رات گہری ہو چکی تھی اور آسمان سے موسلا دھار بارش برس رہی تھی۔ شہر کی روشنیاں پیچھے رہ گئی تھیں اور ہم ایک ویران سڑک پر سفر کر رہے تھے۔ میرے شوہر گاڑی چلا رہے تھے، لیکن بارش اتنی تیز تھی کہ سڑک بمشکل نظر آ رہی تھی۔ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ سردی بڑھتی جا رہی تھی اور میں نے محسوس کیا کہ میرا لباس، جو بارش میں مکمل طور پر بھیگ چکا تھا، میرے جسم سے چپک گیا ہے۔ کپڑوں کے شفاف ہونے کی وجہ سے میری گوری رنگت اور بھی نمایاں ہو رہی تھی، جس سے مجھے ایک عجیب سی بے چینی محسوس ہو رہی تھی۔
ہم نے کئی کلومیٹر کا سفر طے کر لیا تھا، لیکن بارش تھمنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ اچانک ہماری گاڑی میں کوئی خرابی پیدا ہو گئی اور وہ سڑک کے بیچ میں رک گئی۔ میرے شوہر نے گاڑی کو دوبارہ سٹارٹ کرنے کی بہت کوشش کی، لیکن سب بیکار۔ ہم دونوں پریشان ہو گئے کیونکہ اس ویران جگہ پر رات کے اس پہر مدد ملنا مشکل تھا۔ سردی کی شدت بڑھتی جا رہی تھی اور ہم دونوں کانپ رہے تھے۔
کچھ دیر بعد، دور سے ایک ٹرک کی ہیڈلائٹس نظر آئیں۔ ہمیں امید کی ایک کرن نظر آئی۔ جب ٹرک قریب آیا، تو میرے شوہر نے اسے لفٹ کے لیے اشارہ کیا۔ ٹرک رکا، اور اس میں سے دو آدمی اترے—ایک ڈرائیور اور اس کا ہیلپر۔ دونوں کی شکلیں کچھ ایسی تھیں کہ دل میں ایک انجانا خوف پیدا ہوا۔ ڈرائیور نے مجھے سر سے پاؤں تک غور سے دیکھا، جس سے مجھے شدید شرمندگی محسوس ہوئی۔ میں نے نظریں جھکا لیں۔
"کیا آپ ہمیں آگے تک چھوڑ دیں گے؟" میرے شوہر نے ڈرائیور سے پوچھا۔
"ہاں،" ڈرائیور نے ایک مختصر جواب دیا۔ اس کی آواز میں ایک عجیب سی سختی تھی جو مجھے مزید خوفزدہ کر گئی۔
پھر میں اور میرے شوہر ٹرک کے اندر آ گئے۔ میں پیچھے کی سیٹ پر بیٹھ گئی جبکہ میرے شوہر آگے ڈرائیور کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھے۔ میرے برابر میں ہیلپر بیٹھا تھا، جس کی نظریں مسلسل مجھ پر جمی ہوئی تھیں۔ میں نے اسے نظر انداز کرنے کی پوری کوشش کی، لیکن اس کی گھورتی ہوئی نظریں مجھے بے چین کر رہی تھیں۔
بارش میں بھیگنے کی وجہ سے میرے شوہر کو شدید ٹھنڈ لگ رہی تھی اور وہ کانپ رہے تھے۔ ڈرائیور نے ایک چھوٹی سی بوتل نکالی جس میں دیسی شراب تھی۔ "تھوڑی سی پی لیجیے صاحب،" ڈرائیور نے کہا، "اس سے آپ کو ٹھنڈ میں گرمی محسوس ہوگی ورنہ آپ کی طبیعت خراب ہو سکتی ہے۔"
میرے شوہر نے پہلے ہچکچاہٹ محسوس کی، لیکن سردی کی شدت نے انہیں مجبور کر دیا۔ انہوں نے ایک ہی جھٹکے میں پوری بوتل پی لی۔ انہیں واقعی بہت ٹھنڈ لگ رہی تھی۔ شراب پیتے ہی ان پر غنودگی طاری ہونے لگی۔
