میں اسلام آباد کا رہایشی ہوں اور میری عمر اکتیس سال ہے. کچھ حالات ایسے بنے کہ میری شادی آج تک نہیں ہو سکی. حالانکہ میں آج ایک بہت ہی اچھی نیم سرکاری پوسٹ پہ جاب کر رہا ہوں. میری اس well paid جاب کے پیچھے میری اکلوتی سگی بہن کی سب سے ذیادہ محنت ہے بلکہ اگر یوں کہا جاۓ کہ میری یہ نوکری اسی کے مرہون منت ہے تو گراں نہ ہو گا. میرا نام حیدر ہے اور میری بہن کا نام مریم ہے جس کی عمر اب انتیس سال ہے. مریم کے خدوخال وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور کہانی پڑھنے کے ساتھ ساتھ آپ کو خود ہی معلوم ہو جایئن گے.
میری فیملی میں بس ہم تین لوگ یعنی میں میری ہمشیرہ اور والد صاحب ہی رہتے ہیں. والد صاحب آرمی میں بطور صوبیدار سروس کرتے رہے اور ننانوے کی کرگل جنگ میں اپنے ملک کی خاطر دونون ٹانگیں گنوا بیٹھے.
کہانی آج سے چار سال پہلے کی ہے جب مریم پچیس سال کی کٹر جوانی کی دہلیز پہ تھی. میں بھی نیا نیا گریجوویٹ ہوا تھا اور جاب کی تلاش میں مارا مارا پھرتا تھا. مریم ماسٹرز کی طالبہ تھی اور جب ہم دونون گھر سے نکل جاتے تو بوڑھے والد صاحب جو کہ علیل بھی تھے وہ اکیلے دن بھر ہم دونوں کا انتظار کرتے رہتے. میں ان دنوں ایک چھوٹی سی جاب کر رہا تھا اور مریم یونیورسٹی جاتی تھی. اسکی روٹین بہت ٹف تھی . یونیورسٹی سے واپس آتے ہی گھر کے کاموں میں جت جانا . والد صاحب کا کسی میٹ کی طرح خیال رکھنا . میرے چھوٹے چھوٹے کام نپٹا دینا. بعض اوقات مجھے اپنی معصوم اور نہایت شریف سی بہن پہ بہت ترس آتا . لیکن حالات فی الحال ایسے نہیں تھے کہ میں کوئ خادمہ یا میٹ افورڈ کرتا. مجھے اس کی جوانی پہ ترس آتا. میں پہلے پہل ایک بہت غیرت مند بھائ تھا لیکن جیسے جیسے مریم جوان ہوتی گئ اس کا بدن نا قابل یقین حد تک گرم اور نشیلا ہوتا گیا. بعض لڑکیاں ایسی ہوتی ہیں جنہیں دیکھتے ہی زبان کسی پیاسے کتے کی طرح باہر نکل آتی ہے اور نگاہیں انکے لچکدار جسم کا تا حد نگاہ پیچھا کرتی ہین. مریم بھی انہی لڑکیوں مین سے ایک تھی. 38 سایز کے حیران کن ممے .. کیوںکہ میری بہن کی شرافت کا پورے شہر میں کوئ مقابلہ نہیں تھا اور عمر بھی تو ابھی صرف پچیس سال کی الھڑ جوانی کی تھی! پھر یہ پنجابی ٹائپ کہ موٹے موٹے تھن آخر کیسے! کبھی جو میں اسے دوپٹے کے بغیر دیکھوں تو اچانک سے میرے دک میں یہ خیال آتا تھا. خوبصورت تریں نین نقش تھوڑا گورا اور سانولا بدن پتلی لچکدار کمر اور چھ فٹ آٹھ انچ کا قیامت خیز قد.. اس کچکدار کمر اور سینے پہ سجے دو صحت مند اور تنے ہوۓ گول موٹے موٹے تھنوں کے بعد ایک باہر کو ابھری ہوئ مکھن کی طرح نرم و گداز موٹی بنڈ . مریم کی قیامت خیز جوانی جو بھی دیکھتا وہ بس دیکھتا ہی رہ جاتا . کئ لوگوں کو میں نے مریم سے بات کرتے کسی گہرے خیال میں گم ہوتے دیکھا . مریم کی گانڈ ایسے تھی جیسے دو موٹے موٹے غبارے کسی نے فل ہوا بھر کے اس کی ٹانگوں کے پیچھے لٹکا دیے ہوں جو مریم کے حرکت کرنے پر آذادانہ تھرتھراتے تھے. نیچے پتلی ٹانگین اور دودھ جیسے سفید پاؤں. غرض میں یقین سے کہ سکتا ہوں کہ مریم ہمارے سیکٹر کی سب سے گرم اور سیکسی لڑکی تھی. مجھے اگر کسی چیز نے مریم پہ گرم کیا یا اس کی طرف مائل کیا تو وہ صرف اور صرف اس کا فگر تھا. اس کی خوبصورتی تھی. لیکن میں کوئ بڑھک نہ مارتے ہوۓ یہ سچ سچ عرض کرون گا کہ میں نے مریم سے براہ راست کبھی کچھ کرنے کی کوشش نہیں کی. مجھ میں ہمت ہی نہ تھی جیسے کوئ بھی بھائ اپنی بہن کہ ساتھ کچھ بھی نہیں کر سکتا ویسے میں بھی اس کے ساتھ کچھ نہیں کر سکتا تھا .
