میرا نام ذیشان ہے میں پاکستان کے ایک گاؤں کا رہنے والا ہوں میری عمر 24 سال ہے میں دکھنے میں ایک صحت مند اور لمبے قد کا مالک ہوں ہم گاؤں سے تھوڑا باہر الگ اپنے گھر میں رہتے ہیں گھر کے ساتھ ہی ہمارا ڈنگروں کا بارہ ہے۔ مجھ سے بڑی دو بہنیں ہیں بڑی بہن کا نام نصرت ہے اس کی عمر 28 سال ہے جبکہ اس سے چھوٹی سعدیہ کی عمر 26 سال ہے دونوں ابھی تک غیر شادی شدہ ہیں امی کی عمر 45 سال ہے امی کا نام عشرت ہے ابو کا نام نذیر تھا جہاں ہمارا ڈیرہ ہے یہیں تھوڑی بہت زمین بھی ہے ابو جب ہم چھوٹے تھے انتقال کر گئے ابو کے انتقال کے بعد ڈنگروں کے باڑے اور زمینوں کی سرپرستی ہم پر آن پڑی ہمارا ایک چچا بھی ہے جو اپنا حصہ لے کر الگ ہو گیا اس لیے اب اپنے نظام کو چلانے کےلیے امی نے خود ہی کمر کس لی اس لیے ہم گاؤں والا گھر چھوڑ کر ڈیرے پر آگئے ڈیرے کی حویلی کچی دیواروں سے بنی تھی لیکن دیواریں کافی اونچی تھیں درمیان سے ایک چھوٹی سی دیوار تھی جس کی دوسری طرف تین کمرے اور ایک کیچن تھا ہمارے رہنے کو جو ابو نے اس وقت بنایا تھا کیونکہ ابو کے ہوتے ہی چاچو سے ہماری چپقلش شروع ہو چکی تھی ابو کے انتقال کے وقت نصرت ایف اے جبکہ سعدیہ میٹرک کر چکی تھی میں اس وقت بہت چھوٹا تھا اس لیے میں سنبھال نہیں سکتا تھا اس لیے امی نے نصرت اور سعدیہ کو پڑھائی سے چھڑوا کر اپنے ساتھ کام پر لگا دیا ابو نے کافی مال رکھا ہوا تھا جن سے گھر کا نظام چل رہا تھا اب یہ ختم بھی نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ یہی واحد سہارا تھا اس لیے امی نے خود ساتھ میں نصرت اور سعدیہ کے ساتھ مل کر ڈیرہ سنبھال لیا شروع میں مشکل تو ہوئی لیکن پھر آہستہ آہستہ عادت ہو گئی میں بھی کچھ مدد کر دیتا جتنا ہو جاتا نصرت اور سعدیہ کے ذمے پٹھے کاٹنا تھا جبکہ امی باڑے کا سارا کام کرتی دودھ دوہ کر دیتی وقت گزرنے لگا زمینوں کا کچھ کام کبھی کبھار ماموں آکے کردیتے اکثر امی خود پانی وغیرہ لگاتی جس سے اکثر امی رات کو باہر رہتی نہر کا پانی اور رات کو باری ہوتی تھی ہمارے ہاں ایک پیر بھی آتا تھا وہ اکثر مہینے میں دو چکر لگاتا جس دن وہ آتا تو امی ہمیں جلدی سے سلا دیتی کہ پیر نے مجھے دم کرنا ہے لیکن ہم جاگتے رہتے پیر کے ساتھ دو اس کے خلیفے بھی ہوتے تھے جو امی کو اندر لے جا کر دم کرتے اکثر رات کو دم کرتے ہوئے امی کی حال حال سے اکثر کمرہ گونجا کرتا اور ہمیں صاف سنائی دیتا باجی نصرت اس وقت فل جوان تھی وہ سونے کا ناٹک کرتی لیکن وہ بھی صاف سنتی تھی اور کروٹیں ہی بھرتی رہتی تھی جیسے وہ بے قرار ہو کسی چیز کےلئے مجھے زیادہ تو سمجھ نا تھی لیکن جلد ہی پیر ایک دن باجی نصرت کو بھی دم کرنے کے بہانے اندر لے گیا اس دن اندر سے باجی نصرت کے بکاٹ نکلے اور چیخیں صاف سنائی دی تھیں صبح پیر تو چلا گیا لیکن نصرت دو دن تک سیدھی نا ہو سکی وقت گزرتا گیا اس کے بعد پیر کوئی دو تین ماہ ہی آیا ہوگا اور باجی نصرت اور امی کو دم کرنے کے بہانے ان کی حال حال نکالتا لیکن دو تین ماہ بعد پیر کا انتقال ہوگیا اس دن نصرت بڑی بے چین تھی لیکن جلد ہی امی اور نصرت اب پانی لگانے مل کے جاتیں کچھ عرصہ بعد سعدیہ بھی ان کے ساتھ جاتی تھیں پھر وقت نے سپیڈ پکڑی کہ بہت جلد میں بھی جوان ہوگیا باجی نصرت اور سعدیہ اب کافی جوان ہوچکی تھیں ڈیرے کے سارے کام اور زمینداری وہ خود کرتیں صبح اٹھ کر چارہ کاٹ کر ریڑھے پر لاد کر لانا اور پھر کتر کر ڈالنا بھی انہی ہے ذمے تھا امی باڑے میں کام کرتی تھی میں میٹرک کرکے کالج جا چکا تھا جہاں میری صحبت بھی اب برے لڑکوں میں تھی جس سے میں بگڑ چکا تھا گھر والوں نے شروع میں کان کھینچے لیکن انہیں پتا چل گیا کہ یہ اب ہاتھ سے نکل گیا ہے تو انہوں نے مجھے کہنا ہی چھوڑ دیا باجی اور امی اپنی مستیوں میں مگن تھے میں اب گھر سے اکثر باہر ہی رہتا دوسرے کے ساتھ شباب کے مزے لیتا جس سے میری بہنوں اور امی کا کام آسان ہو چکا تھا کیونکہ میں گھر ہوتا تو ان کو روکتا لیکن شاید وہ بھی یہی چاہتی تھیں کہ میں ان کے کام میں کوئی رکاوٹ نا ڈالوں اس لیے میں مزے تھا وہ بھی فل انجوائے کر رہی تھیں اسی دوران مزید سال گزر گئے میں 24 سال کا اب ہٹا کٹا جوان تھا جو گھر سے غائب ہی رہتا گھر میں کیا چل رہا ہے مجھے کچھ خبر نا تھی ایک دن میں بڑے دنوں بعد گھر ہی تھا عصر کا وقت تھا میں اپنے دھیان میں تھا کہ اتنے میں اندر سے باجی نصرت چادر میں کترا اٹھا کر نکلی اس نے کترا پیچھے اٹھا رکھا تھا جس سے وہ آگے جھکی ہوئی تھی میری نظر باجی نصرت پر پڑی تو میں ایک بار چونک گیا میں نے کبھی اتنا غور نہیں کیا تھا باجی نصرت ایک کسے ہوئے لباس میں تھی جس نے باجی نصرت کے جسم کو کس کر واضح کر رکھا تھا کام کرتے وقت وہ دوپٹے کے بغیر ہی رہتی تھیں جس سے باجی نصرت کا انگ انگ واضح نظر آ رہا تھا باجی کے موٹے تنے ہوئے ممے آگے کو نکلے ہوئے صاف نظر آ رہے تھے۔ باجی کے مموں کی لکیر بھی صاف نظر آ رہی تھی میں چونک سا گیا اور ایک بار نظر چرا لی لیکن میں دیکھے بغیر رہ نہ سکا اور نظر اٹھا کر ایک بار باجی کے سارے جسم کو اوپر سے نیچے تک دیکھا باجی کے موٹے تنے ممے کافی موٹے تھے نیچے باجی نصرت کی پتلی کمر اور نیچے باجی نصرت نے ایک کسا ہوا ٹراؤزر ڈال رکھا تھا جس میں باجی کے موٹے چتڑ کسے صاف نظر آرہے تھے جبکہ باجی کی باہر کو نکلی گانڈ کافی خوبصورت تھی اوپر باجی کی لمبی پراندے والی گت آگے مموں پر لٹک کر باجی کے جسم پر بہت بھلی لگ رہی تھی گاؤں کے ماحول میں لڑکیاں گت کر کے پراندہ ڈالتی ہیں جو بہت خوبصورت لگتا ہے نصرت پر بھی پرندہ جچ رہا تھا میں بڑے انہماک سے باجی نصرت کے جسم کو غور رہا تھا جس کو باجی نصرت نے بھی اپنا جسم عورت مجھے دیکھ لیا تھا میری ایسے ہی نظر باجی نصرت کی طرف اٹھی باجی مجھے ہی دیکھ رہی تھی میرے دیکھنے پر باجی نے نظر چرا لی باجی سمجھ چکی تھی کہ میں اس کو کیسی نظر سے دیکھ رہا ہوں باجی کے چہرے پر شرم سے لالی پھیل چکی تھی میں بھی پکڑے جانے پر شرما سا گیا تھا اور نظر ہٹا لی میں تھوڑا سا گھبرا گیا کہ کہیں باجی برا نا منا جائے تب تک باجی نے کترا کھرلی میں پھینک دیا تھا میں نے نظر اٹھائی تو باجی نصرت مجھے دیکھتے ہوئے کترا پھیلا رہی تھی میرے دیکھنے پر اس نے پھر نظر چرا لی مجھے لگا جیسے باجی کو برا نہیں لگا باجی گھومی اور پھر نظر اٹھاکر مجھے دیکھا تو باجی کی نظر حیا سے بھری تھی لیکن باجی کی نظر میں ایک مستی بھی تھی باجی نے نظر چرا لی اور آگے چلنے لگی میں نے ایک نظر بھر کر باجی کو دیکھا تو باجی کی موٹی باہر کو نکلی ہلتی گانڈ کافی سیکسی لگ رہی تھی باجی کو میں چلتا ہوا دیکھنے لگا باجی آگے بڑھتی گئی آگے کترے والے کمرےمیں جاتے ہوئے گہری نظر گھما کر میری طرف دیکھا اور ایک۔نظر بھر کر مجھے دیکھتی ہوئی اندر داخل ہو گئی میں باجی کے یوں دیکھنے سے گھبرا سا گیا مجھے لگا کہ اب گئے باجی کو میرا یوں دیکھنا برا لگا ہو گا جو کہ اچھی بات نہیں تھی میں یہ ہی سوچ رہا تھا کہ اتنے میں اندر سے امی کردہ اٹھائے نکلی میں امی کو دیکھ کر چونک س گیا امی کی عمر تو کافی تھی لیکن کام کاج اور اچھی خوراک سے امی 35 سال سے زیادہ کی بالکل بھی نہیں لگ رہی تھی امی کے بھرے ہوئے جسم پر انتہائی موٹے تنے ہوئے باہر کو نکلے ممے قیامت ڈھا رہے تھے امی کی موٹی گانڈ باہر کو نکلی ہوئی لچک رہی تھی امی کی گت ولا پراندہ لچکتی گانڈ پر اچھل رہا تھا امی کے ناک کا کوکا امی کے گورے چہرے پر قیامت ڈھا رہا تھا میں تو امی کے لچکتی جسم کو دیکھتا رہ گیا تھا میں امی کو گہری نظر بھر کر دیکھ رہا تھا کہ اتنے میں باجی اندر سے پھر نکلی باجی نصرت نے مجھے امی کا جسم غورتے ہوئے دیکھ لیا میری نظر باجی نصرت سے ملی تو وہ مجھے کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہی تھی میں سمجھ گیا کہ باجی کو اچھا نہیں لگ رہا اس لیے میں نے نظر ہٹا لی اور اپنے موبائل میں مگن کو گیا جس پر کوئی۔کال تھی میں سنتا باہر نکل گیا میں شام کو واپس آیا تو سامنے امی دودھ نکال رہی تھی۔جبکہ سعدو امی کا ہاتھ بٹا رہی تھی نصرت مجھے نظر نا آئی میں وہاں سے کیچن کی طرف چل دیا پانی پینے کےلئے کیچن میں داخل ہوا تو سامنے باجی نصرت چولہے پر بیٹھی کھانا بنا رہی تھی میں باجی کو دیکھ کر چونک گیا باجی کے موٹے کسے ہوئے چتڑ باہر جو نکلے صاف نظر آ رہے تھے میری نظر ان پر پڑی میں باجی کے موٹے پٹ دیکھتا ہوا باجی نصرت کو دیکھا تو وہ بھی گہری نظر سے مجھے ہی دیکھ رہی تھی میں نظر چرا کر آگے بڑھ کر کولر کے پاس گیا اور پانی بھر کے باجی کو پیچھے سے دیکھنے لگا باجی نصرت کی موٹی باہر کو نکلی گانڈ بہت سیکسی لگ رہی تھی باجی نصرت دوپٹے کے بغیر ہی تھی جس سے باجی نصرت کی چوڑی کمر اوپر پڑی لمبی گت دل کو لبھا رہی تھی اوپر نظر آتی فوری گردن تو بہ ہی شاندار لگ رہی تھی میں تو دیکھے بغیر رہ نہیں پا رہا تھا باجی بھی سمجھ گئی تھی کہ میں اسے پیچھے سے دیکھ رہا ہوں باجی اٹھ کر