۔۔اب میں کرسی پر بیٹھ جاؤں؟ تو بھائی کہنے لگا وہ کیوں؟ تو وہ بولی۔۔۔صبو نہ آ جائے۔۔۔ یہ سن کر بھائی بولا۔۔۔ ٹھیک ہے آپ نیچے اتر آؤ۔۔۔ اور فوزیہ باجی نے بھائی کا انگھوٹھا اپنی چوت سے نکالا اور اس کے پاؤں کو ایک طرف کر کے دوبارہ سے کرسی پر بیٹھ گئی۔جیسے ہی فوزیہ باجی نے بھائی کا انگھوٹھا اپنی چوت سے نکالا تو میں روشنی میں میں دیکھا کہ بھائی کا انگھوٹھا فوزیہ باجی کی چوت کے پانی سے چمک رہا تھا۔ بھائی نے بھی اپنے انگھوٹھے کی طرف دیکھا اور فوزیہ باجی سے بولا۔۔۔ چوت میں گرمی آ گئی ہے تو فوزیہ باجی نے ہاں میں سر ہلا دیا ۔۔۔ اس کے ساتھ ہی بھائی نے کھڑکی کی طرف دیکھتے ہوئے ایک بار پھر مخصوص انداز میں اپنے سر پر ہاتھ پھیرا ۔۔۔۔ جسے دیکھ کر میں نے کھڑکی چھوڑی اور باہر سے ایسے ہی گانا گاتی ہوئی دروزہ تک آگئی مقصد یہ تھا کہ وہ لوگ ہوشیار ہو جائیں۔۔۔پھر تھوڑا رک کر میں اندر کمرے میں داخل ہوئی تو دیکھا کہ شبی کتاب پر جھکا پڑھ رہا تھا اور باجی سامنے کرسی پر بیٹھی تھی۔۔۔ چنانچہ حسبِ معمول میں بڑے خوش گو ار موڈ میں فوزیہ باجی سے بولی۔۔۔۔ باجی بچہ کیسا جا رہا ہے؟ تو باجی نے بجائے جواب دینے کی بجائے سر ہلا دیا ۔۔۔ اور پھر میں باجی کے ساتھ ہی دوسری کرسی پر بیٹھ گئی۔۔۔۔ کچھ دیر بعد اچانک ہی شبی نے کتاب سے اپنا سر اُٹھایا اور میری طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگا۔۔۔ باجی مجھے یاد نہیں رہا ۔۔ کل کمیٹی والی باجی آئیں تھیں۔۔۔ بھائی کا اتنا کہنا تھا کہ میں نے ایک دم چونکنے کی اداکاری کرتے ہوئے کہا۔۔۔ ارے ہاں ۔۔ مجھے یاد آ گیا ۔۔۔۔ پھر میں فوزیہ باجی کی طرف متوجہ ہوئی اور ان سے کہنے لگی۔۔۔ باجی۔۔۔۔اجازت ہو تو میں کچھ دیر میں آتی ہوں۔۔۔ تو باجی کے بولنے سے پہلے ہی شبی کہنے لگا۔۔۔ ۔۔۔ ٹھیک ہے باجی آپ جاؤ۔۔ تو میں نے شبی کو ڈانٹ کر کہا۔۔ میں تم سے نہیں ۔۔ بلکہ فوزیہ باجی سے پوچھ رہی ہوں۔۔۔اس پر فوزیہ باجی نے ایک پھیکی سی مسکراہٹ بولی۔۔۔ کوئی بات نہیں تم ہو آؤ۔۔۔ اور پھر میں نےشبی کو کہا شبی زرا دروازے کو کنڈی لگا لو۔۔۔ تو شبی کاہلی سے بولا۔۔۔آپ خود ہی باہر سے کنڈی لگا لینا ۔۔۔ کیونکہ میں اس وقت پڑھ رہا ہوں۔۔۔
یہ سن کر میں نے ڈرامہ کرتے ہوئے اس سے کہا کہ بڑے ہڈ حرام ہو تم۔۔۔اور پھر باہر نکل گئی پھر دروازے پر جا کر میں نے کنڈی کی آواز پیدا کی اور ۔۔۔ واپس چلتی ہوئی کھڑکی کے پاس آ گئی۔
اندر جھانک کر دیکھا تو فوزیہ باجی کرسی پر بیٹھی شبی کی طرف دیکھ رہی تھی۔۔ تب شبی ان سے کہنے لگا۔۔۔ایک بات تو بتاؤ باجی ۔۔۔ آپ ہر فون سیکس میں اپنے آپ کو یہ کیوں کہتی تھیں کہ میں (bitch) "بچ " ہوں ۔۔ مجھے اس کا مطلب بتاؤ گی پروفیسر صاحبہ؟ اس پر فوزیہ باجی نے بھائی کی طرف دیکھا اور کہنے لگی اب میں تمہیں اس کا مطلب کیا سمجھاؤں ۔۔۔ ویسے بچ کتیا کو کہتے ہیں ۔۔۔ اس کے ساتھ ہی بھائی نے پاس پڑا فون اُٹھایا اور سپیکر آن کر دیا ۔۔ا سی لمحے شہوت میں ڈوبی ہوئی فوزیہ باجی کی آواز گونجی۔۔۔۔ وہ کہہ رہی تھی۔۔۔میری جان میں تمہاری بچ ہوں۔۔۔فوراً ہی بھائی نے فون کو پاز کیا ۔۔۔اور فوزیہ باجی کی طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگا۔۔ چلو پروفیسر۔۔ میری کتیا بن جاؤ ۔۔ ۔۔۔ بھائی کی بات سن کر فوزیہ باجی بلا چوں و چرا کیے کرسی سے اُٹھی اور زمین پر کتیا کی طرح چل کر بھائی کی طرف بڑھنے لگی ۔۔۔یہ دیکھتے ہی بھائی نے دوبارہ سے فون آن کیا ۔۔۔ اب فوزیہ باجی کہہ رہی تھی ۔۔۔ میں سارے کپڑے اتار کے تمہارے پاس آؤں گی۔۔۔فوراً ہی بھائی نے فون کو پاز پہ کر دیا اور کہنے لگا ۔۔۔فوزیہ باجی کپڑے اتار کے میرے پاس آؤ۔۔۔ یہ سنتے ہی فوزیہ باجی اوپر اُٹھی اور فوراً ہی اپنے سارے کپڑوں کو اتار دیا۔۔اور پھر ننگی ہو کر اسی سٹائل میں بھائی کی جانب بڑھنے لگی۔۔اور میں نے دیکھا کہ ننگی فوزیہ کی بڑ ی بڑی چھاتیاں اس کے سینے پر جھول رہی تھیں ۔۔۔۔ ۔۔اور وہ ہولے ہولے چل رہی تھی۔۔ جیسے ہی فوزیہ باجی بھائی کے قریب پہنچی۔۔۔ بھائی نے دوبارہ سے پاس پڑا ہوا فون اُٹھایا اور ۔۔۔ اسے اَن پاز کر دیا۔۔۔ کمرے میں ایک بار پھر فوزیہ کی آواز آواز گونجی ۔۔۔۔ وہ کہہ رہی تھی۔۔۔میں تمہارے پاس آ کر سب سے پہلے میں تم کو اپنی موٹی گانڈ کے درشن کرواؤں گی۔۔۔۔۔ ۔۔۔ جسے دیکھ کر تم حیران رہ جاؤ گے۔۔۔۔ فوزیہ باجی کو یہ آواز سنا کر بھائی نے پھر سے اسے پاز کیا اور اس سے پہلے کہ بھائی کچھ کہتا فوزیہ باجی ایک دم گھومی اور ۔۔بھائی کے سامنے اپنی گانڈ کر دی۔۔۔۔واؤ۔۔۔ فوزیہ باجی کی ‘H” شیپ والی مربع شکل کی گانڈ تھی جو اس کے جسم پر بہت دلکش لگ رہی تھی اور مجھے معلوم تھا کہ شبی تو باجی کی گانڈ کا پہلے سے ہی دیوانہ تھا اس لیئے۔۔۔ جیسے ہی باجی نے اپنی ایچ شیپ کی گانڈ کو بھائی کے سامنے کیا۔۔۔ اسے دیکھ کر بھائی تو پاگل ہو گیا ۔۔۔اور بے اختیار اس نے اس پر ہاتھ پھیرنا شروع کر دیا۔۔۔ پھر پتہ نہیں اس کے دل میں کیا آئی کہ اس نے باجی کی گانڈ پر تھپڑ مارنے شروع کر دیئے۔۔اور ساتھ ساتھ یہ بھی کہتا جاتا بہن چود ۔۔۔ ما در چود فوزیہ تیری گانڈ واقعی ہی بڑی فٹ ہے
۔۔۔ادھر دوسری طرف بھائی کے ہر تھپڑ پر باجی کے منہ سے آواز نکلتی ۔۔۔ہائے۔۔۔اوئی۔۔۔۔۔ اور وہ اپنی گانڈ کو مزید بھائی کی طرف کرتی جاتی تھی۔۔۔ کافی سارے تھپڑ مارنے کے بعد جب بھائی نے باجی کی گانڈ پر تھپڑ مارنے بند کردیئے تو اچانک ہی فوزیہ نے اپنا منہ پیچھے کی طرف کیا اور شہوت بھری آواز میں بولی۔۔۔۔میری بنڈ نوں کُٹ۔۔۔( میری گانڈ کو مارو) ۔۔۔ تو بھائی کہنے لگا ۔۔۔ ضرور کٹاں گا پر اجے نہیں ( ضرور ماروں گا پر ابھی نہیں ) اور پھر باجی سے بولا ۔۔۔ بہن چود اپنے دونوں پہاڑیوں کو الگ الگ کرکے اب مجھے اپنی موری کے درشن کراؤ۔۔۔۔۔۔ بھائی کی بات سن کر فوزیہ نے جلدی سے اپنے دونوں ہاتھ پیچھے کیئے اور اپنی انگلیوں کی مدد سے اپنی بڑی سی بنڈ کی دونوں پہاڑیوں کو الگ الگ کر کے بھائی کی سامنے ہلے لگی۔۔۔ بھائی کے ساتھ ساتھ میں بھی دیکھا کہ باجی کی دونوں پہاڑیوں کے بیچ میں ایک بڑا سا سوراخ تھا ۔۔ جسے دیکھ کر بھائی اپنا منہ اس کے قریب لے گیا اور اس پر تھوک کر بولا۔۔۔ا یتھے لن پانا اے( یہاں لن ڈالنا ہے)۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی اس نے اپنی ایک انگلی باجی کو موری میں ڈال دی ۔۔اور بولا۔۔۔ بہن چودے تیری بنڈ بڑی کُھُلی اے۔۔۔کہڑے کہڑے یار نوں دیندی رہیں ایں؟ ( بہن چود تیری گانڈ بہت کھلی ہے کس کس یار سے مروائی ہے؟ ) اور پھر اس کے ساتھ ہی بھائی نے اپنی انگلی کو فوزیہ باجی کی گانڈ میں ان آؤٹ کرنا شروع کر دیا۔۔۔ یہ دیکھ کر فوزیہ باجی نے اچانک اپنا منہ پیچھے کی طرف کیا اور کہنے لگی۔۔۔۔ انگلی نا کم نئیں چلنا ۔۔اپنا لُل نوں پا۔۔۔ ما ں چودا۔۔۔۔۔ ( انگلی سے کام نہیں چلے گا اپنے لن کو ڈالو ۔۔۔۔ مادر چود) باجی کے منہ سے گالی سنتے ہی بھائی نے اپنی انگلی اس کی گانڈ سے نکالی۔۔۔اور اسے کھڑے ہونے کاحکم دیا۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی اس نے پاس پڑے ہوئے فون کی طرف جیسے ہی ہاتھ بڑھایا ۔۔۔ باجی نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا ۔۔اور اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔۔سنانے کی ضرورت نہیں مجھے سب یاد ہے۔۔۔اور پھر اس کے ساتھ ہی اس نے اپنی چھاتیوں کو ہاتھ میں پکڑا ۔۔۔اور بھائی کے منہ سے لگا کر بولی۔۔۔۔اپنی گانڈ د کھانے کے بعد ہمیشہ ہی میں تم سے اپنے نپلز کو چسواتی ہوں نا۔۔۔ بھائی نے ہاں میں سر ہلا اور ۔۔۔ ساتھ ہی فوزیہ کے نپلز چوسنے لگا۔۔۔ کچھ دیر بعد ۔۔۔ فوزیہ باجی نے بھائی کے منہ سے ایک نپل ہٹایا اور بولی۔۔۔۔ اس کے بعد میں تم اپنی پھدی دکھاتی ہوں نا ۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی۔۔۔ فوزیہ باجی اپنی ایک ٹانگ بھائی کی کرسی پر رکھی اور اپنی ننگی پھدی کو بھائی کے سامنے کر دیا ۔۔۔
اور بھائی کی طرح میں نے بھی فوزیہ باجی کی پھدی کی طرف دیکھا تو وہ خاصی کالی تھی۔۔۔ لیکن بہت ابھری ہوئی تھی ۔۔اس پر بالوں کو نام و نشان بھی نہ تھا ۔۔ بھائی نے اپنا ہاتھ بڑھا کر اس کی چوت اند ر کی طرف سے چیک کیا تو دیکھا کہ ہونٹوں کی طرح باجی کی چوت کے لب بھی خاصے موٹے اور باہر کو لٹکے ہوئے تھ ے بلکہ ایک دانے کے پاس والے ایریا میں تو فوزیہ کی پھدی کی پھدی کے لب۔۔۔ چیتھڑوں کی شکل میں لٹکے ہوئے تھے۔۔۔ یہ دیکھ کر بھائی نے اس کے دانے کو اپنی انگلیوں میں لیا اور کہنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہن چودے ۔۔۔ تیری پھدی دے تے پھڑکے لتھے ہوئے نے۔۔کنی والی مروائی آ؟ ( بہن چود تمھاری چوت کے چیتھڑے لٹک رہے ہیں کتنی دفعہ پھدی مروائی ہے) تو فوزیہ باجی مستی میں بولی بہت دفعہ مروائی ہے اور آج تم سے مروانے لگی ہوں اس کے ساتھ ہی اس نے بھائی کے سر کو پکڑ کر اپنی چوت کی طرف دبایا ۔۔۔ پھر کہنے لگی۔۔۔ بولو میری پھدی مارو گے نا۔۔۔اور پھر کہنے لگی ۔۔۔۔ لیکن اس سے پہلے میری چوت کے پانی کو چیک کرو کہ کس قدر ذائقے دار ہے۔۔۔۔۔۔ پھر کہنے لگی۔۔۔۔میری پھدی کو چاٹ کے تم کنواری کڑی کی چوت کو بھول جاؤ گے۔۔۔ فوزیہ کی بات سن کر بھائی نے اس کی چوت سے منہ ہٹایا اور اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگا۔۔۔۔۔تم بھی تو کنواری ہو نا بہن چود۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس پر فوزیہ بولی۔۔۔۔ ہاں زمانے کی نظر میں ۔۔۔۔ میں کنواری ہوں لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور بات پوری کیئے بغیر اس نے ایک گرم سانس بھری اور کہنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہو چوس۔س۔سس۔س۔۔۔۔ فوزیہ کی چوت چوسنے کے کچھ دیر بعد۔۔۔۔۔ فوزیہ نے بھائی کے منہ کو اپنے سے ہٹایا اور بولی ۔۔۔۔۔۔ چل ہن اپنا لن وخا ( چلو اب اپنا لن دکھاؤ)
فوزیہ کی بات سن کر بھائی اپنی کرسی سے اُٹھا ۔۔ اور جلدی سے شلوار اتار کر فوزیہ باجی کے سامنے کھڑا ہو گیا۔۔ جیسے ہی باجی کی نظر بھائی کے جوان لن پر پڑی ۔۔۔تو اس کی آنکھوں میں ستائیش جھلک پڑی اور وہ لن کو اپنے ہاتھ میں لیکر کر اسے سہلاتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔۔۔ واہ ۔۔ اہیہ تو بہت وڈا اے( واؤ ۔۔ یہ تو بہت بڑا ہے ) اور پھر بھائی کی طرف دیکھتے ہوئے بولی۔۔۔۔ چوپاں (چوسوں ) تو بھائی کہنے لگا ۔۔۔ ہا ں بہن چود ۔۔چوپ ۔۔۔ یہ سن کر فوزیہ باجی نے اپنی زبان نکالی اور بھائی کے تنے ہوئے لن پر پھیر کر بولی۔۔۔۔ تیرا لن بڑے مزے دا اے ( تمہارا لن بہت مزے کا ہے) اپنے دونوں ہونٹ جوڑے اور بھائی کے لن پر رکھ کر آہستہ آہستہ اسے اپنے منہ کے اندر لے گئی۔۔۔۔اور پھر دور سے میں نے دیکھا کہ فوزیہ باجی کا منہ بھائی کے لن پر ۔۔۔تیزی سے اوپر نیچے ہو رہا تھا ۔۔۔۔
فوزیہ کچھ دیر تک بھائی کا لن چوستی رہی پھر وہ کھڑی ہو گئی اور کہنے لگی۔۔۔۔ تمہارے لن کو منہ سے باہر نکالنے پر دل تو نہیں کر رہا تھا ۔۔۔لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب بس۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی فوزیہ باجی نے سامنے پڑے ہوئے میز پر اپنے دونوں ہاتھ رکھ دیئے ۔۔۔ یہ دیکھ کر بھائی شرارت سے بولا۔۔۔۔ کی کراں ؟؟؟؟ ( کیا کروں ؟) تو بھائی کی بات سن کر فوزیہ باجی اپنا منہ پیچھے کر کے بولی۔۔۔۔۔۔۔ جو تمہارا جی کرتا ہے کرو ۔۔۔ چاہو تو پنے لن کو پہلے چوت میں ڈال لو۔۔۔۔۔ اور چاہو تو لن کو پہلے ۔۔۔۔۔ گانڈ میں ڈال دو۔۔۔۔ یہ تمہاری مرضی ہے ۔۔۔ ۔۔۔۔لیکن یہ بات سن کر کہ تم کو میری گانڈ اور چوت دونوں مارنی ہوں گی۔۔۔۔
فوزیہ باجی کی بات سن کر بھائی اس کے پیچھے آ کر کھڑا ہو گیا اور پھر اس کی ڈائیریکش کو میری طرف کرتے ہوئے اس نے فوزیہ کی گانڈ پر کافی سارا تھوک لگایا ۔۔۔۔ اور پھر اپنے لن کو بھی تھوک سے تر کر دیا ۔۔اور پھر۔۔اس کے ساتھ ہی ۔۔۔اس نے لن باجی کی گانڈ کی موری پر رکھا اور د ھکا لگا دیا۔۔۔۔اس کے ساتھ ہی بھائی کا لن پھلستا ہوا ۔۔۔ جڑ تک فوزیہ باجی کی گانڈ میں چلا گیا۔۔۔۔ جیسے ہی بھائی کا لن فوزیہ کی گانڈ میں داخل ہوا ۔۔۔ اس نے اپنا منہ پیچھے کیا اور کہنے لگی۔۔۔۔مینوں پہلے ای پتہ سی۔۔۔۔کہ ۔۔۔ پہلاں توں میری بنڈ ہی ماریں گا ( مجھے معلوم تھا کہ پہلے تم گانڈ ہی مارو گے۔۔۔) اور اس کے ساتھ ہی مستی کے عالم میں فوزیہ باجی نے اپنی گانڈ کو خود بخود آگے پیچھے کرنا شروع کر دیا۔۔۔۔۔پھر کچھ دیر بعد اس نے شبی کی طرف مُڑ کر دیکھا اور کہنے لگی ۔۔۔ میری بُنڈ تے چنڈاں مار( میری گانڈ پر تھپڑ مارو) فوزیہ کی بات سن کر شبی نے اس کی بڑی سی گانڈ پر تھپڑو ن کی برسات شروع کر دی اور ہر تھپڑ پر فوزیہ کہ منہ سے نکلتا ۔۔اوئی۔۔۔ ہائے ۔۔۔ اور مارو۔۔ اس طرح کچھ دیر تک فوزیہ باجی بھائی سے اپنی۔۔ گانڈ مرواتی رہی پھر۔۔ اچانک ہی اس نے اپنی گانڈ سے بھائی کا لن نکالا اور ۔۔۔ کہنے لگی چل ہن میری پھدی مار ( اب میری چوت مارو) اور اس کے ساتھ ہی اس نے بھائی کو اشارہ کیا اور بھائی میری طرف منہ کر کے میز پر لیٹ گیا۔۔۔ اس وقت بھائی کا لن اپنے پورے جوبن پر اُوپر کی طرف ہوا میں اُٹھا ہوا تھا ۔۔۔اور بھائی کے لن کو کھڑا دیکھ کر میری چوت میں مرچیں سی لگنا شروع ہو گیئں ۔۔۔
اور میری چوت بھی بھائی کے لن کے لیئے فریاد کرنا شروع ہو گئی ۔۔ لیکن میں نے اسے لفٹ نہیں کرائی ۔۔۔اور اندر کا نظارہ دیکھنے لگی ۔۔ اور میں نے دیکھا کہ فوزیہ باجی ا پنی دونوں ٹانگوں کو مزید چوڑا کر کے بھائی کے لن کے اوپر کھڑی ہو چکی تھی ۔۔ اور پھر اس نے لن کا نشانہ لیتے ہوئے اپنی پھدی کو بھائی کے لن پر رکھ اور ۔۔۔ دھیرے دھیرے اس پر بیٹھنے لگی۔۔۔۔اور کچھ ہی دیر میں وہ بھائی کے لن کو جڑ تک اپنی پھدی لے چکی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔اور پھر اس کے ساتھ ہی اس نے بھائی کے لن پر اُٹھک بیٹھک شروع کردی ۔۔۔اور میں بھائی کے خوبصورت اور جوان لن کو فویہ باجی کی چیتھڑے بھرے پھدی میں ان آؤٹ ہوتے ہوئے دیکھتی رہی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر کچھ ہی دیر بعد میں نے دیکھا کہ میرا بھائی بھی نیچے سے اُٹھ اُٹھ کر فوزیہ باجی کی چوت میں گھسے مار رہا تھا ۔۔۔۔ بھائی کے اس سٹائل کو دیکھتے ہی میں سمجھ گئی کہ ا ب وہ جانے والا ہے۔۔۔۔ میری طرح تجربہ کار فوزیہ نے بھی یہ بات محسوس کر لی تھی چنانچہ یہ بات محسوس کرتے ہی فوزیہ باجی بھائی کے لن سے اُٹھی اور زمین پر اکڑوں بیٹھ گئی۔۔۔۔ اور بھائی سے کہنے لگی۔۔۔۔۔۔۔جلدی سے فون سیکس کا آخری سین بھی مکمل کر لو۔۔۔ فوزیہ کی بات سن کر بھائی نے میز پر سے جمپ ماری ۔۔۔۔۔۔اور اپنے لن کو فوزیہ کے منہ کی طرف کرتے ہوئے مُٹھ مارنے لگا۔۔۔۔جبکہ دوسری طرف فوزیہ باجی اپنے منہ سے زبان نکالے بھائی کے چھوٹنے کی منتظر تھی۔۔۔ اور پھر چند ہی سیکنڈ کے بعد بھائی کے منہ سے سسکی سی نکلی اور ۔۔۔ پھر ۔۔۔۔اوہ ۔۔۔اوہ۔۔۔ کی آواز سے بھائی کے لن نے منی اگلنا شروع کر دی۔۔۔۔ بھائی نے اپنے لن کی ایسی ڈائیریکشن رکھی ہوئی تھی کہ۔۔۔۔ اس کے لن منی نکل کر سیدھی فوزیہ باجی کی زبان پر جمع ہوتی جا رہی تھی۔۔۔ اور جیسے ہی فوزیہ باجی کی زبان بھائی کی منی سے بھر گئی اس نے ایک بڑا سا گھونٹ بھرا ۔۔۔ اور ۔۔۔۔ بھائی کی ساری منی کو اپنے حلق سے اتار لیا۔۔اور اس کے ساتھ ہی بھائی کے لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑا ۔۔اور اسے منہ میں لے جا کر باقی ماندہ منی کو بھی چوس چوس کر پینی لگی۔۔۔۔ اتنا دلکش منظر دیکھ کر میں نے بے اختیار اپنی چوت پر ہاتھ مارا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو ۔۔۔ وہ بھی پانی سے بھری ہوئی تھی ۔۔۔۔ ایسا لگ رہا تھا کہ بھائی نے فوزیہ کو نہیں بلکہ مجھے چودا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس دن کے بعد جتنے دن بھی فوزیہ باجی گھر میں رہی ۔۔ اب
انہوں نے بھائی کو میرے کمرے کی بجائے اپنے کمرے میں بلا کر پڑھانا شروع کر د یا
تھا ۔۔ لیکن میری اطلاع کے مطابق وہ بھائی کو پڑھاتی کم اور اس سے کرواتی زیادہ
تھی ۔۔۔اور بقول بھائی کے۔۔۔ فوزیہ باجی آگے سے کروائے نہ کروائے ۔۔۔لیکن ہر دفعہ
پیچھے سے ضرور کروایا کرتی تھی ۔۔۔ ۔۔۔ بھائی کے ساتھ فوزیہ باجی کی فکنگ کا ہمیں
ایک فائدہ یہ ہوا تھا کہ اب انہوں نے گھر والوں کے ساتھ بد تمیزی کے ساتھ پیش آنا
چھوڑ دیا تھا ۔۔۔اور اس دوران ان کا ۔۔۔ خصوصاً میرے ساتھ رویہ بہت ہی دوستانہ ہو
گیا تھا۔۔۔دوسری طرف چونکہ فوزیہ باجی اپنی کچھ چھٹیاں پہلے ہی بہاولپور میں اپنی
کسی دوست کی شادی پر گزار آ ئی تھیں اس لیئے گھر میں آ کر اب ان کی بہت کم چھٹیاں
باقی رہ گئیں تھیں ۔۔۔لیکن آفرین ہے ان پر کہ انہوں نے اپنی چھٹیوں کے ان بقایا
دنوں کا خوب استعمال کیا تھا ۔ ۔۔۔۔ ۔۔جبکہ دوسری طرف بھائی کہتا ہے اس نے بھی جی
بھر کر فوزیہ باجی کے ساتھ سیکس کیا ہے ۔۔۔۔۔ بلکہ ان کی موٹی گانڈ مار مار کر اپنے
بچپن کی ساری حسرتیں نکال دی تھیں ۔۔۔۔۔۔ یہاں پڑھنے والوں کے لیئے ۔۔۔میں یہ بات
بھی واضع کر دوں کہ فوزیہ باجی کے ساتھ چودائی کے دوران بھائی نے اپنی پڑھائی
کوچھوڑا تو نہ تھا ۔۔۔ لیکن اس دوران -------- --- پڑھائی
کی طرف اس کی توجہ بہت کم ہو گئی تھی ۔۔۔۔
