میری پیاری امی

 

میں نے امی کے بازو کے نرم حصے پر زور سے چٹکی کاٹی تو ان کے منہ سے بے اختیار "سسسی" کی آواز نکلی اور وہ ہلکا سا چللا کر بولیں، "بے تمیز کہیں کے، اگر تم میری اکلوتی اولاد نہ ہوتے تو میں تمہیں مار ہی دیتی۔" ان کی آواز میں پیار اور شکوہ دونوں تھے۔ میں نے مسکراتے ہوئے ان سے کہا، "امی، ایک بار ہی تو کہہ رہا ہوں گود میں بیٹھنے کے لیے، کون سا روز روز کے لیے کہہ رہا ہوں کہ روز بیٹھنا میری گود میں۔" انہوں نے شرماتے ہوئے بناوٹی غصے سے کہا، "بہت کمینے ہو تم، شرم کرو، ماں ہوں میں تمہاری۔" میں نے شرارت سے بھرے لہجے میں کہا، "اسی لیے تو کہہ رہا ہوں آپ کو کہ آپ میری ماں ہیں، اپنے بچے کی خواہش کا ذرا احساس نہیں آپ کو۔" انہوں نے چمٹا اٹھا کر ہلکا سا حقیقی غصہ دکھاتے ہوئے کہا، "چلو، دفعہ ہو جاؤ یہاں سے، اور آنے دو اپنے ابو کو، تمہاری ساری شیطانیں بتاتی ہوں انہیں۔" میں نے انہیں مزید تنگ کرنا مناسب نہیں سمجھا اور کچن سے باہر نکل کر اپنے کمرے میں آ گیا۔
میرا نام اسد ہے اور میری عمر سترہ سال ہے۔ میری امی کی عمر پینتالیس سال ہے۔ میں ان کی اکلوتی اولاد ہوں اور بہت لاڈلا بھی۔ ہمارے درمیان بہت بے تکلفی ہے۔ میں اور امی مذاق میں ایک دوسرے کے ساتھ لڑتے تھے اور پھر یہ مذاق کی لڑائی اب کسی اور ہی سمت کو جا رہی تھی۔ میں نے کمرے کا دروازہ لاک کیا اور اپنے لیپ ٹاپ پر انسیسٹ پورن لگا لی، جس میں بیٹا اپنی ماں کو چود رہا ہوتا ہے۔ میں نے ٹراؤزر سے اپنا لوہے کی طرح سخت ہوا لن باہر نکالا اور امی کو سوچ کر مٹھ مارنے لگا۔ مٹھ مارتے ہوئے میرے خیال کچھ اس طرح کے تھے کہ میں اپنی امی کو چود رہا ہوں۔ مزے سے میرا برا حال ہونے لگا۔ ابھی میں مٹھ مار ہی رہا تھا کہ باہر سے میرے کمرے کا دروازہ کھولنے کی کوشش کی گئی۔ میں نے جلدی سے لیپ ٹاپ بند کیا اور لن کو ٹراؤزر میں ڈالتے ہوئے کمرے کا دروازہ جا کر کھولا۔ آگے امی کھڑی تھیں۔ انہوں نے مجھے دیکھتے ہوئے کہا، "تمہارا منہ کیوں سرخ ہوا ہوا ہے؟" ساتھ ہی جب ان کی نظر نیچے کو گئی تو انہوں نے میرے لن کی اٹھان کو دیکھا، کچھ مزید نہ پوچھا اور مجھے کھانا کھانے کو کہتے ہوئے چلی گئیں۔ جاتے ہوئے ان کے چہرے پر گھبراہٹ کے آثار تھے۔ میں یہ سوچ کر کہ امی نے مجھے اس حالت میں دیکھ لیا ہے، کافی شرمندہ سا ہو گیا۔ جب میرا لن پوری طرح ٹراؤزر کے اندر بیٹھ گیا تو میں کھانا کھانے کمرے سے باہر نکلا۔ ڈائننگ روم میں میں اور امی بیٹھے کھانا کھا رہے تھے تو امی نے مجھ سے کوئی بات نہ کی۔ میں خود بھی تھوڑا شرمندہ تھا تو میں نے بھی بات کرنے سے گریز کیا۔ کھانا کھا کر میں چپ چاپ اپنے کمرے میں آ گیا۔
