پیاری بھابی

 


میرا نام سمیر ہے۔ ہمیشہ سے میری ایک کمزوری رہی ہے، اور وہ ہے لڑکیاں۔ میرا رنگ گورا، قد پانچ فٹ چھ انچ، اور عمر بیس سال ہے۔ میرا ایک ہی بھائی ہے، جس کا نام کاشف ہے۔ اس کا رنگ سانولا، قد پانچ فٹ نو انچ، اور عمر اٹھائیس سال ہے۔ وہ شادی شدہ ہے۔ میری بھابی کا نام حریم ہے، وہ گوری ہیں، ان کا قد پانچ فٹ آٹھ انچ ہے، اور ان کی شادی بھائی کے ساتھ محبت کی شادی تھی۔ میرے والدین یورپ میں کاروبار کی وجہ سے رہتے ہیں، جبکہ بھائی پاکستان میں کاروبار سنبھالتے ہیں۔ میں بھی بھائی کے ساتھ پاکستان میں رہتا ہوں۔

حریم، میری بھابی ہونے کے ساتھ ساتھ میری بہت اچھی دوست بھی تھیں۔ میں اپنی تمام مختصر مدت کی محبت کی کہانیاں ان کے ساتھ شیئر کرتا تھا۔ وہ ایک دوست کی طرح میری باتیں سنتی تھیں، لیکن بھابی ہونے کے ناطے کبھی کبھار پیار سے ڈانٹ بھی دیتی تھیں اور میرے کان کھینچ کر کہتی تھیں، "چھوٹو، اپنی پڑھائی پر توجہ دو، یہ جو تم کرتے ہو، یہ زندگی نہیں ہے۔"

لڑکیوں کے چکر میں میں اپنے اور پرائے کی پہچان ہی بھول گیا تھا۔ بھابی کی بہن، جو میری کلاس فیلو تھی، اسے بھی میں نے اپنی مختصر مدت کی محبت کے جال میں پھنسا لیا۔ دو تین ماہ بعد جب میں نے اسے چھوڑ دیا تو اس نے بھابی کو سب کچھ بتا دیا۔ اس کے بعد میں نے اپنا ایک اچھا دوست کھو دیا، یعنی بھابی کو۔ اس دن کے بعد بھابی نے مجھ سے کبھی بات نہیں کی۔ جب وہ مجھے دیکھتیں تو ان کے چہرے پر نفرت کے سوا کچھ نظر نہ آتا۔

بھابی ڈاکٹر تھیں اور اپنا پرائیویٹ کلینک چلاتی تھیں۔ بھائی اور میری محبت مثالی تھی۔ میری زیادہ تر زندگی بھائی کے ساتھ گزری تھی۔ بھائی نے مجھے بھائی نہیں، بلکہ بیٹے کی طرح پالا تھا۔ اس لیے میں اپنے والد سے زیادہ اپنے بھائی سے محبت کرتا تھا۔

بھائی میں صرف ایک بری عادت تھی، اور وہ تھی غصہ۔ ایک بار بھائی نے گالف کھیلتے ہوئے اپنے پارٹنر کو تھپڑ مار دیا۔ یہ تھپڑ اس کے منہ پر نہیں، بلکہ اس کے دل پر لگا۔ دل پر لگی چوٹ بھلائے نہیں بھولتی۔ بھائی نے غصہ اتر جانے کے بعد اپنے پارٹنر حمید سے معافی بھی مانگی، لیکن حمید نے انہیں دل سے معاف نہیں کیا۔