جس دن فوزیہ باجی واپس بہاولپور چلی گئی تھی ۔۔۔ اسی دن میں نے بھائی کو کان سے پکڑا اور اسے اپنے پاس بٹھا کر سختی کے ساتھ کہنے لگی۔۔۔۔۔۔۔ بہت عیاشی کر لی تم نے ۔۔۔ ۔۔۔ اس لیئے اب دوبارہ سے پڑھنے کے لیئے تیار ہو جاؤ۔۔۔ میری بات سن کر بھائی کہنے لگا ۔۔ ایسی بات نہیں ہے باجی ۔۔۔اس دوران بھی تو میں پڑھتا رہا ہوں نا۔۔تو میں نے اس کو کہا ۔۔۔ میری جان وہ پڑھنا اور تھا ۔۔۔کیونکہ اس وقت تمہارا سارا دھیان اس کالی کلوٹی کی بُنڈ کی طرف لگا رہتا تھا۔۔۔ اب جبکہ فوزیہ اور اس کی کالی بنڈ تم سے دور ہو گئی ہے اس لیئے آج سے تم دل لگا کر پڑھنا شروع کر دو۔۔ ورنہ۔۔۔۔۔۔۔۔ میری وارننگ سن کر بھائی ایک بار پھر سیریس ہو گیا ۔۔۔ اور دوبارہ سے جی لگا کر پڑھنے لگا۔۔۔پھر اسی دوران ایک اور واقعہ ہوا۔۔ اور وہ یہ کہ انہی دنوں ہمارے بڑے ماموں جو کہ ہمارے شہر کے پاس ہی ایک چھوٹے سے قصبے میں رہتے تھے اپنی بیٹی جس کا نام عافیہ تھا کو لے کر رہنے کے لیئے ہمارے گھر آ گئے۔۔ یہاں میں عافیہ کے بارے میں آپ کو بتا دوں کہ بچپن سے ہی عافیہ بہت خوبصورت گوری چٹی ۔۔۔ اور بھر ے بھرے جسم کی مالک بچی تھی ۔۔ اس کا چہرہ بہت معصوم ۔۔۔ اور ۔۔۔ اس کی آواز بہت ہی نرم اور سریلی تھی۔۔۔جس کی وجہ سے اکثر ہی بڑے ماموں اسے اپنے پاس بلا کر کہا کرتے تھے کہ ۔۔۔ عافی۔۔۔ گالی کڈ۔۔۔ اور عافیہ اپنی توتلی زبان میں ۔۔۔ گالیاں دینا شروع ہو جاتی تھی ۔۔تیر ی بین (بہن ) دا پھدا۔۔۔۔تیری ماں نوں لن وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔ اور یہ گالیاں دیتے ہوئے عافیہ اتنی معصوم اور ۔۔یہ گالیاں اس کے منہ سے اتنی بھلی لگتیں تھیں ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ کہ ۔۔۔ جو شخص بھی ایک دفعہ عافیہ کے منہ سے یہ گالیاں سن لیتا تھا ۔۔۔۔تو انہیں سن کر وہ اتنا محظوظ ہوتا تھا کہ وہ عافیہ سے ایک بار پھر گالی کی فرمائیش ضرور کرتا تھا۔۔۔۔اور پھر ہوتے ہوتے یوں ہوا کہ عافیہ بڑی ہو گئی۔۔۔۔ لیکن گالی دینے کی اس عادت اتنی پختہ ہو چکی تھی کہ اب وہ نا چاہتے ہوئے بھی عام بول چال میں گالیاں دے دیتی تھی۔۔۔اور مزے کی بات یہ ہے کہ آج بھی اس کے منہ یہ گالیاں اتنی ہی اچھی اور بھلی لگتی تھیں کہ جتنی ۔۔۔ کبھی بچپن میں لگا کرتی تھیں ۔۔۔وجہ اس کی یہ تھی کہ عافیہ کی آواز ابھی تک ویسے کی ویسے نرم ۔۔سریلی اور لوچ دار تھی ۔۔۔ جس کی وجہ سے اس کے منہ سے گالی سنتے ہوئے مزہ آتا تھا۔۔۔۔۔۔۔ کچھ عرصہ قبل عافیہ نے میٹرک کا امتحان دیا تھا ۔۔ لیکن کسی وجہ سے اس کی انگلش اور فزکس میں کمپارٹمنٹ آ گئی تھی ۔ بڑے ماموں بتاتے ہیں کہ اس کمپارٹمنٹ کو کلئیر کرنے کے لیئے عافیہ نے بہت محنت تھی جس کی وجہ سے اس کے دونوں پرچے بہت اچھے ہو گئے تھے ۔۔۔ ادھر عافیہ جیسے ہی سپلی کے پیپر دے کر فارغ ہوئی اس نے بڑے ماموں کو ساتھ لیا اور کچھ دن رہنے کے لیئے ہمارے ہاں آ گئی تھی۔۔۔۔ ۔۔یہاں میں ایک اور بات بھی آپ لوگوں کے گوش گزار کر دوں ۔۔ اور وہ یہ کہ بچپن سے ہی عافیہ کی میرے ساتھ بہت اچھی دوستی تھی ۔۔۔۔۔ اور شادی سے پہلے جب بھی وہ ہمارے گھر آیا کرتی تھی تو اکثر عافیہ میرے ساتھ ہی سویا کرتی تھی۔۔۔۔لیکن اب چونکہ میری شادی ہو چکی تھی اس لیئے ۔۔۔ اب کی دفعہ عافیہ میری بجائے گڈی باجی کے ساتھ سو رہی تھی۔۔۔۔کیونکہ ظاہر ہے کہ میں شادی شدہ ہونے کی وجہ سے اپنے خاوند کے ساتھ سویا کرتی تھی ۔۔۔ اس لیئے میرے کہنے پر مجبورا ً عافیہ نے گڈی باجی کے ساتھ سونا منظور کر لیا تھا ۔۔۔ اور جیسا کہ آپ لوگ جانتے ہیں کہ گڈی باجی کا اور میرا کمرہ ساتھ ساتھ واقعہ تھا ۔۔ بس بیچ میں ایک واش روم پڑتا تھا جو کہ ہم دونوں کے مشترکہ استعمال میں تھا۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ہاں تو میں عرض کر رہی تھی کہ بڑے ماموں کے ساتھ عافیہ کو دیکھ کر میں بڑی خوش ہوئی لیکن۔۔۔اس کے ساتھ ساتھ تھوڑا حیران بھی ہوئی تھی ۔۔۔ کیونکہ میں نے چند ماہ پہلے کی عافیہ ۔۔۔اور آج کی عافیہ میں بہت زیادہ فرق محسوس کر لیا تھا ۔۔ پہلے عافیہ کی لُک ایک چھوٹی بچی جیسی آتی تھی جبکہ اس وقت جو عافیہ میرے سامنے کھڑی تھی ۔۔ اس عافیہ کی لُک ایک دم نوجوان لڑکی جیسی تھی ۔۔ مطلب یہ کہ عافیہ اب جوان ہو گئی تھی ۔۔ اس کا جسم پہلے بھی بھرا بھرا تھا ۔۔۔ جوانی کے آنے سے تھوڑا اور بھر گیا تھا۔۔۔ اس کے گال پہلے سے زیادہ سرُخ ہو گئے تھے ۔۔۔۔اور رنگ بھی پہلے سے زیادہ نکھر گیا تھا اور سینے کے ابھار بڑھنے سے اس کی چھاتیاں بہت شاندار نظر آ رہی تھیں۔۔۔۔۔ چھاتی کے ساتھ ساتھ اس کی باہر کو نکلی ہوئی راؤنڈ شیپ گانڈ اب پہلے سے زیادہ موٹی ہو گئی تھی۔۔ جیسا کہ آپ لوگ جانتے ہی کہ ہماری فیملی کے لوگ مذہبی اور کٹٹر قسم کے ہوتے ہیں اس لیئے اس وقت عافیہ نے اپنے اوپر ایک تنگ سی برقعہ نما عبا اور سر پر اسکارف پہنا ہوا تھا ۔۔۔ لیکن اس عبا کے نیچے اس نے تنگ موری والی تنگ شلوار کے ساتھ ٹائیٹ قمیض بھی پہنی ہوئی تھی ۔۔۔ اور اس تنگ موری والی شلوار میں۔۔۔ اس کی باہر کو نکلی ہوئی گانڈ بہت ہی زیادہ سیکسی لگ رہی تھی۔۔۔ اور عافیہ کو اس حلئیے میں دیکھ کر ۔۔ نا جانے کیوں میرے اندر شہوت کی بتی جلنے بجھنے لگ گئی تھی۔۔۔۔۔۔ اس وقت بڑے ماموں خالہ کے ساتھ باتیں کر رہے تھے کہ جب عافیہ دوڑ کر آئی اور میرے گلے کے ساتھ لگ گئی۔۔۔ جیسے ہی اس کا نرم جسم میرے جسم کے ساتھ ٹکرایا ۔۔۔۔ میرے اندر ایک سنسنی سی دوڑ گئی ۔۔ اور پھر نا چاہتے ہوئے بھی میں نے اس کی بڑی بڑی چھاتیوں کو اپنی چھوٹی سی چھاتیوں کے ساتھ چپکا لیا ۔۔۔ اس کام میں مجھے اتنی لذت ملی کہ کافی دیر تک ۔۔۔میں نے اس کو اپنے ساتھ چپکائے رکھا ۔۔۔اس کے نوخیز بدن کا لمس مجھے پاگل کر رہا تھا ۔۔۔ اس سے الگ ہونے پر میرا دل نہیں کر رہا تھا ۔۔۔لیکن پھر بادلِ نخواستہ میں اس سے الگ ہو گئی ۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ میں نے عافیہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔ کہ کس چکی کا آٹا کھاتی ہو سالی؟۔۔۔۔ میرے منہ سے اپنی تعریف سن کر وہ تھوڑا شرما سی گئی ۔۔۔اور کہنے لگی کہ آپ ایسا کیوں کہہ رہی ہو؟۔۔۔ تو میں نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا کہ وہ اس لیئے کہہ رہی ہوں میری شہزادی کہ تم پہلے سے زیادہ خوب صورت اور جوان ہو گئی ہو۔ اور پھر ہنس کر اس سے بولی ۔۔ اور سالی تیرے یہ لال لال گال دیکھ کر ان پہ چک ( دانت کاٹنے کو) مارنے کو دل کرتا ہے۔۔۔۔ میری بات سن کر عافیہ بھی ہنس پڑی اور کہنے لگی۔۔۔ ۔۔۔چھوڑیں نا باجی ۔۔ اس سے قبل کہ میں اس سے کوئی اور بات کرتی ۔۔۔۔ باہر شور کو آواز سن کر شبی بھائی بھی کمرے سےباہر نکل آیا ۔۔۔۔اور پھر ماموں کو سلام کر کے عافیہ کے پاس بیٹھ گیا ۔۔۔اور ادھر ادھر دیکھ کر اسے کہنے لگا۔۔
۔۔ عافیہ اک گالی تے دے (عافیہ ایک گالی تو دو) بھائی کی منہ سے گالی کا لفظ سن کر عافیہ نے بڑی سخت نظروں سے اس کی طرف دیکھا اور کہنے لگی ۔۔۔ ابے دا پتہ ای نا ( ابو کا پتہ ہے نا) تو بھائی کہنے لگا ۔۔ لو جی ماموں نے ہی تو تم کو گالیوں کی طرف لگایا تھا۔۔۔ پھر ماموں کی طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگا۔۔ چل دے نا۔۔۔ بھائی کی بات سن کر عافیہ نے ایک نظر اپنے ابو کی طرف دیکھا اور پھر بھائی کی طرف منہ کر کے بولی ۔۔۔ تیری بین دا پھدا ( تمہاری بہن کی چوت) اس پر میں نے احتجاج کرتے ہوئے کہا۔۔۔ کتنی بری بات ہے عافیہ ۔۔۔ تمہیں گالی دینے کے لیئے بھائی نے کہا تھا ۔۔۔ اور تم نے بھائی کو گالی دینے کی بجائے مجھے ہی گالی دے دی ۔۔۔۔۔۔۔ میری بات سن کر گڈی باجی سمیت پاس بیٹھے ہوئے سب لوگ ہنس پڑے ۔۔۔ اس کے بعد گڈی باجی کہنے لگی ۔۔ کیا بات ہے عافیہ !!۔۔۔گالی چاہے جس کو بھی ملی ہے۔۔۔۔ پر تمہارے منہ سے بین دا پھدا سن کر مزہ آ گیا۔۔۔ تھوڑی دیر بیٹھنے کے بعد میں نے بھائی کو اندر جا کر اپنا سبق یاد کرنے کو کہا ۔۔۔اور بھائی برا سا منہ بنا کر وہاں سے اُٹھ گیا۔۔ اس پر عافیہ کہنے لگی۔۔۔۔ کیوں بے چارے پہ اتنا ظلم ڈھا رہی ہو باجی۔۔۔۔لیکن میں نے عافیہ کی بات سنی ان سنی کر دی ۔۔۔ اور اس کی طرف دیکھنے لگی حقیقت یہ کہ اس معصوم کلی پر میرا دل آ گیا تھا ۔میرے اندر کی شہوت ذادی بار بار اس کے رس بھرے ہونٹوں کو دیکھے جا رہی تھی ۔ اور اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ ابھی اور اسی وقت اس کے رس بھرے ہونٹوں کا سارا رس چوس لے ۔۔۔ لیکن۔۔
چونکہ عافیہ کی میرے ساتھ بچپن سے ہی دوستی چلی آ رہی تھی اس لیئے وہ ہر وقت میرے ساتھ ہی چپکی رہتی تھی میں اگر کچن میں ہانڈی پکا رہی ہوں تو وہ بھی میرے ساتھ کھڑی ہو کر گپیں لگانا شروع کر دیتی تھی۔۔ عام طور پر صبع کو میرے ساتھ چپکتی تو پھر رات کو ہی میری جان چھوڑا کرتی تھی کہ جب عدنان گھر آ جاتے تھے اور اس کے بعد اگلی صبع عدنان کے جاتے ہی دھم سے وہ میرے کمرے میں آ جایا کرتی تھی۔۔۔ پھر ایک دن کی بات ہے کہ اس رات عدنان نے میری ٹھوک کے بجائی۔۔۔ لیکن جیسا کہ آپ لوگ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ جس رات چوت کی اچھی سی دھلائی ہو ۔۔اس دن صبع کم از کم میری تو آنکھ ہی نہیں کھلتی ۔۔اور اس دن خاص کر میں تو۔۔۔صبع کے وقت ایک عجیب بے خودی کے علم میں سوتی رہتی ہوں۔۔۔ اس دن بھی کچھ ایسا ہی تھا ۔۔۔ چنانچہ میں نے جلدی جلدی عدنان کو ناشتہ کروا کر رُخصت کیا اور پھر سے سونے کے لیئے لیٹ گئی۔۔۔ ابھی میری بہ مشکل آنکھ لگی ہی تھی کہ حسبِ معمول عافیہ میرے کمرے میں آ دھمکی اور آتے ساتھ ہی مجھے آوازیں دینا شروع ہو گئی اُٹھو باجی پلیزززززز ۔۔۔اُٹھو۔۔۔اس کی آواز سن کر میں آنکھیں ملتی ہوئی پلنگ سے اُٹھ بیٹھی اور اس سے کہنے لگی ۔۔ ۔۔ کیا مصبیت آن پڑی ہے جو مجھ سے اُٹھنے کو کہہ رہی ہو؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟۔۔۔ تو وہ کہنے لگی باجی پہلے آپ اُٹھو تو بتاؤں گی ۔۔ اس کی بات سن کر میں نے جان بوجھ کر ایک زبردست سی توبہ شکن انگڑائی لی ۔۔ جس کی وجہ سے میرے سیکسی بدن کے سارے خطوط ۔۔۔ نمایاں ہو گئے۔۔۔توبہ شکن انگرائی لیتے ہوئے میں نے ۔۔۔۔ چوری سے اس کی طرف دیکھا ۔۔ تو ابھی تک اس کی نظریں میرے بدن کے خطوط کی طرف لگی ہوئیں تھیں۔۔۔میں نے چند سیکنڈ اس کو اپنے جسم کا نظارہ کرنے دیا۔۔۔ ۔۔۔اور پھر اپنے آپ کو درست کر کے اس سے کہنے لگی۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ ہاں اب بتاؤ؟ تو وہ میری طرف دیکھ کر بڑے ہی معنی خیز لہجے میں کہنے لگی۔۔۔ کیا بات ہے باجی ۔۔رات نیند پوری نہیں ہوئی کیا؟ جیسے ہی عافیہ نے میرے ساتھ یہ بات کی۔۔۔۔۔ اسی وقت میرے زہن میں اسے پھانسنے کا ایک آئیڈیا آ گیا ۔۔ اور اس کے ساتھ ہی میں نے تھوڑی کسلمندی سے اس کی طرف دیکھا اور کہنے لگی۔۔۔۔۔ میری جان میں تو سونا چاہتی ہوں ۔۔۔ پر کیا کروں تمہارے بھائی جان ساری رات مجھے سونے نہیں دیتے پھر میں نے بستر سے اُٹھتے ہوئے اپنی کمر پر ہاتھ رکھا اور بولی ۔۔۔ ایک تو میری نیند بھی پوری نہیں ہوتی دوسرا ۔۔۔ یار کمر بہت درد کرتی ہے اور اس کی طرف دیکھنے لگی۔۔۔ میری بات سن کر اس کا چہرہ تھوڑا ۔۔۔اور سرخ ہو گیا ۔۔۔ اور وہ کہنے لگی ۔۔ بڑا ظالم ہے میرا بھائی۔۔۔۔
پھر جیسے اسے کوئی بات یاد آ گئی وہ ۔۔۔ میری طرف دیکھ کر کہنے لگی ۔۔۔ باجی آپ کے پاس پیڈ ہوں گے؟ تو میں نے جان بوجھ کر اس سے کہا ۔۔ کون سی پیڈ ؟ چونکہ عافیہ کی میرے ساتھ بہت زیادہ فرینک نس تھی ۔۔۔۔۔اس لیئے میری بات سن کر وہ سمجھ گئی کہ میں اس کے ساتھ مزاق کر رہی ہوں ۔۔ چنانچہ میری بات سن کر بے اختیار اس کے منہ سے ۔۔نکل گیا ۔۔۔ وہ باجی بین دا پھدا ۔۔ پیریڈز آ گئے ہیں اور میں اپنے ساتھ پیڈز لانا بھول گئی تھی۔۔۔۔ ۔۔ اس کی بات سن کر میں مسکرائی اور اس کو کہنے لگی۔۔۔ بی بی پھدا تے ساڈے جئی ۔۔۔شادی شدہ عورت دا ہوندا اے۔۔۔ کنواری دی تے پھدی ہوندے اے ( کھلی چوت تو ہم جیسی شادی شدہ عورتوں کی ہوتی ہے جبکہ تم جیسی کنواریوں کی تو پھدی ہوتی ہے ) میری بات سن کر اس نے کافی انجوائے کیا ۔۔۔ لیکن بظاہر سیریس ہو کر ۔۔۔اس نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ لیا اور کہنے لگی۔۔۔ باجی یہ آپ کس قسم کی باتیں کر رہی ہو؟؟؟۔۔ تو میں نے اس سے کہا جیسی تم نے بات کی تھی ویسی ہی میں نے کر دی۔۔۔ میری بات سن کر وہ بات کو گھماتے ہوئے کہنے لگی ۔۔ ۔۔اس سے پہلے کہ میری شلوار پر داغ لگ جائے ۔۔۔ پلیز جلدی سے مجھے پیڈ دے دو ۔۔تو میں نے اس سے کہا ۔۔ کہ میرے بیڈ کے نیچے ایک دراز ہے وہاں پر ۔۔۔ پیڈ ز پڑے ہیں اُٹھا لو۔۔ میری بات سنتے ہی وہ میرے پلنگ کے نیچے جھکی ۔۔۔۔ اور پھر وہاں سے پیڈ لے کر جلدی سے واش روم میں گھس گئی۔۔۔
اتنی دیر میں بھی بیڈ سے نیچے اتری اور اپنا اور عافیہ کا ناشتہ بنانے کےلیئے کچن میں چلی گئی جبکہ عافیہ کے آنے کے بعد ۔۔۔۔۔۔ شبی کو میں عدنان کے ساتھ ہی ناشتہ دے دیا کرتی تھی۔۔ اس وقت میں کچن میں کھڑی ناشتہ بنا رہی تھی کہ جب عافیہ میرے پاس آکر کھڑی ہو گئی اور بڑی بے تکلفی کے ساتھ میری کمر پر ہاتھ مار کر بولی ۔۔۔ شکریہ باجی ۔۔۔ جیسے ہی اس نے میری کمر پر ہاتھ مارا تو میں نے جان بوجھ کر ایک سسکی بھری اور اس سے کہنے لگی ۔۔۔ نہ کر میری جان کمر دُکھتی ہے۔۔ تو اس پر وہ بڑے معنی خیز انداز میں میری طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔ آپ نے کون سا وزن اُٹھا یا ہے کہ جس کے بوجھ سے ابھی تک آپ کی کمر دکھ رہی ہے؟؟ تو میں نے بظاہر بڑی نیازی کے ساتھ اس کو جواب دیتے ہوئے کہا ۔۔۔ اپنے بھائی کو دیکھا ہے نا؟۔۔ کس قدر ہٹا کٹا ۔۔۔۔اور صحت مند ہے ۔۔۔۔اور یہ ہٹا کٹا شخص میرے اوپر چڑھ کر مجھ بے چاری کو اتنے زور سے مارتا ہےکہ۔۔۔ کیا کروں ۔۔ کمر دُکھ ہی جاتی ہے۔۔۔۔ یہ بات کر کے میں نے چوری چوری عافیہ کی طرف دیکھا تو میری بات سن کر کسی انجان تصور سے اس کا چہرہ سرخ ۔۔۔۔ اور ہونٹ کانپ رہے تھے۔۔ تیر نشانے پر لگتا دیکھ کر میں ۔۔۔اسی بے نیازی کے ساتھ کچن کا کام کرتے ہوئے اس سے کہنے لگی۔۔۔ یار عافیہ ۔۔ ناشتے کے بعد مجھے تھوڑا دبا دو گی؟ تو کسی انجان سوچ میں گم عافیہ اچانک ہی چونک کر کہنے لگی ۔۔ ضرور باجی آپ حکم تو کرو۔۔
چنانچہ ناشتے کے بعد میں اسے لے کر اپنے کمرے میں آ گئی ۔۔ اور کمرے میں آنے سے پہلے شبی کو ٹیسٹ دے کر مصروف کر آئی۔۔۔ اور پھر کمرے میں آ کر اُلٹی ہوکر لیٹ گئی اور عافیہ سے بولی ۔۔ چل میری جان اب مجھے دبا۔۔۔ اب عافیہ میرے پاس آ کر بیٹھ گئی اور ہولے ہولے مجھے دبانے لگی۔۔۔ یہ دیکھ کر میں نے ایکٹنگ کرتے ہوئے اس کو کہا ۔۔۔ میری جان زرا بھاری ہاتھ سے دبا ۔۔۔ کہ رات ظلمی سیاں نے بڑی بے دردی سے پیٹا ہے۔۔۔۔اس دن عافیہ سے دبواتے ہوئے ۔۔۔ میں نے اس کے ساتھ بہت زیادہ ذُو معنی قسم کی باتیں کیں ۔۔۔ جنہیں سن کر میرا خیال ہے کہ میں اس کے اندر ایک دھیمی دھیمی سی آگ بھڑکانے میں کامیاب ہو گئی تھی۔۔۔
چنانچہ اس کے بعد منصوبے کے تحت اکثر ہی میں نے عافیہ کے ساتھ اس قسم کی باتیں کرنا شروع کر دیں ۔۔ پہلے پہلے تو وہ تھوڑا ۔۔۔شرمائی۔۔۔ لیکن ۔۔۔ کب تک۔۔۔آخر آہستہ آہستہ سیکس کے بارے میں اس کی جھجھک بتدریج کم ہونا شروع ہو گئی ۔۔۔ اور پھر آرام آرام سے سہی وہ میرے ساتھ کھلنا شروع ہو گئی۔۔۔
ایک دن میں اور عافیہ ناشتہ کر رہیں تھیں کہ اوپر سے خالہ جان آ گئیں ۔۔۔ وہ تیار ہو کر کہیں جا رہیں تھی ۔۔ چنانچہ ان کو تیار دیکھ کر عافیہ ان سے کہنے لگی۔۔۔۔ کہاں جانے کی تیار ی ہے پھوپھو جان ؟ تو خالہ جان کہنے لگیں ۔۔۔ کہیں نہیں بیٹا میں زرا تمہارے چھوٹے چاچو کے گھر تمہاری چچی کو پوچھنے جا رہی تھی ۔۔۔ اس پر میں نے خالہ سے کہا --ان کو کیا ہوا خالہ جان ؟ تو وہ کہنے لگی۔۔۔۔۔ کیا بتاؤں پترا۔۔۔ اسے کافی دنوں سے بخار چڑھا ہو ا ہے اور اترنے کا نام ہی نہیں لے رہا ۔۔۔۔۔ اس کے بعد خالہ نے عافیہ کی طرف دیکھا اور اس سے کہنے لگیں تم نے چلنا ہے؟ تو عافیہ بولی ۔۔۔ ہاں پھوپھو ۔۔ جب سے میں آئی ہوں بس ایک آدھ بار ہی ان کے گھر جا پائی ہوں ۔۔۔۔ پھر کہنے لگیں اگر آپ تھوڑی دیر رک جائیں تو میں بھی آپ کے ساتھ چلی چلوں گی۔۔۔ عافیہ کی بات سن کر خالہ جان بولیں ۔۔۔۔۔ٹھیک ہے پترا ۔۔ تم اطمینان سے ناشتہ کر لو۔۔ میں تمہارا انتظار کر لیتی ہوں ۔۔۔ خالہ کے کہنے کے باوجود بھی عافیہ نے جلدی سے اپنا ناشتہ ختم کیا اور مجھ سے کہنے لگی ۔۔۔ باجی میں ابھی آئی اور وہ دونوں چھوٹے ماموں کے گھر چلی گئی ۔۔ ادھر میں نے بھی اپنا ناشتہ ختم کر کے باقی ماندہ برتن دھوئے ۔۔۔اور شبی کی خبر لینے اپنے کمرے کی طرف چلی گئی۔۔۔۔
کچن سے نکل کر جیسے ہی میں اپنے کمرے میں داخل ہوئی تو وہاں پر ایک انہونا سا منظر میرا منتر تھا ۔۔۔۔ جسے دیکھ کر میں حیران و پریشان ہو گئی ۔۔۔ کیا دیکھتی ہوں کہ ہمارے واش روم کے دروازے کے ساتھ شبی چپکا ہوا تھا۔۔۔ اور وہ اتنی محویت سے دروازے کے اندر دیکھ رہا تھا۔۔ کہ اسے میرے کمرے میں داخل ہونے کی خبر تک نہ ہوئی تھی ۔۔ یہ دیکھ کر میرے دل میں بھی اس بات کا تجسس جاگ اُٹھا کہ دیکھوں تو سہی کہ آخر ماجرا کیا ہے ؟۔۔۔۔۔ چنانچہ میں دبے پاؤں چلتی ہوئی عین اس کے پیچھے جا کھڑی ہوئی ۔۔۔ اور پھر اس کے کندھے پر ہاتھ کر کہنے لگی ۔۔۔۔ ۔۔ یہ کیا ہو رہا ہے شبی؟
جیسے ہی میرا ہاتھ اس کے کندھے پر پڑا۔۔۔۔ شبی ایک دم اپنی جگہ سے اچھلا ۔۔۔۔۔ اور پھر میری طرف دیکھتے ہوئے اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر مجھے چپ رہنے کا اشارہ کیا ۔۔۔۔اور پھر اپنی جگہ سے ہٹ گیا ۔۔۔ اور مجھے اندر جھانکنے کا اشارہ کیا۔۔۔تب میں آگے بڑھی ۔۔۔۔۔اور دیکھا کہ واش روم کے دروازے پر ہینڈل سے تھوڑا اوپر ایک گول سا سوراخ بنا ہوا تھا۔۔۔۔ اور بھائی نے مجھے اسی گول سوراخ کی طرف اشارہ کیا .. بھائی کے کہنے پر میں نے اس گول سوراخ سے آنکھ لگا کر اندر جھانکا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو کیا دیکھتی ہوں کہ گڈی باجی واش بیسن کے سامنے ننگی کھڑی اپنے دونوں نپلز کو مسل رہیں تھیں ۔۔۔۔ ابھی میں نے اتنا ہی دیکھا تھا کہ بھائی نے مجھے پکڑ کر پیچھے کر لیا اور سرگوشی میں کہنے لگا ۔۔۔پہلے یہ بتاؤ کہ عافیہ کہاں ہے؟ اس پر میں نے اسے جواب دیتے ہوئے کہا کہ خالہ جان کے ساتھ ماموں کی طرف گئی ہے۔میرا جواب سن کر بھائی نے اطمینان کا سانس لیا ۔۔۔ اور بولا پھر ٹھیک ہے۔۔۔۔۔ اس کی یہ بات سن کر میں نے ۔۔۔۔ دروازے کے سوراخ کی طرف اشارہ کیا ۔۔۔۔ اور اس کی طرف آنکھیں نکالتے ہوئے بولی۔۔۔ کہ تم نے یہ کام کب سے شروع کیا ؟؟؟؟؟؟۔۔تو وہ مجھے آنکھ مار کر کہنے لگا۔۔۔ بات یہ ہے باجی کہ میں آپ کے کمرے میں بیٹھا پڑھ رہا تھا کہ اچانک مجھے آپ کے واش روم کی طرف سے کنڈی لگنے کی آواز سنائی دی ۔۔۔ پھر کہنے لگا ۔۔آواز سن کر ویسے ہی میں اپنی جگہ سے اُٹھا اور دروازے کی ۔۔۔" کی " ہول سے جھانک کر دیکھنے کی بڑی کوشش کی کہ دیکھوں کہ اندر کون ہے ؟ ۔۔۔ لیکن ۔۔۔ مجھے کچھ دکھائی نہ دیا۔۔اور پھر میں نے سوچا کہ کیوں نا یہاں پر ایک سوراخ کیا جائے تا کہ اس واش روم کو استعمال کرنے والی خواتین اور خاص کر تمہاری دوست عافیہ کے جسم کا نظارہ لیا جائے ۔۔ اور پھر کہنے لگا ۔۔ چنانچہ یہ سوچ کر آج صبع جب آپ عافیہ کے ساتھ ناشتہ کرنے کچن میں گئیں تھیں اور گڈی باجی برآمدے میں بیٹھی سبزی چھیل رہی تھی تو میں نے جلدی سے اس دروازے میں اپنی منشا کے مطابق سوراخ کر دیا ۔۔اس کی بات سن کر میں نے اس سے کہا ۔۔ کہ اگر کسی کو پتہ چل گیا تو؟ ۔۔۔ میری بات سن کر بھائی کہنے لگا۔۔ باجی میں نے اس سوارخ کا ڈیزائن ایسا بنایا ہے ۔۔۔کہ ایک نظر میں یہ کسی کو بھی دکھائی نہیں دے گا۔۔۔ پھر میری طرف دیکھتے ہوئے بولا۔۔۔۔آپ ادھر سے نظر دوڑا کر دیکھو ۔۔ دور سے آپ کو یہ سوراخ نظر آ رہا ہے؟ تو میں اس کی طرف دیکھ کر ۔۔۔ بولی۔۔۔ ہاں پر ۔۔ تم تو ۔۔۔ابھی میں نے اپنی بات مکمل نہ کی تھی کہ بھائی کہنے لگا۔ باجی تم فکر نہ کرو اس سوراخ کے بارے میں کسی کو کچھ پتہ نہیں چلے گا ۔۔ اس کی بات سن کر میں تھوڑی مطئمن ہو گئی اور پھر اس سے کہے۔ لگی ۔۔۔ تم کہتے ہو تو ٹھیک ہی گا ۔۔۔ چلو تھوڑا پیچھے ہٹو اور مجھے سوراخ سے جھانکنے دو۔۔ میری بات سن کر بھائی دوبارہ سے ایک طرف ہو گیا ۔۔اور میں سوراخ پر آنکھ لگا کر اندر کا نظارہ دیکھنے لگی۔۔
