شمائلہ کی چدائی


 میرا نام عاصم ہے اور میں پنجاب کے شہر گوجرانوالہ کا رہنے والا ہوں۔

ایک روز میرے ایک دوست عمیر نے مجھے کال کر کے بلایا۔ جب میں اسکی بیٹھک میں پہنچا تو وہاں عمیر کے پاس ایک عورت بیٹھی تھی جو کہ بہت پریشان دکھائی دے رہی تھی۔ میرے پوچھنے پر عمیر نے بتایا کہ یہ عورت میری جاننے والی ہے اور اسکے بیٹے کو پولیس نے بلاوجہ چرس کے کیس میں پکڑ لیا ہے۔ اُسے چھڑوانے کے سلسلے میں یہ ہم سے مدد چاہتی ہے۔ میں نے کہا عمر تم جانتے ہو میں اب پریس سے متعلق نہیں ہوں ۔ اس لیے شاید میں اب کوئی مدد نہ کر سکوں۔

یہ سن کر عورت رونے لگی اور کہنے لگی کہ میں بڑی امید لیکر عمیر کے پاس آئی تھی۔ عمیر مجھے کہنے لگا: عاصم ! یہ عورت مجھے بہت عزیز ہے اگر میں آپریشن کی وجہ سے بستر پر نہ پڑا ہوتا تو تمہیں

تکلیف نہ دیتا لیکن اب یہ کام تمہیں کرنا ہے ہر حال میں ۔ الغرض یہ کہ میں نے یہ کام کرنے کی ہامی بھر لی اور عورت سے پولیس سٹیشن، پولیس اہلکار اور کیس کے بارے میں ساری تفصیل جان لینے کے بعد وعدہ کیا اگر نے چاہا تو کل آپکا بیٹاآپکے پاس ہو گا ۔

میں اُسی شام میں نے اپنے کچھ جاننے والوں سے مشورہ وغیرہ کیا اور کل کیلئے پلانگ کرنے کے بعد رات کو سونے کیلئے لیٹا ہی تھا کہ پھر عمیر کی کال آگئی اور اُس نے بتایا اُس عورت کے گھر کچھ لوگ آئے ہوئے ہیں اور بے جا پریشر ڈال رہے ہیں، تم ذرا وہاں چکر لگا آؤ۔ میں چونکہ اس معاملے میں پڑ چکا تھا اس لیے مجبوراً جانا پڑا۔ عمیر سے اُس عورت کے گھر کا پتہ لینے کے بعد جب میں وہاں پہنچا تو اُس کے گھر میں گھر کے افراد تین بیٹیاں اور ایک چھوٹے بچے کے علاوہ کوئی نہیں تھا۔ عورت نے بتایا کچھ لوگ آئے تھے جو کہ اس محلے میں رہتے ہیں اور ہمیں یہ گھر چھوڑ نے کیلئے دھمکا رہے تھے۔ مانے سوچا اتنے چھوٹے سے کیس کی بنا پر کسے کوئی اتنی بڑی دھمکی دے سکتا ہے؟ ضرور دال میں کچھ کالا ہے۔ میں نے چیک کرنے کیلئے باتوں باتوں میں لوگ کسی حد تک کرپٹ ہیں۔ یہ عورت اپنے خاوند کو چار سال پہلے چھوڑ چکی ہے جبکہ اسکا سب سے چھوٹا بیٹا سال کا ہے۔ پھر پتا چلا کہ یہ عورت اور اس کی بڑی بیٹی سونیا چھپ چھپا کے چدوائی کا کام کرتی ہیں۔ ایسے لوگوں سے مجھے سخت نفرت ہے پر سچی بات یہ ہے کہ جب میں نے سونیا سے چھوٹی لڑکی شمائلہ کو دیکھا تو میرے دل میں بھی اسکو چودنے کی خواہش ابھری۔ شمائلہ کی ماں ایک منجھی ہوئی عورت ہے۔ اس نے شاید میرا ارادہ بھانپ لیا۔ کہنے لگی اگر تم میرے بچوں سے ملنا چا ہو تو سونیا ساتھ والے کمرے میں اکیلی لیٹی ہے، اُس سے گپ شپ کر لو۔