شدید سردیوں کا موسم تھا۔ ایک رات قریب ایک بجے میرے کمرے کے دروازے پر دستک ہوئی۔ میں نیند سے اٹھا اور دروازہ کھولا تو سامنے بھائی کھڑے تھے۔ انہوں نے اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر مجھے خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور دوسرے ہاتھ سے اپنے پیچھے آنے کا اشارہ دیا۔ میں حیرت اور پریشانی میں ڈوبا، آدھا سویا آدھا جاگا بھائی کے پیچھے چل پڑا۔ باہر لاؤنج سے چیخوں کی آوازیں آ رہی تھیں۔ اسی دوران میں بھائی کے پیچھے ان کے کمرے میں داخل ہوا۔ بھابی ٹراؤزر اور ٹی شرٹ میں ایل ای ڈی کے سامنے کھڑی سی سی ٹی وی کیمروں کی مدد سے باہر کا منظر دیکھ رہی تھیں۔ ان کے چہرے پر پریشانی نمایاں تھی۔ بھائی نے جلدی سے مجھے صورتحال بتائی کہ ان کا پارٹنر حمید اپنے باڈی گارڈز کے ساتھ باہر موجود ہے۔ اس نے پہلے ہمارے گارڈز کو چکمہ دے کر اندر آنے کی کوشش کی، لیکن جب بھائی نے اس کی نیت بھانپ کر منع کیا تو وہ واپس چلا گیا۔ لیکن دراصل وہ گیا نہیں تھا، بلکہ تھوڑی دیر بعد اس نے ہمارے بنگلے کو چاروں طرف سے گھیر کر سائلنسر لگے پستولوں کے ساتھ حملہ کر دیا۔ اب تک ہمارے تقریباً تمام گارڈز مارے جا چکے تھے۔

یہ سب سن کر اور دیکھ کر میرا غصہ ساتویں آسمان پر پہنچ گیا۔ میں نے بھائی سے کہا، "بھائی، یہ تو ہمارے سامنے مچھر ہے، میں اسے نہیں چھوڑوں گا، مجھے پستول دیں۔" بھائی نے مجھے ایک تھپڑ مارا اور کہا، "قاتل بننا ہے یا انسان؟" ان کے تھپڑ سے میں ہوش میں آیا۔ وہ بولے، "میری بات غور سے سنو۔ میرے کمرے میں جو خفیہ جگہ چھپنے کے لیے ہے، تم اور تمہاری بھابی وہاں چھپ جاؤ۔ باقی اس حمید کو میں خود دیکھ لوں گا۔" میں اور بھابی نے احتجاج کیا تو بھائی نے ہمیں ڈانٹ دیا۔ غصے میں بولے، "مجھے کچھ نہیں ہوگا۔ اس مچھر کو میں ابھی کچل دیتا، لیکن رات کے ایک بجے ہیں اور میرا فون کوئی اٹھا نہیں رہا۔" پھر بھائی نے جلدی سے اپنے کمرے میں لگی اپنی اور بھابی کی ایک بڑی تصویر کو دبایا تو وہ تصویر ایک دروازے کی طرح اندر کی طرف کھل گئی۔

یہ ایک چھوٹی سی چھپنے کی جگہ تھی، جہاں دو لوگ بمشکل کھڑے ہو سکتے تھے۔ اندر معمولی سی روشنی تھی، جو ایک چھوٹے سے روشن دان سے آ رہی تھی۔ میں نے پھر بھائی سے کہا کہ میں آپ کو چھوڑ کر نہیں جا سکتا، لیکن بھائی نے مجھے اندر دھکیلتے ہوئے کہا، "فکر نہ کرو، مجھے کچھ نہیں ہوگا۔ جب تک میں نہ کہوں، باہر نہیں آنا اور اپنی بھابی کا خیال رکھنا۔" یہ کہہ کر بھائی نے بھابی کو بھی اندر دھکیلا اور دروازہ، یعنی تصویر، بند کر دی۔

کچھ ہی لمحوں بعد ہمیں گھر کا داخلی دروازہ ٹوٹنے کی آواز سنائی دی۔ اس آواز سے میرے اندر خوف سا پیدا ہوا۔ شاید اگر میں باہر ہوتا تو ڈرتا نہیں، لیکن چھپ جانے کی وجہ سے خوف نے مجھے جکڑ لیا۔ بھاری قدموں کی آوازیں میرے کانوں سے ٹکرائیں، جو قریب تر ہوتی جا رہی تھیں۔