اور میں نے دیکھا کہ گڈی باجی کی چوت پر کوئی کریم سی لگی ہوئی تھی۔۔اور یقیناً یہ بال صاف کرنے والی کریم ہو گی۔۔۔ پھر کچھ دیر بعد گڈی باجی نے پاس پڑے۔۔۔۔۔ایک کپڑے کو اُٹھایا ۔۔۔۔اور پھر ا س سے اپنی چوت کے بالوں کو صاف کرنے لگی ۔۔۔ اور پھر میرے دیکھتے ہی دیکھتے اس نے اپنی چوت لگے سارے بال صاف کر دیئے۔۔ ابھی میں نے اتنا ہی دیکھا تھا کہ ایک دفعہ پھر بھائی نے مجھے پیچھے ہٹایا اور خود دروازے کے سوراخ سے آنکھ لگا کر اندر جھانکنے لگا۔۔۔ اس وقت تک گڈی باجی کافی حد تک اپنی چوت کے بالوں کو صاف کر چکی تھی۔۔ اندر دیکھتے ہوئے بھائی نے ایک لمحے کے لیئے اس سوراخ سے اپنی نظر کو ہٹایا اور پھر اپنا منہ میری طرف کر کے سرگوشی میں بولا۔۔۔۔۔ باجی گڈی اب اپنی چوت کے لبو ں پر لگے بال صاف کر رہی ہے۔۔ اس کے بعد اس نے دوبارہ سے سوراخ پر آنکھ لگا دی ۔۔۔۔ اور ہلکی آواز میں بولا۔۔۔۔ اوہ اوہ ۔۔۔ تو میں نے اس سے پوچھا کہ اب کیا ہوا؟؟ ۔۔۔تو وہ کہنے لگا۔۔۔ کیا بتاؤں باجی ۔۔۔ گڈی کی چوت بہت شاندار ہے۔۔۔ پھر اس نے اشارے سے مجھے قریب بلایا اور کہنے لگا۔۔۔ باجی اب وہ اپنی پھدی کو چیک کر رہی ہے کہ کوئی بال رہ تو نہیں گیا۔۔۔۔۔۔پھر دھیرے سے بولا۔۔۔ ویسے ایک بات ہے باجی۔۔۔ گڈی کی پھدی بڑی ہی تنگ ہے۔۔ تو میں نے اس کے کان میں کہا تم کو کیسے پتہ چلا؟ تو وہ کہنے لگا۔۔۔ اس وقت میرے سامنے اس نے اپنی انگلیوں سے چوت کے دونوں لبوں کو کھولا ہوا ہے۔۔۔ اُف ۔۔ باجی اندر سے اس کی چوت کتنی سرخ ہے۔۔۔ ۔۔ اس کے ساتھ ہی اس نے سوراخ سے نظر ہٹا کر میری طرف دیکھا۔۔۔۔ اور پھر ایک نظر دروازے کی طرف دیکھ کر اس نے میرا ہاتھ پکڑا۔۔۔ اور اسے اپنے لن پر رکھ دیا۔۔۔ جیسے ہی۔۔اس نے میرے ہاتھ کو اپنے لن پر رکھا تو مجھے محسوس ہوا کہ اندر کے مناظر دیکھ کر اس کا لن اکڑا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔ چنانچہ میں نے بھائی کے لن کو ہاتھ میں پکڑا ۔۔۔اور اسے آہستہ آہستہ دبانے لگی۔۔۔کچھ دیر کے بعد بھائی کے منہ سے ایک سسکی نکلی ۔۔۔۔۔اور میں اس کا لن دباتے ہوئے بولی۔۔۔ اب کیا ہوا ؟ ۔۔۔
تو وہ میری طرف دیکھے بغیر کہنے لگا۔۔۔۔ چوت کا ملاحظہ ختم ہوا ۔۔۔ اب سالی اپنی گانڈ کو چیک کر رہی ہے۔۔۔ پھر اس کے منہ سے ایک اور سسکی نکلی اور اس کے ساتھ ہی میں نے محسوس کیا کہ اس کے اکڑے ہوئے لن نے ایک جھٹکا کھایا ہے۔۔ چنانچہ میں سمجھ گئی کہ اب پھر کوئی خاص بات ہو گئی ہے اس لیئے میں نے اس سے پوچھا۔۔۔ کہ کیا ہوا بھائی۔؟ تو وہ ایک زبردست ۔۔۔ سسکی لیتے ہوئے کہنے لگا۔۔۔ گڈی کی گانڈ میرے سامنے ہے ۔۔اور میں آپ کو کیا بتاؤ ں کہ اس کی گانڈ کا نظارہ بہت دلکش ہے اور پھر اس کے ساتھ ہی اس کے منہ نکلا ۔۔۔افف ف ف ۔۔۔ اور ساتھ ہی میرے ہاتھ میں پکڑا ہوا اس کا لن مزید جھٹکے کھانے لگا ۔۔۔ اور اس سے قبل کہ میں اس سے کچھ پوچھتی وہ خود ہی سرگوشی میں بولا ۔۔اُف باجی۔۔۔ گڈی بہن چود کی گانڈ بہت کھلی ہے۔۔۔ اور پھر ایک اور گالی دیتے ہوئے بولا ۔۔۔۔۔ باجی بہن چود ۔۔ تم اور تمہاری ساری کزنز مجھے گانڈ مروانے کی شوقین لگتی ہو۔۔تو میں نے اس کے لن کو ہلاتے ہوئے کہا وہ کیسے؟؟ ۔۔۔ تو وہ اندر جھانکتے ہوئے بولا ۔۔ وہ ایسے کہ تمہاری فوزیہ اور گڈی تینوں کی گانڈ کے سوارخ ایک جتنے بڑے اور کھلے ہیں۔۔ اس کے ساتھ ہی میرے ہاتھ میں پکڑا ہوا اس کا لن بار بار جھٹکے کھانے لگا۔۔۔ا دھر بھائی نے اپنے لن پر رکھا ہوئے میرے ہاتھ کو وہاں سے ہٹایا اور پھر اپنی شلوار کا نالہ کھول دیا ۔۔ آزار بند کھلتے ہی بھائی کی شلوار ۔۔۔۔کھل کی اس کے قدموں میں جا گری۔۔۔ یہ دیکھ کر اس نے میرا ہاتھ پکڑ کر دوبارہ سے اپنے لن پر رکھ دیا اور کہنے لگا۔۔۔۔ میری مُٹھ مار۔۔۔ بھائی کی بات سن کر میں نے اپنی ہتھیلی پر بہت سارا تھوک پھینکا اور ۔۔۔ کچھ تھوک اس کے لن پر پھینک کراسے اچھی طرح سےچکناکر دیا ۔۔۔ اور پھر بڑے آرام آرام سے اس کا لن پکڑ کر مُٹھ مارنے لگی۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔
میں نے ابھی اس کی مُٹھ مارنی شروع ہی کی تھی کہ ۔۔اگلے ہی لمحے بھائی کے منہ سے ایک اور سسکی نکلی اور میرے ہاتھ میں پکڑا ہوا اس کا لن ایک دم سے مزید اکڑ کر جھٹکے کھانے لگا۔۔۔ میرے پوچھنے پر وہ کہنے لگا۔۔۔ باجی ۔۔۔گڈی نے فنگرنگ کرنے لیئے اپنی چوت میں انگلی کر دی ہے۔۔۔ پھر ۔۔۔ چند سیکنڈ کے بعد بولا۔۔۔ واؤؤؤ۔۔دو انگلیاں ۔۔۔۔ اور میری طرف دیکھ کرنے لگا اب اس نے پانی چوت میں دو انگلیاں کر دی ہیں۔۔۔اور۔۔ باجی ۔۔وہ بڑی تیزی کےساتھ اپنی انگلیوں کو اندر باہر کر رہی ہے۔۔۔اُف باجی اتنا تیزززززززززز۔۔۔ پھر اس کے بعد کچھ سیکنڈ تک وہ چُپ رہا ۔۔۔ پھر اچانک ہی میرے ہاتھ میں پکڑا ہوا۔۔۔اس کا لن پھڑ پھڑانے لگا۔۔۔ اور وہ بولا۔۔اُف ف ف ف اتنی زیادہ۔۔۔ اور پھر میرے پوچھنے کے بغیر وہ کہنے لگا۔۔۔ باجی گڈی کی پھدی سے اتنا زیادہ پانی نکلا ہے اور اس کے ساتھ ہی دوبارہ سے اس کا اکڑا ہوا لن جھٹکے کھانے لگا۔۔اور وہ بولا۔۔۔ اتنی سیکسی ۔۔۔۔ اوہ۔۔۔ اور پھر بولا۔۔۔ باجی ۔۔ گڈی اپنی منی سے لتھڑی انگلیوں کو چوس رہی ہے ۔۔۔ چاٹ رہی ہے ۔اوہ باجی اس نے پھر سے اپنی چوت میں دونوں انگلیاں کر دیں ۔۔اور باجی اب اس نے چوت سے انگلیوں کو نکال لیا ہے ۔۔اور ان پر لگی منی کو چوس رہی ہے ۔۔واؤؤؤؤؤؤ۔۔۔۔۔۔ باجی آپ کی کزن بڑی سیکسی ہے۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی بھائی نے سوراخ سے نظر ہٹائی ۔۔۔ اور میری طرف منہ کر کے کھڑا ہو گیا۔۔۔ اور مجھے نیچے بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔۔۔اس کا اشارہ پا کر میں اپنے بیڈ روم کے فرش پر اکڑوں بیٹھ گئی۔۔۔۔ تو وہ اپنے لن کو میرے ہونٹوں سے لگتا ہوا بولا ۔۔۔ ۔۔ ۔۔ باجی اسے چوسو ۔۔ اور اس کے ساتھ ہی وہ تھوڑا پیچھے کی طرف ہٹا ۔۔۔اور ٹانگوں کو مزید کھلا کر دیا۔۔۔ جب اس کا لن بڑی آ سانی سے میرے منہ میں چلا گیا تو وہ مجھ سے کہنے لگا۔۔۔ باجی !!!!!۔۔۔۔۔گڈی کے نام کا چوپا لگا۔۔۔ ۔۔۔ بھائی کی بات سن کر میں شہوت زادی جو کہ ہر وقت ہی سیکس کے لیئے ریڈی رہتی تھی۔۔۔ اپنے منہ سے زبان نکالی ۔۔۔۔اور بھائی کے ہیڈ پر پھیرنے لگی۔۔۔۔ اس کے لن کے ہیڈ پر میری زبان لگنے کی دیر تھی۔۔۔ کہ بھائی مچل اُٹھا ا ور میری طرف دیکھ کر کہنے لگا۔۔۔۔باجی منہ وچ پا ۔۔۔ ( باجی منہ میں ڈالو) اور اس کی یہ بات سنتے ہی میں نے اس کے لن پر زبان پھیرنی بند کی اور اس کے کیوٹ سے لن کو اپنے منہ میں لینے سے پہلے بولی۔۔۔ اندر کیا دیکھا ؟تو بھائی بڑی حیرانی سے میری طرف دیکھ کر کہنے لگا ۔۔۔ یقین کرو باجی ۔۔۔ یہ گڈی تو بہت ہی سیکسی خاتون ہے بھائی کی بات سن کر میں جل گئی اور اس سے بولی ۔۔ میں کیا کم سیکسی ہوں ؟؟۔۔۔ ۔۔۔۔ میری بات سن کر بھائی نے مجھے سر پکڑا اور بولا۔۔۔۔ نہیں باجی تم بھی کم نہیں ہو۔۔۔۔ اور پھر میرے سر کو اپنے لن کی دباتے ہوئے بولا ۔۔۔باجی فاسٹ۔۔۔ اور بھائی کے بات کرنے کے انداز سے میں سمجھ گئی۔۔۔
کہ بھائی چھوٹنے والا ہے ۔۔۔ میں نے پہلے سے بھی زیادہ جوش و خروش سے بھائی کا چوپا لگانا شروع کر دیا۔۔۔۔۔ اور کچھ ہی دیر بعد جب بھائی کا سارا جسم اکڑنے لگا ۔۔۔اور اس کا لن بار بار جھٹکے کھانے لگا تو میں سمجھ گئی کہ بھائی چھوٹنے والا ہے چنانچہ ۔۔۔یہ دیکھ کر میں نے بھائی کے لن کو اپنے منہ سے نکالنے کی بڑی کوشش کی لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کتے نے اس وقت تک میرے سر کو اپنے لن پر دبائے رکھا ۔۔۔ کہ جب تک اس کے لن سے منی کا آخری قطرہ تک بھی نہ نکل گیا۔۔۔۔۔ اور بھائی کی اس منی سے میرا سارا منہ بھر گیا ۔۔۔ بھائی میرے منہ میں اپنی اس گرم گرم منی کا لاوہ اگلتا رہا اور ۔۔ اور اس کے ساتھ زبردستی مجھے ۔۔۔اپنے لن سے نکلنے والا گرم لاوہ پینے پر مجبور کرتا رہا۔۔۔۔
چونکہ اس دن میں نے بھائی کے لن کو صرف چوسا تھا اور اس کے علاوہ اور اس نے میرے ساتھ کچھ کیا نہیں تھا ۔۔اس لیئے اس دن میری چوت بہت گرم ہو رہی تھی۔۔۔اور مجھ پر خواہ مخواہ ہی سیکس بخار چڑھا ہوا تھا۔۔۔ ادھر بھائی نے تو لن چوسوا کر اپنا من راضی کر لیا تھا ۔۔۔۔۔ جبکہ میں غریب ابھی تک اندر ہی اندر گرمی کے مارے سلگ رہی تھی۔۔۔۔ خیر اسی دن دوپہر کی بات ہے کہ عافیہ خالہ کے ساتھ واپس آ گئی ۔۔۔ اس کے گال گلابی۔۔ ہونٹ عنابی چال شرابی دیکھ کر میں اور بھی گرم ہو گئی۔۔۔۔ اس لیئے آج میں نے اس کے ساتھ مزہ کرنے کا پروگرام بنا لیا۔۔۔ اور اسے لیکر اپنے کمرے میں آ گئی ۔۔۔ بھائی کو میں نے پہلے ہی سمجھا دیا تھا کہ وہ ادھر کا رخ نہ کرے۔۔۔ اور پھر عافیہ کو لے کر اپنے کمرے میں آگئی اور اس سے پوچھا کہ سناؤ ۔۔عافی ۔۔۔ مامی نے تمہاری کیا سیوا کی؟ میری بات سن کر عافیہ کہنے لگی۔۔ ماں دا پھُدا ۔۔ باجی جیسا کہ آپ کو پتہ ہی ہے کہ باجی ۔۔۔ چاچی بڑی بیمار ہے اس لیئے ۔۔۔۔ اس نے بس باہر سے بوتل منگوا کر پلائی تھی۔۔۔ اس سے بات کرتے کرتے اچانک ہی میں نے اپنی کمر پر ہاتھ رکھا اور ۔۔ اس کی طرف دیکھتے ہوئے ۔۔۔ہائے ۔۔۔ کہہ دیا۔۔ میری ہائے کہنے کی دیر تھی کہ عافیہ شرارت سے بولی ۔۔ کیا بات ہے باجی رات پھر کُٹ پڑی۔۔۔ تو میں نے اس سے کہا۔۔۔۔
ہاں یار بڑے زور کی پڑی ۔۔۔ پر اس دفعہ ۔۔۔ظلمی سیاں نے میری کمر اور بنڈ کو وجا کے رکھ دیا۔۔ اس کے ساتھ ہی میں بستر پر ڈھیر ہو گئی۔میری دیکھا دیکھی عافیہ بھی پلنگ پر آ کر میرے پاس بیٹھ گئی۔۔۔۔۔ کچھ دیر تک میں نے تھکاوٹ سے لیٹنے کی ایکٹنگ کی۔۔۔۔پھر میں اپنے بیڈ پر اُلٹی ہو کر لیٹ گئی۔۔۔ اور اپنی گانڈ کو تھوڑا اوپر اُٹھا دیا۔۔۔ جس سے میری موٹی گانڈ ( شادی کے فورا ً بعد ہی میرا جسم اور خصوصاً میری گانڈ بہت پھیل گئی تھی ۔۔۔۔ اور بقول بھائی ۔۔۔ کہ جس اینگل میں ۔۔ اس وقت میں جان بوجھ کر لیٹی تھی ۔۔۔ اس اینگل میں میری گانڈ اس قدر سیکسی دکھائی دیتی ہے کہ جو۔۔ ایک دفعہ اس کی لکیر میں بھی اپنا لن رکھ دے گا ۔۔۔وہ دستی فارغ ہو جائے گا۔۔) ۔۔۔ چھت کی طرف بلند ہو گئی۔۔۔اور میں نے ڈریسنگ کے شیشے میں دیکھا تو عافیہ کی نظریں میری موٹی بنڈ کے اوپر ہی ٹکی ہوئی تھیں۔۔۔۔۔اور وہ اسے دیکھ کر بار بار اپنے ہونٹوں پر زبان پھیر رہی تھی ۔۔۔۔میری بات سن کر عافیہ بھی میر ے ساتھ پلنگ پر آ گئی اور میری گانڈ کی طرف اپنی نظریں جما کر بولی۔۔۔۔۔ باجی دباؤں؟؟؟؟ تو میں نے اسے کہا ۔۔۔ پلیززززززز ۔۔۔جلدی دباؤ کہ بہت دکھ رہی ہے اور اس کے ساتھ ہی عافیہ نے اپنے نرم ہاتھ میری کمر پر رکھے اور اسے دبانا شروع کر دیا۔۔۔ میری کمر دباتے ہوئے اچانک ہی عافیہ کہنے لگی۔۔۔ کیوں باجی ۔۔ رات بے دردی بلما نے کچھ زیادہ ہی کُٹ تو نہیں چڑھا دی تھی؟ تو میں نے اس سے کہا ۔۔ یاں یار یہ جو تمہارا بھائی ہے نا۔۔۔۔جب مارتا ہے ۔۔۔تو بڑی بے دردی سے مارتا ہے۔۔۔ بات کرتے ہوئے میں نے ڈریسنگ کے شیشے میں عافیہ کی طرف دیکھا تو وہ ۔۔۔۔۔ابھی بھی چوری چوری میری اُٹھی ہوئی گانڈ کی طرف دیکھ رہی تھی ۔۔۔اور اسے دیکھتے ہوئے ۔۔۔ بار بار اپنے ہونٹ بھی کاٹ رہی تھی ۔۔۔ پھر عافیہ کے منہ سے ایک سرسراتی ہوئی آواز نکلی ۔۔۔وہ کہہ رہی تھی کہ ۔۔۔ لیکن میں نے تو سنا ہے باجی کہ ۔۔۔ عورت کو جتنی زیادہ کُٹ پڑے اسے اتنا زیادہ مزہ آتا ہے۔۔۔ تو میں نے اس سے کہا ۔۔۔ تم ٹھیک کہہ رہی ہو۔۔۔۔ اور پھر اس سے بولی ایک منٹ۔۔۔ اور پھر اس کے سامنے سیدھی ہو کر لیٹ گئی۔۔۔اور اس سے بولی ۔۔۔ اب میری رانیں دبا۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی میں نے اپنی قمیض کو رانوں سے ہٹا دیا۔۔۔ اب عافیہ میری رانیں دبانے لگی۔۔۔۔ اور بولی۔۔۔ باجی آپ کی رانیں تو بہت نرم ہیں ۔۔۔ تو میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر تھوڑا اندر کی طرف کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔ رانیں نرم ہیں ۔۔۔ تبھی تو تمہارے بھائی کی سخت چیز ۔۔ان پہ لگ لگ کر انہیں نیل و نیل کر دیتی ہے ۔۔ بات ختم کر کے میں نے عافیہ کی طرف دیکھا تو مجھے اس کے چہرے پر شہوت کے سائے نظر آئے۔۔ لوہا گرم ہو رہا تھا ۔۔۔ یا شاید گرم ہو چکا تھا ۔۔۔۔ لیکن میں لوہے کو آخری حد تک گرم کرنا چاہ رہی تھی ۔۔۔ابھی میں یہ سوچ ہی رہی تھی کہ اچانک عافیہ کے منہ سے جزبات سے چوُر ۔۔۔ شوت کے نشے میں مخمور ۔۔۔ پھر وہی سرسراتی ہوئی آواز سنائی دی ۔۔۔ وہ کہہ رہی تھی ۔۔۔ کہ ۔۔۔۔۔ لیکن باجی ۔۔۔ بھائی کی سخت چیز تو کہیں اور جا کر نہیں ۔۔۔۔کھبتی؟؟ تو میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔ بے شک تمہارے بھائی کی بہت بڑی اور سخت چیز جانے کے لیئے ایک گیراج بنا ہوا ہے کہ جہاں پر وہ بار بار آتی جاتی ہے ۔۔۔ لیکن یار ۔۔۔ پھر میں نے اس کی تھائیز پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا کہ ۔۔۔ جب یہ سخت تھایز ۔۔۔۔ نیچی پڑی ہوئی نرم تھائیز سے ٹکرائے گی ۔۔۔۔تو درد تو ہو گا نا۔۔۔۔ اس پر وہ ہولے سے کہنے لگی ۔۔۔ لیکن باجی مزہ بھی تو آتا ہ ے نا۔۔۔ اس کی بات سن کر میں نے کہا۔۔۔۔ بے شک اتنا زیادہ مزہ آتا ہے کہ اس وقت درد کا احساس تک نہیں ہوتا ۔۔ لیکن بعد میں ۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے ساتھ ہی ایک دفعہ پھر میں اُلٹی ہو گئی اور اس سے بولی۔۔۔ چل اب میرے ہپس دبا۔۔۔ کہ رات ان کے ساتھ بھی بڑا ظلم ہوا۔۔۔۔ میری بات سن کر عافیہ کہنے لگی ۔۔۔۔۔ تو گویا وہ سخت چیز یہاں بھی لگی آپ کو ۔۔۔تو میں نے اپنا سر موُڑ کر اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔ یہ کہو کہاں کہاں نہیں لگی۔۔۔ میری اس بات پر عافیہ کے منہ سے بے اختیار نکل گیا۔۔۔ لیکن باجی یہاں تو بہت درد ہوتا ہے۔۔۔۔ اس کی بات سن کر میں ایک دم چونک گئی ۔۔۔اور بستر سے اُٹھ کر بیٹھ گئی اور اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔۔۔ تم نے کیا کہا؟ عافیہ بھی سمجھ گئی کہ اس کے منہ سے کوئی غلط بات نکل گئی ہے اس لیئے وہ بولی ۔۔ کک ۔۔۔ کچھ نہیں باجی ۔۔۔ تو میں نے اس کے گالوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا (اُف اس کے گال گرمی کی حدت سے تپے ہوئے تھے) بتاؤ نا۔۔ اور پھر میرے بار بار کے اصرار پر عافیہ اٹک اٹک کر کہنے لگی ۔۔۔ باجی وہاں پر تو درد ہوتا ہےاور سر جھکا دیا۔۔۔ اب میں نے عافیہ کا سر پکڑ کر اوپر اُٹھایا ۔۔۔اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی۔۔۔۔۔تمہیں درد ہوا تھا؟ ۔۔۔ میری بات سن کر اس کا چہرہ مزید سرخ ہو گیا ۔۔۔اور اس نے سر جھکا لیا۔۔۔۔ اس پر میں نے دوبارہ سے اپنا ایک ہاتھ اس کی تھوڑی کی طرف لے گئی اور اس کا منہ اوپر کر کے بولی ۔۔۔۔ کس نے لی تھی۔۔۔۔ میرے لہجے سے عافیہ سمجھ گئی کہ ۔۔۔۔۔۔۔اب سچ بولنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔۔۔۔ اس لیئے وہ کہنے لگی۔۔۔۔ ایک محلے دار۔۔۔ تو میں نے اس کے سرخ ہوتے ہوئے چہرے پر نظریں جما کر کہا۔۔۔ پھر اس نے کیا کیا؟ تو وہ جزبات سے چُور ۔۔۔۔۔۔ اسی سرسراتی ہوئی آواز میں کہنے لگی۔۔۔۔۔ پھر اس نے آگے سے لی۔۔۔ تو میں نے بدستور اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔ آگے سے دیتے ہوئے مزہ آیا تھا؟ تو وہ کہنے لگی ۔۔۔ ہاں باجی بہت۔۔۔ اس کی بات سن کر میں نے اپنے منہ کو اس کے چہرے کے برابر کیا ۔۔۔اور کہنے لگی۔۔۔۔۔ میرے ساتھ مزہ کرو گی؟؟؟؟؟؟؟۔۔۔ میری بات سن کر عافیہ نے بھی براہِ راست میری آنکھوں میں جھانکا اور کہنے لگی ۔۔۔۔ آپ لیسبو (lesbian ( بھی ہو۔۔۔۔ ؟ اس کے منہ سے لیسبو کا نام سن کر میں بڑی حیران ہوئی اور اس سے پوچھنے لگی۔۔۔۔ تم نے کیا ہے؟ تو وہ سر ہلا کر بولی۔۔۔ جی۔۔۔ اس پر میں نے اپنے منہ سے ایک گرم ہوا نکالی اور اس کے منہ پر پھینکتی ہوئی بولی ۔۔۔ کرو گی؟ میری بات سن کر اس نے اپنا سر نیچے کر لیا ۔۔ یہ دیکھ کر میں نے اپنے منہ سے زبان نکالی اور اس کے گالوں پر پھیرتی ہوئی بولی۔۔۔۔۔ تم بہت گرم ہو میری جان ۔۔اور پھر میری زبان اس گالو ں سے ہوتی ہوئی ۔۔۔۔۔ اس کے ہونٹوں پر پہنچی ۔۔۔اور پھر پہلے تو میں نے اس کچی کلی کے ہونٹوں کو اپنی زبان کے ساتھ ہلکا سا ٹچ کیا ۔۔۔۔۔ پھر میں نے اس کے نرم ہونٹوں پر اپنی زبان پھیرنا شروع کر دی۔۔۔ اس کے ساتھ ہی عافیہ کی شرم بھی فشوں ہو گئی اور اس نے میری زبان کو اپنے منہ میں لے لیا۔۔۔۔اور اسے چوسنے لگی۔۔۔۔۔
زبان چوسنے کے ساتھ ساتھ اس نے میری چھاتیوں پر اپنا ہاتھ رکھا اور انہیں دبانے لگی ۔۔۔ اور پھر کچھ دیر تک زبان چوسنے کے بعد اس نے ایسے ہی دروازے کی طرف دیکھا تو میں نے اس کے گال کی چومی لیتے ہوئے کہا۔۔۔۔ میری جان میں نے پہلے سے ہی کنڈی لگائی ہوئی ہے۔۔۔۔۔میری بات سنتے ہی اس نے بجلی کی سی تیزی کے ساتھ اپنے کپڑے اتارنے شروع کر دیئے ۔۔۔۔اور کچھ ہی دیر بعد میں اور وہ دونوں ننگیں ہو گئیں ۔۔ اب ہم دونوں آگے بڑھیں ۔اور ایک دوسرے کے ساتھ گلے لگ گئیں۔۔۔ ہمارے ننگے جسموں کے لمس ہمیں پاگل کیئے ہوئے تھے جبکہ دوسری طرف عافیہ اپنی بھاری چھاتیوں کو میری چھوٹی چھاتیوں سے رگڑتے ہوئے کہہ رہی تھی۔۔۔ اتنی دیر کیوں لگائی باجی؟ تو میں نے اس سے کہا وہ کیسے ؟؟۔۔تو وہ کہنے لگی ۔۔ پہلے دن جب آپ نے میری چھاتیوں کے ساتھ اپنی چھاتیوں کو رگڑا تھا تو اسی وقت میں سمجھ گئی تھی ۔۔۔ کہ آپ میرے ساتھ مزہ لینا چاہتی ہو۔۔۔ لیکن بہن دا پھدا باجی ۔۔۔ آپ نے اتنی دیر کیوں لگائی؟۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی وہ میری گردن کو بے تحاشہ چومنے لگی۔۔۔ پھر گردن سے ہوتی ہوئی وہ میری چھاتیوں پر آئی اور انہیں چوسنے لگی۔۔۔ پھر وہ میرے پیٹ پر زبان پھیرتے ہوئے نیچے آئی ۔۔۔اور میری پھدی ۔۔ پر آ کر رُک گئی۔۔۔اور میری پھدی میں انگلی ڈال کر بولی ۔۔۔ سچ بتاؤ باجی ۔۔۔۔بھائی واقعی ہی زور سے مارتا ہے یا مجھے پھنسانے کے لیئے ڈارمہ کر رہی تھی۔۔۔ تو میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئےکہا ۔۔۔ وہ جتنی بھی ذور سے مارے۔۔۔ مجھے آرام سے لگتے ہیں ۔۔ میری بات سنتے ہی وہ مسکرائی ۔۔۔اور کہنے لگی ۔۔۔ باجی تیری ماں دا پھدا ۔۔۔تو یہ سب تم نے مجھے پھانسنے کے لیئے ڈرامہ کیا تھا۔۔۔اور پھر میری چوت پر جھک گئی۔۔۔۔اور زبان نکال کر چوت چاٹنے لگی۔۔۔اور اس کے ساتھ ساتھ اپنی دو انگلیوں کو بھی میری چوت کے اندر باہر کرنے لگی۔۔۔
