شوہر سے طلاق کے بعد میں اپنی بیٹی کے ساتھ نارمل زندگی گزارنے لگی ، میں نے ایک آفنس جوائن کرلیا اور بیٹی اسکول میں داخل ہوگئی ، میں بھرپور جوان اور خوبصورت تھی ، چدائی اور لن کے لیے میری ٹرپ بڑھتی جاری تھی ، آفس میں سب مرد مجھ پر لائن مارتے تھے ، مگر میں ہر کسی پر اعتماد نہیں کرسکتی تھی ، تب ہی میری دوستی وہاں ایک پٹھان چوکیدار لڑکے سے ہوگئی۔ وہ میری بہت عزت کرتا تھا، مجھے بھی وہ بہت اچھا لگتا تھا، دھیرے دھیرے میں اس سے چدوانے کے لیے بے چین ہونے لگی ۔وہ بھی سمجھ گیا تھا کہ میں چدائی کے لیے کتنی تڑپ رہی ہوں ۔ ایک دن میں نے اسے اپنے گھر چدائی کے لیے بلایا۔ وہ آتے ہی اپنا لن نکال لایا۔ اف، اتنا بڑا تھا، کم از کم آٹھ انچ لمبا اور تین انچ موٹا ڈایا تھا۔ اس نے میری چدائی میں ذرا دیر نہ کی اور لن چوت میں ڈال دیا۔ اس کے بعد وہ رکا نہیں، بلکہ اس کے جھٹکوں میں تیزی آتی گئی اور میرے منہ سے نکلنے والی آوازوں میں تکلیف کی جگہ مزہ شامل ہوتا گیا۔ میری آوازوں کے ساتھ اس کے جھٹکوں میں مزید تیزی آجاتی۔ وہ ایک بار لن ٹوپے تک باہر نکالتا اور پھر پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ اندر دھکیل دیتا۔ یوں ہی دس منٹ گزرے ہوں گے کہ میری ناف کی جگہ سخت ہونے لگی اور میں نے اپنی ٹانگیں اس کے کندھوں سے اتار کر اس کی کمر کے گرد لپیٹ لیں۔
چند لمحوں بعد میرے جسم نے ایک جھٹکا لیا اور پھر میں ڈھیلی ہوگئی۔ میرا جسم ٹھنڈا پڑ گیا، لیکن اس کے جھٹکوں میں ذرا سی بھی کمی نہ آئی۔ وہ چدائی لگائے جا رہا تھا۔ میری طرف سے رسپانس بھی نہ رہا تھا، جس پر وہ رک گیا اور مسکراتے ہوئے کہنے لگا، "میڈم جی، بس ابھی تو آپ کو بہت لمبا سفر طے کرنا ہے۔" میں نے اپنی آنکھیں کھولیں اور اس سے کہا، "چند منٹ صبر کرو۔" تو وہ میرے اوپر ہی لیٹ گیا۔ اس کے لن میں ابھی بھی وہی گرمی تھی، وہ ابھی بھی لوہے کی گرم سلاخ جیسا تھا۔ پانچ منٹ بعد میں پھر تیار ہونے لگی اور اپنی ٹانگوں کو اس کے گرد سخت کرنے لگی۔ تو وہ اٹھ کر بیٹھ گیا اور اپنے لن کو ایک بار پھر باہر نکالا اور بیڈ شیٹ سے صاف کیا۔
میں نے بھی اپنی پھدی کو بیڈ شیٹ سے صاف کیا۔ اس نے فوراً اپنا لن میری پھدی کے دھانے پر فٹ کیا اور پھر سے جھٹکے دینا شروع کر دیے۔ میں سمجھ رہی تھی کہ اب چند منٹ میں وہ چھوٹ جائے گا، مگر یہ میری غلط فہمی تھی۔ میں دو بار مزید چھوٹی، مگر اس کے مکمل ہونے کے دور دور تک کوئی امکانات نہ تھے۔ میں نے اس سے کہا کہ اب پوزیشن چینج کرتے ہیں۔ تو وہ میرے اندر سے نکل گیا۔ اس نے مجھے بیڈ کے نیچے گھوڑی کی طرح کھڑا کیا اور میرے دونوں ہاتھ بیڈ کے اوپر رکھ کر پیچھے سے میری پھدی میں لن ڈال دیا۔ اب میرے ممے اس کے ہاتھوں میں تھے۔ جیسے ہی وہ جھٹکا دیتا اور پورا لن اندر کرتا، اس کے ساتھ ہی میرے مموں پر اس کی پکڑ سخت ہوجاتی اور لن باہر نکلنے پر وہ مموں کو ڈھیلا چھوڑ دیتا۔ اس کا جھٹکا اتنا زبردست ہوتا کہ لن میرے اندر جا کر کلیجے سے ٹکراتا اور میں آگے گرنے لگتی۔