بیسن پر آکر کھڑی ہو گئی اور وہاں کچھ کام کرنے لگی میں نے پانی کا گلاس رکھا تو باجی بولی شانی گھر دی عورت تے باہر دی عورت اچ فرق ہوندا باجی کی اس بات پر میں چونک کر وہیں رک گیا اور باجی کو دیکھنے لگا باجی کی بات کی سمجھ تو مجھے آگئی پر میں نے ایسے ہی پوچھ لیا کی مطلب باجی نصرت بولی سمجھ تے تینوں آگئی ایڈا کاکا نا بن اور ہلکا سا مسکرا دی جس سے میرے دل کو تسلی ہوئی کہ باجی غصے میں نہیں ہے میں جا کر قریب ہی باجی کے کھڑا ہو گیا اور شرارتی انداز میں مسکرا کر بولا باجی جدو گھر دے تے باہر دے ماحول اب فرق نا رہوے تے وت گھر تے باہر اب کہڑا فرق میری اس بات پر باجی بھی چونک گئی اور گھبرا کر سوالیہ نظروں سے مجھے دیکھا اور بولی گھر دے ماحول نوں کی اسے لگا شاید کہ مجھے ان کے کارناموں کا پتا چل گیا ہے لیکن وہ مجھے ابھی پتا نہیں تھے میں بول اے جہڑا تساں بنایا ہویا میں نے باجی کے جسم کی طرف اشارہ کیا باجی شرما کر بولی بھائی بہوں بے شرم ہیں میں بولا باجی بےشرمی کہڑی جدو سب کجھ نظر آریا تے ہے تے وے تک کے سیکھنا چاہی دا اے میری اس بات پر باجی شرما سی گئی اور بولی بھائی حیا کر بہوں بے حیا ہو گیا ہیں پتا نہیں کی کھاندا ایں جہڑا تینوں لحاظ ہی بھل گیا اے ماواں بھیناں دا باجی کے انداز میں غصہ مصنوعی تھا جو صاف لگ رہا تھا مجھے پتا نہیں کیوں لگ رہا تھا کہ باجی بھی وہی چاہتی ہے جو میں چاہتا ہوں شاید باجی نصرت کا انداز ہی ایسا تھا جو مجھے اس کی طرف بلا رہا تھا مجھ سے رہا نہیں جا رہا تھا باجی کے قریب ہونے سے باجی نصرت کے جسم کی گرمی مجھے محسوس ہو رہی تھی جس سے میرا کہنی جتنا لمبا موٹا سر اٹھا چکا تھا میں نے بے اختیار باجی کے مموں کو غورا اور باجی کی گت ہاتھ میں پکڑ کر آہستہ سا جھٹکا مارا جس سے باجی کی کراہ کے ساتھ سر باجی کا چھت کی طرف ہوگیا باجی بولی آااہہہہ سسسسییی کوہڑیا کی کردا پیا ایں میں شرارتی انداز میں ہنس کر بولا چیک کردا پیا آں باجی بولی کی میں بولا باجی تینوں گت بہوں سوہنی لگدی باجی چڑ کر بولی تے فر میں کی کراں میں ہنس پڑا اور باجی کو دیکھنے لگا باجی کے ممے تن کر کھڑے تھے میرا دل کر رہا تھا کہ پکڑ کر دبوچ دوں باجی کے موٹے ممے باجی نصرت کے کام کرنے سے ہل رہے تھے باجی نے گھوم کر مجھے دیکھا تو میں اس کے ممے تاڑ رہا تھا باجی کے چہرے پر ہلکی سی لالی اتر آئی میں نے نظر چرا کر باجی کو دیکھا تو باجی کی نشیلی آنکھیں مجھے غور رہی تھیں باجی ہے چہرے پر ایک بے قراری سی اتر آئی تھی باجی میرے دیکھنے پر نظر چرا گئی میں بولا باجی ہک گل دساں باجی بولی دس میں بولا باجی توں وی نک اچ کوکا پا لئے امی نوں بہوں سوہنا لگدا اے تینوں وی بہوں سوہنا لگایا باجی نے گھوم کر مجھے دیکھا اور بولی کیوں میں بولا ایویں ہی باجی توں بہوں سوہنی لگسیں باجی بولی کس خوشی اب میں بولا میری خوشی اب باجی مجھے دیکھ کر چپ سی ہو گئی لیکن بولی کچھ نہیں اور گھوم کر بیسن سے ہٹنے لگی میں نے آگے ہو کر باجی کا بازو پکڑ لیا تو باجی نے گہری نشیلی آنکھوں سے مجھے دیکھا میں نے باجی کو اپنی طرف کھینچ لیا جس سے باجی کھینچتی ہوئی میرے سینے سے آلگی میں نے بازو آگے سے گھما کر باجی کو کھینچ کر اپنے سینے سے لگا دیا میرا تنا ہوا لن باجی نصرت کی گانڈ میں چبھ گیا جس سے باجی نصرت ہڑبڑا سی گئی اور آگے ہوکر خود سے مجھے کو چھڑواتی ہوئی بولی بھائی کی پیا کردا ایں میں بھین آں تیری چھڈ مینوں لعنتیا نا کر اس دوران میں نے باجی کو کھنچ کر مزید اپنے سینے سے لگا دیا اور آگے ہوکر اپنا منہ کھول کر اپنی بہن نصرت کی موٹی گال منہ میں بھر کر دبا کر چوس لی باجی کی گال سے نکلتا تھوک نگل کر میرے تو طبق روشن ہونے لگا جبکہ باجی نے اپنی گال میرے منہ محسوس کرکے سسک گئی اور بولی سسسسییییی بھائی نا کر پاگل تے نہوں میں نے باجی کا سر دبا کر مزید سختی سے باجی کی گال دبا کر چوستے ہوئے اپنا ایک ہاتھ آگے باجی کے موٹے ممے پر رکھ کر دبا دیا جس باجی نصرت کا نرم مما میرے ہاتھ میں دب گیا جبکہ ساتھ ہی باجی کی کراہ کر سسک گئی باجی نصرت کی مزاحمت پہلے ہی نا ہونے کے برابر تھی جو مما دبانے پر ختم ہو گئی باجی اب سسک کر کراہ رہی تھی جبکہ میں باجی نصرت کی گال چوستا ہوا باجی نصرت کا مما دبا کر مسلنے لگا میرا لن فل تن کر باجی نصرت کی گانڈ سے پھسل کر باجی نصرت کے چڈوں میں جا گھسا میں باجی نصرت کے مموں کو دبا کر مسکرا اور باجی کی گال چھوڑ کر باجی کا منہ اپنی طرف گھمایا