وقت گزرتا گیا .. مریم کا ماسٹرز ایک سال میں complete ہو گیا اور میری بھی ایک نیم سرکاری ادارے میں نوکری لگ گئ. مریم اب گھر پہ وقت گزارنے لگی اور میں جاب پہ جاتا تھا . آفس میں میرے باس کا نام محسن تھا جو ایک ٹھڑکی لیکن نہایت چوتیا انسان تھا. وہ ایک ممی ڈیڈی افسر تھا جس کی عمر بتیس سال تھی . شادی شدہ تھا اور اس کے دو بچے بھی تھے . آفس کی کسی لڑکی پہ اگر ٹھڑک کرتا تو چھپ چھپ کہ کرتا تھا. اسے بدنامی کا بہت ڈر تھا لیکن ہوس سے بھی مجبور تھا . یا یون کہین کہ بہت شریف آدمی تھا لیکن ہوس نے اسے مجبور کر رکھا تھا
وہ گرمیوں کی ایک شام تھی . میں ایک پارک کے قریب سے پیدل گھر جا رہا تھا جو کہ ہمارے گھرکہ راستے میں ہی آتا تھا. میرا گھر آفس سےپیدل فاصلے پہ تھا . میں نے اچانک اپنے سامنے مریم کو محسوس کیا لیکن ایسی حالت میں کہ میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گیئں .. ہم لوگون کے متعلق کیا کیا مفروضے بنا کہ رکھتے ہیں حقیقت جن کے مکمل بر عکس ہوتی ہے .. یہاں تمام بھایئوں سے یہ گزارش کرتا چلوں کہ ہم مرضی جتنا اپنی بہنوں پہ بھروسہ اعتبار کریں یا ان کے بارے میں اس طرح نہ سوچیں چکر کہیں نا کہیں انکا ضرور ہوتا ہے آج کے دور میں جو کہ گلوبل ولیج کا دور ہے اپنی بہنوں سے یہ امید رکھنا کہ وہ شریف ہیں اور شریف ہی رہیں گی محض چتیاپے کہ علاوہ کچھ بھی نہیں ..
مریم ہلکے پیلے رنگ کی شلوار قمیض میں ملبوس تھی اور ایک لڑکا اپنی بانہوں کے حصار میں مریم کو لیے بیٹھا تھا .. میری بہن اتنی بولڈ….اوہ خدایا…. لیکن ایک بات جس کے بارے میں میں اتنا sure نہین وہ میرے جذبات تھے .. مجھے لگا کہ میری خوشی کی کوئ انتہا نہ تھی. میری اس فیلنگ کو یہاں موجود انسیسٹ لوگ ہی خوب سمجھ سکتے ہیں .. میں اتنا ایکسایئٹڈ تھا کہ میں نے آج ہی اس متعلق مریم سے بات کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا. میں نے ایک درخت کی اوٹ سے تصویر اتارنا چاہی لیکن ایسا ممکن نہین ہو سکا. میں چپکے سے گھر آ گیا
گھر میں مریم نہیں تھی سو والد صاحب سے حال احوال پوچھنے کی بعد اور fresh ہونے کی بعد میں بے چینی سے مریم کا انتظار کرنے لگا. میں نے ریشمی سا ٹراوزر ہہنا تھا جس کے اندر میرا پہلوان نہ جانے کیوں آج اکڑا ہوا تھا. شام کے قریب مریم گھر آئ مگر تھکاوٹ اس کے چہرے سے عیاں تھی . پیلی پٹیالہ سلکی شلوار میں اس کی گانڈ کو نوچ کھانے کا دل کر رہا تھا. کتنا خوش قسمت تھا وہ شخص جو میری سگی بہن کے سلکی ملائم جسم کا لمس لے رہا تھا. اس نے اپنے آپ کو کنٹرول کیسے کیا تھا.. یہ سوچ کہ میں پریشان ہو رہا تھا .. مریم آتے ہی فریش ہونے چلی گئ اور جب وہ باہر آئ تو حسن کی دیوی لگ رہی تھی. سکن کلر کی قمیص اور کالا ڈھیلا سا ٹراوزر..اس کے اندر سے موٹی تازی بنڈ کے وہ ابھار .. میری نیت کا جنازہ نکال رہے تھے ..
