2003 کی بات ہے جب ہم سردیوں کے چھٹیوں پہ گھر آگئے تو ابو نے میرے لئے سکینہ آنٹی کی بیٹی رخسانہ سے ٹیویشن کی بات کی میں ان دنوں ایف ایس سی کے امتحانات کی تیاری کر رہا تھا تو ابو نے کہا رخسانہ بیٹی بہت لایق اور ذہین بچی ہے وہ آپ کو ٹیویشن پڑھائے گی آپ اس سے اتنا سیکھو گے کہ کنکور ٹیسٹ بھی آسانی سے پاس کروگے (کنکور ٹیسٹ آفغانستان میں پشتو زبان میں ایڈمشن ٹیسٹ لی جاتی تھی ننگرہار میڈیکل یونیورسٹی اور دوسری یونیورسٹیوں کی ایڈمیشن کیلئے ) خیر ہوا بھی ایسا میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا اسے بیالوجی کیمیسٹری فزیکس ہر سبجیکٹ پر عبور حاصل تھی۔۔۔ خیر ایک دن جب میں ان کے گھر گیا تو گیٹ کیپر سے پتہ چلا کہ رخسانہ اپنی بہن کو ریسیو کرنے اسلام آباد ائیر پورٹ چلی گئی ہے اور پتہ نہیں کب تک آئیگی اس کی امی،، میڈم بھی شاید گھر پہ نہیں ہے تو میں نے اس سے کہا کہ جی ٹھیک ہے میں کچھ دیر اندر بیٹھ کے ویٹ کروں گا اگر وہ جلدی نہ آئی تو پھر میں بھی چلا جاوں گا. اس نے گیٹ کھولا اور مجھے اندر جانے کا اشارہ کیا جب میں اندر ڈراینگ میں چلا گیا اور بیٹھ کے اپنی بکس اوپن کی آج واقعی پڑھائی میں دل نہیں لگ رہا تھا میں نے کتابیں بند کی اور پانی پینے کیلئے اٹھا۔۔۔ کولر جو دروازے کے پاس ہی پڑا تھا میں جب وہاں گیا تو میرے کانوں سے کچھ آشنا آشنا سی آوازیں ٹکرانے لگی میں نے سوچا چچا نے تو گیٹ پہ مجھے بتایا تھا کہ گھر میں کوئی نہیں ہے پھر یہ آوازیں کیسی جب میں نے کھڑکی سے جھانکا تو سامنے والے کمرے میں غفور چچا جو ان کے مالی تھے انہوں نے رخسانہ کی امی کو اپنی گود میں بٹھایا تھا غفور چچا جسم سے بہت پتلے تھے اور آنٹی کا جسم گوشت سے بھرا ہوا تھا جسم کا ہر حصہ ابھرا ہوا تھا تھن بھی نیچے لٹک رہے تھے پیٹ بھی ابھرا ہوا اور پیچھے کی گوشت کی تو بات ہی نہ کرو لیکن یہ سب میں کیا دیکھ رہا تھا مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا خیر میں نے ان کی باتوں میں دلچسپی لینا شروع کی کہ آخر یہ سب کیا ماجرا ہے آنٹی چچا سے کہہ رہی تھی کہ میری جان آج جتنا رومینس کر سکتے ہو جی بھر کے کرو آج میری دوسری بیٹی ثمرین بھی اٹلی سے آرہی ہے ایک مہینے کی چھٹی ہے اسکی پھر شاید کوئی موقع نہ ملے کیونکہ اگر ایک بیٹی گھر پر نہیں ہوگی تو دوسری تو ضرور ہوگی پھر پورے ایک مہینے کیلئے ہم ایک دوسرے کیلئے ترستے رہینگے چچا ایک ہاتھ سے اس کی ممے سہلاتا رہا اور اسکی باتیں بڑی غور سے سن رہا تھا غفور چچا نے بھی کہا کہ ہاں نہ میں تو تمہارے بغیر پاگل ہوجاوں گا روز جب پھول پودوں کو پانی