دو حسیناؤں کے ساتھ



و حسیناؤں کے ساتھ خوب مزے کیے۔ پھر اگلے چند روز تک راوی نے چین لکھا۔ ایک دن کی بات ہے کہ میں آفس میں اکیلا بیٹھا دل ہی دل میں غم جہاں تو نہیں ۔۔۔۔البتہ حسیناؤں سے عشق و عاشقی کا ایک اجتماعی جائزہ لے رہا تھا ۔۔۔ کہ ۔۔۔ایسے میں بلا وجہ مجھے گوری میم صاحب یاد بے حساب آئی۔۔اور پھرررر۔۔۔ اس کی یاد اتنی شدت سے آتی چلی گئی کہ بندہ دل کے ہاتھوں مجبور گیا۔۔۔ اور اس امید پر کہ شاید پہلے کی طرح عدیل گوری سے بات کروا دے ۔۔۔۔۔ اسے فون دے مارا۔۔۔۔ کہتے ہیں کہ دل کو دل سے راہ ہوتی ہے ۔۔۔۔چنانچہ پہلی گھنٹی پر ہی۔۔۔۔۔۔۔ عدیل کی بجائے گوری میم نے فون اُٹھا لیا۔۔۔ جیسے ہی اس نے اپنی جلترنگ سی آواز میں ہیلو کہا تو پتہ نہیں کیا بات ہے کہ نا چاہتے ہوئے بھی وقتی طور میرے حواسِ خمسہ جواب دے گئے ۔۔۔۔ اور میں چند لمحوں کے لیئے بلکل مَبہوت ہو کر رہ گیا۔۔پتہ نہیں کیا بات تھی کہ جب بھی میں اس گوری سے بات کرنے لگتا تو میرے ٹٹوں میں جان ختم ہو جاتی تھی ۔ جبکہ دوسری طرف وہ ہیلو ہیلو کیے جا رہی تھی۔۔۔۔۔پھر شاید تنگ آ کر اس نے عدیل کو فون پکڑا دیا۔۔ ادھر جیسے ہی فون پر عدیل کی آواز سنائی دی۔۔۔۔۔اچانک پھر سے میری بیٹری چالو ہو گئی۔۔۔۔اور اسی وقت میرے منہ سے خود بخود ہی ہیلو نکل گیا۔۔۔۔اس کے ساتھ ہی میں اپنی خفت مٹاتے ہوئے بولا ۔۔۔کیا بات ہے یار بھابھی نے فون اُٹھایا بھی ۔۔۔۔لیکن بات کرنے کی بجائے ہیلو ہیلو ہی کیے جا رہی تھی۔۔۔۔تو اس پر عدیل کہنے لگا شاید نیٹ ورکنگ کا کچھ مسئلہ ہو۔۔۔۔۔ یہ بےچاری بھی مسلسل ہیلو ہیلو کیے جا رہی تھی۔۔۔۔پھر رسمی ہیلو ہائے کے بعد میں نے اس سے پوچھا کہ بھائی اب کیا چہلم تک رکنے کا ارادہ ہے؟ تو وہ جواب دیتے ہوئے بولا۔ ایسی بات نہیں ہے دوست ۔۔۔۔ہم لوگ تو آ جاتے مگر ماموں کی وجہ سے رکنا پڑ گیا پھر میرے پوچھنے پر اس نے بتلایا کہ نانا جی کے مرتے ہی ان کی جائیداد کے بٹوارے کا رولا پڑ گیا تھا جو کہ بمشکل حل ہوا ۔۔۔۔۔ اب وہ شاید پرسوں واپس آ ئیں ۔۔۔۔۔۔ پھر کہنے لگا کہ شاید کا لفظ اس لیے استعمال کیا ہے کہ ایک آدھ دن زیادہ بھی لگ سکتا ہے۔۔۔۔۔۔ میرے فون سے ٹھیک دو دن بعد کی بات ہے کہ اچانک عدیل کا فون آ گیا وہ کہہ رہا تھا کہ ویری سوری ۔۔۔۔دوست جلدی کی وجہ سے میں تمہیں مل بھی نہیں سکا۔۔۔۔۔۔پھر تھوڑا جھجھک کر بولا۔۔۔۔ میں گزشتہ رات امریکہ پہنچ گیا ہوں۔۔۔۔