میں اپنے بیڈ پر لیٹا آہستہ آہستہ سوچوں کے سمندر میں ڈوبنے لگا تو میرے ذہن میں وہ لمحہ عکس بن کر ابھرا جب امی نے ٹراؤزر کے باہر سے میرے لن کو کھڑے ہوئے سخت حالت میں دیکھا تھا۔ اس سوچ نے مزے سے میرا برا حال کر دیا۔ اب تو مزہ اس لیے آیا کہ امی تھوڑا میرے سامنے تھیں، اب تو میں تھا اور میری گندی سوچوں والی تنہائی تھی۔ میں نے سوچا کہ امی کیا سوچ رہی ہوں گی ابھی میرے بارے میں کہ اسد نے کیا اپنا لن سخت کیا ہوا تھا، آخر کیا سوچ کر اس نے اپنا لن سخت کیا ہوا تھا؟ ایسی گندی گندی سوچیں سوچ کر میرے لن کی سختی میں مزید اضافہ ہونے لگا۔ میں نے لن کو پھر سے ٹراؤزر سے باہر نکال کر امی کا سوچ کر مٹھ مارنے لگا۔ یہ امی کے بارے میں میری گندی سوچیں کوئی آج کا کام نہیں تھیں، میں تو ازلی انسیسٹ تھا۔ میرے ذہن میں اپنی کہی وہ بات آئی جب میں امی کو کہہ رہا تھا کہ میری گود میں بیٹھیں۔ اُف، کتنی گندی بات بول دی تھی میں نے انہیں۔ میں نے مٹھ مارتے ہوئے دوسرے ہاتھ سے اپنا موبائل اٹھایا اور تیز سانسوں کو سنبھالتے ہوئے امی کو میسج کیا: "سوری امی۔" تھوڑے سے انتظار کے بعد ان کا رپلائی آیا، "کس بات کے لیے سوری؟" میں نے رپلائی کیا، "وہ جو میری نیچے سے حالت تھی اس کے لیے۔" ان کا تھوڑی دیر بعد غصے والا رپلائی آیا، "بکو مت۔" میں مٹھ مارتے ہوئے کچھ اس طرح مزے میں تھا کہ مجھ پر صرف مزا حاوی تھا اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کام ہی نہیں کر رہی تھی۔ میں نے پھر ٹیکسٹ کیا، "آئیں نہ میرے کمرے میں۔" انہوں نے رپلائی کیا، "کیوں جی؟" میں نے کہا، "میری گود میں بیٹھنے کے لیے۔" انہوں نے غصے والا ایموجی بھیجا۔ اتنے میں مجھ سے اور سہا نہ گیا اور میں ڈسچارج ہو گیا۔ ابھی میں اپنی سپرم ٹشو سے صاف کر ہی رہا تھا کہ امی کا میسج آیا۔ اس بار ان کا انداز سمجھانے والا تھا، "اسد، پہلے ہم مذاق میں لڑتے تھے، پھر آہستہ آہستہ یہ مذاق اتنا زیادہ ہونے لگا کہ آج بات یہاں تک آ گئی ہے کہ تم مجھ سے بری بری باتیں کرنے لگے ہو۔ یہ سب ٹھیک نہیں۔" میں نے کچھ سوچتے ہوئے رپلائی کیا، "پر ہم دوست ہیں نہ؟" ان کا جواب آیا، "ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے، ایسی دوستی کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ نیکسٹ ٹائم مجھے شکایت کا موقع نہ ملے۔" تھوڑی دیر بعد ان کا دوبارہ میسج آیا، "شام کو تمہارے چاچو آ رہے ہیں ابو سے ملنے، تو کمرے میں مت گھسے رہنا۔"