میں سونیا کے کمرے میں گیا تو وہ لیٹ کر ٹی وی دیکھ رہی تھی۔ سونیا اس انداز سے لی تھی کہ کسی کا بھی دل بے ایمان ہوسکتا تھا۔ وہ سائیڈ رخ لیٹی تھی اور اس کی قمیض چوتڑ سے نیچے تھی۔ اس کے سیکسی چوتر غضب ڈھا رہے تھے۔ اُسے دیکھ کر لگتا ہی نہیں تھا کہ اسے اپنے بھائی کے پکڑے جانے کا ذرا بھی افسوس ہے۔ میں اس کے ساتھ بیڈ پر بیٹھ گیا۔

میں نے اُسے پوچھا تمہیں اپنے بھائی کی کوئی فکر نہیں ؟ تو کہنے لگی وہ میرا بھائی نہیں۔ بس میری ماما کا کچھ لگتا ہے اور ہمارے ساتھ رہتا ہے۔ لوگ اسے ہمارا بھائی ہی سمجھتے ہیں۔ میں نے سونیا کی کمر میں ہاتھ ڈال کے اُسے اپنے قریب کیا تو وہ پکے ہوئے پھل کی طرح میری جھولی میں آگری۔ پھر وہ کافی دیر میری گود میں بیٹھی مجھ سے اپنے گھر کی باتیں کرتی رہی ۔ وہ باتیں کر رہی تھی اور میرا لن پوری طرح اکثر چکا تھا جو اسکی گانڈ کے بالکل درمیان میں تھا۔ وہ صاف طور پر میران محسوس کر رہی تھی پھر بھی میری گود سے اُٹھنے کا نام نہیں لے رہی تھی بلکہ بار بار اس انداز میں ہلتی کہ میرا لن اسکی گانڈ میں گھنے کی کوشش کرتا۔

جب میں وہاں سے آنے لگا تو کہنے لگی: عاصم ! آپ کیسے آدمی ہو؟ میں اتنی دیر تک آپکی گود میں بیٹھی رہی اور تم نے میرے محے تک نہیں چھوئے ، کیا بات ہے میں تمہیں اچھی نہیں گی ؟ میں نے کہا میں صاف گو شخص ہوں اس میں شک نہیں کہ تم بلا کی سیکسی ہو پر سچ یہ ہے کہ میں تمہاری چھوٹی بہن شمائلہ کے ساتھ سیکس چاہتا ہوں تو وہ کہنے لگی نہیں عاصم وہ ابھی چھوٹی ہے۔ میں نے کہا نہیں تمہیں چھوٹی لگتی ہے اس کے محے تمہارے مموں سے بڑے ہیں اور چوتڑ کی موٹائی بھی تم سے زیادہ ہے۔ کہنے لگی جو بھی ہے ابھی تک اسے کسی نے نہیں چودا۔ میں نے کہا میں زبردستی کا قائل نہیں ہوں۔ اگر نکار

ہے تو کوئی بات نہیں بہر حال تمہارا کام ہو جائے گا۔

اگلے دن میں نے طاہر (سونیا کا بھائی ) کو تھا نہ سیٹلائٹ ٹاؤن سے چھڑوا کر گھر بھیج دیا۔

☆☆☆

یہ جمعرات کی شام تھی۔ میں عمیر کے گھر اسکے پاس چمار داری کے لیے بیٹھا تھا کہ عمیر کے موبائل پر ایک کال