لیکن اس نے مجھے پکڑ رکھا ہوتا تھا، جس کی وجہ سے میں نہ گرتی۔ کبھی کبھار وہ میرے مموں کو چھوڑ کر چند لمحوں کے لیے جھٹکے نرم کرتا اور ایک ہاتھ سے میرے ایک چوتڑ پر تھپڑ رسید کرتا، جس سے ایک سیکسی آواز پیدا ہوتی اور میری تڑپ، جو کم ہو رہی ہوتی، پھر سے بڑھ جاتی۔ پھر دوسرے ہاتھ سے دوسرے چوتڑ کو تھپڑ مارتا اور پھر مموں کو پکڑ کر جھٹکے تیز کر دیتا۔ اس دوران کم از کم میں دو بار فارغ ہوگئی، جبکہ پہلے والے سٹائل میں بھی میں ایک بار چھوٹ چکی تھی۔
اب مجھ میں مزید جھٹکے برداشت کرنے کی ہمت نہ رہی، لیکن میں پھر بھی اس کا ساتھ دیتی رہی۔ شاباش ہے اس نوجوان پر، وہ ایک گرتی پڑتی عورت کو اپنے ساتھ لے کر چل رہا تھا اور برابر چدائی لگا رہا تھا۔ پھر اس نے چدائی کرتے کرتے اچانک اپنا پورا لن باہر نکال لیا۔ میں سمجھی شاید وہ فارغ ہونے والا ہے۔ میں نے اس سے کہا کہ اندر ہی چھوٹ جاؤ۔ تو وہ مسکراتے ہوئے کہنے لگا، "میڈم، ابھی کہاں؟ میں تو پوزیشن چینج کرنے لگا ہوں۔ ابھی تک میں ہی مشقت کر رہا ہوں، اب تھوڑی سی محنت آپ بھی کر لیں۔" اس کے بعد وہ بیڈ پر لیٹ گیا اور مجھے اپنے اوپر آنے کو کہا۔ میں جو پہلے ہی تھک کر چور ہو چکی تھی، اس کے کہنے پر چدائی لگوانے اس کے اوپر چڑھ گئی۔
میں نے چدائی کے لیے اپنی ٹانگیں اس کے ادھر ادھر رکھیں اور اس کا لن اپنے اندر لیا۔ جیسے ہی میں اس کے اوپر بیٹھی، اس کا لن پورا کا پورا میرے اندر چلا گیا۔ میں نے دو تین بار اسے اندر باہر کیا تو نڈھال ہو کر اس کے اوپر گر گئی۔ وہ ہنستے ہوئے کہنے لگا، "کیا ہوا؟" میں نے اس سے کہا کہ اب مجھ میں چدائی کی ہمت نہیں ہے۔ اس نے کہا، "ٹھیک ہے، آپ اتر جائیں، تھوڑی دیر بعد کر لیں گے۔" میں اس کے اوپر سے نیچے اتری اور اس کے کندھے پر سر رکھ کر اس کے سینے کے بالوں سے کھیلنے لگی۔ چند منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ مجھے نیند آگئی۔ پھر میری آنکھ اس وقت کھلی جب اس نے مجھے بازو سے پکڑ کر جھنجھوڑا اور کہا، "میڈم، اگر سونا ہی ہے تو مجھے کیوں بلایا تھا؟"