ادھر، میرے برابر بیٹھا ہیلپر میرے قریب آ گیا۔ اس نے صرف ایک لنگی پہن رکھی تھی اور اس کا بالائی جسم برہنہ تھا۔ اس کے جسم کی گرمی میرے بھیگے ہوئے لباس سے ٹکرا رہی تھی۔ کچھ ہی دیر بعد، میرے شوہر گہری نیند سو چکے تھے۔ میں نے انہیں بلایا، لیکن وہ نشے میں دھت تھے اور کوئی جواب نہیں دیا۔
میرے برابر بیٹھے آدمی نے اپنا ہاتھ میری ننگی پیٹھ پر رکھا اور اسے آہستہ آہستہ سہلانے لگا۔ ایک لمحے کے لیے تو میں سکتے میں آ گئی، لیکن پھر میں نے ہمت کر کے اس کا ہاتھ ہٹایا۔ وہ مسکرایا اور دوبارہ اپنا ہاتھ میری پیٹھ پر رکھ دیا۔ مجھے سردی لگ رہی تھی، اور اس کے ہاتھوں کی گرمی مجھے عجیب سی راحت دے رہی تھی، لیکن اس کے ساتھ ہی ایک گہرا خوف بھی تھا۔ میں ڈر کے مارے کچھ کہہ بھی نہیں پا رہی تھی، اور میری خاموشی نے اس کی ہمت اور بڑھا دی تھی۔
اس نے اپنا ہاتھ پیچھے سے میری کمر پر رکھا اور ہلکے سے دبانے لگا۔ میرے پورے جسم میں ایک عجیب سا کرنٹ دوڑ گیا۔ میں نے اس کا ہاتھ ہٹانے کی بھرپور کوشش کی، لیکن میرے بازوؤں میں جیسے کوئی زور ہی نہیں تھا۔ پھر اس نے ایک ہاتھ میرے پیٹ پر رکھا اور میری ناف پر انگلی پھیرنے لگا۔ اب میرے منہ سے بے اختیار ایک دبی ہوئی آہ نکل گئی۔
میں نے ہمت کر کے کہا، "مجھے چھوڑ دو ورنہ میں چلاؤں گی!"
تبھی ڈرائیور نے ایک چھری نکال کر میرے شوہر کی گردن پر رکھ دی اور ایک سرد لہجے میں بولا، "اگر تم نے آواز نکالی تو تمہارے شوہر کو یہیں مار کر پھینک دیں گے۔"
میں ڈر کے مارے کانپنے لگی اور کچھ نہیں بولی۔ میری آنکھوں میں آنسو آ گئے، لیکن میں بے بس تھی۔ اس آدمی نے مجھے اپنی طرف کھینچ لیا اور میری ننگی پیٹھ پر بوسہ دینا شروع کر دیا۔ اس کی زبان میری جلد پر پھر رہی تھی، اور مجھے ایک عجیب سی کیفیت محسوس ہو رہی تھی۔ خوف اور بے بسی کے ساتھ ایک انجانا احساس بھی مجھے گھیر رہا تھا۔
پھر اس نے میری گردن پر بوسہ دینا شروع کیا اور ایک ہاتھ سے میری چھاتی دبانے لگا۔ اب میں دھیرے دھیرے گرم ہونے لگی تھی۔ یہ میری زندگی میں پہلی بار تھا کہ کوئی غیر مرد میرے جسم کے ساتھ اس طرح پیش آ رہا تھا۔ میرے ذہن میں ایک عجیب سی کشمکش چل رہی تھی۔ ایک طرف خوف تھا اور دوسری طرف ایک انجانا احساس جو مجھے اپنی لپیٹ میں لے رہا تھا۔
میں نے سوچا، "کیوں نہ آج خود کو کسی اور کے حوالے کر دوں؟" بھیگنے کی وجہ سے مجھے ٹھنڈ لگ رہی تھی، اور اس کے لمس سے مجھے ایک عجیب سی گرمی اور مزہ آ رہا تھا۔ اب اس نے میری ساڑی کا پلو آہستہ سے سرکا دیا اور میری گوری اور بھاری چھاتیوں کو دیکھنے لگا۔
میری آدھی چھاتیاں اس کے سامنے تھیں۔ اس نے اپنی زبان سے میرے کلیویج کو چاٹنا اور چومنا شروع کر دیا۔ اس کی حرکتیں تیز ہوتی جا رہی تھیں اور میں مزید بے قابو ہوتی جا رہی تھی۔ اب وہ میرے گلے تک پہنچ گیا اور مجھے چومنے لگا۔
