جیسے ہی گاڑی مین روڈ پر پہنچی تو تھوڑا آگے جا کر ۔۔۔ آنٹی نے اچانک ہی گاڑی کو ایک سائیڈ پر روکا۔۔اس سے پہلے کہ میں کچھ سمجھتا وہ دونوں ہاتھ اسٹرئیرنگ پر رکھ کر بولیں۔۔۔ ا س دن تم کیا کہہ رہے تھے۔۔۔ کہ تم۔۔ یہ سب مجھے امپریس کرنے کے لیے کر رہے ہو ؟ آنٹی کی بات سن کر میں چونک اُٹھا۔۔۔ اور ایک نظر ان کی طرف دیکھا ۔۔۔۔۔ تو ان کی آنکھوں میں مجھے ایک عجیب سی چمک نظر آئی۔۔۔۔۔ یہ چمک دیکھ کر میری چھٹی حس نے مجھے مخصوص سگنل دیا۔۔سگنل پاتے ہی ۔۔۔۔میں نے ان کی طرف دیکھا ۔۔۔۔اور پھر اپنے لہجے میں ہندی فلموں کا سارا رومانس بھر کے بولا۔۔۔جی میں نے ایسے ہی کہا تھا۔۔۔۔ میری بات سن کر انہوں نے میرے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا ۔۔۔ اور مخمور لہجے میں بولیں ۔۔۔ ” تو سنو شاہ جی!۔۔۔ میں تم سے واقعی ایمپریس ہو گئی ہوں ” اتنی بات کرتے ہی انہوں نے بنا کوئی بات کیئے گاڑی چلا دی۔۔عورتوں / آنٹیوں کے قانون کے مطابق انہوں نے جو کہنا تھا اشارے سے کہہ دیا۔۔۔ ۔۔۔اب آگے میری ہمت پر منحصر تھا کہ۔۔۔میں ان کے اشارے سے کتنا فائدہ ا ُٹھاتا ہوں۔۔۔اور جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ میں اس قسم کے معاملات میں اچھا خاصہ تاک بلکہ ہنرمند واقع ہوا تھا۔۔۔ ۔ چنانچہ میں دیکھا کہ ان کا ایک ہاتھ ابھی تک گیئر پر ہی رکھا ہوا تھا۔۔۔ ۔۔۔ سو میں نے بڑی آہستگی کے ساتھ ۔۔۔۔ اپنا ہاتھ ان کے نرم ہاتھ پر رکھ دیا۔۔۔ ۔۔اور بڑی ہی رومینٹک ٹون میں بولا۔۔۔ آپ تو آج ایمپریس ہوئی ہو ۔۔۔جبکہ میں تو آپ کو دیکھتے ہی گھائل ہو گیا تھا۔۔۔۔میرا محبت بھرا ڈئیلاگ سن کر ان کا چہرہ سرخ ہو گیا۔۔ لیکن وہ بولی کچھ نہیں۔۔۔ ادھر ان کی خاموشی کو نیم رضا مندی جان کر میں نے ان کے ہاتھ کو سہلانا شروع کر دیا ۔۔۔ ۔۔۔۔ اور ایسا کرتے ہوئے براہ راست ان کی طر ف دیکھنے بجائے کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا۔۔۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ۔۔۔۔ میں کن اکھیوں سے ان کے ردِ عمل کا بھی جائزہ لیتا جا رہا تھا۔۔۔۔ اور میری توقع کے عین مطابق نہ تو انہوں نے میرے ۔۔۔۔ اور نہ ہی اپنے ہاتھ کو گیئر سے ہٹانے کی کوئی کوشش کی۔۔۔ کچھ دیر یونہی گزر گئی۔۔۔۔ ۔۔ میں ان کے ہاتھ کو سہلاتا رہا ۔۔۔۔اور وہ چپ چاپ گاڑی چلا تی رہیں۔۔ ۔۔ میں جو کام کر رہا تھا ۔۔۔۔وہ اسے اچھی طرح سمجھ رہیں تھی۔۔۔ لیکن چُپ تھیں۔۔ ۔۔۔ کار میں گہری خاموشی چھائی تھی ۔۔۔۔ اسی دوران ۔۔۔میں نے ایک سٹیپ آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا۔۔۔۔اور ان کا ہاتھ پکڑ کر۔۔۔۔