دینے آوں گا تو اپنے پھول کو اپنے پاس پاکر بھی کچھ نہیں کر سکوں گا اور میں آپ کے بغیر ایک مہینہ کیسے رہ لوں گا کیونکہ 25 سال سے میں آپکے جسم کی نشے سے روز مسرور ہوتا آیا ہوں ان 25 سالوں میں کوئی ایک دن بھی ایسا نہیں گزرا جس میں تم نے مجھے اپنے باہوں کی خوشبووں میں سلایا نہ ہو اور تمہیں تو پتہ بھی ہے کہ یہ دو لڑکیاں بھی میری ہی بیٹیاں تمہارے شوہر جب بزنس ٹرپ سے آرہے تھے تو تم پریگنٹ ہوتی یہ تو شکر ہے کہ اس وقت آپکا پیٹ زیادہ نہیں نکلا ہوتا تو اسے شک بھی نہیں ہوتا تھا پھر جب وہ دوبارہ جاتے تو آپ ایک مہینے بعد پھر اسے بتاتی کہ آپ پریگننٹ ہوچکی ہے اور وہ میرے اولاد پہ خوش ہوتا ۔۔۔۔۔یہ سب میں کیا سن رہا تھا ثمرین اور رخسانہ بزنس ٹایکون تنویر کے بیٹیاں نہیں بلکہ اس کے گھر میں کام کرنے والے مالی یعنی غفور چچا کی محبت کی جیتی جاگتی نشانیاں تھیں یہ سن کے تو مجھے ایسا لگا جیسے میرے پیروں کے نیچے زمین گئی ہو ۔۔۔ آنٹی نے اسے کہا کہ جی جان یہ آپکی ہی آمانت ہے لیکن اس راز کا کسی کو پتہ نہیں چلنا چاہئے چچا اب فل موڈ میں تھا اس کا راڈ بھی کھڑا ہوگیا تھا کیونکہ اسی وقت آنٹی نے اپنی ٹانگیں تھوڑی اوپن کی تھی شاید راڈ کیلئے جگہ چھوڑی ہو میں نہیں جانتا تھا کہ غفورچچا کے راڈ کا سایز کتنا ہوگا لیکن اتنا تو جانتا تھا کہ اس راڈ میں تو ایسی کوئی خاصیت ہے جس نے جوان لڑکیوں کی ایک بنڈل امی کو اپنا دیوانہ بنایا تھا آنٹی نے کہا کہ میری جان اب یہ باتیں چھوڑ دو اور مجھے میرا فیورٹ راڈ دکھاو جس راڈ کیلئے کل سے میں تڑپ رہی ہوں قمیص تو پہلے دونوں نے اتارے ہوئے تھے دونوں کے جسم پر اس وقت صرف شلواریں ہی تھے چچا نے اس کی شلوار میں ہاتھ ڈالا تو آنٹی کوہاتھ ڈالنے سے ایک جھٹکا سا لگا جیسا کہ کسی نے بجلی سے کرنٹ دی ہو آنٹی اپنی دونوں ٹانگیں کھول کر پیچھے کی طرف جاگری غفور چچا بھی اٹھے اور اسے دونوں ٹانگوں سے پکڑ کر اسکی بلی بیڈ کے سایڈ تک لاکر اپنے راڈ کے برابر کر دی اور پھر اپنی شلوار شلوار اتار کر ایسے ہی آنٹی کے اوپر لیٹ گئے اففف کتنا بڑا تھا اس کا راڈ شاید 8 انچ یا 9 انچ کا ہوا ہوگا چچا اس کے اوپر لیٹ کر ایسے ہی جھٹکے دینے لگا اور اوپر اسے چھوم بھی رہا تھا آنٹی نے اپنی زبان نکالی تھی وہ اسے ایسے چوس رہا تھا جیسے شہر کے سب سے مشہور اور ایکسپرٹ گشتی اپنے کسی گاہک کا وہ چوس رہی ہو پھر چچا نے اپنی پوری زبان نکال کر اسکے چہرے پر گھمانے لگا آنٹی کا پورا چہرا چچا کے تھوک سے لت پت ہوچکا تھا پھر چچا نے اسکی شلوار اتاری شلوار اتارتے ہی آنٹی کی کالی بلی میرے سامنے آگئی مجھے اس وقت پکا یقین ہوگیا کہ کسی نے سچ کہا ہے کہ اگر کالی بلی راستہ کاٹ لیں تو پھر انسان کے ساتھ برا ہی ہوتا ہے آج میرے ساتھ بھی برا ہونے والا تھا خیر چھوڑے یہ سب ۔۔۔