اور نصرت کے ہونٹوں سے ہونٹ ملا کر دبا کر چوسنے لگا نصرت بھی میرا کچھ ساتھ دینے لگی میں ہونٹ چوستا ممے دباتا اپنا لن باجی نصرت کے چڈوں میں تیز تیز اندر باہر کرنے لگا میری تو پہلے ہی حالت پتلی تھی باجی ہے چڈوں کی گرمی میں میرا لن نڈھال ہوگیا باجی کی زبان کھینچ کر سختی سے دبا کر میں چوس کر مما دبائے باجی نصرت کے چڈوں میں گھسے مارتا سسکنے لگا باجی کی کراہیں نکل کر میرے منہ میں دبنے لگیں باجی بھی فل انجوائے کر رہی تھی میں مزید تین چار گھسے مار کر باجی نصرت کے چڈوں میں فارغ ہو گیا باجی بھی کانپتی ہوئی میرے ساتھ دم دے گئی میں کراہتا ہوا باجی ہے ہونٹ اور ممے چوستا باجی نصرت کے چڈوں میں فارغ ہو کر پیچھے ہوا تو باجی نے میرے منہ سے زبان نکال لی اور میری طرف گہری نشیلی مست آنکھوں سے دیکھا اور ہلکا سا مسکرا کر سرگوشی میں بولی ایو کجھ تیری ہمت ہے دو منٹ وی نہوں تگیا اور ہنس کر مجھ سے الگ ہو گئی میرا مزے سے برا حال تھا میرا سانس پھولا ہوا تھا اوپر سے اپنی سگی بہن کے چڈوں میں فارغ ہونے کے احساس سے میرا۔ دماغ ماؤف تھا جس میں کوئی جواب نا دے سکا میں نے دو منٹ وہیں کھڑے ہوکر اپنے حواس بحال کیے باجی بیٹھ کر اپنے کام میں مگن تھی باجی نصرت کا چہرہ شرم سے لال تھا وہ بھی اپنے بھائی کے ساتھ یہ سب کرکے شرما تو رہی تھی میں کچھ کہنے ہی لگا تھا کہ اتنے میں امی دودھ لے کر اندر آگئی اور مجھے دیکھ کر مسکرا بولی بڑی گل اے آج میرا پتر وی مینوں گھر نظر آیا چیرتے ہے میں نے مسکرا کر امی کے تنے ہوئے مموں کو دیکھا تو نصرت لال چہرے سے مجھے دیکھ کر مسکرا گئی میرے پاس کوئی جواب نہں تھا میں خاموش ہی کھڑا رہا امی بولی کی گل اے چپ ہیں میں بولا کجھ نہیں بس ایویں ہی سعدو بھی تب تک اندر آگئی وہ بھی مجھے دیکھ کر مسکرا گئی سعدو بھی دوپٹے کے بغیر تھی جس سے اس کا انگ انگ بھی واضح ہو رہا تھا سعدو کا جسم نصرت کے جسم سے پتلا تھا لیکن سعدو کے ممے کافی صحت مند تھے جو تنے ہوئے باہر کو نکلے ہوئے تھے میری دونوں بہنیں ہی بمب تھیں امی بھی کچھ کم نا تھی میں وہیں بیٹھ کر باتیں کرنے لگا پھر کھانا کھایا اور جلد ہی سو گیا
صبح میری آنکھ کھلی نہا کر میں نے ناشتہ کیا اور باہر نکلا تو نصرت اور سعدیہ ریڑھے پر پٹھے کاٹ کر لاد لائی تھیں سعدو آگے سے ریڑھے کو پکڑ کر پارہی تھی نصرت پیچھے اوپر بیٹھی تھی میں باجی نصرت کو دیکھ کر ایک بار چونک سا گیا باجی نصرت نے ناک میں کوکا ڈال رکھا تھا اور وہ مجھے دیکھ کر مسکرا رہی تھی باجی گہری نشیلی آنکھیں بھر کر مجھے دیکھ رہی تھی میں باجی کو دیکھتا پا کر شرما گیا میں حیران بھی تھا کہ باجی نصرت اتنی جلدی میری بات مان گئی حالانکہ میں اس کا بھائی تھا اور بھائی بہن میں یہ تعلق بننا ناممکن سا تھا لیکن باجی نصرت تو پہلے ہی ہلے میں ڈھیر ہو چکی تھی سعدو اور نصرت نے پٹھے اتارے امی مجھے بولی کہ پٹھے آج کتروا دو میں نے پٹھے کتروا دیے امی کے ساتھ مل کر امی اور سعدو کررہے ڈالنے لگے جبکہ میں باہر نکلا تو نصرت گوہر سے پھاتیاں بنا رہی تھی نصرت کے بیٹھنے سے نصرت کی موٹی گانڈ باہر کو نکلی ہوئی تھی میں نصرت کی گانڈ تاڑتا آگے چل پڑا اور سامنے صحن میں جا کر بیٹھ گیا میری نظر سامنے باجی نصرت پر پڑی تو میں چونک گیا سامنے باجی نصرت گہری نشیلی آنکھوں سے مجھے دیکھتی ہوئی مسکرا رہی تھی میری نظر نیچے باجی نصرت کی پھٹی شلوار پر تھی جس سے باجی نصرت کی ننگی بند ہونٹوں والی پھدی نظر آرہی تھی باجی نصرت کی پھدی کے ہونٹ ہلکے سے کھلے ہوئے تھے جبکہ باجی نصرت کی پھدی کا دہانہ کھلا تھا جس پر سفید رنگ کے دھبے صاف نظر آرہے تھے جیسے مرد کی منی ہے دھبے ہوں میں پھدی کی حالت دیکھ کر سمجھ گیا کہ باجی نصرت چدواتی ہے لیکن باجی نصرت کی پھدی زیادہ چدی ہوئی نہیں لگ رہی تھی کیونکہ دہانہ زیادہ نہیں کھلا تھا نصرت کی پھدی پر لگے سفید دھبے بتا رہے تھے کہ باجی نصرت کہیں سے شکار کھیل کر آئی ہے کیونکہ میں خود ایک شکاری تھا اور سب پتا تھا میں نے نظر اٹھا کر باجی نصرت کو دیکھا تو باجی نے مسکراتے ہوئے آنکھوں کے اشارے سے مجھے پوچھا کہ کیسی لگی میں مسکرا دیا باجی نے پھر آنکھ کا اشارہ اپنی پھدی کی طرف کیا اور مسکرا دی میں نے مسکرا کر باجی نصرت کی پھدی کو دیکھا تو باجی نے اپنی پھدی کا دہانہ بند کرکے کھولا اور ایک لمبی دھار مار کر پیشاب کرنے لگی باجی نصرت کی پھدی کے کھلے دہانے سے نکلتا موتر بہت ہی بھلا لگ رہا تھا۔ باجی نے پھر دہانہ دبا کر موتر روک لیا میں نے باجی کو دیکھا تو باجی کے چہرے پر ایک شرارت تھی اور باجی نے مجھے اپنی پھدی کی طرف پھر آنکھ سے اشارہ کرکے آنکھ مری میں نے اپنی بہن کی پھدی کو دیکھا تو نصرت نے دہانہ کھول کر ایک لمبی دھار موتر کی دھار مار کر پھر روک لیا نصرت اسی طرح دو تین بار پھدی کو کھول کر موتر کی دھار مارتی اور پھر روک لیتی مجھے باجی نصرت کے اس کھیل میں بڑا مزہ آرہا تھا میں بڑے انہماک سے باجی نصرت کی پھدی سے موتر نکلتا دیکھ رہا تھا باجی مسلسل یہی کر رہی تھی جبکہ پیچھے امی کررہے ڈال رہی تھی ایک بار تو امی کررہے لے کر بالکل نصرت کے پیچھے تھی لیکن پھر بھی نصرت بے جھجھک مجھے اپنی پھدی دکھاتی رہی اور پھر وہ اٹھ گئی امی کررہے ڈال کر میرے پاس آکر بیٹھ گئی اور بولی شانی تینوں ہک گل دسنی ہا میں بولا جی امی امی بولی شانی تینوں یاد اے ساڈے آل ہک پیر آندا میں بولا جی امی امی بولی ہن اسدا پتر اپنے پیو دی جاہ تے بہ گیا اے میں اس کولو عمل کرایا ہا گھر واسطے اس آکھیا اے کے گھر اچ آ کے عمل کرنا پوسی میں امی کی بات سمجھ گیا کہ وہ کیوں آ رہا ہے وہ پیر بھی دم کرنے کے بہانے کچھ اور ہی کرتا تھا یہ بھی کچھ اور ہی دم کرے گا میں بولا ٹھیک ہے سد لئو امی بولی پر اس دی شرط ہے ہک میں بولا او کی امی بولی شانی اس آکھیا ہے کہ عمل دے دوران گھر اچ کوئی مرد نا ہووے اس واسطے تینوں اس دن گھرو باہر رہنا پوسی میں یہ سن کر دل ہی دل میں ہنس دیا کہ کمینہ پوری تسلی سے مزے لینا چاہتا ہے میں بھی سوچنے لگا کہ چلو ایک سین ملے گا دیکھنے کا میری ماں بہنیں کیسے چدواتی ہیں میں بولا ٹھیک ہے اس کدو آنا امی بولی اس آکھیا جدو آکھو میں آ جاواں میں بولا سہی اے امی اٹھ کر چلی گئی میں بھی کسی کام نکل گیا دوپہر کو گھر آیا تو امی اور سعدیہ بڑی تیار ہو کر کہیں جا رہی تھیں مجھے دیکھ کر امی بولی شانی میں تے سعدو دکان تک جاؤ آں کجھ سودا لون پیر اوراں دو دن دا آکھیا ہے اسی اپنی تیاری پوری کر لویے میں بولا ٹھیک اے جاؤ پر مجھے شک پڑ گیا کہ یہ سودے کا تو بہانہ ہی ہے یہ کہیں اور جا رہی ہیں امی کے جانے کے بعد میں اندر کیچن میں گیا تو نصرت برتن دھورہی تھی شیلف پر کھڑی ہو کر مجھے دیکھ نصرت مسکرا گئی اور گہری نظر سے مجھے دیکھنے لگی میں أگے بڑھا اور پیچھے سے باجی نصرت کو اپنی باہوں میں بھر کر جپھی میں بھر کر آگے ہو کر باجی کی گال کو چوسنے لگا باجی سسک کر کاہ سی گئی اور ایک بھر کر رہ گئی میں نے باجی نصرت کی قمیض میں ہاتھ ڈالا اور ممے کھینچ کر دبا دیے اپنی بہن کے ننگے نرم ممے دبا کر میں مچل سا گیا نصرت اپنے ممے دبواتی ہوئی سسکنے لگی نصرت کی آنکھیں بند تھی اور وہ کراہتی ہوئی سسکتی ہوئی مچل رہی تھی میں نے زور لگا کر نصرت کے ممے کھینچ کر دبا لیے جس نصرت کراہ کر کرلا گئی اور سرگوشی میں بولی اففففف بھائی تیرے ہتھاں وچ بہوں مزہ اے انج آر آگے کسے نہیں سواد دتا میں سمجھ گیا اور بولا اسدا مطلب آگے وی کوئی ممے مسلدا اے باجی سسک کر بولی بھائی کوئی ہک ہووے تے دساں اور مسکرا کر میری آنکھوں میں دیکھنے لگی میں بولا باجی اے امی آوری کدے گیاں نصرت ہنس کر بولی بھائی او وی اسے کم ہی گیاں جہڑا اسی کر رہے میں بولا امی تے أکھ رہی سودا لینے جاؤ نصرت شرارت بھرے انداز میں مسکرا کر بولی بھائی اے وی تے سودا ہی اے میں بولا او کس کول گئیاں نصرت بولی بھائی عضو مسلی کول گئیاں ہین میں بولا او کالا رضو ۔۔ باجی ہنس کر بولی بھائی او کالا بڑی بلا ہے سعدو دا یار اے پکا اس ٹائم روز جاندی ہے سعدو اس کولو پھدی مراون ۔۔ میں بولا باجی تسی تے فل گشتیاں ہو،، نصرت مسکرا کر بولی میں نہیں پر سعدو فل گشتی ہے بھائی۔۔ کسے نوں ناہ نہیں کردی اور ہنس دی میں بولا تے توں۔۔ نصرت بولی بھائی میں ہلے یار بنانا اے۔۔ میں بولا کی مطلب باجی بولی بھائی میرے مطلب دا آج تک ہک بندہ وی نہیں مینوں ملیا میں تے کسے تگڑے بندے دی تلاش اچ آں آج تک کوئی نہیں لبھیا میں ہنس دیا اور بولا باجی اے نہیں ہوسگدا وے پھدی تے مرواندی ہیں نا باجی بولی میں صرف آتے آتے کروانی آں اندر کدی نہیں لیا میں ہنس دیا باجی میرے ہونٹ چوستی ہوئی میری زبان کھینچ کر چوسنے لگی میں باجی کی زبان کھینچ کر چوستا ہوا باجی نصرت کا قمیض کھینچ کر اتار دیا باجی ننگی ہوکر گھوم کر میری طرف مرمرہ اور مجھے چومتی ہوئی میرا قمیض بھی کھینچ کر مجھے ننگا کردیا اور اپنے ممے میرے سینے میں دبا کر مجھے چومنے لگا میں نصرت کے ممے