اپنے ہونٹوں تک لے گیا۔۔۔ اور اس کی پشت کو چوم کر بولا۔۔۔۔ارم آنٹی۔۔۔۔ آپ بہت پیاری ہو ۔۔ میرے اس عمل پر بھی انہوں نے کوئی ردِ عمل نہیں دیا۔۔۔اور ویسے ہی گاڑی چلاتی رہیں۔۔۔میں کن اکھیوں سے دیکھا تو۔۔ ۔۔۔۔ کار میں ائیر کنڈیشن چالو ہونے کے باوجود بھی ان کا ماتھا پسینے سے چمک رہا تھا۔۔۔ دوسری طرف میرے اس طرح ہاتھ چومنے پر بھی جب وہ خاموش رہیں ۔۔۔ تو اس بات سے مجھے اچھا خاصہ حوصلہ ہوا۔۔۔۔جس کی وجہ سے میں نے ایک سٹیپ آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا۔۔۔۔۔ چنانچہ ہاتھ سہلاتے سہلاتے۔۔۔۔۔۔ میں نے ان کا ہاتھ پکڑ ا۔۔۔۔اور ان کی ران پر رکھ دیا۔۔۔اُف۔۔۔ ان کی ران بہت ہی نرم اور ریشم کی طرح ملائم تھی ۔۔۔۔۔۔۔دوسری طرف میرے ہاتھ کو اپنی ران پر محسوس کرتے ہی انہوں نے ایک جھرجھری سی لی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور چونک کر میری طرف دیکھا۔۔۔۔ لیکن منہ سے کچھ نہیں بولی ۔۔۔۔۔۔۔ ران پر ہاتھ رکھ کر ۔۔۔۔۔۔۔ میں نے چوری چوری ان کی طرف دیکھا۔۔۔۔ تو وہ بار بار اپنے خشک ہوتے ہونٹوں پر زبان پھیر رہیں تھیں۔۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ بھی گرم ہو رہیں تھیں ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔ یہ دیکھ کر مجھے مزید حوصلہ ہوا۔۔۔۔۔ کیونکہ یہ اس بات کی نشانی تھی کہ میں بغیر رکاوٹ کے۔۔۔ اپنی منزل کی کی طرف بڑھ رہا تھا۔ ۔۔۔ ران پر ہاتھ رکھنے کے کچھ دیر بعد ۔۔۔۔۔۔ ۔۔میں ان سے بولا ۔۔۔۔ کیا خیال ہے آنٹی ۔۔۔ ایک نظر پلاٹ کو نہ دیکھ لیا جائے؟۔۔۔۔ پلاٹ والی بات میں نے اس لیئے کی تھی کہ میں ان کے ساتھ مزید کچھ وقت گزارنا چاہ رہا تھا۔۔۔ ادھر میری بات سن کر وہ بس اتنا بولیں ۔۔۔ دیکھنے میں کوئی حرج نہیں۔۔اس کے ساتھ ہی انہوں نے گاڑی کا یو ٹرن لیا۔۔۔ اور اب ہم شہر سے باہر کی طرف ان ہاؤسنگ سوسائٹیز کی طرف جا رہے تھے کہ جہاں پر آنٹی کا پلاٹ واقع تھا ۔۔۔۔۔ کچھ دور جا کر۔۔۔۔۔ میں اپنی سیٹ سے تھوڑا آگے کھسکا ۔۔۔ اور ان کی ران پر ہاتھ پھیرنا شروع کر دیا۔۔۔ میری اس حرکت سے وہ تھوڑا سا ان ایزی ہوئیں ۔۔۔ لیکن پھر۔۔۔۔ اگلے چند سیکنڈز کے بعد۔۔۔۔۔ نارمل ہو گئیں۔۔۔