بھائی کا لن چوس کر ۔۔۔۔ اور دوپہر والے واقعہ سے میں پہلے ہی بہت گرم ہو رہی تھی اس لیئے ۔۔۔ عافیہ کے چوت چاٹنے کے کچھ ہی دیر بعد میری چوت نے ڈھیر ساری منی اگل دی۔۔۔۔ میرے چھوٹنے کے کچھ دیر بعد تک بھی وہ میری پھدی میں انگلی مارتی رہی پھر ۔۔۔ اس نے میری چوت کو ایک بوسہ دیا ۔۔اور میری طرف دیکھتے ہوئے ۔۔ بیڈ پر لیٹ گئی۔۔۔۔۔ یہ دیکھ کر میں اوپر اُٹھی اور مشنری سٹائل میں لیٹی ہوئی عافیہ کے گلابی نپلز کو اپنی انگلیوں میں پکڑ لیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کی بھاری چھاتیوں پر نپلز کا سرکل بلکل چھوٹا اور گول دائیرے کی شکل میں تھا چنانچہ میں نے بھی اسی دائیرے پر سرکل کی شکل میں زبان پھیرنا شروع کر دی اور اس کے ساتھ ہی اپنی ایک انگلی نیچے اس کے دانے پر لے گئی اور اس کی چوت سے نمی لیکر کر ۔۔۔۔۔ پہلے تو اس کے دانے کو خوب چکنا کیا۔۔۔اور پھر۔۔۔ اسے مسلنا شروع کر دیا۔۔۔ اس کے ساتھ ہی ۔۔ عافیہ ۔۔۔ میرے نیچے مچلنے لگا۔۔۔اور بولی ۔۔۔ باجی مزہ آ رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر کہنے لگی۔۔۔ پھدی ول منہ کر نا۔۔ بین یکے ۔۔۔۔ تیری ماں دا پھدا ماراں ( بہن چودے ۔۔۔۔میری چوت کی طرف اپنا منہ لے جاؤ۔۔) اور میں نے اس کی چھاتیوں کو چوسنا چھوڑ کر نیچے کی طرف آگئی ۔۔۔اور اس کی ٹانگوں کو مزید کھول کر اس کی چوت دیکھنے لگی۔۔۔ بلاشبہ اس کے منہ کی ٹکڑی کی طرف عافیہ کی چوت بھی بہت ہی خوب صورت تھی۔۔۔۔ اس کی چوت بہت موٹی اور لب اندر کی طرف مُڑ کر آپس میں جُڑے ہوئے تھے۔۔۔اور دور سے پھدی کی لکیر ایسے نظر آ رہی تھی کہ جیسے جو ٹیلوں کے درمیان تھوڑی بڑی سی دراڑ پڑی ہو۔۔۔۔ اور عافیہ کی اس دراڑ سے ہلکا ہلکا پانی رس رہا تھا ۔۔۔ چنانچہ میں نے پہلے تو اس کی نرم پھدی پر جی بھر کے ہاتھ پھیرا کہ جس پر بالوں کا نام و نشان بھی نہ تھا۔۔ پھر میں اس کی ٹانگوں کی طرف آئی اور اس کی پھدی پر جھک کر اس کی چوت کو چاٹنے لگی۔۔۔۔ میری چوت چاٹائی دیکھ کر عافیہ دھیرے دھیرے کراہنے لگی۔۔۔ پھر اس کی وہ کراہیں ۔۔۔ سسکیوں میں ڈھل گئیں۔۔۔اور پھر ان سسکیوں کی جگہ ۔۔۔۔ گالیوں نے لے لی اور وہ کراہتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔ اُف باجی تیری ماں دا پھدا۔۔۔ بڑا مزہ آ رہا تھا ۔۔۔ زبان پھدی کے اور اندر لے جا۔۔۔۔ ہاں باجی ایسے میری چوت کی دیواروں کو چاٹو۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور چاٹو۔۔۔ یس۔۔۔یس۔۔۔ ہاں۔۔ اوہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر کچھ دیر بعد اس کی پھدی میری میری زبان کے نیچے پھڑکنے لگی ۔۔۔۔ اور میں سمجھ گئی کہ عافیہ کی کنواری چوت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پانی چھوڑنے والی ہے۔۔۔اور میں اس خوب صورت چوت کا رس ب ھرا پانی پینے کے لیئے تیار ہو گئی۔۔۔۔
ڈھیر سارا پانی چھوڑنے کے بعد ۔۔عافیہ پُر سکون ہو کر میرے ساتھ لپٹ کر سو گئی۔۔۔۔ ا سی شام ۔۔۔ مجھے بھائی نے پکڑ لیا۔۔اور کہنے لگا ۔۔۔ باجی یہ تو نا انصافی ہے تو میں نے معصوم بنتے ہوئے اس سے کہا کہ کس قسم کو ناانصافی؟ تو وہ کہنے لگا۔۔۔۔ یہ جو تم اکیلے ہی اکیلے مس عافیہ کے ساتھ گل چھرے اُڑا رہی ہو۔۔۔ آپ کا کیا خیال ہے یہ بات میرے علم میں نہیں ہے ۔۔ پھر میری طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگا۔۔۔ باجی پلیزززز۔۔۔۔ میرا بھی کام بناؤ نا۔۔۔ اس کی بات سن کر میں نے اس سے کہا کہ جہاں تک میرا خیال ہے کہ لوہا بہت گرم ہے اور ہر وقت گرم ہی رہتا ہے اس لیئے تم ایک دو ٹرائی مارو اور۔۔۔۔۔۔۔ اس کی مار لو۔۔۔۔ میری بات سن کر بھائی کہنے لگا ۔۔۔ ایسے مجھ سے جان نہ چھڑا باجی ۔۔۔ بلکہ میری ہیلپ کرو۔۔۔۔ اور پھر تھوڑی دیر تک اسے چھیڑنے کے بعد میں اس اک کام کرنے کے لیئے راضی ہو گئی۔۔۔۔
اس کے بعد میں نے عافیہ کے ساتھ لیسبین سیکس کرتے ہوئے خواہ مخواہ ۔۔۔ لیکن بڑے طریقے کے ساتھ ۔۔۔ لن کے متعلق باتیں کرنا شروع ہو گئی۔۔جیسے جب کبھی میں اور وہ اپنی ٹانگوں میں ٹانگیں پھنساتیں ۔۔ اور ایک دوسرے کے دانے کو رگڑتیں ۔۔۔تو میں باتوں باتوں میں اس سے کہتی کہ تمہاری ٹانگ کی جگہ کاش یہاں کوئی موٹا تازہ لن ہوتا ۔۔۔۔ اور وہ کہتی ۔۔۔ کہو تو باجی میں اپنی پوری ٹ انگ کو ہی تمہاری پھدی میں گھسا دوں؟ لیکن ۔۔۔۔ میں برا سا منہ بناتے ہوئے کہتی ۔۔۔۔۔۔ نہیں میری جان ۔۔۔ تم جتنا مرضی ہے اچھا سیکس کر لو۔۔۔ لیکن ایک لمبے موٹے اور تگڑے لن کا کوئی جوڑ نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔ میری اس قسم کی باتیں سن کر وہ اکثر سوچ میں پڑ جاتی تھی ۔۔۔اور کہتی ہاں باجی میں نے بھی ایک دو دفعہ لیا ۔۔۔۔ لن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لن ہی ہوتا ہے اور اس کا اپنا ہی مزہ ہے ۔۔۔ ۔۔۔ جبکہ دوسری طرف بھائی نے بھی عافیہ پر ٹرائی مارنی شروع کر دی تھی۔۔۔اور کچھ میرے شوق دلانے پر عافیہ بھی بھائی کی طرف مائل ہونا شروع ہو گئی تھی۔۔۔۔
ایک دن ناشتہ کرتے ہوئے عافیہ مجھ سے کہنے لگی ۔۔ باجی آج کل آپ کا بھائی مجھے تاڑنے لگ گیا ہے اس کی بات سن کر میں نے مصنوعی غصے سے کہا ۔۔۔اس سالے کی یہ جراٍت ۔۔۔ کہ میری معشوق پہ ہاتھ صاف کرتا ہے ۔۔۔ کہو تو ابھی اور اسی وقت اس کو دو ہاتھ لگا دوں ۔۔۔ تو میری بات سن کر عافیہ کہنے لگی۔۔۔۔آپ اسے کچھ نہ کہیئے گا باجی ۔۔۔تو میں نے حیران ہونے کی ادا کاری کرتے ہوئے اس سے کہا۔۔۔ وہ کیوں؟؟؟؟؟ تو وہ میری طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔ وہ آپ خود ہی کہتی ہو نا کہ ۔۔۔۔۔۔۔ اس کے بغیر ۔ ۔۔۔۔ مزہ نہیں ۔۔۔۔ اس پر میں ہنس پڑی اور کہنے لگی۔۔۔ تمہارا مطلب لن سے ہے تو اس نے سر ہلا دیا۔۔۔۔ اور کہنے لگی ۔۔۔ آپ کا کیا خیال ہے؟ تو میں نے اس سے کہا خیال تو نیک ہے۔۔۔۔۔اس پر وہ کہنے لگی۔۔۔ مجھے بس آپ کی اجازت درکار تھی۔۔ باقی کام میں خود ہی کر لوں گی۔۔۔۔ وہاں سے فارغ ہو کر میں نے بھائی سے کہا کہ مبارک ہو۔۔۔۔ مبارک ہو مبارک ہو۔۔۔ آدھا کام ہو گیا ہے اور پھر اس کو عافیہ کے ساتھ ہونے والی گفتگو سے آگاہ کر دیا۔۔۔۔جسے سن کر وہ بڑا خوش ہوا۔۔۔ اور میرے ہونٹوں پر چومی دے کر بولا ۔۔۔۔ باجی آپ کا بہت بہت شکریہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر اس طرح کچھ دن اور گذر گئے۔۔ادھر عافیہ اور بھائی کے درمیان معاملہ شروع ہو چکا تھا ۔۔۔۔ ۔۔۔ لیکن بات ابھی تک اس نہج تک نہیں پہنچی تھی کہ جہاں وہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک دن کی بات ہے کہ میں اور عافیہ ناشتہ کر رہیں تھیں کہ اچانک گُڈی باجی کچن میں داخل ہوئی ۔۔میں دیکھا کہ ان کا چہرہ کافی اترا ہوا تھا ۔۔۔۔اس لیئے ان کا اترا ہوا چہرہ دیکھ کر ایسے ہی میں نے ان سے پوچھ لیا کہ گڈی باجی آپ کو کیا ہوا ؟؟ خیریت تو ہے نا؟ تو وہ مجھ سے کہنے لگی ۔۔۔ یار سر درد ہے اور صبع سے بخار بھی محسوس کر رہی ہوں اور اس سکے ساتھ ہی وہ پانی پی کر تیزی سے باہر نکل گئی لیکن باہر جاتے ہوئے مجھے باہر آنے کا اشارہ کیا ۔۔۔ گڈی باجی کا خفیہ اشارہ پا کر میں معاملے کو سمجھ گئی اور عافیہ کو ناشتہ جاری رکھنے کا کہہ کر خود باہر نکل گئی ۔۔ دیکھا تو گڈی باجی باہر ہی کھڑی تھی مجھے دیکھتے ہی کہنے لگی ۔۔۔۔۔ آج ہمارا پروگرام ہے جانی ۔۔۔اس لیئے تم نے ایک گھنٹہ تک ان دو بھوتوں کو سنبھال کر رکھنا ہے۔۔۔۔ اس پر میں نے ان سے خالہ جان کے بارے میں پوچھا تو وہ کہنے لگی وہ کچھ دیر پہلے ہی وہاں سے گئی ہیں ۔۔۔۔ خالہ جان کا سن کر میں نے اطمیاین کا سانس لیا اور پھر سوالیہ نظروں سے گڈی باجی کی طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔۔۔ ماموں نے کب آنا ہے؟ میری بات سنتے ہی گڈی باجی نے اپنی بائیں آنکھ میچی ۔۔۔۔اور کہنے لگی۔۔۔ اس وقت وہ میرے بیڈ روم میں ہیں۔۔۔۔ پھر کہنے لگی تم نے کرنا بس یہ ہے کہ گھنٹہ ڈیڑھ تک عافی ہ اور بھائی کو میرے کمرے کے پاس بھی پھڑکنے نہیں دینا۔۔۔ گڈی باجی کی بات سنتے ہی میرے ذہن میں ایک ترکیب آ گئی اور میں نے اونچی آواز میں کہا ۔۔ باجی آپ کمرے میں جاؤ میں دوائی لیکر آتی ہوں۔۔۔ اور پھر آہستہ سے گڈی باجی کو سارا پلان سمجھا دیا ۔۔جسے سن کر انہوں نے اپنے انگھوٹھے کو میری طرف کرتے ہوئے گُڈ کہا ۔۔۔اور اپنے کمرے کی طرف روانہ ہو گئیں۔۔
ان کے جانے کے بعد میں واپس کچن میں آئی تو حسبِ توقع عافیہ مجھ سے گڈی باجی کے بارے میں پوچھنے لگی۔۔تو میں نے اسے ان کی بیماری کے بارے میں بتلایا ۔۔اس کے بعد میں نے عافیہ سے کہا کہ یار تم ناشتے کر کے جھوٹے برتنوں کو دھودو تو اتنی دیر میں ۔۔۔ میں گڈی باجی کو دوائی دے کر آتی ہوں۔۔پھر میں نے کچن سے ایک گلاس دودھ لیا اور اپنے کمرے میں آگئی۔۔اور وہاں ویسے ہی دو تین قسم کو دوائیاں اُٹھا کر میں گڈی باجی کے کمرے کی طرف چلی گئی۔۔۔ دیکھا تو ان کا کمرہ لاک تھا میں نے ہلکی سی دستک دی اور ساتھ ہی اپنا نام بھی بتایا تو جھٹ سے گڈی باجی نے دروازہ کھول دیا اور میں دودھ کا گلاس لے کر اندر چلی گئی۔دودھ کے گلاس اور دوارئی کو میں نے ایک تپائی پر رکھا ۔۔۔ اور گڈی باجی سے پوچھا کہ ماموں کہاں ہیں ؟
میری بات سن کر اچانک ہی واش روم کا دروازہ کھلا اور ماموں باہر آگئے اور میں یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ اس وقت ماموں بلکل ننگے تھے ۔۔۔۔ اور ان کا لن بڑی سختی کے ساتھ اکڑا ہوا تھا ۔۔۔۔ ماموں کا اکڑا ہوا ۔۔۔۔ لن دیکھتے ہی میری چوت میں چیونٹیاں سی ر ینگنے لگیں ۔۔۔ اور میں نے ماموں کے لن پر نظریں گاڑتے ہوئے کہا ۔۔۔ ماموں آپ اندر کیوں چھپے ہوئے تھے۔۔۔ تو بجائے میری بات کا جواب دینے وہ واش روم سے نکل کر گڈی باجی کے پاس ٹانگیں لمکا کے بیڈ پر بیٹھ گئے ۔۔۔اور پھر مجھے اپنے لن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگے۔۔۔ اتنی حسرت سے مت دیکھو ۔۔۔ آؤ اور اس پر ایک پپی دے دو۔۔ ماموں کی بات سن کر میں نے گڈی باجی کی طرف دیکھا تو وہ کہنے لگی ۔۔۔ میری طرف نہ دیکھ لن کو چوس۔۔۔ گڈی کی بات سن کر میں ماموں کے سامنے فرش پر بیٹھ گئی۔۔۔اور ان کا لن ہاتھ میں پکڑ کر سہلانے لگی۔۔۔ پھر ماموں نے میرے سر کو اپنے لن پر رکھ دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر اس کے ساتھ ہی ۔۔۔ میں نے ماموں کا لن اپنے منہ میں لیا اور اسے چوسنے لگی۔۔۔ واؤؤؤؤؤؤ۔۔۔آج ماموں کے لن کا ٹیسٹ ہی کچھ او ر تھا۔۔ کاش میں اسے کچھ دیر اور چوس سکتی ۔۔۔ لیکن وقت کی کمی کی وجہ سے میں نے ان کے لن کو تھوڑا سا چوسا اور پھر ۔۔۔ باہر جانے کے لیئے کھڑی ہو گئی۔۔۔۔ اور جیسے ہی میں کمرے کی طرف مُڑی ۔۔۔ پیچھے سے گڈی باجی کی گنگناتی ہوئی آواز سنائی دی ۔۔۔ ساڈے وَل تک سجناں ۔۔۔۔۔میں گھوم کر دیکھا تو گڈی باجی بھی اپنی شلوار اتار کے مجھے اپنی پھدی کے درشن کروا رہی تھی وہی پھدی جس کی ایک دن شبی نے بڑی تعریف کی تھی ۔۔۔۔۔ پھر کہنے لگی ۔۔۔۔ ایک دو جیباں ایتھے وی ما ر جا ( تھوڑی سی میری بھی چاٹ لو) ۔۔۔ باجی کی بات سن کر میں واپس گھومی اور پھر میں نے اپنے سر کو ان کی ٹانگوں کے درمیان دے دیا ۔۔۔۔۔اور پھر ان کی چوت پر اپنا منہ رکھ دیا ۔۔۔اف۔۔ باجی کی چوت کی مہک بڑی ہی اشتہا انگیز تھی۔۔۔ اس لیئے میں نے اپنے منہ سے زبان نکالی اور پھر ان کی چوت پر رکھ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس طرح کچھ دیر تک میں ان کی چوت بھی چاٹی ۔۔۔اور پھر اُٹھ کر وہاں سے باہر آ گئی۔۔۔
باہر آ کر میں سیدھی کچن میں گئی تو عافیہ ناشتے کے سارے جھوٹے برتن دھو چکی تھی اور اب ان کو اپنی جگہ پر لگا رہی تھی۔۔۔۔ مجھے دیکھ کر کہنے لگی ۔۔۔ گڈی باجی کو دوائی دے آئی ہو تو میں نے اداکاری کرتے ہوئے کہا ۔۔۔۔ ایک تو اس عورت میں یہ بڑی بیماری ہے کہ دوائی نہیں کھاتی بڑی مشکل سے اسے دوائی کھلا کر آئی ہوں۔۔۔اور گھنٹہ دو گھنٹے تک ریسٹ بھی کرنے کو کہا ہے۔۔۔ تو اس پر عافیہ کہنے لگی۔۔۔ دوائی کھانے کے معاملے میں ابو بھی ایسے ہی ہیں ۔۔۔ پھر باتوں باتوں میں وہ مجھ سے کہنے لگی ۔۔ باجی کل آپ نے مجھ سےکچھ کہا تھا؟ اس کی بات سن کر اچانک مجھے یاد آ گیا اور میں اس سے کہنے لگی۔۔۔۔ یار ہمارے سٹور کی حالت بہت خراب ہے آج میں نے اور تم نے اس کو اِن آرڈر کرنا تھا۔۔ لیکن یار گڈی باجی کی طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے آج میں نے دوپہر کا کھانا پکانا ہے۔۔۔ اس لیئے یہ کام ہم کل کریں گے ۔۔ میری بات سن کر عافیہ بولی۔۔۔ باجی ایسے کرتے ہیں آپ کھانا بناؤ۔۔۔ اتنی دیر میں میں ۔۔سٹور کو سیٹ کرنے کی کوشش کرتی ہوں ۔۔۔۔ تو میں نے اس سے کہا۔۔۔ اچھا نہیں لگتا کہ تم اکیلے ہی کام کرو۔۔
تو وہ مجھے آنکھیں دکھاتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔ اچھا کیوں نہیں لگتا کیا میں غیر ہوں ؟ تو میں اس کے ہونٹ چوم کر بولی۔۔۔۔نہیں اصل میں سٹور میں کچھ بھاری پیٹیاں وغیرہ بھی ہیں جن کو اُٹھا کر ادھر سے ادھر بھی کرنا ہو گا ۔۔۔۔ اور یہ اکیلے بندے کا کام نہیں ۔۔۔ میری بات کو سنتے ہی اس کی آنکھوں میں ہزاروں برقی قمقمے جل اُٹھے اور وہ میری طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔۔ بھاری چیزیں اُٹھانے کے لیئے ہمارے پاس۔۔۔۔۔۔ شبی بھائی جو ہے۔۔۔ اس کے منہ سے شبی کا نام سنتے ہی میں معاملے کی تہہ تک پہنچ گئی اور کہنے لگی ۔۔۔کہتی تو تم ٹھیک ہو۔۔۔ اس پر وہ بولی ۔۔۔تو باجی ڈن ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔ آج میں اور شبی سٹور کی صفائی کرتے ہیں ۔۔۔ ابھی یہ بات ہو ہی رہی تھی کہ شبی بھی کچن میں داخل ہو گیا ۔۔۔ اور عافیہ کی دیکھتے ہوئے بولا۔۔۔یہ میرا نام کس سلسلہ میں لیا جا رہا تھا۔۔۔تو میں نے شبی کو ساری بات بتا دی۔۔۔ میری بات سنتے ہی اس نے بڑے طریقے سے مجھے آنکھ ماری اور کہنے لگا۔۔۔۔۔۔۔ عافیہ میں تمہارے ساتھ چلا تو جاؤں لیکن۔۔۔میری پڑھائی کا حرج ہو گا۔۔۔ شبی کے منہ سے اس بات کا نکلنا تھا کہ عافیہ دھاڑ کر بولی ۔۔ پڑھائی ناں ۔۔۔ تیری ماں دا پھدا۔۔۔ چل اگے لگ۔۔ (تمہاری ماں کی چوت ۔۔۔ میرے ساتھ چلو) اور شبی عافیہ کے ساتھ چل پڑا ۔۔۔ جیسے ہی عافیہ کچن کے دروازے سے نکلی۔۔۔شبی ایک دم پلٹ کے میرے پاس آیا اور کہنے لگا۔۔۔۔باجی میں واردات پا ن لگا ایں ۔۔۔۔ کج ہویا ۔۔۔ تے سنبھالیں ( باجی میں عافیہ کے ساتھ واردات ڈالنے لگا ہوں ۔۔۔ اگر کچھ ہوا تو تم سنبھال لینا )۔۔۔
شبی کی بات سن کر میں نے ہاں میں سر ہلا اور ۔۔۔۔ کچھ دیر انتظار کے بعد ۔۔۔۔۔۔۔ان کا شو دیکھنے کے لیئے میں بھی سٹور روم کی طرف چل پڑی۔۔۔۔۔۔ یہاں میں آپ کو اپنے سٹور کی لوکیشن کے بارے میں بتا دوں ہمارا سٹور ۔۔۔ گھر کے آخری کونے میں واقع ہے۔۔۔ عام طور پر اس طرف کوئی بھی آتا جاتا نہیں ۔۔۔ ویسے تو سٹور عام طور پر بند ہی رہتا تھا۔۔۔ لیکن ہوا کے آنے جانے کے لیئے ہم اس کی ایک کھڑکی ہمیشہ ہی کھلی رکھتے تھے۔۔۔ اور میں سٹور کی طرف جاتے ہوئے یہی دعا کر رہی تھی ۔۔۔۔۔کہ کاش اس وقت سٹور کی وہ کھڑکی ۔۔کھلی ہو۔۔۔۔ اور پتہ نہیں یہ میری دعا کا اثر تھا یا کوئی اور بات تھی کہ ۔۔۔ دور سے ہی مجھے سٹور سے چھن چھن کر باہر کی طرف آتی ہوئی روشنی نظر آ گئی۔۔۔۔۔ اور اس روشنی کو دیکھ کر خود بخود میرے قدم اور تیز ہو گئے۔۔۔۔۔۔۔۔
جس وقت میں نے سٹور سے اندر جھانک کر دیکھا اس وقت شبی ایک درمیانے سائز کی پیٹی کو اُٹھا کر عافیہ کی بتائی ہوئی جگہ پر رکھ رہا تھا۔۔۔۔ جبکہ عافیہ عین اس کے پیچھے کھڑی تھی۔۔۔ اب بھائی نے پیٹی کو فکس کرنے کے بہانے اپنا بازو ۔۔ تھوڑا پیچھے کیا۔۔ اور جان بوجھ کر عافیہ کی بھاری چھاتیوں کے ساتھ ۔۔ مسل دیا۔۔۔ پھر یہ حرکت اس نے دو تین بار کی ۔۔۔۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ عافیہ نے ایک بار بھی اسے منع نہیں کیا۔۔۔۔ اور اس کے پاس کھڑی اس کو ڈائیریکشن دیتی رہی۔۔۔۔اور جب وہ پیٹی متعلقہ جگہ پر ایڈجسٹ ہو گئی۔۔۔۔ تو عافیہ وہاں سے مُڑی اور تھوڑی دور جا کر چھوٹے چھوٹے بکسوں کو ۔۔ تریب دینے لگی۔۔۔۔ادھر جیسے ہی بھائی اس پیٹی کو مطلوبہ جگہ پر ایڈجسٹ کر کے واپس پلٹا ۔۔۔تو دیکھا کہ عین اس وقت عافیہ جھک کر ایک چھوٹی سی پیٹی پر رکھے چھوٹے چھوٹے سوٹ کیسوں کو ترتیب دے رہی تھی ۔۔۔۔۔ عافیہ کے جھکنے کی وجہ سے اس کی موٹی گانڈ جو کہ پہلے ہی باہر کو نکلی ہوئی تھی مزید باہر کی طرف آ گئی تھی۔۔۔۔ اور یہ دیکھ کر شبی آگے بڑھا ۔۔۔۔اور اس کی گانڈ کے ساتھ اپنا لن فکس کر کے بولا۔۔۔۔ اور کیا کرنا ہے عافیہ۔۔۔؟ ادھر عافیہ اپنی گانڈ پر بھائی کے لن کا لمس پا کر ایک دم پلٹی اور تیزی سے بولی ۔۔ تیری بین دا پھدا۔۔۔۔۔ گالی سن کر شبی بڑی ڈھٹائی سے کہنے لگا۔۔۔ وہ تو ٹھیک ہے اب بتاؤ ۔۔ آگے کیا کرنا ہے۔۔تو عافیہ اس پر گرجتے ہوئے بولی۔۔۔۔ باز آ جاؤ ۔۔۔ یہ تم نے میرے ساتھ دوسری دفعہ یہ حرکت کی ہے۔۔۔اب اگر دوبارہ ایسا کیا تو۔۔ میں باجی سے تمہاری شکایت لگا دوں گی اور میں بھائی کے ساتھ ساتھ میں نے بھی عافیہ کے لہجے سے محسوس کر لیا کہ وہ بھائی پر مصنوعی غصہ جھاڑ رہی تھی۔۔۔۔ اسی لیئے عافیہ کی بات سن کر شبی مسکراتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔ آپ کس حرکت کی بات کر رہی ہو محترمہ۔۔۔۔ اس پر عافیہ دوبارہ سے اسی ٹون میں کہنے لگی۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔ تیری ماں بہن دونوں کا پھدا۔۔۔ معصوم مت بنو میں سب سمجھتی ہوں۔۔ اس پر بھائی نے عافیہ کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہنے لگا۔۔۔ جب تم سب سمجھتی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔ توپھر میری بات کو کیوں نہیں سمجھتی۔۔ اس پر عافیہ نے بھائی سے اپنا ہاتھ چھڑا لیا اور بولی۔۔۔ پہلے کام تو کرنے دے۔ تو بھائی دوبارہ سے اس کا ہاتھ پکڑ کر بولا۔۔۔۔ اتنا نا ترسا ۔۔۔۔۔ اور ساتھ ہی ۔۔ اس نے عافیہ کا ہاتھ چوم لیا۔۔۔ بھائی کے ہاتھ چومنے کی دیر تھی ۔۔۔ کہ شرم سے عافیہ گلنار ہو گئی۔اور بھائی کی طرف دیکھ کر ہولے سے بولی۔۔۔ بہن چود۔۔حرامی۔۔۔۔۔پھر ادھر ادھر دیکھتے ہوئے کہنے لگی۔۔ ۔۔۔۔ نہ کر ۔۔۔ کوئی آ جائے گا۔۔۔ اس پر بھائی زبردستی اس سے گلے لگ کر بولا۔۔۔ فکر نہ کر کوئی وی نئیں آئے گا۔۔۔ بھائی کی بات سن کر عافیہ کپکپاتے ہوئے ہونٹوں سے کہنے لگی ۔۔۔ پھر بھی ۔۔۔ میری تسلی کی لیئے ۔۔۔تم ایک نظر باہر دیکھ آؤ عافیہ کی بات سن کر بھائی کہنے لگا ٹھیک ہے تم ٹھہرو میں ابھی دیکھ کر آتا ہوں ۔۔