میں نے اس کے لن کو دیکھا، وہ ابھی تک کسی شیش ناگ کی طرح پھنکار رہا تھا۔ میں نے اسے پکڑا تو وہ پتھر کی طرح سخت اور لوہے کی طرح گرم تھا۔ اچانک وہ کہنے لگا، "میڈم، آپ کے پیچھے کے راستے سے کیا خیال ہے؟" میں نے اس کی بات سنی تو انکار کر دیا (اس سے پہلے میں نے پیچھے کے راستے کبھی نہیں کیا تھا)۔ اس نے اصرار کیا تو میں مان گئی۔ اس نے مجھے تیل یا کوئی لوشن لانے کو کہا۔ میں باتھ روم گئی اور تیل کی شیشی اٹھا لائی اور اسے تھما دی۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ یہ چدائی ایک مصیبت بن جائے گی۔ اس نے ایک بار پھر مجھے بیڈ کے ساتھ گھوڑی سٹائل میں کھڑا کیا اور میرے ہاتھ بیڈ پر رکھوا دیے۔ اس نے تیل کی شیشی کھولی۔
اس نے میرے گانڈ پر کافی سارا تیل ملا، پھر اپنے لن کے ٹوپے پر بھی تیل لگایا اور ایک انگلی میری گانڈ میں ڈال دی۔ مجھے تکلیف ہوئی اور میں جھٹکے کے ساتھ سیدھی ہوگئی۔ اس کی انگلی میری گانڈ سے باہر نکل آئی۔ وہ کہنے لگا، "میڈم، اس میں بہت تکلیف ہوگی، لیکن پھر مزہ بھی بہت آئے گا۔ اگر آپ تکلیف برداشت کر لیں گی تو میں کرتا ہوں، ورنہ نہیں کرتا۔" میں چپ چاپ پھر اسی سٹائل میں ہوگئی۔ اس نے اپنے لن کا ٹوپا میری گانڈ پر رکھا اور ایک ہاتھ سے میرا منہ پکڑ لیا، جبکہ دوسرا ہاتھ میرے پیٹ کے گرد کس لیا اور ایک زور دار جھٹکا دیا۔
مجھے ایسے لگا جیسے میری گانڈ کسی نے چیر دی ہو۔ میرے منہ سے چیخ بھی نکلی، لیکن اس کا ہاتھ میرے منہ پر تھا، جس کی وجہ سے آواز نہ نکل سکی۔ میں نے اس سے خود کو چھڑانے کی کوشش کی، لیکن اس نے ایک اور جھٹکا دیا۔ اس کا لن مزید تھوڑا سا اندر چلا گیا۔ میں تکلیف کے باعث مرنے والی ہوگئی۔ میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا آگیا۔ اگر اس نے مجھے پکڑا نہ ہوتا تو میں منہ کے بل گر جاتی۔ مجھے اندازہ تھا کہ ابھی اس کا پورا لن میرے اندر نہیں گیا تھا۔ ابھی پہلے جھٹکے سے نہیں سنبھلی تھی کہ اس نے لگاتار بغیر کسی وقفے کے دو تین اور جھٹکے دیے اور پھر پیچھے سے ہی میرے ساتھ چمٹ گیا۔ میرا پورا جسم ٹھنڈا ہوگیا تھا اور مجھے اپنی گانڈ میں بری طرح تکلیف محسوس ہو رہی تھی۔ میری آنکھوں کے سامنے بدستور اندھیرا تھا کہ میرے کانوں میں اس کی آواز آئی، "میڈم، مبارک ہو، پورا لن تمہارے اندر چلا گیا۔" میں نے بولنے کی کوشش کی، لیکن حلق سے آواز ہی نہ نکلی، جیسے اس کا لن میری گانڈ میں نہیں، میرے حلق میں چلا گیا ہو۔ میں اس سے کہنا چاہتی تھی کہ مجھے ایسی مبارکباد نہیں چاہیے، تم اسے باہر نکالو، میری توبہ ایسی چدائی سے۔