پھر اس نے اپنے دونوں ہاتھوں سے میری چھاتیاں دبانا شروع کر دیں، اور اس کے ہونٹ کبھی میری گردن اور کبھی گالوں پر بوسے دے رہے تھے۔ اس نے باتوں میں مجھے مصروف کر لیا، اور اب اس کا برہنہ بدن میرے بھیگے ہوئے جسم سے پوری طرح چپک گیا تھا۔ مجھے ایک عجیب سا لطف آ رہا تھا۔ اس نے پیچھے سے میرے بلاؤز کی ڈوری کھول دی اور میرے بلاؤز کو اتار کر نیچے پھینک دیا۔ اب میرے سینے اس کے سامنے مکمل طور پر برہنہ تھے۔
اس نے اپنی زبان سے میرے نپلوں کو چاٹنا شروع کر دیا اور انہیں گول گول گھمانے لگا۔ اب میرے منہ سے بے اختیار آہ! اوہ! کی آوازیں نکلنے لگی تھیں۔ وہ میرے سینے کو زور زور سے چوسنے لگا۔
پھر اس نے مجھے وہیں ٹرک کی سیٹ پر لٹا دیا، اور اس کی زبان میرے پیٹ تک پہنچ گئی اور میری ناف پر رکھ کر گھومنے لگی۔ اوہ! خدا، میں تو جیسے پاگل ہو رہی تھی۔ مجھے اتنا مزہ پہلے کبھی نہیں آیا تھا۔ آج مجھے پتا چلا کہ بھیگنے کے بعد جسمانی قربت مجھے بہت لطف دیتی ہے۔ میں اب پوری طرح سے گرم ہو چکی تھی۔ میں نے اس کے بال پکڑ کر اس کا منہ اپنے پیٹ پر چپکا دیا۔
وہ اب میرے پیٹ کو چاٹنے اور چومنے لگا۔ پھر اس نے میری ساڑی اور پیٹی کوٹ اتار دیا، اور میری گوری رانوں کو چھونے لگا۔ اس نے میری پینٹی کے اوپر سے ہی میری حساس جگہ کو اپنے ہاتھ سے رگڑنا شروع کر دیا۔
پھر اس نے میری پینٹی اتار دی، اور وہ میری اندام نہانی کو دیکھنے لگا۔ شاید اس نے آج تک اتنی گوری اور صاف اندام نہانی کبھی نہیں دیکھی تھی، اسی لیے وہ دیکھتے ہی پاگل ہو گیا اور اسے چومنے لگا۔
دوستو، اب میری اندام نہانی مکمل طور پر گیلی ہو چکی تھی۔ میں اب بہت گرم ہو چکی تھی، اور مزید تڑپنا نہیں چاہتی تھی۔ میں نے بے اختیار کہا، "پلیز جماع کرو مجھے، میں تمہاری غلام ہوں، پلیز جماع کرو۔"
یہ سن کر وہ جوش میں آ گیا اور اس نے اپنی لنگی اتار دی۔ اس نے انڈر ویئر نہیں پہن رکھا تھا، اور اس کا 8 انچ کا عضو میرے سامنے کھڑا تھا۔ میں نے اتنا بڑا عضو کبھی نہیں دیکھا تھا، میں نے سوچا آج تو میری اندام نہانی پھٹنے والی ہے۔
اس نے اپنے عضو کو میری اندام نہانی پر رکھا اور ایک جھٹکا دیا۔ اس کا پورا عضو میری اندام نہانی میں سما گیا، اور میرے منہ سے ایک چیخ نکل گئی۔ درد اور لذت کا ایک عجیب امتزاج مجھے اپنی لپیٹ میں لے چکا تھا۔
اس کے بعد کا وقت ایک دھندلا خواب بن گیا۔ ٹرک کے اندر کا ماحول خوف، بے بسی اور ایک عجیب سی کیفیت کے گرد گھومتا رہا۔ مجھے یاد نہیں کہ کتنی دیر تک یہ سب چلتا رہا، بس اتنا یاد ہے کہ میں ایک عجیب سی بے حسی میں تھی جہاں میرا جسم اور دماغ دو الگ الگ سمتوں میں کھینچے جا رہے تھے۔ وقت کا احساس جیسے ختم ہو گیا تھا۔