اس کے ساتھ ہی بھائی کمرے سے باہر نکلا ۔۔۔اور مجھے کھڑکی کے پاس کھڑا دیکھ کر میرے پاس آ گیا اور پھر سرگوشی میں کہنے لگا۔۔۔ باجی سب اوکے ہے نا۔۔تو میں نے اسے مختصراً ساری صورتِ حال سے آگاہ کردیا۔۔۔۔۔میری بات سن کر وہ کچھ دیر رُکا ۔۔۔۔۔۔۔پھر۔۔ اپنے قدموں کی آواز پیدا کرتا ہوا واپس سٹور روم میں داخل گیا ۔۔اور اندر جاتے ہی اس نے سٹور کو کنڈی لگا دی۔۔۔ اسے کنڈی لگاتے دیکھ کر عافیہ کہنے لگی ۔۔۔ ماں چود کنڈی کیوں لگا رہا ہے ؟ تو بھائی نے جواب دیا۔۔۔۔ تمہاری تسلی کے لیئے۔۔۔ پھر اس کے پاس جا کھڑا ہوا اور کہنے لگا۔۔۔ میں پورے گھر کا ایک چکر لگا کر آیا ہوں ۔۔ صبو باجی کچن میں کھڑی ہے۔۔۔ خالہ باہر گئی ہوئیں ہیں ۔۔اور گڈی باجی دوائی لے کر سوئی ہوئی ہے۔۔۔ اتنا کہہ کر اس نے عافیہ سے گلے ملنے کے لیئے اپنے دونوں بازو کھول دیئے۔۔۔۔ لیکن دوسری طرف عافیہ اس سے گلے ملنے کے لیئے ایک انچ بھی آگے نہ بڑھی ۔۔۔اور اپنی جگہ کھڑی رہی ۔۔۔
یہ دیکھ کر بھائی خود ہی آگے بڑھا ۔۔اور عافیہ کو اپنے گلے کے ساتھ لگا لیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ دیکھ کر عافیہ نے کوئی مزاحمت نہ کی بلکہ بھائی کے ساتھ چمٹ گئی۔۔ کچھ دیرکے بعد بھائی نے اپنے ہونٹ عافیہ کی گردن پر رکھ دیئے۔۔۔۔ اور جیسے ہی بھائی کے ہونٹ عافیہ کی گردن پر پڑے تو عافیہ کے منہ سے ایک سسکی سی نکل گئی۔۔۔۔۔۔ ہائے۔۔۔ عافیہ کے منہ سے ہائے کی آواز سن کر بھائی کا تو پتہ نہیں لیکن مجھ پر شہوت سوار ہونا شروع ہو گئی تھی۔۔۔ادھر بھائی نے عافیہ کی گردن پر بوسوں کی بوچھاڑ کر دی تھی۔۔اور کم سن عافیہ بھائی کی بانہوں میں مچل رہی تھی۔۔۔۔ اور میں نے بھائی کی شلوار کی طرف دیکھا تو ۔۔۔ عافیہ کی گردن کو چومتے ہوئے بھائی کا لن بھی کھڑا ہو گیا تھا۔۔۔اور میرے خیال میں عافیہ نے بھی بھائی کے لن کو اپنی ٹانگوں کے بیچ میں محسوس کر لیا تھا تبھی تو بھائی کے ساتھ گلے لگی عافیہ اب اپنی چوت والے حصے کو بھائی کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔ ادھر بھائی نے اب اپنے منہ سے زبان نکال لی تھی ۔۔۔اور وہ اپنی زبان کو عافیہ کے لال گالوں پر پھیر رہا تھا۔۔۔جس سے عافیہ ۔۔۔ مست ہو کر اپنی چوت کو مزید ۔۔ بھائی کے لن کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کررہی تھی اور پھر کہہ رہی تھی ۔۔ بس کر ۔۔۔۔۔۔ ہائے۔۔۔۔ بس کر۔۔۔ لیکن اس دفعہ بھائی کی زبان ۔۔۔ عافیہ کے گالوں کو گیلا کرتے ہوئے اس کے منہ میں غائب ہو گئی تھی۔۔۔۔۔ اور پھر میرے دیکھتے ہی دیکھتے عافیہ نے اپنے دونوں ہونٹوں کو جوڑا ۔۔۔اور بھائی کی زبان کو چوسنا شروع ہو گئی۔۔۔۔ یہ دیکھ کر بھائی نے قمیض کے اوپر سے ہی عافیہ کی چھاتیوں پر ہاتھ پھیرنا شروع کر دیا تھا۔۔۔
ادھر اپنی چھاتیوں پر بھائی کا ہاتھ لگتے ہی عافیہ کچھ اور گرم ہو گئی تھی ۔۔۔۔اور اس نے بھائی کی زبان کو اپنے منہ سے نکلا اور ۔۔۔۔۔ پھر ادھر ادھر دیکھتے ہوئے جلدی سے برا سمیت اپنی قمیض اتار دی۔۔۔اور اپنی ایک چھاتی کو پکڑ کر بھائی کے منہ میں دے کر بولی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ کیسی آگ لگا دی ہے تم نے بہن چود۔۔۔۔اب میری چھاتی کو چوسو۔۔۔ اور بھائی نے عافیہ کی بھاری چھاتی کو اپنے منہ میں لیا اور اسے چوسنے لگا۔۔۔ مزے کے مارے کراہتے ہوئے عافیہ کی آنکھیں بند ہونا شروع ہو گئیں ۔۔ لیکن اتنے مزے کے باوجود بھی اس نے بھائی کا ہاتھ پکڑا اوراپنی پھدی پر رکھ کر بولی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تیری بین دا پھدا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میری پھدی نوں مروڑ ۔۔۔(تمہاری بہن کی چوت۔۔۔۔۔۔۔ میری پھدی کو مسلو)لیکن بھائی نے بجائے اس کی پھدی مسلنے کے ۔۔اس کی چھاتی کو اپنے منہ سے ہٹایا ۔۔۔۔اور ۔۔۔۔ عافیہ کو شلوار اتارنے کا بولا۔۔۔۔ عافیہ نے بھائی کی طرف دیکھا اور اپنی شلوار اتارتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔۔۔۔ تم بھی اتارو نا۔۔۔ اور عافیہ کی بات سن کر بھائی نےایک دم سے اپنے سارے کپڑے اتار دیئے۔۔۔۔ جیسے ہی بھائی ننگا ہوا۔۔۔۔ اس کی دو ٹانگوں کے بیچ میں کھڑا ہوا۔۔۔۔ اس کے موٹے اور لمبے لن کو دیکھ کر ۔۔ عافیہ کے منہ میں پانی بھر آیا ۔۔اور وہ آگے بڑھی اور بھائی کا لن پکڑ کر بولی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہن چود ۔۔تیرا ہتھیار ۔۔۔ بہت اعلیٰ ہے۔۔۔ اس کی بات س کر بھائی نے عافیہ کو لن چوسنے کا اشارہ کر کے بولا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرا چوسو گی؟ تو عافیہ کہ جس کی نگاہیں ابھی تک بھائی کے لن پر لگی ہوئیں تھیں ۔۔۔ اس کی طرف دیکھتے ہوئے اپنے ہونٹوں پر زبان پھیرنے لگی ۔۔اور پھر بولی۔۔۔۔ ہاں میں اسے ضرور چوسوں گی۔۔۔۔۔اس کی بات سن کر بھائی پاس پڑی پیٹی پر بیٹھ گیا۔۔۔اور عافیہ نے اپنا سر نیچے کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور بھائی کے لن کو اپنے ہاتھوں میں لے کر اسے دیکھنے لگی۔۔۔ پھر اس نے اپنا منہ کھولا ۔۔۔اور بھائی کے لن کو اپنے منہ میں لے گئی۔۔۔۔ عافیہ کے منہ میں لن جاتے ہی ۔۔۔ اچانک ہی اس وقت میرا دل یہ چاہنے لگا۔۔ کہ کاش اس وقت بھائی کا یہ لن عافیہ کی بجائے میرے منہ میں ہوتا۔۔۔۔اور میری بات کی تائید کرتے ہوئے پھدی نے بھی اپنے اندر سے ایک قطرہ پانی کا چھوڑتے ہوئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بھائی کے لن کی فرمائیش کر دی۔۔۔۔
ادھر عافیہ بھائی کے لن کو اپنے منہ کے اندر باہر کر رہی تھی ۔۔اور ادھر شہوت سے میرا برا حال ہو رہا تھا۔۔۔ چنانچہ میں نے ایک نظر اپنی گیلری میں دیکھا ۔۔اور پھر اسے سنسنان پا کر۔۔۔۔ اپنا ایک ہاتھ شلوار میں لے گئی۔اور اپنی پھدی پر جا کر رکھ دیا۔۔۔ اُف۔۔اس وقت شہوت کے مارے میری پھدی بہت تپی ہو ئی تھی اس لیئے میں نے اپنی دو انگلیاں پھدی میں ڈالیں اور پھر اندر کا نظارہ دیکھنے لگی۔۔۔ جہاں پر عافیہ ابھی تک بھائی کا چوپا لگا رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر کچھ دیر بعد اس نے بھائی کے لن کو اپنے منہ سے نکالا اور ۔۔۔۔ بھائی کی جگہ خود پیٹی پر جا کر بیٹھ گئی۔۔۔ بتانے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔۔۔ عافیہ کو پیٹی پر بیٹھے دیکھ کر بھائی نے اپنے دونوں گھنٹے فرش پر لگائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور عافیہ کی ٹانگوں کو کھول کر اس کی دل کش اور گیلی پھدی پر اپنی زبان رکھ دی۔۔۔ جیسے جیسے بھائی عافیہ کی پھدی کو چاٹتا جاتا ۔۔ویسے ویسے عافیہ کے منہ سے سسکیاں نکلتی جاتیں ۔۔ اور ان سسکیوں میں خاص کر وہ ۔۔۔ ہائے بڑے ہی سیکسی انداز میں کیا کرتی تھی۔۔۔ جسے سن کر مجھ پر بھی شہوت کا غلبہ شدید سے شدید تر ہونے لگتا تھا۔۔۔
پھدی چٹواتے چٹواتے اچانک ہی عافیہ نے بھائی کا منہ اپنی پھدی سے ہٹا یا ۔۔۔اور کہنے لگی بس۔۔۔۔۔۔۔۔ اس پر بھائی کسی شرابی کی طرح اس کی طرف دیکھ کر بولا۔۔۔ ہن پھدی ماراں ( اب پھدی ماراں ) تو بھائی کی بات سن کر عافیہ کہنے لگی۔۔۔ ماں چودا۔۔۔ میری پھدی مارنی ۔۔نئیں ۔۔۔۔۔بلکہ میری پھدی نوں پھاڑنا اے ۔۔ اور اس کے ساتھ ہی اس نے تھوڑی دور ایک پیٹی پر پڑی تلائی اُٹھائی اور واپس اسی پیٹی کی طرف آ گئی کہ جس پر کچھ دیر پہلے وہ بیٹھی بھائی سے اپنی چوت چٹوا رہی تھی۔۔۔ اس نے پیٹی پر تلائی بچھائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور پھر اس پر اپنی دونوں کہنیوں کو رکھا۔۔۔ اور اپنی ٹانگیں کھول دیں ۔۔اور گانڈ باہر نکال کر بولی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہن میری پھدی پھاڑڑڑڑڑڑڑڑڑڑڑڑ۔۔۔۔۔ عافیہ کی شہوت میں ڈوبی ہوئی آواز سن کر بھائی اس کے پیچھے آیا ۔۔۔اور پھر اس نے عافیہ کی چوت پر اپنے لن کا ہیڈ رکھا۔۔۔اور اس سے کہنے لگا۔۔۔۔ بڑی گرم پھدی اے تیری ( تمہاری پھدی بہت گرم ہے) تو عافیہ کہنے لگی۔۔۔۔۔ ماں پھدیا ۔۔۔ گلاں نہ کر ۔۔۔۔۔۔۔ میری پھدی مار( مادر چود زیادہ باتیں نہ کرو ۔۔۔ میری پھدی مارو) عافیہ کہ بات سنتے ہی بھائی نے اس کی چوت میں ایک زور دار گھسا مارا ۔۔بھائی کا لن عافیہ کی تنگ چوت کو چیرتا ہوا سیدھا ۔۔ اس کی بچہ دانی سے جا ٹکرایا ۔۔۔۔۔۔۔ اور اس دھکے کے لگنے کی دیر تھی کہ۔۔۔ عافیہ کے منہ سے وہی دل کش اور لزت بھری سسکی نکلی۔۔۔ ہائےۓۓۓۓۓۓۓۓۓ۔۔۔ اور پھر اس کے بعد شبی نے عافیہ کی چوت کی پٹائی شروع کر دی۔۔۔ بیچ میں جب وہ عافیہ کی چوت میں کچھ ہ لکے گھسے مارتا ۔۔۔تو عافیہ ایک دم اپنا منہ پیچھے کی طرف کر کے کہتی۔۔۔۔ شبی بین چودا۔۔۔۔۔ میری پھدی مارنی نہیں پھاڑنی اے۔۔۔۔تیری ماں دا پھدا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اپنےلن نوں زور دی مار۔۔۔۔۔۔( شبی بہن چود۔۔۔۔ میں نے تمہیں کہا نا کہ میری پھدی کو مارنا نہیں پھاڑنا ہے ۔۔۔ اس لیئے مادر چود ۔۔۔ دھکے زور سے مارو) عافیہ کی یہ بات سن کر شبی کو جوش آگیا ۔۔اور پھر اس نے عافیہ کی چوت میں گھسوں کی برسات کر دی ۔۔۔۔اور ہر گھسے پر عافیہ یہی کہتی ۔۔۔۔۔ہائے ۔۔ئے ئے ۔۔۔میویں مار چھڈ ۔۔۔۔ ( مجھے مار دو) ۔۔۔اور پھر گھسے مارتے مارتے اور گھسے کھاتے کھاتے ۔۔۔ ان دونو ں کا اینڈ آ گیا۔۔۔۔ اور پھر۔۔۔۔میرے دیکھتے ہی دیکھتے ۔۔۔ شبی نے اپنے آخری دو تین گھسے فل سپیڈ سے مارے جنہیں ۔۔۔عافیہ نے بڑی آسانی سے برداشت کیا ۔۔اور ہائے ۔۔ہائے ۔۔۔ہائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کرتی ہوئی اپنی چوت کو پیچھے کی طرف کرنے لگی۔۔۔اور پھر اگلے ایک دو گھسوں کے بعد شبی عافیہ کی چوت میں ہی چھوٹ گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جیسے ہی شبی عافیہ کی چوت میں چھوٹا میں نے اپنی چوت میں دی ہوئی دونوں انگلیوں کو نکالا ۔۔۔اور ان ا پر لگے چوت کےرس کو چاٹنے لگی ۔۔۔۔۔کیونکہ شبی اور عافیہ کے ساتھ ساتھ ۔۔۔۔۔۔۔۔ میری چوت نے بھی پانی چھوڑ دیا تھا ۔۔اور اس وقت اپنی انگلیوں پر لگے اسی پانی کو میں اپنی زبان سے چاٹ رہی تھی ۔۔۔۔۔ کہ اچانک کسی نے پیچھے سے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا ۔۔۔۔اپنے کندھے پر کسی کے ہاتھ کو محسوس کرتے ہی میں ایک فٹ اوپر کو اچھلی ۔۔۔۔اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں بڑے مزے سے اپنی انگلیوں پر لگی منی کو چاٹ رہی تھی کہ ۔۔ اچانک پیچھے سے کسی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔۔۔ اس وقت میں اپنی انگلیاں چاٹنے میں اتنی محو تھی کہ جیسے ہی کسی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا ۔۔۔ میں ایک دم سے اچھل پڑی ۔۔۔۔ اور پیچھے مُڑ کر دیکھا تو وہ ماموں تھے جو اس وقت گڈی باجی کے ساتھ کاروائی ڈال کے اپس آئے تھے۔۔۔ اور میرے خیال میں گڈی باجی نے ان سے کافی مشقت لی تھی تبھی تو ماموں کے چہرے پر تھکاوٹ کے آثار بڑے واضع نظر تھے ۔۔ادھر میرے یوں اچھلنے پر وہ کچھ حیران ہو کر کہنے لگے ۔۔ کیا ہوا ؟؟۔۔ تو میں نے بات کو گول کرتے ہوئے بڑے سرسری سے لہجے میں ان سے کہا کہ کچھ نہیں ماموں جان میں اپنی ہی کسی سوچ میں گم تھی۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی میں نے ان کو باہر کی طرف چلنے کا اشارہ کر دیا ۔۔۔۔۔ اور میرا اشارہ پا کر ڈھیلے ڈھیلے انداز میں چلتے ہوئے دروازے کی طرف بڑھنا شروع ہو گئے ۔۔۔۔۔ ماموں کو تھکاوٹ سے چُور دیکھ کر مجھ سے رہا نہیں گیا ۔۔۔۔۔۔اور آخر میں نے ان سے پوچھ ہی لیا کہ کیا بات ہے ماموں ۔۔۔ لگتا ہے کہ آج گڈی باجی نے آپ سے کچھ زیادہ ہی مشقت لے لی ہے ۔۔ میری بات سن کر ماموں ہنس کر بولے ۔۔۔ ہاں یار کچھ ایسا ہی ہے اتنے میں ہمارا گیٹ آ گیا اور ماموں گیٹ کھول کر تھکے تھکے قدموں سے گھر سے باہر نکل گئے۔۔
مامون کے جانے کے بعد میں سیدھی کچن میں چلی گئی اور دوپہر کے کھانے کا بندبست کرنے لگی ۔۔ کچھ دیر بعد ہی عافیہ بھی میرے پاس آگئی۔۔۔ تو میں نے اس سے پوچھا ۔۔ ہاں عافیہ۔۔۔ سٹور روم کو ٹھیک کر دیا۔۔۔۔ تو اس پر عافیہ نے میری طرف دیکھ کر آنکھ ماردی۔۔۔۔۔ اور پھر کہنے لگی ۔۔۔ سٹور روم کا تو پتہ نہیں باجی ۔ ۔۔۔ البتہ آپ کے بھائی نے ( اپنے پھدی کی طرف اشارہ کر کے) اس کو اے ون کر دیا ہے۔۔۔ اس کی بات سن کر میں ہنس پڑی تو وہ کہنے لگی ۔۔۔ باجی میں ابھی نہا کر آتی ہوں ۔۔۔ اس طرح اگلے چند دن عافیہ اور بھائی نے میری نگرانی میں خوب خوب مستی کی ۔۔۔ پھر کچھ دن بعد بڑے ماموں عافیہ کو لینے کے لیئے آ گئے۔۔۔ اور پھر عافیہ کے جانے کے دو دن بعد بھائی بھی واپس گھر چلا گیا۔۔۔۔۔
اسی طرح دن گزرتے گئے ۔۔۔۔ پھر ایک دن کی بات ہے کہ بڑی خالہ جان اپنے واش روم میں نہا رہیں تھیں کہ اچانک وہ پھسل کر گر پڑیں۔۔۔۔اور ان کے اس طرح گرنے سے ان کے " چوُکلے " کی ہڈی ٹوٹ گئی۔۔۔ گھر میں شور مچ گیا اور عدنان انہیں لیکر کر لا ہور چلے گئے ۔۔۔۔ جہاں پر میو ہسپتال میں ان کی ہڈی کو جوڑ دیا گیا ۔۔۔ لیکن اس کے باوجود بھی خالہ ساری رات درد کے مارے کراہتی رہیتں تھیں۔۔۔۔۔ درد کے ساتھ ساتھ خالہ کو بلڈ پریشر اور شوگر کا عارضہ بھی لاحق ہو گیا۔۔۔۔ اور ڈاکٹروں نے اس بات کی سختی سے تاکید کی تھی کہ صبع شام ان کا بلڈ پریشر چیک کر کے اس کا چارٹ بنایا جائے ۔۔ اس کے ساتھ ڈاکٹروں نے تکلیف کی وجہ سے سے ان کو دن رات پین کلر کا ٹیکہ بھی تجویز کر دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کام کے لیئے عدنان کے دوست سمیع جو کہ ہمارے محلے سے تھوڑی دور مین بازار میں کلینک کرتا تھا ۔۔ کی خدمات حاصل کی گئیں ۔۔۔خالہ کو چیک کرتے ہوئے سمیع نے بھائی کو بتلایا کہ چونکہ دن کے ٹائم وہ ایک سرکاری ہسپتال میں میل نرس کا کام کرتا ہے ۔۔اس لیئے وہ دن کے وقت خالہ کا بلڈ پریشر نہیں چیک کر سکے گا ہاں ہر شام وہ یہ خدمات ضرور سر انجام دے گا ۔۔ عدنان کا دوست ہونے کی وجہ سے میرا سمیع سے کوئی پردہ نہ تھا اس لیئے میری موجودگی میں اس نے عدنان کو بتلایا کہ دن کے وقت اس کا چھوٹا بھائی ۔۔۔۔کاشی کہ جسے سب لوگ پیار سے چھوٹے میاں کہتے تھے۔۔۔ اور جو میٹرک کے بعد آج کل فارغ تھا ۔اس لیئے وہ دن کے وقت کلینک پر ہوتا تھا ۔۔۔ سمیع کہنے لگا کہ چھوٹے میاں ۔۔۔۔۔روزانہ آ کر نہ صرف یہ کہ خالہ جان کو پین کلر ٹیکا بھی لگا جائے گا بلکہ ان کا بلڈ پریشر بھی چیک کر چارٹ ہر لکھ جایا کرے گا ۔۔۔ پھر کہنے لگا کہ اب مجھے اجازت دیں ۔۔۔۔۔ کل صبع چھوٹے میاں آپ کے گھر آجائے گا۔۔۔۔ ۔۔۔ اس پر عدنان نے اس سے پوچھا کہ دیکھ لو یار ۔۔۔ کاشی بہت چھوٹا ہے وہ یہ کام آسانی سے کر لے گا؟ عدنان کی بات سن کر سمیع کہنے لگا۔۔۔۔۔ اس بات کی تم فکر نہیں کرو ۔۔۔یہ میری ذمہ داری ہے۔۔۔
دوسری طرف خالہ کی دیکھ بھال کے لیئے میں اور گڈی باجی نے آپس میں اپنے اپنے اوقاتِ کار طے کر لیئے تھے ۔۔۔ چونکہ صبع کے وقت میں فری ہوتی تھی اور گڈی باجی گھر کا کھانا وغیرہ بنایا کرتی تھی اس لیئے خالہ کے ساتھ صبع کے وقت رہنے کی میں نے ڈیوٹی سنبھال لی تھی ۔۔۔۔۔اسی طرح شام کے بعد اگلی صبع تک گڈی باجی نے خالہ کو سنبھالنا ہوتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ اگلے دن کی بات ہے کہ میں اس وقت صحن میں بیٹھی گڈی باجی کے ساتھ سبزی چھیل رہی تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی ۔۔ دستک کی آواز سن کر میں اُٹھی اور باہر جا کر دروازہ کھول دیا۔۔۔ اور دیکھا تو ایک چھوٹا سا لڑکا کہ جس کا رنگ گورا۔۔۔ سرخی مائل ہونٹ ۔۔۔۔ چھریرا سا بدن ۔۔۔۔اور جس کے معصوم سے چہرے پر چھوٹے چھوٹے بال بھی تھے۔۔۔ سر پر کسی مدرسے کی پگڑی پہنے ہاتھ میں بلڈ پریشر کا آلہ پکڑے کھڑا تھا۔۔۔ مجھے دیکھ کر وہ تھوڑا سا گھبرا گیا اور کہنے لگا۔۔۔کہ عدنان صاحب کا گھر یہی ہے تو میں نے اثبات میں سر ہلا دیا ۔۔تب وہ کہنے لگا۔۔۔ کہ اس کا نام کاشی ہے اور وہ ڈاکٹر سمیع کا چھوٹا بھائی ہے۔۔۔ اور وہ اماں جی کو ٹیکہ لگانے اور ان کا بلڈ پریشر چیک کرنے آیا ہے ۔۔۔ کاشی کے منہ سے اپنا نام سن کر مجھے یاد آ گیا کہ رات اس کے بھائی نے اسی کے بارے میں بتایا تھا ۔ اس لیئے میں ایک طرف کھڑی ہو گئی ۔۔۔۔۔اور اسے اندر آنے کا اشارہ کیا۔۔۔۔ اور پھر اس کو اپنے ساتھ لیئے ۔۔۔ خالہ جی کے کمرے میں لے آئی۔۔۔ جہاں پر وہ ۔۔۔ خالہ کا بلڈ پریشر اور میں اس کو چیک کرنے لگی۔۔۔ ۔۔۔۔ بلا شبہ 15/ 16 سال کا وہ لڑکا بہت ہی معصوم اور بڑا ہی کیوٹ سا تھا۔۔۔۔ بلڈ پریشر چیک کرتے ہوئے میں نے اس کا تھوڑا سا انٹرویو لیا۔۔۔ تو میرے ہر سوال پر اس نے بڑے شرما شرما کر جواب دیئے۔۔۔اس کی لڑکیوں کی طرح شرمانے کی ادا پر میں قربان ہو گئی ۔۔۔۔۔اور ویسے بھی ایسی سویٹ ٹافی کو بھلا کون چھوڑتا ہے؟ اس لیئے اس کی طرف دیکھتے ہوئے میرے اندر ایک کھچڑی سی پکنے لگی۔۔۔۔۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ مجھے اس بات کا بھی احساس تھا کہ یہ لڑکا عدنان کے بیسٹ فرینڈ کا چھوٹا بھائی ہے اس لیئے۔۔۔ اس کے ساتھ کچھ بھی کرتے وقت ۔۔۔ مجھے ہر پہلو کو مدِ نظر رکھنا ہو گا۔۔۔۔ خیر اس دن تو وہ چلا گیا ۔۔ لیکن میرے اندر ایک ہل چل سی مچا گیا ۔۔۔۔ اسے دیکھ کر گڈی باجی بھی نہ رہ سکی اور میری طرف دیکھ کر کہنے لگی۔۔۔۔۔۔ میری جان لڑکا تو بہت چکنا ہے ۔۔۔۔اس پر میں نے بھی اس کی طرف دیکھتے ہوئے ہاں میں سر ہلا دیا ۔۔۔
اس کے بعد حسبِ پروگرام روزانہ ہی اس لڑکے نے ہمارے گھر آنا شروع کر دیا ۔۔۔اور اس مولوی ٹائپ بچے کو دیکھ کر روز ہی میں۔۔۔۔۔ اپنے ۔۔۔۔۔ ارادے بناتی اور۔۔۔۔۔۔ روز ہی۔۔۔ انہیں توڑتی رہی۔۔۔۔۔کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کروں ۔۔ کیونکہ یا تو اس لڑکے کو اپنے بھائی کی طرف سے اس بات کی سخت ہدایت تھی کہ اس نے ہم لوگوں کے ساتھ کوئی فالتو بات نہیں کرنی۔۔۔ نگاہ نیچ رکھنی ہے ۔۔۔۔۔ اور بلا بلا۔۔۔۔جبکہ دوسری طرف اس لڑکے کے بارے میں میرے اندر ۔۔۔ کی ہل چل دن بدن تیز سے تیز تر ہوتی جا رہی تھی اور دوسرے لفظوں میں یہ لڑکا میرے لیئے ایک چیلنچ بنتا جا رہا تھا۔۔۔ وہ فکس ٹائم پر آتا ۔۔خالہ کا بلڈ پریشر چیک کرتا۔۔۔۔ ان کو ٹیکہ لگاتا ۔۔۔اور میرے اصرار پر بھی۔۔وہ چائے شربت نہ پیتا تھا۔۔۔۔۔کہتا تھا کہ بھائی نے سختی کے ساتھ منع کیا ہے ۔۔۔۔۔۔ چنانچہ جیسے ہی اس کا کام ختم ہوتا وہ بڑی تیزی کے ساتھ واپس چلا جاتا تھا۔۔۔ لیکن کب تک؟؟؟؟؟؟؟؟ ۔۔۔
