کافی کی مخصوص خوش بو سے میری آنکھ کھلی۔۔۔ میں بیڈ پر اکیلا تھا میری حور میرے سرہانے کافی کا کپ لے کر کھڑی تھی۔۔ بولی صاحب! اٹھ کر کافی پی لیں۔۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اسے میری پسند کی کافی بنانی کیسے آتی ہے حالانکہ میں نے اسے ایک بار بھی نہیں بتایا تھا کہ میں کیسی کافی پیتا ہوں اور نہ ہی اس کے ساتھ اس سے پہلے کافی پی تھی۔۔ بہرحال کافی کی خوش بو مجھے جگانےکے لیے کافی ہوا کرتی ہے اسے یہ بھی معلوم تھا۔۔ وہ ہر ایک سیکسی لڑکی کی طرح کبھی مجھے کس کر کے نہیں جگاتی تھی۔۔ ہمیشہ بڑے ادب کے ساتھ فاصلہ رکھ کر جگاتی تھی۔۔۔ وہ عام لڑکی نہیں تھی۔۔۔ وہ بے حد حسین اور نازک تھی۔۔۔ وہ بہت اچھی تھی۔۔ میں انہی خیالات میں گم تھا کہ مترنم آواز آئی۔۔ صاحب! میرے متعلق ہی سوچتے رہیں گے یا وعدہ بھی پورا کرنے جائیں گے؟ میں چونک اٹھا کہ یہ میرا من پڑھ لیتی ہے۔۔۔ کیسے؟
ہم اٹھے تیاری کی۔۔ ملیحہ فریحہ اور نائلہ تیار تھیں۔۔۔ کار نکالی بیٹھے۔۔۔ فری کو اس کے امی ابو کے پاس چھوڑا۔۔۔ ہم نے لاہور کی راہ لی۔۔۔ آج ایک نئی منزل سر کرنی تھی۔۔۔ ملیحہ آج کی وی آئی پی شخصیت تھی اس لیے وہ میرے ساتھ فرنٹ پر بیٹھی ہوئی تھی۔۔۔ آج میری زندگی کی سب سے کم عمر پھدی کی سیل میرے ہی لوڑے سے ٹوٹنےوالی تھی۔۔۔ میں اڑتا جا رہا تھا۔۔ رستے میں ایک د و بار رک کر ہم نے کچھ کھایا پیا میں نے کافی لی۔۔۔ میرا دل و دماغ فری میں اٹکا ہوا تھا۔۔۔ میرا دل نہیں کر رہا تھا کہ میں اس سے دور جاؤں۔۔۔ لیکن مجھے اس کی بات کا مان بھی رکھنا تھا کہ وعدہ پورا کرو ۔۔۔۔ میں وعدہ پورا کرنے جا رہا تھا لیکن مجھے اب کسی اور میں اتنی کشش محسوس نہیں ہو رہی تھی۔۔۔ میں اس کے ساتھ لیٹ کر ہر پھدی اور گانڈ مار سکتا تھا لیکن اس سے دور جانا یا الگ رہنا میرے لیے مشکل ہو رہا تھا۔۔ بہرحال ہم لاہور پہنچے۔۔۔ ملازمین گھر کا کام مکمل کر کے جا چکے تھے۔۔ ہم باہر سے مچھلی کھا کر گھر پہنچ گئے۔۔۔ابھی شام ہو رہی تھی۔۔۔ میرا من اداس تھا۔۔۔ میں اس تبدیلی پر حیران تھا ج میرے اندر آ گئی تھی۔۔ مجھے کبھی کسی کی پروا نہیں ہوئی تھی۔۔ فون کی بیل نے مجھے اس ملگجے سے نکالا۔۔۔
حور کہہ رہی تھی صاحب! اداس نہ ہوں وعدہ پورا کریں اور میرے پاس آ جائیں۔۔۔ میں حیران تھا۔۔۔ وہ پاس نہیں تھی لیکن میرے اندر تھی۔۔ میں کچھ نہ بولا۔۔۔ اس نے اپنی عادت کے برخلاف مجھے ایک کس دی اور فون بند کر دیا۔۔۔۔
نائلہ، فریحہ اور ملیحہ نے مجھے پکڑ لیا۔۔ میرا جسم ان کے ہاتھوں میں تھا لیکن روح کہیں اور تھی۔۔ میں نے خد ک ان کے سپرد کر دیا۔۔۔ تینوں ننگی ہ چکی تھیں اور ایک دوسری کو چاٹ رہی تھیں۔۔۔ میرا لوڑا کس کے منہ میں تھا اور کس کا منہ میرے منہ میں تھا مجھے کچھ علم نہ تھا۔۔۔ پتہ نہیں اس طرح کتنی دیر لگ گئی۔۔ گھر میں نصب کیمرے سب کچھ ریکارڈ کر رہے تھے۔۔۔ ادھر نائلہ، ملیحہ اور فریحہ کے موبائل بھی سیٹ کر دیئے گئے تھے اور ہماری ویڈیو بھی بن رہی تھی تا کہ میری حور اسے دیکھ سکے۔۔۔ میں خود میں نہیں تھا۔۔۔ میں وہاں تھا ہی نہیں لیکن میرا لوڑا چوسا جا رہا تھا اور میے ہونٹ اور زبان بھی چوسی جا رہی تھی۔۔۔ اچانک ملیحہ نے کہا کہ انکل میں تیار ہوں۔۔۔ اس کے 32 کے ممے تنے ہوئے تھے۔۔۔ اس کی آواز سن کر مجھے ہوش آیا۔۔ میں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ وعدہ پورا کرنے کے لیے ملیحہ کو سیدھا لٹایا اور اس کی پھدی پر لوڑا سیٹ کر دیا۔۔۔ ابھی میں نے پوری طاقت جمع کرنی شروع کی کہ ایک ہی جھٹکے میں اس کی سیل توڑ کر جڑ تک اندر گھسا دوں گا ۔۔۔ نائلہ نے کہا کہ بھیا ایک منٹ رکنا۔۔۔ میں ٹھہر گیا۔۔۔ اس نے اپنا موبائل بالکل قریب کر لیا اور کہا کہ ہاں اب کر دیں اندر۔۔ میں نے اپنی پوری طاقت جمع کر کے لوڑا پوری قوت کے ساتھ اندر گھسا دیا۔۔۔ اچانک لوڑا اندر گیا تو ملیحہ بلبلا اٹھی۔۔۔ اس کی چیخیں نکل گئیں لیکن اس نے اپنے دونوں ہاتھوں سے میرے چوتڑ اپنی طرف کھینچے ہوئے تھے اور میں نے لوڑا جڑ تک اس کے اندر ڈال رکھا تھا اور اوپر سے فریحہ نے دباؤ بڑھایا ہوا تھا۔۔۔ مجھے اندازہ ہو گیا کہ بہت خون زیری ہو گئی ہے اور ملیحہ بے ہوش ہو چکی تھی۔۔۔ میرا موٹا اور لمبا لوڑا جڑ تک اس کے اندر گھسا ہوا تھا اور اب مجھے ڈر تھا کہ باہر نکالتے ہوئے پتہ نہیں کیا کیا ساتھ لے کر نکلے گا۔۔۔ میرا لوڑا ندر پھولتا جا رہا تھا۔۔۔ تھوڑی دیر اسی پوزیشن مٰں رہتے ہوئے میں نے لن اندر ہی رکھا اور ملیحہ بے ہوش پڑی رہی۔۔ پھر اچانک میں نے اس کی پھدی کے باہر نکالا اور ایک بار پھر ایک ہی جھٹکے میں اندر کر دیا۔۔۔ اب میں نے اس کے چوتڑ پکڑ کر تیزی سے گھسے مار کر اندر بایر کرنا شروع کر دیا ۔۔۔ بیڈ شیٹ لال ہو چکی تھی۔۔۔ خون میرے لوڑے کا بھی رنگین کر چکا تھا اور فریحہ نے اپنے خون اپنے ہاتھوں پر لگا کر اپنی اور نائلہ کی پھدی پر لگا دیا تھا۔۔۔ فریحہ مجھ سے کہنے لگی کہ انکل ملیحہ کا خون خرابہ مجھ س بھی زیادہ ہوا ہے۔۔۔ دیکھیں ابھی تک خون بہہ رہا ہے۔۔۔ میں نے اس کی بات ان سنی کر کے نائلہ کو کتیا بنایا اور اس کی چوت میں خون آلود لوڑا گھسا دیا۔۔۔ اور تیزی سے اس کے گھسے مارنے لگا۔۔۔ ملیحہ ابھی تک بے ہوش تھی اس کی پھدی سے کچھ لوتھڑے میرے لوڑے کے ساتھ ہی نکلے تھے۔۔۔وہ اب نائلہ کی پھدی میں چلے گئے تھے۔۔۔ اتنے میں میں نے فریحہ کو پکڑا اور اس کو نائلہ کے اوپر لٹا کر اس کی پھدیا میں لوڑا گھسیڑ دیا۔۔ اب نائلہ اور فریحہ کی پھدیا میں باری باری لوڑا اندر باہر کر رہا تھا اور بہت مزہ آ رہا تھا کہ دس منٹ کی چدائی کے بعد میں نے دیکھا کہ ملیحہ کو ہوش آ گیا۔۔۔۔ ملیحہ نے دیکھا کہ وہ خون میں لتھڑی پڑی ہے اور میں نائلہ اور فریحہ کی چوت اور گانڈ مار رہا ہوں۔۔ اس نے رہا نہ گیااور وہ مجھے آئی لو یو بولتے ہوئے میرے ہونٹوں سے چپک گئی لیکن اس کی آہ نکل رہی تھی وہ درد کے مارے کراہ رہی تھی۔۔۔ اب وہ اگلی پارٹی کے لیے تیار تھی کہ اس کی گانڈ اور چوت میں لوڑے بہ یک وقت جا سکتے تھے۔۔۔ میں نے وعدہ پورا کر دیا تھا اور اب ایک بار پھر میں نے فریحہ کی چوت سے لوڑا نکال کر نائلہ گانڈ میں گھسایا اور پھر وہاں سے نکال کر ملیحہ کی گانڈ میں گھسا دیااور پھر اس کی چوت میں ڈال کر اسے گود میں بٹھا لیااور اسے چودنے لگا۔۔۔۔ وہ رات اسی طرح تینوں کو چودتے گزری۔۔۔۔ صبح کے قریب ہم لوگ نڈھال ہو کر سو گئے۔۔۔ صبح کافی کی خوش بو سے میری آنکھ کھلی۔۔۔ میں نے جیسے ہی کافی کی خوش بو محسوس کی تو فورا آنکھ کھول دی۔۔۔ میں سمجھا کہ میری حور لیرے لیے کافی لیے کھڑی ہے۔۔۔ لیکن وہاں ملیحہ کافی لیے کھڑی تھی اور میرے ہونٹ چوس رہی تھی