پھر حمید کی آواز سنائی دی، "ہاں تو کاشف صاحب، بہت غصہ ہے نہ آپ میں؟ چلیں، دیکھتے ہیں آج آپ کو کتنا غصہ آتا ہے۔" پھر اس نے کسی سے کہا، "باقی گھر کو چیک کرو۔" اس کے بعد کسی کے کمرے سے باہر جانے اور تھوڑی دیر بعد واپس آنے کی آواز آئی۔ کوئی بولا، "سر، باقی گھر خالی ہے۔" بھائی غصے میں بولے، "مجھے تم سے ایسی حرکت کی امید نہیں تھی۔" حمید شیطانیت بھرے لہجے میں بولا، "چلو، نہیں تھی، اب تو ہو گئی نہ۔ اپنی بیوی اور بھائی کو کہاں چھپایا ہے؟ خیر، چھوڑو، جہاں بھی ہیں، مجھے کیا۔ اسے رسی سے باندھ دو۔"

جس جگہ ہم چھپے تھے، وہاں کا منظر کچھ یوں تھا کہ میں بمشکل اس تنگ جگہ میں کھڑا تھا اور میرے آگے بھابی بمشکل کھڑی تھیں۔ جگہ اتنی تنگ تھی کہ ہم دونوں ایک دوسرے سے چپکے ہوئے تھے۔ بھابی کی ملائم گانڈ  میرے ساتھ چپکی ہوئی تھی۔ ہم سر سے پاؤں تک ایک دوسرے سے ملے ہوئے تھے۔ اچانک میرے اندر ایک ایسی تحریک پیدا ہوئی، جس کے بارے میں میں نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا۔ ہاں، مانتا ہوں کہ لڑکیاں میری کمزوری تھیں، لیکن بات یہاں تک پہنچ جائے گی، یہ میں نے کب سوچا تھا۔میرا لن تن چکاتھا اور بھابی کی ملائم گانڈ میں دھنسنے کی کوشش کررہاتھا۔جگہ اتنی تنگ تھی کہ بھابھی چاہ کر بھی  اپنی ملائم گانڈ کو میرے لن سے دور نہیں ہٹا سکتی تھیں ۔ مجھے اپنے جسم میں کرنٹ سا لگنے لگا، ایک عجیب سی سرشاری، ایک عجیب سا لطف۔ سرور کے ناگ نے مجھے ڈس سا لیا تھا۔ میرا ذہن اور جسم کا ہر حصہ لذت میں ڈوب سا گیا۔

باہر بھائی پر مکوں کی بارش شروع ہو چکی تھی۔ حمید بھائی سے ان کی ساری جائیداد اپنے نام کرنے کا مطالبہ کر رہا تھا۔ بھائی کی چیخیں ہمارے کانوں سے ٹکرا رہی تھیں۔ بھابی کی ہلکی ہلکی سسکیاں سنائی دیں، وہ رو رہی تھیں۔ میری ٹانگوں کے درمیان میرے ٹراؤزر کے اندر قید میرا جسم سخت ہو رہا تھا۔ بھابی کی ٹراؤزر کے اندر چھپی ان کی نرم گانڈ  سے میرا جسم مل رہا تھا۔ بھابی اپنی عزت کے بارے میں رو رہی تھیں یا اپنے خاوند کی حالت پر، یہ میں نہیں جانتا۔

بھابی بہت خوبصورت تھیں۔ ان کا قد مثالی تھا، لمبے گھنے بال، گہری جھیل سی آنکھیں، گورا رنگ، پتلی کمر، بڑے گول سینے، اور نمایاں گانڈ۔ اچانک باہر سے پولیس کی گاڑیوں کے سائرن کی آوازیں آنے لگیں۔ کسی زخمی گارڈ نے، جسے حمید نے مرا ہوا سمجھا تھا، پولیس کو بلا لیا تھا۔ کچھ دیر مزاحمت کے بعد حمید اور اس کے گارڈز کو گرفتار کر لیا گیا۔ جب بھائی نے ہمیں اندر سے باہر نکالا تو بھابی دوڑتی ہوئی بھائی سے لپٹ گئیں۔