عدیل کی بات سن کر میرے دل کو ایک دھکا سا لگا اور میں نے اس سے پوچھا کہ ایسی بھی کیا ایمرجنسی تھی کہ سالے بنا ملے ہی امریکہ چلے گئے ہو؟ تو وہ کہنے لگا ۔۔۔ یار لفڑا ہو گیا تھا پھر کہنے گا تم یوں سمجھ لو کہ امریکن محکمہ ٹیکس نے مجھے ایک بہت ہی سخت نوٹس بھیج دیا تھا ۔۔۔جس میں انہوں نے مجھے ذاتی طور پر پیش ہونے کا بولا تھا ۔۔۔اس پرمیں تشویش بھرے لہجے میں بولا۔۔۔ یہ تو بڑی زیادتی ہے تو وہ کہنے لگا ہو جاتا ہے یار ۔۔۔۔ تو میں نے اس سے پوچھا اب کیا پوزیشن ہے؟ تو وہ کہنے لگا رات ہی تو یہاں پہنچا ہوں ۔۔ ابھی اُٹھا ہوں تو سوچا تم کو فون کر لوں پھر کہنے لگا۔تو سنا ؟۔۔۔۔۔کیسا ہے؟ ادھر عدیل گانڈو مجھے اپنی رام کہانی سنا رہا تھا جبکہ میرا سارا دھیان گوری میم کی طرف لگا ہوا تھا کہ سالی باہر و باہر ہی۔۔ ملے بغیر۔۔۔۔۔۔اور۔۔۔۔۔بغیر ہی چلی گئی۔۔جبکہ دوسری طرف عدیل مجھ سے کہہ رہا تھا کہ ہاں یار تم سے ایک درخواست کرنی تھی تو میں نے اس کو پورے خلوص سے کہا بول۔۔۔ تو وہ کہنے لگا میرا اور ماریہ کا پروگرام تھا کہ یہاں سے واپسی پر ہم لوگ فرانس سے ہوتے ہوئے جائیں گے۔۔۔۔۔ لیکن اس نوٹس کی وجہ سے مجھے ایمر جنسی میں آنا پڑ گیا اس لیے اگر ہو سکے تو اس کے ساتھ فرینچ ایمبیسی چلے جانا اور ویزے سے متعلق اس کی ہیلپ کر دینا۔۔۔ عدیل کے منہ سے یہ سن کر کہ وہ اپنے ساتھ گوری میم کو نہیں لے کر گیا۔۔۔ میرے دل میں لڈو پھوٹ گئے اور میں نے از راہِ تفنن اس سے کہہ دیا کہ یار وہ تمہاری مامی کی ادلہ بدلی والی سٹوری تو بیچ میں ہی رہ گئی۔ میری اس بات پر وہ قہقہہ لگا کر ہنسا۔۔۔۔۔اور پھر کہنے لگا۔۔۔ سالے بہن چود!۔۔۔دنیا چاند پہنچ گئی اور تو ابھی تک وہیں کا وہیں کھڑا ہے۔۔۔۔ ۔۔۔اس کے بعد وہ سیریس ہو کر کہنے لگا۔۔۔۔۔۔سٹوری کی فکر نہ کرو میں مامی سے کہہ دوں گا تم اس کے منہ سے سن لینا ۔۔۔۔اس پر میں اس سے بولا۔۔۔۔ اوئے گانڈو! ۔۔۔۔کیوں مامی کے ہاتھوں۔۔مجھے بے موت مروانے کا ارادہ ہے۔۔۔۔۔تو وہ ہنستے ہوئے

بولا۔۔۔۔۔ جیسا کہ تمہیں معلوم ہے ۔۔۔کہ وہ ایک نمبر کی گشتی عورت ہے۔۔۔۔ چنانچہ اگر اسے تم پسند آ گئے ۔۔۔ تو لکھ لو کہ ۔۔۔تم اس سے کسی صورت نہیں بچ سکو گے۔۔۔ پھر تھوڑا وقفہ دے کر کہنے لگا۔۔۔۔اور یہ بھی لکھ لو کہ اگر اسے تم پسند نہ آئے۔۔۔۔ تو تم اس کے ساتھ کچھ بھی نہیں۔۔۔۔ سکو گے۔۔۔۔۔۔پھر کہنے گا ۔۔اس لیئے تو کہتا ہوں کہ۔۔ اگر مامی کا دل نہ ہوا تو میں تمہیں ٹیلی فون پر سنا دوں گا دوسری طرف عدیل کی یہ بات سن کر کہ اگر میں مامی کو پسند آ گیا تو وہ مجھے دے دے گی۔۔۔۔۔