ابھی میں اپنے حواس بحال نہیں کر پائی تھی کہ اس نے پیچھے سے اپنی پکڑ نرم کی اور پھر سے جھٹکے دینے لگا۔ اس کا ایک ہاتھ، جو میرے منہ پر تھا، وہ بھی میرے پیٹ کے گرد چلا گیا۔ میں اونچی آواز میں چیخنے لگی، "پلیز بس کرو، میں مر جاؤں گی۔ ہائے، ہائے، امی جی، مجھے بچاؤ، میں مر جاؤں گی، بس کرو۔" تو وہ جھٹکے دیتے ہوئے کہنے لگا، "بس میری جان، اب تھوڑا سا اور۔" اس کے ساتھ ہی اس کے جھٹکوں میں مزید تیزی آنے لگی۔ پھر اچانک وہ رک گیا اور مجھ سے کہنے لگا، "میڈم، کیا خیال ہے؟ فارغ ہو جائیں یا ابھی مزید کچھ کرنا ہے؟ چدائی جاری رکھوں؟" میں تکلیف سے کراہ رہی تھی۔ اسے کراہتے ہوئے کہا، "اب بس کرو، میں مر جاؤں گی۔" پھر اس نے چار پانچ آہستہ آہستہ جھٹکے دیے اور پھر مضبوطی سے مجھے پیچھے سے پکڑ لیا۔ مجھے اپنے اندر کوئی گرم لاوا جاتا ہوا محسوس ہوا۔ چند لمحوں بعد اس نے اپنے دونوں ہاتھ میرے پیٹ سے علیحدہ کیے اور میں دھڑام سے بیڈ پر گر گئی۔
اتنی سخت چدائی سے مجھے نہیں معلوم کیا ہو رہا ہے۔ صرف اتنا معلوم ہے کہ وہ میرے گالوں کو تھپتھپا رہا ہے اور کچھ کہہ رہا ہے، کیا کہہ رہا ہے، کوئی پتا نہیں۔ پھر اس نے میری ٹانگیں اوپر کیں اور خود بھی میرے ساتھ آکر لیٹ گیا۔ بیس پچیس منٹ ایسے ہی لیٹے رہنے کے بعد میرے حواس کسی حد تک بحال ہوئے تو میں نے دیکھا کہ رات کے تین بج رہے ہیں۔ چدائی کرا کے میری پھدی اور گانڈ دونوں مقامات پر درد ہو رہا تھا۔ گانڈ میں درد ناقابل برداشت حد تک زیادہ تھا۔ میں نے دیکھا کہ وہ بھی میرے ساتھ ننگا لیٹا ہوا ہے اور سامنے ٹی وی پر وہی بلیو فلم چل رہی ہے۔ مجھے دیکھ کر اس کے چہرے پر ایک عجیب سی مسکراہٹ آئی اور اس نے مجھے لیٹے لیٹے گلے سے لگا لیا۔
میں نے محسوس کیا کہ اس کا لن پھر سے شہوت پکڑ رہا ہے۔ میں فوراً اس سے علیحدہ ہوگئی۔ تو اس نے کہا، "کیا ہوا، میڈم؟" میں کچھ نہ بولی تو وہ مجھے پھر سے کسنگ کرنے لگا۔ اس نے کہا، "کیا خیال ہے، میڈم؟ ایک بار پھر چدائی ہو جائے؟" تو میں نے کہا، "تم اتنے بے رحم ہو، کیا مجھے مار ڈالنا چاہتے ہو؟" تو وہ مسکراتے ہوئے کہنے لگا، "نہیں، تو پھر کبھی سہی، آج چھوڑ دیتے ہیں۔" اب مجھے چائے کی طلب ہو رہی تھی۔ میں نے سوچا کہ اٹھ کر جاؤں تو مجھ سے اٹھا نہ گیا۔ اس نے مجھے سہارا دے کر اٹھایا اور کہنے لگا، "کیا کرنا ہے؟" تو میں نے اس سے کہا کہ باتھ روم اور کچن میں جانا چاہتی ہوں۔ اس نے مجھے کھڑا کر دیا۔ ابھی دو قدم بھی نہ چلی تھی کہ میری آنکھوں کے گرد پھر سے اندھیرا آگیا۔ ایک زبردست چکر آیا اور میں گرنے لگی کہ اس نے مجھے سنبھال لیا اور پکڑ کر باتھ روم لے گیا، جہاں میں نے اپنی پھدی اور گانڈ کو دھویا تو گانڈ سے لہو نکل رہا تھا، جبکہ پھدی بھی سوجی ہوئی تھی۔