پتا نہیں کیوں، مجھے ایک عجیب سی جلن محسوس ہوئی۔ ایک آگ سی میرے سینے میں چند لمحوں کے لیے بھڑک اٹھی۔ میں زندہ لاش بن گیا۔ بھابی کا سراپا میرے ذہن میں بس گیا۔ ان کی گہری آنکھیں مجھے سونے نہ دیتی تھیں۔ ان کا وجود میری روح کے آر پار ہونے لگا۔ دوسری طرف، بھابی کی مجھ سے نفرت اس قدر بڑھ گئی کہ وہ میری طرف دیکھنا بھی پسند نہ کرتی تھیں۔

میں نے اپنے تمام افیئرز ختم کر دیے۔ بھابی کے سوا مجھے کوئی اچھا نہ لگتا تھا۔ میرا زیادہ وقت گھر پر گزرنے لگا تاکہ میں بھابی کا دیدار کر سکوں۔ دو ماہ گزر گئے، اور بھابی سے میری محبت ہر حد پار کرنے کو تیار تھی۔ ایک دن صبح کے وقت، جب گھر پر صرف میں اور بھابی تھے، میں نے ہمت کرکے ان سے کہا، "مجھے آپ سے ایک بات کرنی ہے۔" انہوں نے سخت لہجے میں کہا، "مجھے تم جیسے گھٹیا انسان سے کوئی بات نہیں کرنی۔" میرے دل میں جیسے کسی نے خنجر گھونپ دیا۔ میں ان سے اتنی محبت کرتا تھا، اور وہ اتنی سرد مہری دکھا رہی تھیں۔ یہ کہہ کر وہ اپنے کمرے کی طرف جانے لگیں۔ میں نے بے جان ٹانگوں پر بمشکل کھڑے ہوتے ہوئے کہا، "اس دن جو ہمارے درمیان ہوا، میں سب کچھ بھائی کو بتا دوں گا اور کہوں گا کہ آپ نے اس سب میں میرا ساتھ دیا تھا۔ بس آپ کو ایک بار رات کو میرے کمرے میں آنا ہے۔ آپ کے پاس فیصلہ کرنے کے لیے تین دن ہیں۔"

یہ سنتے ہی بھابی آتش فشاں کی طرح پھٹ پڑیں۔ "تم سے نیچ، گھٹیا، اور کمینہ شخص میں نے آج تک نہیں دیکھا۔ کیا تم نے کبھی اپنے بھائی کے بارے میں نہیں سوچا؟ وہ تم سے کتنا پیار کرتا ہے، اور تم؟ تم انسان نہیں، حیوان ہو۔ میری بہن کی زندگی بھی تم نے برباد کی۔ میری بہن کو چھوڑو، تم تو اپنے بھائی کے بھی نہیں ہو سکے۔" بھابی بولتی چلی گئیں، اور میں ایک گدھے کی طرح ذلیل ہوتا گیا۔ آخر میں، میں نے ان کی غصے سے بھری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا، "صرف تین دن۔" اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتیں، میں اپنے کمرے میں آ گیا۔

اتنی بڑی بات کر تو دی تھی، لیکن میری جان نکل گئی تھی۔ میں بے جان سا ہو کر بستر پر گر گیا۔ اگر بھابی نے یہ سب بھائی کو بتا دیا تو کیا ہوگا؟ میں تو ماں، باپ، بھائی، کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہوں گا۔ یہ سب سوچ کر اور بھابی کی ذلت آمیز باتیں سن کر میں نے خود کو بہت گرا ہوا محسوس کیا۔ میں بستر سے اٹھا اور غصے میں دیوار پر مکے مارنے لگا۔ پھر تھک کر کمرے میں پڑے صوفے پر گر گیا۔ بھابی کا سراپا میری آنکھوں کے سامنے گھومنے لگا۔