میرا دل بلیوں اچھلنے لگا۔۔۔۔۔اور میں دھڑکتے دل کے ساتھ اس سے بولا ۔۔۔ کیا تم سچ کہہ رہے ہو؟ تو وہ جواب دیتے ہوئے بولا۔۔۔۔ جھوٹ بولنے کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔۔۔۔ پھر حسبِ معمول تھوڑا پاز دے کر بولا۔۔۔۔۔تم نے دیکھا نہیں کہ مامی کس قدر کھلی ڈھلی خاتون ہے۔تو میں ڈرتے ہوئے بولا۔۔۔۔ دیکھنا یا ر کہیں مروا نہ دینا۔۔تو وہ ہنستے ہوئے کہنے لگا۔۔۔ میں مروانے کی نہیں بلکہ مارنے کی بات کر رہا ہوں ۔اور پھر چند باتوں کے بعد اس نے فون رکھ دیا۔۔۔۔اور میں مامی کے بارے میں سوچنے لگا اس بات سے تیسرے دن بعد کی با ت ہے کہ مجھے صائمہ باجی کا فون آیا۔۔۔۔ ان کی زبانی معلوم ہوا کہ وہ لوگ کل رات کو واپس آئے تھے پھر وہ آہستگی کے ساتھ کہنے لگیں میں نے تمہیں فون اس لیے کیا ہے کہ گھر آ کر پہلے میری ماما اور پھر ساسو ماں سے نانا ابو کی تعزیت کرتے جاؤ۔ چونکہ صائمہ باجی کی بات معقول تھی اس لیئے میں شام کو آنٹی کے گھر (مطلب عدیل کے گھر) پہنچ گیا۔ میرا خیال تھا کہ انکل اور آنٹی گھر میں اکیلے ہوں گے ۔ لیکن وہاں پہنچ کر دیکھا تو ایک میلا لگا ہوا تھا مطلب آنٹی کے گھر کافی رش تھا۔وہاں پر ندرت مامی کو دیکھ کر میری حیرت دو چند ہو گئی۔اس لیے جب میں ا ن سے مل رہا تھا تو میرے منہ سے ویسے ہی نکل گیا کہ آج تو بڑے بڑے لوگ آئے ہیں۔۔۔۔میری بات سن کر وہ چونک کر بولیں۔۔۔۔ کیا میں پوچھ سکتی ہوں کہ بڑے بڑے لوگوں سے تمہاری کیا مراد ہے؟ تو میں نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے ویسے ہی کہہ دیا کہ آپ مرتبہ میں بڑی اور اعلیٰ ہو۔۔۔۔ اس لیے آپ کو اعلیٰ کہہ دیا تو کیا برا کیا؟ تو وہ ہنس کر کہنے لگی اعلیٰ کے بچے! کیا تمہیں معلوم ہے کہ میں یہاں کس مقصد کے لیے آئی ہوں؟ تو میں حیرانی سے بولا نہیں مجھے تو نہیں معلوم آپ یہاں کیوں آئی ہو؟ میری بات سن کر انہوں نے پاس کھڑی صائمہ باجی کو آواز دیتے ہوئے کہا۔۔۔صائمہ زرا ادھر تو آنا اور ۔۔ندرت مامی کی آواز سن کر صائمہ باجی جھٹ سے ہمارے پاس آن کھڑی ہوئی تو مامی ان سے مخاطب ہو کر کہنے لگی ذرا اس کو بتاؤ کہ میں یہاں خاص طور پر کس لیے آئی ہوں؟