میں نے سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا تو وہ مسکراتے ہوئے کہنے لگا، "پہلی بار چدائی ہوئی، اس لیے تھوڑا سا خون نکل آیا۔ پریشانی کی کوئی بات نہیں۔" خیر، اس نے مجھے پھر پکڑ کر بیڈ تک پہنچایا اور پھر ننگا ہی کچن میں چلا گیا اور دو کپ چائے لے آیا۔ اس نے مجھے سہارا دے کر اٹھایا اور تکیے کی ٹیک دے کر بٹھا دیا۔ ہم دونوں نے چائے پی اور پھر باتیں کرنے لگے۔ اب بھی مجھے اسی شدت کے ساتھ گانڈ میں درد ہو رہا تھا، جیسا کہ اس وقت جب اس کا لن میری گانڈ کے اندر تھا۔ اس کے علاوہ پھدی کے اندر بھی جلن محسوس ہو رہی تھی۔ پھر وہ پٹھان چوکیدار لڑکا بیڈ پر سیدھا لیٹ گیا اور میں سائیڈ لے کر اس کے ساتھ کندھے پر سر رکھ کر لیٹ گئی اور اس کے سینے کے بالوں کو انگلیوں سے کنگھی کرنے لگی۔
میں نوٹ کر رہی تھی کہ اس کا لن پھر کھڑا ہو گیا، لیکن اب ہم نے کچھ نہ کیا۔ صبح کے پانچ بجے اس نے اٹھ کر کپڑے پہنے اور مجھ سے اجازت لے کر چلا گیا۔ میں نے بھی کپڑے پہنے اور سو گئی۔ صبح کس وقت اٹھی، مجھے نہیں معلوم۔ میری بیٹی کو ملازمہ نے تیار کر کے سکول بھیج دیا۔ میں اٹھی تو دوپہر کے دو بج رہے تھے۔ میرا پورا جسم ٹوٹ رہا تھا۔ درد اب بھی اسی شدت کے ساتھ تھا۔ مجھے بخار بھی ہو گیا تھا۔ میں نے دیکھا کہ بیڈ شیٹ پر منی اور خون کے دھبے تھے۔ میں گرتی پڑتی اٹھی اور بیڈ شیٹ چینج کر کے پھر لیٹ گئی۔ ملازمہ نے کمرے میں ہی مجھے چائے لا کر دی۔ میں نے ایک پین کلر لی، لیکن بخار ٹوٹنے کا نام نہ لے۔ پھر ڈاکٹر کی دوائی سے میرا بخار تو ختم ہو گیا، لیکن تین روز تک میری گانڈ میں درد ہوتا رہا۔ چدائی اتنی سخت تھی، کیا بتاؤں۔
یہ درد اتنی شدید تھا کہ مجھ سے صحیح طریقے سے بیٹھا بھی نہیں جاتا تھا۔ مجھے تین روز تک پاخانہ کرنے میں بھی دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم، تین دن کے بعد میں بالکل ٹھیک ہو گئی۔ دو دن دفتر سے چھٹی لی اور پھر اگلے پانچ دن بعد ویک اینڈ تھا۔ پھر چدائی کے لیے میں نے اسی پٹھان چوکیدار لڑکے کو گھر آنے کو کہا۔ وہ پھر چدائی کرنے میرے گھر آیا اور ہم نے ایک بار پھر مزہ کیا، لیکن میں نے اس روز سے گانڈ مروانے سے توبہ کر لی۔ دوسری بار سیکس کے دوران اس نے گانڈ چدائی کی خواہش کا اظہار کیا، لیکن میں نے اپنے کانوں کو ہاتھ لگائے۔
جس پر وہ ہنسنے لگا اور اس نے پھر مجھے اس کام کے لیے نہیں کہا۔ پہلی بار سیکس کے دوران اس کی ٹائمنگ ایک گھنٹے سے زیادہ تھی، لیکن دوسری بار اس کی ٹائمنگ کم ہو کر بیس سے پچیس منٹ تک رہ گئی۔ اس حوالے سے اس نے بتایا کہ پہلی بار کی ٹائمنگ کی وجہ افیون کا استعمال تھا، لیکن وہ ہر چدائی اور سیکس کے لیے افیون استعمال نہیں کرتا۔ ابھی تک میں اس کے ساتھ تین بار سیکس کر چکی ہوں اور میری خواہش ہے کہ اس پٹھان چوکیدار لڑکے کے ساتھ میرا تعلق لانگ ٹرم کے لیے ہو۔