رات کو بستر پر لیٹا ہوا میں کرویں بدل رہا تھا اور انتظار کر رہا تھا کہ شاید بھابی آ جائیں، لیکن وہ نہیں آئیں۔ دو دن راتوں کو جاگ کر ان کا انتظار کرتا رہا کہ اب آئیں گی، اب آئیں گی، لیکن وہ نہ آئیں۔ تیسرے دن رات کو بارہ بجے میں نے انہیں موبائل پر پیغام بھیجا، "اگر آج آپ نہ آئیں تو اپنے شوہر کے ساتھ اپنی خوشحال زندگی کی تباہی کی ذمہ دار آپ خود ہوں گی۔" میرا جسم تپنے لگا، ایک عجیب سی بے چینی میرے سینے میں بھر آئی۔

آدھا گھنٹہ گزرا تو میرے کمرے کے دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی۔ میں نے دروازہ کھولا تو سامنے بھابی کھڑی تھیں۔ ان کے چہرے پر شدید غصہ تھا۔ وہ ٹراؤزر اور ٹی شرٹ میں ملبوس تھیں، اور ایک شال سے انہوں نے اپنے جسم کو ڈھانپ رکھا تھا۔ میں ایک طرف ہٹا، اور وہ کمرے میں داخل ہو کر میرے صوفے پر بیٹھ گئیں۔ میں نے دروازہ بند کیا اور اپنے بستر پر بیٹھ گیا۔ ایک گھنٹہ گزر گیا، میں انہیں دیکھتا رہا، اور وہ غصے میں زمین کی طرف دیکھتی رہیں۔ میں نے ان سے کہا، "یہاں آئیں نہ۔" وہ نہ آئیں۔ میں نے دوبارہ کہا تو وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی ہوئی میرے بستر پر میرے ساتھ بیٹھ گئیں۔

میں نے ان کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لیے۔ ان کے ہاتھ بے جان تھے۔ میں نے ان کے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہونٹوں سے لگانا چاہا تو انہوں نے اپنے ہاتھ پیچھے کر لیے۔ وہ مسلسل زمین کی طرف دیکھ رہی تھیں۔ میں ان کے بالکل قریب بیٹھ گیا۔ ہم دونوں کی ٹانگیں زمین کو چھو رہی تھیں۔ میری دائیں ران ان کی بائیں ران سے ہلکے سے ٹکرا رہی تھی۔ میں نے آگے جھک کر ان کے گال پر بوسہ دینے کی کوشش کی تو انہوں نے اپنا چہرہ پیچھے کر لیا۔ میں نے ایک ہاتھ ان کے گھنے بالوں میں ہلکے سے ڈالا اور ان کا چہرہ اپنی طرف کیا، پھر ان کے گال پر آہستہ سے بوسہ دیا۔ یوں لگا جیسے میری روح سرشار ہو گئی۔ میرا تپتا جسم خوشیوں میں ڈوب گیا، اور وہ پریوں کی ملکہ غصے سے بھرے سمندر کی طرح ٹھاٹیں مار رہی تھی۔

میں نے اپنے ہونٹ آگے بڑھائے اور ان کے ہونٹوں پر رکھ دیے۔ انہوں نے اپنے ہونٹ بند کر لیے، اور میرے ہونٹ ان کے ہونٹوں کو صرف اوپر اوپر سے چھو رہے تھے۔ میرے ہونٹ نیچے کی طرف بڑھے، اور میں ان کی گردن کو چومنے لگا۔ ان کی گردن اتنی ملائم تھی جیسے پھول کو چھو لیا ہو۔ میرا ایک ہاتھ ان کے بالوں میں تھا۔ ان کی گردن کو چومتے ہوئے میں نے اپنے بائیں ہاتھ سے ان کے ایک سینے کو پکڑ لیا۔ میں ان کی گردن کو چوم رہا تھا اور ساتھ ہی ان کے سینے کو آہستہ آہستہ دبا رہا تھا۔