جب ٹرک آخرکار ایک شہر کے قریب رکا اور ڈرائیور نے ہمیں اترنے کا اشارہ کیا، تو میں جیسے ہوش میں آئی۔ میرے شوہر ابھی بھی بے سدھ سو رہے تھے۔ ہیلپر نے ایک آخری نظر مجھ پر ڈالی، اس کے چہرے پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ تھی۔ ڈرائیور نے بھی ایک معنی خیز نظر ڈالی اور ٹرک تیزی سے آگے بڑھ گیا۔
میں نے اپنے شوہر کو جگایا۔ وہ ہڑبڑا کر اٹھے اور انہیں سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کہاں ہیں۔ میں نے انہیں بتایا کہ ہم نے لفٹ لی تھی اور اب یہاں اتر گئے ہیں۔ میں نے اپنے کپڑے درست کیے اور اپنی بکھری ہوئی حالت کو چھپانے کی کوشش کی۔ میرے اندر ایک طوفان برپا تھا، لیکن میں نے اسے اپنے چہرے پر ظاہر نہیں ہونے دیا۔ میرے شوہر نے سردی اور نشے کی وجہ سے کچھ خاص غور نہیں کیا، اور ہم نے پیدل ہی اپنے گھر کی طرف چلنا شروع کر دیا۔
گھر پہنچ کر میں نے خاموشی سے کپڑے بدلے اور بستر پر لیٹ گئی۔ میری آنکھوں میں نیند نہیں تھی، بس اس رات کے واقعات فلم کی طرح چل رہے تھے۔ خوف، بے بسی، اور وہ عجیب سی کیفیت جو میں نے محسوس کی تھی، سب کچھ میرے ذہن میں گڈمڈ ہو رہا تھا۔ میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ میری زندگی میں ایسا کچھ ہو سکتا ہے۔ میں نے اپنے شوہر کی طرف دیکھا جو گہری نیند سو رہے تھے۔ مجھے ان پر غصہ بھی آ رہا تھا اور ترس بھی۔ ان کی بے خبری نے مجھے مزید تنہا کر دیا تھا۔
اگلے چند دن میرے لیے بہت مشکل تھے۔ میں اندر سے ٹوٹ چکی تھی، لیکن باہر سے نارمل رہنے کی کوشش کر رہی تھی۔ ہر وقت مجھے وہ لمس، وہ نظریں، اور وہ خوف یاد آتا تھا۔ میں نے کسی سے بات نہیں کی، نہ اپنے شوہر سے اور نہ ہی کسی دوست سے۔ مجھے ڈر تھا کہ کوئی مجھے سمجھے گا نہیں، یا شاید مجھے ہی قصوروار ٹھہرائے گا۔ میں نے خود کو اس واقعے کے لیے ذمہ دار ٹھہرانا شروع کر دیا تھا۔ کیا میں نے کافی مزاحمت نہیں کی تھی؟ کیا میری خاموشی نے انہیں مزید ہمت دی تھی؟ یہ سوالات مجھے اندر ہی اندر کھوکھلا کر رہے تھے۔
میں نے اپنے آپ کو کام میں مصروف رکھنے کی کوشش کی۔ گھر کے کام، بچوں کی دیکھ بھال، سب کچھ معمول کے مطابق کرنے کی کوشش کی۔ لیکن راتیں میرے لیے عذاب بن چکی تھیں۔ نیند آتی نہیں تھی، اور جب آتی بھی تھی تو ڈراؤنے خواب آتے تھے۔ مجھے احساس ہوا کہ میں اس واقعے سے اکیلے نہیں نمٹ سکتی۔ مجھے کسی کی مدد کی ضرورت ہے۔