یہ دیکھ کر میں ان کی ران کو سہلانا شروع ہو گیا۔۔۔۔ اس کے ساتھ ساتھ میں نے ان کی طرف دیکھا ۔۔۔۔۔تو ۔۔۔اس وقت ان کا ماتھا پسینے سے تر تھا۔۔۔۔۔۔جبکہ دوسری طرف میں بڑی آہستگی کے ساتھ ان کی ملائم رانوں پر ہاتھ پھیر رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور پھر میں نے کن اکھیوں سے ان کی طرف دیکھا ۔۔۔۔تو جزبات کی شدت سے ان کا چہرہ اچھا خاصہ سرخ ہو چکا تھا۔۔۔۔ لیکن وہ ضبط کیئے بیٹھی تھیں۔۔۔۔۔۔ ادھر میرے اندر بھی ان کی پھدی کی طلب بڑھتی ہی جا رہی تھی۔۔۔۔ جو اس وقت میری انگلیوں سے چند ہی سینٹی میٹر سے دوری کے فاصلے پر واقع تھی۔۔ جس کی ان دیکھی ہیٹ سے میں بے قرار ہوتا جا رہا تھا۔۔۔۔ پھر مجھ سے رہا نہیں گیا۔۔۔۔۔چنانچہ ان کی نرم ملائم ران پر ہاتھ پھیرتے پھیرتے ۔۔۔ ۔۔۔۔ جیسے ہی میں نے اپنی انگلیاں ان کی ۔۔۔ انر تھائی ( ران کی اندرونی سمت۔۔۔ مطلب چوت کے پاس ) کی طرف لے جانا چاہیں۔۔۔ تو اسی دقت انہوں نے اپنی دونوں رانوں کو آپس میں جوڑ لیا۔۔۔ اور ۔۔۔میری طر ف دیکھتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔ ک۔۔کک۔۔کیا کر رہے ہو؟ تو میں نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے شہوت بھرے لہجے میں بولا ۔۔۔ کچھ نہیں آنٹی۔۔۔ تو وہ بڑے ہی سخت لہجے میں کہنے لگیں۔۔۔۔۔۔تم غلط سمجھے ہو۔۔۔ مم۔۔۔ مم ۔۔میں ایسی عورت نہیں ہوں ۔۔۔اپنا وار خالی جاتے دیکھ کر۔۔۔۔۔ میں نے پینترا بدلا۔۔۔۔ اور شرمندہ سی شکل بنا کر بولا۔۔۔ سوری آنٹی۔۔لیکن کیا کروں ۔۔میں آپ کے آگے بے بس ہو گیا تھا۔۔۔۔۔ پھر انہیں مکھن لگاتے ہوئے بولا۔۔۔ آنٹی میں کیا کروں کہ آپ میں کشش ہی اتنی ہے کہ میں خود پر کنٹرول نہ رکھ سکا۔۔ اور اس کے ساتھ ہی پچھتانے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے سر جھکا کر بیٹھ گیا۔۔۔میری توقع کے عین مطابق آنٹی نے کچھ دیر تک مجھے جج کیا کہ کہیں میں ڈرامہ تو نہیں کر رہا؟ ۔۔۔ لیکن جب انہیں پختہ یقین ہو گیا کہ میں سچ مچ شرمندہ ہوں ۔۔۔۔۔۔ تو دفعتاً انہوں نے گاڑی کو ایک 03035260224 سائیڈ پر روکا۔۔۔۔اور میری تھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھ کر اسے اوپر اُٹھاتے ہوئے بولیں۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔ناراض ہو گئے ہو؟
تو میں ڈرامہ کرتے ہوئے بولا۔۔۔ آپ مجھے قتل بھی کر دیں تو بھی میں۔۔۔ آپ سے ناراض نہیں ہوں گا۔۔۔۔ قتل کا نام سنتے ہی انہوں نے تڑپ کر میرے منہ پر اپنا ہاتھ رکھا اور کہنے لگیں ۔۔۔ ایسے نہ کہو۔۔۔۔ میں کیا شکل سے تمہیں قاتل لگتی ہوں؟ اس پر میں بولا ۔۔۔۔ آپ قاتل نہیں تو اور کیا ہو؟ ۔۔۔۔ اچھے خاصے بندے پر ایسا جادو کر دیا ہے۔۔۔۔کہ اس نے جو نہ کرنا تھا وہ بھی کر بیٹھا۔۔۔ ۔۔۔ میرا محبت بھرا۔۔۔۔اور ۔۔۔۔ جگر پاش بیان سن کر آنٹی بے خود ہو کر بولیں۔۔۔ وہ میرا مطلب تھا ۔۔کہ تم اتنی جلدی۔۔۔ بہت آگے تک چلے گئے تھے۔۔۔ ان کی بات سن کر میں نے بڑی ہی رومینٹک نظروں سے ان کی طرف دیکھا اور پھر کہنے ۔۔۔۔ ارم جی ! تو پھر آپ ہی بتا دیں کہ میں کہاں سے شروع کروں؟۔۔اور پھر ان کے جواب کا انتظار کیئے بغیر ۔۔ اپنی سیٹ سے اوپر اُٹھا۔۔۔۔ اور ان کے ہونٹوں پر ہونٹ رکھ دئیے۔۔۔۔ ان کے ہونٹ گلاب کی پتی کی طرح بہت ہی نرم اور رس سے بھرے تھے۔۔۔ ادھر جیسے ہی میں نے ان کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھے۔۔تو وہ میرے چہرے کو پیچھے دھکیلتے ہوئے بولیں۔۔۔ ارے۔۔ارے۔۔۔یہ کیا کر رہے ہو۔۔۔ لوگ دیکھ لیں گے۔۔۔ اس پر میں ان سے بولا۔۔۔کیا کروں ۔۔ آنٹی۔۔۔۔ مجھ سے برداشت نہیں ہوتا۔۔کیونکہ آپ میں سیکس اپیل مجھے کسی پل بھی چین نہیں لینے دے رہی۔۔۔۔ اتنے کہنے کے بعد ان سے بولا۔۔۔۔۔آپ پلیز ایسا کریں گاڑی اس طرف لے جائیں کہ جہاں کوئی آتا جاتا نہیں ۔۔۔۔۔ ۔۔۔تو وہ کہنے لگی ۔۔۔اوکے۔۔ لیکن ایک شرط ہے اور وہ یہ کہ۔۔۔۔۔ وہاں جا کر میرے ساتھ کوئی ایسی ویسی کوئی حرکت نہیں کرو گے ۔۔۔اندھا کیا چاہے دو آنکھیں ۔۔۔سو میں نے جھٹ سے ہاں کر دی۔۔۔اس وقت تک ہم ہاؤسنگ سوسائٹیز کی طرف مُڑ چکے تھے۔۔۔۔۔ چنانچہ میری بات سن کر انہوں گاڑی چلا دی۔۔۔ پھر انہوں نے گاڑی کو اس طرف موڑا ۔۔۔کہ جس طرف ان کا پلاٹ واقع تھا ۔۔اس وقت دوپہر کے ساڑھے بارہ بجے تھے گرمی پورے عروج پر تھی۔۔۔ اور تیز دھوپ کی وجہ سے اس علاقے میں دور دور تک کوئی بندہ نہ بندے کی ذات نظر آ رہی تھی۔۔۔۔ تھوڑی دور جا کر انہوں نے گاڑی کو پلاٹ کی طرف لے جانے کی بجائے۔۔۔۔۔ ایک کچی سڑک کی طرف موڑ لیا۔۔۔ اس پھر سڑک سے تھوڑی دور درختوں کے ایک جھنڈ کے پاس گاڑی روک لی۔۔۔اور پھر میری طرف دیکھنے لگی۔۔جیسے ہی گاڑی رکی میں نے ایک نظر باہر کی طرف دیکھا ۔۔۔تا حدِ نظر چمکیلی دھوپ کے سوا کچھ دکھائی نہ دے رہا تھا۔۔۔۔ اس طرف سے مطمئن ہونے کے بعد ۔۔۔۔ ۔۔ میں نے ارم آنٹی کی گردن میں ہاتھ ڈالا۔۔۔۔ اور ان کے چہرے کو اپنے قریب لا۔۔۔ کر دھیرے سے بولا۔۔۔ ۔۔۔۔ارم ڈارلنگ ۔۔۔ آئی لو یو ۔ ۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی میں نے ان کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیئے۔۔۔۔اور ان کا رس چوسنے لگا۔۔۔ میرے ہونٹوں پر ہونٹ رکھنے کے دوران ۔۔۔۔وہ تھوڑا سا کسمسائیں۔۔۔۔ اور واجبی سا احتجاج بھی کیا۔۔۔ لیکن میں کہاں سننے والا تھا۔۔۔۔ اس لیئے ان کے رس بھرے ہونٹوں کو چوستا رہا۔۔۔۔میرے ایسا کرنے سے ۔۔ کچھ دیر تک تو انہوں نے میرا ساتھ نہیں دیا۔۔۔۔ لیکن جب میں نے اپنی زبان آنٹی کے منہ میں ڈالی۔۔۔تو وہ تھوڑا سا تڑپیں۔۔۔۔۔۔۔اور پھر ۔۔۔کچھ دیر بعد ۔۔۔۔آہستہ آہستہ۔۔۔۔وہ بھی میری زبان کو چوسنا شروع ہو گئیں۔۔۔