شادی ہوئی تو میری سب سے چھوٹی سالی ابھی 16 سال کی تھی لیکن اس کا قد کاٹھ اوربوبز میری
بڑےمیری بڑے ہو چکے تھے۔ مجھے اسے دیکھ کر حیرت ہوتی تھی کہ ممے دیکھو تو دل کرے کہ چود ڈالو لیکن عمر پوچھو تو سولہ سال!! شادی کے بعد جب اگلے دن ہم سسرال گئے تو میری سالی بہت شوخی تھی اور وہ بھائی بھائی کر کے کبھی مجھے باہوں میں بھر لیتی اور کبھی میرا ہاتھ پکڑ کر چوم لیتی اور میں بھی اسے ایک بہن کر کے پیار کر رہا تھا۔ وہ کبھی مجھے گالوں پر بھی پیار کر لیتی اور میں بھی اس کے گال کھینچ لیتا لیکن میرے دل میں یہ تو تھا کہ کچھ ٹھرک جھاڑ لیا جائے لین اسے چودنے کا میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ خیر ہم دو تین رہے پھر میری بڑی باجی اور بہنوئی اور اماں ہمیں لینے آئیں اور ہم شام کو اپنے گھر روانہ ہوئے۔ جب ہم گھر کے روانہ ہو نے سے پہلے سب سے مل رہے تھے تو میں نے اپنی سالی عطیہ کی آنکھوں میں آنسو دیکھے۔ اس نے مجھے گلے مل کر پیار کیااور کہا کہ میری باجی کا خیال رکھنا۔ میں نے بھی اس کے کان میں کہا کہ اب تم نے کہہ دیا ہے تو زیادہ خیال رکھوں گا اور ساتھ ہی اسے گال پر بوسہ دیا۔ اس دوران اس کے بوبز میرے سینے میں عجیب ہلچل پیدا کر رہے تھے۔ اس نے کہا کہ بہت جلد میں آپ کے گھر رہنے کے لیے آؤں گی۔ میں نے نکلتے نکلتے اسے پانچ سو رپے دیئے اور کہا کہ اپنی پسند کی کوئی چیز میری طرف سے لے لینا اس نے خوشی سے رکھ لیے۔
اگلے دن باجی کی طرف ہماری دعوت تھی ہم دعوت کے لیے گئے تو دیکھا عطیہ اپنے ابو کے ساتھ پہلے سے موجود تھی۔ میں ماموں جان جو میرے اب سسر بن چکے تھے، بڑی گرم جوشی سے ملا۔ مامون جان ہمیشہ مجھ سے بہت زیادہ پیار کرتے تھے اور میں بھی ان کا بہت احترام کرتا تھا۔ عطیہ تو مجھ سے چمٹ گئی۔ بھائی جان! میں ایک ہی دن میں اداس ہو گئی تھی اور آج جب باجی کی کال آئی کہ ہماری طرف دعوت ہے اور انہوں نے مجھے بھی کہا کہ تم بھی ابو کے ساتھ آ جاؤ تو میں بھاگی چلی آئی۔ میں بھی خوش ہوا۔۔ کھانا کھایا اور پھر ناتیں کرتے رہے۔ باجی نے کہا کہ آج رات ادھر ہی رہ لیں۔ میں نے کہا کہ میں نے تو صبح آفس جانا ہے اس لیے میں تو رات نہیں ٹھہر سکتا ہاں اگر موبی رکنا چاہے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ باجی نے کہا کہ تم بھی کل صبح یہیں سے آفس چلے جانا جو کپڑے میں نے تم لوگوں کے لیے بنوائے ہوئے ہیں وہ پہن کر چلے جانا اور شام کو آ کر موبی کو لے جانا۔ اب میرے پاس کوئی بہانہ نہ تھا ویسے بھی میں باجی کی بات کبھی نہیں ٹالتا تھا۔ سو ہم رک گئے۔ میں اور ماموں جان اور میرے بہنوئی رات کو دیر تک باتیں کرتے رہے۔ اور موبی عطیہ اور باجی ایک کمرے میں باتیں کرتے رہے۔ کافی دیر گزر جانے کے بعد ہم نے سونے کا ارادہ کیا اور جہاں ہمارا انتظام تھا وہاں میں اور موبی ایک کمرے میں اور باجی اور عطیہ دوسرے بیڈ روم میں اور ماموں جان اور میرے بہنوئی ایک الگ کمرے میں جا کر سو گئے۔ رات کو میں اور موبی نے چوت چدائی کا کھیل کھیلا کیونکہ اب اس کے بغیر نہیں رہا جا سکتا تھا۔ موبی نے کہا کہ آپ اسی لیے گھر جانا چاہتے تھے نا کہ آپ مجھ سےپیار کر سکیں میں نے کہا کہ ہاں لیکن لگتا ہے باجی سمجھ گئی تھیں اس لیے انہوں نے الگ کمرے کا انتظام ہمارے لیے کیا تا کہ ہم رات کو آرام سے پیار کر سکیں۔ رات میں نے موبی کو خوب چودا لیکن درمیان میں میرے ذہن میں عطیہ کے ممے بھی آتے رہے اور میں خیال کو جھٹکتا رہا لیکن ایک دو بار تو جب میں اپنی بیوی کو چود رہا تھا تو خیالوں میں دراصل عطیہ کو ہی چود رہا تھا جس سے مجھے بہت مزہ آیا۔
صبح میں جلدی جاگا جبکہ موبی ابھی سوئی ہوئی تھی میں نے اسے جگانا مناسب نہ سمجھا اور اٹھ کر تیاری کی اور ناشتے کے لیے کچن میں آیا تودیکھا کہ عطیہ وہاں نہ صرف موجود تھی بلکہ میرے لیے ناشتہ بنا چکی تھی۔ مجھے آتا دیکھ کر مجھ سے لپٹ گئی اور پیار کرنے لگی۔ بھائی جان دیکھیں میں نے آپ کے لیے ناشتہ اور آپ کی پسند کی کافی تیار کر دی ہے۔ میں نے اس کا گال سہلاتے ہوئے کہا کہ میرا بچہ! بہت پیارا بچہ ہے میرا۔ تھینک یو ویری مچ۔ اور ناشتہ کرنے بیٹھ گیا۔ عطیہ کہنے لگی کہ بھائی جان جب آپ مجھے یہ کہتے ہیں نامیرا بچہ تو مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔ میں نے کہا کہ یقین کرو میں تمہیں دل سے محبت کرتا ہوں اور تمہاری محبت دیکھ کر تو میں بہت فخر محسوس کرتا ہوں کہ تم بھی مجھ سے بہت پیار کرتی ہو۔ عطیہ نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا کہ بھائی جان کبھی بھی آپ سے دور نہیں جانا چاہتی۔ میں نے کہا کہ تم ہمیشہ میرے ساتھ ہو فکر نہ کرو۔
ناشتہ کیااور آفس چلا گیا صرف عطیہ جاگ رہی تھی اور اس کے یوں مجھ سے باتیں کرنے اور ناشتہ کروانے پر کسی کو کئی اعتراض نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ شادی سے پہلے بھی جب میں ماموں کے گھر جایا کرتا تھا تو عطیہ ہی سب سے زیادہ میری خدمت کرتی تھی اور سب جانتے تھے کہ وہ کس طرح میرے ساتھ والہانہ پیار کرتی ہے اور اس پیار کو کسی نے کبھی غلط مطلب نہیں دیا اور عطیہ کی ضد پر ہی ماموں جان اور ممانی جان کے دل میں میری اور موبی کی شادی کی سکیم آئی تھی۔