آئی۔ بات کرتے ہوئے عمیر نے کسی کو بتایا کہ عاصم بھی میرے پاس بیٹھا ہے۔ پھر عمیر نے اپنا موبائل میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا کہ سونیا تم سے بات کرنا چاہتی ہے۔ میں نے اس سے موبائل لیکر بات کرنا شروع کی تو سونیا نے سلام و دعا کے بعد شکوہ کیا آپ نے کبھی رابطہ کرنے کی زحمت ہی نہیں کی۔ میں نے کہا میں مصروف آدمی ہوں اور خوامخواہ کسی کا وقت برباد نہیں کرتا ۔ وہ اصرار کرنے لگی ایک بار گھر آؤ آپ کو خوش کر دوں گی۔ میں نے کہا تم جانتی ہو میں کیسے خوش ہو سکتا ہوں ۔ کہنے لگی تم آجاؤ کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی پڑے گا۔ بعد میں میں نے عمیر سے بات کی تو کہنے لگا چلو آج میں

بھی تمہارے ساتھ چلتا ہوں، کافی دن سے باہر کی ہوا نہیں کھائی اس بہانے تھوڑا انجوائے ہو جائے گا۔ اسی وقت ہم دونوں گاڑی میں بیٹھے اور سونیا کے گھر پیپلز کالونی جاپہنچے۔ طاہر، نائلہ اور انکا چھوٹا بھائی اپنی

ماں کے پاس ایک کمرے میں بیٹھے تھے۔ سونیا بھی وہیں آگئی ۔ ہم سب باتیں کرنے لگے۔ وہ لوگ عمیر کو اچھی حالت میں دیکھ کر بہت خوشی کا اظہار کر رہے تھے۔ تھوڑی دیر بعد سونیا نے مجھے ساتھ والے کمرے میں جانے کا اشارہ کیا۔ اُس کمرے میں شمائلہ بیٹھی ہوم ورک کر رہی تھی ۔ وہ 10th کی سٹوڈنٹ ہے۔ میں اُس کے پاس بالکل چپک کے بیٹھ گیا۔ مجھے حیرت ہوئی کہ وہ کھسکنے کی بجائے مسکرانے لگی اور پیار سے دیکھنے لگی۔ میں نے اُسے کہا: شمائلہ کیا میں تمہیں kiss کر سکتا ہوں ۔ کہنے لگی: جناب جتنی آپ کی تعریف سنی ہے اور جتنے آپ خوبصورت ہو کوئی بھی لڑکی آپ کو Kiss کرنے سے منع نہیں کر سکتی۔ میں نے کہا شاید تمہاری بات زیادہ درست نہیں کیونکہ لڑکیاں میرے نزدیک نہیں آتیں۔ کہنے لگی

یقینا وہ آپ کی بارعب شخصیت سے متاثر ہو جاتی ہوگی۔ میں نے اُسکے گول مٹول گورے چٹے گال پر kiss کی تو وہ جیسے مدہوش سی ہو گئی۔ کہنے لگی آپی سونیا نے مجھے