پھر ایک دن کی بات ہے ۔۔۔ کہ اس وقت میں اس کی طرف سے تقریباً مایوس ہی ہو گئی تھی ۔۔۔ اس لیئے میں نے اسے خالہ کے پاس چھوڑا ۔۔اور خود ہانڈی دیکھنے کے لیئے کچن میں چلی گئی کیونکہ اس دن گڈی باجی اپنے کمرے میں ماموں کے ساتھ مصروف تھی۔۔۔۔کچن سے واپسی پر میں خالہ کے کمرے میں جا رہی تھی کہ اچانک ہی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے دروازے پر رکُنا پڑا ۔۔۔ کیا دیکھتی ہوں کہ چھوٹے میاں نے خالہ کے بازو پر بلڈ پریشر چیک کرنے والا آلہ لگایا ہوا تھا ۔۔۔ لیکن اس لڑکے کو ایک نظر دیکھ کر ہی میں سمجھ گئی تھی ۔۔۔۔۔کہ اس لڑکے کا دھیان بلڈ پریشر کی طرف نہیں ۔۔۔ بلکہ کہیں اور ہے۔۔۔۔ اور پھر میں نے اس کی نظروں کے تعاقب میں دیکھا تو ۔۔۔ میں حیران رہ گئی۔۔۔۔ کیا دیکھتی ہوں کہ۔۔۔۔ چھوٹے میاں کی نظریں ۔۔بلڈ پریشر کے آلے کی طرف کم اور ۔۔۔۔۔۔۔ خالہ کے کھلے گلے کی طرف زیادہ تھیں۔یہاں پر میں مختصراً اپنے قارئین کو بتاتی چلوں کہ اس عمر میں بھی خالہ کی چھاتیوں بہت سخت اور شاندار تھیں جنہیں دیکھ کر کوئی بھی شخص پاگل ہو سکتا تھا اور ۔۔۔۔ یہ تو بے چارہ ایک چھوٹا سا لڑکا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہاں تو میں کہہ رہی تھی کہ اس دن گڈی باجی نے خالہ کو کپڑے تبدیل کروائے تھے۔۔۔اور شاید وہ خالہ کو قمیض پہناتے وقت اس کا اوپر والا بٹن لگانا بھول گئی تھی۔۔۔اور دوسری بات یہ ہے کہ چونکہ خالہ کی چھاتیاں بہت سخت تھیں ۔۔۔۔۔اس لیئے گرمیوں کے موسم میں وہ ویسے بھی برا نہیں پہنا کرتی تھی۔۔۔اس لیئے میں نے دیکھا کہ خالہ کی ایک چھاتی ان کی قمیض کے باہر آ کر نپل تک ۔۔۔۔۔۔ نظر آ رہی تھی اور چھوٹے میاں اسے دیکھتے ہوئے بار بار ۔۔۔ اپنے لن کو کھجا رہے تھے ۔۔۔۔۔ اور اس کےساتھ ساتھ جزبات کی شدت سے اس کا کیوٹ چہرہ پہلے سے زیادہ لال ہو رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ سین دیکھ کر ایک دم سے میرے زہن میں کاشف میاں کو چودنے کا آئیڈیا آ گیا۔۔اور میں نے چھوٹے میاں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔ سالے اب تجھے میرے ہاتھوں سے کوئی نہیں بچا سکتا ۔۔۔۔۔۔اور پھر اس دن کے بعد میں نے کچھ دن تک کاشف کے ساتھ یہی سین دھرایا ۔۔ اس دن کے بعد اس کے آنے سے پہلے میں بڑی تکنیک سے خالہ کی ایک چھاتی کو ننگا رکھتی تھی ۔۔۔ جہاں تک خالہ کا تعلق ہے تو پین کلر ٹیکے لگنے اور مختلف دوائیاں کھانے کی وجہ سے سے وہ ہمیشہ ہی ادھ موئی رہا کرتی تھیں ۔۔۔۔ اور میں نے دیکھا کہ آتے ساتھ ہی سب سے پہلے کاشف ان کا بلڈ پریشر چیک کرتا تھا ۔۔۔۔ پھر اس کے بعد وہ ان کو پین کلر کا ٹیکا لگا کر ۔۔۔۔ چوری چوری دروازے کی طرف دیکھتا ۔۔۔۔۔اور پھر کسی کو نہ پا کر وہ بڑے غور سے ۔۔۔ خالہ کی ادھ کھلی چھاتیاں کی طرف دیکھ کر اپنے لن کو مسلنا شروع کر دیتا تھا۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔ اور اس کی حالت دیکھ کر میں یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ ۔۔۔ کلینک جا کر وہ ضرور مُٹھ مارتا ہو گا۔۔ کیونکہ جیسے ہی میں کمرے میں داخل ہوتی تو اسی وقت وہ اپنے لن کو آگے پیچھے کر اپنی ٹانگوں میں دبا کر بھاگ جایا کرتا تھا۔۔۔۔ میں کافی دنوں تک اس کے ساتھ یہی کھیل کیلتی رہی ۔۔۔۔ مقصد یہ تھا کہ وہ اس بات کو ایک روٹین کا معاملہ سمجھے ۔۔۔
پھر ایک دن کی بات ہے کہ اب مجھے اس بات کا پکا یقین ہو گیا تھا کہ چڑیا جال میں پھنس چکی ہے ۔۔۔ اس لیئے سب سے پہلے تو میں نے گڈی باجی کو اپنے ارادے کے بارے میں بتلایا ۔۔ جسے سن کر وہ جزبات سے بھرے لہجے میں کہنے لگی ۔۔اس کا مطلب ہے کہ آج تم اس چکنے کو چودنے لگی ہو ۔۔۔ اور پھر میری پھدی میں اپنی ایک انگلی کرتے ہوئے بولی۔۔۔جب اس چکنے کا لن اپنے اندر ڈالنے لگو تو مجھ بے چاری کی چوت کو بھی یاد رکھنا ۔۔۔۔۔ تو میں نے ا ن کے گال پہ ایک پپی دیتے ہوئے کہا ۔۔۔ میری جان ۔۔۔۔۔پہلے مجھے تو چود لینے دو۔۔۔ پھر تمہارا بھی سوچیں گے ۔۔۔۔ باجی سے فارغ ہونے کے بعد۔۔۔ ۔۔ ۔۔۔۔ اس دن میں نے کاشی کے آنے سے پہلے ہی۔۔۔۔۔ خالہ کو ایک نہایت ہی باریک سا گھسا ہوا ۔۔۔ کاٹن کا کرتہ پہنایا ۔۔ اور پروگرام کے مطابق ان کی چھاتیوں کو آخری حد تک ننگا کر کے ان کو ایسی شیپ دی کہ جس کو دیکھ کر ۔۔۔۔۔ کاشی تو کیا ۔۔۔ اچھا خاصہ جوان مرد بھی اپنے ہوش کھو بیٹھے۔۔۔۔
اس کے آنے تک میں نے گڈی باجی کو بھی اپنے کمرے تک محدود ہونے کا کہہ دیا تھا۔۔۔۔ اور خود کچن میں چلی گئی۔۔۔ پھر جیسے ہی دروازے کی گھنٹی بجی ۔۔۔ میں بڑے آرام سے دروازے تک گئی ۔۔۔۔ لیکن دروازہ کھولتے ہی ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں اپنے منہ ہی منہ میں کچھ اس طرح سے بُڑبڑائی کہ جس سے وہ آسانی کے ساتھ س ن سکے۔۔۔ چنانچہ دروازہ کھولتے ہی میں نے اس سے کہا۔۔۔۔ بیٹا کنڈی لگا لینا کہ میری ہانڈی جلنے والی ہو گئی ہے ۔۔ اور اس کے ساتھ ہی میں بھاگتی ہوئی کچن کی طرف چلی گئی۔۔۔ اور چولہے پر رکھی ہوئی ہانڈی میں خواہ مخواہ ہی چمچ مارنے لگی۔۔ اتنے میں گڈی باجی بھی آ گئی اور کہنے لگی۔۔۔۔۔۔۔ اب تم جاؤ۔۔ تو میں نے اس سے کہا۔۔۔۔ اتنی جلدی بھی کیا ہے۔۔ ابھی تو پہلے اس نے خالہ کا بلڈ پریشر چیک کرنا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر ان کو پین کلر ٹیکا لگائے گا۔۔۔ اور اس کے بعد۔۔۔ وہ ان کی چھاتیوں کا نظارے لے گا۔۔۔
پھر کچھ دیر انتظار کرنے کے بعد میں نے پاس پڑی ہوئی چادر کو اُٹھایا اور اپنے جسم پر اچھی طرح لپیٹنے کے بعد میں نے گڈی باجی کو آنکھ ماری اور وہاں سے چل پڑی۔۔۔ خالہ کے کمرے کے پاس آ کر میں نے اک زرا سا جھانک کر دیکھا ۔۔۔تو میرا تیر نشانے پر بیٹھ چکا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس وقت چھوٹے میاں اپنی شلوار کے اوپر سے ہی اپنے لن کو پکڑ کر خالہ کی چھاتیوں کی طرف دیکھتے ہوئے اسے بری طرح سے ہلا رہے تھے۔۔۔ اور میں اس کی شلوار کے ابھار کی طرف دیکھتے ہوئے اس کے لن کی لمبائی اور موٹائی کا اندازہ لگا رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔اور دروازے کی ایک سائیڈ سے اندر کی طرف جھانک رہی تھی ۔۔۔ پھر میرے دیکھتے ہی دیکھتے ۔۔۔۔۔۔۔ چھوٹے میاں نے ایک نظر دروازے کی طرف دیکھا ۔۔۔ اس وقت اس کا چہرہ جزبات کی شدت سے تپا ہوا تھا۔۔۔اور وہ ایک بار خالہ کی چھاتیوں کی طرف دیکھ کر اپنے ہوٹنوں پر زبان پھیرتا ۔۔۔اور پھر ۔۔دوسری نگاہ ۔۔۔۔ دروازے کی طرف ڈالتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کے انداز سے لگ رہا تھا کہ وہ ان چھاتیوں کو چھونا چاہ رہا تھا ۔۔۔۔ ادھر یہ سوچ کرکہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میری منزل نزدیک آ گئی ہے۔۔۔۔ میرا دل کنپٹیوں میں دھڑکنے لگا۔۔۔۔۔اور اس کے لن کے بارے میں سوچتے ہوئے میرا حلق بھی خشک ہو گیا۔۔۔۔۔اور اس سے قبل کہ میں بھی جزبات کی شدت میں کچھ کر بیٹھتی ۔۔۔ جلدی سے میں نے اپنے آپ پر قابو پایا ۔۔۔اور اندر کی طرف دیکھنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جہاں پر چھوٹے میاں اپنے جزبات کے ہاتھوں سے مجبور ہو کر ۔۔۔۔ دروازے کی طرف دیکھتے ہوئے ۔۔آگے بڑھ رہے تھے۔۔۔ اور اس کے ساتھ ساتھ وہ بار بار اپنے تھوک کو بھی اپنے خشک ہوتے ہوئے حلق میں نگھل رہے تھے۔۔۔۔ ۔۔۔اور پھر آخرِ کار وہ سین آ ہی گیا کہ جس کے لیئے میں
نے اتنا انتظام کیا تھا۔۔ ۔۔۔۔۔ میں نے دیکھا کہ چھوٹے میاں آگے بڑھے۔۔۔ اورررررررررررررررررررررر۔۔اب انہوں نے ایک نظر دروازے کی طرف دیکھا اور پھر اپنے ایک کانپتے ہوئے ہاتھ کو خالہ کی ننگی چھاتی پر رکھ دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جبکہ ان کے دوسرے ہاتھ میں لن پکڑا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک دو بار انہوں نے دروازے کی طرف دیکھتے ہوئے جھجھک کر خالہ کی چھاتی پر ہاتھ رکھا۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر ۔۔۔ کسی کو نہ پا کر وہ تھوڑا ۔۔۔اور شیر ہو گیا۔۔۔۔۔ اس وقت اس کا چہرہ لال ٹماٹر ہو رہا تھا۔۔ اور میں نے دیکھا کہ اس کے چہرے پر کشمکش کے واضع آثار نظر آ رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔جبکہ اس کا خالہ کی چھاتی پر دھرا ہاتھ ۔۔۔ بری طرح سے کانپ رہا تھا۔۔۔۔۔ یہ دیکھ کر میں آگے بڑھنے ہی لگی تھی۔۔۔۔۔کہ ۔۔۔۔ میں نے دیکھا کہ چھوٹ و میاں ۔۔۔۔۔۔اپنے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے بری طرح سے کانپ رہے تھے ۔۔۔ لیکن۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی خالہ کی چھاتی پر دھرا ان کا ہاتھ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب اپنی شلوار کے نالے کی طرف تھا۔۔۔۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا ۔۔۔اور پھر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنا نالہ کھول دیا۔۔۔۔ اور قیمض کو اونچا کر دیا۔۔۔ اب میری نظر اس کے لن پر پڑی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اُف ف فف ف ف ف ۔ کیا بتاؤں دوستو۔۔ اس کا لن بہت گورا لیکن اس میں پنک رنگ کی جھلک بہت نمایاں تھی۔۔۔۔ سائز اور موٹائی میں ۔۔۔۔۔ بس ٹھیک ہی تھا۔۔۔۔ خاص کر اس کے ٹوپے کا رنگ ۔۔۔۔ بہت پنک تھا۔لن کے آس پاس سنہرے رنگ کے پتلے پتلے بال تھے ۔۔اور دور سے اس کا لن اتنا کیوٹ لگ رہا تھا۔۔۔ کہ اس کی طرف دیکھتے ہوئے خود بخود ہی میرے منہ میں پانی بھر آیا ۔۔۔۔۔ جبکہ دوسری طرف اس نے ایک بار پھر دروازے کی طرف دیکھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور اپنے لن پر تھوک لگا کر۔۔۔ جیسے ہی مُٹھ مارنے لگا۔۔۔۔۔ میں نے دھڑام سے دروازہ کھولا۔۔۔۔۔۔۔ اور چھوٹو کی طرف دیکھتے ہوئے میرا چہرے غصے سے لال پیلا ہو گیا۔۔۔۔ جبکہ دوسری طرف چھوٹو میاں ۔۔۔ کے ایک ہاتھ میں لن تھا ۔۔۔ جبکہ اس کا دوسرا ہاتھ خالہ کی چھاتی پر رکھا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔ مجھے دیکھتے ہی ۔۔۔۔۔چھوٹو کا رنگ پیلا پڑ گیا۔۔۔۔اور وہ ایسے ہو گیا کہ کاٹو تو لہو نہیں۔۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی وہ بیدِ مجنوں کی طرح تھر تھر کانپنے لگا۔۔۔ اب میں آگے بڑھی اور اس کے قریب پہنچ کر دھاڑتے ہوئے بولی۔۔۔۔ یہ کیا ہو رہا ہے؟ میری دھاڑ سن کر چھوٹو ایک دم ہوش میں آ گیا ۔۔۔اور جلدی سے نیچے جھک کر اپنی شلوار کو اوپر کرنے لگا۔۔۔ یہ دیکھ کر میں نے اس کے ہاتھ کو پکڑ لیا۔۔۔۔ اور ایک بار پھر اونچی آواز میں دھاڑی ۔۔۔۔ یہ تم کیا کر رہے تھے کتے کے بچے۔۔۔۔۔۔۔
میری دھاڑ سن کر اس کے رہے سہے اوسان بھی خطا ہو گئے اور وہ میری طرف دیکھتے ہوئے روہانسا ۔۔۔ہو کر کہنے لگا۔۔۔۔ مجھے معاف کر دو باجی۔۔۔۔ اب میں کچھ مزید آگے بڑھی اور اس کے کیوٹ سے لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑ کر بولی۔۔۔۔۔ اس پر تو تھوک لگا ہوا ہے ۔۔۔ پھر اس کی طرف آنکھیں نکالتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔۔۔۔ آنے دو عدنان کو ۔۔۔اسے بتاتی ہوں کہ اس کے دوست کا بھائی اس کی امی کی چھاتیوں کو دیکھ کر مُٹھ مار رہا تھا۔۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی میں نے بڑی نرمی کے ساتھ اس کے ادھ موئے لن کو سہلانا شروع کر دیا۔لیکن وہ بد بخت میرا اشارہ نہ سمجھا ۔۔۔ اور میں نے دیکھا کہ میری مُٹھ والی بات کا سن کر اس کے تو فرشتے ہی کوچ کر گئے تھے۔۔۔۔۔ اور اس نے میرے سا منے اپنے دونوں ہاتھ جوڑ دیئے اور زار و قطار روتے ہوئے کہنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔ باجی آپ پلیز۔۔۔۔۔۔آپ جو مرضی ہے سزا دے دو ۔۔۔ لیکن عدنا ن بھائی کو مت بتایئے گا۔۔۔ اور یہ بات سن کر بھائی نے ابا سے کہہ کر مجھے گھر سے نکلوا دینا ہے۔۔۔۔ اس پر میں اپنی تیوری کو مزید چڑھاتے ہوئے اس سے کہنے لگی۔۔۔۔۔اچھا ہے نا تم جیسے حرامزادے کے ساتھ یہی سلوک ہونا چاہیئے۔۔۔میری بات سن کر وہ میرے قدموں میں گر گیا ۔۔۔وہ روتا جاتا اور یہی بات کہتا جاتا۔۔۔۔ کہ باجی پلیزززززززززززززززززز۔۔ مجھے معاف کر دو۔۔۔ میں نے اسے کچھ دیر تک ایسے ہی رہنے دیا۔۔۔۔ پھر میں نے اپنے لہجے کو نرم کیا اور اس سے بولی۔۔۔۔ٹھیک ہے۔۔۔۔ میں تمہاری اس کا حرکت عدنان سے تزکرہ نہیں کروں گی۔۔۔۔۔ میری بات سنتے ہی وہ ایک دم سے اُٹھ کھڑا ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور اپنی آنکھوں سے آنسو پونچھتا ہوا بولا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سچ باجی؟؟؟؟؟؟
لیکن میں نے اس کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔۔۔۔اور اس کو دھکا دے کر خالہ کے پلنگ کے پاؤں کی طرف گرا دیا۔۔۔اور پھر اس کی گانڈ کو پلنگ کے آ خری سرے پر رکھا ۔۔۔۔ جس سے اس کی ٹانگیں نیچے زمین پر اور گانڈ پلنگ پر آ گئی۔۔۔ پھر میں آگے بڑھی اور زبردستی اس کی دونوں ٹانگوں کو کھول کر ان کے درمیاں میں گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی۔۔۔ اور اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا میں نے اس کے لن کو پکڑا ۔۔۔اور اسے ہلاتے ہوئے اپنے منہ میں لے لیا۔۔۔۔اپنے لن کو میرے منہ میں جاتے دیکھ کر وہ حکا بکا رہ گیا ۔۔۔اور ایک دم سے پلنگ سے اوپر اُٹھ گیا۔۔۔ اور میری طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگا۔۔۔۔۔۔۔ یہ۔۔۔یہ۔۔۔ آپ کیا کر رہی باجی۔۔۔۔۔۔۔ ؟ ایسا کرنا تو گناہ ہے ۔۔۔۔ اس کے گناہ والی بات سن کر مجھے ایکد م تاؤ آ گیا اور میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔اور جو تم خالہ کی چھاتیوں کے ساتھ کر رہے تھے وہ کیا کارِ ثواب تھا؟ ۔۔۔ میری بات سن کر وہ ایک دم شرمندہ سا ہو گیا ۔۔اور آئیں بائیں شائیں ۔۔۔۔ کرنے لگا۔۔۔۔ لیکن دوسری طرف اس کا لن چوستے ہوئے مجھے معلوم ہو گیا تھا کہ چھوٹو میاں کو مزہ آ رہا ہے۔۔۔۔ اور مزے کے ساتھ ساتھ اس کو ڈر بھی بہت شدید لگ رہا تھا اس لیئے۔۔۔ میرے منہ میں گیا ہوا اس کا لن بہت آرام آرام سے جان پکڑ رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جب میرے منہ میں پڑے اس کے لن نے تھوڑی جان پکڑ لی۔۔۔۔۔ تو میں نے ایک دم سے اسےاپنے منہ سے نکلا ۔۔۔۔۔ اور خالہ کی طرف دیکھتے ہوئے اپنی شلوار اتار دی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شلوار اتار کو میں تھوڑا پیچھے کی طرف گھو می ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اپنی گانڈ کو پیچھے کرتے ہوئے۔۔۔عین اس کے لن کی سیدھ میں لے آئی۔۔۔اور پھر ۔۔۔۔ میں نے اپنا ایک ہاتھ پیچھ ے کیا ۔۔۔اور چھوٹو میاں کے لن کو پکڑ کر اپنی چوت کے لبوں پر ایڈجسٹ کرنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جیسے ہی چھوٹو میاں کو اس بات کا احساس ہوا کہ میں اس کے لن کو اپنی چوت میں لینے لگی ہوں۔۔۔۔۔۔۔ وہ گھبرا کر بولا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ باجی پلیزززززززززز ۔۔۔۔ایسا نہ کریں ۔۔دروازہ کھلا ہے کوئی آ جائے گا۔۔۔۔۔اس پر میں نے اس کی بات کو سنی ان سنی کرتے ہوئے اس کے لن کے اوپر بیٹھتے ہوئے اس کو اپنی چوت میں غائب کرنے لگی۔۔۔۔۔۔۔ جیسے ہی میری گرم چوت میں اس کا لن گھسا ۔۔۔۔۔ چھوٹو بیک وقت مزے اور ڈر کے ملے جلے ۔۔۔۔۔ انداز میں کہنے لگا۔۔۔۔۔۔ با ۔بہ۔۔باجی۔۔۔ آہ۔۔۔۔۔ دوسری باجی۔۔۔۔اُف۔۔۔ آ گئی تو میں تو مر جاؤں گا۔۔۔ اس پر میں اس کے لن پر اوپر نیچے ہوتے ہوئے کہا۔۔۔۔ میری طرف سے تم ابھی مر جاؤ۔۔۔اور پھر اس کے ساتھ ہی اس کے لن پر اُٹھک بیٹھک کرنے لگی۔۔۔۔۔ جبکہ دوسری طرف ۔۔۔۔وہ بار بار یہی کہتا رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ باجی پلیز ز۔۔۔ بس کر دیں۔۔۔۔ میرے بھائی کو پتہ چل گیا تو وہ مجھے کچا کھا جائے گا۔۔۔۔ باجی ۔۔۔ی ی ی ی ی ی۔۔۔ ایسا نہ کرو ۔۔۔۔ اس کے لن پر گھسے مارتے ہوئے اچانک مجھے ایسا لگا کہ میری چوت میں پڑا اس کا لن ۔۔۔۔۔۔۔ بار بار ۔۔۔ جھٹکے کھا رہا ہے۔۔۔ اس کے ساتھ ہی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چھوٹو میاں ۔نے ۔۔ میری چوت میں اپنے لن کو پھنسائے پھنسائے اوپر کو اُٹھا اور مجھے گھوڑی بنا کر پیچھے سے میری چوت کی دھلائی شروع کر دی ۔۔۔۔۔اور وہ ہر گھسے پر یہی کہتا باجی تیری ماں کو لن۔۔۔۔ تیرا پھدا ماروں۔۔بہن چود گشتی۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر کچھ اس قسم کے ڈائیلاگ مارتے ہوئے وہ میرے اوپر ہی گر گیا۔۔۔۔اور اس کے لن سے پانی نکل نکل کر میری چوت کو بھرتا رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے بعد چھوٹے میاں میرے اور گڈی باجی دونوں کے ساتھ سیٹ ہو گیا۔۔۔اور ہم نے اس کے ساتھ خوب انجوائے کیا۔۔۔۔ اور خاص کر میں نے اس کے پنک لن کو چوس چوس کر کالا کر دیا۔۔۔۔۔۔۔جہاں تک خالہ جان کا تعلق تھا ۔۔۔۔ تو اس طرف سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مرض بڑھتا گیا ۔۔۔ جوں جوں دوا کی والا معاملہ ہو گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر چند ہی ماہ میں ہٹی کٹی اور خوبصورت جسم کی مالک خالہ کہ جس کی چھاتیوں پر کافی لوگوں کی نگاہ رہتی تھیں ۔۔۔سوکھ کر ہڈیوں کا ڈ ھانچہ ہو گئیں ۔۔۔ اپنی ماں کو لے کر عدنان اور اس کا بھائی لاہور کے ہر اچھے ہسپتال میں گئے تھے اور ان کے علاج کے لیئے کوئی کسر نہ اُٹھا رکھی تھی۔۔۔۔آخر لاہور کے ایک بہت بڑے ڈاکٹر نے خالہ کا علاج کرنے سے معزرت کر دی تھی اورعدنان کو بلا کر بس یہی کہا تھا ۔۔ کہ اپنی امی کی جتنی خدمت کر سکتے ہو کر لو۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ اس کے بعد۔۔۔ یہ سن کر دونوں بھائی خالہ کو لے کر واپس آ گئے ۔