آنٹی کی بلی دیکھتے ہی میرے چودا طبق روشن ہوئے جتنا غفور چچا کا راڈ بڑا تھا اس سے زیادہ بڑی تو آنٹی کی بلی لگ رہی تھی جس کا منہ مسلسل اوپن کلوز ہورہا تھا اس کے ارد گرد والے زیر ناف بال بھی بلی کے پانی سے تر ہوچکے تھے میں نے ذہن میں ایک شرارت سوجھی کہ آنٹی کا ملنا تو ویسے بھی میرے بس کی بات نہیں ہے کیوں نہ میں انکی ویڈیو بنا کر پھر اپنے گھر جاکے ویڈیو دیکھتے دیکھتے اپنے ہاتھ سے خود کو تسکین پہنچا دوں میں نے جیسے ہی اپنے پینٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالا تو مجھے اندازہ ہوگیا کہ میرا راڈ بھی سخت ہوچکا تھا خیر میں آفسوس کے سوا کچھ نہ کرسکا اور موبایل نکال کر ویڈیو بنانے لگا اب میں انہیں موبایل کی سکرین سے دیکھ رہا تھا چچا نے اپنی انگلیوں کی مدد سے اس کی بلی کی منہ اوپن کی افففف کیا بلی تھی باہر سے کالی ڈراونی والی بلی اندر سے بلکل پنک کلر کی تھی ایسا گوشت تھا اس کی بلی کا کہ مجھ سے بھی رہا نہ گیا اور اپنی پینٹ کی زپ کھول کر اپنا شریف انکل بھی باہر نکال دیا مجھے لگا کہ غفور چچا اس کی بلی چاٹے گا لیکن اس نے تو بغیر چاٹے وہاں تھوک لگا کر اپنا راڈ بلی کی منہ پر رکھا اور ایک ظالم جھٹکے سے پورا کا اندر گھسا دیا اففففف آہ آہ آہ مرگئ امی جی امی جی وہاں آنٹی درد سے تڑپ رہی تھی اور ادھر میں جیلسی سے پانی پانی ہورہا تھا اب انکی باتیں ختم ہوچکی تھی اور نیچے ٹورنمنٹ سٹارٹ ہوا تھا چچا مسلسل جھٹکے دے رہا تھا اور آنٹی نے اپنے دونوں ہاتھوں سے بیڈ شیٹ مضبوطی سے پکڑ کر کھینچ رہی تھی غفور چچا ایسے جھٹکے دے رہا تھا جیسے یہ سالوں کا بھوکا ہو اس کی جگہ اگر میں ہوتا تو میں ایسا ہی کرتا کیونکہ آنٹی کے جسم کے اتار چھڑاو ہی ایسے تھے آنٹی کی دونوں ٹانگیں فل کھلیں تھی اور چچا اس پہ جھکے ہوئے پھر کچھ دیر بعد چچا اٹھ کے سیدھے ہوگئے اور اپنا لمبا راڈ کر اس پہ تھک کی لیپ لگا کر پھر اندر گھسا دیا اب بھی آنٹی کی ٹانگیں کھلیں تھی لیکن اس بار اس نے بینڈ کی تھی غفور چچا کے دونوں ہاتھ اس کے گھٹنوں پر تھے اور آنٹی کی آوازیں مسلسل نکل رہی تھی افمیں مر گئی میری جان میرے بلی سکون اور زور سے اور زور آہ آہ آہ آہ آہ امی جی امی جی۔۔۔۔۔ آنٹی کبھی اپنی آنکھیں بند کرکے اپنی نچلی ہونٹ کاٹتی اور کبھی منہ اور آنکھیں کھول کر غفور چچا کو ظلم اور ہوس بھری نظروں سے دیکھتی پھر جب غفور چچا تھک گئے تو آنٹی کے پاس جاکر اس کے ساتھ ہی لیٹ گئے آنٹی سیدھی لیٹی تھی اور غفور چچا ساتھ میں الٹا لیٹ کے اس کے ممے چوس رہے تھے آنٹی کا ایک ہاتھ اس کے سر پر تھا جو اسے مموں کی طرف کھینچ رہا تھا چچا انہیں ایسا چوس رہا تھا کہ جیسے بھوکا بچہ اپنا فیڈر چوس رہا ہو اور آنٹی کا دوسرا ہاتھ اس کی بلی پر تھا جس کے اندر آنٹی نے اپنی تینوں انگیاں دھکیل دی تھی اب چچا اٹھ کے اس کے بلی کے قریب گیا اور آنٹی کے کروٹ بدلنے میں ہیلپ کی مجھے تو چند سیکنڈز کیلئے ایسا لگا کہ اب انٹی کی پیچھے کی راہ کا نمبر ہے کیونکہ غفور اس کی پیچھے ہی دوزانوں بیٹھ گئے تھے لیکن ایسا نہ ہوا اور چچا نے پھر اس کی ایک ٹانگ اٹھا کر اپنے کاندھے پر رکھ دی اور اپنے راڈ کو پھر اس کی اصلی آرام گاہ پہ رکھ کر لطف آندوز ہونے لگا اُدھر ان کا ٹورنمنٹ جاری تھا اور اِدھر میں ایک پلیر اپنے ہی کھلاڑی کے ساتھ کھیل رہا تھا اس بار غفور چچا کے جھٹکے اتنے دمدار تھے کہ آنٹی کی ممے بھی اچھل رہے تھے اور ساتھ ہی پورا ڈبل بیڈ بھی ہل رہا تھا آنٹی کی آہ آہ آہ اف اف ظالم میں مر گئ کی آوازوں کے ساتھ بیڈ کی آوازیں بھی جو ان ظالم جھٹکوں کی وجہ سے نکل رہی تھی ان سب نے ملکر اس ماحول کو میرے لئے یادگار بنایا تھا اس پوزیشن میں خوب کاروائی کے ہوتے ہوئے بھی آنٹی کو سکون نہیں مل رہا تھا آنٹی نے کہا کہ میری جان اب بس بھی کرو مجھے گھوڑی کب بناوگے مجھے گھوڑی بننے میں بہت مزہ آتا ہے اور پھر غفور نے اپنا آیرن مین نکال کر اسے گھوڑی بنایا گھوڑی کی پوزیشن وہ اور س*ی*ک*سی لگ رہی تھی اس کی گھوڑی کی پوزیشن میں ، میں اسے دیکھ دیکھ کے تین دفعہ اپنے ہاتھ کی مدد سے فارغ ہوچکا تھا کیونکہ ایک تو گھوڑی کی پوزیشن میں وہ ویسی بھی بہت پیاری لگ رہی تھی اور دوسری طرف غفور کی دمدار جھٹکو سے اس کی تھن اچھل اچھل کر اسے اور دلکش اور محسور کن بنادیتی دس منٹس کی اس کھیل کھود کے جب غفور چچا فارغ ہوئے تو اپنا سارا پانی اس کے کمر پر ڈال کر اس سے اس کی ب*ن*ڈ پر مساج کرنے لگا مساج کے بعد غفور چچا نے اسے پھر سیدھا لیٹا دیا اور اس کی بلی میں اپنی انگلیاں ڈال کر سپیڈ سے اندر باہر کرنے لگا کہ اتنے میں آنٹی کا پھوارہ بھی پھوٹ پڑا اور غفور ظالم اس کے اوپر ہی لیٹ گئے ابھی پانچ منٹس ہوئے ہونگے اس کھیل کے ختم ہونے کے کہ اتنے میں رخسانہ کی کال آئی امی سے کہہ رہی تھی کہ وہ ادھے گھنٹے میں پہنچ جاینگے اگر کچھ چاہئے تو بتادیں آنٹی نے شہد لانے کو کہا اور کال کاٹ دی اب آنٹی اور غفور چچا دونوں جلدی جلدی اٹھے اپنے اپنے کھلاڑیوں کو صاف کرکے آگلے ٹورنامنٹ کا خواب اپنے آنکھوں میں لیکر بیڈ روم سے نکل گئے