شام کو میں آفس سے باجی کی طرف گیا جہاں پر موبی اور عطیہ چہک رہی تھیں اور باجی دونوں پر قربان ہوئے چلی جا رہی تھی اور باجی بھی بچپن سے ان دونوں بہنوں سے اسی طرح پیار کرتی تھیں اور وہ بھی باجی سے اسی طرح اٹیچ تھیں اس لیے نند بھابھی والی کوئی کہانی تھی ہی نہیں۔ مجھے دیکھتے ہی عطیہ باجی کی گود سے نکلی اور سیدھا مجھ سے لپٹ گئی۔ میں نے کہا کہ اوہ میرا بچہ! اور اسے پیار کیا وہ میرے لیے کوک لے آئی میں نے کوک پی اور اس کا شکریہ ادا کیا اور موبی سے کہا کہ باجی سے اجازت لیتے ہیں۔ باجی کی آنکھوں میں آنسو تھے اور وہ اداس ہو گئیں۔ میں نے ان سے پیار لیا اور کہا کہ باجی آپ اداس نہ ہوں ہم یہیں ہیں اور جب آپ ہمیں بلائیں گی ہم حاضر ہیں۔ میں نے کہا کہ ماموں جان نظر نہیں آ رہے؟ باجی نے بتایا کہ ممانی جان کی طبیعت کچھ خراب ہو گئی تھی اس لیے وہ تو دوپہر میں واپس چلے گئے تھے لیکن عطیہ کو میں نے روک لیا تھا کہ وہ تم لوگوں کے ساتھ چلی جائے گی تا کہ ہم تینوں کچھ رونق لگا لیں۔ میں نے کہا کہ ٹھیک ہے ہمیں پھر اجازت دیں۔ میرے دونوں بھانجے اور ایک بھانجی بھی گھر پر ہی تھے وہ بھی آئے اور ہم سے ملے اور ہم واپس بیٹھے۔ میں نے موبی سے پوچھا کہ عطیہ کو ہم اپنے ساتھ ہی لے جاتے ہیں اور دو تین دن تک اسے واپس گھر چھوڑ دیں گے۔ موبی کہنے لگی کہ بالکل ٹھیک ہے کیونکہ آپ تو صبح صبح آفس چلے جایا کریں گے اور ہم سارا دن مل کر گزار لیا کریں گی۔ سو میں نے کہا کہ ماموں جان کو بتا دو کہ ہم دو دن تک ممانی جان کا حال پتہ کرنے آئیں گے تو عطیہ بھی ہمارے ساتھ ہی آ جائے گی۔
ہم رات کو دس بجے واپس گھر آئے تو میں تھکا ہونے کے وجہ سے جلدی سے کپڑے تبدیل کر کے ٹی وی لاؤنج میں آ گیا جہاں عطیہ بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی تھی۔ میں نے اسے پیار کیا اور اس کے ساتھ والے صوفے پر بیٹھ گیا۔ وہ اٹھی اور کچن سے میرے لیے پانی کی بوتل اور گلاس لے آئی۔ اس کے بعد اس نے مجھے کافی بنا کر دی۔ میں نے پوچھا کہ موبی کہاں ہے؟ اس نے بتایا کہ وہ کمرے میں چلی گئی تھیں انہیں سر درد ہے اور وہ شاید سو رہی ہیں۔ میں نے کہا اچھا میں دیکھتا ہوں۔ میں اندر گیا۔ موبی سو رہی تھی۔ میں نے کپڑے بدلے اور روٹین کے مطابق ایک باریک سا ٹراؤزر پہنا اور ایک ٹی شرٹ پہن لی اور باہر ٹی وی لاؤنج میں آ گیا۔ عطیہ نے بھی ایک ہلکی سی شرٹ پہنی ہوئی تھی جس سے اس کے بڑے بڑے ممے صاف دکھائی دے رہے تھے۔ میں ساتھ والے بڑے صوفے پر بیٹھ گیا وہ پاپ کورن کھا رہی تھی اور ساتھ ٹی وی پر کوئی ڈرامہ دیکھ رہی تھی۔ میں نے کہا کہ کیا کھایا جا رہا ہے؟ وہ اٹھ کر میرے ساتھ آ کر بیٹھ گئی اور کہنے لگی کہ بھائی جان یہ لیں پاپ کورن کھائیں اور کافی پئیں۔ اس کی ٹانگ میری ٹانگ کے ساتھ لگی تو میرے جسم میں ایک کرنٹ دوڑ گیا۔ میں سچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ اتنی بے باک ہو سکتی ہے۔ پھر میں نے سوچا کہ بچی ہے، بچپن سے میرے ساتھ ایسے ہی فری ہے اور مجھے بھائی جان سمجھتی ہے اس لیے شاید بے تکلف ہے۔ پھر اس نے اپنے ہاتھوں سے دو تین پاپ کورن میرے منہ میں ڈالے اور انگلیان بھی میرے منہ ڈالیں اور پھر میرے تھوک لگی انگلیاں اپنے منہ میں ڈال کر چاٹنے لگی اور مجھے دیکھ کر مسکرانے لگی۔ میں نے کہا کہ عطیہ اتنا پیار کرتی ہو اپنے بھائی سے؟ کہنے لگی کہ بھائی جان اس سے کہیں زیادہ پیار کرتی ہوں۔ میں نے کہا کہ کتنا؟ اس نے بازو پھیلائے اور اس سے قبل کہ میں سنبھلتا مجھے اپنی باہوں میں بھر لیا اور بھینچ کر کہنے لگی کہ اتنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زیادہ۔ اس کے ممے میرے ساتھ لگے اور مجھے صاف پتہ چل گیا کہ آج اس نے برا نہیں پہنی ہوئی۔۔۔۔ میرا لوڑا تو کھڑا ہو چکا تھا اور میں ٹراؤزر کے نیچے رات کو سوتے ہوئے انڈرویئر بھی نہیں پہنتا تھا اس لیے لوڑا صاحب نے سر اٹھایا اور میں نے اسے ٹانگوں میں دبانے کی کوشش کی میں ادھر مصروف تھا کہ مجھے احساس ہوا کہ عطیہ میرے گالوں پر کس کر رہی ہے اور ساتھ ہی مجھے مزید اپنے ساتھ بھینچ رہی ہے۔ اس کے ممے میرے سینے کے ساتھ پریس ہو رہے تھے جس سے میرا لوڑا مزید کھڑا ہو رہا تھا اور میں اسے ٹانگوں میں دبانے سے قاصر ہو چکا تھا۔ عطیہ نے اپنی زبان میرے گالوں پر پھیری اور پھر اچانک میرے ہونٹوں پر پھیر دی۔ میں گھبرا گیا تھا اور وہ مسکرا رہی تھی۔ پھر مجھے چھوڑ کر کہنے لگی کہ بھائی جان! اچھا نہیں لگا؟ مجھے کوئی جواب نہیں سوجھ رہا تھا کیونکہ یہ سب کچھ غیرمتوقع تھا۔ لیکن میں نے فوری فیصلہ کیا کہ نہیں اس کا مطلب ہے وہ میری قربت چاہتی ہے اس لیے مجھے بھی چاہیے کہ اسے نہ ترساؤں۔ سو میں نے اس کی بات کے جواب میں اب اپنی باہوں میں بھر لیا اور سیدھا اس کے ہونٹوں پر ہونٹ رکھ دیے۔۔۔ بس پھر کیا تھا فرنچ کس شروع ہو گئی اور پھر ہونٹ چوستے چوستے زبان اور پھر میں نے اس کے ممے مسلنے شروع کیے اور مزہ آگیا کہ اس کے ممے بھی اپنی بہن موبی کی طرح تنے ہوئے تھے اور سائز میں بڑے بھی تھے۔ میں نے اس کی باریک سی شرٹ کے اوپر سے ہی اس کے ممے چوسنے شروع کر دیئے تو اس کے منہ سے سسکاریاں نکلنے لگیں۔ اس نے اپنی ٹی شرٹ اتار دی اور میری بھی اتار دی۔۔ میں نے کہا کہ تمہاری باجی آ جائے گی۔۔ کہنے لگی کہ نہیں آئیں گی مجھے پتہ ہے کیونکہ وہ نیند کی بہت پکی ہیں اور اگر وہ آ بھی جائیں تو آپ نے گھبرانا نہیں کیونکہ انہیں نیند میں چلنے کی بیماری ہے وہ سو رہی ہوں گی اور ہم آرام سے کپڑے پہن کر انہیں بٹھا کر جگا سکتے ہیں۔ میں نے کہا کہ ٹھیک ہے۔ اور پھر ہم شروع ہو گئے۔ وہ تو ایکسپرٹ تھی۔ دس منٹ کے اندر اندر ہم نے ٹراؤزرز بھی اتار دیئے اور اب میرا ہتھیار دیکھ کر عطیہ کی آنکھوں میں چمک بھر آئی تھی اور وہ میرے لوڑے پر پل پڑی۔۔۔ اب میرا لوڑا اس کے منہ میں تھا اور میں چاہتا تھا کہ اس کی پھدیا کو چاٹوں سو میں نے اسے 69 پوزیشن پر کر لیا اور اس کی پیاری صاف ستھری بالوں سے پاک پھدیا کو چاٹنے لگا۔۔۔ پانچ منٹ کے اندر ہی وہ ڈسچارج ہو گئی۔ میں نے اسے سیدھا کیا اور اس کی چوت کی موری پر لن رکھا جبکہ مجھے اندازہ ہو چکا تھا کہ سیل بند نہیں ہے لیکن میں اس سے پوچھنا نہیں چاہتا تھا تا کہ وہ برا نہ مان جائے۔ مجھے تو زیادہ آسانی تھی اگر وہ سیل بند نہیں تھی۔ میں نے اس کی چوت کی موری پر لوڑا رکھا اور آرام سے گیلی چوت میں لوڑا اندر کرنے لگا۔۔ دو منٹ کی محنت اور لوڑا صاحب اندر۔ عطیہ نے مجھے چوتڑوں سے دبایا اور میرے منہ میں ڈال کر سرگوشی کرنے لگی کہ بھائی جان! پوچھیں گے نہیں کہ میری سیل کس نے توڑی؟ میں نے کہا کہ اگر تم برا نہ مانو تو بتا دو ورنہ میں پوچھنا نہیں چاہوں گا۔ کہنے لگی کہ میرے ماموں رؤوف مرحوم نے میری سیل توڑی تھی۔ آپ جانتے ہیں نا کہ وہ نشہ کرتے تھے آج سے دو سال قبل جب میں ابھی چودہ سال کی تھی اور ایک دن ہم نانی اماں کے گھر تھے۔ ممانی جان اپنے مائکے گئی ہوئی تھیں اور میں رات کو ان کے بیڈ پر سو رہی تھی۔ نانی اماں بھی گھر نہیں تھیں کسی کے گھر بچہ ہونے والا تھا اور وہ ان کے گھر گئی ہوئی تھیں اور مجھے بتا کر گئی تھیں کہ وہ رات کو کسی بھی پہر آ جائیں گی سو میں ماموں جان کے کمرے میں ان کے بیڈ پرسو گئی تھی۔ رات ماموں جان کسی پہر آئے اور انہوں نے پی ہوئی تھی وہ سیدھے بیڈ پر آئے اور لیٹ گئے۔ اندھیرا تھا اور پھر وہ تھے بھی نشے میں اس لیے انہوں نے سمجھا کہ میں ان کی بیوی ہوں۔ میں کروٹ لے کر لیٹی ہوئی تھی کہ وہ میرے پیچھے آ کر لیٹ گئے ،انہوں نے مجھے مموں سے پکڑا میری شلوار اتاری اور پیچھے سے اپنا لمبا اور باریک لوڑا میری چوت پر رکھا اور میری آنکھ اس وقت کھلی جب ان کا لوڑا میری چوت میں داخل ہو کر میری سیل توڑ چکا تھا۔ درد سے میری آنکھ کھلی اور میں جان چکی تھی کہ میرے سگے ماموں جو مجھ سے بہت پیار کرتے ہیں انہوں نے میری سیل غلط فہمی کی بنا پر توڑ ڈالی ہے۔ میں سمجھ گئی کہ غلطی میر ی ہے جو میں ان کے بیڈ میں سو گئی تھی اور انہوں نے اپنی بیوی سمجھ کر میری چوت پھاڑ ڈالی تھی۔ اب خاموش رہنے میں ہی بھلائی تھی سو میں رات ان سے چدتی رہی اور آپ تو جانتے ہی ہیں کہ نشئی اتنی جلدی ڈسچارج نہیں ہوا کرتے سو انہوں نے مجھے دو تین گھنٹے چودا۔ گھر میں کوئی بھی موجود نہ تھا اس لیے کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی اور ماموں جان کو تو ہوش بھی نہ تھا اس لیے میں کس سے شکایت کرتی؟