گھر آ کر خالہ کی حالت دیکھتے ہوئے انہوں نے دور پار کے سب رشتے داروں کو اس امر کی اطلاع کر دی تھی۔۔ چنانچہ اگلے کچھ ہی دنوں میں ہمارے گھر میں رشتے داروں کا رش ہو گیا۔۔۔۔ یہاں پر میں آپ سے ایک ایسا قصہ شئیر کرنا چاہتی ہوں جو کہ میری زندگی کا سب سے بڑا ۔۔۔۔ پُر جوش ۔۔۔۔جزباتی اور لرزش سے بھرا۔۔۔ ایسا واقعہ ہے ۔۔۔ کہ جسے یاد کر کے آج بھی میری کنپٹی سلگ جاتی ہے۔۔۔۔ اور وہ واقعہ کچھ یوں ہے کہ۔۔۔۔جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ۔۔ میری طرح میرا بھائی شبی بھی بہت سیکسی اور جزباتی لڑکا ہے۔۔۔اور میری طرح جب اس کے سر پر بھی منی سوار ہو جاتی ہے تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ کچھ نہیں دیکھتا ۔۔۔۔۔ چنانچہ ایک دن کی بات ہے کہ اس وقت خالہ کا چل چلاؤ کا وقت چل رہا تھا سارے رشتے دار ان کی چارپائی کے ارد گرد کھڑے تھے۔۔کہ اچانک پیچھے سے میرے کندھے کو کسی نے دبایا ۔۔۔۔۔ پیچھے مُڑ کر دیکھا تو ۔۔۔۔۔۔۔وہ شبی تھا جو مجھے اس مجمع سے باہر آنے کے لیئے کہہ رہا تھا چنانچہ اس کا اشارہ پا کر میں لیڈیز کی صفوں کو چیرتے ہوئے باہر آ گئی۔۔۔۔ تو وہ مجھے ایک طرف لے گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور کہنے لگا۔۔۔۔ باجی میرا سیکس پر دل کر رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔ اس کی بات سن کر میں تو حیران ہی رہ گئی اور اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔۔ پاگل ہو گئے ہو کیا؟۔۔۔۔ یہ کوئی موقعہ ہے اس قسم کی باتوں کا؟ تو وہ بڑا ہی سیریس ہو کر کہنے لگا ۔۔ مجھے معلوم ہے باجی لیکن کیا کروں؟ میرے ساتھ دھوکا ہوا ہے۔۔۔ اس پر میں نے اس کی طرف چونک کر دیکھا اور کہنے لگی۔۔۔ کیسا دھوکا؟ تو وہ شر مندہ سی شکل بنا کر کہنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔صبع سے آتے جاتے ہوئے عافیہ میرے ساتھ نہ صرف کسنگ کر رہی ہے بلکہ اتنہائی شارٹ پیریڈ کے لیئے ایک دو دفعہ اس نے میرے لن کو بھی چوسا ہے۔۔۔۔اس کی بات سن کر میں نے اس سے کہا پھر میں کیا کروں؟ جاؤ اس کو فکنگ کے لیئے راضی کرو ۔۔۔۔ تو وہ کہنے لگا۔۔۔ وہ بڑی حرام دی ہے۔۔۔۔۔کہتی ہے ایک طرف پھوپھو جان مر رہی ہیں اور تم کو میرے ساتھ فکنگ کی پڑی ہے ۔۔۔ پھر اس نے میری طرف دیکھا اور کہنے لگا۔۔۔۔ باجی پلیززززززززززز۔۔۔۔ میرا کچھ کر دو۔۔۔ ورنہ میں مر جاؤں گا۔۔۔جیسا کہ آپ لوگ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ میں اپنے بھائی کی بہت بڑی عاشق ہوں اور کبھی بھی اس کی کسی بات کو رد نہیں کیا تھا۔۔۔۔۔ لیکن اس وقت صورتِ حال ہی کچھ ایسی تھی ۔۔۔کہ میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ میں کیا کروں؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ ادھر دوسری طرف بھائی بار بار میری منت سماجت کر رہا تھا۔۔۔۔ اور پھر آخری حربے کے طور پر اس نے میرے ہاتھ کو پکڑا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور اپنے تنے ہوئے لن پر رکھ کر بولا۔۔۔۔۔ میرا نہیں تو باجی پلیززززززززززز ۔۔کچھ اس کا ہی خیال کرو۔۔ ادھر جیسے ہی میں نے اس کے لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑا ۔۔۔۔۔۔۔میں سمجھ گئی کہ شبی صاحب کو چڑھی ہوئی ہے اور وہ لیئے بگیر نہیں ٹلے گا اس لیئے۔ میں نے بھائی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔ یہ بتاؤ کریں گے کہاں؟۔۔ مجھے تو ہر طرف مہمان ہی مہمان نظر آ رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ میری بات سن کر بھائی کے چہرے پر ایک شیطانی سی مسکراہٹ دوڑ گئی۔۔۔اور وہ میری طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگا۔۔۔۔۔۔جی وہ میں نے پہلے سے ہی سوچا ہوا ہے۔۔ پھر خود ہی کہنے لگا۔۔۔۔ اوپر ممٹی کے ساتھ والا کمرہ خالی ہے میں وہاں جا رہا ہوں ۔۔۔ تھوڑی دیر بعد تم بھی وہیں آ جانا۔۔۔ اس پ ر میں نے ہاں میں سر ہلایا اور بھائی وہاں سے نو دو گیارہ ہو گیا۔۔۔۔۔۔
بھائی کے جانے کے بعد میں نے ادھر ادھر دیکھا ۔۔۔۔۔۔۔۔سب خواتین چارپائی کے ارد گرد بیٹھی گپیں لگا رہیں تھیں اور چند ایک تو میں نے دبے دبے انداز میں ہنستے ہوئے بھی دیکھاتھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ سب دیکھتے ہوئے میں نے بڑے ہی محتاط انداز میں سیڑھیوں کی طرف کھسکنا شروع کر دیا۔۔۔۔۔ سیڑھیوں کی طرف بڑھتے ہوئے میرا ماتھا پسینے سے شرابور تھا۔۔۔۔اور میرے پاؤں ہلکے ہلکے کانپ رہے تھے۔۔۔۔ اور میں بڑی ہی محا ط اور خوف بھری نظروں سے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے سیڑھیوں کی طرف بڑھ رہی تھی۔۔۔۔ خوف زدہ میں اس لیئے تھی ۔۔۔ کہ اس وقت فیملی سے سارے ہی لوگ ۔۔۔ گھر پر موجود تھے۔۔۔او ر خاص کر ہماری فیملی کی لیڈیز بہت ہی جاسوس ٹائپ کی تھیں ۔۔۔۔ اور مجھے اچھی طرح سے معلوم تھا کہ بھائی کے ساتھ چودائی کرتے ہوئے اگر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں پکڑی گئی۔۔۔۔ تو میرے اور بھائی کے لیئے سیدھی گولی تیار تھی۔۔۔کیونکہ جیسا کہ آپ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ میری فیملی کے لوگ غیر لکچدار ۔۔۔اور کٹٹر قسم کے لوگ تھے۔۔۔ لیکن جیسا کہ آپ کو معلوم ہی ہے کہ ۔۔۔۔ جب سر پر منی سوار ہو جاتی ہے تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بندہ بڑے سے بڑا رسک لے لیتا ہے۔۔۔
ہاں تو میں کہہ رہی تھی کہ میں بڑے ہی محتاط انداز میں چلتی ہوئی آخرِ کار سیڑھیوں کے قریب پہنچ ہی گئی۔۔۔اور پھر میں نے دیکھا کہ ہمارے گھر میں اچانک ہی ایک بڑا ہی معتبر اور ٹھوسے دار آدمی داخل ہوا ۔۔۔ یہ شخص ۔۔رشتے میں خالہ کا دیور لگتا تھا۔۔۔ اور اچھی خاصی موٹی آسامی ہونے کی وجہ سے اسے دیکھتے ہی سب لوگ اپنی اپنی جگہ سے کھڑے ہو کر اس کی طرف بڑھنے لگے۔۔۔۔اپنی لیئے یہ غیبی مدد دیکھ کر میں دھیمے انداز میں چلتی ہوئے اوپر پہنچ گئی۔۔۔ دیکھاتو ممٹی کے ساتھ والے دروازے پر بھائی کھڑا تھا ۔۔۔ مجھے دیکھتے ہی وہ اندر غائب ہو گیا۔۔۔اور پھر تھوڑی دیر بعد میں بھی ادھر ادھر دیکھتے ہوئے اس کمرے کے اندر داخل ہو گئی ۔۔۔ دروازے کے ساتھ ہی ایک کھڑکی بنی ہوئی تھی کہ جہاں سے ہمارے صحن کا سارا منظر صاف نظر آتا تھا ۔۔۔ چنانچہ میں چلتی ہوئی اس کھڑکی کے پاس پہنچی اور کھڑکی پر دونوں ہاتھ رکھ کر اپنی گانڈ کو پیچھے کی طرف کر لیا۔۔۔ اور سر گوشی کرتے ہوئے بھائی سے بولی۔۔۔۔ جلدی سے چود۔۔۔۔۔۔۔ میری بات سن کر بھائی نے دروازے کو ڈھو دیا اور میرے پیچھے کھڑے ہو کر اس نے میری شلوار اتار دی۔۔۔اور اپنا لن نکال کر میری چوت کے لبوں پر رکھ کر بولا۔۔۔۔۔۔۔ بہت شکریہ باجی۔۔تو میں نے اس کی طرف منہ کرتے ہوئے سرگوشی کی کہ ۔۔۔ شکریہ بعد میں ادا کردیا ۔۔۔۔ پہلے اپنے لن کو ٹھنڈا کر لو۔۔۔۔۔ میری بات سنتے ہی اس نے اپنے لن پر تھوک لگایا اور میری چوت کے لبوں پر رکھ کر ہلکا سا دھکا لگا دیا ۔۔۔ جس سے اس کا لن پھسل کر میری چوت میں داخل ہو گیا ۔۔۔اور میرے منہ سے ایک ہلکی سے سسکی نکل گئی۔۔۔ جبکہ دوسری طرف وہ میری سسکی سے بے نیاز ۔۔۔۔۔۔۔بھائی میری چوت تیزی کے ساتھ اپنے لن کو ان آؤٹ کر رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن چند ہی گھسے مارنے کے بعد وہ کہنے لگا۔۔۔ باجی مزہ نہیں آ رہا۔۔۔ تومیں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے سخت لہجے میں بولی ۔۔۔۔ چو د سالے ۔۔۔۔۔۔۔۔ مزہ بعد میں لے لینا۔۔۔ تو وہ کہنے لگا۔۔۔ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے کہ میں کسی بے جان مورتی کو چود رہا ہوں۔اس پر میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔ یقین کرو تمہاری طرح مجھ پر بھی شہوت سوارہو چکی ہے ۔۔ لیکن کیا کروں نا چاہتے ہوئے بھی ۔۔۔ میری نظر نیچے کی طرف گھوم جاتی ہے اور پھر ڈر کے مارے میں بے جان مورتی بن جاتی ہوں ۔۔ میری بات سن کر اس نے اس نے مجھے چہرے سے پکڑاور کہنے لگا۔۔۔۔۔۔باجی۔۔۔۔۔ اپنی پھدی میں تھوڑا پانی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو لاؤ۔۔۔۔ اس طرح لن آتے جاتے ہوئے پچ پچ کرے گا تو مزہ آئے گا۔۔۔۔ اس پر میں نے نیچے بیٹھ گئی اور اس کے لن کو منہ میں لے لیا۔۔۔ جیسا کہ آپ لوگ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ اس کا لن میری بہت بڑی کمزوری ہے اس لیئے۔۔۔ تھوڑے سے چوپے کے بعد ہی میری چوت گیلی ہوگئی۔۔اور میں نے نیچے ہاتھ مارتے ہوئے کھڑکی کے پاس کھڑکی کے پاس گھوڑی بن گئی اور بولی ۔۔۔۔ چل اب مار ۔۔۔ پچ پچ ہو گی۔۔۔۔۔ لیکن میرا جملہ مکمل ہونے سے قبل ہی بھائی اپنے لن کر میری چوت میں داخل کر چکا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور اس دفعہ واقعہ ہی گھسے مارتے ہوئے میری چوت پچ پچ کر رہی تھی۔۔۔۔۔ادھر گھسے مارتے ہوئے اچانک ہی میری چوت نے بھائی کے لن کو اپنی طرف بھینچنا شروع کر دیا۔۔۔۔۔ اور پھر ایک دو گھسوں کے بعد ہم دونوں اکھٹے ہی چھوٹ گئےتھے۔۔۔۔جیسے ہی میں نے بھائی کا لن نکال کر اپنی پھدی صاف کی اچانک ہی نیچے سے چیخوں کی صدائیں بلند ہونے لگیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خالہ کے مرنے کے بعد میں نے اپنے قصبے کے سب سے بڑے پرائیویٹ سکول میں بطور ٹیچر جاب شروع کر دی تھی۔۔۔ ٹیچنگ کے لیئے میں نے گڈی باجی کو بھی بہت قائل کرنے کی کوشش کی لیکن اس نے انکار کر دیا۔۔۔ پھر ایک دن کی بات ہے کہ میں اماں سے ملنے اپنے قصبے میں گئی ۔۔۔تو وہاں پر شبی بھی موجود تھا۔۔۔اور میں نے نوٹ کیا کہ وہ ہر وقت اپنے موبائل کےساتھ لگا رہتا تھا۔۔۔اس پر میں نے جب اس سے پوچھا ۔۔کہ تمہارے موبائل میں ایسی کیا بات ہے کہ جب سے میں آئی ہوں تم اسی میں مگن رہتے ہو۔۔ میری بات سن کر پہلے تو اس نے صاف انکار کر دیا ۔۔کہ ایسی کوئی بات نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر تنہائی ملتے ہی اس نے مجھے اس سائیٹ کے بارے میں بتلایا ۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ یہاں پر بڑی کوالٹی کی جنسی کہانیاں ہوتی ہیں ۔۔۔ ۔۔۔ اس کے بعد اس نے میری طرف دیکھا اور کہنے لگا ۔۔۔۔۔ ایک بات بتاؤں باجی ؟ تو میں نے اس سے کہا کہ بولو؟؟؟؟؟ تو وہ کہنے لگا۔۔۔۔۔باجی یہاں پر محروماتِ ممنوعہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی کے انسیسٹ کہانیاں بھی ہوتی ہیں ۔۔ اس کی بات سن کر ر ئیلی اس وقت میں بڑی حیران ہوئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس کی طرف دیکھتے ہوئے بڑی ہی بے یقنی سے کہنے لگی۔۔۔ کیا ؟؟؟؟؟؟؟ تو وہ ہنس کر بولا۔۔۔۔۔۔۔ میں درست کہہ رہا ہوں باجی ۔۔۔ پھر کہنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔ زرا ان کہانیوں کو پڑھ کر تو دیکھو کہ اس دنیا میں۔۔صرف میں اور آپ ہی ایسے بہن بھائی نہیں ہیں کہ جنہوں نے آپس میں سیکس کیاہے۔۔ ۔۔۔۔۔ بلکہ۔۔۔۔۔۔ ہمارے علاوہ بھی بہت زیادہ لوگ موجود ہیں ۔۔۔تو میں نے اس سے کہا۔۔۔ کہ وہ سکتا ہے کہ وہ جھوٹ لکھ رہے ہوں ۔۔۔۔ تو بھائی مسکرا کے کہنے لگا ۔۔۔۔ ہاں ممکن ہے۔۔ لیکن باجی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انسیسٹ کہانیاں ہوتی بڑی زبردست ہیں۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی اس میرے موبائل پر انٹرنیٹ کا پیکج لگا دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور پھر یہ والی سائیڈ کھول کر بولا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ باجی پڑھ کے بتانا کہ کیسی لگی۔۔۔۔۔
بھائی کے کہنے پر میں نے اس سائیڈ پر پڑی ساری ہی کہانیاں پڑھ لیں ۔۔۔ ان میں مجھے خاص کر بڑی بہن اور چھوٹے بھائی کا سیکس پڑھ کر بڑا مزہ آتا تھا ۔۔۔ اور یہ کہانیاں پڑھتے ہوئے میں ان کرداروں کو ہٹا کر بھائی اور اپنے آپ کو وہاں رکھ کر پڑھا کرتی تھی ۔۔۔ جس کے پڑھنے سے میرے اندر نیا جنون اور جوش بڑھتا جاتا تھا ۔۔۔ اور پھر آہستہ آہستہ میں نے اس سائیڈ پر پڑی ساری کہانیوں کو پڑھ ڈالا ۔۔۔۔۔۔۔۔میں ان کہانیوں کو پڑھ کر خوب انجوائے کرتی تھی۔۔۔۔ پھر ایک دن کی بات ہے کہ میں اماں سے ملنے گئی ہوئی تھی بھائی گھر پر نہیں تھا ۔۔۔ اس لیئے میں اور زینی آپس میں گپ شپ لگا رہیں تھیں کہ ہوتے ہوتے بات سیکس تک پہنچ گئی۔۔۔اور زینی مجھ سے کہنے لگی ۔۔۔ باجی بھائی نے مجھے بتایا تھا کہ ۔۔۔ آپ بھی جنسی کہانیاں بڑے شوق سے پڑھتی ہو۔۔۔ تو میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ کیا بتاؤں زینی یار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں تو ان کہانیوں کی دیوانی ہو گئی ہوں ۔۔۔ اس پر زینی مجھ سے کہنے لگی ۔۔۔ دیوانی تو میں بھی ہوں ۔۔۔۔ پھر تھوڑا وقفہ دے کر کہنے لگی ۔۔۔ کیا خیال ہے باجی یہ سب سچ ہو گا؟ تو میں نے اس سے کہا کہ۔۔ سارا تو نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن۔۔۔۔ میرے خیال میں ان میں آدھا سچ ضرور ہونا چاہیئے۔۔۔۔ اس پر زینی کہنے لگی۔۔۔ جیسے ہماری سٹوری۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے بعد وہ پُر جوش سی ہو کر کہنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ باجی اگر ہم لوگ بھی اپنی کہانی کو لکھیں تو کیسا لگے گا؟ اس پر میں نے اس کی طرف پُر خیال نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔بات تو تمہاری ٹھیک ہے لیکن یار ۔۔۔۔ ہماری کہانی کو لکھے گا کون؟ تو زینی کہنے لگی ۔۔۔ باجی آپ اتنی لائق ہو ۔سکول میں بچوں کو تقریریں اور مضامین وغیرہ لکھ کر دیتی ہو۔۔ تو اپنی سیکس سٹوری کہ جس کے بارے میں آپ ایک ایک بات کو بڑی تفصیل سے جانتی ہو۔کیوں نہ لکھ سکو گی؟ ۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی وہ میرے پاس آ کر کھڑی ہو گئی اور کہنے لگی۔۔۔۔ اس لیئے باجی پلیززززززززززز ۔۔ تم بھی اپنی کہانی لکھو نا۔۔۔۔۔۔۔۔ زینی کی بات سن کر میں سوچ میں پڑ گئی۔۔۔ اور کچھ دن رہ کر میں واپس اپنے سسرال آ گئی۔۔۔ لیکن پتہ نہیں کیا بات ہے کہ ۔۔۔۔ زینی کی سٹوری والی بات میرے زہن سے چپک سی گئی تھی۔۔۔۔۔۔۔ اس لیئے فارغ وقت میں۔۔۔۔ میں نے اپنی سٹوری لکھنے کی کوشش بھی کی لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سچ کہہ رہی ہوں کہ کوشش کے با وجود ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس طرح میں چاہتی تھی ۔۔۔۔ اس طریقے سے میں کہانی کا ایک صفحہ بھی نہ لکھ پائی۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔اور آکر تھک ہار کر مجھے یہ بات سمجھ میں آ گئی کہ سکول کے بچوں کے لیئے تقریریں ۔۔۔۔اور مضامین وغیرہ لکھنا اور بات ہے جبکہ ۔۔۔ لوگوں کے لیئے ایک ہاٹ سی کہانی لکھنا دوسری بات۔
یہ فیصلہ کر کے میں جب دوسری دفعہ گھر گئی تو زینی کے پوچھنے پر میں نے اس کو ساری صورتِ حال سے آگاہ کیا ۔۔۔اس پر انٹیلی جنٹ زینی کہنے لگی ۔۔۔ میرا ایک مشورہ ہے کہ اگر آپ خود اپنی سٹوری نہیں لکھ سکتی تو کیا ۔۔۔ہوا۔۔۔۔ کسی کو ہائیر کر لو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس پر میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔ او ہیلو ۔۔۔۔ تمہیں پتہ ہے کہ تم کیا کہہ رہی ہو؟ تو زینی سیریس ہو کر کہنی لگی۔۔۔۔ سچ کہہ رہی ہوں باجی۔۔۔پھر اس کے بعد اس نے مجھے مختلف سٹوریوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ۔۔ دیکھ لو با جی فلاں سٹوری میں مصنف نہیں کہتا کہ یہ میرے ایک دوست کی سٹوری ہے ۔۔۔۔۔۔۔ اور اس کے کہنے پر میں اس سٹوری کو لکھ رہا ہوں۔۔ وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔ زینی کی بات نے مجھے ایک نئی راہ سلجھائی تھی۔۔۔۔۔چنانچہ اب میں نے مختلف رائیٹرز سے رابطہ شروع کر دیا۔۔۔۔۔۔۔ کسی نے لکنے کی حامی بھری۔۔۔۔۔۔۔اور کسی نے نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہانی لکھنے کے لیئے کوئی کچھ فرمائیش کرتا اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئی کچھ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آخرِ کار ایک مشہور رائیٹر نے میری سٹوری کو رومن اردو میں لکھنے کی ہامی بھری۔۔۔۔ اس کے لیئے میں نے اس کی ہر فرمائیش پوری کی ۔۔۔ لیکن اس نے میرے ساتھ دھوکا کیا اور چند ہی قسطیں لکھ کر بھاگ گیا۔۔۔ اس کو تلاش کرنے کی میں نے بڑی کوشش کی لیکن وہ سین سے ہی غائب ہو گیا—
اسی دوران میرا اس کہانی کے رائیٹر سے رابطہ ہو گیا ۔۔۔ان دنوں یہ موصوف ا پنی ۔۔۔ تراس۔۔۔نامی سٹوری پر کام کر رہے تھے شروع شروع میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے ان کی سٹوری کی خوب تعریف کی۔ پھر بعد میں ان سے فیس بُک پر بھی رابطہ شروع کر دیا۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جب میں نے دیکھا کہ رائیٹر صاحب میرے کہے میں آ گئے ہیں تو ۔۔۔ جیسے ہی رائیٹر کی سٹوری تراس ختم ہوئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو ایک دن میں نے اس سے اپنی سٹوری لکھنے کی ڈیمانڈ کر دی ۔۔اس وقت تک رائیٹر میرے ساتھ اس قدر زیادہ انوالو ۔۔۔۔ ہو چکا تھا کہ مجھ سے کہنے لگا ۔۔۔ کہ آج کل میں اپنی ایک اور سٹوری پہ کام کر رہا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے بعد آپ کی سٹوری لکھ دوں گا ۔۔۔۔ لیکن میں نے رائیٹر پر اپنا دباؤ جاری رکھا ۔۔۔۔اور آخرِ کار اس شریف آدمی نے میری بات مان لی اور کہنے لگا کہ میں آپ کی سٹوری کو ہوُ بہُو جیسا کہ آپ چاہو گی لکھ دوں گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اس کے لیئے میری ایک شرط ہے اور وہ یہ کہ۔۔۔ یہ سٹوری سنانے کے لیئے آپ کو پنڈی/اسلام آباد آنا پڑے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رائیٹر کی ڈیماند سن رک میں سمجھ گئی تھی کہ موصوف کہانی سننے کے بہانے مجھ سے کیا چاہتا ہے؟ اور ۔۔۔۔۔ جس چیز کی رائیٹر صاحب ڈیمانڈ کر رہے تھے ۔۔۔۔۔وہ اگر مجھ سے یہ ڈیماند نہ بھی کرتے تو میں نے ان کے ساتھ کم از کم ایک دفعہ تو سیکس کرنا ہی کرنا تھا ۔۔۔۔ کیونکہ موصوف میرے پسندیدہ رائیٹروں میں سے ایک تھا۔۔۔۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ مسلہ یہ تھا کہ میں لاہور سے تھوڑی آگے رہتی تھی اور بظاہر میرا پنڈی اسلام آباد جانا بہت مشکل تھا۔۔۔ لیکن۔۔۔۔۔۔۔وہ کہتے ہیں نا کہ جہاں چاہ ۔۔۔۔۔۔ وہاں راہ۔۔۔ تو ایک دن کی بات ہے کہ پرنسپل صاحب کے کمرے میں میٹنگ کے دوران ۔۔۔ اچانک سر فہد کہنے لگے۔۔۔۔۔ سر جی اس دفعہ بچوں کا ٹرپ کہا ں جا رہا ہے ۔۔۔؟ تو پرنسپل صاحب نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔ کہاں جائیں ؟ ہمارے پاس آ جا کے لاہور ہی ہے جس کی ایک ایک چیز کو ہمارے بچوں نے کئی کئی مرتبہ دیکھا ہوا ہے۔۔۔ پرنسپل کی بات سن کر اچانک ہی میرے زہن میں ایک چھناکا ہوا ۔۔۔ اور میں نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔ سر اگر اجازت ہو تو میں کچھ کہوں؟ تو پرنسپل نے عینک کے اوپر سے مجھے گھورتے ہوئے کہا۔۔۔۔مس صبو۔۔۔۔ پلیزززز۔۔ اس پر میں نے سب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ سر کیوں نہ ہم اس دفعہ بچوں کو اسلام آباد لے چلیں ۔۔۔وہاں فیصل مسجد کے ساتھ ساتھ تحریکِ پاکستان کے حوالے سے اسلام آباد میں ایک یاد گار بھی بنائی گئی ہے جسے Islamabad Monument کہتے ہیں۔۔۔ میری بات سن کر پرنسپل صاحب سوچ میں پڑ گئے اس پر میں فہد صاحب کو کہنی مار کر آنکھوں ہی آنکھوں میں باقی میل ٹیچر ز کو بھی اشارہ کیا۔۔۔ اور دوستو آپ تو جا نتے ہی ہو۔۔۔۔۔۔کہ ان آنکھوں کی مستی سے جب ایک دفعہ کوئی اشارہ ہو جائے تو ۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا مجال ہے کہ کوئی اس سے انکار کر سکے۔۔۔ چنانچہ تھوڑے سے رد و قد کے بعد ایک ویک کے بعد۔۔۔۔ ہمارا ۔۔اسلام آباد جانے کا پروگرام بن گیا۔۔۔۔۔اور مسٹر فہد کو اس بات کی ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ آگے کا بندوبست کریں۔۔۔۔۔۔