مامی کی بات سن کر صائمہ باجی کی آنکھوں میں اک پیار بھرا شعلہ سا لپکا اور وہ کہنے لگیں تمہیں معلوم ہے کہ آنٹی تمہاری جان چھڑانے کے لیے یہاں آئی ہیں۔۔اس پر میں حیران ہو کر اس سے بولا۔۔۔میری جان کس نے پکڑی ہوئی تھی جو کہ آنٹی چھڑانے کے لیے آئیں ہیں ؟ تب صائمہ کی بجائے آنٹی آگے بڑھیں اور مجھ سے کہنے لگیں میں تانیہ کا رشتہ لے کر آئی ہوں۔۔۔پھر مسکراتے ہوئے بولیں وہی تانیہ جس کے ساتھ بنا اعلان کے تم منگنی شدہ ہو۔۔۔ پھر میری طرف دیکھتے ہوئے ایک خاص ادا سے بولیں یوں سمجھ لو کہ میں تمہاری جان چھڑانے کے لیے آئی ہوں مامی کی بات سن کر میں نے جیسے ہی صائمہ باجی کی طرف دیکھا تو وہ کہنے لگی آنٹی کو سب پتہ ہے۔۔اس کے بعد وہ اور آنٹی مجھے ایک طرف لے گئیں اور وہاں جا کر صائمہ باجی نے مجھے بتلایا کہ اس کی ماما نے میرے اور اس رشتے کے بارے میں آنٹی کو سب بتا دیا تھا۔ صائمہ باجی کی بات ختم ہوتے ہی مامی کہنے لگی تم واقعی ہی ایک بہت اچھے اور رشتے نبھانے والے لڑکے ہو۔۔پھر میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بڑی شرارت سے بولیں۔۔اچھا یہ بتاؤ کہ تم نے اس لڑکی کے ساتھ کچھ کیا بھی تھا۔۔۔۔۔ یا صرف رومانس ہی لڑاتے رہے ہو؟ آنٹی کے منہ سے اتنی بے باک بات سن کر میں تھوڑا گھبرا گیا ۔۔لیکن پھر معصوم بنتے ہوئے بولا ۔۔۔ ابھی ابھی تو وہ بےچاری صدمے سے باہر نکلی تھی۔۔۔۔اور ابھی ابھی تو اس کے ساتھ علیک سلیک شروع ہوئی تھی۔۔کہ اوپر سے آپ آ گئیں۔۔۔۔۔۔ ۔ میری بات سن کر مامی ہنستے ہوئے کہنے لگی شکر کرو ۔۔۔اس کے ساتھ کچھ کیا نہیں ۔۔۔ورنہ ایسے معاملوں میں بعض اوقات لینے کے دینے پڑ سکتے ہیں ۔۔۔ پھر میری طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگیں۔۔۔میں اس بات سے از حد خوش ہوں کہ عدیل نے پہلی دفعہ کوئی ڈھنگ کا دوست بنایا ہے اس کے بعد جب میں نے انہیں بتایا کہ میں آنٹی کے والد کی تعزیت کے لیے آیا ہوں تو وہ بھی میرے ساتھ ہو لیں۔چنانچہ میں نے آنٹی اور انکل کے ساتھ تعزیت کی ۔اس دوران آنٹی کو میں نے بہت افسردہ پایا۔۔۔۔دعا کرتے ہوئے بھی وہ مسلسل روئے جا رہیں تھیں۔۔۔۔ تعزیت کے بعد ایک بار پھر رسمی جملوں کا تبادلہ ہوا ۔۔۔۔اور میں ان کے ساتھ ادھر ادھر کی باتیں کرتا رہا۔۔۔۔

لیکن میں نے محسوس کیا کہ آنٹی نے اپنے ابو کی موت کا بہت سوگ منایا تھا ۔۔۔۔چنانچہ میں نے کچھ دیر تک ان کے ساتھ باتیں کیں پھر میں اُٹھ کر جانے لگا تو آنٹی مجھ سے کہنے لگیں۔۔۔۔بیٹا ایک بات کہنی تھی اور وہ یہ کہ جب تک ندرت اور ماریہ ادھر ہیں ۔۔۔۔ ہماری خاطر تمہیں لانے لے جانے کے لیے تھوڑی سی ڈرائیو کرنی ہو گی پھر کچھ توقف کے بعد کہنے لگیں۔۔چھوٹی موٹی گاڑی تو ہم سب چلا لیتی ہیں لیکن ہم لوگ اتنی پکی ڈرائیونگ نہیں جانتیں۔۔