تھوڑی سی کسنگ کے بعد اچانک انہوں نے میری زبان کو اپنے منہ سے باہر نکالا اور کہنے لگیں۔۔ میرے عزیز واقف کاروں میں تم پہلے لڑکے ہو کہ جس کے ساتھ میں یہ کر رہی ہوں ۔۔۔اس لیئے قسم کھاؤ کہ میرے اور تمہارے بیچ ۔۔۔۔۔ یہ راز ہمیشہ راز ہی رہے گا ۔۔۔ راز کے سلسلہ میں ۔۔جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ۔ میں پہلے ہی بہت پکا تھا اس لیئے میں نے ان کے سر پر ہاتھ رکھا اور قسم اُٹھاتے ہوئے بولا ۔۔۔ کہ ارم جی میرے اور آپ کے بیچ کا یہ تعلق ہمیشہ راز ہی رہے گا۔۔۔ یہ سن کر انہوں نے بڑی بے تابی سے میرا منہ چوما ۔۔۔اور پھر کار سے باہر دیکھتے ہوئے اپنی قمیض اوپر اُٹھا ئی۔۔۔۔ اور ایک چھاتی باہر نکال کر بولیں۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔۔۔میری چھاتی چوس۔۔۔ اور میں نے دیکھا کہ آنٹی کی چھاتی شیپ میں گول اور سائز میں 38 کی ہو گی۔۔۔گوری چھاتی کے آگے براؤن رنگ کا موٹا سا نپل تھا۔۔۔ جو اس وقت اکڑا کھڑا تھا۔۔ میں نے اپنے منہ سے زبان نکالی اور ان کے نپل پر گول گول پھیرنے لگا۔۔۔۔۔نپل پر زبان پھیرنے کی دیری تھی ۔۔۔ کہ آنٹی کے منہ سے ایک سسکی بھری۔۔۔۔آہ ہ ہ ۔۔اور کہنے لگی۔۔۔۔۔۔ سارا نپل منہ میں لے۔۔۔
یہ سنتے ہی میں نے ان کے نپل کو اپنے منہ میں لیا۔۔۔۔اور اسے چوسنے لگا۔۔۔۔ اس کے ساتھ ساتھ میں ۔۔۔۔۔ اپنا ایک ہاتھ ان کی نرم رانوں پر لے گیا۔۔۔ جیسے ہی میرا ہاتھ ان کی ریشمی رانوں کے ساتھ ٹچ ہوا۔۔۔۔تو ۔۔ایک دم سے وہ کسمسائیں۔۔اور دونوں ٹانگوں کو آپس میں جوڑ لیا۔۔۔اس پر میں نے نپلز سے منہ ہٹایا ۔۔اور ان سے بولا۔۔۔۔۔۔ آنٹی پلیززز۔۔۔ تھوڑی سی ٹانگیں کھول دیں۔۔ اور پھر تھوڑے سے ناز نخرے کے بعد انہوں اپنی ٹانگوں کو تھوڑا سا کھول دیا۔۔ جس کی وجہ سے ہاتھ کی بجائے ۔۔۔۔ مڈل فنگر کی وہاں تک رسائی ہو گئی تھی کہ جس کے لیئے میں مرا جا رہا تھا۔۔۔۔ میرے لیئے یہی کافی تھا۔۔۔ چنانچہ میں اپنی مڈل فنگر کو ان کی موسٹ پرائیویٹ جگہ پر لے گیا۔۔۔ اور ۔۔۔دھیرے دھیرے سے ۔۔۔۔۔۔اسے سہلانا شروع کر دیا۔۔اور اس کے ساتھ ساتھ ان کے نپلز بھی چوستا رہا ۔۔۔ پھر کچھ ہی دیر بعد۔۔۔جب ان کے منہ سے گرم گرم سانسیں نکلنا شروع ہوگیئں ۔۔۔۔ تو میں نے ان کی موسٹ پرائیویٹ جگہ پر اپنے ہاتھ کا دباؤ بڑھا دیا۔۔۔۔۔۔۔