آ خرِ کار وہ دن بھی آ گیا کہ جس کا مجھے اور رائیٹر صاحب کو شدت سے انتظار تھا ۔۔۔۔۔ اس دوران میں نے رائیٹر کے ساتھ سارے معاملات ڈسکس کر لیئے تھے۔۔۔۔۔ ۔۔ میل ٹیچرز کے علاوہ میری ساتھی ٹیچر حنا بھی ہمارے ساتھ جا رہی تھی ۔۔ چنانچہ رائیٹر کے ساتھ طے شدہ پروگرام کے مطابق میں نے پہلے ہی اس بات کا اعلان کر رکھا تھا کہ میں نے فیصل مسجد نہیں جانا بلکہ مجھے اپنے ایک عزیز سے ملنے فیض آباد جانا ہے ۔۔ چنانچہ ۔۔۔ جیسے ہی ہماری بس فیض آباد پُل کے قریب پہنچی تو فہد صاحب نے بس کو رکوا لیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور میری طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگے ۔۔۔ کہ آپ کی واپسی کس وقت ہو گئی ؟۔۔۔۔۔۔۔تو میں نے کہا کہ میں نے اپنی رشتے دار سے مل کر واپس آ جانا ہے۔۔۔اور پھر ان سے کہنے لگی کہ میں آپ کو فون کر دوں گی۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی میں بس سے نیچے اُتر آئی۔۔۔ اس وقت میری منزل ۔۔۔۔ فیض آباد میں سکائی ویز کے اڈے پر راول ہوٹل تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس کے روم نمبر 204 میں اس کہانی کا رائیٹر بیٹھا میرا انتظار کر رہا تھا ۔۔
راول ہوٹل پہنچ کر ۔۔ میں نے ریسپشن سے کمرہ نمبر 204 کا پوچھا اور پھر سیڑھیاں چڑھ کر متعلقہ دروازے کے پاس پہنچ گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جیسے ہی میں نے دروازے کے ہڈتھل پر ہاتھ رکھا۔۔۔۔۔۔۔۔ میرا دل کن پٹیوں میں دھڑکنے لگا۔۔۔۔ اور میں سوچنے لگی ۔۔۔ کہ پتہ نہیں موصوف کیسا ہو؟ میرے ساتھ کیسا برتاؤ کرے ۔ ۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی میں نے دروازے پر ہلکی سی دستک دے دی۔۔۔۔۔ اندر سے ایک مردانہ آواز سنائی دی اندر آجائیں صبو۔۔۔۔اور میں نے دھڑکتے دل کے ساتھ ہنڈیل کو گھومایا اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اندر داخل وہ گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ایک سادہ سا سنگل بیڈ روم تھا ۔۔۔ جس کے ایک طرف دو کرسیاں اور سامنے ایک میز رکھا ہوا تھا ۔۔۔ جبکہ پلنگ کے سامنے سنگھار میز بھی پڑا ہوا تھا ۔۔۔اور پلنگ پر ایک سفید رنگ کی چادر بچھی ہوئی تھی۔۔۔۔۔ کمرے کا جائزہ لینے کے بعد میں رائیٹر صاحب کی طرف متوجہ ہوئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو میرے سامنے ایک انتہائی سادہ اور عاجز سا شخص بیٹھا تھا ۔۔۔۔۔۔ جس کو دیکھ کر کسی کو اس بات کا یقین ہی نہیں آتا ہو گا کہ یہ رائیٹر بھی ہو سکتا ہے۔۔۔ اس لیئے میں نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا اور ۔۔اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپ ہی مسٹر شاہ ہو؟ سٹوری رائیٹر۔۔۔۔ تو وہ مسکراتے ہوئے کہنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رائیٹر شائیٹر تو میں ہر گز نہیں ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں سبھی مجھے شاہ کہتے ہیں اور پھر میرے ساتھ ہاتھ ملا کر مجھے کرسی پر بیٹھنے کو کہا۔۔۔۔ اور پھر روم سروس کو ملاکر کہنے لگا۔۔۔ چائے یا ٹھنڈا ۔۔۔۔؟ تو میں نے چائے کے لیئے کہہ دیا۔۔۔۔۔۔
کچھ دیر ادھر ادھر کی باتوں کے بعد۔۔۔ جب میں اس کے ساتھ تھوڑی فری ہوگئی۔۔۔۔ تو رائیٹر نے میری طرف دیکھا اور پھر پاس پڑا ہوا اپنا لیپ ٹاپ اُٹھا کر کہنے لگا۔۔۔ جی پلیززززززززز۔۔۔ ۔۔۔۔ اپنی سٹوری سنانا شروع کر دیجئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نیٹ پر چونکہ لکھا جاتا ہے اور اس وقت بندہ سامنے بھی نہیں ہوتا ۔۔۔۔اس لیئے وہاں پر میں اسے بے دھڑک ہو کر لکھ دیتی تھی کہ ہاں میں نے اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ سیکس کیا ہے۔۔۔ لیکن اب میں نے دیکھا کہ سیم یہی بات جوکہ میں نے اسے نیٹ پر کئی دفعہ بتائی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے منہ پر بتاتے ہوئے میری زبان لڑ کھڑا رہی تھی۔۔۔۔یہ صورتِ حال دیکھ کر رائیٹر سمجھ گیا کہ میرے ساتھ کیا مسلہ ہے اس لیئے اس نے ایک دم سے اپنا لیپ ٹاپ بند کر دیا۔۔۔۔ اور پھر میری طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگا۔۔۔۔ چلیں پہلے کوئی اور بات کرتے ہیں ۔۔۔ پھر باتیں کرتے کرتے اچانک ہی وہ کہنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اتنی گرمی ہے یہ اپنا برقعہ تو اتار دو۔۔۔۔۔ اور میں نے اپنا برقعہ اتار دیا۔۔۔ اس کے بعد رائیٹر مجھ سے اپنی آنے والی سٹوری کے بارے میں ڈسکس کرنے لگا۔۔ اور باتوں باتوں میں اس نے جان بوجھ کر ایسے ایسے سیکسی لفظ استعمال کرنا شروع ہو گیا۔۔۔۔ کہ جن کو سن کر۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے نپلز ۔۔۔ اکڑ گئے تھے۔۔۔۔ اور جب اس نے دیکھا کہ میدان پوری طرح گرم ہے تو اچانک ہی رائیٹر نے اپنا لیپ ٹاپ دوبارہ سے اُٹھایا اور میری طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس وقت آپ کے بھائی کا لن کتنا تھا ۔۔۔ کہ جب آپ نے اس کو اپنی چوت میں لیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رائیٹر کی اس بات سے اچانک ہی میرے اندر کی شہوت زادی چھلانگ لگا کر باہر آ گئی۔۔۔۔ اور میں نے رائیٹر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔۔ پہلی بار میں نےاپنے بھائی سے چوت نہیں بلکہ اپنی گانڈ مروائی تھی۔۔۔۔۔
میری بات سن کر رائیٹر نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا ۔۔۔۔۔اور مجھ سے کہنے لگا۔۔۔۔۔۔ یہ ہوئی نا بات ۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر اس کے ساتھ ہی ہم دونوں کے بیچ جو کوئی دیوار باقی رہ گئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ بھی گر گئی تھی ۔۔۔۔۔ اس طرح تقریباً ایک دو گھنٹے تک اس نے مجھ سے کرید کرید کو مختلف سیکس کی بیگ گروانڈ اور اس طرح کے متعدد سوالات پوچھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جسے کا میں اسے تفصیلی جواب دیتی رہی ۔۔۔۔ اور کہیں کہیں میری بات سنتے ہوئے اچانک ہی رائیٹر ایک نعرہ مارتا اور کہتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ ہے ۔۔اس کاروائی کی پینچ لائین ۔۔۔۔ جس کی مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آتی تھی۔۔۔۔۔لیکن وہ میرے منہ سے ایسی بات سنتے ہی فوراً ہی اسے اپنے لیپ ٹاپ پر محفوظ کر لیتا تھا۔۔۔۔۔ اس دوران سیکسی باتیں کر کر کے ہم دونوں کے اندر اس قدر آگ جل رہی تھی کہ اس کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے بار بار میری نظر اس کی شلوار کی طرف جاتی تھی جہاں پر اس کا کوبرا سانپ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھن پھیلائے کھڑا تھا۔۔۔ لیکن کوشش کے باوجود بھی ۔۔ میں اس کے کوبرے کو نہ دیکھ سکی تھی کہ جس کو دیکھنے کی کم از کم مجھے بہت تمنا تھا ۔۔۔اس کی وجہ یہ تھی کہ رائیٹر اپنی ہر سٹوری میں اس کی اتنی تعریف کرتا تھا کہ نا چاہتے ہوئے بھی میں اس کے لن کی فین بن گئی تھی۔۔۔
سوالوں کا جواب دیتے ہوئے جب مجھے کافی دیر ہو گئی ۔۔۔۔اور میری پھدی تپ تپ کر تندور بن گئی تو میں نے رائیٹر سے کہا ۔۔۔۔۔ سر جی ایک سوال میرا بھی ہے؟ تو میری بات سن کر وہ ایک دم چونک پڑا اور کہنے لگا۔۔۔۔ جی ارشاد ۔۔۔۔ تو میں نے اس سے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ آپ اپنی ہرسٹوری میں اپنے پپو (لن ) کی اتنی تعریف کیوں کرتے ہو؟ تو میری بات سن کر رائیٹر ہنس پڑا ۔۔۔۔۔ اور اپنی گود سے لیپ ٹاپ کو ہٹا کر بولا۔۔۔۔۔۔۔ بات دراصل یہ ہے صبو جی کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ نہ میرے پاس کوئی بینک بیلنس ہے۔۔۔۔ نہ کوئی گاڑی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہ کوئی بنگلہ۔۔۔بلکہ ایک پھٹیچر سا موٹر سائیکل ہے جو باوے آدم کے زمانے کا ہے ۔۔۔اور پھر کہنے لگا۔۔۔صبو جی ۔ میرے حلیئے سے آپ نے میری حثیت کا اندازہ کر ہی لیا ہو گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی وہ اپنی کرسی سے اُٹھا اور دروازے کو لاک کر کے بولا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو ایسی صورت میں مس صبو۔۔۔۔۔۔ میرے پاس آ۔۔۔ جا ۔۔۔۔کے صرف لن ہی بچتا ہے ۔اب آپ اس کا جائزہ لے کر بتائیں کہ میں سچ کہہ رہا ہوں کہ ۔۔۔جھوٹ؟؟؟؟؟؟؟؟
اس کے ساتھ ہی رائیٹر نے اپنی شلوار کو نیچے کر دیا۔۔۔۔اور اپنے لن کو ننگا کر کے میرے سامنے کھڑا ہو گیا۔۔۔۔۔ اور پھر ۔۔۔۔ میرے ہاتھ کو پکڑ کر کہنے لگا۔۔۔۔۔۔۔ اس کو چیک کرکے بتاؤ کہ۔۔۔۔ میرا لن کیسا ہے؟۔۔۔ ادھر جیسے ہی اس کے ننگے لن پر میری نظر پڑی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ سوچ کر میری چوت نے پانی چھوڑنا شروع کر دیا ۔۔۔ کہ جانے اس کا یہ لن کتنی پھدیوں میں گیا ہو گا۔۔۔ ادھر رائیٹر نے مجھے بازو سے پکڑا ۔۔۔۔۔اور میرے ہاتھ میں لن پکڑا کر بولا۔۔۔ چیک اِٹ۔۔۔۔۔ اب میں نے اس کے موٹے لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور اسے دباتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رائیٹر جی ۔۔۔۔ واقعہ ہی آپ کا لن کمال ہے۔۔۔ پھر میں نے اس کے موٹے سے لن کے ہیڈ پر زبان پھیری اور کہنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یقین کرو رائیٹر ۔۔۔۔ میرے ان لبوں نے بھی بہت سے لنوں کو چوما ہے ۔۔۔۔۔اور ان ہونٹوں نے بہت سے لنوں کو چوسا ہے۔۔۔ ۔۔۔۔ ان کو چاٹا ہے ۔۔۔ان سے میں بہت کھیلی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔ ان میں موٹے بھی تھے لمبے بھی ۔۔۔اور ہر طرح کا لن میری پھدی اور گانڈ میں گیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن ۔۔۔۔۔یہ کہہ کر میں نے تھوڑا وقفہ لیا اور دوبارہ سے اس کے لن پر زبان پھیر کر بولی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پتہ نہیں کیا بات ہے رائیٹر کہ تمہارے لن میں ایک عجیب طرح کی کشش ۔۔۔۔اور مستی ہے اور اس جیسی مستی اور کشش میں نے بہت کم مردوں کے لن میں دیکھی ہے۔۔۔
اس کے ساتھ ہی میں اوپر اُٹھی اور رائیڑ کے ساتھ گلے لگ گئی۔۔۔۔۔۔۔۔ جیسے ہی میں رائیٹر کے گلے لگی ۔۔۔۔اس نے اس نے اپنے ہونٹوں کو میرے ہونٹوں پر رکھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور انہیں چوم کر بولا۔۔۔۔۔ تمہارے لب بہت ریسلے اور نرم ہیں ۔۔۔۔۔ میں ان کو اور چوس لُوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو میں نے رائیٹر کی طرف اپنا منہ بڑھاتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔۔ رائیٹر جی میں شہوت ذادی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔ مجھ سے جو بھی چاہیئے بلا تکلف ۔۔۔ لے لو۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی میں نے اپنی زبان کو رائیٹر کے منہ میں دے دیا۔۔۔۔۔۔ جسے وہ بڑی گرم جوشی کے ساتھ چوسنے لگا۔۔۔کچھ دیر کسنگ کے بعد اس نے خود ہی میری قمیض کو اوپر اُٹھا دیا۔۔۔۔اور میری چھوٹی چھوٹی چھاتیوں کی طرف دیکھ کر ۔۔ کہنے لگا۔۔۔۔۔۔ تمہارے کھڑے نپلز بتا رہے ہیں کہ تم پر کس قدر شہوت سوار ہے ۔۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی اس نے میرے نپلز کو اپنے منہ میں لے لیا ۔۔۔اور ان کو چوسنے کے ساتھ ہی اس کو ایک ہاتھ نیچے میری پھدی کی طرف بڑھ گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور پھر اس نے میری شلوار کے اندر اپنا ہاتھ لے گیا۔۔۔۔۔۔۔اور میری پانی بھری چوت کو چھیڑنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کی اس چھیڑ چھاڑ سے میں گرم سے گرم تر ہوتی گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر شہوت کے بے قابو ہو کر میں نے رائیٹر کے منہ میں دبے ہوئے ۔۔۔اپنے نپل کو الگ کیا اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر اس کو لن سے پکڑ کر کرسی پر بیٹھ گئی۔۔۔۔۔۔۔۔اور اس سے کہنے لگی۔۔۔ جلدی تو نہیں چھوٹو گے نا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں تھوڑا سا لن چوس لوں۔؟ میری بات سن کر رائیڑ ہنس پڑا اور کہنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چھوٹنے کی تم فکر نہ کرو ۔۔ اور جب تک تمہارا جی چاہے میرے لن کو چوستی رہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کی بات سنتے ہی پہلے تو میں نے اس کے بڑے سے لن پر اوپر سے نیچے تک اپنی زبان پھیری ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور یہ زبان میں نے اس انداز سے پھیری تھی ۔۔۔ کہ رائیٹر نے ایک جھر جھری سی لی اور کہنے لگا۔۔۔۔۔۔۔اُف۔۔۔۔۔صبو۔۔۔ واقعہ ہی تم شہوت زادی ہو۔۔ اور اس کے ساتھ ہی رائیٹر خود ہی آگے پیچھے ہو کر اپنے لن کو میرے منہ میں ان آؤٹ کرنے لگا۔۔۔۔۔
ادھر رائیٹر کا لن چوستے ہوئے مجھ پر ایک عجیب سی خماری طاری ہو گئی تھی ۔۔۔اور میری دو ٹانگوں کے بیچ والا سوراخ خود ہی کھل بند ہو نے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ دیکھ کر میں نے اپنے منہ سے رائیٹرکا لن نکلا ۔۔اور اپنی کرسی پر دونوں گھٹنے رکھ کر ۔اس کے بازوں کو مضبوطی سے پکڑ لیا اور اپنی گانڈ کو باہر کی طرف نکال کر کہنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رائیٹر میری پھدی ماررررررررررررررررررررر۔۔ میری شہوت بھری بات کو سن کر رائیٹر آگے بڑھا میری باہر کی طرف نکلی ہوئی گانڈ کو دیکھ کر اس کے منہ سے ایک سیٹی سی نکل گئی اور وہ میری گانڈ پر ہاتھ پھیرتا ہوا بولا ۔۔ کمال کی گانڈ ہے تمہاری ۔۔۔۔اس کے ساتھ ہی رائیٹر نے اپنے منہ سے زبان نکالی اور میری بڑی سی گانڈ پر پھیرنے لگا۔۔۔ اپنی گانڈ پر رائیڑ کی زبان کا لمس پا کر میں تو جھلی سی ہو گئی۔۔۔۔اور کچھ ہی دیر بعد ۔۔۔ آہ و سسکیوں میں چلاتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بس کر دو۔۔۔ میری جان ۔۔ بس کر دو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میری بات سن کر رائیٹر نے میرے سوراخ سے اپنی زبان ہٹائی اور میری طرف دیکھ کر بولا۔۔۔۔۔۔۔۔ بس کردوں ؟ تو میں نے اپنی ہپس کو اس کی طرف لے جاتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہاں بس کر دو۔۔۔ میری بات سن کر وہ مزے لیتے ہوئے کہنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بس کر دوں تو پھر کیا کروں ؟ تو اس پر میں نے اپنی گردن اس کی طرف گھومائی ۔۔۔۔اور بڑی ادا سے کہنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بس کر کے میری پھدی مارو۔۔۔۔۔تو وہ شرارت سے بولا ۔۔۔ تمہاری پھدی کو میں کیوں ماروں ؟ تو میں نے مستی میں ڈوبے ہوئے لہجے میں کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے تمہارا لن چاہیئے رائیٹر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ابھی اور اسی وقت ۔۔۔۔۔ جلدی سے پلیززززز ۔۔۔۔۔۔۔۔ اندر ڈال دو۔۔۔ میری بات سنتے ہی رائیٹر اپنی جگہ سے اُٹھا اور اس نے مجھے کرسی سے اُٹھا بیڈ پر گھوڑی بننے کو کہا۔۔۔۔۔۔۔۔اور پھر جیسے ہی میں اس کے کہنے کے مطابق ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بیڈ پر گھوڑی بنی تو اس کے ساتھ ہی رائیٹر کا سنسناتا ہوا لن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میری چوت میں گھس گیا۔۔۔۔۔۔
اور پھر رائیٹر نے میری چوت کو مارنا شروع کر دیا۔۔۔ وہ کافی دیر تک وہ میری چوت کو مارتا رہا ۔۔۔ پھر کہنے لگا۔۔۔ کیا خیال ہے تھوڑی سی بنڈ نہ مار لوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر میرے جواب کا انتظار کیئے بغیر ہی اس نے بہت سا تھوک میری گانڈ پر لگایا اور کچھ تھوک کو اپنے لن پر لگا کر میری گانڈ کے سوراخ پر رکھ دیا۔۔۔۔ اور پھر اس سے قبل کہ میں کچھ کہتی اس نے ایک جھٹکے سے اپنے سارے لن کو میری گانڈ میں گھسا دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے لن کا میری گانڈ میں جانے کی دیری تھی کہ مجھے ایسا لگا کہ مزے کا ایک طوفان میرے اندر داخل ہو گیا ہے ۔۔۔۔۔ اور میں اس کے مست گھسوں کی تاب نہ لا کر خود ہی اپنی ہپس کو آگے پیچھے کرنے لگی۔۔۔۔۔ گھسے مارتے ہوئے کچھ ہی دیر بعد ۔۔۔۔۔ جب وہ چھوٹنے کے قریب آ گیا تو اس نے جلدی سے اپنے لن کو میری گانڈ سے نکالا اور پھر میری چوت میں گھسا دیا۔۔۔۔ اور ایک طرح سے اس نے یہ اچھا ہی کیا ۔۔۔۔۔ کیونکہ اس وقت میری چوت کی دیواریں اس کے لن کو اپنے اندر لینے کے لیئے ۔۔۔۔ مچلی جا رہیں تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دوسری طرف میری چوت میں لن ڈالتے ہی اس نے طوفانی قسم کے گھسے مارنے شروع کر دیئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور پھر کچھ ہی دیر بعد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے لن سے پانی نکل نکل کر میری چوت کو بھرنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس دن رائیٹر نے میرے ساتھ دو تین ٹرپ لگائے اور مجھے چود چود کر اتنا زیادہ شانت کر دیا کہ ۔۔۔۔۔۔ خماری کے مارے ۔۔۔ میری آنکھ نہیں کھل رہی تھی ۔۔۔اس لیئے میں پلنگ پر ہی اس کے بازوؤں میں جھول گئی۔۔۔۔۔پھر کوئی آدھے پونے گھنٹے کے بعد رائیٹر نے مجھے جگایا ۔۔اور میں اس کے ساتھ جپھی لگا کر واپس اپنی بس کی طرف چل دی۔۔۔۔