میں نے والد صاحب کہ سو جانے تک اس سے کوئ بات نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا ..
جب والد صاحب سو گیۓ تو میں نے مریم کو اپنے کمرے میں جانے سے روک دیا
“مریم! میری بات سن کے جانا”
“جی بھائ¿” اس نے سوالیہ نظرون سے میری طرف دیکھا.
“آج کہاں تھیں تم¿” بظاہر رعب دار آواز لیکن دل میں یہ آرزو کہ میری بہن ابھی یہ کہ دے کہ اپنے یار سے ڈیٹ مارنے گئ تھی.
“بتایا تو تھا بھائ! سحرش کے گھر گئ تھی” اس کی شہد سے بھی میٹھی آواز میرے کانوں سے ٹکرائ.
“تم سحرش سے ملنے اس کے گھر گیئن تھی نا¿ ہھر پارک میں وہ کون تھا اور تمہارا کیا لگتا تھا¿”
مجھ سے مزید صبر نہ ہوا اور بہن کہ منہ سے حقیقت سننے کی لیۓ اصل سوال کر ہی دیا. “وہ .. مم… میں ..” اس کے حسین چہرے کا رنگ غائب تھا . .. میرے چہرے پہ بظاہر غصہ تھا لیکن اس کے دوپٹے کو پھاڑ کی باہر نکلنے کے لیۓ بے تاب تھن ابھی بھی میری توجہ کا مرکز تھے.
“کیا وہ میں وہ میں لگا کہ رکھی ہے? کون تھا وہ? مجھے سیدھے سے بتاؤ”
میرا والیم بڑھ گیا.
” وہ سحرش کا بھائ تھا”
اتنا کہ کہ مریم کے اندر مزید وہان ٹھہرنے کہ ہمت نہ رہی .. وہ وہان سے بھاگ گئ. . لیکن میں بھی پیچھا چھوڑنے والا کہاں تھا . دوستو کمرے کی طرف تیزی سے جاتے ہوۓ مریم کے دو ڈھول جیسے موٹے موٹے چوتڑ کیا نظارہ پیش کر رہے تھے یہ الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے.
مین اس کے کمرے میں پہنچا لیکن اس نے کنڈی لگا لی. میں نے لاکھ کوشش کی لیکن اس نے دروازہ نہ کھولا.. بالآخر میرے دروازہ توڑنے کی دھمکی پہ اس نے روازہ کھول دیا
میں کمرے کہ وسط میں لگے صوفے پہ بیٹھ گیا .. وہ اپنے بیڈ پہ تھی. اس کا سر اس کے گھٹنوں میں تھا اور وہ رو رہی تھی. اس کی بنڈ کیا قیامت خیز منظر پیش کر رہی تھی اس کا اندازہ آپ لگا سکتے ہیں .. گانڈ پہ زور پڑنے کی وجہ سے مریم کے چوتڑ باہر کو پھیل گیۓ تھے.
“اچھا تم رو نہیں! تمہارا رونا بھی مجھ سے برداشت نہیں ہو رہا”.
میں تھوڑا سا بیک فٹ پہ گیا ہی تھا کہ وہ بجلی کی سی تیزی سے اتری اور اپنا سر میرے گھٹنوں پہ رکھ کہ پھوٹ پھوٹ کہ رونے لگی. اگر کوئ دور سے ہمیں اس پوز مین دیکھتا تو لگتا کہ مریم میرا لنڈ چوس رہی ہے .. میں نے مریم کے سر پہ دست شفقت رکھا.. ” ایسا نیچرل ہے مریم. غلطیاں ہم انسانوں سے ہی ہوتی ہیں. ہمیں اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنا چاہیے”
“میں آپ سے معافی مانگتی ہوں بھائ. آہکو خدا کا واسطہ آپ مجھے معاف کر دیں اور آپ پاپا کو کچھ نہیں بتایئں گے .. آپ وعدہ کریں . ” اس نے اپنی نرم ملائم اور گرم ہتھیلیون میں میرے ہاتھ لے لیۓ .. میرے ذہن میں بس ایک ہی خیال آیا .. یہ ہاتھ جس لوڑے کو ہاتھ میں لیتے ہوں گے وہ ایک سیکنڈ میں پچکاری مارتا ہو گا.