2003 کی بات ہے جب ہم سردیوں کے چھٹیوں پہ گھر آگئے تو ابو نے میرے لئے سکینہ آنٹی کی بیٹی رخسانہ سے ٹیویشن کی بات کی میں ان دنوں ایف ایس سی کے امتحانات کی تیاری کر رہا تھا تو ابو نے کہا رخسانہ بیٹی بہت لایق اور ذہین بچی ہے وہ آپ کو ٹیویشن پڑھائے گی آپ اس سے اتنا سیکھو گے کہ کنکور ٹیسٹ بھی آسانی سے پاس کروگے (کنکور ٹیسٹ آفغانستان میں پشتو زبان میں ایڈمشن ٹیسٹ لی جاتی تھی ننگرہار میڈیکل یونیورسٹی اور دوسری یونیورسٹیوں کی ایڈمیشن کیلئے ) خیر ہوا بھی ایسا میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا اسے بیالوجی کیمیسٹری فزیکس ہر سبجیکٹ پر عبور حاصل تھی۔۔۔ خیر ایک دن جب میں ان کے گھر گیا تو گیٹ کیپر سے پتہ چلا کہ رخسانہ اپنی بہن کو ریسیو کرنے اسلام آباد ائیر پورٹ چلی گئی ہے اور پتہ نہیں کب تک آئیگی اس کی امی،، میڈم بھی شاید گھر پہ نہیں ہے تو میں نے اس سے کہا کہ جی ٹھیک ہے میں کچھ دیر اندر بیٹھ کے ویٹ کروں گا اگر وہ جلدی نہ آئی تو پھر میں بھی چلا جاوں گا. اس نے گیٹ کھولا اور مجھے اندر جانے کا اشارہ کیا جب میں اندر ڈراینگ میں چلا گیا اور بیٹھ کے اپنی بکس اوپن کی آج واقعی پڑھائی میں دل نہیں لگ رہا تھا میں نے کتابیں بند کی اور پانی پینے کیلئے اٹھا۔۔۔ کولر جو دروازے کے پاس ہی پڑا تھا میں جب وہاں گیا تو میرے کانوں سے کچھ آشنا آشنا سی آوازیں ٹکرانے لگی میں نے سوچا چچا نے تو گیٹ پہ مجھے بتایا تھا کہ گھر میں کوئی نہیں ہے پھر یہ آوازیں کیسی جب میں نے کھڑکی سے جھانکا تو سامنے والے کمرے میں غفور چچا جو ان کے مالی تھے انہوں نے رخسانہ کی امی کو اپنی گود میں بٹھایا تھا غفور چچا جسم سے بہت پتلے تھے اور آنٹی کا جسم گوشت سے بھرا ہوا تھا جسم کا ہر حصہ ابھرا ہوا تھا تھن بھی نیچے لٹک رہے تھے پیٹ بھی ابھرا ہوا اور پیچھے کی گوشت کی تو بات ہی نہ کرو لیکن یہ سب میں کیا دیکھ رہا تھا مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا خیر میں نے ان کی باتوں میں دلچسپی لینا شروع کی کہ آخر یہ سب کیا ماجرا ہے آنٹی چچا سے کہہ رہی تھی کہ میری جان آج جتنا رومینس کر سکتے ہو جی بھر کے کرو آج میری دوسری بیٹی ثمرین بھی اٹلی سے آرہی ہے ایک مہینے کی چھٹی ہے اسکی پھر شاید کوئی موقع نہ ملے کیونکہ اگر ایک بیٹی گھر پر نہیں ہوگی تو دوسری تو ضرور ہوگی پھر پورے ایک مہینے کیلئے ہم ایک دوسرے کیلئے ترستے رہینگے چچا ایک ہاتھ سے اس کی ممے سہلاتا رہا اور اسکی باتیں بڑی غور سے سن رہا تھا غفور چچا نے بھی کہا کہ ہاں نہ میں تو تمہارے بغیر پاگل ہوجاوں گا روز جب پھول پودوں کو پانی