پہلے کے برعکس ۔۔ اس دفعہ انہوں نے بغیر کسی حیل و حجت کے ۔۔۔۔۔ اپنی ٹانگوں کو مزید کھول دیا۔۔۔۔ ۔۔۔چنانچہ اب میرے پورے ہاتھ کی رسائی ۔۔۔ان کی نرم چوت تک ہو گئی تھی۔۔۔ اور اب میں ان کے نپلز کو چوستے ہوئے ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ جیسے ہی میرا ہاتھ ان کی گرم چوت کے درمیان پڑا۔۔۔۔۔ وہ تھوڑا سا تڑپی۔۔۔۔۔۔لیکن ۔۔۔پھر ایڈجسٹ ہو گئی۔۔۔۔ ۔اور اس کے ساتھ ہی میں نے ان کی پھدی کی دونوں پھانکوں کے بیچ انگلیاں پھیرنا شروع کر دیں۔۔۔۔۔۔۔۔ان کی چوت سخت تپی ہوئی۔۔۔اور گیلی تھی ۔۔جس کی وجہ سے ان کی شلوار کا مخصوص حصہ گیلا ہو رہا تھا۔۔۔ چنانچہ میں اس گیلے حصے پر ہی انگلی پھیر تا رہا ۔۔۔۔ اسی اثنا میں انہوں نے اپنی دوسری چھاتی کو بھی ننگا کر دیا ۔۔۔ اسی دوران میں چوت کی پھاڑیوں کے درمیان انگلیاں پھیرتے ہوئے محسوس کیا۔۔۔ کہ ان کی چوت پر اچھا خاصے بال اُگے ہوئے تھے۔۔لیکن اس وقت ان بڑھے ہوئے بالوں کی فکر کس کافر کو تھی۔۔۔
فکر تھی تو بس اتنی کہ کس وقت میں آنٹی کی چوت ماروں گا۔۔جبکہ دوسری طرف۔۔۔۔ میں ارم آنٹی کی دونوں چھاتیوں کو باری باری چوس رہا تھا ۔۔۔اور وہ میرے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے کہہ رہیں تھیں۔۔۔ میری جان میرے عاشق ۔۔۔ میری چھاتیوں کو ایسے چوسو کہ جیسے تم آم چوستے ہو ۔۔۔۔ آنٹی کی دل کش سسکیوں سے ماحول گرم سے گرم تر ہوتا جا رہا تھا۔۔۔۔۔ اور وہ بھی شہوت بھری آواز میں کہہ رہیں تھیں۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔میری ننگی چھاتیوں کو چوس ۔۔۔۔۔۔اور چوس۔۔ اسی دوران آنٹی کی سانس بہت تیز ہو گئی ۔۔۔اور پھر اچانک ہی انہوں نے میرے ہاتھ کو پکڑا ۔۔۔۔۔اور بنا کوئی بات کیے۔۔۔ اسے شلوار کے اندر لے گئیں۔۔۔اور اپنی پھدی پر رکھ دیا ۔۔۔۔ اُف۔۔۔ اور پھر میں اپنی انگلیوں کو پھدی کی دونوں پھانکوں کے اندر لے گیا۔۔۔ تو وہ اس قدر گرم اور گیلی تھی کہ مجھے ایسا محسوس ہو رہا کہ جیسے میرا ہاتھ آنٹی کی پھدی میں نہیں بلکہ کسی گرم اور گیلے تندور میں چلا گیا ہو۔۔اس کے باوجود کہ اس وقت گاڑی سٹارٹ تھی اور اس کا ائیر کنڈیشن بھی فل سپیڈ میں لگا ہوا تھا۔۔۔ لیکن اس کے باوجود ہم دونوں ہی پسینے سے شرابور تھے۔۔۔ شاید اس لیئے کہ ہم دونوں میں سیکس کی آگ پوری طرح بھڑک رہی تھی۔۔۔اور اس سیکس کے آلاؤ کی وجہ سے ہم دونوں پسینے میں نہا ئے ہوئے تھے۔۔۔۔ ان کی بالوں والی پھدی میں ۔۔۔انگلیاں پھیرتے ہوئے۔۔۔۔۔اچانک ہی میرا دل میں خواہش جاگی کہ میں آنٹی کی پھدی کو ننگا دیکھوں ۔۔اس لیے میں نے ان کے نپل سے منہ ہٹایا ۔۔۔۔۔اور بولا۔۔۔
