موٹی گانڈ والی کا دیوانہ لڑکا



 بات تھوڑی پرانی ہوچکی لیکن ایسا لگتا ہے جیسے یہ کل ہی کی بات ھو۔

میں اپنے ممی پاپا اور دادی کے ساتھ رہتا ہوں۔یہ اس واقت کی بات ہے جب فیصل آباد میں میرے ماموں کی بیٹی کی شادی تھی، جس میں شرکت کے لئے ماموں نے ہمیں بھی دعوت دی۔ میرے ماموں کی ایک ہی بیٹی ہے۔ اس لئے ان کی بیٹی کی شادی بڑی دھوم دھام سے ہورہی تھی۔ لیکن میرے لئے مسلہ یہ تھا کہ میرے بی ٹیک
کے امتحان چل رہے تھےاور میری دادی بھی بڑھاپے کی واجہ سے کمزور تھیں اس لئے نہ تو وہ جا سکتی تھیں نہ ہی میں جاسکتاتھا۔ دادی یا تو عبادات وغیرہ میں مصروف رہتیں یا بیڈ پر لیٹی خراٹے لیتی رہتی۔ اس لئے تہہ یہ ہوا کہ مجھے اور میری دادی کو سنبھالنے کئے لئے میرے تایا کی بہو کو بلایاجائے۔ شادی میں میرے تایا اور ان کی فیملی کو بھی جانا تھا کیونکہ میرے تایا میرے خالو بھی ہیں۔ میرے کزن کی شادی ایک مہینہ پہلے ہی ہوئی تھی۔چنانچہ پاپا نے کال کر کے تایا کو ساری بات بتائی ۔دوسرے دن تایا کی فیملی پہلے ہمارے گھر آئی اس کے بعد ممی، پاپا، تایا،تائی (جومیری خالابھی ہیں) اور میرے کزن ٹرین سے فیصل آباد چلے گئے ان سب کوا سٹیشن تک میں چھوڑنے گیا۔اس طرح گھر میں، میں، دادی اور بھابھی رہ گئے۔
بھابھی پانچ (5) بہنوں میں سب سے چھوٹی ہے اور اُس وقت صرف اُنیس سال کی تھی،جبکہ میرے کزن پینتیس (35) سال کے تھے۔اس بے جوڑ شادی کی واجہ بھابھی کا یتیم اور بہت غریب ہونا تھی۔ میرے کزن نہ صرف بھابھی سے عمر میں بہت بڑے تھے بلکے بے روزگار اور نشئی بھی تھے، اسی وجہ سے اُن کی کہیں شادی بھی نہیں ہو رہی تھی۔ آپ کو بتاتا چلوں کہ میرے تایا پولیس میں اسپکٹرہیں۔ اور اُنہوں نے کوئی چکرچلاکر یہ شادی کروالی۔
بھابھی نہایت ہی خوبصورت ہے۔گوراچٹا رنگ،گلابی گلاب سے گال، سرخ ہونٹ،خوبصورت نیلی آنکھیں۔۔اتنی خوبصورت کہ اگر ہاتھ لگ جائے تو میلی ہو جائے۔ میرے دل ودماغ میں ان کے لئے کبھی کوئی غالط یا گندا خیال نہیں آیا۔
خیر اُس دن جب میں سب کو اسٹیشن چھوڑ کر گھر آیا تو میں نے مزاق میں اور بھابھی کے ساتھ بے تکلفی بڑھانے کے لئے کہا ”اور سناؤبھابھی!کیسی رہی سہاگ رات اور کس طرح کٹا پچھلا مہینہ“ بھابھی نے کوئی جواب نہیں دیا بلکہ خاموشی سے کچن میں جا کر کھانا بنانے لگی۔میں نے بھی کوئی خاص توجہ نہ دی۔ اور اپنی پڑھائی میں مصروف ہو گیا۔
ویسے تو ہر انسان کو نیند اچھی لگتی ہے خاص طور پہ سٹوڈنٹس کو اُس وقت بہت نیند آتی جب وہ پڑھنا چاہ رہے ہوتے ہیں۔ لیکن میری تو بات ہی الگ ہے۔ مجھے نیند بہت آتی ہے اور ایک بار سو جاؤں تو “گدھے، گھوڑے” بیچ کر سو جاتا ہوں۔ یوں سمجھ لیں کہ نیند مجھے ایسی پیاری ہے جیسے نشائی کو نشہ پیارا ہوتا ہے۔
رات کو میں نے بھابھی سے کہا کے ”بھابھی جلدی کہانا دیں،مجھے نیند آرہی ہے۔“ بھابھی نے مجھے کھانا دیا۔کھانا کھانے کے بعد میں بھابھی کے لئے بسترلگائے بغیر ہی اپنے کمرے میں جا کر سو گیا۔رات کے کسی پہر میری آنکھ کھُلی تو مجھے ایسا لگا جیسےکوئی اور بھی میرے ساتھ میرے بستر میں لیٹا ہوا ہے۔ میں فوراً اٹھا اور لائٹ جلا کر دیکھا تو بھابھی میرے بیڈ پہ لیٹی ہوئی تھی۔ ویسے تو بھابھی میرے ممی پاپا کے کمرے بھی سو سکتی تھی۔

لیکن شعوری یا لاشعوری طور پہ وہ میرے ہی کمرے میں آکر میرے ساتھ سو گئی۔اس کی وجہ اُن کا ڈر تھا یا پھر میرے ساتھ سیکس کرنے کی اُن کے دل میں شعوری یا لاشعوری خواہش اس بارے میں مجھے کچھ اندازہ نہیں۔
خیر تو دوستو!میں بتا رہا تھا کہ میں نے بھابھی کو میرے بیڈ پر سویا ہوا دیکھا۔بھابھی کی ویسے ہی خوبصورتی کیا کم تھی جو ان کا خوابدیدہ حسن مجھے گھائل کرنے کے لئے تیار کھڑا تھا۔ میری نیند تو ایسے اُڑ گئی جیسے مجھے نہ کبھی نیندآئی تھی نہ کبھی آئے گی۔اُن کے چہرے پہ بلا کی معصومیت تھی۔ لیکن جیسے ہی میری نظر اُن کے چہرے سے نیچے اُن کے خوبصورت سنگتروں جیسے مموں پہ پڑی میرے پسٹن میں ایک بجلی کی لہر سی دوڑ گئی اور میرا پسٹن سیکنڈ کے سوویں حصے میں تن گیا۔اس بات کے ڈر سے کے کہیں بھابھی جاگ نہ جائیں میں نے فوراً لائٹ بند کر دی۔
ویسے تو میں بہت شریف (ڈرپوک) لڑکا ہوں۔ میں نے کہیں پڑھا تھا کہ ڈرپوک انسان شریف ہوتا ہے۔ کیونکہ ڈرپوک انسان میں کوئی غلط کام کرنے کی ہمت نہیں ہوتی اس لئے وہ شریف بن جاتا ہے۔ اندر سے اُس کا بھی دل کرتا ہے وہ سب کام کرنے کا جو اور لوگ کرتے ہیں۔ لیکن بھابھی کا خوابدیدہ حسن دیکھنے کے بعد میری شرافت اور ڈر بھی بھابھی کے لئے میرے دماغ سے غلط اور گندے خیالات نہ نکال سکی۔

ایک تبصرہ شائع کریں (0)
جدید تر اس سے پرانی