آپکے بارے میں بتا دیا ہے کہ آپ کیا چاہتے ہیں۔ میں اُن کی بات سن کے انکار نہیں کر سکی کیونکہ میں پہلی نظر میں ہی آپکو پسند کرنے لگی تھی اور میری خواہش تھی کہ آپ مجھ سے دوستی کریں۔ میں نے کہا میں تو دوستی سے کچھ زیادہ ہی کا خواہشمند ہوں تو کہنے لگی جناب شمائلہ کا سب کچھ آپ کے سامنے حاضر ہے اور ساتھ ہی مجھے اپنے ساتھ لٹا کر English kiss کرنے لگی ۔ اسکے گورے چٹے گول سے چہرے پر چھوٹے سائز کے 3 کی Shape لیے ہوئے گلابی ہونٹ چوستے ایسا لگ رہا تھا جیسے واقعی ان میں سے رس نکل رہا ہو۔ مجھے یقین نہیں ہو رہا تھا کہ یہ لڑکی اتنے Confident سے kiss کرے گی۔ وہ بار بار میری زبان اپنے منہ میں لے رہی تھی۔ اسکا بس چلتا تو میرے ہونٹ اور زبان دونوں ہی کھا جاتی۔ میں اسکی کمر میں ہاتھ پھیرتے ہوئے آہستہ آہستہ نیچے جانے لگا۔ جب میں نے اس کے چوتڑوں کو چھوا تو اسکے منہ سے سرکاری ہی نکلی اور وہ زور سے میرے ساتھ چپک گئی۔ پھر میں نے اس کی گانڈ کو دونوں ہاتھوں میں پکڑ لیا اور سہلانے لگا۔ ابھی میں نے اسکی گانڈ ینگی نہیں دیکھی تھی پر مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ اس کی وضع کیسی ہوگی۔ وہ کمال تھی۔ اسکی گانڈ ایسی تھی جیسے دوکشن آپس میں ملا دیے گئے ہوں۔ میں اسکی گانڈ کے سوراخ تک اپنی انگلیاں لے جانے کی کوشش کرنے لگا تو وہ یکدم اٹھ کے بیٹھ گئی۔ یہ کیسے ہوسکتا تھا کہ اب میں صبر سے کام لیتا۔ میں نے بھی اٹھتے ہی اسکی قمیض اتار دی۔ یہ تو اندر سے بھی کمال تھی۔ میں نے دھکا دے کر اسے پھر لنا دیا۔ اب وہ سیدھی لیٹی آنکھیں بند کیے زور زور سے سانسیں لے رہی تھی۔ اس کی سانس دھونکنی کی طرح چل رہی تھی۔ میں اس کے نئے غور سے دیکھنے لگا جو بلیک بریز ئیر میں چھپنے کی نا کام کوشش کرتے ہوئے جوش وخروش سے اوپر نیچے ہو رہے تھے۔ میں نے ہاتھ بڑھا کر اسکا بریز ئیر تھوڑا اوپر کھسکایا اور اسکے مجھے مسلنے لگا۔ اسکے مجھے بالکل گول اور اور گلابی مائل سفید تھے۔ اس کے نپل ہلکے براؤن تھے جو ابھر کر بہت سخت ہو چکے تھے۔ مجھے اسکے تھے مسلنے کا بہت مزا آرہا تھا۔ اسطرح کے مجھے تو میری کمزوری رہی ہے۔ وہ مدہوشی کے عالم میں کہنے لگی جان انہیں پاری (kiss) کرونا۔ میں نے دھیرے سے اپنے ہونٹ اسکے محے پر رکھ دیے اور پیار سے پاریاں کرنے لگا۔ پھر اسکے نیل اپنے منہ میں لے کر چوسنے لگا۔ اسکے ممے چوسنے کا اتنا مزا آیا جی چاہ رہا تھا سارے کا سارا ممامنہ میں ڈال لوں۔ اس کی کوشش بھی کی پر وہ سائز میں بڑا تھا اس لیے پورا منہ میں نہیں گیا۔ مجھے پتا ہی نہیں چلا تھا کہ کب اس نے اپنی برا اتا رہی تھی ۔ وہ یکدم اُٹھ کے بیٹھ گئی اور میری شرٹ اُتار نے لگی۔ ہر بٹن کھولتے ہوئے وہ میرے سینے کو چوم رہی تھی۔ اس نے میری ساری شرٹ اتار دی اور پاگلوں کی طرح میرے پورے جسم کو چومنے لگی۔ میرے پیٹ کو چومتے ہوئے جب وہ تھوڑا اینچے گئی تو اس نے بڑی مہارت سے میری پینٹ کی زپ کھولی اور میرا لن باہر نکالنے لگی۔ پھر اس نے میرا لن نکال کے ہاتھ میں پکڑ لیا اور سہلانے لگی۔ شاید اس کے جذبات کچھ زیادہ ہی چل رہے تھے۔ اس نے میرا بیٹ کھولا اور پینٹ نیچے کر دی۔ اب میرا لن پوری طرح اکثرا ہوا بالکل سیدھا اس کے سامنے تھا۔ وہ بے صبروں کی طرح اسے گھور رہی تھی۔ میں نے کہا کیا دیکھ رہی ہو؟ کہنے لگی عاصم ! تمہار ان بہت پیارا ہے جی چاہتا ہے اسے چوم لوں ۔ میں نے کہا تمہارا جو دل کرے تم کر سکتی ہو بلکہ میں بھی یہی چاہتا ہوں کہ میرے لن کو پیار کرو اس کے ساتھ کھیلو، اسے چوسو۔ میری بات سنتے ہی وہ میرے لن پر ٹوٹ پڑی اور زور زور سے چوسنے لگی۔ میرا لن جو نبی اس کے منہ میں گیا میری سانسیں بے ہنگم ہو گئیں اور میرا جسم تپنے لگا۔ وہ میرے لن پر ایسے جھپٹ پڑی تھی جس بھو کا بچہ فیڈر پر چھٹتا ہے۔ اس وقت ہم اردگرد کے ماحول سے بالکل بے خبر ہو چکے تھے۔ وہ میرا لن اپنے منہ سے نکال ہی نہیں رہی تھی ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ کھاہی جائے گی۔ وہ بار بار میرا پورا لن اپنے منہ میں لینے کی کوشش کرتی اور ہر بار نا کام رہتی کیونکہ میرا لن بڑا تھا۔ پھر وہ اس پر زبان پھیرنے لگی اور میرےٹٹوں کو منہ لے کر زبان کے ساتھ کھیلنے لگی۔ مجھ سے صبر نہیں ہو رہا تھا دل کر رہا تھا ابھی اپنا لن اس کی چوت میں گھسا دوں ۔