ارم جی شلوار کو تھوڑا نیچے کر لیں۔۔۔۔۔ تو وہ شہوت بھری آواز میں بولی۔۔۔ کیوں میری پھدی دیکھنی ہے؟ تو میں نے کہا جی مجھے آپ کی چوت کے دیدار کرنے ہیں۔۔۔ یہ سن کر وہ کہنے لگیں ۔۔۔ گاڑی سے باہر دیکھو کوئی آ تو نہیں رہا؟ اور خود بھی گاڑی سے باہر دیکھنے لگیں۔۔۔ ادھر میں گاڑی سے باہر جھانک کر دیکھا ۔۔۔تو آس پاس کوئی بھی نہ تھا۔۔ باہر کی طرف سے مطمئن ہو کر وہ سیٹ سے اوپر اُٹھیں تو میں نے جلدی سے ان کی شلوار کو نیچے کر دیا۔۔۔۔ اب کی ننگی پھدی میری نظروں کے سامنے تھی۔۔۔ادھر شلوار نیچے ہوتے ہی ۔۔۔ان کی چوت سے مخصوص مہک نکلی۔۔۔۔ اور میرے نتھنوں میں گھس گئی۔۔۔۔ واؤؤؤؤ۔۔۔ ان کی چوت سے اُٹھنے والی مہک بہت ہی تیز اور مست قسم کی تھی۔۔۔ میں نے تھوڑی دیر تک اس مہک کا مزہ لیا۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ اور ان سے بولا ۔۔۔۔ ارم جی آپ کی چوت کی بو بہت تیز ہے۔۔۔۔ ۔۔ ۔۔۔تو وہ کہنے لگیں ۔۔۔۔ تم ٹھیک کہہ رہے ہو اوروں کی نسبت میری پھدی کی سمیل بہت سٹرانگ ہے۔۔۔۔لیکن چوت پر اُگے گھنے بالوں کی وجہ سے یہ مہک دو آتشہ ہو گئی ہے ۔۔۔ پھر میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولیں۔۔۔۔ تمہیں یہ سمیل پسند آ ئی؟ تو میں نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے نشیلے سے لہجے میں کہا۔۔۔۔ مجھے تو اس کا نشہ ہونے لگا ہے۔۔۔تو وہ مسکرا کر بولی۔۔۔ آج سے یہ پھدی تیری اپنی ہے جتنی دیر مرضی ہے اس کی مہک لو۔۔۔۔۔۔ چنانچہ تھوڑی دیر مہک لینے کے بعد۔۔۔۔۔ میں ان کی چوت کی طرف متوجہ ہوا ۔۔۔۔۔ اور میں نے دیکھا کہ ان کی ننگی چوت پر دو انچ یا پھر اس سے تھوڑے بڑے بال ہوں گے۔۔۔ ان کی چوت کے بالوں کا رنگ سیاہ تھا۔۔۔اور سفید پھدی پر کالے کالے بال بہت اچھے لگ رہے تھے۔لیکن اس میں ایک قباحت تھی اور وہ یہ ۔۔۔گھنے بالوں کی وجہ سے ۔۔۔۔۔ چوت کا ٹھیک سے نظارہ نہ کیا جا سکتا تھا۔۔۔اب میں نے ان کی چوت کی دنوں پھانکوں میں انگلی پھیری ۔۔۔۔۔۔اور ان سے بولا۔۔۔۔ ارم جی آپ کی چوت کے بال اتنے گیلے کیوں ہیں ؟
تو وہ شہوت بھری آواز میں بولیں۔۔۔ وہ اس لیئے میری جان کہ ان پر میرا چوت رس لگا ہوا ہے۔۔۔تو میں ان کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔۔۔۔ اچھا یہ بتائیں۔۔۔۔ کہ آپ کا چوت رس کیسا ہے؟ تو وہ اسی مست آواز میں جواب دیتے ہوئے بولیں۔۔۔۔جو ایک بار اسے چکھ لیتا ہے نا ۔۔۔وہ ہمیشہ کے لیے۔۔۔۔ میری چوت رس کا غلام بن جاتا ہے ۔۔۔۔ پھر کہنے لگی۔۔۔ تم چوت رس چکھو گے؟ تو میں ان کی پھدی پر سر جھکاتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔۔۔۔ آنٹی جی۔۔۔۔۔میں نے آپ کا چوت رس صرف چکھنا نہیں بلکہ پیالے بھر بھر کے پینا ہے۔۔۔تو وہ کہنے لگی۔۔۔ تو پھر اپنے منہ کو میری پھدی کے ساتھ جوڑ ۔۔۔۔اور اس کا سارا رس پی جا۔۔۔۔تو میں ان سے بولا۔۔۔ کیا خیال ہے پہلے۔۔ میں اپنے اوزار سے تھوڑا کھود نہ لوں؟ تو وہ کہنے لگی۔۔۔ نہیں پہلے پرانے پانی کو پی۔۔۔ پھر لنڈ ڈال کے نیا پانی نکال لینا ان کی بات سن کر میں اپنے سر کو ان کی پھدی کی طرف لے گیا۔۔۔اور زبان نکال کر ان کے گھنے بالوں پر پھیرنا شروع ہو گیا۔۔۔۔ پھر میں نے دو انگلیوں کی مدد سے ان کے بالوں کو ایک سایڈ پر کیا۔۔۔۔اور ان کی گرم پھدی پر زبان پھیرنا شروع ہو گیا۔۔۔۔ ایسا کرنے سے انہوں نے بڑی ہی مست قسم کی سسکی لی۔۔۔اور کہنے لگی۔۔۔۔۔ زبان کو تھوڑا اندر لے جا۔۔۔اور میں نے اپنی زبان کو گول بنایا اور ان کی چوت کے اندر تک لے جا کر۔۔۔اور اسے چاٹنا شروع ہو گیا۔۔۔۔ ان کی چوت پانی سے لبریز تھی اور میں زبان نکالے بڑے اطمینان سے ان کے پانی کو چاٹ رہا تھا ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ایسا کرنے کے کچھ دیر بعد میں نے ان کی چوت سے زبان باہر نکالی ۔۔۔۔اور میری نظر ان کے پھولے ہوئے دانے پر پڑ گئی۔۔۔ جو کہ گھنے بالوں کے درمیان بڑے شان سے کھڑا تھا۔۔۔ اب میں نے ان کے دانے کو اپنے دونوں ہونٹوں میں لیا۔۔۔۔۔اور اسے چوسنا شروع کر دیا۔۔۔۔۔ دانے کی چوسائی پر آنٹی تڑپنا شروع ہو گئی اور سسکیاں لیتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔ اوہ ۔۔۔اوہ۔۔۔۔ آہ آہ۔۔۔ میری جان ۔۔۔۔۔پھدی میں انگلی ڈال ۔۔۔اور میں نے اپنی ایک انگلی ان کی چوت میں ڈال دی اور
اسے اندر باہر کرنے لگا۔۔۔تھوڑی دیر بعد ۔۔۔وہ چلا کر بولیں ۔۔۔
دونوں انگلیاں ڈال۔۔۔۔کر تیزی سے مار مادر چود۔۔۔۔۔۔۔۔چنانچہ ان کے کہنے کے مطابق میں نے چوت میں دی ہوئی انگلیوں کو تیزی سے ان آؤٹ کرنا شروع کر دیا ۔۔۔ تو وہ تڑپ کر بولیں۔۔۔۔ دانے سے منہ ہٹا بہن چود۔۔۔اور انگلی۔۔۔۔ تیز مار۔۔۔۔۔۔ اور میں نے ایسا ہی کیا۔۔۔۔۔
اور فُل سپیڈ سے انگلیاں ان آؤٹ کرتا رہا ۔۔۔۔ کچھ ہی دیر بعد آنٹی نے ایک زبردست چیخ ماری ۔۔۔۔اور سیٹ سے اُٹھ کر میرے ساتھ چمٹ گئیں۔۔۔۔اور اونچی اونچی سسکیاں لیتے ہوئے ۔۔۔۔۔ تیز تیز ہلنے لگی۔۔۔۔اسی دوران ۔۔۔ میری انگلیوں کے ساتھ ان کی چوت کے سارے ٹشو چمٹ گئے۔۔۔۔پھر آنٹی کا سارا جسم کانپا۔۔۔۔۔۔اور انہوں نے ایک لمبی سی سانس لی۔۔۔ اس کے ساتھ ہی آنٹی۔۔۔۔۔۔ ہانپتے ہوئے چھوٹنا شروع ہو گئیں۔۔۔۔۔کچھ دیر بعد جب وہ شانت ہو گئیں۔۔۔ تو میں نے ان کی چوت سے انگلیاں نکالیں۔۔۔۔اور ڈیش بورڈ پر پڑے ٹشو کے ڈبے سے ٹشو نکال کر انہیں صاف کرنے لگا۔۔۔۔ جب میری انگلیاں صاف ہو گئیں تو آنٹی مجھ پر جھکیں ۔۔اور ایک طویل کس کرتے ہوئے بولیں۔۔۔۔ مجھے تیری انگلیوں سے اتنا مزہ ملا ہے۔۔۔۔ جانے تیرے لن میں کیا مزہ ہو گا۔۔ ۔۔۔۔