جب شام کو چاچو آئے تو ہم سب ان کے پاس بیٹھے باتیں کر رہے تھے کہ کسی بات پر چاچو اور ابو میں سخت کلامی ہو گئی۔ بات ابھی چاچو اور ابو کے درمیان ہو رہی تھی کہ امی بیچ میں بول پڑیں اور انہوں نے بھی چاچو کو کھری کھری سنا دیں۔ چاچو امی کے بیچ میں بولنے پر خاموش ہو گئے اور ہمارے گھر سے چلے گئے۔ ابو تب کچھ نہیں بولے، پر جب رات کو میں اپنے کمرے میں تھا اور سلیپنگ ٹراؤزر اور ٹی شرٹ پہن کر سونے کی تیاری کر رہا تھا تو مجھے امی کے کمرے سے امی کی چیخوں کی آواز سنائی دی۔ میں بھاگتا ہوا ان کے کمرے کے دروازے تک پہنچا اور زور سے دروازہ کھولا تو اندر کا منظر ہی عجیب تھا۔ ابو آئرن راڈ سے امی کو مار رہے تھے اور کہہ رہے تھے، "وہ معاملہ میرے اور میرے بھائی کے درمیان تھا، تم کیوں بیچ میں بولیں؟" امی چیخ رہی تھیں اور ساتھ میں رو رہی تھیں۔ میں بڑی مشکل سے امی کو ابو سے بچا کر اپنے کمرے میں لایا۔ اپنے کمرے کا دروازہ بند کرتے ہوئے میں نے امی کو اپنے بیڈ پر بیٹھایا اور خود ان کے ساتھ بیٹھتے ہوئے انہیں سینے سے لگا لیا۔ امی ابھی بھی ہچکیاں لے کر رو رہی تھیں۔ ان کے آنسو تھے کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔ میں نے ان کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا، "بس امی، چپ کر جائیں پلیز۔" میں نے بڑی مشکل سے انہیں چپ کروایا اور انہیں اپنے بیڈ پر لٹا دیا۔ میں نے کمرے کی لائٹ آف کی اور زیرو پاور کا بلب آن کرتے ہوئے امی کے ساتھ آ کر بیڈ پر لیٹ گیا۔ ابھی بھی تھوڑی تھوڑی دیر بعد امی کی ہچکیوں کی آواز میرے کانوں سے ٹکراتی۔ میں نے اپنا ایک ہاتھ ان کے سر پر رکھ دیا اور انگلیوں سے ان کے بال سہلانے لگا۔ ایسے ہی پتا نہ چلا اور مجھے نیند آ گئی اور میں سو گیا۔
دیر رات امی نے مجھے جھنجھوڑ کر اٹھایا۔ میں اٹھ کر بیڈ پر بیٹھ گیا اور سوالیہ انداز میں انہیں دیکھنے لگا۔ انہوں نے میری ایک کھلی سی ٹی شرٹ اور کھلا سا ٹراؤزر پہن رکھا تھا اور ان کے ہاتھ میں تیل کی بوتل تھی۔ انہوں نے کہا، "پلیز میری کمر اور ٹانگوں پر تیل کی مالش کر دو، بہت درد ہو رہا ہے۔" یہ کہہ کر انہوں نے بوتل مجھے دی اور وہ بیڈ کی دوسری طرف آئیں اور الٹی ہو کر بیڈ پر لیٹ گئیں۔ میں گھٹنوں کے بل ان کے پاس آیا اور کمر پر سے تھوڑا سا شرٹ کو اوپر کیا۔ ان کے سفید جسم پر آئرن راڈ لگنے کی وجہ سے سرخ سرخ نشان بنے ہوئے تھے، جنہیں دیکھ کر میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ میں نے تھوڑا سا تیل لیا اور اسے دونوں ہاتھوں پر لگا کر آہستہ آہستہ ان کی کمر کی مالش شروع کر دی۔ میرے ہاتھوں نے جونہی ان کی کمر کو چھوا تو ان کے درد سے سسکی سی نکل گئی۔ آنکھوں میں آنسو لے کر میں نے غصے سے کہا، "ابو بہت برے ہیں۔" امی نے ایک لمحے سے بھی کم وقت میں جواب دیا، "ایسا نہیں کہتے، وہ تمہارے ابو ہیں، خبردار ان کے بارے میں کچھ غلط کہا۔" میں پھر خاموش ہو گیا۔
ان کی کمر کی مالش کے بعد میں ان کے پاؤں والی سائیڈ پر آ کر بیٹھ گیا اور ان کے ٹراؤزر کو گھٹنوں تک اوپر کر دیا۔ ان کی سفید ٹانگوں پر بھی سرخ نشان جگہ جگہ تھے۔ میں نے ہلکے ہاتھوں سے ان کی ٹانگوں کی بھی مالش شروع کر دی۔ اب کی بار بھی ان کے درد سے بھری سسکیاں بلند ہوئیں۔ کافی دیر میں یوں ہی ان کی ٹانگوں کی مالش کرتا رہا تو انہوں نے مجھے کہا، "پلیز تھوڑا رانوں پر بھی مالش کر دو، بہت درد ہے وہاں بھی۔" میں نے اس کھلے سے ٹراؤزر کو ان کی رانوں سے بھی اور اوپر کر دیا۔ میں نے اپنے دونوں ہاتھوں پر تیل لگا کر ان کی رانوں پر رکھے اور نیچے سے اوپر یعنی رانوں تک ان کی مالش کرنے لگا۔ ایسے مالش کرتے کرتے میں ان کی رانوں کو دیکھے جا رہا تھا کہ مجھے ان کی نرم بھری بھری رانوں کو مالش کرنے میں مزہ آنے لگا، اور اس مزے کی حالت میں میرا لن سخت ہونے لگا۔ مزہ آہستہ آہستہ اس طرح مجھ پر سوار ہونے لگا کہ میں نے اپنے ہاتھوں کو رانوں سے تھوڑا اوپر کی جانب بڑھانا شروع کر دیا۔ پھر آہستہ آہستہ میرے دونوں ہاتھ پورے کے پورے امی کی گانڈ پر مالش کرنے لگے۔ درد میں ڈوبی سسکیاں سی نکلیں ان کے منہ سے، شاید گانڈ پر بھی انہیں آئرن راڈ سے ابو نے مارا تھا۔ اچانک امی بولیں، "بیٹا، بس کر دو اب۔" میں مزے میں ڈوبا بولا، "کرنے دیں نہ مالش امی، آرام ملے گا آپ کو۔" پھر وہ خاموش ہو گئیں۔
میں اپنے مضبوط ہاتھوں سے ان کی نرم گانڈ کی مالش کرتا رہا اور پھر میں نے آہستہ آہستہ سے مالش کرتے ہوئے اپنے انگوٹھوں کو ان کی گانڈ کی دراڑ میں ڈالا اور ان کی گانڈ کی دراڑ کی مالش بھی شروع کر دی۔ امی نے لیٹے لیٹے اپنی گانڈ ہلکی سی ہلائی۔ میرا لن خوشی سے پگھل گیا تھا۔ اب میں نے مالش کو چھوڑ کر اپنے دونوں انگوٹھوں کو ان کی گانڈ کے سوراخ پر رگڑنا شروع کر دیا۔ میرے دونوں انگوٹھے ان کی گانڈ کی دراڑ میں ہونے کی وجہ سے ان کی گانڈ اور چوڑی ہو چکی تھی۔ ایک آوارہ پن اور دیوانگی سی مجھ پر طاری ہو چکی تھی۔ میں نے اس آوارگی کے عالم میں اپنے دونوں ہاتھ باہر نکالے اور امی کے ٹراؤزر کو آہستگی سے ان کی گانڈ سے ہٹاتے ہوئے ان کی ٹانگوں سے جدا کر دیا۔ اب امی کمر سے لے کر پاؤں تک میرے سامنے ننگی تھیں۔ میں نے ان کی بھاری بھرکم گانڈ کو آگے جھک کر چومنا شروع کیا اور اتنے میں وہ بولیں، "اسد، مت کرو ایسے، آج تمہیں سمجھایا بھی تھا۔" ان کی آواز لذت میں ڈوبی ڈوبی سی محسوس ہوئی مجھے۔ میں نے پیچھے ہوتے ہوئے اپنا ٹراؤزر اور شرٹ اتاری اور ننگا ہو گیا۔ میرے لن نے خوابوں میں بھی یہ منظر کب دیکھا ہوگا۔
میں نے آگے بڑھ کر اپنی سائیڈ کا سرہانہ اٹھا کر امی کے پیٹ کے نیچے ایڈجسٹ کیا۔ اس سے ان کی گانڈ تھوڑا اوپر کو اٹھ گئی اور ان کی پھدی مجھے نظر آنے لگی۔ میں نے نیچے یعنی امی کے اوپر جھک کر اپنے ہاتھوں سے ان کی کمر کو پکڑا اور اپنا لن ان کی پھدی پر لگایا۔ ان کی پھدی بے پناہ گیلی ہو چکی تھی۔ امی نے پھر ہلکے سے اپنی گانڈ کو ہلایا۔ میں نے ایک ہلکا سا دھکا مارا اپنے لن کا ان کی پھدی پر تو میرا مضبوط موٹا لن ان کی پھدی میں آدھا اندر تک چلا گیا۔ بے اختیار امی کے منہ سے نکلا، "ہائے اسد، کیا کر رہے ہو پاگل؟" میرے منہ سے بھی سرور میں ڈوبی سسکیاں سی نکلنے لگیں اور پھر میں نے دوسرا دھکا مارا، جس سے میرا لن امی کی گیلی پھدی میں تھوڑا اور اندر تک چلا گیا۔ امی کے منہ سے پھر لذت سے بھرے لفظ نکلے، "اف آہ، بس کر دو بیٹا۔" پر اب بس کرنے کا وقت ہی کہاں رہا تھا میرے پاس۔ میں نے اب اپنے لوہے کے راڈ کی طرح سخت ہوئے لن کو امی کی پھدی میں اندر باہر کرنا شروع کر دیا۔ بڑی تیزی سے میرا لن باہر کو آتا اور میں امی کی کمر پر اپنی گرفت کو مضبوط کر کے بڑے زور کا جھٹکا دیتا، جس سے میرا لن ان کی پھدی کی مزید گہرائیوں تک اترتا چلا جاتا۔ ان کی اور میری لذت اور سرور سے بھری سسکیاں کمرے کے ماحول کو خوب نشیلا کر رہی تھیں۔ میرے ہر دھکے پر ان کی موٹی چوڑی گانڈ بڑے زور سے ہلتی۔ پھر اچانک ان کی پھدی نے میرے لن پر پانی گرانا شروع کیا، جس سے میرا لن مزید گرم ہو گیا۔ میں سہہ نہ پایا اور میں بھی ان کے ساتھ ساتھ ڈسچارج ہونے لگا۔ ڈسچارج ہوتے ہوئے میں نے ان سے کہا، "پلیز امی، میرے لن کو دبائیں اپنی پھدی سے۔" امی نے اپنی پھدی کا پانی میرے لن پر گراتے ہوئے ساتھ ساتھ میرے لن کو اپنی پھدی سے سہی دبایا، جس سے میرا مضبوط لن اور مزے لے لے کر ان کی پھدی میں فارغ ہوا۔ میں فارغ ہو کر امی کے اوپر گر گیا اور تیز تیز سانسیں لیتے ہوئے بولا، "امی، ابو کو کہیں کہ وہ روز آپ کو مارا کریں۔" میری یہ بات سن کر وہ منہ پیچھے موڑ کر مجھے دیکھ کر مسکرانے لگیں۔

ایک تبصرہ شائع کریں (0)
جدید تر اس سے پرانی