اس لیے اگر آپ کچھ وقت ہمیں دے دو ۔۔۔تو بڑی مہربانی ہو گی ۔۔اس پر میں نے ایک نظر آنٹی کی طرف دیکھا۔۔۔اور پھر کہنے لگا۔۔۔۔۔۔اوکے آنٹی ۔۔۔لیکن ۔۔۔چونکہ میں ایک سروس پیشہ بندہ ہوں اس لیے میری خدمات ہر وقت دستیاب نہیں ہوں گا وہ کہنے لگیں۔۔۔ٹھیک ہے بیٹا۔۔ ویسے۔۔۔۔ چھوٹا موٹا کام ہوا تو ہم خود گزارا چلا لیں گی۔۔۔۔ آپ کو کسی خاص موقع پر زحمت دی جائے گی ۔ اور کمرے سے باہر نکل کر جانے لگا تو صائمہ باجی بولیں کہاں چل دیئے؟ تو میں ان سے کہنے لگا۔۔۔ ۔۔۔آپ کے سسرال بھی جانا ہے تو وہ مسکراتے بولیں۔۔۔ تھوڑی دیر بعد چلے جانا کہ کھانا تیار ہے پھر بولی آج کا کھانا اس لیے بھی خاص ہے کہ اسے ماریہ بھابھی نے تیار کیا ہے۔ماریہ یعنی کہ گوری کا نام سن کر میں وہیں رک گیا۔اور دل ہی دل میں سوچنے لگا کہ اسی لیے دیدارِ یار نصیب نہیں ہوا کہ یار کچن میں بزی تھی۔۔۔۔

اس وقت میں ڈائینگ ٹیبل پر بیٹھا مامی سے گپ شپ کر رہا تھا کہ ہاتھ میں ٹرے لیئے گوری میم ڈائیننگ روم میں داخل ہوئی اسے دیکھتے ہی مامی بڑے خوش گوار موڈ میں کہنے لگی آج کیا پکایا ہے؟ تو آگے سے گوری نے انگریزی کھانوں کے دو تین نام لیے جو کہ باوجود کوشش کے بھی میرے پلے نہیں پڑے لیکن مامی سمجھ گئی اور اس سے بولی واؤؤ تم پکا بھی لیتی ہو؟ تو گوری مسکراتے ہوئے بولی وائے ناٹ آنٹی؟ ۔۔۔پھر کہنے لگی۔۔۔ میں تو عد یل کی پسند کے سارے کھانے بنا لیتی ہوں۔ ابھی گوری اور صائمہ باجی کھانا لا ہی رہی تھیں۔۔۔ کہ اچانک انکل کمرے میں داخل ہوئے اور مجھ سے مخاطب ہو کر بولے شاہ جی جلدی آؤ۔۔ان کی گھبرائی آواز سن کر میرے سمیت ڈائینگ ٹیبل پر بیٹھے سارے لوگ اُٹھ کھڑے ہوئے اور اس سے پہلے کہ میں ان سے کچھ پوچھتا وہ خود ہی کہنے لگے کہ تمہاری آنٹی بے ہوش ہو گئی ہیں ۔۔۔ چنانچہ میں بھاگ کر ان کے کمرے میں گیا ۔۔۔۔ تو دیکھا کہ آنٹی پلنگ پر بے ہوش پڑی تھیں میں نے ایک نظر آنٹی کی طرف دیکھا اور پھر بھاگ کر گیراج پہنچا ۔۔۔۔ چابی اگنیشن میں ہی لگی ہوئی تھی سو میں نے جلدی سے گاڑی اسٹارٹ کی ۔۔۔۔۔اور مارکیٹ چلا گیا جہاں سے ایک ڈاکٹر صاحب کو ساتھ لیا اور آنٹی کے گھر پہنچ گیا ۔۔۔ دیکھا تو صائمہ باجی اور مامی آنٹی کے دونوں ہاتھ پاؤں کی مالش کر رہیں تھیں۔۔ڈاکٹر نے آنٹی کو اچھی طرح چیک کیا اور پھر لیڈیز سے سوال و جواب کے بعد وہ کچھ دوائیاں لکھ کر دیتے ہوئے بولا۔۔ گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔۔۔۔صدمے کی وجہ سے ان کا شوگر لیول اور بلڈ پریشر کم ہو گیا تھا۔اس لیے کوشش کیجئے گا کہ کچھ دن انہیں زیادہ دیر تک اکیلا نہ چھوڑا جائے۔۔پھر میں ڈاکٹر کو واپس کلینک چھوڑنے چلا گیا وہاں سے واپسی پر کھانہ کھایا اور بغرضِ تعزیت فرزند صاحب کے گھر چلا گیا۔۔