پھر میں نے اپنا سر ان کی گود میں، ان کی نرم اور موٹی رانوں پر رکھ دیا اور اپنا باقی جسم بستر پر کر لیا۔ اب میں نے اپنا بائیں ہاتھ ان کے سینے سے ہٹا دیا تھا، اور دائیں ہاتھ کو ان کے بالوں سے ہٹا کر ان کی ٹی شرٹ کے نچلے حصے تک لایا اور ان کی شرٹ اوپر کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے میرے ہاتھ کو پیچھے جھٹک دیا۔ لیکن میں نے دوبارہ شرٹ اوپر کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے اپنی شرٹ کو نیچے سے پکڑ لیا تاکہ میں اسے اوپر نہ کر سکوں۔ بہت مشکل سے میں نے ان کی شرٹ تھوڑی سی اوپر کی تو ان کا پیٹ نظر آنے لگا۔ گورا، سمارٹ سا پیٹ۔ میں نے ان کے پیٹ پر بوسے دینا شروع کر دیے۔ اچانک میں نے ایک زور دار جھٹکے سے ان کی شرٹ اوپر کر دی۔ بھابی کے گورے سینے، سیاہ برا میں لپٹے ہوئے، میرے سامنے آ گئے۔ اگلے جھٹکے میں میں نے ان کی برا اوپر کر دی، جس سے ان کے گورے، گول، اور کھڑے سینے میری آنکھوں کے سامنے آ گئے۔ میں نے بغیر کچھ سوچے ان کے مموں  پر منہ مارنا شروع کر دیا۔ کبھی ایک مما  میرے منہ میں ہوتا تو کبھی دوسرا۔ کافی دیر تک میں ان کے مموں  کو چوستا اور چاٹتا رہا۔

پھر میں پیچھے ہٹا اور ان کے چہرے کو دیکھا۔ ان کے چہرے پر اب بھی غصہ اور سرد مہری تھی۔ میں نے ایک تکیہ اٹھا کر بستر کے بیچ میں رکھا اور بھابی سے کہا کہ اس پر الٹا لیٹ جائیں۔ وہ اپنی مٹھیوں کو بھینچتی ہوئی اٹھیں اور تکیے پر پیٹ رکھتے ہوئے الٹا لیٹ گئیں۔ میں بھی بستر پر آ گیا اور ان کی شال ان سے الگ کر دی۔ میرا ہاتھ آگے بڑھا، اور میں نے ان کا ٹراؤزر پکڑ کر نیچے کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے الٹا لیٹے لیٹے میرے ہاتھ پر اتنی زور سے تھپڑ مارا کہ میرا گورا ہاتھ سرخ ہو گیا۔