دبا کر مسلنے لگا باجی اپنا منہ میرے منہ میں دبا کر شدت سے میرا منہ چوس رہی تھی میرا کہنی جتنا لمبا موٹا لن تن کر کھڑا تھا باجی نصرت نے ہاتھ نیچے کر کے میرا نالا کھول کر میرا لن ہاتھ میں پکڑ کر کھینچ لیا میرے کہنی جتنے لن کو ہاتھ میں پکڑ کر نصرت محسوس کر کے چونک سی گئی اور منہ چھوڑ کر پیچھے ہو کر میرے لن کو دیکھ کر حیرانگی سے بولی نی اماں میں مر گئی بھائی اے تیرا لن اے میں مسکرا گیا اور آگے ہوکر باجی نصرت کے ممے کو منہ بھر کر چوسنے لگا باجی سسک کر کراہ کر میر سر اپنے ممے پر دبا کر میرا لن مسلنے لگی اپنی بہن کے نرم ہاتھوں مسلتا لن نڈھال ہو رہا تھا میں اپنی بہن نصرت کا مما کھینچ کر دبا کر چوستا ہوا نپلز پر کاٹنے لگا جس سے باجی نصرت کراہ کر سسکنے لگی اور۔میرا لن دبا کر مسلنے لگی میں باجی نصرت کے دونوں ممے کس کر چوستا ہوا باجی نصرت کے ہونٹوں کو چوسنے لگا باجی نصرت میری آنکھوں میں دیکھ کر بولی بھائی ایڈا ودا لن کتھو لیا ای میں تے آج تک کسے مرد دا دیا لن نہیں ویکھیا میں مسکرا کر باجی کو چومنے لگا باجی نصرت میری آنکھوں میں دیکھتی ہوئی نیچے میرے لن کے سامنے بیٹھ گئی اور میرے کہنی جتنے لمبے لن کو مسلتی ہوئی لن کی موری پر ہونٹ رکھ کر چومنے لگی نصرت کا تیز تیز نکلتا گرم سانس میرے لن کو چھو کر مجھے نڈھال کر رہا تھا نصرت نے منہ کھولا اور لن کا ٹوپہ چوم لیا جس سے نصرت کی کراہ سی نکل گئی نصرت نے بے قراری سے مجھے آنکھ بھر کر دیکھا اور اگلے لمحے اپنی زبان نکال کر میرے لن کے ٹوپے پر پھیر لی باجی کی لن چومنے کا انداز بہت پیارہ تھا باجی مزے سے ہانپ رہی تھی جس سے باجی نصرت کے ناک کا کوکا اچھل کر مجھے نڈھال کر رہا تھا باجی نصرت نے آگے ہوکر منہ کھولا اور میرے لن کا ٹوپہ دبا کر چوس لیا جس سے میری اور باجی نصرت کی اکھٹی کراہ نکل گئی باجی نے لن کو ہونٹوں میں کر کس کر چوپا مارا اور لن منہ سے کھینچ لیا جس سے میری۔ کراہ نکل گئی جبکہ باجی نصرت مزے سے ہانپنے لگی جس سے اس کے ناک کا کوکا اچھلنے لگا جس کو دیکھ کر میں نڈھال سا ہونے لگا تھا باجی باجی نے پھر لن کو منہ میں بھر لیا باجی نصرت کا گرم منہ مجھے نڈھال کر رہا تھا باجی نصرت نے ہونٹ کس کر میرے لن کا چوپا مارنے لگی جس باجی نصرت کے نرم ہونٹ میرے لن کو مسل کر مجھے نڈھال کرنے لگے میں باجی کے انداز پر مر رہا تھا آج تک کسی لڑکی نے ایسا چوپا نہیں لگایا تھا جیسا میری بہن نصرت لگا رہی تھی باجی نے دو تین چوپے کس کر مارے اور لن کھینچ کر کراہ کر ہانپتی ہوئی مدہوش آنکھوں سے مجھے دیکھتی ہوئی بولی اففففف بھائی تیرے لن دا ذائقہ کمال اے میں مزے سے مچل کر باجی نصرت کے کوکے پر فدا ہو رہا تھا باجی نصرت کے لن مسل کر میرےلن کی موری کھول کر ہونٹوں میں دبا کر چوس کر اپنی زبان کی نوک میرے لن کی موری میں دبا کر پھیری جس سے میں کراہ کر مچل گیا اگلے لمحے باجی نصرت نے مست آنکھوں سے مجھے دیکھا اور میرے لن کی موری کے نیچے والے نرم حصے پر اپنا رکھ کر دبا کر مسل دیا جس سے مجھے لگا جیسے کوکے نے میری جان کھینچ لی ہو اور میں کراہ کر کرلا گیا باجی نصرت نے اپنا کوکا دو تین بار لن رکھ کر رگڑا جس سے میری بکاٹیاں نکل گئیں باجی میرہ حالت دیکھ کر شرارتی انداز میں مسکرائی اور منہ کھول کر لن ہونٹوں میں دبا کر کس کر چوپا مارا کر لن چھوڑ کر مسکرا اور پھر میرے لن کی موری کھول کر اپنا کوکا میرا لن کی کھلی موری کے اندر رکھ کر اپنا کوکا دبا کر مسلا جس سے باجی نصرت کے کوکے کو لن کی موری کے اندر محسوس کرکے میں مزے سے دوہرا ہوکر کرلا گیا باجی نے میرا لن کس کر اپنے کوکے پر مسلا جس سے باجی نصرت کے کوکے نے میری اندر سے جان کھینچ لی اور میں باجی نصرت کا سر پکڑ کر دبا دیا باجی نصرت نے دو تین بار میرے لن کی موری میں کوکا دبا کر مسلا جس نے میری برداشت ختم ہو گئی اور میری ٹانگوں سے جان نکل کر لن کی طرف دوڑنے لگی جس سے میری ٹانگیں بے جان سی ہوکر کانپ گئیں باجی نصرت سمجھ گئی کہ میرا کام ہوگیا ہے جس سے باجی نصرت نے جلدی سے لن کوکے سے اٹھا کر اپنا منہ کھول کر میرا لن منہ میں بھر کر دبا کر چوپا مارا جس کے ساتھ ہی میرے لن سے ایک لمبی موٹی گاڑھی منی کی دھار نکل کر زور سے باجی نصرت کے گلے میں لگی جس سے باجی نصرت کا گلہ اور منہ بھر گیا جو مشکل سے باجی نصرت نے نگل کر پیٹ میں اتاری ہی تھی کہ پیچھے سے میرے لن نے ایک اور لمبی گاڑھی منی کی دھار میری بہن نصرت کے گلے میں مار کر باجی