اگلے کچھ دنوں میں ۔۔۔۔۔ میں نے یہ بات اچھی طرح سے جان لی تھی کہ مامی مجھ میں بہت زیادہ انٹرسٹ لے رہی ہیں۔۔۔۔لیکن میرا سارا فوکس گوری کی طرف ہونے کی وجہ سے۔۔۔۔ میں انہیں خاطر خواہ جواب نہ دے پا رہا تھا۔۔۔میں گوری کے قریب ہونے کی کوشش کرتا وہ بھی رسپانس دے رہی تھی ۔۔لیکن عین موقع پر میرے ۔۔۔۔۔حواس جواب دے جاتے تھے۔۔یعنی اپنی بنڈ میں ساہ مُک جاتا تھا ۔ اور بعض دفعہ تو گوری نے بھی اس بات کو محسوس کیا تھا۔۔۔۔ لیکن۔۔۔؟۔۔۔ جبکہ دوسری طرف میں نے محسوس کیا تھا کہ مامی مجھ سے کچھ کہنا چاہ رہی تھیں لیکن کہہ نہ پا رہی تھیں۔۔۔۔۔جبکہ میں دو کشتیوں کا سوار۔۔مامی کی لینا بھی چاہ رہا تھا لیکن سارا دھیان گوری کی طرف تھا۔۔۔۔۔ پھر ایک دن کی بات ہے کہ مجھے عدیل کا فون آ گیا۔۔۔اور وہ میرے ہیلو کے جواب میں بولا۔۔۔۔ سالے تو ہے ایک نمبر کا حرامی۔۔۔۔تو میں نے اس سے پوچھا کہ وہ کیسے؟ تو وہ کہنے لگا وہ ایسے کہ مامی جیسی گھاگ عورت تیرے پیچھے پڑی ہے لیکن تو اسے لفٹ نہیں کروا رہا تو میں نے اس سے پوچھا کہ یہ بات تم کیسے کہہ سکتے ہو؟ تو وہ جواب دیتے ہوئے کہنے لگا کہ یار مامی کا فون آیا تھا وہ (مجھ سے) مذاقاً کہہ رہی تھیں کہ تمہارا دوست تو مجھ میں ذرا بھی انٹرسٹ نہیں لے رہا۔۔۔۔۔۔۔۔ اب میں عدیل کو کیسے سمجھاتا کہ گوری میم کے ہوتے ہوئے میں مامی کو کیسے لفٹ کرا سکتا ہوں۔۔۔۔۔ لیکن ظاہر ہے کہ میں اس سے یہ بات ہر گز نہیں کہہ سکتا تھا اس لیے بات کو بناتے ہوئے بولا۔۔۔ یار میں تو تیری مامی کا ہاتھ بندھا غلام ہوں ۔۔۔ لیکن پتہ نہیں انہیں ا یسا کیوں لگتا ہے تو آگے سے وہ کہنے لگا چلو چھوڑو اس بات کو۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے تمیں ایک بڑی ضروری بات کے لیے فون کیا ہے۔۔ اور وہ ضروری بات یہ ہے کہ مامی کی” دوائی” ختم ہو گئی ہے ۔۔ وہ براہِ راست تم سے مانگ نہیں سکتی اس لیئے انہوں نے مجھے کہا ہے اس پر میں نے عدیل سے مامی کی ” دوائی” (شراب) کا برانڈ نام پوچھا اور اس سے بولا مامی سے کہہ دو کہ کل یا پرسوں تک انہیں مل جائے گی۔۔تو وہ تھوڑا جھجھک کر بولا۔۔۔ وہ یار ماریہ کی “دوائی ” بھی فنش ہے تو میں اس سے بولا تو لگے ہاتھوں اس کا برانڈ نام بھی لکھوا دو تو وہ کہنے لگا۔۔دونوں کا برانڈ سیم ہے۔۔۔تو وہ کہنے لگا کہ اگر ایڈوانس کچھ چاہیئے تو ابھی جا کر مامی سے لے لو۔۔۔اس پر میں سنجیدہ ہو کر بولا۔۔ایڈوانس کو چھوڑ۔۔۔۔۔مامی کو دوائی بھی مل جائے گی ۔۔۔۔۔ لیکن میری ایک شرط ہے اور وہ یہ کہ مامی کو تمہارے ساتھ ہونے والی ادلہ بدلی کی سٹوری سنانی پڑے گی میری بات سن کر عدیل قہقہہ لگا کر ہنسا اور پھر کہنے لگا۔۔۔۔اوئے مہاراج!!!۔ کس دنیا میں رہتے ہو؟ کل اسے شراب کی بوتل دو اور اسے اپنے سامنے پلا دو ۔۔جب وہ ٹُن ہو جائے تو پھر جو مرضی ہے پوچھ لینا ۔۔۔پھر کہنے لگا ۔۔۔ویسے میں تمہارا یہ میسج ان تک پہنچا دوں گا۔۔۔۔ا س کے بعد اس نے ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد فون رکھ دیا۔۔۔۔ اور میں مامی اور جانِ بہار ۔۔۔ رشکِ چمن۔۔۔ غنچہ دھن ۔۔۔سیمیں بدن۔۔۔۔ مطلب گوری میم صاحب کے لیئے “دوائی” کا بندوبست کرنے لگا۔

اگلے دن چونکہ آف ڈے تھا اس لیے میں دوپہر کو ہی آنٹی کے گھر چلا گیا دیکھا تو سارا ٹبر ڈائینگ ٹیبل پر بیٹھا ناشتہ کر رہا تھا جیسے ہی میں ڈائینگ حال میں داخل ہوا تو مامی نے خمار آلود نظروں سے میری طرف دیکھا اور پھر اپنے ساتھ والی خالی کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی ۔۔ادھر بیٹھ جاؤ اور میں چپ چاپ ان کے پاس جا بیٹھا ۔۔ابھی مجھے بیٹھے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ مامی نے ایک ہلکی سی دھول میری تھائی پر ماری ۔۔۔۔اور پھر بڑی ہموار لہجے میں بولی۔۔۔۔۔۔عدیل نے فون کیا تھا تو میں تھوڑا جھجھک کر ان سے بولا جی کل شام کو اس سے بات ہوئی تھی، میری بات سن کر وہ میری طرف جھک کر بولی۔۔دوائی لائے ہو؟ تو میں ان سے بولا ۔۔ جی کہہ دیا ہے آج شام یا کل صبع تک مل جائے گی ۔۔میری بات سن کر وہ مسکرائی اور پھر ہولے سے کہنے لگی۔۔۔۔۔ جیسے ہی تمہیں دوائی ملے ۔۔ مجھے ایک فون مار دینا پھر ہم بہانہ بنا کر کہیں لانگ ڈرائیو پر نکل جائیں گے۔۔۔۔وہاں کھل کر پینے کا اپنا ہی مزہ ہو گا۔۔ چنانچہ اگلے دن جیسے ہی میں نے ان کی “دوائی” وصول کی تو اسی وقت انہیں فون کر دیا۔سن کر ازحد خوش ہوئیں اور پھر کہنے لگیں جلدی سے گھر آ جاؤ مجھے پھر۔۔۔مجھے ایک دوست کے گھر بھی جانا ہے ۔۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا انہوں نے فون بند کر دیا تھا۔۔ 

ایک تبصرہ شائع کریں (0)
جدید تر اس سے پرانی

Featured Post