میں نے اسے کہا جان بس چوسنا ہی ہے یا کچھ اور بھی کرنا ہے؟ وہ میری بات کا جواب دیے بغیر میرے اوپر آگئی اور میرا لن پکڑ کر اپنی چوت میں ڈالنے لگی۔ ابھی تھوڑ اسا ہی اندر گیا تھا کہ زور سے سکی لے کر سائیڈ پہ ہوگئی۔ شاید اسے تکلیف زیادہ ہوئی تھی۔ میں اُٹھ کر بڑے پیار سے اسے گلے لگایا اور دو تین پاریاں کرنے کے بعد اسے لٹا دیا۔ اسکی گانڈ کے نیچے سرھانا رکھ کر اس کی چوت کو تھوڑا اوپر کیا اور اسکی ٹانگے دائیں بائیں کھول دیں۔ پھر اپنا لن اس کی چوت پر پھیرنے لگا۔ وہ سرکاری لینے کے انداز میں بولی: جان اسے اندر ڈال دواب برداشت نہیں ہورہا۔ میرا لن اسکے چونے کی وجہ سے بہت ملائم ہو چکا تھا۔ مجھے اس کی چوت بھی گیلی گیلی گئی۔ شاید وہ پانی چھوڑ چکی تھی۔ میں نے اپنا لن اسکی چوت کے سوراخ پر رکھا تو میرے لن کی ٹوپی خود بخود اس کی چوت میں چلی گی۔ ابھی ان ایک انچ ہی اندر گیا تھا کہ اپنے چیخ ماری میں نے گھبرا کر فورا اس کے منہ پر اپنا ہاتھ رکھا اور جھٹکے سے پورا لن اسکی چوت میں ڈال دیا۔ وہ تڑپنے لگی اور اپنا منہ میرے ہاتھ کے شکنجے سے چھڑانے کی کوشش کرنے لگی۔ اسکی آنکھ اس وقت ہوش ہی کسے رہتا ہے؟ کچھ ہی د کے مزے لے رہی تھی۔ میرے لن کو اس کی خون نکل رہا تھا پر وہ پوری طرح مد ہوش تھی ۔ سے بھر گئی تھیں ۔ وہ رونے لگی تھی پر میں نے پرواہ نہیں کی۔ مرور سکاریوں میں بدل گئیں ۔ اب وہ میرے ان کے جھٹکوں وئی رکاوٹ پیش نہیں آ رہی تھی۔ اسکی چوت سے ران اسکی چوت کے اندر ہی تھا۔ پھر جب وہ فارغ ہونے لگی تو اس نے میرے سر کو پکڑ کے زور سے دبایا اور میرے ہونٹ چوسنے لگی۔ پھر وہ یکدم پُر سکون ہوگئی پر میں لگا تار جھٹکے دیتا رہا۔ پھر میں نے لن اسکی چوت سے باہر نکالا تو کہنے لگی جان اسے اندر ہی رہنے دو، بڑا مزا آرہا ہے۔ میں نے کہا سونو ! التالیوں اسے الٹا کر کے میں نے اسکی کمر پکڑی اور اوپر کی طرف کر کے کو ہان بنادی۔ اب وہ گھوڑی بنی میرے سامنے تھی۔ پیچھے اسکی گانڈ کی طرف سے اسکی چوت کا سوراخ صاف نظر آرہا تھا جو کہ خون سے لت پت تھا۔ میں نے پیچھے سے اسکی چوت میں لن ڈالا تو وہ کہنے لگی جار میں یہی سننا چاہتا تھا۔ میں نے فورا چوت سے لن باہر نکالا اور اسکی گانڈ میں ڈالنے لگا۔ لین جوش میں بھر کر مزید موٹا ہو چکا تھا اور اس کی گانڈ میں نہیں گھس رہا تھا۔ میں نے اس کی گانڈ پر تھوک لگا کر سوراخ والی جگہ ملائم کی اور لن اوپر رکھ کے زور سے جھٹکا لگایا توان پورے کا پورا اندر چلا گیا۔ وہ پھر تو پی لیکن چینی