نصرت کا گلہ بھر دیا جو باجی نصرت گھونٹ بھر کر پیٹ میں اتارنے لگی مزے سے میری ٹانگیں بری طرح کانپ رہی تھی اور ہر جھٹکے پر منی کے ساتھ میری جان بھی باجی نصرت کے پیٹ میں جا رہی تھی جس کے ساتھ میری کرلاٹ بھی نکل جاتی باجی مدہوشی سے میری آنکھوں میں دیکھ رہی تھی باجی نصرت نے 2 منٹ میں میرے لن کو نچوڑ کر رکھ دیا باجی نے میری ساری منی نچوڑ کر پی ڈالی میں باجی نصرت کے منہ میں نڈھال ہو چکا تھا باجی نے اچھی طرح منی نچوڑ کر پی چکی تھی باجی نے چوپا مار کر میرے لن کو اچھی طرح چوس لیا اور لن پڑچ کی آواز سے نکال کر ہانپنے لگی باجی نصرت کا کوکا ناک میں اچھلنے لگا جسے دیکھ کر میں مچل رہا تھا باجی بولی سسسسییی اففففف بھائی کی لن ہے تیرا قسمیں بہوں سوادی منی اے تیرے لن دی ایو جیا ذائقہ آج تک کسے لن دا نہیں آیا اففف اور آگے ہو کر میرے لن کو چومتی ہوئی چوپے مارنے لگی لن نکال کر بولی بھائی دل ہی نہیں کردا پیا تیرے لن نوں چھوڑن تے میرا لن باجی کے چوپوں سے ایک بار پھر تن کر کھڑا ہو چکا تھا
باجی میرے لن سے کھیلتی ہوئی کبھی چوسنے لگتی کبھی اپنے مموں میں دبا کر مسلنے لگتی میں نے ہاتھ نیچے کر باجی کی گت سے پکڑ کر اٹھا لیا اور باجی کو باہوں میں اٹھا کر بولا باجی کی خیال اے ہن وت گڈے گڈی دا کھیل ہو جاوے باجی نصرت ہنس کر بولی بھائی اے وی کوئی پچھن آلی گل اے میں باجی کے ممے چوسنے لگا باجی نے اپنی ٹانگیں میرے گرد لپیٹ لیں میں باجی نصرت کو اٹھا کر کمرے کی طرف چل پڑا اور کمرے میں لے جا کر بیڈ پر لٹا کر باجی نصرت کی شلوار کھینچ دی جس سے باجی نے اپنی ٹانگیں ہوا۔میں اٹھا کر کھول دیں میری سامنے میری سگی بہن نصرت کی پھدی کھل کر آگئی پھدی کا دہانہ ہلکا سا کھلا تھا جبکہ ہونٹ زیادہ کھلے نہیں تھے میں سمجھ گیا کہ باجی کی پھدی زیادہ استعمال نہیں ہوئی ہوئی میں نےنیچے ہوکر باجی نصرت کی پھدی کا دانہ چوم کر چوس لیا جس باجی کراہ سی گئی اور ہانپتی ہوئی مجھے دیکھنے لگی میں نے پیچھے ہو کر اپنے لن کا ٹوپہ اپنی بہن نصرت کی پھدی سے سیٹ کیا اور باجی نصرت کی ٹانگیں پیروں کے پاس سے پکڑ کر فل دبا کر باجی نصرت کے کاندھوں سے ملا دیں جس سے باجی نصرت کے چڈے فل گئے اور باجی کی پھدی فل کھل کر سامنے آ گئی اور باجی کراہ کر بولی اوئے ہالیوئے اماں چڈے ہی چیر دیتے نی اففف بھائیی۔۔ میں باجی کے اوپر فل آگیا اور باجی نصرت کے پیر میرے زور لگانے سے باجی کے سر سے آگے تک کھل کر ہو گئے تھے باجی نصرت جس سے سسک رہی تھی میں نے زور لگا کر اپنے لن کا ٹوپہ اپنی بہن نصرت کی پھدی میں اتار دیا جو پھدی ہے کھلے دہانے کی وجہ سے آسانی سے اندر اتر گیا جس سے باجی کی ٹانگیں ہلکی سی کانپ گئیں باجی سسکتی ہوئی ہانپ رہی تھی جس سے باجی نصرت کا پھولتا کوکا مجھے بے قابو کرنے لگا میں نے کوکے کو دیکھتے ہو رہا نا پایا باجی سسک کر سرگوشی سے بولی بھائی سارا لن ہک ہی دھکے اب میری پھدی اچ مند دے میں باجی کی بات سے مچل سا گیا اور انتظار کیے بغیر ہی پوری طاقت سے دھکا مار کر اپنا کہنی جتنا لمبا اور موٹا لن یک لخت پورا کا پورا اپنی بہن نصرت کی پھدی کے پار کر دیا لن باجی کی پھدی کو چیرتا ہوا باجی نصرت ہے ہاں میں اتر گیا جس سے باجی تڑپ کر اچھلی اور پوری طاقت سے ارڑا کر بکاٹ مار کر چیختی ہوئی میرے سینے پر ہاتھ رکھ کر دھکیلنے لگی باجی نصرت اتنی شدت سے تڑپ کر بکاٹ مار کر کرلائی جیسے بکری بچہ جنتے وقت بکاٹ مارتی ہے میں لن باجی نصرت کی پھدی میں جڑ تک اتار کر رک گیا جبکہ باجی مجھے دھکیلتی ہوئی دو تین بار پوری شدت سے ارڑا کر بکاٹ مار کر مچھلی کی طرح تڑپ کر رہ گئی میرے لن نے باجی نصرت کی پھدی کو ہاں تک چیر کے رکھ دیا تھا میں رک کر باجی کو چومنے لگا باجی کچھ دیر میں نارمل ہو کر کراہتی ہوئی بولی اوئے ہالیوئے بھائی میرا ہاں چیر چھڈیائی اوئے ہالنی میں مر گئی بھائی بہوں ظالم لن ہے تیرا ہائے ہائے ہائے میرا سینہ۔۔ اوئے ہال ہوئے باجی کچھ دیر آہیں بھرتی رہی پھر نارمل ہو گئی میرے لن کو باجی نصرت کی پھدی نے دبوچ رکھا تھا میں باجی کو نارمل دیکھ کر لن کھینچ کر آدھی تک نکال کر آہستہ آہستہ اندر باہر کرنے لگا جس سے باجی بری طرح کانپ کر آہیں بھرتی کراہنے لگی دو تین منٹ میں باجی نارمل ہونے لگی میں نے دھکے کی شدت بڑھا کر ایک پورے سے زور کا دھکا مار کر لن کھینچ کر باجی نصرت کی پھدی میں تیز تیز اندر باہر کرنے لگا جس سے باجی نصرت نے ایک اونچی کراہ بھری اور کانپ کر رہ گئی میں نے نیچے ہو کر باجی نصرت کے کوکے کو چوم لیا جس نے مجھے ایک نئی طاقت بخشی جس سے میں نے آگے ہو کر باجی نصرت کا کوکا ہونٹوں میں بھر کر دبا کر چوس لیا اور باجی کے پیر شدت سے دبا کر لن ٹوپے تک کھینچ کر پوری طاقت سے دھکا مار کر اپنا کہنی جتنا لن یک لخت پورا کا پورا ایک ہی جھٹکے میں پورا جڑ تک اپنی بہن نصرت کی پھدی میں اتارنے لگا جس سے لن دو تین بار باجی نصرت کی پھدی میں ٹپ تک نکل کر جڑ تک پھدی کے ہونٹ مسلتا ہوا تیزی سے گھسنے لگا جس سے باجی ہڑبڑا کر تڑپی اور تڑپ کر کرلا کر پوری شدت سے زور لگا کر دھاڑی اور دھاڑتی چلی گئی میرے تیز تیز دھکوں سے کہنی جتنا لن ٹپ تک نکال کر جڑ تک یک لخت باجی نصرت کی پھدی کے پار ہوتا باجی نصرت کا ہاں چیرنے لگا جس سے باجی کے ارڑاٹ بھرے بکاٹ نکل کر کمرے میں گونجنے لگی باجی کا منہ لال ہو رہا تھا میں رکے بغیر پوری طاقت سے دھکے مارتا کہنی جتنا لن باجی کی پھدی میں یک لخت اتارتا شدت سے چودنے لگا باجی مجھے روکے بغیر بری طرح تڑپتی ہوئی بکا رہی تھی میں آگے ہو کر کوکے کو کھینچ کر چوسنے لگا جس سے باجی نصرت کا کوکا میرے اندر نئی جان ڈالنے لگا اور میں اپنا سارا زور جمع کرکے پوری شدت سے لن کھینچ کھینچ کر باجی نصرت کی پھدی میں تیز تیز دھکے مارتا پھدی چیرنے لگا جس سے میرے لن کی کھردری چمڑی نے باجی نصرت کی پھدی کے ہونٹ رگڑ کر مسل دیے جس سے باجی تڑپ کر غرائی اور پوری طاقت سے بکا کر کوکاٹ مار کر میرے نیچے بری طرح تڑپنے لگی میرا لن تیز تیز اندر باہر ہوکر باجی نصرت کا ہاں چیرتا سینے میں اتر رہا تھا میرے لن کی موٹائی باجی کی پھدی بری طرح کاٹنے لگی تھی میں نے کوکا مزید کھینچ کر چوسا اور اپنا سارا زور جمع کرکے باجی نصرت کی پھدی میں دھکوں کی بارش کر دی جس نے باجی نصرت کی پھدی کا کچومر نکال کر رکھ دیا اور باجی کا ہاں چیر کر مسل دیا میرے لن کی کھردری چمڑی تیز تیز اندر ہوتی باجی نصرت کی پھدی کے ہونٹ مسل کر کاٹ رہی تھی باجی مجھے روکے بغیر بری طرح تڑپ کر پوری شدت سے بکاتی ہوئی ارڑا کر دھاڑنے لگی مسلسل دس منٹ میں باجی کی پھدی نے نڈھال کردیا تھا میں نے ہانپ کر باجی کے کوکے کو کس کر چوسا اور مزید طاقت ور دھکے مار کر باجی کی پھدی میں لن تیز تیز آر پار کرنے لگا میرے یہ دھکے باجی نصرت کی برداشت سے بڑھ گئے جس سے بے اختیار باجی پوری شدت سے ارڑا کر دھاڑی اور باجی نصرت کی حال حال نکل گئی جیسے باجی کی جان نکل رہی ہو میں رکے بغیر تیز تیز دھکے مارتا لن اپنی بہن کی پھدی کے آر پار کرتا چود رہا تھا باجی ارڑا کر حال حال کرتی بولی رہی تھی ہالیوئے اماں میں مر گئی اوئے ہالیوئے اماں میری پھدی اوئے ہالیوئے اماں اوئے ہال ہوئے اماں میرا ہاں چیری گیائی اوئے ہال ہوئے میں مر گئی اوئے ہالیوئے اماں میرا سینہ نصرت پوری شدت سے بکا کر حال حال کرتی بری طرح کانپ رہی تھی باجی نصرت کو مسلسل دس منٹ تک چودتا میں بھی نڈھال ہو چکا تھا باجی کی پھدی کی گرمی میرے اندر سے جان کھینچ رہی تھی میں مزید چار پانچ دھکوں پر بوکھلا گیا لیکن ساتھ ہی باجی کی اتنی شدت سے حال حال نکلی اور باجی نصرت کا چہرہ لال سرخ ہو گیا جیسے باجی نصرت کا کلیجہ منہ کو آگیا ہو اور باجی کی آواز بند ہونے لگی اگلے لمحے میری بھی ہمت جواب دے گئی اور نہیں کرلا کر کراہ گیا ساتھ ہی میرے لن نے ایک زوردار منی کی دھار باجی نصرت کی پھدی میں مار کر لن جڑ تک اتار کر باجی کے اوپر لڑھک کر باجی کا کوکا چوسنے لگا باجی بھی میرے ساتھ فارغ ہوتی ہوئی مسلسل بکاتی ہوئی حال حال کر رہی تھی جبکہ میں لن نصرت کی پھدی میں اتار کر رک چکا تھا اور نصرت کی بچہ دانی میں فارغ ہونے لگا ہے ہم دونوں بہن بھائی ایک دوسرے کو چومتے ایک دوسرے میں فارغ ہو چکے تھے باجی نصرت کی پھدی میرے لن کو نچوڑ چکی تھی جبکہ باجی ابھی تک آہیں بھرتی کرلا رہی تھی میرا کہنی جتنے لمبے موٹے لن نے باجی نصرت کی پھدی کا کچومر نکال کے رکھ دیا تھا باجی نصرت میرے نیچے پڑی بری طرح کانپتی ہوئی کرلا رہی تھی باجی آہیں بھرتی ہانپنے لگی میں باجی کوکے کو دبا کر چوسنے لگا کچھ دیر بعد نصرت سنبھلی تو کانپتی آواز میں بولی اوئے ہالیوئے بھائی تیرے لن تے میرا ہاں چیر کے رکھ دتا اففففف بھائی کی لن ہے تیرا میں باجی کے ہونٹوں کو چوم کر بولا باجی سواد آیا کے نہیں نصرت بولی بھائی نا پچھ بھائی تیرے لن تو آج اوہ سواد آیا ہا جہڑا کسے زمانے اوہ پیر دا لن دیندا ہا میں ہنس پڑا اور باجی کو چومنے لگا