میں نے اس سے وعدہ کیا کہ میں کسی کو کچھ نہیں بتاؤن گا لیکن پہلے یہ بتاؤ کہ تمہارا اس کے ساتھ رشتہ کہاں تک ہے¿
“ہم ہر حد کراس کر چکے ہیں….” یہ کہنا تھا کہ وہ ایک بار پھر پھوٹ پھوٹ کہ روئ. اس کی آنکھوں میں خوف تھا .. کہ میں نجانے اس کہ ساتھ کیا سلوک کروں گا .. میری آنکھوں میں چمک تھی . خوشی کی چمک.. یہ خوشخبری کیا کم تھی کہ میری بہن گانڈو تھی اور چالو تھی..
میں نے اس سے مزید کچھ نہیں کہا اور وہان سے چلا آیا. میں نے اپنے کمرے میں آ کہ زندگی کی سب سے مزیدار مشت زنی کی..
ایسے ہی کئ دن گزرتے گیۓ. ایک دن کچھ یوں ہوا کہ ہمارے کچن کا سامان ختم ہو گیا اور سامان لانے کے لیۓ میں اور مریم دونوں مارکیٹ جاتے تھے . میں نے مریم سے اسی سرد لہجے میں تیار ہونے کو کہا.
باہر میں اس کا ویٹ کرنے لگا.. مریم جب باہر نکلی تو اس کے انگ انگ سے آگ نکل رہی تھی. میری آفیشلی گشتی چالو بہن قیامت ڈھا رہی تھی. موٹی بنڈ سلکی ٹائٹ میں قید تھی جو اسے پھاڑ کہ باہر آنے کو بے تاب تھی. ٹائٹ قمیض جس میں پتلی سی کمر نخرے کر رہی تھی. سینے پہ سجے بھینس کے جیسے دودھ سے بھرے تھن.. اس کے اوپر مریم کی خوبصورتی.. میں دنیا میں خود کو سب سے خوش قسمت ترین انسان تصور کر رہا تھا.
رکشہ کی مدد سے ہم مارکیٹ ہہنچے .. لوگون کی ہوس بھری نظریں میری بہن کے ساتھ زنا کر رہی تھیں اور میری بہن حقیقتأ زانی تھی. آج میں نے محسوس کیا کہ مریم کے فگر کے ساتھ ساتھ اس کی چال بھی اسے سیکس بم بناتی تھی .. چلتے ہوۓ اپنی بنڈ کو نخرے کروانا کوئ مریم سے سیکھ سکتا تھا .. ایک چوتڑ اوپر اور دوسرا نیچے.. اور پھر بہت مشکلون سے دونوں چوتڑ سلکی پاجامے میں قید کیۓ ہوے ….
خریداری کرنے کے بعد ہم جونہی گیٹ سے باہر نکلے میری ملاقات میرے باس سر محسن سے ہوئ.
“ہیلو حیدر! کیسے ہو¿”
“فائن سر! آپ سنایۓ”
“بس یار یہ دیکھ لو ! حالات کچھ ایسے ہین کہ Grosary بھی خود ہی کرنا پڑ رہی ہے”
” کیوں سر¡ خیریت? بھابھی نظر نہیں آ رہیں¿ “
“یار انکی طبیعت خراب تھی. سو خود ہی چلا آیا,,,….” یہ بات کہتے کہتے وہ رک گیۓ. کیونکہ انکی نظر مریم پر پڑ چکی تھی.. ایک نمبر کا ٹھڑکی انسان جب مریم جیسی رن کو دیکھے گا تو ٹھہرے گا تو سہی..
“سر یہ میری سسٹر ہیں .. مریم .. “
“اوہ اچھا! nice to see you!”
مریم کی طرف مڑ کہ سر محسن نے کہا.
مریم نے جواب میں ایک سیکسی سی مسکراہٹ پاس کی. محسن سر کا ایک رنگ گیا اور ایک آیا. اس قدر شہوت انگیز سراپا شاید انہون نے پہلی دفعہ دیکھا تھا. “آؤ تم لوگون کو ڈنر کرواتا ہوں” انہون نے چال چلی. میں چاہتا تو یہی تھا کیوںکہ سر کے حذبات دیکھ کہ میرے ذہن میں بہت سے خیالات جنم لے رہے تھے. لیکن میں نے مریم کو کوئ شک نہ ہونے دیا اور سر محسن کو منع کر دیا. ان سے اجازت لے کہ ہم روانہ ہوۓ.
دوسرے دن آفس میں معمول کا کام تھا. اچانک مجھے سر نے اپنے آفس بلوایا.
” آ سکتا ہوں سر¿” اجازت لے کہ میں اندر داخل ہوا.