ایک دن میں نے ہمت کی اور اپنی سب سے اچھی دوست سے بات کرنے کا فیصلہ کیا۔ میں نے اسے پوری کہانی نہیں بتائی، بس اتنا بتایا کہ میں ایک مشکل صورتحال سے گزری ہوں اور ذہنی طور پر پریشان ہوں۔ میری دوست نے مجھے بہت سپورٹ کیا اور مشورہ دیا کہ میں کسی ماہر نفسیات سے بات کروں۔ شروع میں تو میں ہچکچائی، لیکن پھر میں نے سوچا کہ اگر میں نے خود کو ٹھیک نہ کیا تو میری پوری زندگی متاثر ہو گی۔
میں نے ایک ماہر نفسیات سے ملاقات کی۔ شروع میں بات کرنا بہت مشکل تھا، لیکن آہستہ آہستہ میں نے اپنے دل کی ساری بھڑاس نکالی۔ ماہر نفسیات نے مجھے سمجھایا کہ جو کچھ میرے ساتھ ہوا وہ میری غلطی نہیں تھی۔ میں ایک مشکل صورتحال میں تھی جہاں میری جان اور میرے شوہر کی جان خطرے میں تھی۔ انہوں نے مجھے سکھایا کہ میں کس طرح اس صدمے سے نکل سکتی ہوں اور اپنی زندگی کو دوبارہ معمول پر لا سکتی ہوں۔ انہوں نے مجھے یہ بھی سمجھایا کہ ایسے حالات میں انسان کی نفسیات کیسے کام کرتی ہے اور کیوں کبھی کبھی خوف اور بے بسی کے عالم میں انسان عجیب سے احساسات محسوس کرتا ہے۔
وقت کے ساتھ ساتھ، میں نے خود کو سنبھالنا شروع کر دیا۔ میں نے اپنے شوہر کے ساتھ بھی آہستہ آہستہ بات چیت شروع کی۔ میں نے انہیں سب کچھ نہیں بتایا، لیکن میں نے انہیں یہ احساس دلایا کہ مجھے ان کے سہارے کی ضرورت ہے۔ میں نے اپنی زندگی میں مثبت تبدیلیاں لانا شروع کیں۔ میں نے یوگا اور مراقبہ شروع کیا تاکہ ذہنی سکون حاصل کر سکوں۔ میں نے اپنی دوستوں کے ساتھ زیادہ وقت گزارنا شروع کیا اور خود کو تنہائی سے نکالا۔
اس واقعے نے مجھے بہت کچھ سکھایا تھا۔ میں نے سیکھا کہ زندگی میں کبھی بھی کچھ بھی ہو سکتا ہے، اور ہمیں ہر صورتحال کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ میں نے یہ بھی سیکھا کہ خاموشی مسائل کو مزید بگاڑتی ہے، اور ہمیں اپنی مشکلات کو دوسروں کے ساتھ بانٹنا چاہیے۔ سب سے اہم بات یہ کہ میں نے خود کو معاف کرنا سیکھا۔ مجھے احساس ہوا کہ میں قصوروار نہیں تھی، بلکہ میں ایک مظلوم تھی۔
آج میں ایک مضبوط عورت ہوں۔ میں نے اس صدمے کو اپنی کمزوری نہیں بلکہ اپنی طاقت بنایا ہے۔ میں اب دوسروں کو بھی یہ سکھاتی ہوں کہ زندگی میں چاہے کتنی بھی مشکلات آئیں، ہمیں ہمت نہیں ہارنی چاہیے اور ہمیشہ آگے بڑھتے رہنا چاہیے۔ وہ رات کا سفر میری زندگی کا ایک سیاہ باب تھا، لیکن اس نے مجھے ایک نیا سبق سکھایا اور مجھے ایک بہتر انسان بنایا۔
اخلاقی سبق (Moral)
"زندگی میں غیر متوقع اور مشکل حالات کا سامنا ہو سکتا ہے، لیکن سب سے اہم یہ ہے کہ ہم ان حالات میں خود کو کیسے سنبھالتے ہیں۔ خاموشی اور تنہائی مسائل کو بڑھا سکتی ہے، جبکہ ہمت، بات چیت اور دوسروں کی مدد سے ہم بڑے سے بڑے صدمے سے نکل سکتے ہیں۔ اپنی ذات کو معاف کرنا اور آگے بڑھنا ہی حقیقی طاقت ہے