دینے آوں گا تو اپنے پھول کو اپنے پاس پاکر بھی کچھ نہیں کر سکوں گا اور میں آپ کے بغیر ایک مہینہ کیسے رہ لوں گا کیونکہ 25 سال سے میں آپکے جسم کی نشے سے روز مسرور ہوتا آیا ہوں ان 25 سالوں میں کوئی ایک دن بھی ایسا نہیں گزرا جس میں تم نے مجھے اپنے باہوں کی خوشبووں میں سلایا نہ ہو اور تمہیں تو پتہ بھی ہے کہ یہ دو لڑکیاں بھی میری ہی بیٹیاں تمہارے شوہر جب بزنس ٹرپ سے آرہے تھے تو تم پریگنٹ ہوتی یہ تو شکر ہے کہ اس وقت آپکا پیٹ زیادہ نہیں نکلا ہوتا تو اسے شک بھی نہیں ہوتا تھا پھر جب وہ دوبارہ جاتے تو آپ ایک مہینے بعد پھر اسے بتاتی کہ آپ پریگننٹ ہوچکی ہے اور وہ میرے اولاد پہ خوش ہوتا ۔۔۔۔۔یہ سب میں کیا سن رہا تھا ثمرین اور رخسانہ بزنس ٹایکون تنویر کے بیٹیاں نہیں بلکہ اس کے گھر میں کام کرنے والے مالی یعنی غفور چچا کی محبت کی جیتی جاگتی نشانیاں تھیں یہ سن کے تو مجھے ایسا لگا جیسے میرے پیروں کے نیچے زمین گئی ہو ۔۔۔ آنٹی نے اسے کہا کہ جی جان یہ آپکی ہی آمانت ہے لیکن اس راز کا کسی کو پتہ نہیں چلنا چاہئے چچا اب فل موڈ میں تھا اس کا راڈ بھی کھڑا ہوگیا تھا کیونکہ اسی وقت آنٹی نے اپنی ٹانگیں تھوڑی اوپن کی تھی شاید راڈ کیلئے جگہ چھوڑی ہو میں نہیں جانتا تھا کہ غفورچچا کے راڈ کا سایز کتنا ہوگا لیکن اتنا تو جانتا تھا کہ اس راڈ میں تو ایسی کوئی خاصیت ہے جس نے جوان لڑکیوں کی ایک بنڈل امی کو اپنا دیوانہ بنایا تھا آنٹی نے کہا کہ میری جان اب یہ باتیں چھوڑ دو اور مجھے میرا فیورٹ راڈ دکھاو جس راڈ کیلئے کل سے میں تڑپ رہی ہوں قمیص تو پہلے دونوں نے اتارے ہوئے تھے دونوں کے جسم پر اس وقت صرف شلواریں ہی تھے چچا نے اس کی شلوار میں ہاتھ ڈالا تو آنٹی کوہاتھ ڈالنے سے ایک جھٹکا سا لگا جیسا کہ کسی نے بجلی سے کرنٹ دی ہو آنٹی اپنی دونوں ٹانگیں کھول کر پیچھے کی طرف جاگری غفور چچا بھی اٹھے اور اسے دونوں ٹانگوں سے پکڑ کر اسکی بلی بیڈ کے سایڈ تک لاکر اپنے راڈ کے برابر کر دی اور پھر اپنی شلوار شلوار اتار کر ایسے ہی آنٹی کے اوپر لیٹ گئے اففف کتنا بڑا تھا اس کا راڈ شاید 8 انچ یا 9 انچ کا ہوا ہوگا چچا اس کے اوپر لیٹ کر ایسے ہی جھٹکے دینے لگا اور اوپر اسے چھوم بھی رہا تھا آنٹی نے اپنی زبان نکالی تھی وہ اسے ایسے چوس رہا تھا جیسے شہر کے سب سے مشہور اور ایکسپرٹ گشتی اپنے کسی گاہک کا وہ چوس رہی ہو پھر چچا نے اپنی پوری زبان نکال کر اسکے چہرے پر گھمانے لگا آنٹی کا پورا چہرا چچا کے تھوک سے لت پت ہوچکا تھا پھر چچا نے اسکی شلوار اتاری شلوار اتارتے ہی آنٹی کی کالی بلی میرے سامنے آگئی مجھے اس وقت پکا یقین ہوگیا کہ کسی نے سچ کہا ہے کہ اگر کالی بلی راستہ کاٹ لیں تو پھر انسان کے ساتھ برا ہی ہوتا ہے آج میرے ساتھ بھی برا ہونے والا تھا خیر چھوڑے یہ سب ۔۔۔