نہیں اور نہ ہی میرے نیچے سے کھسکنے کی کوشش کی ۔ کافی دیر ہم نے اسی پوز پر سیکس کیا۔ ہم تقریباً ایک گھنٹہ اندر رہے اور اس دوران میں نے کئی پوز بنا پر اسے چودا۔ کبھی وہ مجھ پر سواری کرتی اور کبھی

میں ۔ مجھے اسے چودنے میں اتنا مزا آیا کہ اسے چھوڑنے کو دل ہی نہیں کر رہا تھا۔ ہم دونوں بھی لگائے لیٹے تھے کہ اچانک کھنکارنے کی آواز آئی اور ہم دونوں یہ دیکھ کر سکتے میں آگئے کہ سونیا

کمرے میں بڑے آرام سے کھڑی ہے۔ ہمیں پریشان دیکھ کر کہنے لگی میں نے سب دیکھا ہے، میں کافی دیر سے یہاں کھڑی ہوں لیکن تم پریشان نہ ہو میں سب سمجھتی ہوں ۔ سونیا نے بتایا کہ اپنے چائے میں نیند کی دو املا کر سب کو پلا دی تھی ۔ اس لیے عمیر سمیت سب سور ہے ہیں اور ہماری اس ملاقات کا کسی کو پتا نہیں ۔ تب مجھے پتا چلا کہ سونیا نے ایک بار پہلے بھی

شمائلہ کو ایسے ہی کسی سے چدوایا تھا۔ یہ شمائلہ کی دوسری بار تھی۔ قارا ئین! مجھے لگتا ہے آپ کا کافی وقت لے لیا ہے اب مجھے اجازت دیجئے ۔ ویسے بھی آگے روایتی باتیں ہی

تھیں ۔ آپ کے فیڈ بیک کے پیش نظر سونیا اور اسکی ماں کی کہانی پھر بھی آپ کے گوش گزار کروں گا۔

گڈ بائے!

ایک تبصرہ شائع کریں (0)
جدید تر اس سے پرانی

Featured Post