میں نے اپنا بائیں ہاتھ ان کی پیٹھ پر رکھا اور دائیں ہاتھ سے اچانک ان کا ٹراؤزر گھٹنوں تک نیچے کر دیا۔ ان کی گوری، چوڑی، اور نرم گانڈ کی گہری لکیر میں میں نے اپنا منہ گھسا دیا۔ وہ زور زور سے اپنے جسم کو جھٹکے دے کر میرے نیچے سے نکلنے کی کوشش کرنے لگیں، لیکن میں نے اپنی پوری طاقت سے انہیں اپنے نیچے دبائے رکھا۔ میں نے ان کی گانڈ کے سوراخ کو خوب چاٹا، ان کی گانڈ کی دیواروں کو اپنی زبان سے رگڑا، اور ان کی گانڈ کو کاٹ کاٹ کر لال کر دیا۔ کافی دیر اسی طرح کرنے کے بعد میں اوپر اٹھا اور اپنا ٹراؤزر جلدی سے نیچے کیا۔ اپنے موٹے اور لمبے جسم کو بھابی کی ننگی گانڈ پر مارا۔ بھابی ہچکیاں لے کر رونے لگیں۔ وحشت اور جنون نے مجھے پاگل کر دیا تھا۔ ان کی ہچکیوں سے مجھے اور مزہ آنے لگا۔ تکیے کی وجہ سے ان کی گانڈ اچھی طرح اٹھی ہوئی تھی، اور ان کی گلابی چوت  سامنے نظر آ رہی تھی ۔ میں نے اپنے لن کو ان کی چوت  پر تھوڑا سا رگڑا اور ایک ہی جھٹکے میں اپنا لن ان کے اندر گھسا دیا۔ ہچکیوں کے ساتھ ان کی گھٹی گھٹی چیخیں نکلنے لگیں، شاید یہ ایک ہی جھٹکے کا کمال تھا۔

میرے دونوں ہاتھ ان کے جسم کی دونوں طرف، یعنی بستر پر تھے، اور میں اپنا لن  تیزی سے اندر باہر کرنے لگا۔ بھابی روتے ہوئے پہلی بار بولیں، "حرامزادے، خبیث، کتے کے بچے، کچھ شرم نہیں تیرے اندر؟" اچانک مجھے محسوس ہوا کہ بھابی کا جسم بھی گیلا ہو رہا ہے۔ انہوں نے پھر کہا، "گشتی کے بچے، تم تو اپنی بہن کے ساتھ بھی یہ کر دیتے۔" مجھے لگنے لگا کہ بھابی بھی اب کچھ کچھ لطف اندوز ہو رہی ہیں۔ میں نے کہا، "اگر آپ جیسی بہن ہوتی تو..." بھابی نے میرا جملہ مکمل کیا، "تم اسے بھی ننگا کر کے اس کی گانڈ چاٹتے اور اپنا یہ موٹا لن  اس کے اندر گھساتے۔" بھابی کی ہچکیاں اب لذت بھری سسکیوں میں بدل گئی تھیں۔ انہوں نے نشے بھرے لہجے میں کہا، "شرم کر، حرامی، بہن چود، تیرے بھائی کی بیوی ہوں۔ اگر اسے پتا چلا کہ میں نے تیرا لن  اپنے اندر لیا ہوا ہے تو اس پر کیا گزرے گی؟" میں نے مستی اور سرور میں ڈوب کر کہا، "وہ سو رہا ہے، اسے کیا پتا کہ میں اس کی بیوی سے مزے لے رہا ہوں۔" بھابی بولیں، "اففف، بہن چود، بہت شوقین ہے تو۔" میں پیچھے سے ان پر سوار دھکے پر دھکے لگا رہا تھا کہ اتنے میں بھابی نے اپنے دونوں گورے ہاتھ پیچھے کیے اور میری رانوں کو زور سے پکڑ کر، نشے میں چور ہوتی ہوئی بولیں، "اور زور زور سے چود اپنی بھابی کو، ہائے، اور زور سے اس کی پھدی مار، اپنے بھائی کی بیوی کی۔" ان کی ایسی گرم باتوں کو سن کر مجھ سے برداشت نہ ہوا، اور میں بھابی کی پھدی  میں ڈسچارج ہو گیا۔بھا بی نے اس رات تین بار مجھ سے چدوایا ۔ان کا غصہ ختم ہوگیاتھا۔ہر عورت کی طرح وہ بھی میرے موٹے لن پر  عاشق ہوگئی تھیں ۔بھابی مجھے بے انتہا مزا دیتی ہیں ۔ جب بھی ہمیں موقع ملتا ہے ہم چدائی راؤنڈ ضرور لگاتےہیں ۔(ختم شد)


ایک تبصرہ شائع کریں (0)
جدید تر اس سے پرانی