آنٹی کی بلی دیکھتے ہی میرے چودا طبق روشن ہوئے جتنا غفور چچا کا راڈ بڑا تھا اس سے زیادہ بڑی تو آنٹی کی بلی لگ رہی تھی جس کا منہ مسلسل اوپن کلوز ہورہا تھا اس کے ارد گرد والے زیر ناف بال بھی بلی کے پانی سے تر ہوچکے تھے میں نے ذہن میں ایک شرارت سوجھی کہ آنٹی کا ملنا تو ویسے بھی میرے بس کی بات نہیں ہے کیوں نہ میں انکی ویڈیو بنا کر پھر اپنے گھر جاکے ویڈیو دیکھتے دیکھتے اپنے ہاتھ سے خود کو تسکین پہنچا دوں میں نے جیسے ہی اپنے پینٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالا تو مجھے اندازہ ہوگیا کہ میرا راڈ بھی سخت ہوچکا تھا خیر میں آفسوس کے سوا کچھ نہ کرسکا اور موبایل نکال کر ویڈیو بنانے لگا اب میں انہیں موبایل کی سکرین سے دیکھ رہا تھا چچا نے اپنی انگلیوں کی مدد سے اس کی بلی کی منہ اوپن کی افففف کیا بلی تھی باہر سے کالی ڈراونی والی بلی اندر سے بلکل پنک کلر کی تھی ایسا گوشت تھا اس کی بلی کا کہ مجھ سے بھی رہا نہ گیا اور اپنی پینٹ کی زپ کھول کر اپنا شریف انکل بھی باہر نکال دیا مجھے لگا کہ غفور چچا اس کی بلی چاٹے گا لیکن اس نے تو بغیر چاٹے وہاں تھوک لگا کر اپنا راڈ بلی کی منہ پر رکھا اور ایک ظالم جھٹکے سے پورا کا اندر گھسا دیا اففففف آہ آہ آہ مرگئ امی جی امی جی وہاں آنٹی درد سے تڑپ رہی تھی اور ادھر میں جیلسی سے پانی پانی ہورہا تھا اب انکی باتیں ختم ہوچکی تھی اور نیچے ٹورنمنٹ سٹارٹ ہوا تھا چچا مسلسل جھٹکے دے رہا تھا اور آنٹی نے اپنے دونوں ہاتھوں سے بیڈ شیٹ مضبوطی سے پکڑ کر کھینچ رہی تھی غفور چچا ایسے جھٹکے دے رہا تھا جیسے یہ سالوں کا بھوکا ہو اس کی جگہ اگر میں ہوتا تو میں ایسا ہی کرتا کیونکہ آنٹی کے جسم کے اتار چھڑاو ہی ایسے تھے آنٹی کی دونوں ٹانگیں فل کھلیں تھی اور چچا اس پہ جھکے ہوئے پھر کچھ دیر بعد چچا اٹھ کے سیدھے ہوگئے اور اپنا لمبا راڈ کر اس پہ تھک کی لیپ لگا کر پھر اندر گھسا دیا اب بھی آنٹی کی ٹانگیں کھلیں تھی لیکن اس بار اس نے بینڈ کی تھی غفور چچا کے دونوں ہاتھ اس کے گھٹنوں پر تھے اور آنٹی کی آوازیں مسلسل نکل رہی تھی افمیں مر گئی میری جان میرے بلی سکون اور زور سے اور زور آہ آہ آہ آہ آہ امی جی امی جی۔۔۔۔۔ آنٹی کبھی اپنی آنکھیں بند کرکے اپنی نچلی ہونٹ کاٹتی اور کبھی منہ اور آنکھیں کھول کر غفور چچا کو ظلم اور ہوس بھری نظروں سے دیکھتی پھر جب غفور چچا تھک گئے تو آنٹی کے پاس جاکر اس کے ساتھ ہی لیٹ گئے آنٹی سیدھی لیٹی تھی اور غفور چچا ساتھ میں الٹا لیٹ کے اس کے ممے چوس رہے تھے آنٹی کا ایک ہاتھ اس کے سر پر تھا جو اسے مموں کی طرف کھینچ رہا تھا چچا انہیں ایسا چوس رہا تھا کہ جیسے بھوکا بچہ اپنا فیڈر چوس رہا ہو اور آنٹی کا دوسرا ہاتھ اس کی بلی پر تھا جس کے اندر آنٹی نے اپنی تینوں انگیاں دھکیل دی تھی اب چچا اٹھ کے اس کے بلی کے قریب گیا اور آنٹی کے کروٹ بدلنے میں ہیلپ کی مجھے تو چند سیکنڈز کیلئے ایسا لگا کہ اب انٹی کی پیچھے کی راہ کا نمبر ہے کیونکہ غفور اس کی پیچھے ہی دوزانوں بیٹھ گئے تھے لیکن ایسا نہ ہوا اور چچا نے پھر اس کی ایک ٹانگ اٹھا کر اپنے کاندھے پر رکھ دی اور اپنے راڈ کو پھر اس کی اصلی آرام گاہ پہ رکھ کر لطف آندوز ہونے لگا اُدھر ان کا ٹورنمنٹ جاری تھا اور اِدھر میں ایک پلیر اپنے ہی کھلاڑی کے ساتھ کھیل رہا تھا اس بار غفور چچا کے جھٹکے اتنے دمدار تھے کہ آنٹی کی ممے بھی اچھل رہے تھے اور ساتھ ہی پورا ڈبل بیڈ بھی ہل رہا تھا آنٹی کی آہ آہ آہ اف اف ظالم میں مر گئ کی آوازوں کے ساتھ بیڈ کی آوازیں بھی جو ان ظالم جھٹکوں کی وجہ سے نکل رہی تھی ان سب نے ملکر اس ماحول کو میرے لئے یادگار بنایا تھا اس پوزیشن میں خوب کاروائی کے ہوتے ہوئے بھی آنٹی کو سکون نہیں مل رہا تھا آنٹی نے کہا کہ میری جان اب بس بھی کرو مجھے گھوڑی کب بناوگے مجھے گھوڑی بننے میں بہت مزہ آتا ہے اور پھر غفور نے اپنا آیرن مین نکال کر اسے گھوڑی بنایا گھوڑی کی پوزیشن وہ اور س*ی*ک*سی لگ رہی تھی اس کی گھوڑی کی پوزیشن میں ، میں اسے دیکھ دیکھ کے تین دفعہ اپنے ہاتھ کی مدد سے فارغ ہوچکا تھا کیونکہ ایک تو گھوڑی کی پوزیشن میں وہ ویسی بھی بہت پیاری لگ رہی تھی اور دوسری طرف غفور کی دمدار جھٹکو سے اس کی تھن اچھل اچھل کر اسے اور دلکش اور محسور کن بنادیتی دس منٹس کی اس کھیل کھود کے جب غفور چچا فارغ ہوئے تو اپنا سارا پانی اس کے کمر پر ڈال کر اس سے اس کی ب*ن*ڈ پر مساج کرنے لگا مساج کے بعد غفور چچا نے اسے پھر سیدھا لیٹا دیا اور اس کی بلی میں اپنی انگلیاں ڈال کر سپیڈ سے اندر باہر کرنے لگا کہ اتنے میں آنٹی کا پھوارہ بھی پھوٹ پڑا اور غفور ظالم اس کے اوپر ہی لیٹ گئے ابھی پانچ منٹس ہوئے ہونگے اس کھیل کے ختم ہونے کے کہ اتنے میں رخسانہ کی کال آئی امی سے کہہ رہی تھی کہ وہ ادھے گھنٹے میں پہنچ جاینگے اگر کچھ چاہئے تو بتادیں آنٹی نے شہد لانے کو کہا اور کال کاٹ دی اب آنٹی اور غفور چچا دونوں جلدی جلدی اٹھے اپنے اپنے کھلاڑیوں کو صاف کرکے آگلے ٹورنامنٹ کا خواب اپنے آنکھوں میں لیکر بیڈ روم سے نکل گئ.