میرا کام تو جو ہونا تھا ہو چکا تھا۔ اس لیے مجھے مزہ آنا شروع ہوا پھر میں بھی ان سے ٹھیک طرح سے چدنے لگی اور دو تین گھنٹے مسلسل انہوں نے مجھے چودا اور پھر وہ ڈسچارج ہو گئے لیکن یہ شکر ہے کہ انہوں نے منی میرے چوتڑوں پر نکالی پھدی کے اندر نہیں نکالی ورنہ پتہ نہیں کیا ہو جاتا۔ جیسے ہی وہ فارغ ہوئے وہ تو سو گئے لیکن میں اٹھی اور خد کو صاف کیا میرا خون زیادہ تر میری اپنی شلوار پر ہی گرا لیکن مجھے مزہ بہت آیا۔ نانی اماں کے آنے سے پہلے ہی میں کپڑے بدل کر آرام سے پین کلر لے کر نانی اماں کے بیڈ پر لیٹ گئی اور مجھے نیند آ گئی مجھے صبح جب جاگ آئی تو ماموں جان بھی اٹھ گئے ہوئے تھے اور نانی اماں بھی میں آرام سے اٹھی اور ماموں جان کو احساس بھی نہ ہونے دیا کہ رات انہوں نے اپنی سگی لاڈلی بھتیجی کو غلطی سے چود ڈالا ہے۔ آپ دوسرے انسان ہیں جنہیں میں یہ راز بتا رہی ہوں۔ میں نے یہ راز صرف موبی باجی کو بتایا تھا وہ میری رازدار ہیں۔ پھر میں نے عطیہ سے کہا کہ میرا بچہ! اپنے ہی سگے ماموں سے چد گیا اور اب اپنے بہنوئی سے چد رہا ہے؟ اور پھر میں نے اسی جوش میں عطیہ کو چودنا شروع کیا اور آدھا گھنٹہ چودنے کے بعد اسے کہا کہ اگر تمہاری بہن موبی کو معلوم ہے کہ تمہیں ماموں رؤوف چود چکے ہیں اور تمہاری سیل ٹوٹ چکی ہے تو پھر اگر اسے معلوم ہو جائے کہ میں نے بھی تمہیں چود ڈالا ہے تو اسے کوئی فرق نہیں پڑے گا اس لیے میرا خیال ہے کہ چلو اندر بیڈ پر جا کر چدائی کرتے ہیں اور میں تم دونوں بہنوں کو ایک ہی وقت میں چود دوں گا۔ عطیہ کہنے لگی کہ نہیں بھائی جان ابھی نہیں میں باجی کو اعتماد میں لوں گی۔ اصل مین میں خود آپ سے چدوانا چاہتی تھی کیونکہ ماموں جان نے جو مسلسل مجھے چودا اس کے بعد میرا روزانہ چدوانے کو دل کرتا تھا لیکن میں ڈرتی تھی کہ کہیں پکڑی نہ جاؤں اور خاندان کی عزت خراب نہ ہو اور موقع نہیں ملا لیکن جب آپ کی شادی ہمارے گھر ہوئی تو میں نے اسی دن ٹھان لیا تھا آپ سے بہتر انسان نہیں ملے گا جو اس بات کو راز رکھ سکے اور میں نے یہی فیصلہ کیا تھا کہ جو بھی ہو جائے میں آپ سے مستقل چداوایا کروں گی اس لیے میں نے سوچا کہ شادی کے ابتدائی دنوں میں ہی آپ سے چدوا لوں تاکہ مزید انتظار میں خواری نہ ہو۔ کل یا پرسوں دن کے وقت میں باجی سے بات کر لوں گی اگر کل ہی بات ہو گئی تو کل کی رات ہم بیڈ روم میں اکٹھے سوئیں گے اور آپ کو ایک کی بجائے دو دو پھدیاں چودنے کو ملیں گی لیکن آپ نے باجی کو کبھی آج والی چدائی کا پتہ نہیں چلنا چاہیے میں نے کہا کہ وعدہ رہا کہ آج والی چدائی کا تمہاری باجی کو میں کبھی نہیں بتاؤں گا۔۔
اس کے بعد میں نے اسے خوب جی بھر کر چودا اور کسنگ کی تو ہم نے انتہا کر دی۔۔۔ جاری ہے